Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پولیس کی دعوت

کلکی کرشناکرتھی

پولیس کی دعوت

کلکی کرشناکرتھی

MORE BYکلکی کرشناکرتھی

    ’’چھی، چھی، کیا زمانہ آ لگا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر چیز الٹی ہو گئی ہے۔‘‘ کنداسامی بڑبڑایا۔ کیا ایا۔ اگر کوئی دو پوریاں اور ایک پیالہ کافی بھی اپنے لیے نہ جٹا سکے تو ایسی دنیا کو کیا کہیں گے۔ اس نے گویا خود سے سوال کیا اور پھر ایک زوردار آواز میں تھوک کر اپنے سوال کا جواب بھی دے ڈالا۔۔۔ تھو!

    اس وقت کنداسامی کی مالی حالت قابل رحم تھی۔ اس نے اپنا والٹ کھولا۔ اس میں چوتھائی آنے کے تین سکے تھے۔ اس نے ان سب کو نکالا۔ ایک ایک کرکے تینوں کو غور سے دیکھا اور دل میں سوچاکہ ان میں سے صرف ایک سکہ بھی اگر اٹھنی میں تبدیل ہو جائے تو کیا مزا آئے۔ چوتھائی آنہ، ادھنا، تین چوتھائی آنہ۔ اس نے انھیں تین مختلف سر لگاکر گنا اور اٹھاکر سڑک پر پھینک دیا۔ کچھ قدم آگے چل کر وہ مڑا اور کچھ سوچ کر سکے اٹھا لیے۔

    کنداسامی اتنی خستہ حالت میں کبھی نہیں ہوتا تھا۔ اگر پیسے کمانے کا ایک گر کامیاب نہ ہوتا تو وہ کوئی دوسری تدبیر اختیار کر لیتا تھا۔ ہمارے وزیر مالیات ہمیشہ چکرائے ہوئے رہا کرتے تھے کہ اگر ٹیکس کم کیا گیا تو ملکی معیشت کا کیا ہوگا۔ اگر وہ کنداسامی کو بلالیں، اسے بس دو پوریاں اور ایک کپ کافی دے دیں، دیکھیں پھر سارے مسئلے کیسے حل ہو جائیں گے۔

    مسئلہ دراصل یہ تھاکہ کنداسامی کے دماغ اور معدے کے درمیان بہت گہرا رشتہ تھا۔ اگر آپ اس سے کسی مالی مسئلے کے بارے میں اسی وقت مشورہ کریں جب وہ ایک کپ کافی معدے میں اتار چکا ہو تو آپ کا مسئلہ چٹکیوں میں حل کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر کافی نہ ملی ہو تو اس کا دماغ بغاوت پر آمادہ ہو جائےگا۔

    اس دن صبح سویرے وہ بغیر اپنی مالی حالت کا اندازہ لگائے ایک سیلون میں جا پہنچا تھا۔ بال کٹوانے کے بعد جب اس نے اپنا پرس کھولا تو دیکھا کہ اس میں کل چھ اور تین چوتھائی آنے کی رقم ہے یعنی پونے سات آنے۔ وہ ہیئر کٹنگ سیلون کا قرض نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ یہ بڑی بے عزتی کی بات ہوتی۔ دوسرے یہ کہ وہ اس دوکان میں مفت آئینہ دیکھ کر بال سنوارنے اور چھوٹے موٹے کام کرانے آتا بھی رہتاتھا، اس لیے باقاعدہ حجامت کے پیسے ادھار نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے حجام کو اس کی اجرت کے چھ آنے ادا کر دیے اور باقی رقم یعنی تین چوتھائی آنہ لے کر باہر آ گیا۔

    حال میں اپنی مالی حالت درست کرنے کے لیے اس نے لوگوں کے ہاتھ دیکھنے کا دھندا اختیار کیا تھا۔ شمالی ہندوستان کے کسی شخص کی پامسٹری پر لکھی ہوئی ایک کتاب اس کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ مصنف کو کئی بڑے آدمیوں سے سرٹیفکیٹ ملے ہوئے تھے جن سے اس کے تجربے اور مہارت کا اندازہ ہوتا تھا۔ کنداسامی نے اس کے بتائے ہوئے اصول دماغ میں اتار لیے۔ ان کی مدد سے کوئی چھ مہینے بہت آرام سے گزر گئے۔ اس وقت اس کی اچھی کمائی ہو گئی۔ اگر وہ چاہتا تو کچھ بچت بھی کرسکتا تھا۔ لیکن پیسہ بچانے میں اس کا بالکل بھی یقین نہیں تھا۔ ’’وہ‘‘ جس نے درخت اگایا ہے وہ اسے پانی بھی دے گا۔ پیسہ بچانے کا جھنجھٹ مول لینے کی کیا ضرورت ہے۔ آج کے لیے معقول رقم موجود تو کل کی کیا فکر۔

    یہاں آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ کنداسامی نے پامسٹری جیسا منافع بخش کام چھوڑ کیوں دیا۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ کسی بھی پیشے میں زیادہ دن خود ہی نہیں ٹکتا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کافی دن تک اس کے ذریعے پیسہ کمانے کے بعد جب وہ اسے چھوڑنے کے سرے پر آن پہنچا تھا، ایک واقعہ بھی ہو گیا۔ اس کی وجہ سے اس کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوگئی کہ وہ دنیا سے سنیاس لینے کا پختہ ارادہ کر بیٹھا۔ وہ سیدھا پیرانند مٹھ پہنچا۔ لیکن وہاں کے چیف سنیاسی نے کہاکہ ان لوگوں کے یہاں کافی چیلے موجود ہیں اور کسی نئے شخص کو مٹھ میں لے کر اس کے لیے زعفرانی چغے وغیرہ کا انتظام کرنے کے لیے مٹھ کے پاس وافر مقدار میں پیسہ نہیں ہے۔ کنداسامی اپنے ارادے سے باز آ گیا۔ چھی! سب فضول۔ جہاں جاؤ وہیں یہ کم بخت پیسوں کا رونا۔

    جس واقعے نے کنداسامی کو مذکورہ بالا ارادے کی طرف مائل کیا تھا وہ کچھ یوں تھا: لوگوں کے ہاتھ دیکھتے دیکھتے وہ اس نتیجے پر پہنچا تھاکہ بڑا آدمی ہو یا چھوٹا اگر آپ اسے عشقیہ یا ازدواجی زندگی کے متعلق کچھ اچھی باتیں بتائیں تو وہ بڑا خوش ہوتا ہے۔ اس لیے وہ پہلے اس کی عمر اور مالی حالت کا اندازہ لگاتا۔ کوئی کم عمر بندہ ہوتا تو وہ کہتا سار، آپ کی اب تک شادی ہو جانی چاہیے تھی، اگر ابھی تک نہیں ہوئی ہے تو بس اب جلد ہی ہو جائےگی۔ (تامل بولنے والے عوام ’’سر‘‘ کی جگہ ’’سار‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ )

    عموماً یہ سن کر اس شخص کا چہرہ کھِل اٹھتا تھا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ یا وہ قدرے جھجکتے ہوئے کسی شخص کو بتاتا، ’’آپ غلط نہ سمجھیں میں ایسا کہہ رہا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ کے ہاتھ میں دو بیویوں کی لکیر ہے۔‘‘ فوراً اس شخص کے چہرے پر مسکراہٹ کی لکیر نمودار ہو جاتی۔ کبھی کسی شخص کے لباس، رکھ رکھاؤ اور اسٹائل کو نظر میں رکھ کر کہتا، سار، ایک تو آپ کی قانونی طریقے سے بیاہی ہوئی بیوی ہوگی لیکن دو ’’پرائیویٹ‘‘ دکھائی دے رہی ہیں۔ مجھ سے ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کے ہاتھ کی لکیریں یہی کہہ رہی ہیں۔ فوراً اس شخص کے منھ کے سارے دانت نمودار ہو جاتے۔ اس طرح کے لوگوں سے وہ ایک روپے سے کم نہیں لیتا تھا۔

    کسی کسی سے کہتا، ’’تمہاری بیوی کے قدم بڑے مبارک ہوں گے۔ وہ جہاں پڑیں گے ہر کام آسانی سے ہوگا اور بہت پھلے پھولےگا۔ لیکن تم اسے زیادہ نہیں چاہوگے۔‘‘ اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کرکے وہ ایک چمک دار سکہ اینٹھ ہی لیتا خواہ اس کا گاہک کتنا ہی کنجوس کیوں نہ ہو۔

    لیکن ایک مرتبہ اس کی یہ چال ناکام ہو گئی۔ ایک شخص نے اپنا ہاتھ دکھایا پھر اپنی بیوی کا ہاتھ بھی سامنے کر دیا۔ کنداسامی کو اس وقت خیال ہی نہیں رہاکہ وہ کیا بول رہا ہے۔ لاشعوری طورپر اس نے کہنا شروع کیا، اما آپ کا ایک تو قانونی طورپر بیاہا ہوا شوہر ہوگا لیکن دو ایک ’’پرائیویٹ‘‘ بھی ہوں گے۔ اتنا کافی تھا۔ عورت بالکل چنڈی کا روپ بن گئی۔ ’’آگ لگے تجھے، سانپ ڈسے۔‘‘ اور وہ شوہر کی طرف بھی پلٹ پڑی، ’’اسی احمق نے ہاتھ دکھانے کا شوشہ چھوڑا تھا۔‘‘ خوب رولا مچا۔ اس شخص نے کنداسامی کو پیٹ کر رکھ دیا۔ (دکن کے بیشتر علاقوں میں عورتوں کو احترام یا شفقت یا دونوں کے تحت ’’امّا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، اس میں عمر کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔)

    اس دن کنداسامی اچھا پھنسا تھا۔ اس کی پیٹھ پر اتنے دھموکے پڑے کہ سوجن آ گئی۔ اسے اسی شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ بیان دے کہ وہ ان لوگوں کے گھر سے ایک چاندی کا برتن چرانے کی کوشش کرتا پکڑا گیا تھا اور بڑی عاجزی سے معافی مانگ کر چھوٹا ہے۔ اب یہ پرانی کہانی ہے۔ اس دن اس نے عہد کیاکہ وہ پامسٹری کے قریب بھی نہیں پھٹکےگا۔ یہی وجہ تھی کہ آج وہ جیب میں صرف تین چوتھائی آنے کی رقم لے کر گھوم رہا تھا۔

    سڑک کے کنارے ایک اندھا فقیر اپنے سامنے پرانا کپڑا بچھائے بیٹھا تھا۔ اس پر ایک ایک آنے کا سکہ تھا اور دو چوتھائی آنے کے سکے۔ کنداسامی کے ہاتھوں میں اِکنّی اٹھا لینے کے لیے کھجلی ہونے لگی۔ اس نے اپنے پرس سے ایک چوتھائی آنے کا سکہ نکالا تاکہ وہ اسے فقیر کے کپڑے پر ڈالنے کا بہانہ کرتے ہوئے وہاں سے اکنی اٹھالے۔ لیکن تبھی اس کے ذہن میں کچھ شک گزرا اور اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ اس نے دیکھاکہ سڑک کے ایک کونے سے ایک پولیس والا اس کی طرف غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس نے وہ چوتھائی آنے کا سکہ فقیر کے کپڑے پر ڈال دیا اور وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ کچھ آگے بڑھ کر اس نے زور سے تھوکا۔۔۔ تھو! گویا اپنا سارا غصہ اپنے اندر سے نکال رہا ہو۔

    ایک اندھے فقیر کے پاس تک پونے دو آنے کی رقم تھی۔ اس کا غصہ اور بڑھ گیا جب اس نے حساب لگایا کہ اب اس کے پاس آنے کی چوتھائی کے صرف دو سکے باقی ہیں۔ اسے ڈر لگا کہ کہیں یہ رقم بھی خطرے میں نہ پڑ جائے اس لیے وہ سابو چائے کی دوکان کی طرف بڑھ گیا اور ایک پیالی چائے خریدی۔ ابھی چائے کی نصف مقدار ہی حلق سے اتری تھی کہ اس کا ذہن کام کرنے لگا۔ چائے ختم ہوتے ہوتے اس نے کچھ سوچ لیا۔ ’’شاباش! یہی تو ہے جسے میں کام کہتا ہوں اور تبھی تو چائے کی تعریف میں اتنے اشتہار آتے رہتے ہیں۔‘‘

    نیلی پاکم (Nellipakkam) متوسط طبقے کا علاقہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے بغیچے اور ان میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بنگلہ نما گھر۔ ان کے مکینوں میں آفس میں کام کرنے والے اہلکار رہا کرتے تھے۔ کچھ چھوٹے موٹے افسر، کچھ کلرک۔ ان کی تنخواہیں ساٹھ ستّر روپے فی ماہ سے تین چار سو روپے فی ماہ کے درمیان تھیں۔ کچھ ریٹائرڈ لوگ اور تاجر بھی تھے۔

    آٹھ بجے صبح سری مان کے رام کرشن ایّر اپنے گھر کے ہال میں ہاتھ میں اخبار لیے بیٹھا تھا جب کسی نے سامنے بنی کھڑکی کے ایک کونے سے آواز لگائی، ’’سار!‘‘ ایّر نے قدرے جھنجھلاکر پوچھا، ’’ارے کون ہے بھائی؟‘‘

    ’’پولیس سار‘‘ کنداسامی کے اس جواب کو سن کر ایّر نے اپنی آواز قدرے نیچی کرلی اور کہا، ’’کیا؟ کیوں۔‘‘

    ’’راؤنڈ ڈیوٹی سار!‘‘

    ’’کس لیے؟‘‘

    ’’ہم سب لوگ پونگل منانے جا رہے ہیں نا، سار‘‘

    ’’تو میں اس کے لیے کیا کروں؟‘‘

    ’’اس کے لیے تھوڑا بہت تعاون کردیں۔ جو آپ کی خواہش ہو۔‘‘

    راما کرشنا ایر نے لمحہ بھر کو کچھ سوچا۔ جب اس نے لفظ پولیس سنا تو اس کے دل کی دھڑکن لمحہ بھر کو رک گئی تھی لیکن پھر اس نے خود پر قابو پا لیا تھا۔ کنداسامی محض کچھ چندہ مانگ رہا تھا، یہ سن کر اسے خوشی ہوئی۔ ہاں آج کل اس قدر چوریاں ہورہی ہیں کہ ڈر ہی لگتا رہتا ہے۔ پولیس کا تعاون بہت ضروری ہے۔ اس نے کچھ دیر سوچا کہ کتنی رقم دی جائے پھر چار آنے نکال کر دیے۔ ’’ہم چھ لوگ راؤنڈ پر ہیں، سار‘‘ کنداسامی نے کہا۔ ایر نے دو آنے اور نکال دیے۔

    اس دن کنداسامی نے چوبیس روپیوں سے بھی کچھ زیادہ پیسے کما لیے۔ چوں کہ گرمی بہت تھی اس لیے اس رقم کے بعد اس نے کام ختم کر دیا۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ پچیس پورے کر لے۔ اگر وہ دس دن تک صبح اٹھنے پر وہی مبارک چہرہ دیکھتا رہے جو آج دیکھا تھا تو بہت کافی ہوگا۔ وہ سوڈے کی دوکان کھول لے گا۔ شاید وہ شادی بھی کرلے۔

    وہ ایک گھر میں داخل ہوا جہاں نیم پلیٹ پر مسٹر کے۔ سیناپتی، جی۔ ڈی۔ اے لکھا ہوا تھا۔ ایک شخص سامنے کے ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔ کنداسامی کی بدقسمتی کہ وہ شخص سیناپتی نہیں بلکہ اس کا بیٹا تیرتھاپتی تھا۔

    ’’کون ہے؟ کیا چاہیے؟‘‘ تیرتھاپتی نے بڑے پرسکون لہجے میں دریافت کیا۔ جب کنداسامی نے کہا پولیس سار، تو تیرتھاپتی کے چہرے پر ایک چمک آئی جسے کنداسامی سمجھ نہیں پایا۔

    ’’کون سی پولیس؟‘‘

    ’’ٹاؤن پولیس سار۔‘‘

    ’’کیا چاہیے؟‘‘

    کنداسامی نے رٹا رٹایا سبق پڑھ ڈالا۔ آخر میں یہ کہ آپ جو مناسب سمجھیں قبول ہوگا۔

    ’’اوکے۔ ذرا ٹھہریے۔‘‘ تیرتھاپتی نے کہا اور ایک ملازم کو پکار کر ایک پرچے پر کچھ لکھ کر اسے دیا اور باہر بھیج دیا۔ پھر وہ کچھ لکھنے میں مشغول رہا۔ کنداسامی انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی سی دیرمیں پولیس کا ایک وردی پوش اہلکار نمودار ہوا اور تیرتھاپتی کو سیلوٹ کیا۔ تیرتھاپتی نے اس کی طرف دیکھا اور چلایا، ’’تم لوگ کیسی ڈیوٹی بجا رہے ہو کام چور، گدھے کہیں کے، سب کے سب۔ جاؤ اور دروازے پر پہرہ دو۔‘‘

    ’’کنداسامی جو سیڑھیوں پر کھڑا تھا، کانسٹیبل کے کان میں پھسپھسایا،’’ ’’حضور، یہ کون ہیں؟‘‘

    ’’انھیں جانتے نہیں؟ سب انسپکٹر ایّا۔‘‘

    ایسی مشکل گھڑی میں ہی کنداسامی کے جوہر کھلتے تھے۔ وہ خطروں سے ہارنے والا انسان نہیں تھا۔ اس نے جھٹ سے قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ساری رقم جو روپیوں اور چھوٹے سکوں میں تھی، الٹ کر میز پر رکھ دی۔ ’’حضور، مجھے معاف کر دیں۔‘‘

    ’’یہ کل رقم ہے اور کچھ نہیں ہے تمہارے پاس؟‘‘

    ’’نہیں حضور اور ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ دفع ہو جاؤ۔ اب اگر ایسی کوئی حرکت کی تو اپنا خاتمہ سمجھنا۔‘‘

    ’’جناب عالی!‘‘

    ’’اب کیا، بھیا؟‘‘

    ’’میرا پیٹ بالکل خالی ہے۔ تھوڑا سا کچھ۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ ناشتے کے لیے کچھ لے لو اور نکلو یہاں سے۔‘‘ انسپکٹر نے دو آنے اٹھائے اور اس کی طرف اچھال دیے۔ کنداسامی نے وہ پیسے لے لیے، باہر نکلا اور وہاں کھڑے پولیس والے سے بولا، ’’حضور نے تم سے جانے کو کہاہے، اب یہاں تمہارا کوئی کام نہیں ہے۔‘‘

    سب انسپکٹر تیرتھاپتی نے فوراً ایک خط سرکل انسپکٹر ملا یا پیرومل کے نام لکھا:

    ’’میں اس لفافے میں چوبیس روپے رکھ کر بھیج رہا ہوں۔ ہم لوگ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب کا تبادلہ ہونے پر ان کے لیے جو الوداعی ڈنر دے رہے ہیں، یہ اس کے لیے میری طرف سے تعاون ہے۔‘‘

    خادم

    تیرتھاپتی

    جیب میں دو آنے ڈال کر سڑک پر آگے بڑھتا ہوا کنداسامی بڑبڑایا، دنیا بالکل صحیح راستے پر چل رہی ہے۔ جو چیز جہاں سے تعلق رکھتی ہے، وہیں پہنچ جاتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے