Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روداد پاگل خانے کی

رتن سنگھ

روداد پاگل خانے کی

رتن سنگھ

MORE BYرتن سنگھ

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک پاگل خانے کی پس منظر میں تقسیم کے المیے کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ایکسپرٹ ڈاکٹر ایک دن بریلی کے پاگل خانے میں آیا اور سبھی پاگلوں کو کھلا چھوڑ دینے اور باقی تمام ا سٹاف کو چھپ جانے کے لیے کہا۔ ڈاکٹر اور اسٹاف کی غیر موجودگی میں پاگلوں نے وہ سب کارنامے انجام دیے، جو سماج میں رہنے والے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وہ سب بھی بیان کیا جو تقسیم کے دوران ہوا تھا۔۔۔ بٹوارا، تشدد، آگ زنی، لوٹ مار اور نقل مکانی کا درد۔

    ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کچھ دنوں پہلے بریلی کے پاگل خانے میں آیا اور اس نے رائے دی کہ تازہ ترین معلومات کے مطابق اگر پاگلوں کو وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے دی جائے جو وہ کرنا چاہتےہیں تواس سے ان کی صحت پر بہت اچھااثر پڑتا ہے۔ انہیں اپنی مرضی کے مطابق اپنے من کی گتھیاں سلجھانے کا جو موقع ملتاہے، اس سے خاطر خواہ نتائج نکلتے ہیں۔ ایک تجربے کے مطابق تیس سے چالیس فی صد پاگل تندرست ہوگئے اور باقی کو بھی افاقہ ہوا۔

    بریلی کے پاگل خانے میں یہ نسخہ آزمایا گیا، اس کی روداد حسب ذیل ہے،

    ان سارے پاگلوں کی کل تعداد ۹۹۶تھی جن کو پاگل خانے کی ہی چاردیواری کے اندر کھیلوں کے لمبے چوڑے میدان میں چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ کھل کھیلیں۔ پاگل خانے کا سارا عملہ، ڈاکٹر، نرسیں، سپاہی، چوکیدار، مالی، چپراسی سب کے سب اپنے اپنے دفتروں اور دوسرے ٹھکانوں پر اس طرح چھپ کر بیٹھ گئے، جہاں سے وہ پاگلوں پر پوری نظر بھی رکھ سکتے تھے لیکن پاگلوں کی نظروں سے اس طرح چھپے تھے، جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہوں۔

    اب پاگل خانے میں ہر طرف پاگلوں کا راج تھا۔

    عملے میں سے کسی کا نہ ہونا پاگلوں کو مزید پاگل بنائے دے رہا تھا۔

    ماجرا کیا ہے؟ وہ سمجھ نہیں پارہے تھے۔

    اس سے پہلے بھی سال میں دومرتبہ پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کوپاگلوں کو اس میدان میں لاکر کھڑا کیا جاتا تھا۔ پھر قومی ترانہ ہوتا تھا، جَن گَن مَن ادھینایک جَے ہے۔۔۔ اور پھر اس کے بعد مٹھائی بٹتی تھی۔ پانچ پانچ لڈو۔ ان لڈوؤں کو کچھ پاگل بھوکوں کی طرح کھالیتے تھے۔ کچھ اسے قیمتی سرمایہ سمجھ کر اپنے اپنے کمروں میں لے جاتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو سوچتے تھے کہ کہیں ان میں زہر نہ ملا ہو۔ اس لیے یا تو وہ لڈوؤں کو اس طرح پھینک دیتے تھے کہ کوئی انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھ نہ پائے۔ اور کئی جو اپنے شک میں پورا ایمان رکھتے تھے وہ اپنے کمرے میں لے جاکر کیڑےمکوڑوں کو کھلاکر دیکھتے تھے کہ مٹھائی کھاکر ان پر کیا اثر ہوتا ہے۔ لیکن کیڑوں کے نہ مرنے پر بھی ان کا شک دورنہیں ہوتا تھا، اور وہ مٹھائی نہیں کھاتے تھے۔

    لیکن اس وقت ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ جھنڈا لہرایا گیا، نہ گانا گایا گیا۔ نہ لڈو بٹے۔ آخر ایک پاگل جھنڈا لہرانے والے لوہے کے کھمبے پر، جو اینٹوں کے چبوترے پر گڑا ہوا تھا چڑھ گیا۔ پہلے تو اس نے بڑے محتاط ہوکر چاروں طرف سرگھمایا اور جب اسپتال کے عملے کا کوئی آدمی نظر نہ آیا تو پہلے تو اس نے مایوسی میں چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر خوشی کے ایسے آثار نمودار ہوئے جیسے کسی بھی استاد کو اسکول میں نہ پاکر دیہات کے بچوں کے ہوتے ہیں۔ اس خوشی کااظہار اس نے ایسے کیا کہ اپنے نیفے میں اڑسا ہوا ایک پاؤ بھرکا پتھر، جو وہ کسی انجانے دشمن کو مارنے کے لیے برسوں سے اپنے پاس رکھتا آیا تھا، اس نے اسے نیفے سے نکالا اور پھر لو ہے کے کھمبے پر مار مار کر ٹن ٹن کی آواز نکالی جیسے وہ سارے پاگلوں کے لیے پوری چھٹی کا اعلان کر رہا ہو۔

    پوری چھٹی کا اعلان ہوتے ہی ایک پاگل جو برسوں سے مون دھارن کیے ہوئے تھا، اس کے گلے سے کچھ ایسی آواز پھوٹ پڑی جیسے راستہ مل جانے پر بانس کے ٹکڑے سے گزرتی ہوئی ہوا میٹھی سریلی سی آواز میں ڈھل جائے۔ ایک گونگے کے منھ سے پہلی بار ایسی آواز نکلتے دیکھ کر دوسرا پاگل جو ہمیشہ چیختا چنگھاڑتا رہتا تھا، یہ سوچ کر مون ہوگیا کہ اگر گونگے بولنے لگیں تو زبان رکھنے والو ں کو مون دھارن کرلینا چاہیے تاکہ حساب برابر رہے اور قدرت کا نظام بگڑنے نہ پائے۔

    اس کے بعد پول پر ٹنگے ہوئے پاگل نے نہیں بلکہ ایک اور پاگل جو اپنے گلے میں ہر وقت سیٹی لٹکائے رکھتا تھا، وہ سیٹی بجاتے ہوئے میدان میں چاروں طرف یوں دوڑنے لگا جیسے وہ سب کھلاڑیوں کو اپنا اپنا کھیل شروع کرنے کے لیے کہہ رہا ہو۔

    پھر کیا تھا۔ ہر طرف تماشہ شروع ہوگیا۔

    ہنسنے والے پاگلوں نے ٹھہاکے لگانے شروع کردیے۔ رونے والے پاگلوں نے ایسی دہاڑیں ماریں کہ ہنسنے والے پاگلوں کے بھی دل پسیج گئے اور ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں سےآنسوؤں کی برسات ہونے لگی۔ چند پاگل ایسےتھے جو صرف کسی کونے میں ہی اٹھتے بیٹھتے تھے۔ اب اس میدان میں جب ان کو کوئی کونہ نہ ملا تو ان کے دماغ اور خراب ہوگئے۔ وہ پریشانی کے عالم میں گھبرائے ہوئے کبھی ادھر جاتے اور کبھی ادھر دوڑتے، لیکن وہاں کوئی کونہ ہو توانہیں سکون نصیب ہو۔ ایسے میں ایک پاگل کو ایک پیڑ کی دو ابھری ہوئی جڑیں تنے کے بیچ میں ایک کونہ سا بناتی ہوئی لگیں۔ اس نے اسی کو غنیمت جانا اور وہاں جاکر بیٹھ گیا۔ ایک کو بیٹھا دیکھ کر دوسرے پاگلوں نے سوچا کہ یہاں یقیناً کوئی کونہ ہوگا جو گرو بیٹھ گیا ہے، اس لیے وہ بھی سکڑ کر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ وہ دل میں بڑے خوش تھے کہ آخر انہیں بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ مل گئی۔ پھر بھی ان کو تعجب ہو رہا تھا کہ یہ کون سا کونہ ہے جس کے چاروں طرف لوگ گھوم رہے ہیں۔

    ایک نے اٹھ کر دیکھنا چاہا تو دوسرےنے پکڑ کر بٹھالیا۔

    ’’یار یہ ہے کونہ ہی۔ ہمارے گرد گھومنے والے لوگ پاگل ہیں جو یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ یہ کونہ نہیں ہے۔‘‘

    جہاں یہ لوگ ایک کونے میں دبک کر بیٹھےتھے وہاں ان کے پاس ہی اس پیڑ کے نیچے ایک پاگل ہوا میں ہوائی کتاب کے ورق پلٹتا ہوا اپنے مطالعے میں اس طرح محو ہوگیا جیسے دنیا جہان سے اس نے رشتہ توڑ لیا ہو۔ ہوا میں لکھی تحریر سے اس کے ذہن پر جو اثرات مرتب ہو رہےتھے وہ جب اس کے چہرے پر جھلکتے تو دیکھنے والے کو پتہ چل جاتا کہ وہ زندگی کے کس قسم کے تجربات سے دوچار ہو رہا ہے۔ لیکن اس کاایک مسئلہ حل نہیں ہو رہاتھا۔۔۔ چلتی ہوئی ہوا، اس کی ہوائی کتاب کے پنوں کو الٹ پلٹ دیتی تھی۔ اس سے اس کی پڑھائی میں خلل پڑ رہا تھا۔

    ایک جگہ اور تماشہ ہو رہا تھا۔ ایک پاگل اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹکائے گائے بنا کھڑا تھا۔ دوسرا پاگل اس کی پچھلی ٹانگوں کے نیچے بیٹھا گائے کا دودھ دوہ رہا تھا۔ کچھ پاگل ان کے ارد گرد گھیرا ڈالے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ گائے بنا پاگل تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ٹانگ مار کر اس کی دودھ سے بھری بالٹی گرادیتا تھا۔ دودھ دوہنے والا پاگل پریشان ہوجاتا تھا۔ وہ کبھی گائے کی ٹانگو ںکو رسی سے باندھتا، کبھی پاس کھڑے پاگل سے کہتا کہ وہ منھ کی طرف سے گائے کو قابو میں رکھے۔ ہزار کوشش کے باوجود اس کی بالٹی خالی کی خالی رہ جاتی تھی۔ وہ بڑی حسرت بھری نظروں سے اردگرد کھڑے پاگلوں کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی اپنی خالی بالٹی کی طرف۔ یہ حسرت ارد گرد کھڑے پاگلوں کے چہروں پر بھی مایوسی بن کر بکھر رہی تھی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ بالٹی بھر جائے تو شاید انہیں بھی دودھ چکھنے کو ملے لیکن ہائے ری حسرت۔۔۔ اس طرح گائے بنا پاگل اور اس کا دودھ دودہ رہا پاگل، اور یہ تماشا دیکھنے والے پاگل۔۔۔ سب کے سب بے حد بیزار نظر آرہے تھے۔

    چار پاگل جو قومی ترانہ گانے کے لیے پول کے نیچے کھڑے تھے، وہ گم سم سے بار بار ادھر دیکھ رہے تھے جدھر سے پاگل خانے کے ڈاکٹر لوگ آتے تھے۔ ان کا انتظار ختم نہیں ہو پارہا تھا۔ قومی ترانے کے بول ان کےسینے سے پھوٹتے، ان کے ہونٹوں پر آتے تھے۔ انہیں اپنے ہونٹوں کو بند رکھ کر قومی ترانے کے الفاظ کو منھ کے اندر ہی روکنے اور واپس اپنے سینے کے اندر بھیجنے میں بڑی دقت کا سامناکرنا پڑ رہا تھا۔ پانی کے بہاؤ اور دل کی آواز کو روکنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ گھڑے کا سارا پانی بہہ جانے پر ایک بار انہیں کتنی دیر پانی پینے کو نہیں ملا تھا۔ اگر وقت سے پہلے ہی قومی ترانے کے بول منھ سے نکل گئے تو وقت آنے پر وہ کیا کریں گے۔

    اس مشکل کا حل انہوں نے اس طرح ڈھونڈا۔ رہنے دیجیے۔ انہوں نےایک دوسرے کو ایسی ایسی گندی گالیاں دینی شروع کردیں کہ انہیں تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ اس قسم کی حرکتیں تو صرف شریف قسم کے یایوں کہہ لیجیے کہ نیم پاگل قسم کے پاگلوں کی تھیں۔ لیکن پاگلوں کی اتنی بڑی تعداد میں کچھ ایسے پاگل بھی تھے جو پاگل خانے میں بے حد خطرناک سمجھے جاتے تھے، انہیں جب زنجیروں کے بندھنوں سے آزاد کردیا گیا تو اول تو انہیں یقین ہی نہ ہوا۔ ایسے کئی پاگل تو اب بھی میدان میں اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے۔ ان کاخیال تھا کہ وہ اب بھی بندھے ہوئے ہیں۔

    ایسے ایک پاگل نے دوسرے پاگل سے کہا، ’’اٹھو۔‘‘

    وہ نہیں اٹھا۔ اسے اپنی مجبوری کا پورا احساس تھا۔

    ’’ارے میں کہتاہوں اٹھو۔‘‘

    وہ پھر بھی نہیں اٹھا۔

    پہلے پاگل کو غصہ آگیا۔ اس کی یہ مجال کہ میرے کہنے پر بھی اٹھ نہیں رہا۔ اس نے اس کی پیٹھ پر اتنے زور کی لات ماری کہ درد اس کی ہڈی تک پہنچ گیا۔

    مار کھانے والے پاگل کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ منھ سے جھاگ پھینکتا ہوا بولا، ’’اگر میرے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نہ ہوتے تو اب تک تمہاری ہڈی پسلی ایک کردی ہوتی۔‘‘

    پھر وہ درد بھری آواز میں چلانے لگا، ’’ارے کوئی میرے ہاتھ پاؤں کھول دو۔ کوئی میرے پاؤں کی بیڑیاں کھول دے تو میں اس کی وہ ٹانگ توڑ کر رکھ دوں جو اس نے مجھے ماری تھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ جوش سے بھرا ہوا اٹھا اور اس پیڑ کو ایک جھٹکے سے زمین سے اکھاڑ پھینکا، جس کی جڑوں کو کونہ سمجھ کر پاگل بیٹھے ہوئے تھے۔ پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ کر وہ پاگل پھر وہیں جم کر بیٹھ گیا اور چلانے لگا، ’’ارے کوئی میرے ہاتھ پاؤں کی بیڑیاں کھول دو۔ میں اس پاگل کی ٹانگ توڑنا چاہتاہوں جس نے میری پیٹھ پر لات ماری ہے۔‘‘

    یہ سن کر اردگرد کے پاگل اس کے پاگل پن پر ہنسے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاگلوں میں اس اصول پر عام طور پر عمل کیا جاتا ہے کہ کوئی پاگل دوسرےپاگل کے پاگل پن کا مذاق نہیں اڑائے گا۔ اس کے برعکس سب کے سب بڑی سنجیدگی سے سوچنے لگے کہ اس مجبور انسان کی کس طرح مدد کی جائے کہ اسے پورا انصاف مل سکے۔ ابھی وہ اس مسئلے کاکوئی حل ڈھونڈ نہیں پائے تھے کہ ایک دوسرا معاملہ کھڑا ہوگیا۔

    ہوا یہ کہ وہ پاگل جو خاموش کھڑا ہوا میں ہی پنے پلٹتا ہوا، اپنی ہوائی کتاب پڑھ رہا تھا، اسے لگاجیسے کہانی کا تسلسل ٹوٹ رہا ہے۔ اس نے اپنے پنے الٹ پلٹ کر دیکھے۔ اسے لگا جیسے اس کے ایک دوپنے غائب ہیں۔ اس نے نظر دوڑا کر دیکھا۔ ہوا دوسوکھے پتوں کو اڑائے جارہی تھی۔ اپنی کتاب کے پنوں کو پکڑنے کے لیےبھاگا تو وہ بےخیالی میں ایک خطرناک قسم کے پاگل سے ٹکرا گیا۔

    ’’اچھا! تو تو مجھ سے ٹکر لے رہا ہے؟ تیری یہ مجال!‘‘ اور خطرناک پاگل نےاس پڑھاکو پاگل کو گلے سے پکڑا اور زمین پر اس طرح پٹک دیا جیسے کوئی دیوہیکل قسم کا پہلوان مریل سے آدمی کو اکھاڑے میں پٹک کر کہتا ہے، ’’ابے ہمت ہے تو اٹھ!‘‘

    ’’ارے مارا۔ مارا؟‘‘ سیٹی والا پاگل سیٹی بجاتا ہوا سپاہی بن کر موقعہ واردات پر آگیا اور خطرناک قسم کے پاگل کو کلائی سے پکڑ کر بولا، ’’اب ہلنا نہیں۔‘‘

    ’’سب غلط۔‘‘ ایک دوسرا پاگل خطرناک قسم کے پاگل کی کلائی کو چھڑاتے ہوئے بولا، ’’سب غلط ہے۔ پولیس موقعہ واردات پر فوری طور پر کبھی نہیں آتی۔ اور اس وقت تو قطعی نہیں آتی جب مجرم موقعہ واردات پر موجود ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تائید کے لیے چاروں طرف دیکھا۔ سب نے ہامی بھری۔

    اب خطرناک پاگل کو کھلی چھوٹ تھی۔ وہ گھونسوں اور لاتوں سے زمین پرپڑے ہوئے پاگل کی مرمت کرنے لگا۔ ساتھ ہی اس نے اس پاگل کو بھی پکڑ لیا جو سپاہی بن کر آیا تھا۔ وہ ونوں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے ان کے سر آپس میں ٹکرانے جارہا تھا کہ دو اور خطرناک قسم کے پاگلوں نے سوچا کہ یہ پاگل جو مارکھارہے ہیں یہ تو ہماری بیرک کے ہیں اور یہ جو مارنے والا ہے یہ دوسری بیرک کا ہے۔ ہمیں اپنی بیرک والے پاگلوں کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ بھاگ کر موقعہ واردات پرپہنچے اور مار کھانے والوں سے بولے، ’’ارے تم مرجانےکا بہانہ کرو۔ ورنہ یہ تمہیں جان سے مار ڈالے گا۔‘‘

    مار کھانے والے لاشیں بنے زمین پر پھیل گئے۔

    پاگلوں کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وہ زندہ لوگوں کو مارتے ہیں، لاشوں کو نہیں۔ اس لیے اس نے مرے ہوؤں کو مارنے کاارادہ ترک کردیا۔ مارنے کا اردہ تو ترک کردیا، لیکن اس کاغصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور جب غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو اچھا بھلا آدمی پاگل ہوجاتا ہے، اور وہ تو تھا ہی پاگل! اس لیے وہ ان دونوں پاگلوں کو ڈھونڈنے لگا جو اس کے شکار کو بچاکر خود موقعہ واردات سے کھسک لیے تھے۔ وہ موقعہ واردات سے کھسک تو لیے تھے لیکن وہ بدمعاشوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف تھے۔ انہیں پہلے سے معلوم تھا کہ وہ بدمعاش ان کا پیچھا ضرور کرے گا۔ اور اگر پیچھا کیا تو پھر اس سے دو دو ہاتھ کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ اس تصادم سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنی طاقت بڑھانا ضروری سمجھا۔ وہ آن کی آن میں دائیں طرف گئے اور دائیں طرف کھڑے پاگلوں کو بائیں طرف کے پاگلوں سے الگ کرناشروع کردیا۔

    دائیں طرف کے پاگل الگ۔

    بائیں طرف کے پاگل الگ۔

    دونوں جلدی جلدی دونوں دھڑوں کو الگ کر رہے تھے۔

    ’’تم نے د یکھا نہیں۔ دائیں طرف والا پاگل بدمعاش ہمارے بائیں طرف والے دوبھائیوں کو مار رہا تھا۔ آج انہیں مارا، کل کسی اور کوماریں گے اس لیے اپنا دھڑا الگ کرکے اپنی طاقت بڑھالو۔

    کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔ دائیں بائیں کا شور سن کر ہر طرف افراتفری مچی تھی، کوئی ادھر بھاگ رہا تھا کوئی ادھر۔ کچھ بائیں طرف کھڑے پاگلوں کی بیرکیں دائیں طرف تھیں۔ کچھ دائیں طرف والوں کی بیرکیں بائیں طرف تھیں۔ زیادہ تر پاگلوں کو تو دائیں بائیں کافرق ہی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر بھی بلا سمجھے ہی کسی نے ادھر جانے کی کوشش کی جدھر اس کی بیرک والے لوگ زیادہ تھے۔

    ایک پاگل کو دوسری طرف بھاگتے دیکھ کر ایک بدمعاش پاگل نے روکتے ہوئے کہا، ’’ادھر کہاں بھاگے جارہے ہو؟‘‘

    ’’میری بیرک اس طرف ہے۔‘‘

    ’’ارے پاگل! پاگلوں میں اول تو تقسیم نہیں ہوتی۔ اور اگر ہو بھی تو صرف حدوں کی تقسیم ہوتی ہے، آبادی کا تبادلہ نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ جو ہو رہا ہے محض وقتی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں دونوں ایک ہوجائیں گے۔‘‘

    پاگل ادھر لوٹ گیا جدھر سے آیا تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جہاں وہ کھڑا ہے، وہاں وہ کیوں کھڑا ہے، اسے کہاں کھڑا ہوناچاہیے۔۔۔ دائیں یا بائیں۔ جب وہ کچھ نہ سوچ پایا تو اس کا دماغ اور چکرا گیا، ’’دائیں بائیں۔۔۔ دائیں بائیں‘‘ وہ گردان کرنے لگا اور ساتھ ہی پیروں کے ساتھ قواعد بھی۔

    ایسے میں وہ دوپاگل جو مرجانے کابہانہ کرکے مار کھانےسے بچ گئے تھے، اپنی سانسیں روکے اب بھی کوئی حرکت کیے بغیر زمین پر لیٹے تھے۔ ان کے کانوں میں جب قواعد کرنے والے پاگل کی دائیں بائیں کی گردان کی آواز پڑی تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے دھیرے سے کہا، ’’سارے پاگل دائیں اور بائیں گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہم کدھر جائیں؟‘‘

    ’’ہم تو لاشیں ہیں۔ لاشوں کا کوئی دھڑا نہیں ہوتا۔ اور پھر لاشیں کہیں جا بھی کیسے سکتی ہیں۔‘‘

    ’’یہ بات میری سمجھ میں کیوں نہیں آئی؟‘‘

    ’’اس لیے کہ تم مجھ سے زیادہ پاگل ہو۔‘‘

    ’’پاگل پن میں ہی سہی! کسی طرح، میں کسی سے بڑا تو ہوں۔۔۔ اگر میرا بھائی یہ مان لیتا کہ میں اس کا بڑا بھائی ہوں تو شاید میں پاگل ہی نہ ہوتا۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔

    ’’کیا غضب ڈھا رہے ہو۔ لاشیں رویانہیں کرتیں۔ مرنے والے زندگی کے دکھ سکھ سے نجات پاجاتے ہیں۔ مرنے کا یہی تو سکھ ہے۔‘‘

    اتنے میں جس بیرک کے دوپاگل میدان کے بیچ لاشیں بنے پڑے تھے، اس بیرک کے پاگلوں نے مل کر اپنے مرنے والے ساتھیوں کے سوگ میں رونا شروع کردیا۔۔۔ بدمعاش پاگل تو ایک نیا دنگل شروع کرکے اپنی برتری سب پر قائم کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے پاگل خانے کے سارے پاگلوں کو دودھڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ ان پاگلوں کو یوں روتے دیکھ کر انہوں نے سوچا، یار یہ تو پالا مارے لے رہے ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟

    ’’ٹھہرو۔ میرے پاس اس کاعلاج ہے۔‘‘ ان میں سے ایک بولا۔ ’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘ پھر وہ رونے والے پاگلوں کے پاس گئے اور ان میں سے ایک پاگل سے، جو بہت دہاڑیں مار مار کر رو رہا تھا، کسی نے چپکے سے اس کے کان میں کہا، ’’ارے مرنے والے تو دوسرے دھرم کے تھے۔ تم کیوں رو رو کر ہلکان ہو رہے ہو؟‘‘

    ’’لیکن وہ تھے تو ہماری ہی بیرک کے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اتنے زور کی دہاڑ ماری کہ مرے ہوئے دونوں پاگلوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ بدمعاش پاگلوں کاوار خالی گیا اور وہ غصے میں بھرے ہوئے ادھر اُدھر دوڑتے ہوئے اپنے ہاتھ لاٹھی چلانے کے انداز میں یوں گھمانے لگے جیسے جو بھی سامنے آیا، وہ اسےنیست و نابود کردیں گے۔ پھر انہوں نے مخالف سمت جاکر دوچار لوگوں کے ہاتھ جڑ بھی دیے، دو چار کو اٹھاکر زمین پر پٹکا اور پھر دوڑتے ہوئے میدان کے بیچ یوں آکر کھڑے ہوگئے جیسے مخالفوں کو اکسانے کی کوشش کر رہے ہوں کہ کسی مائی کے لال میں دم ہو تو سامےو آئے۔

    اب جب دونوں دائیں اور بائیں دھڑوں کو ایک دوسرے کے سامنے صف آرا دیکھا تو بشن سنگھ آف ٹوبہ ٹیک سنگھ، جس کو لاہور کے پاگل خانے سےبریلی کے پاگل خانےمیں بسایاگیا تھا، اور جو اب بوڑھا ہونےکے بعد بھی ’’گڑگڑ‘‘ کی گردان کرتا رہتا تھا، یکلخت ہوش کھو بیٹھا یا پاگلوں کی بھاشا میں اسے ہوش آگیا۔ اس نےدیکھا کہ دونوں دھڑوں کے پاگل ہوا میں مکے لہرا رہے ہیں، تلواریں چلا رہے ہیں آگ لگانے کی سی حرکتیں کر رہے ہیں، لوگوں کو آگ میں پھینکنے کے اشارے کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں دھڑوں کے لوگ ایک دوسرے کی طرف اشارے کر رہے تھے کہ ہم آ رہےہیں۔ سب کچھ ملیامیٹ کردیں گے۔ وہ اچھل رہے تھے، دھمکیاں دے رہے تھے۔

    بشن سنگھ کے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں۔ اسے لگاجیسےاس جھکڑمیں آسمان کی چھت کاکوئی ٹکڑا چھپر کی طرح اڑ کر زندگی کے آنگن میں گرے گا اور سب کچھ نیست و نابود ہو جائےگا۔ جیسے زمین کا کوئی ٹکڑا اس جھکڑ میں اڑتا ہواآسمان سے جاٹکرائے گا اور سورج اور چاند اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔

    چار سو اندھیرا پھیل جائے گا۔

    کچھ سجھائی نہ دے گا۔

    اس اندھیرے میں اس نے دیکھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی آپس میں گلے ملتی ہوئی گلیوں کے ہاتھ نکل آئے ہیں اور انہوں نے ایک دوسری کا گلا گھونٹنا شروع کردیا ہے۔

    ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرف دھیان جاتے ہی دھندلی دھندلی یادیں کہیں دور، بہت، دور جھل مل کرتے دیپوں کی طرح روشن ہوکر ٹمٹمانےلگیں۔ اس کے سامنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا گاؤں، اس کی گلیاں، باغ اور کھیت آئے پھر برگد کا پیڑ اورپیپل کے پتے اس کی نظروں کے سامنے پھیل گئے۔

    تالیاں بجاتے بجاتے پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ یوں ٹکرانے لگے جیسے لڑ رہے ہوں، پھر بشن سنگھ کے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں پیڑوں کو آگ لگ گئی اور وہ کاغذ کے بنے محل کی طرح آناً فاناً راکھ ہوگئے۔ یہ راکھ اڑتی ہوئی تالاب کی طرف گئی تو اس نے دیکھا کہ کسی نے تلوار چلائی اور پانی دوپھاڑ ہوگیا۔ اس نے دوسرا وار کیا تو ہوا کے دوٹکڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر بشن سنگھ کا دماغ پھر خراب ہوگیا اور وہ اپنی گردان کرنے لگا، ’’گڑ گڑ آف دی۔۔۔‘‘ ابھی وہ یہیں تک پہنچی تھی کہ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور اسے لگا کہ وہ لڑکھڑاتا ہوا نیچے ہی نیچے گرتا جارہاہو۔ اپنے آپ کو گرنے سے بچانے کے لیے بشن سنگھ نے گڑگڑ کیا۔ پھر جست لگائی اور پاس والے پیڑ کی متوازی ٹہنی پر جاکر بیٹھ گیا۔ وہ گردان کرنے لگا۔۔۔ گڑ گڑ دی آف دی۔۔۔ لیکن اس کا دماغ اتنا چکرا گیا تھا کہ وہ اپنی گردان بھول گیا اور اس نے بڑے بڑے پھکڑ تولنے شروع کردیے۔

    تبھی ایک دوسرا پاگل چلا اٹھا۔۔۔

    ’’سنو سنو! عاقلوں کے عاقل، پاگلوں کے پاگل، شاہوں کے شہنشاہ گڑ گڑدی بشن سنگھ آف ٹوبہ ٹیک سنگھ تخت پر براج چکے ہیں۔ باادب، باملاحظہ، ہوشیار۔ انصاف کے لیے ملزم حاضر ہو۔ جھوٹوں کا منھ کالا، جھوٹی زبان پر تالا۔ دربار ٹوبہ ٹیک سنگھ کا۔ بول ساچے دربار کی جَے۔ گڑگڑ دی بشن سنگھ آف ٹوبہ ٹیک سنگھ۔۔۔‘‘ اس طرح نعرے لگاتا ہوا سنتری بنا پاگل بائیں دھڑے میں اور دائیں دھڑے میں دونوں طرف گھوم گیا۔

    دونوں دھڑوں میں سناٹا چھاگیا۔

    دونوں طرف کے بدمعاش منھ لٹکاکر کھڑے کھڑے ہاتھ ملنے لگے جیسے ان کے ہاتھ آیا اچھا موقع نکل گیا ہو۔

    تبھی پولس والا اس بدمعاش کو پکڑ کر لے آیا جس سے مار کھاکر دوپاگل لاشوں کی طرح بچھ گئے تھے۔

    پاگلوں کی جان لینے والے پاگل کو دیکھ کر بشن سنگھ پر پاگل پن کا بھر پور دورہ پڑگیا۔ وہ بڑے جوش میں اٹھا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹہنی کے کتنے ہی پتے ایک ساتھ مٹھی میں بھر کر قیدی کی طرف یوں پھینکے جیسے وہ اس پر ریوالور سے گولیاں چلا رہاہو۔

    ’’گڑگڑ دی ٹوبہ ٹیک سنگھ، گڑ گڑ دی امرتسر، گڑ گڑ دی لاہور، گڑ گڑ دی لدھیانہ، گڑ گڑ دی مرادآباد، گڑ گڑ دی ۴۸، گڑ گڑ دی گودرہ۔۔۔ گڑ گڑ دی احمد آباد، گڑ گڑ دی گجرات۔۔۔‘‘ وہ یہ کہتا جاتا تھااور جیسے جیسے اس کا پاگل پن بڑھتاجاتا تھا، وہ اوپر ہی اوپر چڑھتا ہوا بڑی بڑی شاخیں توڑ کر ملزم پر پھینک رہاتھا۔ آخر جب وہ تھک کر چور ہوگیا تھا تو ایک پل کے لیے رکا اور پھر اسی پہلی والی شاخ پر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور بولا، ’’گڑگڑ دی سب پاگلوں کی۔ گڑ گڑ دی مجرم کو پھانسی، آف دی۔ آف دی۔۔۔‘‘

    اس بیچ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف بشن سنگھ کی گڑ گڑ کی گردان انصاف کی آواز بن کر چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ ’’ملزم کو پھانسی۔ ملزم کوپھانسی۔‘‘ اس گردان کی آوازیں سپاہی بنے پاگل کے کانوں سے ٹکرائیں تو اسے اپنا فرض یاد آگیا، اور وہ ملزم کو لے کر دونوں دھڑوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے جھنڈا لہرانے والے پول کی طرف چل دیا تاکہ ملزم کو پھانسی پر لٹکایا جاسکے۔ ملزم کو پھانسی کے پھندے کی طرف لے جاتے دیکھ کر لاشیں بنے دونوں پاگل اٹھ کر سپاہی اور ملزم کا راستہ روک کر یوں کھڑے ہوگئے جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ہم تو زندہ ہیں۔ ملزم کو پھانسی کیسے ہوسکتی ہے۔‘‘

    سپاہی رک گیا۔ لیکن ملزم سپاہی کو گھسیٹتا ہوا پھانسی کے پھندے کی طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔ دونوں دھڑوں کے پاگل مرنے والوں کو زندہ دیکھ کر ہی حیران ہو رہے تھے۔ اب سپاہی اور ملزم کی آپس میں کشمکش کو دیکھ کر ان کے دماغ اور زیادہ گڑبڑا رہے تھے۔

    دونوں دھڑوں کے پاگل خاموشی سے کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔

    ملزم سپاہی کو پھانسی کے تختے کی طرف کھینچ رہاتھا۔

    سپاہی اسے باز رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    لاشیں بنے پاگل، جو ابھی ابھی زندہ ہوئے تھے، ان میں سے ایک اپنے زندہ ہونے کی خوشی میں ہنس رہاتھا۔ لیکن اس پاگل خانے کی اذیتیں سہتے سہتے دوسرے پاگل کے اندر اس ماحول میں زندہ رہنےکی خواہش غالباً مرچکی تھی؛ اس لیے وہ مرے رہنے کا موقع ہاتھ سے چھوٹ جانے کی وجہ سے اپنی قسمت پر رو رہا تھا۔

    دونوں دھڑے کے لوگ حیران و پریشان سے کھڑے تھے۔

    اتنے میں ان کے کانوں میں بشن سنگھ کی چیخ سی سنائی دی اور ان سب پاگلوں نے دیکھا کہ گڑ گڑ دی آف دی آگ۔ آگ کا نعرہ بلند کرتے بشن سنگھ نے پیڑ کی شاخ سے چھلانگ لگائی اور بازو لہراتا ہوااس طرف لپکا جہاں کچھ پاگلوں نے مل کر سوکھے پتوں کو اکٹھا کرکے آگ لگادی تھی۔ آگ کے شعلے اونچے اٹھتے ہوئے بجلی کے تاروں کے نزدیک پہنچ رہے تھے۔ آگ کودیکھتے ہی سارے پاگل جو دودھڑوں میں بٹے ہوئے تھے وہ آپس میں یوں ملے جیسے پانی پانی سے ملتا ہے اور ہوا ہوا سے۔ اور پھر انہوں نے پانی کے بغیر ہی ساری آگ کو پاؤں تلے روندکر مسل ڈالا۔ آگ بجھ گئی تو انہوں نے آگ لگانے والے پاگلوں کو دھر دبوچا اور انہیں اس پاگل پن کی حرکت کے لیے پاگل خانے میں بھرتی کرنےکے لیے چل دیے۔

    اس روز اسپتال والوں نے بیرکوں میں پاگلوں کی گنتی کی تو وہ پورے ۹۹۶ تھے۔ اور پھر جس طرح ان سب نے مل کرآگ سے ہونےوالے ایک بڑے حادثے کو بچایا تھا، اس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کاتجربہ کامیاب رہا ہے۔

    مأخذ:

    پانی پر لکھا نام (Pg. 71)

    • مصنف: رتن سنگھ
      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے