Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روشن

MORE BYعصمت چغتائی

    اصغری خانم دو باتوں میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ ایک تو دین و دھرم کے معاملے میں اور دوسرے شادیاں کروانے میں۔ ان کی بزرگی اور پارسائی میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ سب کو یقین تھا کہ انہوں نے اتنی عبادت کی ہے کہ جنت میں ان کے لیے ایک شاندار زمرد کا محل ریزرو ہو چکا ہے۔ حوریں اور فرشتے وہاں ان کی راہ دیکھ رہے ہیں کہ کب خدا کا حکم ہو اور وہ وضو کابدھنا، جائے نماز اور تسبیح سنبھالے برقع پھڑ کائے جنت کی دہلیز پر ڈولی سے اتریں اور وہ انہیں دودھ اور شہد کی نہروں میں تیرا کر پستے اور بادام کے گھنے درختوں کی چھاؤں میں ٹہلاتے ہوئے زمرد کے محل میں بٹھا دیں اور ان کی سیوا پر جٹ جائیں۔

    اصغری خانم کا غصہ ہمیشہ ناک پر دھرا رہتا تھا۔ اگر ذرا بھی کسی جنتی بیوی نے چیں چپڑ کی تو وہ اس کی سات پشت کے مردے اکھاڑنے لگیں گی۔ اور وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے گی اور دوزخ کی آگ کی پناہ لے گی۔

    دور دور خانم کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ انہیں ساری دنیا کا کچّا چٹّھا معلوم تھا۔ مجال تھی جو کوئی ان کے سامنے بڑھ چڑھ کر بولے۔ غازی پور سے لے کر لندن تک کی ہر بدکار عورت کا بھید جانتی تھیں۔

    ’’اے ہے موئی بیاہی تیاہی ڈہڈونے نگوڑے بادشاہ کو پھانس لیا‘‘ وہ مسز سمسن اور ایڈورڈ ہشتم کے عشق پر تبصرہ کرتیں، ’’منہ جلی کو لاج بھی تو نہ آئی۔ میرا بس چلتا تو تخصمی (جس نے تین خصم کئے ہوں) کا چونڈا جھلس دیتی۔

    مگر مصیبت یہ تھی کہ ان کا بس نہیں چل سکتا تھا۔ لندن سات سمندر پار تھا۔ اور ان کو گھٹنوں میں آئے دن ٹیسیں اٹھتی رہتی تھیں۔ چونڈا جھلسنے کیسے جاتیں۔ اتنا دم ہوتا تو حج نہ کر آتیں۔

    مگر شادیاں کرانے میں تو وہ ایسے ایسے معر کے مار چکی تھیں کہ دنیا میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ قریب قریب ناممکن قسم کی شادیاں کرانے کا انہوں نے ریکارڈ قائم کر دیا تھا جسے وہ خود ہی آئے دن توڑا کرتی تھیں۔ بس اسی وجہ سے لوگ ان کی بڑی آؤ بھگت کیا کرتے تھے۔ کنواریاں کس گھر کا بوجھ نہیں ہوتیں۔ جس گھر میں چلی جاتیں، لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے، سر جھکا کر ان کی گالیاں سنتے، طعنے سنتے۔ انہوں نے ایسی ایسی ڈراؤنی شکل کی لڑکیوں کے نصیب کھولے تھے کہ لوگوں پر ان کی ہیبت بیٹھ گئی تھی۔ خاص طور پر یہ کنوارے لڑکے تو ان سے ایسے کانپتے تھے جیسے وہ موت کا فرشتہ ہوں۔ نہ جانے کس پر مہربان ہو جائیں اور اپنے بٹوے میں سے کوئی پچھل پائی نکال کر سر پر منڈھ دیں۔ جہاں کوئی شادی کے لائق نظر پڑ جاتی، وہ پنجے جھاڑ کر اس کے ماں باپ اور سارے محلے ٹولے والوں کے پیچھے لگ جاتیں اور شادی کے قابل لڑکے تھرا اٹھتے مگر وہ شادی کرا کے ہی دم لیتیں۔ کچھ ایسا پینترا چلتیں کہ الٹا لڑکا دہلیز پر ناک رگڑنے لگتا۔ لوگوں کا کہنا تھا ان کے قبضے میں جنات ہیں جو ان کا ہر حکم بجا لاتے ہیں۔

    مگر ایک جگہ ان کے سارے ہتھیار کند ثابت ہوئے۔ تمام تعویذ گنڈے چوپٹ ہوگئے۔ ان کی اپنی ممیری بہن توفیق جہاں کی بیٹی صبیحہ کو چوبیسواں سال لگ چکا تھا اور ابھی تک کوار کوٹلہ چنا ہوا تھا۔ اس سے چھوٹی عقیلہ منگی ہوئی تھی۔ عقیلہ کی پیٹھ کی میمونہ کالج میں پڑھتی تھی۔ سب سے چھوٹی منّو تھی۔

    قبر کے بھی چار کونے ہوتے ہیں۔ توفیق جہاں کی قبر چنی کھڑی تھی۔ آج تک خاندان میں نہ کوئی باہر کی لڑکی آئی تھی نہ گئی تھی۔ کھرے سیدوں کے گھرانے کو داغ لگانے کی کسے ہمت تھی۔ لڑکوں کا تو دن بدن کال پڑتا جا رہا ہے۔ کسی کی تنخواہ ٹھیک ہے تو مڈی میں کھوٹ، کوئی کمبوہ ہے تو کوئی پٹھان۔ ایک بیچارے انجینئر کی شامت آئی، پیغام بھجوا دیا بعد میں پتہ چلا کہ ہے موئے انصاری ہیں۔ اصغری خانم نے ستیہ گرہ شروع کر دی، طوفان کھڑا کر دیا۔ ان کے جیتے جی بیٹی انصاریوں میں جائے، ایسی بھاری چھاتی کا بوجھ ہے تو کوٹیاں میں ڈال دو۔

    یہ جب کی بات ہے جب صبیحہ کو میٹھا برس لگا تھا۔ اس کے بعد جب چھ برس چھ صدیوں کی طرح چھاتی پر سے دندناتے گزر گئے تو اصغری خانم کو اپنی پالیسی نرم کرنی پڑی اور یہ طے پایا کہ اچھے خاندان کا لڑکا ہو تو کوئی زیادہ بڑا اندھیر نہیں۔ یہ بات بھی نہیں تھی کہ صبیحہ کوئی بدصورت ہو کہ کانی کھتری اور جاہل مرار میاں کا لٹھ ہو، نہ سانولی سلونی۔ بوٹا ساقد، نازک نازک ہاتھ پیر، کمر سے نیچے جھولتی ہوئی چوٹی، سوئی سوئی آنکھیں جن میں قدرتی کا جل بھرا ہوا تھا، جی بھر کے دیکھ لو تو نشہ آ جائے۔ ہنس دیتی تو موتی سے رل جاتے۔ آواز ایسی میٹھی کہ نوحے پڑھتی تو سننے والوں کی ہچکی بندھ جاتی۔ اس پر سونے پر سہاگہ علی گڑھ سے پرائیویٹ میٹرک پاس کر چکی تھی۔

    مگر نصیب کی بات تھی، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ورنہ کہاں صبیحہ اور کہاں روشن۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں عورت مرد کا جوڑا آسمانوں پر طے ہو جاتا ہے۔ اگر صبیحہ اور روشن کا جوڑ بھی آسمان پر طے ہوا تھا تو ضرور کچھ گھپلا ہو گیا۔ فرشتوں سے کچھ بھول چوک ہو گئی۔ یہ دھاندلی آسمانی طاقت نے جان بوجھ کر اصغری خانم کو ستانے کے لیے تو ہرگز نہ کی ہوگی۔

    مگر الزام سارا اصغری خانم کے ماتھے تھوپ دیا گیا۔ لڑکا لڑکی صفا چھوٹ گئے اور وہ دھر لی گئیں۔ صمد میاں کو کسی نے کچھ نہ کہا کہ وہ بہن کی بانہہ پکڑ کے اسے عذاب دوزخ جھیلنے کو جھونک آئے۔ سارا گھر منہ پیٹ کے رہ گیا کسی کی ایک نہ چلی۔

    ہائے اصغری خانم کہیں منہ دکھانے کی نہ رہیں۔ کیا آن بان شان تھی بیچاریوں کی۔ مجال تھی جو محلہ میں ان کے بغیر کوئی کاج ہو جائے۔ کسی کی بیٹا کا کن چھیدن ہوتا تو انھیں کو دبوج کر بیٹھنے کے لیے بلوایا جاتا۔ کسی کے بال بچہ ہوتا، وہی زچہ کا پیٹ تھام کر سہارا دیتیں۔ پھر توفیق جہاں تو ان کی سگی ممیری تھیں اور روشن کو شیشے میں اتارنا کوئی کھیل نہ تھا۔ اس لیے معاملہ انہی کو اپنے ہاتھوں میں لینا پڑا۔

    صمد میاں چھ سال انگلستان رہ کر لوٹے تو بیٹے کی سلامتی کی خوشی میں توفیق جہاں نے میلاد شریف کروایا تھا۔ بریلی والے میاں خاص طور پر میلاد پڑھنے تشریف لائے تھے۔ سب عورتیں اندر والے گول کمرے میں بیٹھی ثواب لوٹ رہی تھیں۔ لڑکیاں بالیاں چک سے لگی کُھس پُھس کر رہی تھیں کہ اتنے میں صمد میاں روشن کے ساتھ داخل ہوئے۔ وہ شاید میلاد شریف کے بارے میں بھول ہی چکے تھے۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید لوٹ جاتے مگر میاں صاحب نے گھور کر دیکھا تو پکڑے گئے۔ مجبوراً دونوں ایک طرف بیٹھ گئے۔

    ’’ہائے یہ کون ہے؟‘‘ لڑکیوں نے روشن کو دیکھ کر کلیجے تھام لیے۔ صمد میاں کے سارے دوستوں کو دیکھا تھا۔ کمبخت سب ہی تو چمرخ مرگھلے اور گھونچو تھے۔ مگر روشن اپنے نام کی طرح روشن تھے کہ آنکھیں چکا چوند ہو گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے۔ جیسے دیوار پھاڑ کر آفتاب سوا نیزے پر آ گیا۔ کیا تیز تیز جگمگاتی آنکھیں جو ہنستے میں یوں کھو جاتیں کہ جی گم ہو جاتا۔ دانت گویا موتی چن دیے ہوں۔ چوڑے چکلے شانے، لمبی لمبی بت تراشوں جیسی سڈول انگلیاں اور رنگت جیسے مکھن میں زعفران کے ساتھ چٹکی بھر شہابی رنگ ملا دیا ہو۔ پنچوں نے دیکھا کہ صبیحہ کے سلونے چہرے پر یکایک ہلدی بکھر گئی۔ گھنی گھنی پلکیں لرزیں اور جھپک گئیں۔ ہونٹ میٹھے میٹھے ہو گئے۔ لڑکیوں کو مکاری سے مسکراتا دیکھ کر بگڑ بیٹھی۔

    صمد میاں اور روشن ننگے سر بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر ایک ڈاڑھی والے بزرگ غرّائے، ’’اے صاحبزادے اتنے بھی جنٹلمین نہ بنئے۔ میلاد شریف کے موقع پر ننگے سر بیٹھنے والوں کے سر پر شیطان دھولیں مارتا ہے۔‘‘

    روشن نے سہم کر صمد کی طرف دیکھا۔ انہوں نے جھٹ جیب سے رومال نکال کر چپاتی کی طرح سر پر منڈھ لیا۔ روشن نے بھی ان کی نقل کی۔ ہوا سے رومال اڑا تو بندر کی طرح سر پر ہتھیلی جما کر بیٹھ گئے۔ ایسی بھولی بھولی شکل لگی کہ لڑکیوں کی پارٹی میں گدگدی رینگ گئی۔ صبیحہ کے مکھڑے کی ہلدی میں ایک دم گلال گھل گیا اور نارنجی رنگ پھوٹ نکلا۔

    ڈاڑھی والے حضرت مونچھ ڈاڑھی صفا چٹ ولایت پلٹ لڑکوں کی گھات میں بیٹھے تھے اور اپنی قہر آلود نگاہیں دونوں پر گاڑ رکھی تھیں مگر یہ دونوں بھی چوکنّے بیٹھے تھے اور بالکل بندروں کی طرح ان کی نقل میں آنکھیں بند کر کے جھوم جھوم کر سن رہے تھے اور سر ھن رہے تھے۔ بڑے میاں نے درود پڑھ کر انگلیوں کے پوروں کو چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ جھٹ صمد میاں نے ان کی نقل کی اور روشن کو کہنی ماری۔ انہوں نے بھی بوکھلا کر جلدی سے انگلیاں چوم لیں ایسے بھونڈے پن سے کہ لڑکیوں کے دل اچھلنے لگے۔ بڑے میاں کا جی خوش ہو گیا۔ وہ انہیں بڑے فخر سے بھیگی بھیگی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔ سید کا بیٹا انگلستان کیا، امریکہ بھی چلا جائے، رہے گا کھرا سیّد مگر لڑکیوں کو خوب معلوم تھا کہ ان لوگوں کو خاک کچھ یاد نہیں۔ یونہی ملّاؤں کی طرح بدبد ہونٹ ہلا رہے ہیں۔ ان کی اس شرارت پر اتنی بری طرح ہنسی کا حملہ ہوا کہ اصغری خانم نے دور سے پنکھے کی ڈنڈی دکھا کر دھمکایا تب کہیں جا کر ہنسی نے دم توڑا۔

    میلاد شریف کے خاتمے پر جب سلام پڑھا گیا تو سب کھڑ ہو گئے بڑے میاں نے محبت سے لڑکوں کی طرف دیکھ کر سلام پڑھنے میں شریک ہونے کا اشارہ کیا۔

    ’’پڑھو میاں، خاموش کیوں ہو۔‘‘

    ’’جی! جی!‘‘

    خدا کے حضور میں جو دل سے نکلے، وہی اسے منظور ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے روشن کو ایسے گھورا کہ وہ سہم کر ساتھ دینے لگے۔

    صمد میاں نے بھی ایک تان کچھ ’’اولڈمین ردر‘‘ سے سروں میں لگائی مگر روشن نے سنبھال لیا۔ کیا بھاری بھرکم پرسوز آواز تھی کہ بڑے میاں پر تو رقت طاری ہو گئی۔ ولایت پلٹ لڑکوں سے بدظن تمام بزرگ اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر رہ گئے۔

    ’’ارے صاحب سچا مسلمان چاہے کافروں میں رہے چاہے مسجد میں، اس کے ایمان پر داغ نہیں پڑتا۔ ماشاء اللہ روشن میاں کے گلے میں عقیدے کا سوز بھرا ہوا ہے۔‘‘ بڑے میاں نے آستین کے کونے سے آنکھیں صاف کر کے فرمایا اور روشن کے چہرے پرنور کی چمک دمک دیکھ کر کھل اٹھے۔

    صبیحہ کی کٹورہ جیسی آنکھیں چھل چھل برس اٹھیں۔ ٹکٹکی باندھے وہ انہیں تکتی رہ گئی۔ جب لڑکیوں نے قاعدے کے مطابق اسے چھیڑا تو وہ جھوٹوں کو بھی نہ بگڑی۔ زندگی میں پہلی بار ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی پرانا جان پہچان کا مل گیا ہو۔

    صمد میاں جب گھر میں آئے تو ہر ایک کا چہرہ روشن کے پرتو سے جگمگا رہا تھا۔ سوائے صبیحہ کے، جس نے چاروں طرف سے گھیر کر سوالوں کی بھر مار کر دی۔ کون ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔

    ’’اے کس کا لڑکا ہے؟‘‘ صغرا خانم نے لگا میں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

    ’’اپنے باپ کا۔‘‘ صمدنے لاپرواہی سے ٹال دیا اور چائے باہر بھجو انے کے لیے کہا۔

    ’’اے ہے لڑکے ہر وقت کا مذاق نہیں بھاتا۔ یہ بتا اس کے باپ کون ہیں؟‘‘

    ’’ہیں نہیں۔ تھے۔ فورسٹ آفیسر تھے۔ تین سال ہوئے ڈیتھ ہوگئی ان کی۔‘‘

    ’’انا للہ و انّا الیہ راجعون! کیا کرتا ہے لڑکا؟‘‘ نانی جی نے پوچھا۔

    ’’کون سا لڑکا؟‘‘ صمدنے جاتے جاتے پلٹ کر پوچھا۔

    کون! ’’اے یہی تیرا دوست۔‘‘

    ’’روشن؟ ڈاکٹر ہے۔ ایم ڈی کی ڈگری لینے میرے ساتھ ہی گیا تھا، پھر وہیں انگلینڈ میں نوکری کر لی۔ کچھ کھانے کو بھجوا دیجیے مگر میرے کمرے میں بھجوائیے گا۔ باہر درجن بھر بڈھے بیٹھے ہیں، سب ہڑپ کر جائیں گے۔ یہ بڑھاپے میں لوگ اتنے ندیدے کیوں ہو جاتے ہیں؟‘‘

    صغرا خانم فوراً خم ٹھوک کر میدان میں پھانڈ پڑیں تیر تلوار سنبھالے اور ہلّہ بول دیا۔

    ’’اے صمد میاں! جیسے تم ویسے تمہارا دوست۔ اس سے کیا پردہ؟ ادھر ہی گول کمرے میں بلا لو۔‘‘ وہ آنکھوں میں رس گھول کر بولیں۔ ان دنوں سیّدوں میں بھی کانا پردہ شروع ہو گیا ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھوں کی آنکھ بچا کر لڑکیاں کھلے منہ نمائش میں جائیں، مشاعروں میں شریک ہوں سہیلیوں کے بھائیوں اور بھائیوں کے دوستوں سے بڑی بوڑھیوں کی رضامندی لے کر ملیں مگر سڑک پر جاتے وقت تانگہ میں پردہ باندھا جاتا ہے۔ بزرگوں کو دکھانے کے لیے۔ صمد روشن کو گول کمرے میں لے آئے۔ صبیحہ کے سوا سب وہیں چائے پینے لگے۔

    صبیحہ کو صغرا خانم کمرے میں گھیرے چومکھے حملے کر رہی تھیں۔ ان کا بس چلتا تو جہیز کا کوئی بھاری زرتار جوڑا پہنا دیتیں۔ مگر صبیحہ حسب عادت بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو لیے رو رہی تھیں۔ گھر میں جب کوئی موٹا مرغا آتا اسے یونہی سجایا جاتا۔ بیچاری کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو جاتے، منہ لٹک جاتا اور ناک پر پسینہ پھوٹ نکلتا اور شکل چھوٹی بلّی کی سی ہو جاتی۔ جب سے کئی پیغام آ کر پھر گئے تب سے اسے اور بھی دہشت ہونے لگی تھی۔ روشن جیسا ہینڈسم اور کماؤ بربھلا کیسے پھنسے گا۔ ذرا کوئی لڑکا کسی قابل ہوا تو خاندان والے ہی رشتہ کا حق وصول کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔ پھر ملنے والوں کی باری آتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی شادی بھی ہو چکی ہو۔ دو بچے ہوں!

    مگر اصغری خانم کچّی گولیاں نہیں کھیلتی تھیں نہ انہوں نے دھوپ میں چونڈا سفید کیا تھا۔

    ’’لونڈا خیر سے کنوارا ہے، بیاہے مرد کا ڈھنگ ہی اور ہوتا ہے۔‘‘ دوسرے انہوں نے پہلے ہی صمد سے پوچھ لیا تھا۔

    ’’بیوی بچّے سنگ ہی ہیں؟‘‘

    ’’کس کے؟ روشن کے۔ ارے اس گدھے کے بیوی بچے کہاں، ابھی تو خود ہی بچہ ہے مجھ سے دو سال چھوٹا ہے۔‘‘ بس اصغری خانم نے چٹ حساب لگا لیا کہ صبیحہ سے چار سال بڑا ہوا۔ خوب جوڑی رہے گی۔ اس سے کم فرق ہو تو چار بچوں بعد بیوی میاں کی اماں لگنے لگتی ہے۔ ویسے مرنے والے تو اصغری خانم سے بیس برس بڑے تھے۔ ہائے کیا عشق تھا اپنی دلہن جان سے! مگر جب اصغری خانم سجا بنا کر صبیحہ کو گول کمرے میں لائیں تو روشن جا چکے تھے۔ اصغری خانم کا بس چلتا تو چیختی چلاتی ان کے پیچھے لپکتیں۔ مگر صمد میاں کی انہوں نے خوب ٹانگ لی۔

    ’’جوان بہنیا کی پال کب تک ڈالوگے۔ کیا سفید چونڈے میں افشاں چنی جائے گی۔ تم ہی کچھ نہ کروگے تو کون کرے گا؟‘‘

    ’’کون میں؟‘‘ صمد خواہ مخواہ چڑ گئے،‘‘ مجھ سے خود تو اپنی شادی ہو نہیں رہی ہے، دوسروں کی کیا کروں گا؟‘‘

    ’’مذاق میں ہر بات کو ٹال دیتے ہو۔ آج اس کا باپ زندہ ہوتا تو۔۔۔‘‘ افسری خانم ٹسر ٹسر رونے لگیں، ’’آخر کیا ہوگا ان چار چٹانوں کا۔ توفیق نگوڑی کو ہول دل کے دورے نہ پڑیں تو اور کیا ہو۔‘‘

    ’’کون سی چٹانیں؟‘‘ صمد میاں انجینئر تھے۔ انہیں چٹانوں، پہاڑیوں سے بڑی دلچسپی تھی۔

    ’’اے میاں اب بنو مت۔ اللہ رکھے اب تم اس قابل ہو اپنے دوستوں میں سے ڈھونڈھو کوئی۔‘‘

    ’’بھئی میں ان جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔‘‘ وہ ٹال کر چل دیے۔

    مگر آندھی ٹلے طوفان ٹلے اصغری خانم کو کون ٹالے؟ آتے جاتے ٹانگ لیتیں۔ پھر انہیں ایک انوکھی ترکیب سوجھی۔ وہ فوراً کسی جان لیوا اور انجانے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ اور عین اس وقت جب روشن صمد میاں سے ملنے آئے، ان پر سخت بھیانک قسم کا دورہ پڑ گیا۔ اتنی زور زور سے آہیں بھریں کہ بیچارے بدحواس ہو گئے۔ جھٹ سے نوکر کو بھیج کر اپنی ڈسپنسری سے بیگ اور انجیکشن منگوائے۔ بڑی دیر تک دیکھتے بھالتے رہے۔ اصغری خانم آخری وقت میں بھلا صبیحہ کا ہاتھ کیونکہ چھوڑ دیتیں۔ وہ ان کے سرہانے سہمی بیٹھی رہی کہ کہیں چور پکڑ نہ لیا جائے۔ انہیں خاموش دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ اصغری بوا کی چال پکڑی گئی۔

    ’’کیا بیماری ہے؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    ’’یہ پوچھئے کون سی بیماری نہیں ہے۔ گردوں کی حالت خراب ہے، معدہ قطعی کام نہیں کرتا۔ دل بس ذرا سا دھڑک رہا ہے۔ آنتوں میں زخم ہیں۔ پھیپھڑوں کے نیچے پانی اتر آیا ہے۔‘‘ انہوں نے صمد کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ صبیحہ نے سنا تو ہنسی نہ روک سکی۔ اصل مرض کی طرف تو انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

    ’’اماں ہٹاؤ بھی اتنی بیماریاں ہوتیں تو زندہ کیسے رہ سکتی تھیں اور زندہ بھی کیسی، سارے خاندان پر چابک پھٹکارتی ہیں۔‘‘ صمد بولے۔

    ’’یہی تو میں سوچ رہا ہوں یہ زندہ کیسے ہیں۔ کچھ ایسی لیپا پوتی ہوتی رہتی ہے کہ کھنڈر کھڑا ہے۔ ڈاکٹری سے بڑھ کر کوئی طاقت کام کر رہی ہے۔‘‘

    اصغری بوا ٹھنکیں اور بدک اٹھیں، ’’اوئی نوج۔۔۔ دور پار۔ اے لو میرے دشمن کا ہے کو لب گور ہوتے۔ اے میاں تم ڈاکٹر ہو کہ نرے سلوتری۔ اے چولہے میں جائیں تمہاری دوائیں۔ موئی فرنگیوں کی دوائوں میں دنیا بھر کی قلتیں ہوتی ہیں۔ تُھو۔‘‘ وہ بڑبڑائیں۔

    ’’بس اللہ پاک عزت آبرو سے اٹھا لے۔ اے لڑکے ٹھیک سے بیٹھ۔ نگوڑیو کچھ شربت پانی لاؤ کہ گدھیوں کی طرح کھڑی منہ دیکھ رہی ہو۔ اے بچے کے بہنیں ہیں تیری۔‘‘ اچانک صغرا خانم نے پینترا بدلا۔

    ’’ایں! جی دو۔ دو بڑی بہنیں۔ ایک بیوہ ہے۔‘‘ روشن نے سنبھل کر وار روکا۔

    ’’چہ ہے ہے۔ اور دوسری کہاں بیاہی ہے؟‘‘

    ’’کانپور میں سول انجینئر ہیں ان کے۔۔۔‘‘

    ’’اے کانپور ہی میں تو اپنے تقی میاں کی خلیا ساس رہویں ہیں۔ کیا نام ہے اللہ رکھے بہنوئی کا۔‘‘

    ’’ایس این کچلو۔‘‘ صمد میاں بولے،

    کیوں کیا کچھ بنوانے کا ارادہ ہے۔‘‘

    ’’ہاں اپنی قبر بنواؤں گی۔ اچھا تو تم لوگ کشمیری ہو۔‘‘ بیچاری کچھ بجھ گئیں۔ ’’یہ سیف الدین کچلو کے خاندان سے کچھ ہے میل۔‘‘

    ’’جی وہ میرے چاچا کے دوست تھے۔‘‘

    روشن کے جانے کے بعد تڑپ کر مریضہ اٹھ بیٹھیں۔

    ’’بھئی سوچ لو کشمیری ہیں۔‘‘

    ’’ہاں اور اس سے پہلے جو پیغام آیا تھا وہ لوگ کمبوہ تھے۔ بس یہی دیکھتی رہو۔ ارے سب انسان برابر ہیں۔ پاک پروردگار نے سب کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ مسلمانوں میں ذات پات چھوت چھات نہیں ہوتی۔‘‘ توفیق جہاں بگڑنے لگیں۔

    ’’بھئی مجھے یہ صبیحہ کے نخرے پھوٹی آنکھ نہیں بھاتے۔ ادھر وہ آیا اور ادھر بنو منہ تھوتھا کر بھاگیں۔ جی چاہا لگائوں چڑیل کے دو چانٹے۔‘‘

    مگر صبیحہ کیا کرتی۔ روشن کے آتے ہی وہ کمرے میں بھاگ جاتی۔ یوں سب کے سامنے گھور کر دیکھتی تو نہ جانے وہ کیا سوچتے۔ دروازے کی آڑ سے مزے سے جی بھر کے دیکھ سکتی تھی۔ اب تو علاج کے لیے وہ بلا ناغہ آنے لگے۔ اصغری خانم کچھ ایسی ترکیب چلتیں کہ صبیحہ کو پاس روک لیتیں۔ اور بے چارے روشن تو ایسے جھینپو تھے کہ صبیحہ بھی شیر ہو گئی۔ انہیں ایک نظر بھر کے اپنی کالی بھونرا آنکھوں سے دیکھتی تو ان کے ہاتھ میں انجکشن کی سوئی کانپنے لگتی۔ وہ ہنس پڑتی تو گھبرا کر بچوں کی طرح ناخن کترنے لگتے۔ تب وہ اور بھی دیدہ دلیر ہو جاتی۔

    ’’ڈاکٹر صاحب ہماری بلی کا جی اچھا نہیں۔‘‘

    ’’کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔ بیچاری کھوئی کھوئی سی رہتی ہے۔‘‘

    ’’اوہو۔ معلوم ہوتا ہے بیچاری کا دل ٹوٹ گیا ہے۔‘‘

    ’’ارے واہ۔ کیوں؟‘‘

    ’’آپ روٹھ گئی ہوں گی۔‘‘ وہ دبی زبان سے کہتے۔

    ’’اجی ہاں، میں کیوں روٹھتی؟‘‘ صبیحہؔ کالی کالی پلکیں جھپکاتی۔

    ’’تو پھر ڈرتی ہوگی آپ سے۔‘‘

    ’’واہ کیا میں اتنی ڈراؤنی ہوں۔‘‘

    ’’ڈراؤنی چیزوں سے تو ڈرپوک ڈرتے ہیں!‘‘

    ’’اور بہادر؟‘‘

    ’’کالی کالی آنکھوں سے۔‘‘

    دونوں انگریزی میں نوک جھونک کیے جاتے تو اصغری خانم کو گھبراہٹ ہونے لگتی۔ بھلا گٹ پٹ کر کے بھی کہیں پیار کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ موئی کافروں کی زبان میں ’’لیفٹ رائٹ کوئک مارچ‘‘ کے سوا اور کیا ہوتا ہے؟ وہ ایک دم بیچ میں کود پڑتیں، ’’اے روشن! میرے چاند، ذرا میری بالوشاہیوں پر نیاز تو دے دے۔ تیرے خالو میاں کی برسی ہے۔‘‘ وہ فوراً ہوشیاری سے رشتہ لگاتیں۔

    ’’کون میں؟‘‘ روشن بوکھلا گئے۔

    ’’آپ بھی حد کرتی ہیں اصغری خالہ۔ ان سے فاتحہ پڑھوا کر اپنی عاقبت خراب کرنے کا ارادہ ہے۔ بھلا انہیں کیا خبر کہ فاتحہ کس چڑیا کا نام ہے۔ ایک آیت بھی نہ یاد ہوگی۔‘‘ صبیحہ اڑانے لگی۔

    ’’اچّھا ملانی جی آپ بیچ میں نہ بولیں۔‘‘ روشن چڑ گئے۔

    ’’ارے صاحب چھوڑیے۔ ہمیں معلوم ہے۔ آپ اور صمد بھیا میں کیا کچھ فرق ہے؟ وہ بھی تو صاحب بہادر بن گئے ہیں۔‘‘

    ’’خالہ جی آپ روشن سے فاتحہ پڑھوا رہی ہیں؟‘‘ صمد نے قہقہہ لگایا۔

    ’’اے غارت ہو کل مونہو۔ لعنت ہو۔ موئے آج کل کے لونڈے ہیں کہ نگوڑے سب کے سب بے دین۔‘‘ صغرا خانم بالوشاہیوں کا تھال اٹھا کر دالان میں لے گئیں۔ مگر بیچاری کی فکر دور نہ ہوئی۔

    ’’اے توفیق جہاں۔‘‘

    ’’ہاں کیا ہے؟‘‘ توفیق جہاں نے پنکھے سے مکھی کو دھمکا کر جواب دیا۔

    ’’اے میں کہوں یہ آج کل کے لڑکوں کے نکاح کیسے پڑھے جاویں گے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اے انہیں۔ آمنتو بھی تو نہیں آتی۔‘‘ آمنت باللہ ایک آیت ہوتی ہے جو نکاح کے وقت دولہا کو پڑھنی پڑتی ہے، جس میں وہ اقرار کرتا ہے کہ میں خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی بھیجی ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اس آیت کو پڑھے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔ ’’قاضی جی بولتے جاتے ہیں اور دولہا دہراتا جاتا ہے۔

    بس بہن اب تو ایسے ہی نکاح ہو رہے ہیں۔‘‘ توفیق جہاں بولیں۔

    ’’مگر اب اس نیاز کا کیا ہو؟‘‘ وہ فکرمند ہو گئیں۔

    ’’کیسی نیاز؟‘‘

    ’’ارے بھئی میں نے تو جھوٹ موٹ کہہ دیا تھا کہ ان کی برسی ہے۔ یہ منّت کی نیاز ہے۔ لڑکا خود نیاز دے جب ہی پوری ہوگی۔‘‘

    ’’اے چلو ادھر۔ ایسی کوئی منت نہیں ہوتی۔‘‘ توفیق جہاں نے ٹالنا چاہا۔ ’’نہیں جی! تم تو کسی بات کو مانتی ہی نہیں ہو۔ خیر پھر سہی۔‘‘ اور وہ خود دوپٹہ سر پر منڈھ کر بدبد نیاز دینے لگی۔

    دوسرے دن روشن آئے تو جھٹ پوچھا، ’’کیوں رے تو نے قرآن ختم کیا تھا؟‘‘

    ’’جی؟ نہیں تو، ایک بار انگریزی میں پڑھا تھا تھوڑا سا۔ تو۔۔۔‘‘ روشن ہکلائے۔

    ’’ہے ہے۔۔۔ یہ موئی لکڑ توڑ زبان میں کیسا قرآن؟ لڑکے دیوانہ تو نہیں ہوا۔‘‘

    ’’تو صمد بھیا نے کون سا پڑھ لیا ہے۔ ساری عمر انگریزی اسکولوں میں رہے۔ کالج میں فرصت نہ ملی۔ اس کے بعد انگلینڈ چلے گئے۔‘‘

    مگر صبیحہ خود ہر رمضان کے مہینے میں پانچ قرآن ختم کرتی تھی۔ روزے نماز کی پابند تھی۔ حالانکہ صمد کہتے تھے۔ وہ نازک بدن بننے کے لیے فاقے کرتی تھی۔ توبہ توبہ!

    سوت نہ کپاس کولہو سے لٹھم لٹھا! روشن کی آنکھوں سے دل کے راز کا پتہ بچے بچے کچل چکا تھا، مگر زبان نہ جانے کیوں گنگ تھی۔ کبھی بیٹھے بیٹھے ایک دم آنکھوں میں غم کا اتھاہ سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا اور سر جھکا کر اٹھ کر چلے جاتے۔ صبیحہ کی طرف ایسی ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھتے جیسے وہ کسی دوسری دنیا میں کھڑی ہو، درمیان میں فولادی سلاخیں ہوں اور کالے دیو کا پہرا۔ صبیحہ کے مکھڑے پر غرور اور اطمینان کا نور پھوٹنے لگا تھا۔ جیسے منزل پر پہنچ کر آرام سے چھاؤں میں بیٹھ گئی ہو۔ ساری انجانی کسک اور تنہائی مٹ کر گھر وندا جگر مگر کرنے لگا ہو۔

    مگر دقت یہ تھی کہ لڑکے کا یہاں کوئی ہے نہیں، پھر پیغام کیسے منگوایا جائے۔ آج تو شادیاں ایسے ہی ہوتی ہیں کہ دو جنوں کا ایک دوسرے پر جی آ گیا۔ دوستوں نے پیغام دیا۔ یاروں نے شادی کردی۔ اصغری خانم کو ایسی ٹکڑہ توڑ شادیوں سے نفرت تھی مگر زمانے کے نئے رنگ ڈھنگ دیکھ کر نئی وضع کی شادیوں سے بھی انہوں نے روپیٹ کر سمجھوتہ کر لیا تھا۔ پہلے پہل جب نصرت اور خلیقہ نے ایسی چٹ پٹ شادی کی تھی تو انہوں نے بڑا شور مچایا تھا۔ مگر پھر انہیں اپنی پالیسی نرم کرنا پڑی۔

    ادھر روشن بھوندو تھے۔ ادھر صبیحہ بھی ذرا چنٹ ہوتیں تو کبھی کا انہیں ڈکار چکی ہوتیں۔ کاش اسے کوئی چھوٹی پیاری سی بیماری لگ جاتی تو روشن اس کا علاج کرتے کرتے خود مرض مول لے بیٹھتے۔ اصغری خانم گھیر گھیر کے مرغی کو ڈربے میں پھانسنے کی کوشش کرتیں مگر اپنے منہ کی کھا کر رہ جاتیں۔

    ’’اے لڑکی تیرے سر میں آدھے سر کا درد ہو وے ہے۔ علاج کیوں نہیں کرا لیتی ڈاکٹر سے؟‘‘ وہ صبیحہ کو رائے دیتیں۔

    ’’اے واہ خالہ جی میرے سر میں کاہے کو ہوتا درد۔‘‘ وہ بگڑنے لگتی گدھی۔

    ’’پہلے تو ہو وے تھا اب بھلی چنگی ہو گئی ہو تو مجھے نہیں خبر۔‘‘

    وہ صبیحہ کی صحت سے جل کر کہتیں۔ ’’دیکھ تو بیٹا روشن کیسی جھلس کر رہ گئی ہے بچی۔‘‘

    ’’ارے خالہ جی ان کی تو رنگت ہی سیاہ بھٹ ہے۔ کہیے تو کھال کھینچ کر دوسری چڑھا دوں پلاسٹک سرجری سے۔‘‘

    ’’جی ہاں بڑے آئے کھال کھینچنے والے۔ ہم کالے ہی بھلے۔‘‘

    ’’اوئی کالی کدھر ہے لونڈیا۔ ہاں گیہواں رنگت ہے۔‘‘ اصغری بوا پریشان ہو کر کہتیں۔

    ’’جی ہاں ادھر کچھ دنوں سے امریکہ سے گیہوں بھی کالا ہی آ رہا ہے۔‘‘ روشن چھیڑتے۔

    ’’ہاں بس ایک آپ ہی زمانے بھر میں گورے ہیں، ہونہہ پھیکے شلجم!‘‘ صبیحہ چڑجاتی۔

    ’’آپ تو نمک کی کان ہیں۔ چلیے کچھ تو مزہ آ جائے گا۔‘‘ وہ چپکے سے کہتے۔

    صغرا خانم بدمزگی مٹانے کو جلدی سے بات بدلتیں، ’’اے کالی گوری رنگتیں سب اللہ کی دین ہیں۔ پرسوں کہہ رہی تھی سر بھاری ہے۔ ویسے تیرے بال بھی تو جھڑ رہے ہیں۔ بیٹا کوئی بال بڑھانے کی دوا بتاؤ۔‘‘

    ’’ارے خالہ جی بہت بال ہیں۔ ہاں کہیے تو دماغ کو بڑھانے کے دوچار انجکشن لگا دوں۔‘‘

    ’’آہا ہا بڑے آئے سلوتری جی۔‘‘ اور روشن کا چہرہ ہنستے ہنستے صبیحہ کے گلابی آنچل کو مات کرنے لگتا۔

    صغرا خانم اس کچر پچر سے اداس ہو کر بڑی زور زور سے کراہنے لگتیں۔ ایک دن انہوں نے صمد کو گھیر کر بات کر ہی ڈالی۔

    ’’اے بھیا کوئی پیغام نہ ایغام۔‘‘

    ’’کیسا پیغام؟‘‘

    ’’اے روشن کا۔ اس سے کہو اپنی بہن بہنوئی سے پیغام بھجوائے۔‘‘

    ’’مگر خالہ جی روشن۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہاں بیٹے مجھے سب معلوم ہے۔ مگر اب زمانہ بدل گیا ہے، ہزاروں شادیاں ہو رہی ہیں، کب تک لڑکی بٹھائے رکھیں گے۔ توفیق جہاں کا دل کوئی دن اور کام دے گا۔ پھر دونوں میں اللہ رکھے چاؤ بھی ہے۔‘‘

    ’’مگر۔۔۔ خالہ جی‘‘

    ’’بیٹے! تم اللہ رکھے سات سمندر پار رہے، تمہیں کیا معلوم دنیا کتنی بدل گئی۔ سیّدوں کی بیٹیاں کن کن کو گئیں۔ سرفراز میاں کی لڑکی نے تو زہر کھا لیا۔ اب اللہ کی مرضی یہی ہے تو جہالت کی باتوں میں پڑنے سے کیا حاصل۔‘‘

    ’’مگر۔۔۔ میں سوچوں گا۔‘‘ صمد میاں چکرائے سے جاکر باہر پڑ گئے۔ اس انقلاب کی انہیں امید نہ تھی۔ دنیا سے دور وہ کتنے جاہل رہ گئے جبکہ ان کے بزرگ تک اتنے روشن خیال ہو چکے تھے۔ ان کا دل غرور سے بھر گیا۔ شام کی گاڑی سے انہیں سائنس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ اب وہاں سے لوٹ کر ہی سب کچھ ہوگا۔

    ادھر اصغری خانم نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر کوئی اور موقع ہوتا تو آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔ یہاں بیٹی بیاہنی تھی اس لیے توفیق جہاں کو کہہ سن کر پٹا لیا کہ صبیحہ بیکار وقت برباد کرنے کے بجائے اگر کچھ کام سیکھنے لگے تو کیسا رہے؟ طے ہوا کہ روشن میاں کی ڈسپنسری میں نرسنگ سیکھنے چلی جایا کریں۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور صبیحہ نرسنگ سیکھنے جانے لگی، جس کا سبق صبح سے لے کر رات کے سنیما کے آخری شو تک چلتا رہتا۔ اور صبیحہ چست چالاک نرس کے بجائے دن بدن اس جانے پہچانے مرض میں کھوتی گئیں جو جنم جنم سے مرد عورت کو سونپتا آیا۔ روشن کے سوئٹر بنے جانے لگے اور کمرے میں ان کی قمیص، ان کے موزے بکھر سے گئے۔ بس چودہ طبق روشن ہو گئے۔

    جیسے ہی شکار گرتا ہے، شکاری جو مکر گانٹھے جھاڑیوں میں دبکا ہوتا ہے، ایک ہی جست لگا کر آ دبوچتا ہے اور گلے پر چھری رکھ دیتا ہے۔ اصغری خانم نے بھی ساری بیماری دور پھینکی اور دہم سے اکھاڑے میں آن جمیں۔ جھپا جھپ جہیز سلنے لگا، بڑی دیغوں پر سے لحاف توشک کے انبار اتار کر قلعی ہونے لگی۔ ڈیوڑھی پر سنار بیٹھ گیا کہ سامنے نہ بنواؤ تو موا اپلے تھوپ دے گا۔ بی سیدانی مچلے کی پوٹ سنبھال کر طوی چمپا اور گوکھرو توڑنے لگیں۔ گھوکھرو کے ہر کنگورے پر لب بھرکے دعائیں دیتی جاتیں۔ گوئیاں سہاگ اور بنرے یاد کر کر کے کاپیوں میں اتارنے لگیں۔ گورے دولہا اور سانولی دلہن پر گیت جوڑے جانے لگے۔

    ’’اے بھی باپ کا نام روشن تو بیٹے کا؟‘‘ صغرا خانم فکرمند ہو کر پوچھتیں۔

    ’’جوشن‘‘ کوئی شوخ سہیلی چھیڑتی اور صبیحہ جل کر اس کی بوٹیاں نوچنے لگتی۔

    ’’اے بھی انہیں اپنی کلو رانی ہی پسند ہے، تم لوگ کا ہے کو جلی مرتی ہو۔‘‘ صغرا خانم ڈانٹتیں اور صبیحہ آنکھوں میں خوابوں کے جمگھٹے لیے نرسنگ سیکھنے بھاگ جاتیں۔

    مگر کسے خبر تھی قسمت یہ گل کھلائے گی۔ پل بھر میں چمکتا سورج الٹا تو ابن جائے گا۔ وہی روشن جو کل تک چودھویں کے چاند کو شرما رہے تھے، لوٹ پوٹ کر کھڑے ہوئے تو کالا دیو! اور اس کالے دیونے پلک جھپکاتے میں اونچے اونچے محلوں کو چکناچور کر دیا۔ صغرا خانم کے سارے نئے پرانے مرض ایک دم ان پر ٹوٹ پڑے۔ جب صمد میاں کا نفرنس سے جم جم لوٹے تو گھر میں جیسے کوئی میت ہو گئی ہو۔ سناٹا بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ صغرا خانم کا ایک کو سنا زمین تو ایک آسمان۔ زمرد کا محل ساتویں آسمان پر لرزا اور ایک دم پھس سے بیٹھ گیا۔ قلعی کی دیغوں پر پھر لحاف توشک لد گئے۔ دھنک کی پنڈیاں الجھ کر جھونج بن گئیں۔ سنار ڈیوڑھی سے دھتکار دیا گیا اور جس نے سنا منہ پیٹ لیا۔

    ’’آخر ہوا کیا۔ کچھ معلوم تو ہو؟‘‘ صمد میاں نے پوچھا۔

    ’’ارے اس چھتیسی سے پوچھو۔ جو چڑھ چڑھ کے دیدے لڑانے جاتی تھی۔‘‘

    توفیق جہاں نے زانو پیٹ لیا، ’’حرافہ۔‘‘

    مأخذ:

    نقوش،لاہور (Pg. 471)

      • ناشر: محمد طفیل
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے