Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کنواری

کرشن چندر

کنواری

کرشن چندر

MORE BYکرشن چندر

    میگی ایلئیٹ ۸۰ برس کی پروقار خاتون ہیں، بڑے قاعدے اور قرینے سے سجتی ہیں۔ یعنی اپنی عمر ، اپنا رتبہ، اپنا ماحول دیکھ کر سجتی ہیں۔ لبوں پر ہلکی سی لپ اسٹک، بالوں میں دھیمی سی خوشبو، رخساروں پر روژ کا شائبہ سا، اتنا ہلکا کہ گالوں پر رنگ معلوم نہ ہو، کسی اندرونی جذبے کی چمک معلوم ہو۔ ہر شام ان کی لاغر کلائی کا کنگن بدل جاتا ہے۔ میگی ایلئیٹ کے پاس چاندی کے چھ سات کنگن ہیں، جنہیں وہ بدل بدل کے پہنتی ہیں ۔ کسی بھی مرد کو اپنے قریب دیکھ کر میگی ایلئیٹ آج بھی اچانک گھبرا جاتی ہیں، پھر رک کر کچھ عجیب طرح سے شرما کر مسکراتی ہیں جیسے یہ مسکراہٹ دیکھنے والے سے اپنا بدن چرا رہی ہے اس مسکراہٹ کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہےکہ مس میگی ایلئیٹ اپنی طویل عمر کے باوجود ابھی تک کنواری ہیں۔ ان کےتبسّم میں اک عجیب ان چھوئی سی کیفیت ہے۔

    میگی ایلئیٹ بَیرو نٹ کریم بھائی کے خاندان میں ستائیس برس کی عمر سے آگئی تھیں۔ وہ کارنوال کی رہنے والی تھیں۔ بَیرونٹ کریم بھائی انہیں لندن سے اپنا سکریٹری بنا کے لائے تھے اور میگی ایلئیٹ نے بھی بمبئی میں جانا اس لئے پسند کر لیا کہ وہ انگلینڈ میں اپنی محبت کی بازی ہار چکی تھیں۔ وہ اس تکلیف دہ ماحول سے دور بھاگ جانا چاہتی تھیں جہاں انہیں اپنی محرومی کا احساس کسی پالتو کتّے کی طرح ہر دم اپنے پیچھے پیچھے تعاقب کرتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ لندن چھوڑ کر بمبئی آگئیں مگر سکریٹری کی حیثیت سے زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ کیونکہ ابھی محبت کا احساس نیا نیا تھا اس لئے وہ بَیرونٹ کریم بھائی سے ملاقات کرنے کے لئے آنے والے مردوں سے بلا ضرورت تلخی کا سلوک کر بیٹھی تھیں۔ بَیرونٹ کریم بھائی نے انہیں سکریٹری کے عہدے سے الگ کر دیا مگر نرم دل کے آدمی تھے اس لئے انہوں نے میگی ایلئیٹ کو مسزکریم بھائی کی سکریٹری بنا دیا۔

    کئی برس میگی ایلئیٹ مسز کریم بھائی کی سکریٹری رہیں جب مسز کریم بھائی کی وفات ہو گئی تو انہیں مسز کریم بھائی کے بچّوں کی گورنیس بنا دیا گیا، بَیرونٹ کریم بھائی مر گئے۔ بچّے جوان ہو گئے لڑکیوں کی شادی ہوچکی وہ خاندان سے باہر چلی گئیں مگر میگی ایلئیٹ خاندان کے اندر ہی رہیں۔ اب وہ بَیرونٹ کریم بھائی کے سب سے بڑے لڑکےارشاد بھائی کی بیوی سکینہ کو انگریزی پڑھانے اور مغربی آداب سکھانے پر مامورتھیں اور ان دنوں بَیرونٹ کریم بھائی کے خاندان کے ساتھ بمبئی سے مسوری آئی ہوئی تھیں کیونکہ گرمیوں میں بَیرونٹ مرحوم کا سارا خاندان مسوری آتا تھا۔ ڈفل ڈوک کے مشہور دیوداروں والی گھاٹی پر دو منزلہ کریم کاٹج انگریزی گھاس والے لان اور انگریزی پھولوں والے قطعوں اور سلیٹی بجری والی روشوں اور سکینہ کریم بھائی کی اونچی سوسائٹی والی پارٹیوں کی وجہ سے بے حد مشہور تھا۔ مسوری کلب کی ممبری آسان تھی مگر سکینہ کریم بھائی کی دعوتوں میں بلایا جانا بہت مشکل تھا اس کے لئے بڑی تگڑم کرنا پڑتی تھی میں چونکہ تاش کا عمدہ کھلاڑی ہوں اور سکینہ کو برج سے عشق ہے اس لئے میں اپنی دو ہزار روپیہ ماہوار کی قلیل آمدنی کے باوجود کریم کاٹج کی دعوتوں میں بلایا جانے لگا۔ پھراسی تاش کے چسکے کے طفیل سکینہ مجھے سہ پہر کی چائے پر بھی بلانے لگی۔ ہوتے ہوتے میرے دن کا بیشتر حصہ کریم کاٹج میں گزرنے لگااور سکینہ کی لڑکی عائشہ مجھے میٹھی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ دیکھتی رہے۔ کیا حرج ہے؟ اول تو سکینہ خود اس قدرسمجھدار ہے کہ اپنی سب سے بڑی لڑکی کو کبھی اپنی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتی، پھر مس ایلئیٹ اس قدر محتاط رہتی ہیں ۔ پھر میں خود اس قدر ڈرپوک ہوں کہ کبھی کسی لڑکی کو لے کر بھاگ نہیں سکتا اس لئے میٹھی میٹھی نگاہوں سے دیکھنا، انگلیوں کو چھو لینا، عائشہ کے ہاتھ سے چائے کا پیالہ لے لینا، اس کی بڑھائی ہوئی پلیٹ سے مورین کریم کھا لینا اور کبھی کبھی تاش کے دوران میں ذرا مخصوص لہجے میں اسے’’پارٹنر‘‘ کہہ دینا ہی میرے لئے کافی ہے۔

    چلئے زندگی میں پارٹنر نہ بنے، تاش کے کھیل میں بن گئے اور یوں غور سے دیکھا جائے تو زندگی کی بازی بھی ایک طرح سے تاش کا کھیل ہے۔ اس میں کبھی ہار ہے کبھی جیت ہے کبھی پتّے اچھے آتے ہیں، کبھی برے آتے ہیں، کبھی پارٹنر سے جھگڑا ہوتا ہے، صلح و صفائی بھی ہوتی ہے، حساب کتاب بھی ہوتا ہے، اسی طرح اپنے پتّے کھیلتے کھیلتے ہم بھول جاتے ہیں کہ ان پتّوں سے باہر بھی کوئی دنیا ہے جہاں گلاب کھلتے ہیں، مالی کی بیوی بیمار ہے، ایک لکڑہارا لکڑیاں لے کر بیچنے کے لئے بازار جا رہا ہے، ڈونڈی والوں کے کپڑے پھٹے ہیں، آسمان پر سپید بادل گھوم رہے ہیں، دیودار کی شاخ میں بلبل نے گھونسلہ بنایا ہے، مالی کے بیٹے نے گوپھیا سنبھالا ہے، یکایک ہوا کا ایک جھونکہ آتا ہے۔۔۔ چنبیلی کے پھولوں کی خوشبو فضا میں تیرنے لگتی ہے، عائشہ تنک کر کہتی ہے، ’’کیاسوچ رہے ہو؟ اپنا پتّہ جلدی سے چلو۔‘‘

    میں گھبراکر اپنے پتّے دیکھنے لگتا ہوں، کیوں کہ تاش کا کھیل کسی کے لئے زیادہ دیر تک نہیں رک سکتا جب زندگی کی ساری تاش سمیٹ کر الگ رکھ دی جائے گی تمہاری قسمت کا بادشاہ اور ایکہّ، بیگم اور غلام سب دھرے رہ جائیں گے ۔ اورتم اس تاش میں سے ایک پتّہ نکال نہ سکوگے، کسی کو پارٹنر نہ کہہ سکوگے تمہاری بازی تھی۔۔۔ اس لئے اپنا پتّہ جلدی سے چلو۔

    اصل میں جو میں اس طرح سے سوچتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ محبت کی بازی ہار چکا ہوں دوبارہ زندگی کو داؤ پر لگانے کی ہمّت نہیں ہوتی۔ میری طرح سنا ہے مس ایلئیٹ بھی اس میدان میں ہار چکی ہیں مگر پھر بھی داؤں لگانے سے باز نہیں آتیں۔ یہ بھی ان کی زندگی سے گہری محبت کا ثبوت ہے۔ ہمیشہ مجھ سے چہل کرتی رہتی ہیں حلانکہ جانتی ہیں کہ کچھ نہیں ہو سکتا بھلا تیس برس کا مرد اور اسی برس کی عورت میں کیا ہوسکتا ہے مگر چہل کرنے سے باز نہیں آتیں۔

    ’’پاشا۔۔۔ اپنے ماتھے کی لٹ سنبھالو ورنہ میرا دھیان اپنے پتّوں میں نہیں رہ سکتا۔ ’پاشا‘ کہاں دیکھ رہے ہو کیا دیوار سے اس پیڑ سے تاش کے پتّے لٹکے ہیں ۔۔۔‘‘

    ’’اب کے میں ضرور جیتوں گی۔ کیونکہ میرے پتّوں میں ایک ’پاشا‘ بھی ہے۔‘‘

    وہ میرے نام کی خاطر بادشاہ کو ’پاشا‘ کہنے لگی ہیں۔ مس ایلئیٹ کے معصوم مذاق سےسبھی محظوظ ہوتے ہیں۔

    عائشہ بھی ہنس دیتی ہے پھر میری طرف دزویدہ نگاہوں سے دیکھ کر آنکھیں جھکا لیتی ہے۔ وہ جھکی جھکی آنکھیں مجھے اپنے پاس بلاتی ہیں۔ فاصلہ بھی زیادہ نہیں ہے، میں دونوں ہاتھ بڑھاکر عائشہ کو اپنے بازوؤں میں لے سکتا ہومگر نہیں لے سکتا۔۔۔ کیونکہ تاش کھیلنے والے دوسرے بھی تو ہوتے ہیں ایک طرف عائشہ کی ماں سکینہ بیٹھی ہے دوسری طرف کریم بھائی اسٹیٹ کے مینیجر عاقل فاضل بھائی بیٹھے ہیں جنہوں نے عائشہ کے لئے نیروبی کے ایک کروڑپتی بوہرہ تاجر کا بیٹا ڈھونڈرکھا ہے۔ زندگی کی تاش کس قدر آسان ہوتی اگر دوسرے کھیلنے والے نہ ہوتے۔۔۔ اب تم ان سہمی سہمی نگاہوں کے چھوٹے چھوٹے پتّے میری طرف کیوں پھینکتی ہوعائشہ! ان دُگیّ تگّیوں سے کیا ہوگا جبکہ ایکہّ اور بادشاہ، بیگم اور غلام اور نہلے پر دہلا دوسروں کے ہاتھ میں ہیں؟ نوبِڈ پارٹنر۔

    اپنا ہنسی مزاق مس ایلئیٹ سے تو چلتا ہی تھا مگر اس کی کیفیت ایک معصوم چہل سے زیادہ نہ تھی، البتہ ماسٹر متین احمدکے سلسلے میں مس ایلئیٹ زیادہ سنجیدہ نظر آتی تھیں، اوردن بہ دن زیادہ گہری دلچسپی کا ثبوت دے رہی تھیں۔ ماسٹرمتین احمد یہاں مسوری آکر تین ماہ کے لئے ملازم رکھےگئے تھے، بچوں کو پڑھانے کے لئے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے۔ایسٹیٹ منیجر فاضل بھائی نے بہت سوچ سمجھ کےمتین احمد صاحب کو ماسٹر مقرر کیا تھا کیونکہ ماسٹر متین احمدخاصے بوڑھے تھے ستّر برس کے قریب عمر ہوگی دو بیویاں یکے بعددیگرے وفات پا چکی تھیں۔ پوتوں، نواسوں والے تھے چھڑی لے کر، سر جھکاکر اپنی گری ہوئی مونچھوں کو اور گرا کرچلتے تھے۔ سرخ و صبیح رنگت میں بڑھاپےکا پکاّپن اور بڑھاپےکی جھرّیاں آگئی تھیں مگر اس عمر میں بھی حوصلہ جوان رکھتے تھے، اوردلگیر تخلص کرتے تھے۔ اپنا کلام جو آج تک کہیں نہ چھپا تھا ، مس ایلئیٹ کو ہر روز سناتے تھے ۔

    مس ایلئیٹ ہر چند کہ اردو شاعری میں مطلق کوئی استعداد نہ رکھتی تھیں، اب مصرع پر مصرع اٹھاتی تھیں اور اس کوشش میں رہتی تھیں کہ کسی طرح گرہ بھی لگ جائے حالانکہ اس نیک دل خاتون کی شاعرانہ صلاحیتوں کی معراج ٹوئنکل ٹوئنکل لِٹل اسٹار‘ سےآگے نہ بڑھی تھی مگر اب وہ دونوں ماسٹر متین احمد اور مس میگی ایلئیٹ کبھی کبھی برآمدے کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے، کبھی کسی لان پر ٹہلتے ہوئے، کبھی ڈفل ڈوک کے دیوداروں میں گھومتے ہوئے شاعری پر بحث کرتے رہتے تھے اور بحث کے دوران میں میگی ماسٹر صاحب کا مفلر ٹھیک کرتی جاتی تھیں، ورنہ سردی لگ جانے کا اندیشہ ہے اور سردی میں شعر ٹھٹھر جاتے ہیں۔

    کبھی ان کے سر کی ٹوپی کا زاویہ بدل دیتی تھیں ’’یوں زیادہ اچھا لگتا ہے۔‘‘ کبھی ان کا ہاتھ پکڑ کر ڈفل ڈوک کے نالے کے پتھروں پر قدم جماکر چلتی ہوئی نالہ پار کر جاتیں ۔ ورنہ شام کو نالہ پار کرنا ضروری تھا۔ مرد کے بازو کا سہارا کتنا اچھا لگتا ہے مرد کی مظبوط انگلیوں کا لمس جیسے کسی کمزور بیل کو پیڑ مل جائے۔ صحت میں آج بھی میگی ماسٹر جی سے بہتر نظر آتی تھیں مگر نالہ دیکھتے ہی چھ سال کی بچّی کی طرح ڈرنے اور کانپنے لگتیں اور اپنے سارے جسم کا بوجھ غریب ماسٹر جی پر ڈال دیتی تھیں۔ ماسٹر جی بھی ہانپتے کانپتے، ہونٹ چباتے، دمہ کے مریض کی طرح سانس لیتے ہر روز بڑی بہادری سےمس میگی ایلئیٹ کونالہ پار کرا دیتے تھے۔ پھر دم اس قدر پھول جاتا تھا کہ نالے کے پتھر پر دیر تک بیٹھ کر منہ سے کچھ نہ بول سکتے۔ وادی کا منظر دیکھتے رہتے، اپنے سانس کی دھونکنی ٹھیک کرنے میں انہیں کئی منٹ لگ جاتے مگر وہ خاموشی کے اس لمبے وقفے کو کسی طرح اپنی جسمانی کمزوری پرمحمول کرنے کے لئے تیار نہ تھے بلکہ جب دم میں دم آتا تو کہتے، ’’میگی یہاں سے وادی کا منظر اس قدر خوب صورت دکھائی دیتا ہے کہ یہاں آتے ہی دم بخود ہو جاتا ہوں۔منہ سے کچھ بول نہیں سکتا ۔۔۔‘‘

    ’’ یہی حالت میری بھی ہوتی ہے۔‘‘میگی بھی اپنی پھولی ہوئی سانس کو قابو میں کرتے ہوئے کہتیں۔ ’’یہ وادی بالکل تمہاری شاعری کی طرح خوب صورت ہے۔‘‘

    بہت دیر تک وہ دونوں چپ رہتے، کیونکہ واپسی میں نالے کو پھر پار کرنا ہوگا۔ ماسٹر متین احمد بڑی نا امیدی سے نالے کو دیکھتے اور ان کی ہمّت ڈوب ڈوب جاتی اور وہ دل ہی دل میں سوچتے، ’’کل سے میں میگی کو اِدھر سیر کرنے کے لئے نہیں لاؤں گا۔‘‘

    مگر میگی کی یہی تو ایک کمزوری تھی ۔نالے کے اس چند گز کے پاٹ میں وہ سب کچھ پا لیتی تھیں، وہ سب کچھ اسے اس زندگی میں کبھی نہیں ملا۔ اس مختصر سے فاصلے میں وہ کسی کی بیوی ہو جاتیں، کسی کا سہارا لے لیتیں، کسی کے کندھے سے سر لگا دیتیں، کسی کی گہری قربت کا احساس کر لیتیں، بالکل اس الہڑّ کنواری کی طرح ہو جاتیں جو کسی خطرے کے سمے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کسی مرد سے لپٹ جاتی ہے۔ نالے کے پار جا کر وہ پھر ایک انگریز عورت ہو جاتی تھیں۔ اپنے آپ میں مکمل مضبوط اور خودمختار ۔مگر نالہ پار کرتے ہوئے کمزوری کے یہ چند لمحے بڑے قیمتی ہوتے تھے اور وہ ہرروز بڑی بے صبری سے ان چند لمحوں کا انتظار کرتی تھیں۔

    پھر ایک دن ان کی زندگی میں پام آگئی۔ پامیلا تھوراٹ۔ ان کی بمبئی کی سہیلی تھی۔ پامیلا نےبمبئی کے ایک تاجر سے شادی کی تھی۔ چند سال بمبئی میں رہ کرمسٹر تھوراٹ اور ان کی بیوی بنگلور چلے گئے تھے چند سال خط و کتابت ہوتی رہی۔۔۔ پھر خط و کتابت بند ہو گئی۔ اب بیس بائیس برس کے طویل وقفے کے بعد جب پامیلا تھوراٹ اچانک اسےمسوری میں نظر آگئی تو دونوں سہیلیوں کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ نہ صرف یہ کہ دونوں نے کئی منٹ تک مصافحہ کیا بلکہ آوازمیں لرزش بھی تھی اور آنکھ میں آنسوؤں کا شبہ تک پیدا ہو گیا تھا۔

    پام اس عرصہ میں دو شوہر بھگت چکی تھی۔ وہ بے چارے دونوں مر چکے تھے۔ مگر ساٹھ برس کی ہو کر بھی پام اپنی شوخی اور طراری کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتی تھی۔ اپنی فطرت میں پام میگی سے بالکل الگ تھی۔ میگی دبلی تھی تو پام موٹی۔ میگی سنجیدہ تھی تو پام بات بے بات پر قہقہہ لگانے والی۔ میگی ہلکا سا مک اپ کرتی تھی تو پام بالکل گہرا۔بالکل جوان عورتوں کا سا میک اپ کرتی تھی۔ اس کی آواز بھی ابھی تک بہت اچھی تھی اور اسے بہت سےفحش لطیفے یاد تھے ۔نہیں ۔ نہیں ۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ پہلے شوہر سے ایک لڑکی تھی۔ دو سال کی عمر میں چل بسی ۔ دوسرا شوہر ایک اینگلو انڈین تھا۔ وہ ہر وقت شراب میں دھت رہتا تھا اور کبھی کبھی اسے پیٹتا بھی تھا۔ کبھی کبھی مرد پیٹے تو بڑا مزا آتا ہے۔ پام نے میگی کو سر گو شی میں بتایا کیونکہ اس کے بعد مرد پر پچھتاوے کا ایک شدید دورہ پڑتا ہے اس میں وہ عورت سے بڑی احمقانہ باتیں کرتا ہے، روتا ہے ۔ ہاتھ جوڑتا ہے، پاؤں پڑتا ہے۔ کبھی کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر نیا فراک تک سلوا دیتا ہے۔ پام کو جب بھی کسی نئی فراک کی ضرورت ہوتی تھی وہ اپنے شوہر کو کسی نہ کسی طرح اسے پیٹنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ شوہر رکھنا عمدہ چیز ہے۔ مگر آہ۔۔۔ اب تو بڑھاپا آگیا۔

    پام ایک سرد آہ بھر کر خاموش ہو گئی۔

    ’’تم تو بالکل بچہ ہو بالکل بچہ۔‘‘ میگی نے بڑی عمر کی بہن کا رشتہ کیا اورپام کی الجھی ہوئی لٹ ٹھیک کرنے لگی۔ ’’یہ بال کیسے بنا رکھے ہیں۔‘‘

    میگی کے لہجے میں ممتا کی سرزنش سی آ گئی جسے سن کر پام کچھ اور پھیل گئی۔ اٹھلا کر بولی، ’’اب ہم سے نہیں ہوتا میگی۔‘‘

    ’’تم کہاں ٹھہری ہو؟‘‘ میگی نے پام سے پوچھا۔

    ’’پہلے تو کلارئس میں ٹھہری تھی۔ ایک گجراتی فیملی کے ہمراہ احمدآباد سے آئی تھی۔ ان لوگوں کو جلدی واپس جاناپڑ گیا۔‘‘ خاندان میں کوئی موت ہو گئی تھی۔ وہ لوگ سب چلے گئے۔ مگر میں ایسی شدید گرمی میں واپس احمدآباد نہیں جا سکتی۔ اس لئے میں ان کی ملازمت سے الگ ہو گئی ہوں اور اب مسزٹریورزکے چھوٹے بورڈنگ ہاؤس میں پڑی ہوں۔ بڑی کمینی عورت ہے۔ ابھی تک دو روز کی پرانی ابلی ہوئی پتیوں کی چائے دیتی ہے۔ جیسے یہ مسوری نہ ہو، انگلینڈ ہو اور جنگ ابھی تک جاری ہو۔

    میگی پامیلا کو مسزٹریورز کے بورڈنگ ہاؤس سے کریم کاٹج میں اٹھا لائی اور اس سے ایسی محبت اور شفقت سے پیش آنے لگی جیسے پام اس کی ساٹھ برس کی سہیلی نہ ہو، کوئی چھوٹی سی بچّی ہو۔ میگی پام کے بال بناتی، پام کے کپڑےنکالتی، اس کےکپڑوں پر استری کرتی، اس کو مشورہ دیتی وہ کون سی چیز کھائے کون سی چیز نہ کھائے۔ کبھی کبھی اسے ایک سخت گیر ماں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ بھی دیتی اور پام میگی کی محبت پاکر بے طرح اٹھلانے لگی تھی اور ساٹھ برس کی ہوکرتیس برس کی خاتون کی سی ادائیں دکھانے لگی اور جب میگی کی محبت بہت زور مارتی تو وہ تقریباً تتلانے لگتی۔

    اب میگی اور پام اور ماسٹر جی (ماسٹر متین احمد) کا تگڈم بن گیا تھا۔ تینوں برآمدے کے دوسرے کونے میں الگ سے جا کر بیٹھتے تھے تاش کھیلتے تھے اور ہر وقت تین شریر بچّوں کی طرح مسرور اور مگن نظر آتے تھے۔ آپس میں ان کی کیا باتیں ہوتی تھیں یہ توہم نہیں جان سکے۔ البتہ اتنا ضرور احساس ہونے لگا کہ ان تینوں میں گاڑھی چھَن رہی ہے۔ ماسٹر جی جو پہلے صرف میگی پر اپنی پوری توجّہ صرف کرتے تھے اب میگی کے اصرار کرنے پر پام پر بھی کسی قدر اپنی توجّہ دینے لگے۔ آہستہ آہستہ یوں ہو گیا کہ تعلقات برابر کے ہوگئے۔ ماسٹر جی اپنی آدھی توجّہ میگی اور آدھی توجّہ پام کو دیتے تھے اور کسی طرف ڈنڈی نہ مارتے تھے۔ بہت دنوں تک یہ سلسلہ چلا پھر ہولے ہولے غیر شعری طور پر پام کی طرف پلڑا جھکتا چلا گیا۔ کیونکہ پام ساٹھ برس کی تھیں اور میگی اسی برس کی۔ پام کے چہرے پر جُھرّیاں بہت کم تھیں اور پام کسی قدر زندہ دل تھی، اور کیسے عمدہ لطیفے سناتی تھی۔ میگی کی روح بلا شبہ پام سے بہتر معلوم ہوتی ہے مگر جسم کو جدھر سے دیکھو ہڈیاں سی نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اور پام تو بالکل گرم پانی کی بھری ہوئی ربڑ کی بوتل کی طرح آرام دہ معلوم ہوتی ہے۔ اور شریر پام پلڑا اپنی طرف جھکتے دیکھ کر غریب ماسٹرکو اور بھی اکسانے لگی۔ اور اپنی سہیلی کی ساری خاطر ومدارت بھول کر اسے جلانے پر تل گئی۔

    ’’بے حیا بّلی‘‘ میگی نے اپنے دل ہی دل میں سوچا، پہلے تو میگی نے طرح دی اور بار بار وہ طرح دیتی رہی۔ کبھی نگاہیں پھیر لیتی، جیسے اس نے کچھ دیکھا نہ ہو۔ پھر ذہنی طور پر یوں غائب ہو جاتی جیسے اس نے کچھ سنا نہ ہو۔ پھر جب دل خون ہونے لگتا اس وقت بھی یوں ہنس دیتی جیسے کچھ ہوا نہ ہو۔ مگر پلڑا جھکتا ہی گیا اور ہم دیکھتے ہی رہے اور ان تینوں سے دور ہی دور اپنے برج کی میز سے اس دلچسپ ڈرامے کو دیکھتے رہے جو اب معراج کو پہنچ رہا تھا۔

    ایک مہکتی ہوئی نارنجی شام میں جب ہوا کی خنکی بڑھ گئی تھی اور ہم لوگ مسوری کلب جانے کی تیاری کر رہے تھے، عائشہ اور میں کالے سنگِ مر مر کے شیروں والے چبوترے پر کھڑے سکینہ اور فاضل بھائی کا انتظار کر رہے تھے جو اپنے اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے کے لئے گئے تھے۔ گئی تو عائشہ بھی تھی مگر اپنے کمرے سے جلدی نکل آئی تھی کیونکہ اس طرح سے ہم دونوں کو اکیلے میں ساتھ رہنے کے لئے چند منٹ مل جاتے تھے۔ اس وقت عائشہ ایک کالے شیر کی پیٹھ پر بیٹھی ہوئی تنک مزاجی سے بار بار اپنے دائیں پاؤں کا سینڈل ہلا رہی تھی اور قریب کے مرمریں ستون پر چڑھی ہوئی زرد گلاب والی بیل سے پھولوں کی کچّی کلیاں توڑ توڑ کر میرے پاؤں پر پھینک رہی تھی۔ ایک کلی میری پتلون کی موہری میں جا اٹکی اور میں اسے نکالنے کے لئے جو جھکا تو مجھے عائشہ کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ اور اس کےسینے کے تھر تھراتے ہوئے ابھار اپنے بہت قریب نظر آئے۔ عائشہ بہت قریب سے مجھے دیکھ رہی تھی۔

    میں نے جھکے جھکے اس کی طرف ایک لمحے کےلئے دیکھا وہ میرے اس قدر قریب تھی کہ میں اس کے سانس کی آنچ اور اس کے حسن کی پگھلتی ہوئی لو کو اپنے رخساروں پر محسوس کر سکتا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹ ذرا سے کھل گئے تھے اور بالکل منتظر تھے۔ ایسے میں سکینہ کو برآمدے کے اندر کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا میں نے جلدی سے پتلون کی موہری سے زرد گلاب کی کچّی کلی کو نکالا اور سیدھا ہو کر اسے زور سے دور پھینک دیا۔

    ’’بزدل‘‘ عائشہ ناگن کی طرح پھنکاری۔ پھر سکینہ کو آتے دیکھ کر سنبھل گئی۔

    میگی اور پام ور ماسٹر جی بھی تینوں باہر جارہے تھے مگر کلب کو نہیں۔ نالے پر سیر کرنے کے لئے۔ کچھ دنوں سے یہ تینوں اکھٹّے سیر کرنے کے لئے نالے کو جاتے تھے۔ آج سردی بڑھتی دیکھ کر میگی اپنے دبلےچھریرے بدن میں جھر جھری محسوس کر کے کانپ اٹھی۔ اس نے پام اور ماسٹر جی دونوں کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ٹھہرو۔ میں اندر سے اپنا اونی کوٹ پہن کر آتی ہوں۔‘‘

    ’’اونی کوٹ۔ گرمی کی رت میں۔‘‘ پام نے تضحیک آمیز آواز میں سوال کیا۔ مگر میگی اس کے سوال کاکوئی جواب نہ دے کر اندر چلی گئی۔

    چند لمحوں تک تو پام چپ رہی، اور اپنے دونوں کولھوں پر ہاتھ رکھ کر ادِھرادھر ڈولتی رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایک شریر چمک نمودار ہوئی اور اس نے اشارے سے ماسٹر متین احمد کو اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔ ماسٹر متین احمد نے چند لمحوں کے لئے توقف کیا، بہت بے چین نظر آئے اِدھر ادھر دیکھا جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو پام کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ پام نالے کی سمت جا رہی تھی۔ ماسٹر متین احمد کو ساتھ لے کر۔

    چند لمحوں میں وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب نظر سے اوجھل ہونے لگے تو میں نے دیکھا ماسٹر جی پام کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں پام نے ان کے بازو کا سہارا لے لیا تھا۔ وہ بازو، جو اب تک صرف میگی کے لئے محفوظ تھا۔ ان کے جانے کے بعد ہی میگی گنگُناتی ہوئی اپنا ہلکا گرے اونی کوٹ پہن کر باہر نکل آئی۔ جب اس نے دیکھا کہ ماسٹر جی اور پام نہیں ہیں تو وہ ایک بار ٹھٹھک گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ اک دم اس کے کوٹ کی طرح گرے ہو گیا۔ زیرِلب ہونٹوں کی گنگناہٹ اک دم رک گئی اس نے اِدھر ادھر دیکھا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو سکینہ سے پوچھا، ’’یہ لوگ کہاں ہیں۔‘‘

    ’’چلے گئے۔‘‘ سکینہ نے بے حِس لہجے میں کہا۔

    میگی کی ڈولتی ہوئی پتلیاں بڑی تیزی سے ادھر ادھر گھو میں۔ جیسے کوئی پرندہ اچانک زخمی ہو کر تڑپنے لگے۔ سکینہ ان آنکھوں اذیت کی تاب نہ لا سکی بڑے غصےّ سے بولی، ’’میگی تمہیں ہوا کیا ہے؟ دیکھتی نہیں ہو۔ پام تم سے عمر میں کتنی کم ہے؟‘‘

    میگی نے ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک کر سیدھا سکینہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر بڑی نخوت سے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولی، ’’عمر کم ہے تو کیا ہوا۔۔۔ وہ میری طرح کنواری تو نہیں ہے؟‘‘

    پھر مس میگی ایلئیٹ عمر اسیّ سال، ایک عورت، اپنی ایڑی پر گھوم گئی اور اِک نا قابلِ تسخیر غرور سے سر اٹھائے ہوئے برآمدے میں چلی گئی۔ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی دروازہ بند ہو گیا۔ ہم دیکھتے ہی رہ گئے یہ بھی سمجھ نہ آیا ہنسیں یا روئیں۔

    سکینہ اک دم بہت سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں ہم سے چرالی تھیں اور اب تیزتیز قدموں سے آگے چل رہی تھی۔ ان کے پیچھے پیچھے فاضل بھائی جلدی جلدی سے قدم بڑھانے لگے۔

    عائشہ نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔ میں نے گلاب کی بیل سے ایک زرد کلی کو توڑ لیا اور اسے سونگھتے ہوئے بولا،

    ’’نو بڈ پارٹنر۔‘‘

    مأخذ:

    آدھے گھنٹے کا خدا

    • مصنف: کرشن چندر
      • ناشر: اسٹار پبلیکبشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1969

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے