Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قبر

رام لعل

قبر

رام لعل

MORE BYرام لعل

    میں پورے سفرمیں سونہیں سکا تھا۔ سفربہت طویل تھا اور تھکادینے والا بھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا یہ سفر کچھ راتوں اوردنوں کانہیں ہے بلکہ کئی قرنوں کا ہے۔ میرے بدن کے جوڑجوڑ میں جودرداٹھ رہاہے وہ ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ میری آنکھوں میں جوکانٹے گھسے ہوئے ہیں وہ مجھے زندگی بھرچین سے نہیں سونے دیں گے اورہمیشہ اسی طرح سرگرداں رہوں گا۔۔۔ شہربہ شہر۔

    اس دن میں جبل پور سے آرہاتھا۔ میرے ساتھ مری بیوی بلقیس اورتین بچے حامد،، نجمہ اور نسرین بھی تھے۔ ایک گاڑی ہم نے الہ آباد میں تبدیل کی تھی۔ یہ گاڑی ہمیں لکھنؤ لیے جارہی تھی، لکھنؤ سے ہمیں ایک اورگاڑی میں سوارہوکر اقبال پورجانا تھا۔ اقبال پور جانا میں نے کبھی پسندنہیں کیاتھا۔ جب سے میری شادی ہوئی تھی وہاں میں صرف دوہی بار گیاتھا۔ وہ بھی بلقیس کے اصرار پر، کیوں وہ وہیں کی رہنے والی تھی۔ ہرسال چندروزوہاں گزارآتی تھی۔

    میں آپ کوجبل پور کے بارے میں بھی کچھ بتادوں۔ وہاں میں اٹھارہ سال سے مقیم تھا۔ ٹرانسپورٹ کے محکمے میں نہایت معقول تنخواہ پرملازم تھا اورایک بہت ہی خوبصورت آرام دہ مکان کامالک بھی، جومیری برسوں کی محنت کی کمائی کا ثمرہ تھا۔ ایسا ثمرہ جسے پاکر کوئی بھی بیوی اپنے شوہر پربجاطورپر فخر کرسکتی ہے لیکن بلقیس کواس مکان کاآرام اور دلکشی کبھی پسند نہیں آئی تھی۔ اس نے میری کسی بھی خوبصورت چیز کو کبھی توصیفی نظروں سے نہیں دیکھاتھا۔ مثال کے طورپر مجھے دوستوں کودعوتیں دینا مرغوب رہاہے، جس پروہ ناک بھوں چڑھالیتی تھی۔ میں برج کھیلنے کا شائق ہوں، اس نے اس کھیل کی کبھی الف بے جانناتک پسندنہ کیا۔ پھربھی میں نے اس سے بے پناہ محبت کی ہے۔

    گزشتہ بارہ برس سے جب سے وہ آکر میرے گھر کی زینت بنی ہے، میری محبت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔ اس بات کے لیے اس سے کبھی خفانہیں ہوا کہ اس نے میرے خوبصورت گھر کوکیوں پسند نہیں کیا، وہ ا س گھر میں خودکوہمیشہ اجنبی کیوں سمجھتی رہی؟ جبکہ میں اس سے سداخوش رہاہوں کہ وہ جس طرح خود خوبصورت ہے، اسی طرح اس نے تین خوبصورت بچے بھی مجھے دیے۔ خوبصورت اورشرارتی بچے۔ انہیں دیکھتے ہی میں اپنا غم بھول جاتاہوں۔ میرے دل میں کوئی دکھ، کوئی شکایت باقی نہیں رہتی۔ بلقیس جب کبھی میری طرف اگربھولے سے بھی مسکراکردیکھ لیتی ہے تو میرے اندر جینے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔

    میں نے بلقیس کی آنکھوں میں کبھی کبھی کسی نامعلوم سے غم کوکروٹ لیتے ہوئے دیکھا تومجھے اپنی کائنات ہی درہم برہم سی ہوتی ہوئی لگی۔ میں اس بات سے انکارنہیں کرسکتاکہ کبھی کبھی تنہائی مجھ پر بھی حملہ آورہوجاتی رہی ہے لیکن ان لمحوں میں اگربلقیس نے میرے کندھے کو چھوکرپوچھا، خالد، کیا بات ہے؟ تم کھوئے ہوئے کیوں ہو؟ یامیرے بچے اپنی مسکراہٹوں کے خزانے لیے ہوئے ہمک کرمیری طرف گود میں چڑھ آئے تومیرے دل ودماغ پرسے اداسی کے بادل آناًفاناً دورہوگئے۔

    جس رات ہم الہ آباد سے لکھنؤجارہے تھے، وہ بہت سردتھی، اتنی سردکہ اسے پوری طرح بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ جنوری کا آغاز ہوچکا تھا اورپچھلے دو دنوں سے شمالاًجنوباً ایک سخت ٹھنڈی لہرچل رہی تھی۔ ہمارے پاس پورا بستر بھی نہیں تھا۔ بس دوکمبل تھے جوہم عین افراتفری کے عالم میں اٹھاسکے تھے۔ ایک کمبل میں حامداور نجمہ سورہے تھے، دوسرے میں بلقیس اورنسرین۔ میں اپنے اوورکوٹ میں ایک بندکھڑکی کے ساتھ پیٹھ لگائے غبارخاطر پڑھ رہاتھا۔ تنہا رہ جانے والوں اور تنہائی پسندوں کاساتھ کتابیں ہی دیتی ہیں۔ کتاب پڑھتے رہنے کے علاوہ میں نے بہت سی سگریٹیں بھی پی ڈالی تھیں۔ عام طورپر میں اس قدر سگریٹیں نہیں پیاکرتا۔ اس رات مجھے تمباکو نوشی میں ایک خاص فرحت مل رہی تھی۔

    پڑھتے پڑھتے اورسگریٹیں پیتے پیتے مجھے اقبال پوریاد آتارہا۔ اقبال پورہمارے سفر کی منزل تھی لیکن وہاں میں اپنی مرضی نہیں جارہاتھا۔ آج تک وہاں جانے سے میں انکار ہی کرتا رہاتھا۔ بلقیس ہی اکیلی چلی جاتی تھی۔ اس بار میں انکارنہیں کرسکاتھا۔ اس نے فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے جبل پور چھوڑتے وقت میرے سامنے اقبال پور چلے چلنے کی تجویز رکھی تومیں فوراً رضامندہوگیا۔ اس وقت کسی اورمحفوظ مقام کا نام لیتی تو میں وہاں بھی چلنے کے لیے راضی ہوجاتا۔ میں ہرایسی جگہ جانے کے لیے تیارہوجاتا جہاں پہنچ کر میرے سہمے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں پہلی سی خوشی چمک لوٹ آنے کا امکان ہوسکتاتھا۔

    اقبال پورمیں ہماراکوئی نہیں رہتا تھا۔ میرا تووہاں کبھی کوئی عزیز تھا ہی نہیں۔ بلقیس ہی کے ابا، نانا بلکہ پورا خاندان کبھی وہیں آبادتھا۔ اب تووہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ابا اورامی مرچکے تھے۔ نانا بھی وہیں کی خاک میں دفن ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ وطن عزیز کوخیرباد کہنے کاارادہ کرچکے تھے کہ اچانک اجل نے آلیا۔ باقی آل اولاد پہلے ہی سرحد پارجاچکی تھی۔ بلقیس پھربھی اقبال پورجایاکرتی تھی، جہاں اب صرف قبریں ہی قبریں رہ گئی تھیں، جن کی دیکھ بھال کرنے والابھی کوئی نہیں رہ گیاتھا۔

    ہرسال برسات کے موسم میں کوئی نہ کوئی قبراچانک زمین میں دھنس کرایک خلاسی پیدا کردیتی تھی۔ اس کے تصور سے ہی میرا دل گھبرااٹھتاتھا۔ وہاں دوہی بارجاکر میرا دل اچاٹ ہوگیاتھا۔ وہاں جاکرمجھے کسی قسم کی دلچسپی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جیسی دلچسپی جبل پور میں رہتے ہوئے یابعض دوسرے شہروں میں جاکرمحسوس ہوتی تھی۔ مجھے وہاں جاننے والے توہزاروں کی تعداد میں موجودتھے جبکہ اقبال پورمیں کوئی بھی نہ تھا۔ اس دھرتی پرچلتے ہوئے تومجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے جگہ جگہ گڑھے بنے ہوئے ہوں۔ نہ جانے میں کون سے قدم پراچانک کون سے گڑھے میں جاگروں!

    اقبال پورمیں بلقیس کی ایک بہت دورکی پھوپھی رہاکرتی تھی۔ رحمت بوا۔ خداجانے وہ اس کی رشتہ دار تھی بھی یا نہیں لیکن بلقیس ہمیشہ اسی کے یہاں جاکرٹھہرتی تھی۔ وہ اس قصے کی معمرترین عورت تھی۔ اسی سال کی۔ وہ اس کے نانا، دادا کے وقتوں کی تھی۔ اس کے سارے خاندان کوجانتی تھی جوآدھار زیرزمین تھا اور آدھاپاکستان میں۔ بلقیس بھی کسی قافلے کے ساتھ وہاں چلی گئی ہوتی، جیسا کہ اس کے مرحوم نانا جان چاہتے تھے۔ وہ تواس کے لیے اپنے ایک عزیزکاانتخاب بھی کرچکے تھے جولاہورجاکر رہنے لگاتھا اوربزنس میں خوب ترقی کررہا تھا۔ بلقیس کاہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے دینے کااختیار اس کے ناناجان کوہی تھا کیوں کہ وہ اپنے ماں باپ کی نسبت ان کے زیادہ قریب رہی تھی۔ انہوں نے ہی اسے عربی، فارسی اوراردو کی ابتدائی تعلیم دی تھی اورقرآن حفظ کرایاتھا لیکن جب بلقیس کے سامنے اس کی زندگی کی بڑی منزل آئی تو اس کے اپنے اباسدراہ بن گئے۔ وہ اپنی اولاد کواسی سرزمین پررکھناچاہتے تھے، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اورابھی تک رہتے تھے۔

    ان کا یہ ارادہ خاندان کے اندرایک شدیدجذباتی اختلاف کاباعث بن گیا۔ اسی صدمے میں بلقیس کے نانا جان فوت بھی ہوگئے۔ یہ وہی دن تھا جب بلقیس کا نکاح ہواتھا اوراس کی رخصتی کراکے میں اسے جبل پور لیے جارہاتھا۔ بلقیس جب رحمت بوا سے ملنے کے لیے جاتی تھی تو وہ اسے اس کے نانا جان کے بارے میں بہت سی باتیں بتایاکرتی تھی۔ ان کی نیکیو ں اور خصلتوں کی کہانیاں، جن کی وجہ سے وہ اپنے قصبے میں مشہور تھے۔ بلقیس کو خودبھی نانا جان کی بہت سی باتیں یادتھیں۔ ان کاایک خاص اندازسے ہنسنا، کھانسنا، غصہ دکھانا، قرآن شریف پڑھنااور شیخ سعدی اورحافظ کے اشعار کی تشریح کرتے وقت اپنے اوپر ایک وجدساطاری کرلینا۔

    رحمت بوا سے ملنے کے لیے پاکستان سے بھی کئی لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ رحمت بوا سب کی خیروخبر رکھتی تھی۔ بلقیس جب اقبال پور سے لوٹتی تواس کی وہی کیفیت ہوتی جوکسی عورت کی میکے سے لوٹنے پرہوتی ہے۔ وہ اپنے اورپرائیوں کے عزیزوں کاحال بڑی تفصیل سے کہہ سناتی۔ میں نہ پوچھتاتب بھی وہ بتاتی رہتی۔ کبھی کبھی لاہور برانڈرتھ روڈوالے مشنری کے اس تاجر کا ذکربھی اس کی زبان پر آجاتاتھا جواب کئی بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ ایک نکاح اوربھی کرچکا تھا اورکاربھی خریدلی تھی۔

    میرادھیان مطالعہ سے ہٹ چکا تھا۔ اقبال پور کے بارے میں سوچتے سوچتے میری نظریں بلقیس کے چہرے پرجمی رہ گئی تھیں۔ اس نے ایک بارکروٹ بدلی تو اس کے سرکے نیچے رکھا ہوا سیاہ ریشمی برقعہ پھسل کرنیچے گرپڑا اوراس کی لمبی چوٹی بھی سیٹ کے نیچے لٹکنے لگی۔ میں نے برقعہ اٹھاکر اس کے سرکے نیچے رکھناچاہا تو اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ میری طرف چونک کردیکھا لیکن مجھے اپنی جانب مسکراتاہوا پاکروہ پھرلیٹ گئی۔ پھرآنکھیں بندکرلیں اورسوگئی۔ میں نے ایک نئی سگریٹ سلگائی اور غبار خاطر کے کھلے ہوئے صفحات پر وہ سطرڈھونڈنے لگاجہاں سے میں نے اسے چھوڑاتھا۔ لیکن اب میں دیر تک اس کتاب میں کھویا نہ رہ سکا۔

    میری نظروں کے سامنے باربار بارہ سال پہلے کی بلقیس آکھڑی ہوتی جو اس وقت سولہ سترہ برس کی سیدھی سادی لڑکی تھی، جس کی سب سے بڑی دلکشی اس کے چمکتے ہوئے سیاہ بالوں کی غیرمعمولی لمبائی میں ہی نہیں، اس کے چہرے کے دلفریب نقوش میں بھی پنہاں تھی، جواسے ہندوستان میں صدیوں سے آباد پٹھان قبائل سے ورثے میں ملے تھے۔ وہ اپنے جسم میں خیبرکے پہاڑوں جیسی بلندی اورتندہی کا ہی شکوہ ہی نہیں رکھتی تھی بلکہ شمالی اترپردیش کے میدانوں پرچھائے ہوئے آسمان کی گہری نیلاہٹیں بھی اپنی آنکھوں میں آباد کئے ہوئے تھی، جو کسی بھی مشرقی لڑکی کے انتہائی ذہین اورجذباتی ہونے کی غماز ہوسکتی تھی۔

    بلقیس کی آنکھوں میں جب کبھی بے چینی کی جھلک نظر آجاتی تو وہ میرے حلق کی پھانس ہی بن جاتی تھی۔ میں نے اپنے لیے جوراہیں منتخب کی تھیں اور میں جس طرف کوبھی مڑکرچل پڑا تھا، وہ بظاہرمیرے پیچھے پیچھے ہی چلتی آئی تھی لیکن ایسے جیسے کوئی اپنے اوپرمنوں بوجھ اٹھائے چل رہاہو۔۔۔ لڑکھڑاتاہوا۔ آج میں اس کے ساتھ اقبال پورجارہاتھا تو خو دکوبھی اسی کی مانندلڑکھڑاتاہوامحسوس کررہاتھا۔ شاید یہ شکست کے احساس کا ہی نتیجہ تھا جومیرے دل پربھی ایک پہاڑبن کراترآیاتھا۔

    اچانک میں نے کمپارٹمنٹ کی زرداوربیمارروشنی میں صبح کے اجالے کی ایک کرن دیکھی، جوایک کھڑکی کے کہرآلودشیشے میں سے جھانکنے لگی تھی۔ اس لمحے گاڑی اک اسٹیشن پررک گئی۔ اگرچہ اسے اب لکھنؤ سے پہلے کسی اسٹیشن پر نہیں رکناچاہئے تھا لیکن وہ رکی ہوئی تھی۔ میں نے سوچنا چھوڑکرباہر کی آوازوں پراپنے کان لگادیے۔ سخت کنکروں والی زمین پر کوئی دھیرے دھیرے بھاری جوتوں کے ساتھ چلتا ہوا جارہاتھا۔ انجن بھی اچانک رک جانے کے بعد گہری سانسیں لے لے کر جیسے ہانپ رہاتھا۔ جب گاڑی کئی منٹ تک نہ چلی تو میں دروازہ کھول کوباہر دیکھنے لگا۔ دھندمیں ڈوباہوا ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ اونچاپلیٹ فارم، چھ سات کمروں پرمشتمل ایک منزل کی عمارت اوردور ونزدیک چمکتی ہوئی سرخ سفید دہری بتیاں۔

    ہواچلنی بندہوچکی تھی۔ ذرافاصلے پرمیرے عین سامنے اپنے چھوٹے سے دفتر میں کیروسین لیمپ کے آگے بیٹھا ہوارات کی ڈیوٹی والا اسٹیشن ماسٹرکچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں کئی منٹ تک اس کی طرف دیکھتارہا۔ پھراس پورٹر کی طرف متوجہ ہوگیاجوانجن پرسے گرم گرم چائے سے بھراہوامگ اٹھائے گاڑی کی بریک کی طرف لنگڑاتا ہواجارہاتھا۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہاتھا۔ اس چاپ سے ہی میں نے اندازہ لگایاکہ تھوڑی دیر پہلے میری بندکھڑکی کے پاس سے وہی گزراتھا۔ وہ قریب آیاتو میں نے اسے غور سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے بھاری اوورکوٹ اور سراورکانوں پرلپیٹی ہوئی نیلی پگڑی میں وہ محض ایک سایہ ہی معلوم ہوا۔ اس سے پوچھا یہ کون سا اسٹیشن ہے بھیا؟ تووہ مجھے جواب دینے کے لیے رکانہیں۔ میری طرف دیکھے بغیرجاتے جاتے کہہ گیا، ’’نگوہاں۔‘‘

    نگوہاں کانام سن کر میں چونک گیا۔ جیسے یقین نہ آیا، اس جگہ کا نام نگوہاں ہوسکتا ہو!یہ تومجھے یاد بھی نہیں رہاتھا کہ لکھنؤ سے پہلے اس نام کا ایک اسٹیشن تھا، دراصل اس راستے سے ہمیشہ رات میں گزراتھا اوروہاں گاڑی کبھی رکی نہیں تھی، جس طر ح اب اچانک رک گئی تھی۔

    پورٹرسے مزیدکچھ پوچھنے کے لیے میں پلیٹ فارم پراترگیا لیکن وہ بہت دورنکل گیاتھا۔ میں نے پلیٹ فارم پرچل پھرکراس با ت کااطمینان کرنے کی کوشش کی کہ کیایہ جگہ واقعی نگوہاں ہوسکتی ہے! پھراسٹیشن ماسٹر کے دفتر میں جاکر اس سے وہی سوال کیا۔ اس نے پورٹر کی بتائی ہوئی بات کی تائید کی تومیں نے اپنے اندر ایک عجیب سی خوشی کی لہراٹھتی ہوئی محسوس کی جومیرے رگ وپے میں بجلی کی سی سرعت سے دوڑتی جارہی تھی۔ میں تیزتیزقدموں سے چلتاہواباہرآگیا۔ سراٹھاکر عمارت کو غور سے دیکھا۔ صبح کی دھیرے دھیرے بڑھتی ہوئی روشنی میں ایک جگہ نگوہاں لکھا ہوابھی نظر آگیا۔ لیکن اب یہ جگہ اتنی بدل چکی تھی کہ پہچانناہی مشکل ہوگیاتھا۔ پہلے تواسٹیشن پرایک ہی کمرہ ہوتاتھا، تب یہ پلیٹ فارم بھی اس قدر اونچا نہیں تھا، بالکل زمین کے ساتھ ہی لگا ہواتھا۔ اب میں ایک بے پناہ مسرت سے سرشارتھا۔ فوراً بلقیس کوبھی یہ خوش خبری سنادینا چاہتاتھا کہ گاڑی نگوہاں اسٹیشن پر رکی ہوئی ہے۔

    لیکن کمپارٹمنٹ میں لوٹنے سے پہلے مجھ پرایک اورمسرت نے بھی غلبہ پالیاجوپہلی مسرت سے کہیں زیادہ طاقتورتھی۔ اس نے تومجھے پاگل کردیاتھا۔ میں بھاگتا ہوا پھراسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا۔ اپنی جیب سے سارے ٹکٹ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیے اورپوچھا، ’’کیوں صاحب گاڑی ابھی بھی کچھ دیراور رکی رہے گی نا؟ ہم یہاں اترسکتے ہیں؟ اگر ہم یہ گاڑی چھوڑکر کسی دوسری گاڑی سے جانا چاہیں توایسا کرسکتے ہیں نا؟‘‘

    اس نے میرے سارے سوالات کا جواب سرکے اشارے سے اثبات میں دے دیا اورمیری طرف قدرے حیرت سے بھی دیکھنے لگا کیوں کہ میں بے حد جذباتی ہورہاتھا۔ اس کا جواب پاکربولا، شکریہ جناب۔ میں درحقیقت اسی گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن پچیس سال سے نہیں آسکا۔ یہ کتناعجیب اتفاق ہے کہ گاڑی یہاں بالکل اچانک رک گئی ہے اورمیں ایسا محسوس کررہاہوں کہ یہ میرے ہی لیے رک گئی ہے۔

    میں ہنستا ہوا باہرکونکل پڑا۔ لیکن دوہی قدم چل کرپھر رک گیا اورپلٹ کر پوچھا، ’’لیکن جناب، یہ کہیں چل نہ دے!میرے ساتھ میرے بچے بھی ہیں۔‘‘

    ’’نہیں نہیں، آپ اطمینان سے اتریے، آگے سے ایک مال گاڑی آرہی ہیں۔‘‘

    میں تیزتیزقدموں سے بھاگتا ہوا سااپنے کمپارٹمنٹ میں گیا۔ بلقیس چندہی لمحے پہلی جاگی تھی۔ مجھے اپنے پاس نہ پاکر کچھ حیران سی ہورہی تھی۔ میں نے بڑی وارفتگی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اس کے گالوں پررکھ دیے اورکہا، ’’بلقیس جلدی سے بچوں کو اٹھاؤ۔ ہم یہیں اتریں گے۔ اسی اسٹیشن پر، دیر مت کرو۔ ورنہ گاڑی چل دے گی۔ سمجھیں!‘‘

    ’’ہائے اللہ خیرتو ہے!‘‘ اس نے نسرین کواپنے سینے کے ساتھ چپکاکرکہا۔

    میں خود ہی دوسرے دوبچوں کوہلاڈُلا کرجگارہاتھا اورجلدی جلدی سامان لپیٹ رہاتھا۔ اس کی گھبراہٹ دیکھ کرمیں اچانک اس خوشی سے محرو م ہوگیا جو مجھ پر بری طرح طار ی تھی۔ میں بھی اس کی مانند سنجیدہ ہوگیا۔ چندمنٹ پہلے تک میں کتنی تیزی سے دوڑتاپھرتاتھا۔ میرے پاؤں میں یہ اچانک زنجیریں سی کیوں پڑگئی ہیں!میں جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔ بلقیس کی آنکھوں میں جھانکتارہا۔ انہی آنکھوں میں جوجبل پور سے نکلتے وقت انتہائی خطرے کے باوجود ایک فتح کے احساس سے چمک اٹھی تھیں۔ اب ان میں چمک نہیں تھی۔ صرف خوف ہی خوف تھالیکن میں جلدہی سنبھل گیا اوراپنی خوشی کوواپس آتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ میرے بدن میں پھر سے طاقت بھی عود کرآئی۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’گھبراؤنہیں، آگے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم اپنی مرضی سے یہاں اتریں گے۔ پھریہاں سے اپنی مرضی سے ہی چل دیں گے۔ خطرہ توبس وہیں پیچھے رہ گیا جہاں سے ہم روانہ ہوئے تھے۔‘‘

    ہم سب گاڑی سے نیچے اترگئے۔ حامداورنجمہ اپنے کوٹوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، زمین پرپیروں کے بل بیٹھے گاڑی کے پہیوں کے نیچے سے اس طرف دوسری گاڑی کو جاتاہوا دیکھ رہے تھے۔ نسرین بلقیس کے سینے کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ بلقیس نے اسے سردی سے بچانے کے لیے اس پربرقعہ پھیلادیاتھا۔ میں دونوں کمبل اورایک اٹیچی اٹھائے ویٹنگ روم کی طرف بڑھ رہاتھا۔ بلقیس بچوں کوبھی میرے پیچھے پیچھے چلنے کی ہدایت کرنے لگی۔ غصے سے بھری ہوئی آوازمیں۔

    کچھ ہی دیرکے بعد ہر طرف صبح کا اجالا پھیل گیا۔ بلقیس وہاں اچانک اترجانے پرابھی تک برہم تھی اوربید سے بنے ہوئے ایک چوڑے بنچ پرلیٹ گئی تھی۔ حا مد اورنجمہ پلیٹ فارم پرگھوم رہے تھے۔ ننھی نسرین دروازے کی جالی کے ساتھ لگی ہوئی بڑی حیرت سے باہر جھانک رہی تھی۔ اچانک حامد نے مجھے باہرآنے کے لیے پکارا اور میں باہرگیا تو وہ ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے بولا، ’’دیکھئے توابو، اس آدمی نے گلے میں کیاپہن رکھاہے؟‘‘

    وہ وہی پورٹرتھا جس نے اپنے گلے یں سگلنلوں کی بجھی ہوئی بتیوں کاہارپہن رکھا تھا او ردونوں ہاتھوں میں مٹی کے تیل کے ادھ بھری بوتلیں اٹھائے لنگڑاتا ہوا چلاآرہاتھا۔ اب اس کاچہرہ پگڑی میں چھپاہوانہیں تھا۔ وہ بھی میری طرف دیکھتاہوا آرہاتھا۔ میرے قریب آکر وہ ٹھٹک کرکھڑاہوگیا اوربولا، ’’کھالدبھیا!‘‘

    ’’ارے یہ تم ہو۔ رام داس!‘‘میں بھی جلدی سے آگے بڑھ گیا اور اسے کھڑکھڑاتی ہوئی بتیوں کے ہارسمیت گلے سے لگالیا۔ مجھے اس قدر اچانک دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ میں نے پوچھا، ’’تم اس طرح لنگڑا لنگڑاکرکیوں چل رہے ہو رام داس؟‘‘اس نے جواب دیا، ’’جوڑوں کے درد نے ہی یہ حال کررکھاہے۔ خیرتم اپنی کہوکھالدبھائی۔ اتنی مدت کے بعد ادھرکیسے بھول پڑے!جان پڑت ہے کہیں اپھسرو پھسرہوگئے ہو! کیوں گلت تونہیں سمجھا میں!‘‘یہ کہہ کر وہ ہنس بھی پڑا۔

    میں نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کراپنے بچوں کوبتایا، ’’جانتے ہویہ کون ہے؟ میرے بچپن کا دوست۔ اسی گاؤں میں ہم ساتھ ساتھ کھیلے ہیں۔ وہ سامنے جوبہت سے مکان دکھائی دے رہے ہیں، وہی ہمارا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کی گلیوں اور میدانوں میں کھیل کھیل کرہم بڑے ہوئے۔ ہر گلی کا چپہ چپہ ہمارے گزرے ہوئے زمانہ کی گواہی دے گا، کیوں رام داس؟‘‘

    اس نے اثبات میں سر ہلایا تو بتیوں کا ہار بج اٹھا، بچے مسکرانے لگے۔

    رام داس نے ہم سب کو اپنے ہاتھ سے بنا کر چائے پلائی۔ اسٹیشن کے پاس ایک چھوٹی سی بجریا میں جا کر گرم گرم جلیبیاں بھی لے آیا۔ پھر ہم سب گاؤں کو دیکھنے کے لیے چل دیے۔ میں انہیں اپنا گاؤں دکھانے میں فخر محسوس کر رہا تھا۔ بچے بھی بہت خوش اور پرجوش تھے کہ اس گاؤں میں ان کا ابو کبھی انہی کی عمر کے بچے کی طرح پھرتا رہا تھا۔ بچوں کو جب اپنے ماں باپ کے بچپن کی باتوں کا علم ہوتا ہے تو وہ حیران بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی۔ میں اپنے بچوں کی حیرت اور خوشی کی کیفیت سے بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔ مجھے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں بہت ہی لطف آتا ہے۔ انہیں چھیڑنے میں عجیب و غریب باتیں سنا سنا کر حیران کر دیتے ہیں اور کوئی ایسی بات کرنے میں جس پر وہ کھلکھلا کر ہنس بھی پڑیں۔ میں بچوں کو خوش رکھنے کے سارے ڈھنگ بھی جانتا ہوں۔ انہیں زور زور سے ہنستا ہوا دیکھتا ہوں تو یوں محسوس کرتا ہوں جیسے میرے ارد گرد رنگ رنگ کے مہکتے ہوئے پھولوں والے کئی گلزار کھل گئے ہیں۔

    ہمارے ساتھ بلقیس بھی تھی۔ چہرے سے نقاب اٹھائے چپ چاپ ساتھ دے رہی تھی۔ نہ ہنستی تھی، نہ مسکراتی تھی، نہ کوئی بات پوچھتی تھی۔ میں نے جب اپنے بچپن کے دوستوں کے عجیب عجیب نام شبو، نوابو، گورشرنی، رام بھجو وغیرہ سنائے تو بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے لیکن بلقیس کے چہرے پر بس ایک طنزیہ کیفیت ہی پیداہوسکی۔

    اب توگاؤں کا سارا نقشہ ہی بدل چکاتھا۔ اس بڑے میدان میں جواسٹیشن اورگاؤں کے بیچ خالی پڑا رہتاتھا اورجہاں ہم دوڑیں لگایاکرتے تھے، اب کئی مکان اور دفتر بن چکے تھے۔ ایک دفتر بلاک ڈیولپ منٹ کے افسرکاتھا۔ کیمیائی کھاد کی بکری کی ایک دکان اور ایک چھوٹا سا ڈاک خانہ بھی کھل چکاتھا۔ اس تالاب کے چاروں طرف لوہے کا جنگلا اورکنارے کنارے پکی سیڑھیاں بھی بنادی گئی تھیں، جہاں ایک بارعید کے موقع پر مجھے ایک لڑکے نے دھکادے کرپانی میں گرادیاتھا، جس سے میرے نئے کپڑے بھیگ گئے تھے اورجب میں گھرگیاتھا تومجھے میرے ابا نے خوب پیٹا تھا۔ میرے اس طرح پٹنے کا واقعہ سن کر حامد نے بڑے زورکاقہقہہ لگاکرپوچھا، ’’اچھا ابو، یہ بتائیے آپ کو آپ کے ابو نے کس طرح پیٹا تھا؟‘‘

    ’’جیسے ابالوگ پیٹتے ہیں۔‘‘

    ’’میرامطلب ہے چھڑی سے یا ہاتھ سے؟‘‘

    ’’ہاتھ سے۔ تھپڑلگالگاکر۔‘‘میں نے ہنستے ہنستے اس کے گالوں کوتھپتھپادیا۔

    نجمہ بولی، ’’آپ خوب روئے بھی تھے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کیسے؟‘‘

    ’’جیسے بچے روتے ہیں۔‘‘میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کرجھوٹ موٹ روتے ہوئے کہا۔

    ’’لیکن ابو، آ پ توہمیں کبھی نہیں مارتے۔‘‘نجمہ نے پوچھا۔

    میں نے بلقیس کی طرف سرگھماکر دیکھااوراسے چھیڑنے کے لئے کہا، ’’میرے بجائے تمہیں تمہاری امی جوماراکرتی ہیں۔‘‘

    بلقیس تب بھی نہیں مسکرائی۔ نجمہ اپنی ماں کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئی۔ بولی، ’’جھوٹ!امی کب مارتی ہیں، امی توہمیں بہت پیار کرتی ہیں۔‘‘

    میں انہیں اپنا آبائی مکان بھی دکھانا چاہتاتھا، جسے پچیس برس پہلے میرے والد نے تنگ دستی کی وجہ سے بیچ دیاتھا، کیو ں کہ وہ مجھے ہائی اسکول کے بعدکالج کی تعلیم کے اخراجات پورے کرناچاہتے تھے لیکن جب وہاں پہنچے تو اس کی بجائے ایک اورمکان تعمیرکیاجاچکاتھا، جس میں رہنے والے مجھے نہیں پہچانتے تھے۔

    اس گاؤں میں ابھی تک رام داس کے علاوہ اورکسی نے مجھے نہیں پہچاناتھا۔ وہاں اب کوئی پرانا آدمی تھا ہی نہیں۔ وہاں کے بیشتر لوگ جن کا گذارا دکانداری اورکھیتی باڑی پرنہیں تھا، آس پاس کے ضلعوں اور تحصیلوں کے صدر مقامات کی طرف ہجرت کرکے کارخانوں یا دفتروں میں کام کرنے نکل گئے تھے یاوہاں کی سڑکوں پر رکشاچلاتے تھے۔ میں اپنی ہی گلیوں میں اجنبیوں کی طرح گھومتا پھرا۔ مسجد کے سامنے رک کراس امام کو یاد کیا جس نے مجھے نماز پڑھنا سکھایا تھا۔ اپنے زمانے کے پرائمری اسکول میں پہنچ کراسی کمرے کو تلاش کیا، جہاں بیٹھ کر میں پڑھتا تھا اورکبھی کبھی اسکول سے ملا ہواکام نہ کرنے کی وجہ سے اپنے استاد اورہم جماعتوں کے ساتھ مرغابن کرسزا پاتا تھا۔ اب وہ ہائی اسکول بن چکاتھا۔

    میں جہاں جہاں گیا، بچے بھی میرے ساتھ ساتھ خو ش خوش گھومتے رہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھاجیسے میرا بچپن واپس آگیا ہو اوربچوں کی ہی شکل میں میرے ساتھ گھوم رہا ہو۔

    ہم لوگ گھومتے گھومتے ریلوے لائن کے پاس جانکلے۔ اب ہم اسٹیشن کے دوسرے سرے پرتھے۔ شمالی سرے پرجس طرف لکھنؤ تھا۔ وہاں پہنچتے ہی میرے اندر ایک نیا اضطراب ساپیداہوگیا۔ میں ایک اوربھولی بسری ہوئی جگہ تلاش کرنے لگا۔ وہیں کہیں ذرافاصلے پر املی کا ایک پیڑہوا کرتا تھا، جہاں ریلوے لائن خم کھاجاتی تھی۔ لیکن اب پیڑدکھائی دے رہاتھا نہ ہی ریلوے لائن کا خم۔

    ’’ابو آپ کیاڈھونڈرہے ہیں؟‘‘بچوں نے مجھ سے میر ے اضطراب کا سبب جانناچاہا۔ میں انہیں بتانے لگا، ’’جب میں یہاں رہتا تھاتو میرے پاس ایک بہت ہی خوبصورت کتا تھا، چھوٹا سا، اتنا چھوٹا سا کہ جب وہ چلتا توبالکل زمین کے ساتھ لگاہوا ہی معلوم ہوتاتھا۔ اس کے جسم پر بھورے بھورے چمکدار بال اگے ہوئے تھے جواس کے منہ پر گرکرآنکھیں تک چھپالیتے تھے۔ اس کی آنکھیں بڑی دلکش تھیں جیسے دوچمکتے ہوئے ہیرے جڑے ہوں۔ ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کتنی کتنی دیرتک دیکھتے رہ جاتے تھے۔‘‘

    ’’اس کانام کیا تھاابو؟‘‘

    ’’اس کا نام۔ ہاں اس کا نام تھا۔ پپی!‘‘

    ’’پپی!‘‘سارے بچے ایک ساتھ چلااٹھے، ’’بہت ہی پیارانام تھا اس کا!‘‘

    ’’اب وہ کہاں گیاابو؟‘‘

    ’’ابوآپ نے پپی کہاں سے لیاتھا؟‘‘

    ’’میرے ابا کواس کا انگریزافسردے کرانگلستان چلاگیاتھا، جس کی ابا نے بڑی خدمت کی تھی۔ جب انگریز افسر نے ان سے کچھ انعام مانگنے کوکہا توابا نے پپی ہی ان سے مانگ لیا میرے لیے، کیوں کہ میں اس کے ساتھ ہروقت کھیلتارہتاتھا۔ پپی بہت ہی قیمتی نسل کا تھا، پھربھی انگریز نے میرے لیے ابا کو دے دیا۔ اب پپی ہروقت میرے ساتھ رہنے لگا۔ میرا بہت گہرادوست بن گیا۔ پہلے کبھی کبھی مجھ پر بھونک بھی لیتا تھا، پراب وہ میرے قدموں میں لوٹتا اور پاؤں چاٹنے لگتاتھا۔ میں منہ سے سیٹی بجاتا تو بھاگا چلا آتا تھا۔ میں کہیں کھیلنے کے لیے جاتا تب بھی وہ میرے ساتھ ساتھ رہتاتھا۔ میں نے اس کے گلے میں گھنگھروباندھ دیے تھے جو اس کے بھاگتے وقت زورزور سے بجتے تھے۔ چھن چھن چھن، چھن چھن۔۔۔‘‘

    بچو ں کی مسکراہٹیں چوڑی ہوتی گئیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک بھی بڑھتی گئی۔ بلقیس چلتے چلتے جیسے تھک کرریلوے لائن پرہی بیٹھ گئی تھی۔ میں بچوں کے درمیان کھڑا پپی کی کہانیاں سناتارہا، ’’پپی کو میں نے گینداٹھاکر لے آنا بھی سکھادیاتھا۔ جب ہم گلی ڈنڈا کھیلتے تھے تو وہ بھاگ کراپنے آپ ہی اٹھاکرلے آتاتھا۔ دھیرے دھیرے میں نے اسے اپنی کتابوں کا بستہ بھی اٹھاکر چلناسکھادیا تھا۔ جب میں نے گاڑی سے لکھنؤ پڑھنے کے لیے جانے لگا تو پپی اسٹیشن تک میرا بستہ اٹھاکر ساتھ ساتھ آتاتھا۔ میں گاڑی میں چڑھ جاتا اور گاڑی چل پڑتی تو وہ کچھ دورتک ساتھ ساتھ بھاگتاہوا چلتا۔ جب گاڑی کی رفتار تیز ہوجاتی تو وہ پیچھے رہ جاتا اورپھرگھرلوٹ جاتاتھا۔‘‘

    ’’ایک روزہم چلتی گاڑی میں بیٹھے اسے پپی پپی پکارتے جارہے تھے۔ وہ گاڑی کے ساتھ اچھلتا ہوا بھاگتا چلا آرہاتھا۔ ہم نے اسے اورزورزورسے پکارا تو اس نے اورزیادہ تیزبھاگنے کی کوشش کی۔ جب گاڑی لائن کے خم پرسے ہوکر جانے لگی تو اس نے بھی گھوم کر ساتھ آنے کی کوشش کی لیکن وہ موڑ بہت ہی خطرناک تھا۔ تیزی سے اندھادھند بھاگتا ہوا کوئی بھی شخص گاڑی کے نیچے آسکتاتھا۔ پپی اچانک پہیوں کی لپیٹ میں آگیا۔‘‘

    ’’پھر۔۔۔ پھر؟‘‘ بچوں کے منہ کھلے سے رہ گئے۔

    ’’پھر وہ کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اسکول جانے والے ہم سب لڑکوں نے گاڑی کی زنجیر کھینچ لی۔ زنجیر کھینچنے سے گاڑی رک گئی۔ ہم لوگ نیچے اترآئے۔ وہ مرچکاتھا۔ پتھروں اورکوئلوں پراس کا بہت ساخون بکھراہواتھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر میں تو دھاڑیں مار مارکرروپڑاتھا۔‘‘

    ’’پھر!پھرابو! پھرکیاہوا؟‘‘حامد کے گلے سے بمشکل نکلا۔ نجمہ کاتوگلا ہی سوکھ گیاتھا۔ وہ تو کچھ بول ہی نہ سکی۔ صرف ہونٹ ہلاتی رہ گئی۔ نسرین بھی سہمی ہوئی نظروں سے مجھے گھورے جارہی تھی۔ بلقیس کوپہلی بار میں نے اتنی دلچسپی سے اپنی بات سنتے ہوئے پایالیکن وہ خاموش تھی۔

    میں نے انہیں بتایا، ’’اس کے بعد ہم لوگ پپی کے جسم کے ٹکرے اکٹھے کرکے املی کے پیڑکے نیچے لے گئے۔ وہاں ہم سب نے مل کر ایک گڑھاکھودا اورپپی کو اس میں ڈال کراوپر سے بہت سی مٹی گرادی۔ پھراس کے اوپربہت سے پتھر رکھ دیے۔ وہ میرے بہت ہی پیارے دوست کی قبرتھی۔ میں جب بھی پڑھنے کے لیے لکھنؤ جاتا تو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس قبر کی طرف ایک نظر دیکھ لینا کبھی نہ بھولتا۔‘‘

    ’’ابو، اب وہ قبر کہاں ہے؟‘‘

    ’’وہی تومیں بھی ڈھونڈرہاہوں، املی کا وہ پیڑ بھی کٹ چکاہے اوریہاں سے ریلوے لائن بھی سیدھی کردی گئی ہے۔‘‘

    قبراب کہیں بھی نہیں تھی۔ ہرچیزکا نا م ونشان مٹ چکاتھا۔ صرف یادہی میرے پاس باقی رہ گئی تھی۔ ادھر ادھر بے چینی سے دیکھتے وقت میری نظریں اچانک بلقیس کی نظرو ں سے ٹکراگئیں۔ وہ نہ جانے کتنی دیر سے میری طرف دیکھے جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں میرے تجسس اوراضطراب کے لیے ایک بھرپور تائید موجودتھی۔ تائید اورہمدردی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تواس کے ہونٹوں پر ایک مغموم مسکراہٹ ابھر

    آئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آگئی اورمیرا بازو پکڑکرآہستہ سے بولی، ’’کیاآپ چاہتے ہیں ہم لوگ کچھ روزیہاں رہیں؟‘‘

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 688)

      • ناشر: اردو کلاسک، ممبئ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے