Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رات کا منظر نامہ-۱

ابرار مجیب

رات کا منظر نامہ-۱

ابرار مجیب

MORE BYابرار مجیب

    سارا قصہ اس عجیب وغریب رتھ سے شروع ہوا تھا جسے کھینچنے کے لیے گھوڑے نہیں تھے پھر بھی رتھ سرعت سے بھاگتا تھا، اس رتھ کے تعلق سے یہ خبر گشت کر رہی تھی کہ اسے ماضی کے اندھے کنویں سے نکالا گیا ہے اور یہ ماضی ہی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ یہ رتھ ایک انتہائی قدیم شہر جو کہ اب جدید تھا کے قدیم مندر جیسا کہ اسے تعمیر کرنے کے جواز کے طور پر بتایا گیا اور جو دراصل جدید مندر تھا، اسی مندر کے ایک قدیم کنویں سے برآمد ہوا تھا۔ اس رتھ کاسوامی ایک ایسا شخص تھا جو انگریزی بھی اسی روانی سے بولتا تھا جتنا چبا چبا کر سنسکرت آمیز ہندی، یہ سوامی جدید تھا لیکن قدیم بن گیا تھا۔ اس عجیب وغریب سواری کے گرد ایک غول بیابانی تھا جن کے ہاتھوں میں ترشول تھے، ان کے حلیوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آدمی ہیں جنہوں نے بندر کا بہروپ بھرا ہے اور ایک تصوراتی لنکا کی فتح کے لیے رواں دواں ہیں، گوکہ ان کے نعروں میں لنکا کی بجائے ایک بوسیدہ سی مسجد کا تذکرہ تھا جسے وہ مسمار کرنے کے خواہش مند نظر آ رہے تھے۔ یہ رتھ جس قدیم نام والے جدید شہر سے نکلا تھا وہ ایک ایسے منطقہ میں واقع تھا جس کے جغرافیائی حدود کو مستقبل ایک عظیم تجربہ گاہ کے طور پر دیکھ رہا تھا جہاں تجربات کا وہ سلسلہ شروع ہونا تھا جس کی مثال انسانی تاریخ میں عنقا ہے۔

    بہرحال یہ طے تھا کہ اس رتھ کوکسی اشو میگھ یگیہ کے گھوڑے کی طرح یگیہ کے بعد چھوڑ دیا گیا، اب یہ جس طرف جاتا دوہی باتیں ہوتیں یا تو اس علاقے پر رتھ کے سوامی کا قبضہ تسلیم کر لیا جاتا یا اگر کوئی اس رتھ پر اعتراض کرتا تو ایک بھیانک صورت حال پیدا ہو جاتی۔ اس صورت حال کے تحت پہلی بار بطور صحافی اس نے سوال کیا تھا۔

    ’’اس رتھ اور اس کو گھیرے ہوئے یہ غول بیابانی جنہوں نے ترشول اٹھا رکھے ہیں کس مقصد کے لیے ہیں؟‘‘

    ’’اچھا پرشن (سوال) ہے۔‘‘ رتھ پر بیٹھے سوامی جس کی مونچھ سفید تھی لیکن مونچھ کے کناروں کی نوکوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ڈرامہ کے کسی کردار کے ہونٹ پر ایک سفید پٹی چپکا دی گئی ہو، نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’پرشن تو اچھا ہے مہاراج، لیکن آپ نے اتر نہیں دیا۔‘‘

    ’’تمہاری داڑھی بہت بھینکر ہے، ہم ماضی کی طرف اسی لیے لوٹ رہے کہ ایسی داڑھیو ں کو راستے سے ہٹا دیں۔‘‘ مہاراجہ نے کمبھیر تبسم کے ساتھ کہا۔ ’’تم ملیچھوں نے ہماری تاریخ کو ناپاک کر دیا۔ اسے پوتر کرنے کے لیے ہمیں پھر سے تاریخ کی پہلی سیڑھی تک پہنچنا ہے۔‘‘

    ’’میں صحافی ہوں مہاراج، ملیچھ نہیں ۔میں تو یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ کیا ایسا کوئی پروسس ہے کہ ہم ماضی میں لوٹ سکیں، میں نے ایچ جی ویلس کی ٹائم مشین پڑھی ہے لیکن وہ تخئیلی مشین ہے، حقیقت میں ایسی کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی جس میں بیٹھ کر ہم ماضی کا سفر کر سکیں۔‘‘

    ’’تم نرے جاہل ہو، ویسے تمہاری داڑھی یہ بتا رہی ہے کہ تم ملیچھ ذات سے تعلق رکھتے ہو، خیر تم ملیچھ ہوکر صحافی ہو یہ اور بھی خطرناک ہے، مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم ہمارے روشن اتہاس سے بالکل ناواقف ہو، تم نے نہ رامائن پڑھی ہے اور نہ مہابھارت، ارے ہم وہ ہیں جنہوں نے ماضی میں ہی پشپک ویمان بنا لیا تھا اور میزائل بھی۔ یہ جو تمہارا صحرا ہے نا، جہاں کی تم دھرم یاترا کرتے ہو، وہ صحرا مہابھارت یدھ میں استعمال کیے گئے میزائل کے کارن ہی بنا تھا۔ یہ رتھ جسے میں چلا رہا ہوں، اس پر پربھو کی کرپا ہے، یہی رتھ ہمیں ماضی کی روشنی میں لے جائےگا۔‘‘

    ’’مہاراج، یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن ماضی میں آپ کہاں تک جا سکتے ہیں؟ ماضی سے پہلے بھی ایک ماضی ہے اور ماضی کے بعد بھی ایک ماضی۔‘‘ یہ سن کر ڈرامہ کے کردار نما رتھ سوامی کی آنکھیں لال ہو گئیں اور اس نے اپنے ایک ترشول دھاری کو اشارہ کیا کہ اسے دھکیل کر بھگا دو، اسے ترشول دھاریوں نے لات جوتے مارے اور ایک طرف لڑھکاکر آگے بڑھ گئے، رتھ شہر کے مختلف علاقوں میں گشت کرنے لگا۔

    رات اپنے دکھتے بدن اور پھولے ہوئے منہ کے ساتھ وہ بہت تکلیف سے کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھا اور لکھنے لگا۔ اس نے لکھا۔ ماضی کی طرف مراجعت کا کیا مطلب ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ماضی کیا تھا اور رتھ سوار کس ماضی کی طرف مراجعت کر رہے ہیں۔ کیا تاریخ کی کڑیو ں کے تسلسل سے اگر درمیانی کڑیاں نکال دی جائیں تو تہذیبی اور ثقافتی سچائی قائم رہ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کیا تاریخ کی زنجیر کی درمیانی کڑیوں کو نکالا جا سکتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیڑھی کے پہلے پائدان سے سیدھے آخری پائدان پر قدم رکھا جاسکے۔ بہت کچھ الجھا ہوا ہے، رتھی مہاراج کی ساری باتیں مبہم ہیں اور وہ کسی پرشن کا صاف صاف اتر نہیں دیتے۔

    جہاں تک مجھے علم ہے اس اکھنڈ دھرتی پرجو کہ اس کال میں کھنڈت تھی اور تاریخ کے ایک موڑ پر اور بھی کھنڈت ہو گئی، سب سے پہلے ادھرمی نظر آتے ہیں، اس سمے نہ وید تھا، نہ شروتی، نہ اپنشد، نہ آرینک، نہ پران۔ ان سیاہ ملیچھوں کی ماتا دیوی تھی اور پور تھے۔ وہ ایک بہت لمبی چوڑی ندی کے کنارے دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے گاؤں تھے، کھیت تھے اور بڑے بڑے نگر تھے۔

    اتنا لکھنے کے بعد اچانک اسے یاد آیا ایک کتھا واچک، کسی گھنے جنگل کی تاریکی سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کتھا واچک کا حوالہ وہ اکثر اپنے مضامین میں دیا کرتا تھا۔کتھا واچک اچانک ہی اسے مل گیا تھا۔ اس زمانے میں وہ دور دراز جنوب کے سفر پر تھا جہاں کی زمین ناہموار تھی اور جسے پہاڑیوں جنگلوں اور برساتی ندیوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ ایک گھنے جنگل میں سفر کرتے ہوئے اسے یہ کتھا واچک ملا تھا جس نے اسے ایک کہانی سنائی تھی۔ کہانی کچھ یوں تھی۔

    ’’اس وقت ہمارے اجداد نگروں کے واسی تھے، ہماری طرح جنگل کے نہیں، ہم جنگل سے نکلے ضرور تھے لیکن ہم نے نگر بسائے، نگروں کو قلعوں سے محفوظ کیا، ہر نگر کا اپنا انتظام تھا۔ہماری عمارتیں اونچی تھیں، کچھ عمارتیں تین تین منزلہ تھیں۔ پیارے پردیسی یہ اس کال کی بات ہے جب تمہارے عیٰسی کا جنم نہیں ہوا تھا، بلکہ کہ ان کے جنم سے بھی ہزاروں سال قبل کی یہ کتھا ہے۔ ہم ماتادیوی کے پجاری تھے اور اپنے زرخیزی کے دیوتا کی اپاسنا کرتے تھے۔یہ دیوتا قہار بھی تھا اور کریم بھی، جب یہ غضبناک ہوتا تو عظیم ندی جو ہمیں جیون دیتی تھی اچانک چنگھاڑنے لگتی، اپنے کناروں کو توڑتی اور ہماری بستیوں کو بہا لے جاتی۔ لیکن اسی دیوتا نے ہمیں کشتی بنانا سکھایا اور یہ بھی بتایا کہ اس کشتی کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ دیوتا کے حکم سے عظیم ندی ہمارے کھیتوں کو سیراب کرتی اور ہم لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم ماتادیوی کو فصل کی کٹائی کے بعد خوشی میں چڑھاوے چڑھاتے، نگر نرتکی رقص کرتی اور سارے نگرواسی عظیم تالاب میں نہاتے اور خود کو پاک کرتے۔ یہ عظیم تالاب ماتادیوی نے اپنے داسوں سے نہ جانے کس زمانہ میں کھدوایا تھا۔ ہم ناٹے قد، ہلکی چپٹی اور پھیلی ہوئی ناک اور کالی رنگت کے لوگ تھے۔ ہماری خوبصورتی کا معیار بھی یہی تھا۔ کہتے ہیں ہمارے نگر سمندر کے کنارے بھی بسے تھے جہاں سے ہمارے تاجر دوسرے دیشوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔ ہمارا سب سے بڑا نگر شاید دلمن تھا، ایسا ہمارے پرانے لوگ بتاتے ہیں۔ ہم اناج اور کپاس بھیجتے تھے اور ان سے کھجور اور کچھ دھات منگواتے تھے۔ ہمارے کچھ تاجر مستقل باہر کے دیش میں مقیم ہوتے تھے اور ان دیشوں کے تاجر ہمارے یہاں آکر رہتے تھے۔ ہمارے نگروں میں شانتی تھی، خوشی تھی، رنگ تھا، زندگی تھی۔ ہم نے ابھی خون بہانا نہیں سیکھا تھا اور ہتھیاروں سے کھیلنا بھی نہیں۔ ہمارا راجا، مہابلی، جسے بعد میں دس سروں والا راکشش کہا گیا، مہانوں میں مہان تھا۔ وہ مہابلی تھا کیوں کہ اس نے کرودھ (غصہ)، عظمت، حسد، خوشی، غم، خوف، خودپسندی، برداشت اور مذموم عزائم پر فتح پا یا تھا۔ یہ نو نفرت انگیز سر تھے جسے بعد میں اس کے کندھوں سے جوڑ کر اس کو ایک گھناونے کردار میں بدل دیا گیا، ورنہ ہمارے مہابلی کا صرف ایک سر تھا اور وہ سر تھا ذہانت کا۔‘‘

    مہابلی کا قصہ تو بعد میں آئےگا اس سے پہلے ہمارے پوروں (شہروں) کی تباہی کی داستان عظیم شروع ہوتی ہے۔

    ہمارے پوروجوں نے بتایا، یہ روایت سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی کہ پہلے گھوڑے پر سوار خانہ بدوشوں کے ایک دو گروہ ہمارے شہرکے قلعوں سے دور کھلے میدان میں ادھر ادھر گھومتے نظر آئے۔ وہ ہمارے جانوروں، کھیتوں اور اناج اکھٹا کرنے کے طریقوں کو حیرت سے دیکھتے۔ یہ لوگ لمبے چوڑے، گورے اور نیلی آنکھوں والے تھے۔ یہ ہاتھوں میں عجیب ہتھیار لیے ہوئے ہوتے جو کسی ایسی سخت دھات کے بنے ہوتے جسے ہم نہیں جانتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پر ایسا تاثر ابھرتا جو نفرت سے مشابہ ہوتا۔ اس کی وجہ شاید ہمارا سیاہ رنگ ہو، ہماری چپٹی اور پھیلی ہوئی ناک ہو اور ہمارے مضبوط قلعے اور خوبصورت نگر ہوں۔ شاید وہ ہماری زندگی کے طریق اور اس میں موجود آسودگی سے بھی حیرت زدہ رہے ہوں گے۔ کچھ عرصہ گزرا تو انہوں نے ہمیں ایک نام دیا ’’دسیو‘‘۔ ہم نے کبھی خود کو دسیو لفظ سے نہیں پکارا نہ اس کا مطلب سمجھتے تھے۔

    خانہ بدوشوں کے قافلوں کی آمد کا نام ختم سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسے ہم اپنی بھاشا میں بدیسی کہتے تھے کیوں کہ اس اکھنڈ زمین پر جو کہ کھنڈت تھی ایسے لوگ کبھی نظر نہیں آئے۔ ہمارے پوروج بتاتے ہیں کہ ان وحشی خانہ بدوشوں کے ایک سردار جسے وہ ’’اندر‘‘ کہتے تھے نے سب سے پہلے ہمارے کل دیوتا شیش ناگ کاسر کچلا، اس کے اس عمل سے ہمارے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا۔ پھر انہوں نے ہمارے لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کیا، ان کا قتل کیا، ہمارے مویشیوں اور اناج پر ڈاکہ ڈالا۔ کھیتوں کے کنارے بنے ہمارے پشوپتی (زرخیزی کا دیوتا) کے مندر کو تاراج کیا۔ ان کی مورتی کو تحس نہس کر دیا۔ ہمارے ایک سردار ’’درن‘‘مہابلی کو ’’اندر‘ ‘نے غار میں مقید کر دیا، جہاں وہ دھیرے دھیرے بغیر دانا پانی کے مر گئے۔ پھر ’’اندر‘‘ نے وحشت کا روپ دھارن کر لیا، اس نے ہمارے پوروں پر حملے شروع کئے، اس کی فوج اسے رعد اور قہر کا دیوتا کہہ کر زوردار سروں میں اس کی عظمت کے گیت گاتی اور حملے کرتی۔ ہمارے پور ڈھادئے گئے، ہمارے لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ ہماری ایک روایت میں ایک بھیانک رات کا ذکر ہے، اس رات ماتا دیوی کے مندر جو عظیم تالاب کے کنارے بنا تھا، اس مندر کے وسیع و عریض صحن میں ہر سال کی طرح نئی فصل کا جشن تھا اور نگر نرتکی ماتا دیوی کو خراج عقیدت پیش کرنے والی تھی۔ نگر واسی سب جمع تھے۔رقص شروع ہوا، ڈھول، نگاڑے بجنے لگے، ماتا دیوی کی مناجات جاری تھی۔ چاروں طرف خوشی اور مسرت کا ماحول تھا۔ اچانک خانہ بدوشوں نے قلعے کو مسمار کر دیا اور نگر کے اندر داخل ہو گئے۔ اس کے بعد تووحشت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا، انہوں نے چن چن کر لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ نہ بچوں کو دیکھا، نہ بوڑھوں کو، نہ عورت کو نہ مرد کو، نہ بیمار کو، نہ دکھی کو۔سب کو مارتے کاٹتے وہ مندر تک پہنچ گئے، یہاں بھی انہوں نے سب کو قتل کیا، عظیم تالاب کا رنگ لال ہو گیا، نگرنرتکی کی ننگی لاش عظیم تالاب میں تیر رہی تھی اور ماتادیوی کی مورتی ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکی تھی۔

    خانہ بدوشوں نے اس اکھنڈ زمین جو کہ اس سمے کھنڈت تھی کے چپے چپے کو دیکھا اور ہمیں یا تو داس بنالیا یا مار دیا، ہم میں سے جو بچے وہ جنگلوں اور بیانوں کی پناہ میں آ گئے۔ یہ اتہاس کا چکر تھا، لیکن اتہاس کی طرف کبھی لوٹا نہیں جاسکتا۔ اتہاس ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ خانہ بدوشوں نے ہم سے بہت کم سیکھا تھا لیکن اتنا ضرور سیکھ گئے کہ ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے دھرتی سے جڑ کر رہنے میں فائدہ ہے۔ انہوں نے ہمارے بیجوں سے کھیتیاں کیں اور ہمارے قلعے اور پختہ مکانوں کو مسمار کرکے مٹی کے کچے مکان بنائے، جھونپڑی کی طرح اور دور دور تک عظیم ندی کے کنارے پھیل گئے۔ انہوں نے اتہاس کی ترقی کو پیچھے کی طرف ڈھکیل دیا تھا۔ زندگی محل سے مٹی کے مکانوں میں آ گئی تھی اور ہم چوڑی سڑکوں سے نکل کر جنگل کی تاریکی میں گم ہو چکے تھے۔

    یہ خانہ بدوش خود کو ’’مانوسہ پرجا (آدم زاد) اور ہمیں’’ اسبک نیویشہہ (کالے غلیظ لوگ) کہتے تھے۔ یہ لوگ رچاؤں کی تخلیق کرتے تھے اور ’’اگنی دیشوانرا‘‘ یا آگ کی پوجا کرتے تھے۔ یہ اچانک ہمارے کھیتوں، ہمارے جنگلوں اور ہمارے گھروں کو آگ لگا دیتے تھے۔ ہم بھاگتے بھاگتے جنوب کی دشوار گزار پہاڑیوں کو عبور کرکے جنگلوں میں چھپ گئے، اسی جنگل میں ہمارے مہابلی کا جنم ہوا جو نو (۹) قسم کے جذبات، احساسات اور خیالات کو فتح کرکے سراپا ذہانت بن گیا، اس سے بڑا عالم اور گیانی اس دھرتی پر دوبارہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دیپ جو آج اس اکھنڈ دھرتی سے الگ، دور، اور پرایا ہے۔ وہ جنوب کے اس سمندر میں ہماری دھرتی سے اور جنگل سے منسلک تھا۔ بس ایک بہت پتلی سی نہر تھی جو اس اکھنڈ دھرتی اور اس دیپ کے درمیان تھی۔ ہمارے مہابلی نے اس دیپ کو ایک نگر میں بدل دیا اور وہ ’’سونے کا نگر‘‘ کہلایا۔ مہابلی نے ہمیں سکھایا کہ اپنی رکھشا کیسے کرتے ہیں۔ کس طرح دشمنوں کو زیر کرتے ہیں، بدھی اور طاقت کیا ہے؟

    سونے کے نگر کی چرچا جب مانوسہ پرجا تک پہنچی تو وہ دنگ رہ گئے۔ اتر میں تو وہ پوری طرح پھیل ہی چکے تھے، اب ان کی نظر ہمارے سونے کے دیپ پر پڑ چکی تھی۔ وہ جنوب کی اور بڑھنے لگے ۔انہوں نے اپنی رچاؤں میں ہمارے مہابلی کو دس سروں والا راکشش کہا۔ انہوں نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ اس راکشش کا انت انسانیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان راکششوں نے کالا علم حاصل کیا ہوا ہے اور یہ جادوئی ومانوں (جہازوں ) میں اڑتے ہیں۔ ان کے سارے رسم ورواج گندے اور انسانیت سے گرے ہوئے ہیں۔ اس جاتی کو آدم زاد کی فلاح کے لیے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے پہلے انہوں نے ایک وانر (بندر) اور آگ بھیجی۔ آگ وانر کی دم میں تھی، اس نے ہمارے سونے کی نگری میں گھوم گھوم کر آگ لگائی، گھر، باغ، کھیت کھلیان اور انسا ن جلائے۔پھر وانروں کی ایک فوج آئی، اس کے ساتھ مانوسہ پرجا کی بھی بڑی تعداد تھی، ان کا راجا بھی تھا۔ ایک بھیانک یدھ ہوا، اس جنگ میں انہوں نے سب کچھ جلا دیا اور ہمارے سارے لوگوں کو مار دیا، اپنے دھرم کی استھاپنا کی۔ ہمیں داس بنایا۔ ہمارے مہابلی اور اس کے خاندان کو پوری طرح ختم کر دیا۔ ایک بار پھر ہم جنگل میں بھٹکنے لگے اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔

    کتھا واچک کی یہ کتھا یاد کرکے اس نے تاریخ کے موڑوں پر غور کیا اور اپنا مضمون لکھا۔ وہ ماضی کے حوالے سے اکثر اپنے مضامین میں کتھا واچک کی اس کہانی کو ضرور شامل کر لیتا تھا جس کا کوئی دستاویزی ریکارڈ نہیں تھا اور شاید اسی لیے اس کہانی کو لوگ کہانی یا کہانی کے مختلف حصوں کو تخئیل کی کارستانی سمجھ کر برداشت کر لیتے تھے۔لوگوں کا کہنا ہے اس کہانی کا ذکر کسی بھی دھرم گرنتھ یا اتہاس کی پستک میں نہیں ہے۔ یہ یا تو بکواس ہے یا خود صحافی کے اپنے ذہن کی اختراع، نہ تو وہ کسی کتھا واچک سے ملا ہے اور نہ ہی کبھی اس نے جنوب کا سفر کیا ہے۔ ویسے اس کہانی کے جغرافیائی حدود کے بارے میں یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ بہت حد تک سچ پر مبنی ہے۔ عظیم ندی، اندر مہاراج، داس اور دسیو کے علاوہ دس سروں والے راکشش کا ذکر دھارمک گرنتھوں کی پرمپرا کے انوسار نہیں مگر یہ سب موجود ضرور تھے۔ اگنی کے تیج اور اس کو دیوتا کے روپ میں پوجنے کی روایت تو ابھی بھی تھی۔ اس بات سے انکار کیا گیا کہ ماتا دیوی اور زرخیزی کے دیوتا پشوپتی داسوں سے مخصوص تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک جھوٹ ہے۔ زرخیزی کا خدا پشوپتی جو مہاکال بھی ہے خالص ہمارا خدا ہے، ہم نے کہیں سے اسے نہیں لیا اور ماتا دیوی تو ہماری خاص ماتا ہیں جن کے چرنوں کی پوجا کے بغیر دن کا کام شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ کچھ بھی ہم نے نہیں لیا، وہ لوگ جو آدم زادوں کے اخلاف تھے اور صرف خود کو ہی آدم زاد سمجھتے تھے ببانگ دہل کہتے ، سب کچھ ہمارا ہے۔ یہ اکھنڈ دھرتی، یہ کھلا آکاش، یہ سمندر، صحرا اور پہاڑ سبھی ہمارے۔ ہمارے علاوہ جو اس پر بستے ہی وہ ملیچھ، دسیو اور داس ہیں۔

    ماضی کی طرف لوٹنے کا مطلب اصل ماضی کی طرف لوٹنا ہے کہ ماضی سے پہلے بھی ماضی ہے اور ماضی کے بعد بھی ماضی ہے۔

    جنگل سے نگر اور نگر سے سونے کی نگری تک سب کچھ لوٹا دینا اتنا آسان نہیں۔ اے مانوسہ پرجا کے جدید اوتار تم بھی تو بیچ کی کڑی ہو۔

    اس کا مضمون شائع ہوا تو ایک ہنگامہ ہو گیا۔ کہا گیا ایک ملیچھ نے ہمارا اپمان کیا ہے، اسے اس پاپ کی سزاملنی چاہئیے۔ لوگ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اس درمیان رتھ اور ترشول دھاریوں کا قافلہ نگرمیں آگ لگا کر جا چکا تھا۔ چاروں طرف چیخ وپکار اور آہ بکا تھی۔ انسانی گوشت کے جلنے کی بو جگہہ جگہہ پھیلی ہوئی تھی۔ مکانوں اور مسجدوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کہا گیا ملیچھوں کو اس دھرتی سے پاک کئے بغیر ماضی کی طرف مراجعت ممکن ہی نہیں۔

    اس ہنگامے میں وہ جان بچا کر بھاگا تو تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں دفن ایک ایسے علاقے میں آ نکلا جہاں وقت کی مار سے ٹوٹتی بکھرتی ایک مسجد تھی جس کے گنبدوں پر کبوتروں کی بیٹ اور بارشوں کی کائی نے رنگ جمایا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی مسجد تھی، درمیان میں ایک شکستہ سڑک اور اس کے پار ایک قلعہ تھا جسے سرخ پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ شاعروں کا خیال تھا کہ اس میں مزدوروں کاخون شامل تھا۔ خیر یہی وہ قلعہ یا قلعے تھے جن کے پتھروں کا بوجھ وہ اپنے کاندھوں پر اکثر محسوس کرتا تھا۔ کہا گیا کہ یہاں سے سو میل کی دوری پر ایک ایسی عمارت ہے جس کا نقشہ کوئی فرشتہ جنت سے لے کر آیا تھا۔ اس عمارت کی دیواروں سے دودھ کشید کیا جا سکتا تھا۔ تاریخ کی کڑیوں کی زنجیر میں یہ درمیانی کڑی ایک ایسے عہد کی یاد لاتا تھا جس میں اکھنڈ زمین کھنڈ ت ہو چکی تھی اور مانوسہ پرجا ایک دوسرے کو قتل کرکے خود کو اندر کی سنتا ن ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اسی درمیانی کڑی میں مانوسہ پرجا کے مطابق ملیچھوں کے گروہ پوتر دھرتی کو ناپاک کرنے کے لیے اترے۔ ان ملیچھوں نے مہان سمراٹوں کی سلطنتوں کو پامال اور اپنی ناپاک حکومت قائم کی۔ انہوں نے پوتر مندروں کو لوٹا اور انہیں زمین بوس کیا۔

    مسجدکی ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں پر اسے ایک سال خوردہ بوڑھا ملا جس کانام سید احمد منور شہسوار تھا۔ اس نے اسے بتایا کہ اسے تاریخ کا شعور اتنا ہی ہے جتنااس کے دادا کے ذہن رساسے اخذ کر سکا تھا، اس کا خیال تھا کہ تاریخی شعور کے معاملے میں اس کے دادا اور دادا کے دادا دانش وری کے اعلٰی مدارج پر تھے۔ ان کے توسط سے اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کے اجداد وسط ایشیا کے کسی شہر سے بغرض تجارت اس خطۂ ارض میں داخل ہوئے، منور شہسوار کا خیال تھا کہ تاریخ کے تسلسل میں یہ بات باعث حیرت ہے کہ وسط ایشیا سے لوگوں کے قافلے ماضی سے لے آج تک مسلسل آرہے ہیں۔ ان لوگوں نے اس سرزمین کی تاریخ میں مل کر ایک عجیب تاریخ تحریر کی۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے زبان، علم اور دانائی کو فروغ دیا اور خودیہاں کے آدم زادوں سے اسرار و معرفت بھی سیکھا۔

    سید احمد منور شہسوار کا بیان تھا کہ اس کے دادا کے دادا سید احمد برکات شہسوار نے ایک خطہ زمین کو اپنا مسکن بنایا جو بعد میں شہسوار شریف کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی موضع شہسوار شریف میں سید احمد برکات شہسوار رحمتہ اللہ نے علم ومعرفت کا چراغ جلایا۔ یہاں کے لوگوں کو بتایا کہ معرفت الہٰی کی آخری منزل ہے فنا فی اللہ، اس علم کا گیان خود ان کے ملفوظات کے مطابق انہیں ایک ایسے مرتاض نے دیا تھا جس نے دنیا کو تیاگ دیا، جنگل کی راہ لی اور ساری زندگی عبادت وریاضت میں گزار دی۔ یہ مرتاض دو ٹکڑوں کا گیروا لباس پہنتا تھا اور جنگل میں ایک کٹیا بنا کر رہتا تھا۔ ایک دن سید احمد برکات شہسوار کا ادھر سے گزر ہوا دیکھا شام کے نیم اندھیرے میں کٹیا کے گرد ایک نور کا ہالہ روشن ہے۔ وہ چونکے اور اندر گئے تو دیکھا آنکھیں بند کئے یہ تارک الدنیا کسی اور ہی دنیا کا سفر کر رہا ہے۔ ان کی آہٹ سے بھی اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ جیسے ایک عرصہ گزر گیا، بارش، دھوپ اور اندھیرے کا۔۔۔ جب آنکھیں کھلیں تو ان آنکھو ں نے سید برکات شہسوار کی آنکھوں میں دیکھا اور دل میں اتر گئیں۔ کہا۔ ’’تیرے دل میں ایک داغ ہے۔‘‘

    ’’کیسا داغ مہاراج؟‘‘

    ’’داغ جو تجھے پرم ستیہ (آخری سچائی) میں ولین ہونے سے روکتا ہے۔‘‘

    ’’مجھے علم کی روشنی کی تلاش ہے، مجھے علم دیجئے۔‘‘

    ’’بالک، برہمانڈ اندھکار سے نکلا ہے، برہما نے روشنی کا روپ دھارن کیا اور برہمانڈ کے کن کن (ذرے ذرے ) میں سما گیا، اگر تم کیول ایک کن کو پراپت (حاصل )کر لیتے ہو تو سمجھو برہما کو پراپت کر لیا۔‘‘

    ملفوظات بتاتے ہیں کہ ایک عرصے تک برکات شہسوار گیان حاصل کرتے رہے اور جب واپس آئے تو ان کا وجود روشن تھا۔ حضرت برکات شہسوار رحمتہ اللہ کا مزار شریف مرجع خلائق رہا اور اس سے ملیچھ اور آدم زاد یکسا ں فائدہ اٹھاتے رہے۔

    منور شہسوار اتنا کہہ کر خاموش ہو گئے اور مسجد کے اردگرد بوسیدہ ہوٹلوں سے نکلتے دھوئیں کو دیکھنے لگے۔ ان ہوٹلوں کے چولہوں کے کوئلے تپ رہے تھے اور ان پر سیخوں میں کباب بھونے جا رہے تھے۔ سڑک پر ایک فقیر کسی سرکس کے مداری کی طرح لوٹیں لگا رہا تھا، اس کی دونو ں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں، اس کے پیچھے پیچھے ایک نابالغ لڑکا ایک ٹھیلہ نما گاڑی کو دھکیل رہا تھا۔ ٹھیلے پر لاوڈ اسپیکر لگا تھا اور ایک قوالی کا شور چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ بھر دو جھولی مری یا محمد، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی۔

    ’’آپ کچھ بتا رہے تھے۔‘‘ صحافی نے کریدا۔

    ’’جی، حضور۔ دادا کے دادا جان کا زمانہ بہت پرامن تھا۔ سید برکت شہسوار رحمتہ اللہ کے بیٹے حضرت نور احمد شہسوار جو میرے دادا کے والد تھے ایک تاجر تھے اور اس شہر کے بازار سے سودا خرید کر دکن کے رئیسو ں تک پہنچاتے تھے۔ وہ قالینوں کے سوداگر تھے، قالین یہاں ایرانی سوداگر لایا کرتے تھے۔ یہ واقعہ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں درج کیا ہے۔ ان کے مطابق تاریخ ختم ہو رہی تھی، مجھے یاد آتا ہے کہ ایک بار میں نے ایک زمانہ بعد جب میرے داداضعیف ہو چکے تھے پوچھا تھا کہ اگر فرغانہ کا شہزادہ رانا سانگا کی دعوت پر اس ملک میں نہیں آتا اور ابراہیم لودھی کو شکست نہیں دیتا تو کیا ہوتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بیٹے جنت سے فرشتہ جس دودھیا عمارت کا نقشہ لے کر آیا تھا اور جسے عمارتوں کا تاج کہتے ہیں، وہ عمارت وجود میں نہ آتی اور آنے والی نسلوں پر اس مقبرہ نماعمارت کا تاریخی بوجھ بھی نہ ہوتا۔خیر نور احمد شہسوار کی آپ بیتی کے بہت سارے صفحات بوسیدہ ہوکر نذر خاک ہوئے لیکن جہاں سے میں نے پڑھا وہ کچھ اس طرح تھا۔۔۔ کچھ یوں بیان کیا ہے۔۔۔ شہر میں ایک عجب ہو کا عالم تھا، رات تو رات دن میں بھی کوئی نفس باہر نہ نکلتا تھا۔چاروں طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ شرفا کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا، مسجدوں کو مسمار، لوگوں کو قتل کرکے سڑکوں پر کتے اور بلیوں کے لیے چھوڑ دیا گیا، کوئی پرسان حال نہ تھا۔ لوگ جن کو خوف تھا کہ سرکشی میں شمولیت یا سرکشوں کی امداد کے جرم میں انہیں بھی مار دیا جائےگا یا گرفتار کر لیا جائےگا، موقع ملتے ہی بھاگ کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں بھٹک رہے تھے، ان میں کچھ کو حکومت کے سپاہیوں نے پکڑ کر موقع ہی پر ہلاک کر دیا، بہت ساروں کو گرفتار کرکے عوام الناس کے سامنے ایک منصوبے کے تحت بہ طور عبرت پھانسی دی کہ لوگ مستقبل میں اقتدار کے خلاف سرکشی اور غداری کے انجام سے واقف ہو جائیں۔ عبرت کی خوفناک مثال تو اس بزرگ صوفی منش شاعر بادشاہ اور اس کے خاندان کو بنایا گیا تھا جس کے نام سے تاجروں کایہ غیرملکی گروہ ملک پر حکومت کرتا تھا۔ ان کا نعرہ ہوا کرتا تھا، ’’ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا‘‘سرکشی اور بغاوت کو کچل کر کمپنی بہادر کی فوج اس شہر پر قابض ہو گئی اور عوام پر قہر برپا کر دیا۔ عوام کون یہی منبر و مینار والے، انہوں نے قلعہ پر قبضہ کیا، بادشاہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا اور اسے مجرم قرار دیا اور اسے دیار غیر میں لے جاکر قید کر دیا۔ بیچارہ صدمے سے عہد ہ برآنہ ہو سکا اور وہیں غیروں کی زمین میں پیوند خاک ہوا۔ بہت بعد میں اسی تعلق سے اس صوفی بادشاہ کا ایک شعر زبان زدعام ہو گیا۔خیر میں دارلحکومت ایک سودا کے سلسلے میں آیا ہوا تھا، ایران کے قالین فروشوں سے یہ سودا طے ہوا تھا۔ دکن کے ایک رئیس تک یہ قالینیں پہنچانی تھیں، لیکن کشت وخون کے اس ماحول میں ایرانی قالین فروش کاہے کو ملتے اور مجھ میں بھی اتنی ہمت کہاں تھی کہ میں ان کو تلاش کرتا، میں تو اس خرابے سے نکلنے کی سبیل ڈھونڈا کیا، کہ اللہ جان بچا دے۔۔۔ اللہ نے پکار سن لی اور ایک گھوڑا کہیں سے مل گیا، بس اس پر سوار ہوکر سیدھے شہسوار شریف میں آکر دم لیا۔‘‘

    ’’یہ آپ کے داد جان صوفی بادشاہ کے کس شعر کا ذکر کر رہے تھے؟‘‘ صحافی کے اندر گہر ا تجسس تھا۔

    ’’بھئی آپ بھی واقف ہوں گے، بہت مشہور شعر ہے؂

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے

    دو گز زمیں بھی مل نہ سکی کوئے یار میں

    ’’جی جی، بہت مشہور شعر ہے۔آئیے کچھ چائے پانی ہو جائے۔‘‘ وہ اٹھنے لگے تو دیکھا کہ اچانک چاروں طرف ہلچل شروع ہو گئی۔ ایک بھاگتے ہوئے شخص سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رتھ سوار اور ترشول دھاری شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں شورش شروع ہو چکی ہے۔ ایک دو چھوٹے چھوٹے مندر گرا دئے گئے اور کئی چھوٹی چھوٹی مسجدوں کو مسمار کر دیا گیا۔ صحافی اور منور شہسوار گھبرا گئے۔ منور شہسوار نے جلدی سے خدا حافظ کہا اور اپنی راہ پکڑ لی۔ صحافی گم سم کھڑا دھڑادھڑ بند ہوتی دکانوں کو دیکھتا رہا اور اپنے دل میں سوچا کیا، یہاں بھی زندگی تنگ ہو گئی۔ سامنے اسے ایک اخبار کی دکان نظر آئی، وہ جلدی سے ادھر لپکا اور ایک اخبار اٹھا کر دکاندار کو پیسے دئے، پھر تیزی سے اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھ گیا۔

    اخبار ایک طرف رکھ کر وہ سوچنے لگا تاریخ کی مراجعت کا یہ عمل کیا گل کھلائےگا۔ اس سوال کا اسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے تاریخی تسلسل پر غور کیا تو اسے حیرت ہوئی کہ غیرملکیوں نے ہمیشہ اس دھرتی کے باشندوں کو غلام بنا کر رکھا۔ یہاں کے انسانوں کو راکشش بنا دیا، جن لوگوں نے مذہب تبدیل کیا انہیں ملیچھ بنا دیا۔ عبادت گاہوں کو ظلم کی نشانی قرار دیا۔ ایک عجیب تاریخی فلسفہ منظر پر تھا جس کی کوئی منطق نہیں تھی۔ اس فلسفہ کے فروغ کے لیے ایک ایسی رتھ ایجاد کی گئی تھی جس میں گھوڑے نہیں جتے تھے، پھر بھی وہ سرعت سے بھاگتا تھا۔ رتھ بان ڈرامے کا مصنوعی کردار تھا اور ترشول دھاری اس کے لیے ایک خونی ڈرامہ تحریر کرتے جارہے تھے۔ اسے کتھا واچک کی کتھا کا وہ حصہ یاد آیا جس میں ایک وانر نے سونے کی نگری کو آگ لگا دی تھی۔ پھر وانروں کی سینا نے سونے کی نگری پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ ترشول دھاری کچھ ایسے ہی لگ رہے تھے۔ جس شہر سے ہوکر یہ رتھ گزر رہا تھا، وہاں خون ہی خون نظر آتا، ملیچھوں کی عبادت گاہیں زمین بوس کر دی جاتیں، ان کی عورتوں کے پیٹ چاک کرکے ان سے بچے نکالے جاتے اور انہیں بھی ترشول بھونک کر ختم کر دیا جاتا۔ کنواری لڑکیوں کے ساتھ پہلے پچاسوں ترشول دھاری وحشیانہ انداز میں زنا کرتے، پھر اگھوریوں کی طر ح رقص اور آخر میں ان کی ٹانگوں کو دو مختلف سمتوں میں کھینچ کر اس کے وجود کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے۔ ملیچھوں کو قتل کرکے چھوڑتے نہیں تھے بلکہ ان کو جلا دیتے تھے، زیادہ تر تو زندہ ہی جلا دیتے، ان کا کہنا تھا کہ پوتر اگنی میں جلا کر ان ملیچھوں کی آتما کو مکتی دلا رہے ہیں ورنہ زمین کے اندر جسم کے ساتھ ان کی آتما بھی سڑتی رہتی ہے۔

    اس نے اخبار اٹھایا، یہ دیکھ کر اسے کوئی تعجب نہیں ہوا کہ اس کے مفرور ہونے کا اشتہار اخبار میں شائع ہوا ہے۔ اس کے خلاف کیس کیا گیا تھا کہ اس نے ایسے مضامین لکھے ہیں جو ملکی مفادات کے خلاف ہیں، اس سے ملک میں شر پھیلنے کا خدشہ ہے اور امن وامان غارت ہو سکتا ہے۔ ایسے مضامین ملک کی جمہوریت پرحملہ ہیں۔ لفظ جمہوریت پڑھ کر وہ مسکرایا۔ اسے یاد آیا کہ حکومت نے لوگوں کی غذا کے رحجانات کا جائزہ لیا تھا اور ایک خاص قسم کے جانور کے گوشت پر پابندی لگا دی تھی۔ اس نے اس کے خلاف بھی ایک مضمون لکھا تھا کہ جمہوری ملک میں لوگوں کی غذا کا تعین حکومت نہیں کر سکتی۔ لوگ سانپ کھائیں کہ بچھواس کو طے کرنے کا حق کسی جمہوری حکومت کو دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ اس مضمون کے خلاف بھی اس پر مقدمہ قائم کیا گیا، اس نے معافی مانگی اور جرمانہ بھرا تب جاکر اس کی گلو خلاصی ہوئی۔ اس کے بارے میں کچھ اخبارات میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ دشمن ملک کا ایجنٹ معلوم ہوتا ہے۔

    اس رات وہ بےچینی سے کروٹیں بدلتا رہا، یہ اطلاع کہ رتھ سوار اور اس کی ترشول دھاری سینا اب اس شہر میں بھی پہنچ چکی ہے، اس کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی۔صبح ہونے پہلے ہی اندھیرے میں وہ شہر سے باہر نکل گیا۔ شام ہوتے ہوتے وہ ملیچھوں کے ایک محلے میں تھا۔ وہاں اس نے ایک اندھیر ی تنگ گلی میں بھٹکنے لگا، ایک جگہہ کچھ لوگ کھڑے تھے، اس نے ان کو اپنا تعارف دیا، رتھ اور رتھی کا حوالہ دیا اور پناہ مانگی، سب وہاں ملیچھ ہی تھے، ان میں ہمدردی کاجذبہ جاگ اٹھا اور اسے ایک کوٹھری مل گئی۔ صبح اٹھ کر وہ باہر نکلا، سامنے ہی ایک بوسیدہ چائے خانہ تھا۔ ایک میز پر بیٹھ کر اس نے چائے کے لیے کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک دوسری میز پر اسے منور شہسوار نظر آئے، وہ اٹھ کر ان کے پاس چلا آیا۔

    ’’آپ بھی ادھر ہی؟‘‘ اس نے منورشہسوار سے پوچھا۔

    ’’یہاں میری بیٹی اور داماد رہتے ہیں، ہم ملیچھوں کے لیے یہی کسی حد تک محفوظ علاقہ ہے فی الحال۔‘‘ منور شہسوار نے ہنستے ہوئے کہا۔

    گفتگو کے دوران منور شہسوار نے بتایا کہ مغربی آقاؤں کی غلامی سے نجات کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ نجات سے پہلے ہی حضرت برکت شہسوار رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کو جنونی بھیڑ نے مسمار کر دیا اور شہسوار شریف کو ویرا ن۔ اس ویرانے میں ایک مندر اچانک وجود میں آ گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے تاریخ نے اپنے گربھ سے ہزارو ں ورش پہلے جنم دیا تھا۔ اب دور دور سے تیرتھ یاتری مندر کے درشن کے لیے آتے ہیں اور عقیدت کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ حضرت برکت شہسوار رحمتہ اللہ علیہ کی روح مندر کے احاطے میں کھڑے پیپل کے پیڑ پر بیٹھ کر مسکراتی ہے۔

    منور شہسوار بتاتے رہے کہ مغربی آقاؤں کی حالت مغرب میں جنگ، قتل وغارت گری، فسادات اور مالی عدم استحکام کی وجہ سے اتنی خراب ہو گئی تھی کہ انہوں نے اس اکھنڈ کھنڈت دھرتی کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ادھر ملیچھوں کا ایک خادم منصہ شہود پر آیا اور کہنے لگا کہ ہمیں ملیچھستان چاہئیے۔ یہ لمبا، پتلا دبلا، کلین شیوڈ اور فرنگی لباس کا رسیا خادم ملیچھوں سے مماثلت نہیں رکھتا تھا، اس کی ایک آنکھ بھی متاثر تھی کسی بیماری سے اور اس آنکھ پر اکثر دیکھنے کے لیے وہ ایک گلاس چڑھا لیا کرتا تھا۔ ایک دوسرا ملیچھ کا خادم تھا، جو سر پر لمبی پھندنے والی ٹوپی پہنتا تھا، آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگاتا تھا، شیروانی اور پاجامہ پہنتا تھا۔ لمبا خادم ملیچھستان مانگتا تھا، پھندنے والی ٹوپی پہننے والا اس کی مخالفت کرتا تھا۔ خیر یہ ایک لمبی کہانی ہے، اس کہانی میں ایک بوڑھا بھی تھا جو صرف دھوتی پہنتا تھا، ہاتھ میں لاٹھی ،کمر میں گھڑی، آنکھوں پر گول شیشوں والی عینک لگاتا تھا۔ اس بوڑھے کمزور شخص نے مغربی آقاؤں کو اس اکھنڈ کھنڈت دھرتی سے نکالنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے سپنے پامال ہونے کو ہیں تو اس نے مون ورت رکھ لیا، ادھر شیروانی کے کالر میں سجے سرخ گلاب کے پھول کا رسیا منظرنامے پر ابھرا اور اس نے ملیچھوں کے خادم لمبے آدمی سے سمجھوتہ کر لیا۔سیاہ عینک لگانے والے، داڑھی والے شخص نے بہت سمجھایا لیکن کسی نے نہیں سنی، وہی ہوا جس کی توقع تھی، یہ اکھنڈ دھرتی جو کھنڈت تھی اور بھی کھنڈت ہو گئی اور ایک ملیچھستان معرض وجود میں آ گیا۔

    بس اس کے بعد ترشول دھاریوں نے رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ انہیں اکھنڈ دھرتی کی تلاش تھی۔ وہ بوڑھا جو صرف دھوتی پہنتا تھا، ایک گوشے میں خاموشی سے پڑا، کھانا پینا چھوڑ لوگوں کو تلقین کر رہا تھا کہ جو ہونا تھا ہوا، اب ایک دوسرے کو قصائی کی طرح مت کاٹو۔ لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کو کون سنتا۔ جو لوگ سن رہے تھے انہیں اس بوڑھے پر غصہ آ رہا تھا کہ یہ ملیچھوں کو کچھ نہیں کہتا، صرف ہمیں دوش دیتا ہے۔ یہ اکھنڈ دھرتی کی بات کیوں نہیں کرتا۔ ان ہی لوگوں میں ایک بہت بےرحم ترشول دھاری تھا۔ایک روز اس نے بوڑھے کا قتل کر دیا۔

    ’’اس قتل کے بارے میں پڑھا ہے میں نے۔‘‘ صحافی نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔

    ’’جی۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب دیکھئے اسی بوڑھے کی تصویر لے کر ہر کوئی پھر رہا ہے، بتا رہا ہے کہ وہ اس کے کتنے بڑے بھگت ہیں، وہ ہی اس کے آدرشوں کو آگے لے کر جائیں گے۔‘‘ منور شہسوار ہنستے ہوئے بولے۔

    ’’حضور، لوگ تو اس آدرش کو بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں جس نے اس بوڑھے کو قتل کیا تھا۔ اب سنا ہے اسے بھگوان کا درجہ دے کر ایک مندر بھی بنا دیا گیا ہے۔‘‘

    ’’یہاں انسان نہیں، مندر، مسجد، گرجا اور گرو دوارے رہ جائیں گے۔‘‘ منور شہسوار نے دکھ سے کہا۔

    ’’اچھا بھائی، اب کوچ کرو، اس سے پہلے کہ یہ علاقہ بھی قبرستان بن جائے۔‘‘ منور شہسوار نے فکرمندی سے کہا۔

    ’’ہاں، اب میں واپسی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ہمارے شہر میں آگ بجھ گئی ہے، بس کہیں کہیں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔‘‘ صحافی نے کہا، دونوں اٹھے اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اپنے ٹھکانوں کی اور بڑھ گئے۔

    رتھ شہر در شہر ہوتا آخر وہاں پہنچا جہاں اسے پہنچنا تھا۔

    ایک بوسیدہ سی مسجدجو وقت کی مار کی وجہ سے آدھی گر چکی تھی، جس کی دیواروں پر کائی نے بسیرا کر لیا تھا اورجس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی تھی اور ان دراڑوں میں پودے اگ آئے تھے۔ رتھ، رتھ سوار، ترشول دھاری اور لاکھوں کا مجمع اس گرتی ہوئی مسجد کے گرد جمع ہو گئے۔ کسی نے کہا۔ ’’ایک دھکا اور دو۔‘‘

    لوگ ہنس رہے تھے، ٹھٹھا لگا رہے تھے۔

    سورج آسمان پر اتنا سرخ تھا جیسے اپنے آپ سے شرمندہ ہو۔

    پاگل ہجوم، اس بوسیدہ مسجد پر ٹو ٹ پڑا، مسجد خود ہی گرپڑی اور اس کے ملبے میں کئی دب کر مر گئے۔

    اور پھر شروع ہوا ایک جنونی رقص۔

    ازمنہ قدیم سے بلی لیتے آ رہے دیوتا خوف زدہ تھے کہ کہیں وہ خون میں ڈوب نہ جائیں۔ بلی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ اتنے اقسام کی بلیاں تو انہیں کبھی نہ نصیب ہوئی ہوں گی۔ بچہ، جوان، بوڑھا، عورت، مرد، ہیجڑا۔۔۔ ہر طرح کی بلی۔۔۔ دیوتا مارے خوف کے کوچ کر گئے۔ رتھ سوامی قہقہہ لگاتا رہا۔

    پھر شانتی اور اکھنڈ زمین کی دھرتی پر ایک چہرہ ابھرا جسے مہاراج ادھیراج کا خطاب دیا گیا تھا۔

    اس نے کہا انصاف سب کے لیے یکساں ہیں۔

    اور صحافی اپنے شہر کو لوٹ آیا۔ اسے معلوم ہوا کہ اس کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ اس نے تاریخ کی مراجعت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی اور لوگوں کو فلسفہ تاریخ کے نوتشکیل شدہ عملی خاکے سے متنفر اور گمراہ کیا۔ تاریخ کے نو تشکیل شدہ عملی خاکے کا اسے کچھ پتہ نہیں تھا، اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ تاریخ کی سمت مراجعت کے کیا معنی ہیں۔ اس سے تو کہا گیا تھا کہ تاریخ کی موت واقع ہو چکی ہے، حالانکہ یہ بات بھی اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے کاندھوں پر تاریخ کے پتھر کا بھاری بوجھ محسوس کرتا تھا۔ یہ بوجھ سنگ مرمر کے سفید اور قلعوں میں لگے سرخ پتھروں کی شکل میں اس کے کاندھوں پر دھرا تھا۔ میلان کندیرا کے تاریخی شعور سے وہ متفق نہیں تھا کیونکہ وہ تاریخی سطح پر کندیرا کی باطنی مراجعت کو بھی بے معنی سمجھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ باطنی مراجعت جیسا کہ کندیرا نے کہا آپ کو تاریخی سطح پر روئی کے گالوں سے بھی ہلکا کر دیتی ہے گوکہ اس بوجھ کو اٹھانا انتہائی کربناک ہے۔اس بےمعنویت کے ڈرامے میں وہ اپنا کوئی کردار نہیں دیکھتا تھا۔ مثلا ’’اس کا خیال تھا کہ تاریخ کے تسلسل کے طور پر جو کچھ موجود ہے وہ حال بھی ہے اور حال حال ہے اس کی طرف مراجعت کیا معنی رکھتی ہے، مان لیں کہ تاریخ کی طرف مراجعت کا بلیو پرنٹ کسی ایسے عہد کی تجدید ہو جو حال نہیں تو اس عہد کی موجودگی کی منطقی دلیل جو ہر ایک کے لیے قابل وقبول ہو دینا تقریبا’’ نا ممکن ہے۔

    اس دن وہ دفتر سے باہر نکلا تو افق میں شام نے خون سے لتھڑی چادر اوڑھ لی تھی جس کا رنگ اب سیاہی مائل ہونے لگا تھا۔ اسی سیاہی نے شب خون مارا اور شہر کی ہر ایک شے کو نگل گئی۔ اب رات ہو چکی تھی اور شاہراوں کی بتیاں جل اٹھیں تھیں۔ وہ جس شاہراہ پر چل رہا تھا اس پر سناٹا تھا۔ سمندر کی طرف سے آنے والی ہوا اتنی نم تھی کہ کچھ ہی دیر میں اس کا لباس بھیگ گیا۔ ایک چپچپے پن کے احساس نے اس کی طبیعت پر منفی اثر ڈالا اور مزاج میں ایک چڑچڑا پن سر ابھارنے لگا۔ اسی وقت ایک کار زناٹے کے ساتھ اس کو لگ بھگ چھوتی ہوئی گزری، اسے محسوس ہوا کہ یہ کار اسے کچلنا چاہتی تھی۔ خوف کی ایک لہر اس کے اندر ابھری اور دماغ پر محیط ہو گئی۔ وہ تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا بس اسٹنڈ کی طرف بڑھنے لگا۔ نم ہوا مسلسل اسے بھگو رہی تھی، اب اس کے سرا ور داڑھی کے بال بھی بھیگ چکے تھے۔ اس کی داڑھی نہ بہت لمبی تھی اور نہ بالکل چھوٹی۔چبھیگی ہوئی داڑھی سے پانی کی بوندیں ٹپک کر اس کے سفید کرتے میں جذب ہونے لگیں۔ وہ تیز تیز چلنے لگا۔ چلتے چلتے اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ اپنا شک دور کرنے کے لیے وہ چلتے چلتے اچانک تھم گیا لیکن پیچھے سے آتے ہوئے قدموں کی آوازیں نہیں تھمیں، آوازیں قریب آتی گئیں، ایک شخص جو پولیس کی وردی میں تھا اچانک اس کے سامنے آیا اور اس کا رستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے پیچھے دیکھا، تین پولیس والے اس کو گھیر کر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ سراسیمہ ہوکر ان کو دیکھنے لگا۔ اسے اطلاع دی گئی کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    اس نے سوال کیا کہ اس کا جرم کیا ہے۔ جواب میں پہلے اس کی داڑھی کو سہلایا گیا پھر اسے مٹھی میں پکڑکر ایک جھٹکا دیتے ہوئے بتایا گیا۔ ’’بھولا بنتا ہے بے، سالے تم لوگوں کو کو اچھی طرح پتہ ہے، تاریخ کی مراجعت میں روڑا اٹکاتے ہو۔ مستقبل میں تم لوگوں کو لیبارٹری میں لے جاکر ایسے تجربات کیے جائیں گے کہ تمہاری نئی تاریخ انسانی یادداشت سے کبھی محو نہیں ہوگی۔‘‘ پولیس والے کی اس بات میں ریڑھ کی ہڈی تک کو کپکپا دینے والی سردمہری تھی۔ ’’اور یہ تجربہ ہم پہلے تم پر ہی کرنے والے ہیں۔‘‘

    اس نے خاموشی سے سرجھکا لیا، اس کی نگاہوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

    تین دنوں بعد نیشنل میڈیا چیخ رہا تھا، ملیچھستان کے ایک آتنکوادی (دہشتگرد ) کو ایک مڈبھیڑ میں مار گرایا گیا۔ یہ آتنک وادی برسوں سے ہمارے دیش میں رہ رہا تھا اور دیش کے پوشیدہ راز ملیچھستان کو فراہم کر رہا تھا۔ ہمارے جاسوس اس کے لیے بدھائی (مبارکباد ) کے مستحق ہیں۔

    اس دن سورج جب ڈوبا تو آکاش پر پھیلے خون کے لوتھڑوں کو رات کی سیاہی نے نگل لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے