Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سات جمعرات

خورشید اکرم

سات جمعرات

خورشید اکرم

MORE BYخورشید اکرم

    گھاٹ پر بھیڑ تھی۔ بھیڑ ایسی بھیڑ۔۔۔ صرف ادھر نہیں اس پار والے گھاٹ پر بھی اتنی ہی بھیڑ نظر آرہی تھی۔ لانچ اور کشتیاں سب بھر بھر کے آ جا رہی تھیں۔

    لانچ پر جانے والی قطار بہت لمبی تھی۔ قطار بھی کیا تھی۔ ایک کی جگہ تین تین چارچار آدمی کھڑے تھے۔ ہم سے تھوڑا آگے کچھ عورتیں الگ الگ طرح کے برقعوں میں تھیں۔ ایک بزرگ خاتون چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شاید ایک ہی خاندان کے لوگ ہوں گے اور کوئی منت اتارنے جارہے ہوں گے۔ عورتوں کی بھیڑ میں ایک عورت گود میں ایک نومولود کو لیے ہوئے تھی۔ یہ عورت بالکل جوان نہیں لگ رہی تھی۔ بدن فربہی مائل تھا۔ کئی بچوں کی ماں لگ رہی تھی۔ شاید۔ شاید میں نے سوچا۔ اگر یہ بچہ اس کا ہی ہے تو پھر یا تو یہ اولاد بڑی منتوں مرادوں کے بعد ایک عمر گزر جانے پر ہوئی ہوگی یا یہ یکے بعد دیگرے کئی لڑکیوں کو جنم دے چکی ہوگی۔ اس کے بعد اس نے لڑکے کی منت مانگی ہوگی اور وہ پوری ہوگئی ہوگی۔

    ان سے تھوڑا فاصلے پر ایک جوان لڑکی کو تین عورتیں پکڑے کھڑی تھیں۔ ایک ادھیڑ عمر عورت نے اس کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا۔ یہ لڑکی ضرور کسی آسیب کی زد میں آ گئی ہے۔ آسیب اتارنے کے لیے ہی اس کو مزار پر لے جایا جا رہا ہو گا۔

    اتنے سارے لوگ۔ ہر ایک زندگی کی اپنی کوئی ایسی ہی کہانی ہوگی۔ کوئی مراد مانگنے جارہا ہو گا کوئی منت اتارنے۔ بیشتر فیملی والے منت کے طشت، ٹوکرے، چنگیریاں سجا سجا کرلے جارہے تھے جن میں ہار پھول، چڑھاوے کی چادر، شیرینی، اگربتی، موم بتی اور جانے کیا کیا کچھ تھا۔

    اطہر نے، جو صرف میرا ساتھ دینے کے لیے دریا پار چلنے کو تیار ہوا تھا، جیٹی سے دائیں طرف دیکھ کر اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’ڈینگی بھی کوئی نہیں ہے۔ ورنہ اسی سے چلتے ‘۔ میں بھی ادھر دیکھنے لگا۔ جیسے ہی ایک کشتی کنارے آئی پندرہ بیس لوگ، مرد عورت بچے اس سے اترے اور قریب قریب اتنے ہی دھڑا دھڑ کشتی پر چڑھ گئے۔

    چار پانچ سال پہلے جب سے لانچ چلا ہے، کشتی پر لوگ کم جاتے ہیں۔ ملاح اب اس گھاٹ سے اس گھاٹ سواری نہیں بار بر داری کر کے گزارہ کرتے ہیں۔ لانچ پر بیٹھو اور دس منٹ میں دریا پار۔ لیکن کشتی پر دریا پار کرنے کا مزہ ہی اور ہے۔ اور ہم لوگوں نے یہ مزے خوب لوٹے تھے۔ اب سواریوں کو لے جانے اور لانے کے لیے ان کے رسّے صرف جمعرات کو کھلتے تھے۔ کشتیوں میں بیشتر فیملی والے ہوتے، درگاہ پر جانے والے۔ کئی بار کوئی نوبیاہتا جوڑا اور کوئی چھوٹا پریوار بھی پوری کشتی ریزرو کرکے اس پار جاتا تھا۔ لانچ انجن کے شور اور ڈیزل کے دھوئیں کے مقابلے اب کشتی ایک لگژری بن گئی تھی۔

    لانچ آ گئی اور بھرنے میں زرا دیر نہیں لگی۔ ہم اوپر ڈیک پر جا کر بیٹھ گئے۔

    دریا کے اس حصے میں دونوں طرف آنے اور جانے والی ان گنت کشتیاں چل رہی تھیں۔ کئی کشتیاں عورتوں اور مردوں سے بھری ہوئی تھیں۔ جس نے پہلے نہ دیکھا ہو وہ اتنے لوگوں کو ایک ایک کشتی پر سوار دیکھ کر گھبرا جائے۔ مگر یہ یہاں کے لیے عام بات تھی۔ اور جمعرات کو تو اور بھی عام بات ہو جاتی تھی۔

    سیدنا بابا کے مزار پرسات جمعرات حاضری دے کرسچے دل سے جو مراد مانگی جاتی ہے وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔ اس لیے تو ہر جمعرات کو سیکڑوں لوگ صبح سے شام تک کشتی اور لانچ پر سوار ہوکر جاتے ہیں۔ پچھلے سات ہفتوں سے عقیدت مندوں کے ہجوم کا حصہ میں بھی ہوں۔ آج میری حاضری کا ساتواں جمعرات ہے۔ آج تو دل کی مراد پوری ہو گی ہی۔ بابا سب کی سنتے ہیں۔ سب کی بگڑی بناتے ہیں۔ میری بھی بنائیں گے۔

    میری ساری تدبیر ناکام ہور ہی تھی، تقدیر جو بگڑی ہے وہ تدبیر کے بس میں نہیں آرہی تھی۔

    میں اپنی نوکری کے لیے اتنا پریشان ہوگیا ہوں کہ ان دنوں مجھے دن اور رات اب کسی چیز کا خیال نہیں رہتا ہے۔ جس صوبی کا دل جیتنے کے لیے میں نے کیا کیا نہ جتن کیے اب اسی سے ملنے سے کتراتا ہوں۔ جب نوکری ہی نہیں تو۔۔۔ اس نوکری کو پانے کے لیے میں کتنے دنوں سے محنت کررہا ہوں۔ بازار میں ملنے والی بہترین گائیڈ بک میرے پاس ہیں۔ میں پوری محنت کررہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اتنا اچھا اسکور کرسکتا ہوں کہ مجھے نوکر ی مل جانی چاہئے۔ اسکور کر تا بھی ہوں لیکن ہر بار دو چار نمبر کم پڑ جاتے ہیں۔ میں 77 فیصد پاتا ہوں تو کٹ آف79 ہو جاتا ہے، 80 لائوں تو 83۔

    ابے بیٹا!نوکری صرف صلاحیت سے نہیں ملتی، قسمت بھی ہونا چاہئے سمجھا۔ اختر نے میرے کندھے پرہاتھ مار کرکہا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے سے نوکری پانے کی کوشش کر رہا تھا اور مجھ سے زیادہ مایوس ہو رہا تھا۔

    ’واقعی یار!‘ میں نے اس کی بات میں ہاں ملائی۔ آدھا یقین تو مجھے اس پر پہلے بھی تھا لیکن بہت قریب پہنچ پہنچ کر بھی جب ناکامی ہاتھ آنے لگی تو میں خود بھی اب اسی طرح سوچنے لگا تھا۔

    ایک دن میں بیٹھا اپنے ذہن کے اندھیرے میں ہاتھ پائوں ماررہا تھا کہ مجھے اچانک سید نا بابا کے مزار پر حاضری دینے کا خیال آیا اور بس مجھے ایسا لگا جیسے میری بگڑی اب ان کی دعا سے ہی سنور سکتی ہے۔

    مجھے پکا یقین تھا کہ میری بگڑی تو اب سنورنے ہی والی ہے۔ مگر اس بے دین، ایمان کا کیا ہوگا۔ جانتا ہوں کہ سال ڈیڑھ سال کی محنت کے باوجود اطہر کا کاروبار لنگڑا ہی کے چل رہا تھا۔ یوں سمجھئے کہ وہ بھی میری طرح قریب قریب بے روزگارتھا۔ اس کے بڑے بھائی جو ایک کمپنی میں کام کرتے تھے، انھوں نے اسے مال سپلائی کرنے کے کام پر لگا تو دیا تھا، لیکن اس سے اس کا کام نہیں چل رہا تھا۔ ٹھیکیداری کے لیے پیسہ چاہئے اور پیسہ اس کے پاس نہیں تھا۔ پیمنٹ ملنے میں اتنے اتنے دن لگ جاتے تھے کہ وہ پورا پورا مہینہ آرڈر نہیں لیتا تھا۔ مطلب یہ کہ حال پتلا تھا، کاغذ پرتو ایک ٹریڈنگ کمپنی کا مالک تھا۔ لیکن اصل میں تو قریب قریب ٹھن ٹھن گوپال۔

    اس کے دائیں ہاتھ کی انگوٹھی چمک رہی تھی گرچہ اب مہینہ بھر میں ویسی نئی رہ گئی تھی۔ مجھے معلوم ہے یہ قیمتی پتھر جڑی انگوٹھی اس نے ایک جیوتشی کے کہنے پر پہنی ہے، کاروبار میں ترقی کے لیے۔ پتہ نہیں یہ مذہب بیزار دوست، جیوتشی کے چکر میں کیسے پڑ گیا۔ پتہ نہیں اسے اس میں کون سی سائنس نظر آ گئی۔

    ’’ارے یار! تمہار ا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ اس پتھر کا کچھ اثر ہوا کہ نہیں؟‘‘

    ’’کیا کہوں۔ کچھ اچھا نہیں چل رہا۔‘‘ اکثر ایسی باتوں کو زندہ دلی سے بولنے بتانے والے دوست کے لہجے میں کچھ نراشا تھی۔ یار آرڈر سپلائی تو سب ٹھیک ہے لیکن پیمنٹ ندارد۔ جب بولو تب کبھی بڑا بابو نہیں کبھی چھوٹا بابو نہیں۔ بھیا نوکری ہی ٹھیک ہے۔ ٹائم پر پیسے مل گئے باقی دنیا جائے بھاڑ میں۔

    ’’کاروبار سے آدمی ترقی کرتا ہے۔‘

    ’’اس کے لیے قسمت چاہیے۔۔۔‘‘

    ’’یار، نوکری کے لیے بھی قسمت چاہیے۔‘‘ پھر مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے اپنی بات پوری کیـ’’۔۔۔ اور قسمت کا کھوٹ نکالنے کے لیے ہی تو درگاہ جا رہے ہیں۔ تم بھی اپنی مراد مانگ لینا۔‘‘

    وہ کچھ نہ بولا۔ مگر اس کے چہرہ کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ اس بات سے متفق نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ میری حماقت کہ اس سے منت مرادکی بات کی۔ ڈر رہا تھا کہ اب کہیں یہ اپنا والا لیکچر نہ شروع کر دے۔ لیکن خیر، وہ چپ ہی رہا۔ شاید اس لیے کہ اس وقت وہ بابا کے عقیدتمندوں میں گھرا تھا۔ یہاں سے وہاں تک درگاہ پر جانے والوں کا اژدہام جو تھا۔

    ایک بڑا سا جہاز پانی کو تیزی سے کاٹتا ہوا گزراتھا جس کی تیز لہریں دونوں کناروں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ لہروں میں کشتیاں ڈول گئی تھیں۔ لیکن ان ملاحوں کو معلوم تھا کہ ایسی تیز لہروں سے اپنی کشتیوں کی حفاظت کس طرح کرنا ہے۔ لوگ بھی کون سا ڈر رہے تھے۔ یہ تمام لوگ مزار پر حاضری دینے جارہے تھے یا وہاں سے آرہے تھے۔ عقیدت اور ایمان سے بھرے کہ ان کی کشتی نہیں ڈوبے گی۔ کشتیاں سب پاراتررہی تھیں۔

    دور دریا کے آخری سرے پر سورج بہت نیچے جھک آیا تھا اور پانی کا رنگ سنہرا ہو گیا تھا۔ ہوا میں نرمی تھی اور لانچ کی رفتا ر ہموار جس میں پانی کے بیچ سے کٹنے کی آوازبھی ہلکی ہلکی سی آ رہی تھی۔ کہ اچانک ایک ہلکا سا دھچکا محسوس ہوا جیسے گاڑی میں بریک لگنے پر محسوس ہوتا ہے یا جیسے کوئی وزنی چیز لانچ کے راستے میں آ گئی ہو۔ جتنی دیر میں کچھ سمجھ میں آتا۔ انسانی چیخ و پکار کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایک کشتی لانچ سے ٹکرا گئی تھی اور ایک دم سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ دو تین ملاّح خوف زدہ سے تیر رہے تھے۔ نائو کا قوس نما سائبان ٹوٹ کر الٹ گیا تھا اور اب ایک بڑا سا ٹوکرا لگ رہا تھا جس میں ایک دہشت زدہ عورت اپنے ایک چار چھہ ماہ کے بچے کو سنبھالے روئے جارہی تھی، چیخے جارہی تھی۔ پانی جو ابھی تک دھیرے بہتا ہوا معلوم ہو رہا تھا اس میں جیسے ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔ عورت جس ٹوکرا نما چیز پر بیٹھی تھی وہ، کشتی کے تختے، ٹین کے ڈبے، المونیم کے چھوٹے چھوٹے برتن، پھول، خوانچہ پوش، گمچھے اور بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں سب بہی جا رہی تھیں۔ ایک طرف ایک مرد ایک بچے کو ایک ہاتھ سے تھامے کسی صورت سے ہاتھ پائوں مار کر سطح پر خود کو بنائے رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ لانچ رک گیا تھا۔ اس پر بیٹھے لوگ بھی خوف زدہ سے تھے اور اس ہڑبڑاہٹ میں کچھ نہ کچھ بولے جا رہے تھے۔ ایک ہیجان تھا۔ دریا کا وہ حصہ ہیجانی آوازوں سے بھر گیاتھا۔ ان آوازوں میں ایک آواز میرے اس دوست کی بھی تھی اور وہ کس سے کیا کہہ رہا تھا، تیراکوں سے، ڈوبنے والوں سے، یا مانجھیوں سے یا کسی اور سے یا مجھ سے۔ میری زبان کو جیسے لقوہ مار گیا تھا، میرا خون جیسے میری رگوں میں ٹھہر گیا تھا مگر ذہن میں زبردست ہلچل مچا ہوا تھا۔

    میرا دل بیٹھنے لگا۔ سیدنا بابا سے میری جو عقید ت تھی وہ ایسے ہی ڈولنے لگی جیسے زرا دیر پہلے جہاز کے گزرنے پر تیز لہروں میں کشتیاں ڈول رہی تھیں۔ میں دل ہی دل میں دعا کرررہا تھا کہ کسی طور پر یہ لوگ بچ جائیں اور کشتی کے ٹکڑوں کی طرح بہتے ہوئے عقیدہ کے ساتھ یہ سو چنے لگا تھا کہ اگر یہ آج مزار پر نہ آئے ہوتے تو یوں جان جوکھم میں تو نہ پڑتی اور میں کسی ہارے ہوئے وکیل کی طرح سوچ رہا تھا کہ میرا دوست مجھے اس بات کے طعنے دے گا کہ دیکھ، بابا کو خوش کرکے جانے والے زندگی اور موت کے درمیان کس طرح پھنس گئے ہیں۔ کیسے یہ مصیبت میں پڑگئے ہیں۔ اگر یہ ڈوب گئے تو۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ڈوب گیا تو باقی زندگی بھر اس بابا کو، اس مزار کو کیا کہیں گے۔ ان کی عقیدت کسی جذبے میں بدل جائے گی۔ وہ اسے محض قسمت کا لکھا مانیں گے یا اس بات پر افسوس کرتے رہیں گے کہ اگر وہ مزار پر نہ گئے ہوتے تو وہ جو ڈوب گیا ہے، ڈوبا نہ ہوگا۔ اوراگر سارے بچ بھی گئے تب بھی ایک دہشت اب ہمیشہ ان کے دلوں میں قائم رہے گی اور وہ شاید کبھی اس مزار پر نہ آئیں گے یا شاید کسی بھی مزار پر کبھی نہ جائیں گے۔

    لانچ پر سے یکے بعد دیگرے تین چار تیراک پانی میں کودے۔ ان کے ہاتھ میں ڈوبنے سے بچائو کے لیے ٹیوب تھے۔ جتنی دیر میں وہ کودیں پانی کے بہائو سے عورت اور بچہ جو اس ٹوکرے نما چیز پر بیٹھی تھی وہ دور ہوتی جارہی تھی اور اس کے ساتھ عورت کی دہشت ناک چیخ بھی بڑھ رہی تھی۔ ایک تیراک جیسے اپنی پوری قوت لگا کر تیز تیز تیرتے ہوئے عورت کے ٹوکرے تک پہنچ گیا تھا اور اب اسے کھینچ کر لانچ کی طرف لا رہا تھا۔ ایک تیراک اس مرد کی طرف پہنچ گیا تھا جو ایک ہاتھ میں ایک ڈیڑھ دو سالہ بچی کو سنبھالے کسی طرح اپنے آپ کوڈوبنے اور بہنے سے بچا رہا تھا۔ محافظ تیراک نے بچے کو سنبھال لیا تھا اورآدمی کو جو اب بھی بہت دہشت زدہ اور بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا، ٹیوب تھمایا جسے پہن کر تیرنا اب اس کے لئے کچھ آ سان ہو گیا تھا۔ یہ گویا ایک چھوٹی سی فیملی تھی جو سیدنا کی درگاہ سے حاضری دے کر یا شاید اپنی منت اتارکرواپس اس کشتی پر سوار خوش وخرم واپس اپنے گھر کو لوٹ رہی تھی۔

    انہیں اوپر کھینچنے کے لیے ٹائر اور ٹیوب پانی میں پھینک دیے گئے تھے، ملّاح بھی ایک ایک کرکے لانچ کے کنارے آکر رسّے تھام چکے تھے۔ کچھ تیراک میاں بیوی کے جھولے وغیرہ کھینچ کر لارہے تھے۔ فکر اور تشویش کی جگہ سارے لوگوں کے چہروں پر مسرت لوٹ رہی تھی۔ اطہرادھر دیکھنے میں مگن تھا جدھرسے مجھے اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اور مجھے معلوم نہیں کہ کیا تاثر تھا۔ وہ کیا کہے گا؟

    میں کیا کہوں گا؟ اور میرے خیالوں کی اسی کشمکش کے بیچ جب مرد اور عورت اور بچے پانی سے لانچ پر اٹھالیے گئے تھے، دوست میری طرف مڑا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ اس کی آنکھ نے جیسے کسی ہونی کو انہونی میں بدلتے دیکھ لیا تھا۔

    پھر اس نے اپنے لب کھولے اور مسرور لہجے میں ہاتھ لہرا کر بولا: ’’بتائو، اب ان کا یقین بابا پرپکا ہوگا کہ نہیں۔‘‘

    میں اس کودیکھ رہا تھا۔ بے یقینی سے۔ شاید ہونق کی طرح۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے