Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پائلٹ

MORE BYرضیہ فصیح احمد

    ’’باجی، باجی۔۔۔ باجی دیکھیے۔‘‘

    اس نے مانو کو نظرانداز کرکے اوپر سے آنے والی زیادہ پرشور آواز کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ ہری پٹی اور سفید جسم والا ہوائی جہاز بہت نیچے، بہت ہی نیچے گویا ان کے سروں پر سے اڑتا چلا جارہا تھا۔ اس کی رفتار سست تھی مگر نیچا ہونے کی وجہ سے گھن گرج بہت تھی۔ وہ بڑے وقار سے آہستہ آہستہ گزرا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سیدھا سامنے والے پہاڑ سے جاکر ٹکراجائے گا۔ اور جب ذرا نزدیک پہنچا تو بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے وہ پہاڑی پر بنے ہوئے سفید اور سبز رنگوں والے مکان کے دروازے میں گھستا چلا جائے گا لیکن جب وہ گزرا تو وہ منہ پھاڑے دیکھتی رہ گئی۔ جہاز پہاڑ کے بلند ترین درختوں کی بلند ترین چوٹیوں سے بھی اوپر گزر گیا تھا۔

    اس کے غائب ہوجانے کے بعد وہ دفعتاً دل پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئی، ’’واحد۔۔۔! یہ ضرور واحد ہوگا۔‘‘

    نجمہ نے لکھا تو تھا، ’’واحد پائلٹ ہوگیا ہے۔ اس کی روٹ۔۔۔ سے۔۔۔ تک ہے۔ تمہاری طرف سے تو اس کا جہاز جاتا ہوگا۔‘‘ ہاں اسے معلوم تھا کہ اس روٹ کاجہاز اسی طرف سے جاتا ضرور ہے۔ اس نے اکثر باہر بیٹھے ہوئے جہاز گزرتے دیکھے تھے مگر وہ سب یہاں سے بہت دور وادی کے بیچوں بیچ پہاڑی کے پس منظر میں سفید کپڑوں کی طرح چلتے نظر آتے تھے مگر یہ تو عین اس کے سر پر سے گزرا تھا۔ واحد کو زیادہ سے زیادہ ان کا علاقہ ہی معلوم ہوگا مگر یہ کیسا اتفاق تھا کہ وہ بالکل اس کے گھر کے اوپر سے گزرا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ اس وقت دوربین لگائے دیکھ رہا ہو اور اس نے مجھے اوپر کی طرف نظریں اٹھائے دیکھ لیا ہو۔

    وہ سارا دن بڑی بشاش رہی۔ بار بار کسی انجانی خوشی کا نغمہ انجانے پن ہی میں اس کے ہونٹوں پر تیرجاتا۔ رات کو سونے سے پہلے چپکے سے اپنے کمرے میں لگے ہوئے کلینڈر میں آج کے دن پر سرخ نشان کھینچا اور بستر پر لیٹ کر جہاز کی مدھر خیالی آواز سنتی رہی۔

    کلینڈر پر لگائے ہوئے سرخ نشان والے دن کے انتظار میں وہ ابھی پوری طرح کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ ایک دن اچانک وہی جہاز بالکل اسی طرح، اوپر سے گزرا۔ وہ گھر کے اندر بیٹھی تھی۔ آواز سنتے ہی وہ لپک کر باہر آئی اور غیرشعوری طو رپر زور زور سے ہاتھ ہلانے لگی۔ مانو اور رانی پہلے سے یہی کر رہے تھے، اس لیے انہوں نے اس کی اس حرکت کو محسوس نہیں کیا۔ جب جہاز اس پہاڑی کو بالکل اسی خواب ناک انداز میں پارکر گیا تو وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ سی ہوگئی مگر دل میں مسرت کی ہلکی سی لہر بھی تھی۔ کیا معلوم واحد نے دیکھ ہی لیا ہو۔۔۔!

    باقی دن بھر ہوائی جہاز کی مدھر گھر گھر اس کے حواسوں پر جل ترنگ سا بجاتی رہی۔ ہائے اللہ! بالکل ہمارے گھر پر سے۔۔۔! کیا کسی دن ایسا بھی ہوگا کہ واحد کوئی لفافہ جس کے اندر اس کی تصویر ہوگی، یا گلاب کے پھولوں کا گلدستہ یا کوئی رومال اوپر سے پھینک دے گا، جس پر ’’ڈبلیو‘‘ کڑھا ہوگا۔ اگرایسا ہو تو کتنا اچھا ہے۔ اور جب اس کا اس خیال کی خوبصورتی سے دل بھر گیا تو اس کے مضحکہ خیز پہلو بھی سامنے آنے لگے۔ اتنی بلندی سے لفافہ اور رومال نہ جانے کہاں جاپہنچے گااور پھولوں کی ہڈیاں پسلیاں تک چور چور ہو جائیں گی اور پھر وہ کیسے کرسکتا ہے جب کہ اس کے اور ہمارے گھر خاندانی لڑائی ہے۔ نجمہ بھی تو مہینے دو مہینے میں کسی اور سہیلی کے پتے پر میرے نام ایک خط بجھوادیتی ہے۔ تو کیا میں صرف اس جہاز کو تکتی رہوں گی، خود اسے کبھی نہ دیکھ سکوں گی۔۔۔ نہیں وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا۔

    کیا یہ اس کے خلوص کی نشانی نہیں تھی کہ جس گھر کا صحن اس کے قدموں پر حرام تھا، اس گھر کی فضا کو اس نے اپنے اوپر حلال کرلیا تھا۔ کاش یہ بڑے دلوں کے اخلاص کو سمجھ لیتے۔ اور پھر وہ سوچ کر پریشان ہوتی رہی کہ وہ امی اور ابا کو کس طرح بتائے کہ یہ واحد ہے جو ہر ہفتے اپنی موجودگی کا احساس دلانے، اپنی حیثیت منوانے، خوشامد کے طور پر اس گھر کا طواف کرنے آتا ہے تاکہ جب وقت آئے تو اس کے ابا امی اس کی وفاؤں کو یاد رکھیں اور انکار نہ کردیں۔ واحد کا یہ اصرار، یہ طواف کتنا بلند تھا، اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا، اس کو نوکروں کے ذریعے گھر سے نہیں نکلوایا جاسکتا تھا۔ اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ گھر والے گھر پر نہیں ہیں! وہ آتا تھا ’’اور مجھے یاد رکھنا۔‘‘ کہتا ہوا سر سے گزرجاتا تھا اور وہ اسے یاد رکھتی۔ اس سہانی آواز کے انتظار میں جیتی تھی جس کا کوئی دن کوئی وقت مقرر نہیں تھا مگر جو ہفتے میں ایک بار ضرور سنائی دیتی تھی۔ وہ پورا جہاز اور اس جہاز کا ایک ایک حصہ تصویر کی طرح اس کی نظروں میں سماگیا تھا۔ یہاں تک کہ جہاز کے شناختی نشان بھی اکثر تنہائی میں اس کی آنکھوں کے سامنے تیراکرتے۔

    اور آخر ایک دن یہ راز اس کی برداشت سے باہر ہوگیا۔ جب وہ جہاز بردباری، بلند آہنگی سے سرپر سے گزرگیا تو اس نے جھک کر مانو کے کان میں کہا، ’’جانتے ہو اس جہاز میں کون ہے؟‘‘

    ’’ہاں آدمی۔۔۔‘‘ مانو نے پاگل پن سے کہا۔

    ’’آدمی نہیں واحد۔۔۔ واحد بھائی تمہارے، جو لاہور میں رہتے تھے نا ہمارے گھر کے پاس۔۔۔ شام کو سفید پتلون قمیض پہن کر ٹینس کھیلنے جایا کرتے تھے۔ بڑے بڑے کالے کالے بال تھے جن کے گردن تک اور بڑی بڑی کالی کالی آنکھیں تھیں جن کی۔‘‘

    ’’ہاں جو ہمیں ٹافی دیتے تھے کبھی کبھی۔۔۔‘‘ مانو کو یاد آیا۔

    ’’وہی وہی۔۔۔ وہ ہوتے ہیں اس جہاز میں۔‘‘

    ’’اچھا۔ وہ کیا کر رہے ہیں اس جہاز میں۔‘‘

    ’’اسے چلا رہے ہیں۔‘‘

    ’’ہیں! باجی وہ اسے چلا رہے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ اس دن مانو کو اپنے راز میں شریک کرکے وہ بے حد خوش تھی۔ اس کا دل چاہا وہ یہ بھی اگل دے، ’’وہ میری ہی خاطر ادھر سے گزرتے ہیں۔‘‘ اتنے نیچے، بڑے ہمت والے ہیں وہ۔ میں نجمہ کو لکھوں گی، ’’واحد سے کہنا اتنے نیچے جہاز نہ لایا کریں۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ پھر وہ خیالات کے ر یلے میں بہنے لگی۔ اگر جہاز اوپر سے گزرا تو اسے آواز کس طرح آئے گی، اسے کیسے پتہ چلے گا کہ واحد آیا تھا۔ اگر واحد نے اسے باہر کھڑا نہ دیکھا تو اسے افسوس ہوگا۔ کچھ بھی ہو ضرور لکھے گی کہ واحد سے کہنا اتنے نیچے جہاز نہ لایا کریں۔ نجمہ یہ جملہ واحد کو سنائے گی۔ وہ مسکرائے گا۔ آنکھوں کی جوت بڑھ جائے گی، پھر وہ بال پیچھے پھینک کر سیٹی سی بجائے گا اور اگلی فعہ۔۔۔ اگلی دفعہ شاید اس کا جہاز اس سے بھی نیچے اترے گا، اس سے بھی نیچے۔

    کئی دن سے موسم یکایک خراب ہوجاتا تھا۔ مغرب کی طرف ایکا ایکی گہرے گہرے بادل اٹھتے او رگھٹاٹوپ ہوجاتا۔ پھر ان میں سے نیلے نیلے رنگ کی خوفناک سی بجلی چمکتی جو شیشوں والے کمرے سے ہوتی ہوئی اندر تک در آتی اور اس کے بعد اتنے زور کی کڑک کہ دل لرز کر رہ جاتا۔ کچھ دیر یہ تماشا ہوتا اور پھریکایک بوندیں پڑے بغیر ہی اولے گرنے شروع ہوجاتے۔ دھڑ دھڑا دھڑ۔ اولوں کے ساتھ بجلی کی چمک اور بادل کی گرج کا خوف کئی گنا بڑھ جاتا۔ آج اس قسم کے موسم کو یہ چوتھا دن تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے خاصی دھوپ تھی۔ مانو اور رانی دونوں بچے امی سے پوچھ کر سیر کے لیے چلے گئے۔ یکایک موسم خراب ہو گیا تو امی اور ان کے تسلی کے لیے ابا بھی برآمدے میں آکھڑے ہوئے۔ بجلی کے ڈر کے باوجود وہ ذراآگے آکر پگڈنڈی پر مانو اور رانی کو دیکھنے گلاب کی باڑھ پر جھک گئی۔ دفعتاً وہی جانی پہچانی آواز آئی۔ اس نے گھبراکر اوپر دیکھا، ہری پٹی اور سفید جسم والا ہوئی جہاز اسی متانت اور وقار سے چلا آرہا تھا۔ مشرق کی طرف سے پہلے سے بھی نیچے جیسے مغرب کی طرف سے اٹھتے ہوئے دھواں دھار بادلوں کو چیلنج کر رہا ہو۔

    ’’جانے کون پگلا ہے، اس موسم میں اتنے نیچے جارہا ہے۔‘‘ امی مانو اور رانی کو بھول کر اپنے اوپر دیکھنے لگیں۔ وہ تو پہلے سے ہی اوپر دیکھ رہی تھی، اس کا ایک ہاتھ تھورا سا اوپر اٹھا ہوا تھا جیسے وہ اس موسم میں اتنے نیچے آجانے پر احتجاج کر رہی ہو۔ ابا بھی ادھر ہی دیکھ رہے تھے، ہمیشہ کی طرح گھر میں گھستے گھستے جیسے وہ ارادہ بدل کر اوپر سے گزر گیا اور پہاڑ کے پیچھے نظروں سے اوجھل ہوگیا اور پھر ایک زور کا کڑاکا ہوا۔

    ’’اللہ رحم!‘‘ امی نے دونوں ہاتھوں سے کان بند کرلیے، ’’کتنے زور کی کڑک ہے۔‘‘

    ’’یہ کڑک نہیں دھماکا بھی ہے۔ جہاز کریش ہوگیا وہ دھواں دیکھ رہی ہو۔‘‘

    اس لمحے بالکل اسی لمحے موٹے موٹے اولے برسنے لگے۔ نہیں معلوم اس نے ابا اور امی کے ان جملوں کا کتناحصہ سنا، ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے تیز برچھے کی انی اس کے سینے میں اتاردی ہو۔ وہ جھونک کھاکر گری اور بے ہوش ہوگئی۔ پورے طور پر ہوش میں آنے سے پہلے اس کے کانوں میں کسی کے باتیں کرنے کی آواز آئی، ’’دل کی بہت کمزور ہے، ادھر بجلی کڑکی، ادھر جہاز کا دھماکا ہوا، بس یہ غش کھاکر گرپڑی، بارہ گھنٹے سے بے ہوش ہے۔‘‘

    اور اس وقت پورے ہوش میں آکر جیسے کسی نے برچھے کی انی دوبارہ اس کے دل میں پیوست کردی تو جہاز کا کریش محض واہمہ نہ تھا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ باتیں کرنے والے شاید برآمدے میں تھے، کمرہ خالی تھا۔ اس نے کروٹ بدلی، مانو اخبار ہاتھ میں لیے سامنے سے گزرتا گزرتا اس کو ہوش میں دیکھ کر اندر آگیا۔

    ’’باجی، باجی دیکھیے کل کے کریش کی تصویر اس میں آئی۔ پائلٹ کی تصویر بھی ہے اور اس کے بیوی بچوں کی بھی۔۔۔!‘‘

    ’’بیوی بچوں کی۔۔۔‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، یہ کل کے کریش کی تصویر تھی۔ جہاز پہاڑیوں میں گرا ہوا زمین پر ڈھیر کی شکل میں پڑا تھا۔ پائلٹ کی تصویر بھی تھی، ایک چھ فٹے قد آور جوان کی تصویر جس کے چھوٹے چھوٹے بال تھے اور جو بیوی اور دو بچیوں کے ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ حادثے کی خبر میں لکھاتھا۔۔۔ پائلٹ کی بیوی کا گھر حادثے کی جگہ سے صرف چند فرلانگ دور تھا۔

    اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ وہ واحد نہیں تھا۔ اس کا دل چاہا اسی وقت اٹھ کر وضو کرے اور سجدہ شکر بجالائے کہ وہ واحد نہیں تھا۔ مگر اس وقت برچھے کی انی پھر اس کے دل میں چبھی۔

    تو وہ واحد نہ تھا جو ہر ہفتے ان کے گھر کے اوپر سے گزرا کرتا تھا۔ وہ کوئی اور تھا۔ وہ کوئی اور کیوں تھا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے