Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روح سے لپٹی ہوئی آگ

عابد سہیل

روح سے لپٹی ہوئی آگ

عابد سہیل

MORE BYعابد سہیل

    کہانی کی کہانی

    کہانی انسانی جبلت کی اس سوچ پر ضرب لگاتی ہے جسے فساد برپا کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے کوئی بہانہ چاہیئے۔ ایسے مزاج کے لوگوں کے لیے کوئی جھوٹی افواہ ہی کافی ہوتی ہے۔ بھیڑ بھرے بازار ویران ہونے لگتے ہیں، لوگ سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں اور اپنے گھروں یا کسی محفوظ جگہ پناہ لے لیتے ہیں۔ دوکانیں لوٹ لی جاتی ہیں اور گھروں کو آگ لگا دیا جاتا ہے۔

    سوکھی گھاس، نئے نوٹوں کے طرح کڑکڑاتے نعرے جو سکہ رائج الوقت بنے ہوئے ہیں، ہر چنگاری کو قبول کرنے اور بھڑکتے ہوئے شعلہ میں تبدیل کر دینے والا دماغ۔۔۔ ہر دوسرا شخص یا چند اشخاص کا گروہ، جو میں نہیں ہوں، یا ہم نہیں ہیں، سازشیں بنتی ہوئی آنکھیں، مسکراہٹوں کو کدورتوں، نفرتوں اور عداوتوں میں رنگ دینے والے ذہن سے جڑی ہوئی دو آنکھیں۔ ان میں سچ مچ کی چنگاری اگر آج اڑکر نہ آپڑی تو کل آ پڑےگی، کل بھی گزر گیا تو پرسوں۔ چنگاری کے اڑکر گرنے، سلگنے، بھڑک اٹھنے اور پھر راکھ کا ڈھیر بن جانے کے جہاں اتنے سارے سامان موجود ہوں، وہاں کون کسی کا ہاتھ پکڑےگا، کون کسی مسکراہٹ کو قتل کا پیغام بننے سے روک سکےگا۔

    رات کے گیارہ بجے تک جاگنے والی سڑک صبح چھ بجے بھی اونگھ رہی تھی، چینی اور شیشے کے برتنوں کے جلے، ادھ جلے ٹکڑوں کے ڈھیر، لٹی ہوئی دوکانوں، راکھ ہو جانے والی لکڑی کی بڑی ٹالوں کے درمیان چائے کا مگ ایک چھناکے کے ساتھ فرش پر گرکر چکنا چور ہو گیا۔

    ’’ارےخاتون۔۔۔‘‘ ایک بھاری لیکن نسوانی آواز ابھری۔ ’’کیا غضب کرتی ہے، روزانہ ایک برتن توڑ دیتی ہے، ابھی پچھلے ہفتہ ہی ایک پرچ توڑی تھی۔‘‘

    خاتون نے جو نیم پاگل ہے، آئیں بائیں شائیں کی۔ کچھ سمجھ میں آیا، کچھ نہیں لیکن چہرے پر خجالت کی جھلملاتی چلمن، الفاظ کے آدھے، چوتھائی یا اس سے بھی کم اگلے ہوئے اور اس سے بھی کم سمجھے ہوئے معنی نے مل جل کر افسوس، ندامت، شرمندگی کا ایک مجموعی تاثر پیدا کر دیا تھا۔ لیکن یہاں تو افسوس کا ایک ٹوٹا پھوٹا، لولا لنگڑا لفظ بھی نہیں، چہرہ پر شرمندگی کا ایک تاثر بھی نہیں، آنکھوں میں آنسو تو دور کی بات، ندامت کی ایک لکیر بھی نہیں۔۔۔ ہاں کچھ لوگ، یا کچھ لوگوں کا گروہ ضرور ہے جو سوچتے ایک طرح ہیں، نہ ہنستے ایک طرح ہیں، نہ روتے ایک طرح ہیں، دو ہاتھ ہیں، دو آنکھیں اور دو ٹانگیں ہیں۔ سانس لینے کے دو نتھنے ہیں، پیار کرنے کے لیے دو ہونٹ ہیں، جو چلتے پھرتے باتیں کرتے، چراغاں کرتے، سارے شہر کو روشنیوں کا شہر بنا دیتے ہیں اور پھر اس روشنی سے اپنے دلوں کو تاریک کر لیتے ہیں۔

    ایک نظر نہ آنے والی لکیر کے دونوں طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے، ایک طرف ہنسی کے فوارے چھوٹتے ہیں تو دوسری طرف آنسوؤں کے دریا بہہ جاتے ہیں، ایک طرف کوئی واقعہ غم و اندوہ کی ایک ٹھنڈی لہر دوڑا جاتا ہے تو دوسری طرف خوشی کی ایک لہر دل و دماغ کو چھو جاتی ہے، لیکن اس لکیر ہی کی طرح یہ جم غفیر، انسانوں کا یہ ہجوم ہے کہاں؟ یہاں تو کوئی بھی نہیں۔

    تو اس سے کیا ہوا؟ آنکھوں کو دماغ نے جھٹلایا۔ ایک مکان چھوڑ کر دوسرے مکان میں جو رہتا ہے وہ میں ہوں۔ اس سے پانچ مکان پہلے اور تین مکان بعد جو رہتا ہے وہ بھی میں ہوں۔ وہ سارا محلہ میں ہوں، وہ ساری گلی میں ہوں اور فلاں مکان، فلاں گلی، فلاں سڑک، فلاں محلہ، فلاں دوکان، میں نہیں بلکہ تم ہو۔ تم بھی نہیں غیر ہو، غیر بھی نہیں دشمن ہو، میرے دشمن، ہم سب کے دشمن۔

    ٹوٹے برتنوں کے اس ڈھیر سے ایک ٹکڑا کلبلایا، اٹھا، دوسرے کونے سے دوسرا ٹکڑا، ایک طرف سے کنڈا، ایک جانب سے پیندا اور ذرا سی دیر میں ایک نہایت خوبصورت پیالی اور طشتری آنکھوں کے سامنے تھی۔

    پھر اس سڑک سے آملنے والی، ایک پتلی سڑک کے چھوٹے لیکن خوبصورت سے مکان سے جو پاس کے دوسرے مکانوں کے شعلوں کی زد میں آکر زمین بوس ہو چکا تھا، جلی، ادھ جلی سیاہ اینٹوں، خاکستر کپڑوں اور دوسرے سامان کے ملبے کے اندر سے ایک سبک سی میز اور دو کرسیاں جن پر لپکتے شعلوں کاجیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا، اسی تباہ و برباد مکان کے ایک ایسے کمرہ میں جس تک آگ کی ایک بھی لپٹ نہ پہنچی تھی، خود بخود بڑے سلیقہ سے رکھ دی گئیں۔ کمرے کی سجاوٹ مکینوں کی خوش ذوقی کی گواہی دے رہی تھی۔ ہلکے سبز رنگ کے پردے جن پر نازک نازک سرخ پھول چھپے ہوئےتھے، دروازے پر ٹنگے تھے۔ ایک جدید پینٹنگ بائیں دیوار پر ٹنگی تھی، ایک چھوٹی میز پر ریڈیو رکھا ہوا تھا، الماری میں کرشن، بیدی، منٹو کے افسانوی مجموعے، کچھ ادبی جریدے، بعض رسائل کے ضخیم نمبر اور انگریزی کی چند کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔

    یکایک دونوں دروازوں کے پردوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔ ایک کی لہریں تیز تھیں، دوسرے کی مدھم، ایک کے پیچھے سے ایک بےچین، مضطرب، لیکن نہایت خوش سلیقگی سے بادامی رنگ کے سوٹ اور دھاری دار ٹائی میں ملبوس ایک نوجوان تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا ایک کرسی پر جابیٹھا۔ دوسرے دروازہ کے پردوں کے پیچھے سے ساڑی، گہری سرخ لپ اسٹک، ناک میں چمکتی ہوئی چھوٹی سی کیل اور کان کی لوؤں میں دھیرے دھیرے ہلتے ہوئے آویزوں کی بیرونی شناخت کے درمیان جو ہیولا ابھرا، اس کی آنکھوں نے چوری چوری میز اور سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے نوجوان کا جائزہ لیا، لیکن جیسے ہی نظریں ٹکرائیں، اس کی آنکھیں گویا زمین میں گڑ گئیں اور پھر وہ دوسری طرف کی کرسی پر بیٹھ گئی۔

    چار روز قبل پل پر جلی بجھی لکڑی کی ٹال کی حرارت نے چائے بنائی، خلوص کے ان دیکھے ہاتھوں نے اسے پہلے کیتلی اور پھر ان پیالیوں میں انڈیلا جو محبت کی چاشنی سے بے داغ جڑ گئی تھی۔ دو آنکھیں میز کی ایک جانب سے اٹھیں، دو دوسری جانب سے، ایک طرف اشتیاق کی شدت اور اس کا اظہار تھا تو دوسری طرف اشتیاق کے باوجود خاموشی۔ پھر تقریباً ایک ساتھ لبوں کو چھونے کے بعد جب پیالیاں طشتریوں میں واپس رکھی جانے لگیں تو ان کے کونے ٹکڑائے اور اس معمولی سے ٹکراؤ سے دونوں پیالیاں پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں۔ طشتریاں رکھے ہی رکھے اپنے پرانے زخموں کو یاد کرکے چور چور ہو گئیں۔

    کرسیوں اور میز کو نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے پھر اسی جلے ہوئے مکان کے ملبے میں لا پٹکا، دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے بھک سے جل گئے، دیوار پر ٹنگی ہوئی تصویر کا رنگ و روغن پگھل کر ٹپ ٹپ گرنے لگا، فریم جل کر کوئلہ ہوگیا، رسالے اور کتابیں، ریڈیو، ریڈیو پر رکھا ہوا گلدان، گلدان پر سجے ہوئے گلاب کے پھول، پہلے سیاہی مائل ہوئے، پھر سیاہ، پھر بےرنگ ہو گئے۔ بادامی رنگ کے سوٹ، دھاری دار ٹائی اور ہلکے سبز رنگ کی ساڑی کی جگہ معمولی پھٹے پرانے کپڑوں میں رحم کی بھیک مانگنے والی چار آنکھوں نے لے لی۔ چند گھنٹوں بلکہ چند لمحوں نے ان کی عمروں سے کم سے کم بیس بیس برس چھین لیے۔ ایک نسل جوان ہو گئی، ایک نسل بوڑھی ہو گئی، ایک نسل قبر کی گود میں سو گئی۔

    سنسان سڑک، لٹی ہوئی دوکانیں، بکھرے ہوئے، ٹوٹے پھوٹے شیشے کے برتن، ہزاروں من لکڑی جو کوئلہ، بھٹی، نہ راکھ، فائر بریگیڈ، گشت لگاتی ہوئی پولیس کی ٹکڑیوں کے بوٹوں کی آواز۔۔۔ اپنی ہی سانس اور ہوا کی سرسراہٹ سے چونک پڑنے والے بہادر دل، مسکراہٹوں سے نفرتیں جگانے والے چہرے، نفرتوں کو مسکراہٹوں سے قبول کرنے والی مصلحتیں۔

    ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ سامنے سڑک پر بہت سے لوگ ایک طرف سے دوڑتے ہوئے آئے اور جس کا جہاں سینگ سمایا گھس گیا۔ دوکانوں کے شڑ آن کی آن میں گرا دیے گئے، جو سواری جس طرف گئی لوٹ کر نہ آئی، سبزی ترکاری فروخت کرنے والے ٹھیلے تیزی سے دوڑتے چلے گئے، مکانوں کے دروازے، کھڑکیاں بند ہو گئیں اور چند ہی منٹوں میں سارے علاقے پر کرفیو کے سناٹے کے ایک بہت بدصورت، مہیب اور بڑے پرندے نے آکر اپنے پر پھڑپھڑائےاور جہاں جہاں اس کے پروں کی ہوا پہنچی وہاں وہاں جو لوگ سڑکوں پر تھے، مکانوں میں گھس گئے۔ جو اپنے آنگنوں میں تھے کمروں میں چلے گئے، جو کمروں میں تھے بستروں میں دبک گئے اور جو پلنگوں کے نیچے تھے، کونوں کھدروں اور بکسوں کے پیچھے، مئی جون کے مہینوں کے لیے پچھلے سال کی رکھی ہوئی خس کی ٹٹیوں کے پیچھے دبک گئے۔ ہر طرف سناٹا تھا، کوئی آواز نہ تھی، سانس بھی لوگ آہستہ آہستہ لے رہے تھے۔

    پھر ایک جیپ آئی جس پر لاؤڈ اسپیکر لگا ہوا تھا۔ کچھ سپاہی پیچھے بیٹھے تھے، کندھوں سے بندوقیں لٹکائے ہوئے، ’’شہر کے کسی بھاگ میں کوئی درگھٹنا نہیں ہوئی ہے، کرفیو لگنے میں ابھی تین گھنٹے باقی ہیں، آپ لوگ دوکانیں کھولیے، سودا سلف خریدیے، کوئی درگھٹنا نہیں ہوئی ہے۔‘‘

    لیکن کوئی دوکان نہیں کھلی۔ سودا سلف خریدنے کوئی گھر سے نہیں نکلا۔

    ابو۔ابو، میری بیٹی نے دروازہ میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’گولی چلی ہے بہت سے لوگ مارے گئے۔‘‘

    ’’کہاں۔‘‘ میں ہنسا۔ اس کے ذہن سے ڈر دور کرنے کے لیے میں نے کہا۔ ’’گولی تو کہیں نہیں چلی۔‘‘

    ’’نہیں ابو، آپ کو معلوم نہیں۔ رکشہ والا کہہ رہا تھا، کہیں گولی چلی ہے۔‘‘

    ’’نہیں بیٹی، کہیں گولی نہیں چلی۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’نہیں ابو۔‘‘ میری سات آٹھ سال کی بچی کو اپنی معلومات صحیح ہونے پر اصرار تھا۔

    ’’وہ بڑے خراب ہیں۔‘‘

    ’’وہ کون۔۔۔؟‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    ’’وہ۔۔۔‘‘ اس نےکندھے پر ٹنگا ہوا بستا اتارتے ہوئے ان لوگوں کا مجموعی نام لیا جنہیں وہ اپنے سے الگ، دوسرا اور غیر سمجھتی تھی۔ ’’وہی جنہوں نے اتنے بہت سے آدمیوں کو مار ڈالا۔ دوکانیں جلا دیں۔‘‘

    اگلے روز اخبار سے معلوم ہوا کہ کہیں گولی چلی تھی نہ جھگڑا ہوا تھا، ایک مرکھنے بیل نے کسی کو دوڑایا، وہ ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ چلاتا ہوا بھاگا، پھر کچھ اور لوگ بھاگے، پھر سناٹے کامہیب پرندہ آیا اور پر پھڑپھڑاتا رہا اور فضا میں اس کے پروں سے نکلنے والی ہوا پھیلتی رہی۔

    اس مرکھنے بیل کی خبر تو اگلے روز اخباروں میں چھپ گئی لیکن اس درمیان جو دل حرکت کرتے کرتے چند لمحوں کے لیے رک گئے، انہیں ہاتھ سے نکل جانے والے ان لمحوں میں حرکت کون دےگا اور اس آٹھ سالہ بچی کے اوپر سناٹے کے مہیب پرندے کے پروں سے نکلنے والی ہوا سے پیدا ہونے والے زہر اور زہر آلود سوالوں کا جواب کون دےگا؟

    سوکھی گھاس، نئےنوٹوں کی طرح کڑکڑاتے نعرے جو سکۂ رائج الوقت بنے ہوئے ہیں، ہر چنگاری کو قبول کرنے اور بھڑکتے ہوئے شعلہ میں تبدیل کردینے والا دماغ۔۔۔ ہر دوسرا شخص یا چند اشخاص کا گروہ جو میں نہیں ہوں، یا ہم نہیں ہیں، سازشیں بنتی ہوئی آنکھیں، مسکراہٹوں کو کدورتوں، نفرتوں، عداوتوں کے رنگ میں رنگ دینے والے ذہن سے جڑی ہوئی دو آنکھیں۔ ان میں سچ مچ کی چنگاری کے اڑکر گرنے، سلگنے، بھڑک اٹھنے اور پھر راکھ کا ڈھیر بن جانے کے جہاں اتنے سارے سامان موجود ہوں، وہاں کون کسی کا ہاتھ پکڑےگا، کون کسی مسکراہٹ کو قتل کا پیغام بننے سے روک لےگا؟

    مأخذ:

    سب سے چھوٹا غم (Pg. 54)

    • مصنف: عابد سہیل
      • ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 2013

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے