Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساری رات

انور عظیم

ساری رات

انور عظیم

MORE BYانور عظیم

    کہانی کی کہانی

    ’’کسی کی محبت میں ڈوبے ایک شخص کے خیالات اور تصورات پر مبنی کہانی۔ وہ چھت پر کھڑا ہے اور اپنی محبوبہ کا انتظار کر رہا ہے، جسے آنا ہی نہیں ہے۔ وہ اسے چاند، تاروں، ہواؤں اور کالی راتوں میں تلاش کرتا ہے، لیکن وہ اسے کہیں نہیں ملتی۔ وہ اس کا انتظار کر رہا ہے، جس نے آنے کا وعدہ ہی نہیں کیا ہے۔‘‘

    دوسرا گلاس بھی خالی تھا۔ میرا گلاس، جوپہلا گلاس نہیں تھا، خالی ہو رہا تھا۔ میں نے دوسرے گلاس کو بھی بھر دیا اور انتظار کرنے لگا۔ اس کا جس کے آنے کا انتظار تھا۔ اس کا جس نے آنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔

    چھت پر چاندنی سو رہی تھی۔ ہوا جاگ رہی تھی اور رات کا دل دھڑکا رہی تھی کبھی کبھی رات گہری سانس لیتی تھی اور خاموش ہو جاتی تھی۔ میں خاموش نہیں تھا میں بول رہا تھا لیکن کوئی میری آواز سن نہیں رہا تھا۔ خالی گلاس، جس کو میں نے چند لمحے پہلے بھر دیا تھا اب بھی خالی خالی آنکھوں سے مجھے گھورے جا رہا تھا۔ چاند میرے گلاس میں اتر آیا تھا اور آہستہ آہستہ پگھل رہا تھا۔

    ’’بہت انتظار کرایا تم نے۔ تمہار ا جام کب سے بھرا ہوا ہے۔ رات بیت رہی ہے۔ پیو نہ پیو جتنی رات اب باقی ہے، بہت ہے۔‘‘ میں نے کہا، اس سے جس کے آنے کا مجھے انتظار تھا۔ گلاس بھرا ہوا تھا، لیکن مجھے خالی نظر آ رہا تھا۔

    ’’ہاں بہت ہے۔‘‘ اس نے کہا جس کے انتظار میں میں شام سے چھت پر بیٹھا تھا، پی رہا تھا سگریٹ کے کش اڑا رہا تھا۔ تمباکو اور وہسکی کی خوشبو میری روح میں بسی ہوئی تھی۔

    ’’تم بہت اکیلے ہو۔‘‘ اس نے کہا جو نہیں آیا تھا۔ اس کے ہونٹ مڑ گئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں بھیگی بھیگی چنگاریاں جھلملارہی تھیں۔ ہونٹ اور مڑ گئے اور اس نے میری طر ف جھک کر کہا ’’تم بہت اکیلے ہو۔‘‘

    اس کے لہجے میں کتنا کدورت بھرا چٹخارہ تھا۔

    مجھے اپنے آپ پر بڑا ترس آیا۔ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ چہرہ ٹھنڈا تھا۔ نمی نے چہرے پر جالے سے بن دئیے تھے۔ گلاس کے باہر بھی، میرے چہرے کی طرح نمی کے جالے پگھل رہے تھے۔

    یکایک میرا چہرہ گرم ہونے لگا۔ سانس جلنے لگی۔ ’’میں سب کچھ بدل سکتا ہوں۔ اس کے پرخچے اڑا سکتا ہوں جس کا مجھے انتظار ہے۔ میں اس چھت سے کود سکتا ہوں اور نیچے گر سکتا ہوں۔ گر کر کہاں جا سکتا ہوں۔ نیچے پاتال ہے۔ یہ چھت بھی پاتال ہے پاتال سے پاتال میں۔ یہ گرنا بھی کوئی گرنا ہے۔‘‘

    اس کے ہونٹ اور مڑ گئے۔ چوٹ کھائے ہوئے جھینگر کی طرح۔ جھینگر بو ل رہے تھے۔ جھینگروں کی آواز سن کر، نیچے اصطبل میں گھوڑے ہنہنانے لگے۔ آواز آواز کو جگاتی ہے۔ خاموشی خاموشی کو تھپکیاں دیتی ہے۔ میں نہ آواز ہوں، نہ خاموشی۔ میں کیا ہوں۔ اس کے ہونٹ پھیل گئے۔ جھینگر غائب ہو گئے۔ اس نے ہنس کر کہا، ’’تم اپنی آواز سے ڈرتے ہو۔‘‘

    میں اس کی آواز کو کڑوے گھونٹ کی طرح پی گیا۔

    ’’پیو پیو، ابھی رات باقی ہے۔‘‘

    ’’ہاں ابھی رات باقی ہے۔ جام بھی باقی ہے، تم بھی باقی ہو۔‘‘

    دوسرے گلاس پر انگلیوں کی گرفت کبھی سخت ہو جاتی تھی کبھی ہلکی۔ کبھی انگلیاں پگھلنے لگتی تھیں، کبھی برف کی طرح جم جاتی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ کانچ کی دیوار بھی پگھل گئی ہے جسے میں گھورے جا رہا تھا۔

    میں جھکا، میں نے انگلیوں پرہونٹ رکھ دیئے۔ خالی گلاس کتنا سرد تھا۔ ہونٹوں کی طرح اور وہ انگلیاں جن کی گرفت میں گلاس تھا۔ انگلیاں بھی کتنی سرد تھیں۔ برف کی انگلیاں، برف کی آنکھیں، برف کے ہونٹ، برف کا چہرہ، برف کی مسکراہٹ، میں نے خالی گلاس کو پھر شیشے کی میز پر رکھ دیا۔ انگلیوں سمیت جن میں نہ جانے کتنے ڈنک چھپے ہوئے تھے۔ میں نے سارے ڈنک اپنے ہونٹوں میں چھپا لیے اور چپ چاپ اپنی کرسی میں سما گیا۔ میں نے ہاتھ بڑھایا، ربڑ کی آستین کی طرح اور گلاس میں پگھلتے ہوئے چاند کو پی گیا۔ بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی، پھر جو آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ۔۔۔ وہ سامنے بیٹھا ہے۔ رات کا دھندلکا میری روح سے چھن رہا ہے اور ستاروں کی گرد کی طرف سفر کر رہا ہے۔ وہ سامنے بیٹھا ہے اور انگلیوں سمیت اس گلاس کو خالی کیے جا رہا ہے جو شروع سے خالی تھا اور جس پر انگلیوں کی گرفت سخت تھی۔ جس کے سارے ڈنک میں نے اپنے ہونٹوں میں چھپا لیے تھے۔

    بینک میں ’’ٹوکن‘‘ جس طرح ایک کے اوپر ایک رکھے جاتے ہیں، مینار کی طرح، اسی طرح اس کے اعضاء ہوا میں تیر رہے تھے، لیکن ایک کے اوپر ایک۔ پھن پھیلائے ہوئے سانپ کی طرح، جس کے ہزاروں ٹکڑے ہو گئے ہوں لیکن جس کا ہرٹکڑا زندہ ہو اور ایک کے اوپر ایک، لہرا رہا ہو۔

    میں انگلیوں کو چھوتا ہوں، میرے ہونٹ خوشبو کا پیچھا کرتے ہیں۔ ہاتھ کا سفر، بانہوں کا سفر، گردن کا سفر اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ چہرہ، وہ چہرہ، کہیں نہیں ہے۔ میرا چہرہ اور اس کا چہرہ، دونوں غائب ہیں۔ سفر ختم ہوا۔ وہ ہنستی ہے، یہ اس کی ہنسی ہے۔ میں ہنسی کو دیکھتا ہوں۔ آواز جو دکھائی نہیں دیتی، چہرہ بن گئی ہے۔ میں اس آواز کو چومتا ہوں۔ اب ایک سفر اور شروع ہوتا ہے جو چہرے سے آگے جاتا ہے کیونکہ آواز وقت ہے۔ وقت جو وقت سے آگے جاتا ہے۔

    گھوڑے ہنہناتے ہیں۔ سارے تانگے والے یہیں رہتے ہیں۔ وہ وہیں رہتے ہیں جہاں گھوڑے ہنہناتے ہیں۔ جہاں گلی کوچوں کا اندھیرا ہے۔ وہ اپنے گھوڑے سے بھی زیادہ تھکے ہوئے ہیں اور بےہوش ہیں جو اپنے زمانے سے آگے نکل جاتے ہیں وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ میں ہوں یا گھوڑے، ایک ہی بات ہے۔

    ان جان لیوا انگلیوں نے، جو ہوا سے زیادہ سبک ہیں، گلاس کو چھوڑ دیا ہے۔ انگلیوں سے چھوٹتے ہی گلاس بجھ گیا ہے، چراغ کی طرح۔ ساری رات چاند بجھا رہا ہے۔ ساری رات۔

    اب کیا ہوگا۔ تم نے گلاس چھوڑ دیا ہے۔ گلا س کتنا خالی ہے۔ گلاس کی دیوار پر نمی کس طرح پسیج رہی ہے اور تم کتنی بےلباس ہو۔ سچائی کی طرح۔ مجھے اپنے جرم کا اقرار ہے۔ مجھے لباس سے زیادہ تم پسند ہو۔ بےلباس سچائی۔ سچائی نڈر ہے۔ اسی لیے تم اتنی خوبصورت ہو۔

    ساری کھڑکیاں دور دور تک اندھی آنکھوں کی طرح نظر آ رہی ہیں۔ کمروں کی آنکھیں باہر دیکھتی ہیں۔ میں ان آنکھوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ان کمروں کے اندر۔ ایک کمرے وہ ہیں۔ ایک کمرہ میں ہوں۔ تم اس کمرے میں کتنی اکیلی ہو۔ مجھے تمہارا یہ اکیلا پن بہت اچھا لگتا ہے۔ کھویا ہوا چہرہ، کھوئی ہوئی بانہیں، کھوئی ہوئی باتیں۔ ایک کمرہ تم ہو۔ میں اس کمرے میں کتنا اکیلا ہوں۔ ہر طرف گھٹن ہے۔ ساری کھڑکیاں بند ہیں اور میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ تم کسی طرح آ نہیں سکتیں۔ نہ جانے کیا قصہ ہے۔

    رات گرد کی طرح اڑ رہی ہے، سورج کی طرف۔

    یہ سب محض خیال ہے۔ باتیں۔ ان ہی باتوں نے مجھے وہاں تک پہنچایا ہے۔ اس چھت تک جس کے نیچے اصطبل ہے، جہاں گھوڑے ہنہنا رہے ہیں۔ تھکے ہوئے گھوڑے۔

    میں بھی تھک گیا ہوں۔

    تم پھر آ گئے۔ یہ بھی کوئی آنے کا وقت ہے۔ وقت، کیسا وقت۔ تم نے بلایا، میں آگیا۔ اچھا چھوڑو یہ باتیں۔ تم اب جاؤ۔ میں اس وقت اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ لیکن تم اکیلے کب ہو۔ وہ کون ہے۔ وہ کوئی نہیں۔ یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ میں بھی نہیں، تم بھی نہیں، لیکن یہاں کوئی تو ہے۔ دوسرے گلاس پر انگلیوں کے نشان کیسے ہیں۔

    وہ نتھنے پھلا کر انگلیوں کو سونگھتا ہے۔ گلاس کی دیوار پر نشان جاگتے ہیں۔ آہستہ آہستہ انگلیوں میں خون دوڑ رہا ہے۔ اس کا جسم تن گیا ہے۔ اس کی زبان نکل آئی ہے۔ اس کی دم سخت ہو گئی ہے۔ لوہے کی دم۔ وہ گلاس کو سونگھتا ہے اور چھت کو پنجوں سے کریدتا ہے۔ اس کے پنجے بھی لوہے کے ہیں۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی ہیں۔ اس کے منہ سے، زبان سے، جھاگ ٹپک رہا ہے۔ پوری چھت پر جھاگ ہے۔ میں چلتا ہوں۔ جھاگ پر پھسلتا ہوں اور گرتا ہوں۔ اٹھتا ہوں اور کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بھونکتا ہے۔ گلاس کو سونگھتا ہے۔ دم ہلاتا ہے اور باہر چلا جاتا ہے۔

    میرادل دھک دھک دھک دھک کررہاہے۔ اچھی مشین ہے یہ دل۔ غریب دل۔ رفریجریٹر کی طرح کام کیے جاتا ہے۔ مشین کا موٹر گرم اور چیزیں ٹھنڈی۔

    تم میرے پاس آؤ۔ چہرہ نہیں ہے تو نہ سہی۔ تم تو ہو۔ تم اور تم اور تم۔ یہ سارے سال، مہینے، دن، کتنے میلے، کتنے شکن آلود ہیں۔ ڈالو ان کو ردی کی ٹوکری میں۔

    اس وقت ساری باتیں یاد آ رہی ہیں۔ یادیں ستاروں کی طرح جھلملاتی رہتی ہیں۔ رات بھر ہم بھی ان کے ساتھ جھلملاتے رہتے ہیں، رات بھر۔

    تم نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔۔۔ شاید وہ تمہاری زندگی کا سب سے کمزور لمحہ تھا۔۔۔ کیا کہا تھا میں نے۔ تم نے کہا تھا میں بہت انوکھا انسان ہوں۔ میں نے پوچھا تھا۔۔ کیوں؟ تم نے ہنس کر کہا تھا۔۔۔ تم بہت شریف آدمی ہو اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ میں نے ساری رات باتوں میں کاٹ دی تھی۔ ہاں مجھے یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ راتیں باتیں کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔

    تم بہت زور زور سے سانس لے رہی ہو۔ منہ پر رومال مت رکھو۔ کھانسی بھلا رومال روکے رکتی ہے۔ تم پیاسی ہو۔ خالی گلاس اور تمہارا چہرہ خالی گلاس میں ہے۔ میرے گلاس میں چاند ہے۔ تمہارے گلاس میں چہرہ ہے۔ چہرے پر وقت نے جھریاں بنا دی ہیں۔ وقت اپنے چہرے پر جھریاں بنتا رہتا ہے۔ وقت خالی گلاس میں ہے۔ وقت کو اسی طرح پہچانا جاتا ہے۔ ہر شخص وقت کو اپنے گلاس میں انڈیل کر پی جاتا ہے۔ آنکھوں میں کتنا کاجل بھر لیا ہے تم نے۔ ہونٹوں کو لپ اسٹک نے کتنا پھیکا بنا دیا ہے۔ ہاتھوں پر رگیں جونکوں کی طرح رینگ رہی ہیں۔ تمہارے دانت کتنے میلے ہو گئے ہیں۔ وقت کی طرح۔۔۔ جس میں ہم زندہ رہے، جوہم سے چھو کر میلا ہو گیا۔ ہم وقت کو اپنی زندگی کے اس میل کے سوا اور کچھ نہ دے سکے۔ رات کا چل چلائو ہے۔ وقت کم ہے۔ تمہارے گلاس میں بھی جو خالی ہو رہا ہے۔ میرے گلاس میں بھی جو خالی ہو رہا ہے۔ اب تم آئی ہو تو بھلا کیا آئی ہو۔

    تم گلاس کے اندر سے مجھے دیکھ رہی ہو۔ کاجل بھری آنکھوں سے اور تمہارے چہرے کی جھریاں جالے کی طرح اڑ رہی ہیں اور تمہاری آنکھوں پر جھول رہی ہیں۔

    ہاں سب ٹھیک ہے۔ بینک کی نوکری، معاشقے، فلم دیکھنے کے لیے ملاقاتیں۔ میزوں کے نیچے پیروں اور گھٹنوں کا ملاپ، کافی کے ساتھ، وہسکی کے ساتھ، موٹی موٹی گالیاں، دھکم پیل زندگی اس ریلے میں بہتی ہوئی اس چھت تک پہنچ گئی ہے۔ کتنی رشوتیں، کتنی بےایمانیاں، کتنی چغلیاں۔ سب لباسوں میں چھپی ہوئی، تمہاری جھریوں کی طرح جس کو وقت نے تمہارے چہرے میں چھپا دیا تھا اور جن کو وقت ہی نے ابھار کر چہرے پر پھیلا دیا ہے۔ اب جھریوں کے سوا ا ور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چہرہ کہیں کھو گیا ہے۔ تمہارا بھی اور میرا بھی۔ سارا غازہ، سارے رنگ، ساری خوشبو۔۔۔ سب کچھ چہرے کے ساتھ کھو گیا ہے۔ اب چہرے کی تلاش بیکار ہے۔

    گلاس میں پڑا ہوا چہرہ خوشی میں چیختا ہے۔ جھریاں کانپتی ہیں۔ میری آنکھیں جل رہی ہیں کان جل رہے ہیں۔ گلا خشک ہوا جا رہا ہے۔ میں انگارے چبا رہا ہوں۔

    اتنی بڑی، اتنی لمبی زندگی، اتنا چھوٹا سا چہرہ، اتنا چھوٹا سا گلا س اور اتنا خوفناک قہقہہ۔

    میں نے دوسرا گلاس اٹھالیا۔ ایک ہی چوٹ سے گلاس کا سر ٹوٹ گیا۔ ٹوٹا ہوا کنارا دانتوں کی طرح چمکنے لگا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ دانت پیس کر ٹوٹے کنارے کو اپنی کلائی پر رکھا دانت گوشت میں چبھے۔ میں نے گلاس گھما دیا۔ کلائی ادھڑ کر رہ گئی۔ میں نے گرم پھواروں کو گلاس پر، میز پر، چھت پر گرتے دیکھا۔ گرم پھواریں، جن کا کوئی رنگ نہیں تھا، میری رگوں سے پھوٹی تھیں۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ چھت ویران تھی۔ آسمان کی طرح جن پر ستارے بجھ رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے ستاروں کی گرد نے مجھے گھیر لیا۔

    گلاس کے ٹوٹ جانے کا مجھے افسوس ہے جس میں تمہارا چہرہ ڈوب گیا تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم کہیں ہو اور مجھے دیکھ رہی ہو۔ اور میں صرف اس لیے مسکرا رہا ہوں کہ میں تمہاری آنکھوں کے سفر سے ڈرتا ہوں۔ میری مسکراہٹ تمہاری آنکھوں کا راستہ روکے کھڑی ہے اب تمہاری آنکھیں مسکراہٹ کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔

    میں گلاس اٹھاتا ہوں اور منہ سے لگاتا ہوں۔ میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اب یہ گلاس بھی خالی ہے۔

    مأخذ:

    لوح (Pg. 388)

    • مصنف: ممتاز احمد شیخ
      • اشاعت: Jun-December
      • ناشر: رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے