Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رفیق تنہائی

علی عباس حسینی

رفیق تنہائی

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    قربان میاں کوکبھی کوئی ساتھی نہ ملا۔ بچپنایونہی گذرا، جوانی یونہی گذری۔ اب بڑھاپے میں کیا خاک دھراتھا کہ کوئی انہیں پوچھتا۔ کبھی بھی کوئی ان کی طرف نہیں کھنچتا بلکہ ہمیشہ ان سے کھینچے ہی رہے۔ وجہ بھی ظاہر تھی۔ محبت خواہ کتنی ہی لطیف شے ہومگر بنااس کی مادیت پرہی ہے یعنی اسی دولت، اقتداراورحسن یاکشش جسمانی پر۔

    غریب قربان میاں کے ہاں ان میں سے کوئی چیزنہ تھی۔ نہ تو زردوسفیدچمکتے ہوئے سکے جن کی چمک آنکھوں میں وہ چکاچوندپیدا کردیتی ہے کہ سیاہ سے سیاہ صورت بھی چندے آفتاب، چندے مہتاب نظرآتی ہے اورنہ وہ اقتدار وجبروت جس کے مخالف استعمال کا خوف سپراندازی پرمجبور کرتاہے۔ صورت خواہ کتنی ہی بری ہومگر خوف کا بھیانک چہرہ مہیب ہوتاہے۔ کمزور طبیعتوں میں جن کا ڈرہوتاہے، انہیں کی پرستش کی خواہش بھی۔ سرجھکتے جھکتے دل بھی جھک ہی جاتاہے۔ بھلا قربان میاں کواس طرح کا اقتدارکہاں نصیب۔

    اب رہا سب سے قوی مادہ کشش یعنی حسن، سویہ جس کے پاس ہویقینی قیامت ڈھائے، سلطنتیں بنائے اوربگاڑے۔ سارے عالم سے پوجا کرائے اور صنم سے خدابنادے۔ مگرقربان میاں کے ساتھ فطرت نے اس معاملے میں بھی بخل سے ہی کام لیاتھا بلکہ یوں کہئے کہ سخاوت بھی کی توالٹی، بجائے حسن کے بدصورتی کے تمام آلات اوراسلحوں سے انہیں آراستہ کردیا۔ لمباقد، دبلا پتلاجسم، گردن اوربازوؤں کے پاس بالکل اسی طرح خم جیسے دستہ کے قریب پہاڑی چھڑیاں۔ اس کے لنگور کے سے لمچھڑے چہرے پربکروں کی سی داڑھی اورچپٹی ناک کے ساتھ دوپٹنکی آنکھیں۔ صورت دیکھتے ہی محسوس ہوتا کہ عقل اور جوہر لطیف سے انہیں کوئی ربط نہیں اور نہ جذب وکشش کواس سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ یہ ابتداہی سے تنہائی پسند رہے۔ باہرنکلنے، مجمع میں آنے سے گھبراتے تھے۔ لوگ ان کی اس کیفیت سے واقف تھے۔ اس لیے چھوٹے بڑے سب ان سے لطف لیتے تھے۔ صورت دیکھتے ہی ان پرفقرے چست ہونے لگتے تھے۔ قربان میاں کبھی خفا ہوتے کبھی رودیتے۔ لونڈے آنسودیکھ کرتالیاں پیٹنے لگتے اور جب یہ غصہ ہوکر کوسنے اورگالیاں دینے لگتے توبڑے بوڑھے ان سے لڑتے اورمارنے کودھمکاتے تھے۔

    ایسی دنیا میں جہاں بلاتفریق عمرسب ستانے کوتیار ہوں، گوشہ نشینی کیوں نہ بھائے؟ ہفتوں گذرجاتے اور اپنے جھونپڑے سے نہ نکلتے تھے۔ بس اسی گوشے میں انہیں آرام ملتا تھا۔ یہاں ان کی نانی رہتی تھیں۔ وہ غریب جب تک زندہ رہیں ہر طرح ان کی دلدہی اورنگرانی کرتی رہیں۔ انہیں کا احسان تھا کہ قربان میاں کو تھوڑا بہت سیناپروناآگیا۔ دن بھرمیں ایک کرتا، ایک پائجامہ یا ایک شلوار سی لیتے۔ دوچارآنے مل جاتے۔ روکھاپھیکا کھاکرپڑرہتے۔ بہت تکلیف ہوتی۔ ایک آدھ ہفتہ کوئی کام نہ ملتا۔ مجبور ہوکر لونڈوں کی ساری شرارتوں کوانگیز کرتے اور گاؤں کے بڑے بوڑھوں کے پاس جاکراپنا درد دکھ کہتے۔ کسی نہ کسی کوان کی زردصورت اورکانپتے ہوئے لبوں پررحم آہی جاتا۔ کوئی کچھ سینے کودے دیتا۔ کوئی کھانا کھلادیتا۔ کوئی دوچارپیسوں سے مدد کردیتاتھا۔

    عنفوان شباب اورشباب یونہی گذرا۔ اب عمرکاآخری حصہ تھا۔ جھونپڑی کا پھونس اوربانس کب کا موسمی تغیرات کی نذر ہوچکاتھا۔ دورچاربرس لیس پوت کے کسی طرح کاٹے، اب اتنابھی سہارانہ تھا۔ صرف کچی دیواریں، رات کی اوس اوردن کی دھوپ سے بچانے سے رہیں۔ بالکل خانماں خراب ہوگئے تھے۔ سلائی کا کام بھی چھوٹ چکا تھا۔ نہ توسوئی ہاتھ میں تھمتی تھی نہ تاگا ناکے میں پڑتا تھا اورنہ ڈوب سجھائی دیتے تھے۔ مزدوری اورمحنت۔ اس طرح کی محنت جس میں قوت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ان سے جوانی میں ممکن نہ تھی، بھلااب کیا کرتے؟ اب توبال سفید ہوگئے تھے۔ گوشت ہڈی کوچھوڑچکا تھا۔ جسم پرجھریاں پڑچکی تھیں۔ کس بل نام کوبھی نہ تھا۔ پھڑواچلانے، مٹی گوڑنے اور بورے ڈھونے کے لیے شیرکا پنجہ اورفولاد کے بازو اور گردن چاہئے۔ قربان میاں کی نسائی فطرت ان کے خیال سے گھبراتی تھی اورگھرمیں جھاڑودینا، چولھے میں آگ روشن کرنا، توے پرروٹی ڈال لیناجانتے تھے۔ مگر آبپاشی وآبیاری زراعتی ہندوستان کی ضروری مزدوری ان کے بس میں نہ تھی۔

    اس لیے جب پھونس کے جھونپڑے کے ساتھ ساتھ آنکھوں نے بھی جواب دے دیا، توقربان میاں نے حکیم صاحب کے ہاں پناہ لی۔ یہ پناہ بھی حکیم صاحب نے نہیں بلکہ حکیم صاحب کی بیوی نے دی تھی۔ حکیم صاحب بیچارے توراجپوتانہ کی ایک ریاست میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، ان کوقربان میاں کی کیا خبر؟ وہ تو صرف روپیہ کماکر گھربھیجنے کے ذمہ دارتھے۔ انہیں مٹکوں میں بند کرنا، زمین میں دفن کرنا یا سود پرچلانا یہ سب بیوی ہی کے سپردتھا۔ حکیم صاحب کی حیثیت ان محترمہ کے سامنے ویسی ہی تھی جیسی کسی سہمے ہوئے بچے کی ایک آتش مزاج معلم کے سامنے۔ وہ صرف الٹاسیدھا نسخہ لکھنا جانتے تھے۔ انہیں خانہ داری اورزمینداری کے کام کیا معلوم؟ ان دونوں محکموں کی افسراعلیٰ یہی تھیں اور ہونا بھی چاہئے تھا، اس لیے کہ وہ حکیم صاحب سے زیادہ عقل مند تھیں، ان سے زیادہ منتظم تھیں اوران سے زیادہ بولنے والی۔

    وہ گھر کے اندربیٹھی بیٹھی پیادوں پر حکومت کرتیں اوربغیر رسید دیے لگان وصول کرلیتی تھیں۔ جب حکیم جی آتے، قلمدان وزارت سپردہوتا۔ دن رات سوتے جاگتے رسیدیں کاٹناپڑتی تھیں۔ ذرا تھک کر دم لیتے، ڈانٹ پڑتی۔ ذرا سا رکتے، آنکھ دکھائی جاتی۔ ذرا ساالجھتے، بیوقوف بنائے جاتے۔

    ہاں توقربان میاں کوحکیم کی بیوی نے اپنے ہاں پناہ دی اورمکان کے مردانہ حصے میں قیام کرنے کوکہا مگریہ عنایت قربان میاں پررحم کھاکر نہیں کی گئی تھی۔ کہا توہمسایوں سے یہی کہ ’’بی بی مجھ سے اس موئے کی حالت نہیں دیکھی جاتی مگر اصل غرض یہ تھی کہ رات کوباہرسونے والا آدمی برخاست کردیاگیا تھا۔ قربان میاں اگرباہر رہیں گے تو مردانے حصے میں جھاڑو دیں گے۔ دن بھربازار کاکام کریں گے۔ سودا سلف لائیں گے۔ شام کومکان میں چراغ جلائیں گے اورشب کونگہبانی کریں گے۔ غرض سارے وہ کام کریں گے جو ایک دس روپیہ ماہوار کا چوکیدار اس حالت میں انجام دیتا۔ جبکہ ایک دوسرا ملازم دن کے کام کے لیے بھی الگ سے ہوتا۔ آخراتنے روپے بچیں گے کہ نہیں؟ پھرخوبی یہ کہ اگران میں سے کسی کام میں انہوں نے کوتاہی کی تو’’لعنت کاتوبڑا‘‘ گلے میں ہوگا۔ ہزاروں کوسنے، سرکا تاج ہوں گے اور احسان فراموشی کی مہرپیشانی پر ہمیشہ کے لیے ثبت کردی جائے گی!

    قربان میاں یہ سب سمجھتے تھے مگرپیری وخانمابربادی گلادبائے تھے۔ قیام کے لیے جگہ ملی، دوروٹیوں کا سہارا ہوا، سمجھے جنت مل گئی۔ جلدی جلدی اپنے کھنڈر سے ایک جھلنگاپلنگ، ایک پرانا گھڑا، ایک مٹی کا لوٹا، ایک سوراخ دار توا اور ایک پچی ہوئی المونیم کی پتیلی اٹھالائے۔ یہی ان کی بضاعت تھی اوریہی ساری عمرکی کمائی۔ بے چھپر کی دیواروں اور بن کواڑ کے مکان میں اب قربان میاں کی طرح ان کے لیے بھی جگہ نہ تھی۔

    اس نیے جائے قیام میں منتقل ہونے کے بعدقربان میاں نے حددرجہ تنہائی محسوس کی۔ اپنے کھنڈر کے شکستہ درودیوار دوستوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی گود میں یہ بچپنے میں کھیلے، پلے، بڑھے، جوان اوربوڑھے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے یہ ننگے بھی لیٹے تھے اورکپڑے پہن کربھی۔ ان پرسررکھ کر اکثرشب کی تاریکیوں میں روئے بھی تھے اوردن کی تنہائی میں گنگنائے بھی تھے۔ وہ قربان میاں کے احساسات وجذبات کواچھی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے ان کا اس وقت بھی خیرمقدم کیاتھا جب ان کا پیٹ بھرا تھا اورایسی حالت میں بھی جبکہ یہ تیسرے فاقے سے تھے۔ وہ بے حس وبے جان نہ تھے۔ اکثرشب کے وقت جب کوئی دوسرا سننے والا نہ ہوتا تو قربان میاں ان سے رازدل کہتے اورجب سب سے چھپ کرمگران کے سامنے اپنے خالق سے اپنی بے بسی اوربے کسی کا روناروتے اورفریاد کرتے تویقیناً وہ زبان حال سے آمین کہتے تھے۔

    حکیم صاحب کے مکان میں وہ بات کہاں؟ وہ توکاٹے کھاتاتھا۔ اس کی اجلی اجلی دیواریں، اس کی نئی نئی چھتیں سب کی سب بڑے بڑے دیدے نکال کر گھورتی تھیں، بالکل اس طرح جیسے وہ کہہ رہی ہوں کہ ’’اللہ تیری مجال کہ توہم میں رہے، نہیں جانتا ہم حکیم صاحب کی بیوی کے مکان کی دیواریں ہیں؟ تیرے میلے کچیلے کپڑے ہماری خوبصورتی میں کمی کرتے ہیں۔ تو ہم میں وہ بوپھیلارہاہے جوتیری طرح کاپھٹاپرانا پہننے والوں کے جسم سے آتی ہے! دور ہو، دورہو، ابھی نکل جا، ہمارے درمیان تیرے لئے جگہ نہیں۔‘‘

    قربان میاں اپنی دیواروں سے باتیں کرچکے تھے۔ وہ حکیم صاحب کی بیوی کے مکان کی بھی زبان سمجھتے تھے۔ ان کے غصے بھرے تیورپہچانتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے سب سے تاریک گوشہ اورسب سے مختصرحصہ اپنے لیے منتخب کیا اور بالکل سہمے ہوئے رہنے لگے۔

    مگرہروقت اورہرآن کاڈرجان گسل ہے۔ فطرت اسی خطرہ کے دفیعہ کے لیے رفیق اورساتھی کی متمنی ہوئی۔ دقت یہ ہے کہ رفیق انہیں کی طرح کا انسان ہوسکتا تھااوریہ انسان کی صورت سے گریزاں تھے۔ ان کے تجربہ میں وہ ان نئی دیواروں سے بھی زیادہ خطرناک تھے۔ دیواروں کا ستانا خاموش ستاناتھا۔ وہ نہ انگلیاں چمکاتی نہ منہ بناتی نہ چٹکیاں کاٹتی اورنہ فقرے کستی تھیں۔ انسان توان کی صورت دیکھتے ہی بھڑ کی طرح لپٹ جاتے تھے۔ آخرانسانی رفیق ودم ساز سے گریزبہتر نہ معلوم ہوتو اورکیاہو؟

    پھربھی ڈربری چیزہے۔ اس نے ساتھ نہ چھوڑامگراس سے زائدفطرت کی یہ خواہش کہ کوئی ساتھی ہو، ہمدرد ہو۔ جب یہ بازار سے پلٹیں تو گھرپرمنتظرملے۔ جب یہ کھاناکھائیں تو کوئی اس میں شریک ہونے والا ہو۔ جب یہ شب کواس نئی جائے قیام میں اس کی اجلی اجلی دیواروں کے درمیان لیٹیں تو کوئی ایسا ہو جس سے یہ اپنا درد دکھ کہہ سکیں۔ رہ رہ کر دل میں ہوک سی اٹھتی۔ جی چاہتا کہ یاتوکوئی غمگسار مل جائے یا کپڑے پھاڑکر چیختے پیٹتے کسی ایسی جگہ نکل جائیں جہاں لونڈے ہوں اورنہ حکیم جی کی بیوی!

    یہ کیفیت اس حد تک بڑھ گئی کہ اب راہ چلتے بھی وہ ادھر ادھر اس طرح دیکھتے جیسے کسی چیز کی جستجو ہے۔ کوئی گم کردہ شے ڈھونڈرہے ہوں۔ لونڈوں نے، جنہیں ہمیشہ ان کے معاملات سے دلچسپی رہتی، اسے تاڑلیا۔ ایک دن ایک عفریت سربازار ان کی ٹوپی اچک کرلے بھاگا۔ جب یہ چلاکر اس کے پیچھے لپکے تو وہ دور جاکر چیخ کربولا، ’’یہ ٹوپی اس وقت تک نہ ملے گی جب تک یہ نہ بتادوگے کہ کیا ڈھونڈتے ہو؟‘‘

    قربان میاں اس طرح ٹھٹک کرکھڑے ہوگئے جیسے دفعتاً زمین نے پاؤں پکڑلیے ہوں۔ ان کا مخفی ترین راز اس طرح عیاں ہوگیا۔ ظالموں نے دل کی بات پالی۔ کچھ نہ سمجھ میں آتاکہ کیاکریں۔ بالکل اسی طرح بوکھلاگئے جس طرح کوئی اچانک حملے سے بوکھلاجاتاہے۔ لونڈوں کوتواورلطف آیا۔ چاروں طرف وہ اوربیچ میں یہ۔ ان میں سے ہرایک کوئی شے زمین سے اٹھالیتا یا کسی چیز کانام لیتا اور پوچھتا، ’’اس کی تلاش ہے؟ یہ ڈھونڈھتے ہو؟‘‘ اورہرسوال پر ایسا قہقہہ پڑتا کہ بازارگونج اٹھتا۔

    یہ آنکھوں میں آنسوبھرے جھنجھلاکر ایک کی طرف بڑھتے، سب مل کر اس طرف کاحلقہ بڑا کردیتے اور پھریہی سوال کرتے، یہاں تک کہ مذاق سے بڑھ کرفحش پرپہنچے۔ انہوں نے ڈھیلے اٹھائے، وہ دوربھاگ گئے اورگالیاں بکنے لگے۔ آخر عاجز آکر وہیں سڑک پربیٹھ گئے اور گھٹنوں پر سررکھ کررونے لگے۔ ان کواس طرح روتے دیکھ کر ایک دکاندار کورحم آگیا۔ اس نے اپنی دکان سے کود کر اس لونڈے کوگرفتارکیا، جوان کی ٹوپی ایک چھڑی پررکھے غازی میاں کے جھنڈے کی طرح نچارہا تھا اورایک ٹیپ رسید کرکے ٹوپی چھینی اوربولا، ’’بدمعاش نہیں جانتا کہ پیدا ہوتے ہی قربان میاں کی عقل گم ہوگئی تھی؟ یہ غریب اسی کوہرجگہ ڈھونڈھتے پھرتے ہیں۔‘‘ لونڈوں نے اس پرقہقہہ لگایا اور ہنستے کودتے تالیاں بجاتے چل دیے۔ انہوں نے بھی آنکھوں سے آنسوپونچھے، ٹوپی لی اور مکان واپس آئے۔

    مگراس دن سے یہ معمول ہوگیاکہ لونڈے جہاں انہیں دیکھتے، چیخ کریہ ضرور پوچھتے قربان میاں! قربان میاں! عقل ملی؟ اورجب یہ خفا ہوکر انہیں مارنے دوڑتے یا انہیں گالیاں دیتے تو ہرایک خوب قہقہے لگاتا اور باربار یہی سوال کرتا۔ مگرظالم بچوں کی فطرت کے مطابق کوئی بھی اس درد کونہ سمجھتا جو اس جستجو میں اور اس تلاش میں پنہاں تھا۔

    اس باربار کی چھیڑنے قربان میاں کی تکلیف کواوربڑھادیا۔ جہاں پہلے کسک تھی وہاں زخم پڑا اورہروقت ٹھیس لگنے سے بالآخرناسورہوگیا۔ ان کی نظر جس طرف جاتی، تنہائی کی ڈراؤنی شکل دکھائی دیتی۔ دن ہوکہ رات، مکان میں ہوں کہ بازار میں، کام کررہے ہوں یا بیکاربیٹھے ہوں حددرجہ ڈرمعلوم ہونے لگا۔ اسی کے ساتھ ہمدرد کی خواہش، شریک غم کی تمنا، ساتھی اور رفیق کی آرزو بڑھنے لگی۔ بس اب دنیا میں ان کے لیے یہی ایک تلاش تھی اوریہی ایک جستجو۔

    ایک دن دوپہر کوجبکہ حکیم جی کی بیوی کام لیتے لیتے تھک کرسوگئی تھیں، قربان میاں اپنے بچپن کے رفیق اپنی نانی کے گھرمیں پہنچے۔ صرف چہاردیواری کھڑی تھی اوربے دروازہ کادردیدہ یعقوب کی طرح چشم براہ تھا ا۔ سے دیکھ کرانہیں اپنے دل میں وہی مسرت محسوس ہوئی جوطویل سفر سے واپسی پرکسی منتظردوست کو دیکھ کرہوتی ہے۔ تھوڑی دیر اس سے لپٹے رہے، پھراندرداخل ہوئے۔ دیواربارش کی وجہ سے کٹ کٹ کر گررہی تھی اورسیلن کی وجہ سے لونی بھی لگ گئی تھی۔ گویا زبان حال سے یہ کہہ رہی تھی کہ دیکھوگوتم نے بھی پیری میں ساتھ چھوڑدیا مگرمیں اب تک حق نمک ادا کررہی ہوں۔ یہ اس بے زبان کی شکایت کوخوب سمجھتے تھے۔

    سرجھکاکر محجوب کھڑے ہوگئے کہ ان کی نظر دفعتاً ایک گوشے پرپڑی۔ دیکھا توایک کتے کا پلالاغر، کالا، بدصورت کچھ زخمی سا پڑا ہے اورانہیں بہت خوف اورحیرت سے دیکھ رہا ہے۔ آنکھیں کہتی تھیں میں بھی سخت دل انسان کااسی طرح ستایاہوا ہوں جس طرح تم۔ خدارا تم ہی میری حالت زار پررحم کرو۔ آنکھوں کی یہ التجا ان کے دل میں اترگئی اور محبت کا وہ سوتا جومدتوں سے بندپڑا تھا، دفعتاً پھوٹ بہا۔ یہ تکلیف اورمسرت سے جھومتے ہوئے آگے بڑھے۔ جس چیز کی تلاش تھی، جس چیز کی جستجوتھی وہ آخرمل ہی گئی۔

    کتے نے ان کواپنی طرف آتے دیکھ کر بے بسی سے دانت نکال دیے مگریہ چمکارتے ہاتھ پھیلائے آگے بڑھتے گئے۔ وہ محبت کے تیورپہچان گیامگرتجربہ اتناتلخ تھاکہ دانت نکالے ہی رہا۔ انہوں نے اس کے غرانے کی پروا نہ کی بلکہ قریب پہنچتے ہی اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا اوراسے آہستہ آہستہ سہلاناشروع کیا۔ وہ محبت اوردرد سے ’’قوں قوں‘‘ کرکے پہلے توکراہا، پھر اطمینان ومسرت سے دم ہلانے لگا۔

    یہ بڑی دیرتک بیٹھے پیٹھ سہلاتے اور طرح طرح کی آوازیں منہ سے نکالتے رہے۔ وہ کبھی ان کے ہاتھ چاٹتا، کبھی دونوں اگلے پاؤں ان کی طرف بڑھاتا اور کبھی ان کے پاؤں پر سررکھ کرآنکھیں بند کرلیتا تھا۔ دونوں کے جسم میں محبت کی لہر برق کی طرح دوڑرہی تھی۔ دونوں کورفیق وغم خوار کی ضرورت تھی۔ دونوں نے درددل کی دواپائی!

    اس کتے کے پلے نے قربان میاں کی زندگی میں خاصا انقلاب پیدا کردیا۔ ان کے دل سے تنہائی کا خوف، ان کی آنکھوں سے جستجو کی کیفیت اوران کے چہرے سے ناکامی کی زردی جاتی رہی۔ اس کی جگہ اب مسرت ہی مسرت تھی۔ دل خوش تھا، آنکھیں مسکراتی تھیں اورچہرے پرسرخی پھرتی تھی۔ حکیم جی کی بیوی تین روٹی اِس وقت اورتین اُس وقت ایک پیالہ دال کے ساتھ دیاکرتی تھی۔ پہلے ان روٹیوں میں پیٹ نہ بھرتا تھا، اب ان میں سے ایک کتے کوکھلادیتے تھے پھربھی بھوک محسو س نہ ہوتی تھی، جیسے خوشی نے پیٹ بھی بھردیاہو۔ انسانوں کے سامنے اب بھی ہنستے ڈرتے تھے مگراپنے کتے کے سامنے کسی وقت پژمردہ نہ رہتے بلکہ ہرآن مسکراتے، ہروقت خوش رہتے تھے۔

    وہی کام جوپہلے جبراً اورقہراً کیے جاتے تھے، اب اس قدر پھرتی سے انجام دیتے تھے جیسے ساٹھ برس کے بوڑھے نہیں بلکہ بیس بائیس برس کے جوان ہیں۔ بازار سے جب کام کرکے پلٹتے تو ان کے چہرے سے وہی مسرت عیاں ہوتی تھی جودن بھر کی کمائی لے کر گھربیوی بچوں کے پاس پلٹنے والے مزدوروں کے چہرے پرہوتی ہے۔

    کتابھی ان کے آتے ہی اچھلتاکودتا۔ اس طرح ٹانگوں میں پھندے ڈالتا جس طرح چھوٹے بچے باپ کی ٹانگوں میں۔ کبھی ہاتھ چاٹتا کبھی قدموں پرلوٹتا، کبھی دوڑ کر چلاجاتا اور پھربلی کی طرح دبے پاؤں آتا اوران کے قریب پہنچتے ہی دفعتاًاچھل کرقلابازیاں کھاتا اوران کی ٹانگو ں میں پھنس کر گرپڑتا تھا۔ یہ بھی تھوڑی دیر اس کی یہ حرکتیں مسکرامسکراکر دیکھتے پھر پلنگ کی پائنتی کی طرف اشارہ کرکے کہتے، اچھالے بس، اب جاؤ اور اپنی جگہ بیٹھو۔ وہ تھوڑی دیربالکل ضدی بچوں کی طرح مچلتا اور اس طرح کی حرکتیں کرتا گویااس نے کچھ سناہی نہیں مگردوبارہ حکم پاتے ہی وہ نہایت متانت سے اٹھ کرکھڑ ا ہوجاتا۔ ان سے علیحدہ جاکرپیٹھ ہلاکے جسم کی گرد گراتا، پھرآہستہ آہستہ اپنی مخصوص جگہ پرجاتا اورزمین کودم سے جھاڑکربیٹھ جاتا۔

    لوگوں نے جودیکھا کہ قربان میاں میں اچھا خاصا انقلاب ہوگیااور وہ بجائے افسردہ رہنے کے مسرور دکھائی دینے لگے توحیرت ہوئی۔ بڑے بوڑھوں نے صرف ان سے پوچھ کرچھوڑدیا کہ بھئی کیاہے جوآج کل خلاف معمول خوش دکھائی دیتے ہو؟ مگرلونڈے بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ ان کے روزمرہ میں فرق آگیاتھا۔ اب یہ ان کے سوال پرخفا نہ ہوتے تھے، نہ بگڑتے تھے اورنہ مارنے کودوڑتے تھے۔ انہیں جستجو اورفکرہوئی کہ آخر معاملہ کیاہے۔ ٹوہ لگانے لگے۔

    ایک دن جب یہ گاؤں کے بازار سے کوئی سودا لے کر پلٹے تو گاؤں کا سب سے شریرلڑکا دبے پاؤں پیچھے ہولیا اور درونِ پردہ دیکھ کربغلیں بجاتا پلٹا۔ شام کوتمام لڑکوں نے بیٹھ کر مجلس شوری کی۔ اچھی خاصی دلچسپی کا مشغلہ اپنے ہاتھ سے اس طرح کھویانہیں جاسکتا تھا۔ قربان میاں کا کتا ان کی دلبستگی میں حارج تھا۔ اس کی شامت آئی۔ دوسرے ہی دن آتش باز کے پاس ایک روپیہ جمع کیاگیا اوراس سے چھچھوندریں بنانے کی فرمائش کردی گئی۔ ممکن تھا کہ کسی اور کا کام ہوتا تو دوچار روز ٹل بھی جاتا مگرلونڈے بلائے بے درمان۔ روپیہ دیتے ہی تقاضا شروع کردیا۔ آتش باز نے بھی اسی دن ان کی فرمائش کرکے گلوخاصی کی۔ چھچھوندریں پاتے ہی لونڈوں نے پھر کمیٹی کی۔ والنٹیر چنے گئے۔ جتھاتیارہوگیا۔ چھچھوندروں کے ہاربنے اورچپکے چپکے ہرایک کواس کے فرائض کی تلقین ہوئی۔

    دسرے دن صبح ہی سے مخبری شروع ہوگئی۔ قربان میاں گھنٹے دوگھنٹے کے لیے دروازے سے ٹلیں تو کام چلے۔ اس انتظار میں دوپہرہوگئی اور دن ڈھلنا شروع ہوا۔ لونڈے بھی کھاپی کے اطمینان سے آکرحکیم جی کے گھرکے قریب آکرجم گئے۔ ان کی قسمت دیکھئے کہ حکیم جی کی بیوی جو سوکراٹھیں تو۔۔۔ گھرمیں پہلے ایک ماما کی شامت آئی، پھرقربان میاں کا وجودِمعطل ان کے ذہن میں آگیا۔ بولیں، ’’ہے ہے وہ مواقربان پڑا سورہا ہوگا یا اپنے پلے سے منہ چٹواتاہوگا۔ نہ کوئی کام ہے نہ کاج، مفت کی روٹیاں توڑتاہے اورمیرا گھربھر نجس کرتاہے۔ ذری کوئی آواز تودو اس موئے کوکہ ابھی جائے اورسکھیا چمارن کوپکڑلائے۔ آٹھ دن سے دھان پڑا ہے۔ اب تک کوٹاہی نہیں گیا۔‘‘

    قربان میاں یقینی سورہے تھے مگرماما نے جوڈانٹ کرحکم سنایا تو جلدی سے آنکھ ملتے اٹھے اور گھبرائے ہوئے چمرٹولی کی طرف چلے۔ کتے نے جوگھرسے انہیں باہر نکلتے دیکھا، اپنی جگہ سے اٹھ کرکھڑا ہوگیا۔ پیٹھ ہلاکرجسم کی مٹی گرائی اور خوشی سے بھونکتادم ہلاتا ساتھ ہولیا۔ انہوں نے پلٹ کرپیار سے سرپرہاتھ پھیرا، بالکل اسی طرح جس طرح یتیموں کے سرپرہاتھ پھیرناچاہئے اورپدرانہ انداز سے بولے، ’’بیٹا! تم یہیں بیٹھو، گاؤں کے کتے لونڈوں کی طرح بڑے بدذات ہیں۔ پیچھے پڑجائیں گے تو جان بچانامشکل ہوجائے گی۔۔۔ پھرچلے آرہے ہو، نہ بیٹا! دیکھو سمجھادیا۔ تم تو سماعت ہی نہیں کرتے۔۔۔ بس یہیں بیٹھ جاؤ!‘‘

    یہ کہتے کہتے وہ مکان کے احاطہ سے باہرہوگئے۔ کتامایوس ہوکرآہستہ آہستہ اپنی جگہ واپس آیا۔ دیر تک مالک کے پلنگ اوربستر کوبغوردیکھاکیا۔ غالباًقصد تھا کہ اگرمکھی بھی اڑکر اس پرآبیٹھے تو اسے کھاڈالے، پھرچپکااپنی جگہ پردونوں اگلے پنجوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا۔ لونڈوں نے قربان میاں کوباہرجاتے دیکھ ہی لیاتھا۔ جب یہ یقین ہوگیاکہ اب وہ کافی دورنکل گئے ہیں تو آہستہ آہستہ مکان میں داخل ہوناشروع ہوگئے۔ جوسب سے آگے تھا، اس کے ہاتھ میں ایک رکابی میں چاول تھے۔ اس پر دال پڑی تھی اورایک بوٹی گوشت کی بھی لال لال خوب بھنی ہوئی رکھی تھی۔ کتے کی جبلت نے تو اجنبیوں کودیکھ کراسے بھونکنے پر مائل کیا مگربوٹی کی خوشبو نے زبان بند کردی۔ جب لقمہ تر منہ تک پہنچ چکا اورزمین پر پڑے ہوئے چاولوں پرگردن جھک گئی تو تین بڑے بڑے لونڈے قریب آگئے اورانہوں نے آہستہ آہستہ پیٹھ سہلانا شروع کی۔

    غریب جانور دوست سمجھ کردم ہلانے لگا۔ پچھلی شقاوتیں بھول گیا۔ قربان میاں کی نصیحت ذہن سے اترگئی۔ اپنی پوری جنس کی طرح حال کے آگے ماضی کا سبق سہوکرگیا۔ لڑکوں نے پیارکرتے کرتے گلے میں چھچھوندروں کاہارڈالا۔ کمر اورپیٹ میں بدھیاں پہنچائیں۔ دم میں گلدستہ باندھا او رآہستہ سے دیاسلائی جلاکردکھادی۔ چھچھوندریں جلیں۔ کتابوکھلایا۔ گھبراکر اس نے دم پرمنہ مارا۔ منہ بھی جھلسا اورگلے کے ہارمیں آگ لگ گئی۔ اب کیا تھا، لونڈے ہنستے ہوئے دالان میں چڑھ گئے۔ کتا چیں پیں کرتا ہوا صحن بھرمیں دوڑنے لگا۔ جتنی ہوا لگتی، جس قدر تیز دوڑتا، چھچھوندروں کی آگ بڑھتی جاتی تھی۔ ایک کے بعدایک دغتی جاتی، وہ اتنا ہی بیتاب ہوتا تھا، بدحواس ہوتا تھا۔ کبھی زمین پر ٹھوکر کھاکر گرپڑتا تھا۔ اپنے جسم کوکاٹتا تھا۔ کبھی لڑکوں کی طرف دوڑتا تھا۔ وہ پہلے ہی سے لکڑیوں سے مسلح آئے تھے۔ جب ان کے پاس آتا، ایک چھڑی رسید کردیتے۔

    حکیم صاحب کے مردانے مکان میں اس کے چیخنے اورلڑکوں کے قہقہے کی آواز گونج ہی رہی تھی کہ قربان میاں آگئے۔ اپنے کتے، اپنے محبوب، اپنے ساتھی کوجلتا دیکھ کر دیوانے سے ہوگئے۔ فورا ًکتے سے لپٹ گئے اور اپنے ہاتھوں سے جلتی ہوئی چھچھوندروں کوبجھانے لگے۔

    کتادرد سے تڑپ رہا تھا۔ یہ ایک ہاتھ سے اسے پکڑے تھے اور دوسرے ہاتھ سے چھچھوندروں کوبجھارہے تھے۔ وہ درد اورتکلیف سے بے چین ہوکر اپنے جسم کی طرح ان کے ہاتھ کو بھی کاٹتا تھا، نوچتا تھا مگرانہیں کچھ ہوش نہ تھا۔ یہ آگ بجھانے میں ہمہ تن منہمک تھے۔ اس کی تکلیف کے آگے انہیں اپنی تکلیف مطلقاً محسوس نہ ہوتی تھی۔ یہ اسی طرح غافل تھے کہ آگ ان کے کپڑوں میں بھی لگی۔ کرتا جلنے لگا۔ لونڈوں نے چیخنا شروع کیا۔ و ہ کتے کوجلتادیکھ سکتے تھے، اس کی تکلیف پرہنس سکتے تھے مگرانسان لاکھ براسہی ہم جنس تھا۔ اسے جلتا کیوں کردیکھتے۔ وہ زورزور سے چیخنے لگے مگرقربان میاں اپنے کتے کے بچانے میں محوتھے۔ ان کے لیے وہ کتا نہ تھا۔ ان کے کان توصرف اپنے رفیق کی چیخ پر لگے تھے۔ ان کی آنکھیں توصرف اسی کی پیاری صورت دیکھنے پرمامور تھیں۔ انہوں نے اپنی جانب دیکھا اور نہ لڑکوں کی فریادسنی۔ آگ بڑھی۔ ہوا کے ایک جھونکے نے پائجامے کو بھی کرتے کا ساتھ دینے پرمجبور کردیا۔ بس غفلت کی آخری حدتھی۔ جسمانی تکلیف نے دماغ کو چونکادیا مگرکب؟ جبکہ جان بچانا ممکن ہی نہ تھا۔

    اب خود بھی کتے کی طرح خاک پرلوٹ رہے تھے۔ ادھروہ درد سے کراہ کراہ کردم توڑرہاتھا، ادھریہ سوزش سے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے تھے۔ دفعتاًکتے کی آگ بجھ گئی۔ شعلہ حیات خاموش ہونے لگا۔ وہ اسی حالت میں کھسکتاکھسکتا قربان میاں کے قریب آیا۔۔۔ اورقریب آیا۔۔۔ اورقریب آیا۔ منہ پرمنہ رکھا۔ حسرت سے مالک کا منہ دیکھا۔ زبان سے ان کے چہرے اور پیشانی کا پسینہ چاٹا۔۔۔ انہوں نے آخری سانس لیتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔ اپنے رفیق کو سینے کے قریب دیکھا۔ جلا ہوا ہاتھ زمین سے بلندکیا۔ نقاہت سے نہ اٹھتاتھا۔ کسمسائے، تڑپے، کراہے، اٹھاہی لیا۔ آہستہ آہستہ کتے کی گردن کی طرف لے چلے اور اس کی ’’نجس‘‘ گردن میں حمائل کردیا۔ دونوں رفیقوں نے ایک دوسرے کو بڑی حسرت سے دیکھا اورایک ساتھ دنیا سے، جہاں ان کے لیے ہمیشہ بلاکی تنہائی رہی، آنکھیں پھیرلیں۔ تھاتو حق رفاقت یہی مگر۔۔۔ حکیم صاحب کی بیوی نے غسال سے تاکید کی کہ غسل سے پہلے قربان میاں کا منہ پاؤپھربیسن سے سات مرتبہ دھویاجائے۔

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 34)

      • ناشر: اردو کلاسک، ممبئ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے