Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ

MORE BYترنم ریاض

    آج اس نے پھر ویسا ہی خواب دیکھا۔وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ کیوں۔۔۔؟۔۔۔ کیوں دیکھتی ہوں میں یہ خواب۔ کہتے ہیں خواب میں انسان اپنی ادھوری خواہشات کو تکمیل کے عمل تک پہنچاتا ہے۔۔۔ میری تو کوئی خواہش ادھوری نہیں۔۔۔ کوئی کمی نہیں زندگی میں۔ ایک مکمل انسان ہوں میں۔۔۔ پھر؟

    وہ کسی ہرے بھرے راستے سے گزر رہی تھی۔ دونوں طرف سرسبز پیڑ تھے۔ اور بڑی بڑی شاخیں راستے پر جھکی آ رہی تھیں۔ وہ ان شاخوں کو ہاتھ کی ہلکی سی جنبش سے ذرا سا پرے کر دیتی۔ کبھی گہری سانس لے کر اُن کی خوشبو سے محظوظ ہو کر مسکرا دیتی۔ کتنی ہی دیر تک وہ اس خوبصورت راستے پر چلتی رہی۔ نرم نرم گھاس اس کے پیروں کو گدگداتی رہی۔ ہر آٹھ دس قدم کے فاصلے پر کوئی پھولوں سے لدی کیاری اُس کا استقبال کرتی۔۔۔ وہ پھولوں کو انگلیوں کے پوروں سے چھوتی اور قہقہہ لگا کر ہنستی ہوئی آگے بڑھ جاتی۔

    تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رک گئی اور خوشی سے چیخ پڑی۔ گھنے پتوں اور بے شمار پھولوں سے لدی ایک ڈال اس کے شانے کے برابر جھکی ہوئی تھی اور اس کے آخری سرے کے بالکل قریب سنہرے رنگ کے نرم نرم تنکوں کا ایک گھونسلہ بنا ہوا تھا اور اس میں ایک نوزائدہ انسانی ّبچہ لیٹا ہوا تھا۔ اُس کا لباس کسی خوش رنگ پرندے کی طرح تھے۔ ہرا سرخ، نیلا، اُودا، نارنجی سبز، روپہلا اور کئی اور رنگوں کا جن کے نام وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ بچہ اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ بھی مسکرائی اور اسے دیکھتی رہی۔ بچہ اسے دیکھ کر ہمکنے لگا۔ اسے اعتبار نہ ہو رہا تھا کہ ّبچہ اسی کے لیے ہمک رہا ہے۔ وہ دائیں بائیں دیکھنے لگی کہ کیا یہ ّبچہ واقعی اُس کی گود میں آنا چاہتا ہے یا کسی اور کے لیے مچل رہا ہے۔ کئی لمحے اسی ادھیڑبن میں گزر گئے۔ اُس کے علاوہ وہاں اور کوئی نہ تھا۔ پھر جب بچےّ کی خود سپردگی کے انداز سے اُسے یقین ہو گیا کہ ّبچہ اُسی کے پاس آنا چاہتا ہے تو فرطِ مسرت سے اس کی آنکھیں بھر آئیں اور ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ اُس نے رنگ برنگی پوشاک والے مسکراتے ہوئے بچےّ کو گود میں لے لیا اور سینے سے لگا کر کئی منٹ تک ہچکیاں لے لے کر روتی رہی۔ رونا ذرا تھما تو اس نے دائیں بائیں دیکھا۔پرندے درختوں کی ڈالیوں پر بیٹھے نہایت سریلے نغمے گا رہے تھے۔ ہوا میں دل نواز سا ترنم تھا۔ نوزائیدہ بچّہ اُس کے کندھے سے لگا تھا اور کبھی کبھی سر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھ کر مسکرا بھی دیتا تھا۔

    پھر جانے کب وہ بچے کو لیے ہوئے گھر پہنچ گئی۔ آج اس کی خوابگاہ بہت پہلے کی طرح سجی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ جب وہ اپنے پسندیدہ رنگوں کے پردوں اور چادروں سے اسے سجایا کرتی تھی۔ ان دنوں اُس کے ہاں پہلے بچے نے جنم لیا تھا۔ آج خوابگاہ سے اُس کی پسندیدہ مصنوعی خوشبو کی مہک بھی آ رہی تھی۔ ریشمی پردے ہوا میں سرسرا کر اُس کا استقبال کر رہے تھے۔ پلنگ کے قریب روپہلی دھات سے بنا چھوٹا سا پالنا، جالی کی جھالر والے ننھے سے بستر سے مزئیّن تھا۔ اُس کے ساتھ گھنگھروؤں والی زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ گھونسلے والا ّبچہ پالنے میں لیٹا ہمک ہمک کر مسکرا رہا تھا۔

    اس بچے نے اس وقت وہ لباس پہن رکھا تھا جو اُس نے اپنے پہلے بچے کی امید کے دنوں میں بنا تھا۔ یہ لباس اس پر کتنا زیب دیا کرتا تھا۔ اس کے بعد اس کی بیٹی نے بھی کئی دفع یہ کپڑے پہنے تھے۔ طوطے کے پروں جیسے ہرے رنگ کے اون سے بنا گیا سویٹر، موزے اور ٹوپی۔

    وہ اپنے کمرے میں کھڑی پالنے میں لیٹے بچےّ کو ایک ٹک دیکھ رہی ہے۔ وہ اس کے پاس آنے کو بیقراری سے پیر مار رہا ہے۔ ننھی ننھی گول گول باہیں اس کی طرف بڑھا بڑھا کر مسکرا رہا ہے۔ نوزائیدہ بچےّ اس طرح دیکھ دیکھ کر مسکراتے نہیں ، جس طرح وہ آنکھوں میں محبت کے سمندر لیے اس کی گود میں جانے کے لیے بیقرار ہو رہا ہے۔ اُس نے پھر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔ کیا یہ بچہ میرے لیے ہی۔۔۔ مسکرا رہا ہے،میرے لیے بےچین ہے۔ اُس کے سینے میں ممتا کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ اس نے اپنے سینے سے آنچل کھینچ کر پلنگ پر پھینک دیا۔ اس کا گریباں بھیگ بھیگ گیا تھا۔ نمی رِس رِس کر قمیص کے دامن تک جانے لگی تو اُس نے بیقرار ہو کر دونوں باہیں پالنے کی طرف بڑھا دیں ۔ اُس کے ہاتھ بچے کے قریب پہنچنے ہی والے تھے کہ کسی اونچی آواز سے اُس کا دل اس کے سینے میں اچھل کر دھڑکنے لگا۔ اُس نے گھبراہٹ میں آنکھیں کھول دیں۔

    اس کا بیٹا دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ آج اتوار ہونے کے باوجود نہا بھی چکا تھا اور باہر جانے کو تیار نظر آ رہا تھا۔

    آپ ابھی تک سو رہی ہیں مماں۔وہ بُرا سا منھ بنا کر بولا۔

    ہمیں سکول کے لیے جگاتے وقت روز کہتی ہیں کہ دیر سے اٹھتے ہو۔ مجھے دوستوں کے ساتھ گھومنے جانا تھا اور اب تک ڈرائیور نہیں آیا۔

    مما نے اسے چھٹی دے دی ہو گی بھیا۔

    اس کی بیٹی اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔شب خوابی کے چغہ نما لمبے سے لباس میں وہ ایک دم بڑی بڑی سی لگ رہی تھی۔

    پاپا جب شہر سے باہر جاتے ہیں تو یہ ایسے عجیب عجیب حکم صادر کیا کرتی ہیں۔

    اس نے ماں کی طرف ایک نظر پھینک کر منھ پھیر کر کہا۔

    میں حالانکہ ڈرائیو کر سکتا ہوں مگر Under Age ہوں ورنہ آپ سے کون پوچھتا۔ بیٹے کے ماتھے پر کئی بل ابھر آئے تھے۔

    وہ مسہری پر اُٹھ کر بیٹھ گئی اور سینے پر ہاتھ دھر کر اپنے بے طرح دھڑکتے دل کی دھڑکن اعتدال میں لانے کے لیے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ پھر سر ذرا سا نیچے کو خم کر کے وہ بائیں جانب کھڑکی کی طرف مڑی۔ کھڑکی اور مسہری کے درمیان چھوٹی سی تپائی پر ایک نہایت پرانا ٹیلیفون رکھا ہوا تھا۔

    یہ ٹیلیفون تو لابی میں ہوا کرتا تھا۔ مہینہ بھر پہلے خریدا ہوا اُس کے پسندیدہ رنگ کا ٹیلیفون غائب تھا۔

    میں نے آپ کا فون اپنے کمرے میں Shiftکر لیا ہے اور اپنا لابی میں لگا لیا ہے۔ یہ یہاں لے آیا ہوں ۔ ہر آنے والے کی نظر لابی میں پڑتی ہے۔ پھر یہاں تو کوئی آتا نہیں۔ بیٹے نے ماں کی نظروں کو دیکھ کر کہا۔

    وہ چپ چاپ اپنے بچوّں کو دیکھتی رہی۔پھر سرکے پیچھے پڑے سرہانے درست کر کے نیم دراز ہو گئی۔ اس نے منھ دیوار کی طرف موڑ لیا اور آنکھیں موند لیں ۔

    اور ہاں آج ہم گھر reset کریں گے۔ اس کی بیٹی کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

    آپ نے یہ پرانے زمانے کا پالنا ابھی تک کمرے میں رکھا ہے۔ ہم تو بڑے ہو گئے ہیں۔ اس میں اب ہم Fitنہیں ہوں گے۔ بیٹا بولا تو دونوں بہن بھائی قہقہہ لگا کر ہنسے۔ اسے چھت پر رکھوا دیجئے۔ کسی کو ضرورت ہو تو دے دیجئےگا۔ بیٹی کہہ رہی تھی۔

    نہیں اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور چیخ کر کہا ۔پھر پالنے پر ہاتھ دھر کر دوبارہ آنکھیں موند لیں ۔ بچوّں نے اسے کچھ حیرت سے دیکھا۔

    لو یہ پھر سو گئیں۔بیٹا ہاتھ ماں کی طرف اٹھا کر بولا اور کمرے سے باہر کی طرف مڑا۔

    اوہ فو۔۔۔ بیٹی بھی باہر نکل گئی۔ کئی لمحے ایسے ہی گزر گئے۔۔۔ وہ ساکت لیٹی نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

    کچھ دیر بعد اس کے ہونٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے