Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفید گھوڑا

احمد ندیم قاسمی

سفید گھوڑا

احمد ندیم قاسمی

MORE BYاحمد ندیم قاسمی

    یہ الیاس کا فون تھا۔

    میں نے کہا، ’’میں ابھی آیا۔ وہیں اپنے پرانے ہوٹل میں ٹھہرے ہونا؟‘‘

    الیاس کی آواز آئی، ’’ٹھہرا بھی وہیں ہوں اور وہیں سے بول بھی رہا ہوں۔ مگر تم ابھی نہ آؤ۔ اس وقت میں ایک دفتر جارہا ہوں۔ بہت ضروری کام ہے۔ لاکھوں کا معاملہ ہے۔ اسی لیے ہوائی جہاز سے آیا ہوں اور کل ہوائی جہاز ہی سے واپس پنڈی چلا جاؤں گا۔ تم شام کو آنا۔ ٹھیک آٹھ بجے بلکہ ساڑھے سات بجے۔ اور رؤف!سنو۔ اب تو تم اور بڑے افسر ہوگئے ہو۔ آج کل تمہیں کون سا بڑانڈ پسند ہے؟‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’وہی جس کی تم نے لت ڈالی ہے۔۔۔ سفید گھوڑا!‘‘

    الیاس بولا، ’’بس ٹھیک ہے۔ سفید گھوڑا بھی ہوگا اور سفید گھوڑی بھی۔‘‘

    میں نے بن کر پوچھا، ’’یہ کوئی نیا برانڈ نکلا ہے؟‘‘

    اور وہ اتنے زور سے ہنسا اور ہنستا چلا گیا کہ مجبوراً مجھے ہنسنا پڑا، ورنہ میں ایسی باتوں پر شاذ ہی ہنستا تھا۔ میں ہنسا تو وہ سمجھ گیا کہ میں نے سفید گھوڑی کا مفہوم پالیا ہے۔ اس لیے بولا، ’’خفا تو نہیں ہوگئے؟‘‘ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’’یار تم اب تک الو کے الو ہی رہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہ تو خیر شام کو طے کریں گے کہ ہم میں سے بڑا کون ہے۔‘‘ وہ بولا، ’’بہت اچھا۔ تو پھر ساڑھے سات بلکہ سوا سات بجے طے؟‘‘ میں نے کہا، ’’طے۔‘‘

    سوا سات بجے میں الیاس کے ہوٹل میں پہنچا تو وہ نہا رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’یہ کون سا وقت ہے نہانے کا؟‘‘ غسل خانے میں سے بولا، ’’ارے تمہیں اب تک خبر نہیں؟ میں تو غسل کرکے وہسکی پیتا ہوں۔ میرا چھوٹا اٹیچی کیس رکھا ہے نا، اسے کھولو۔ اس میں تمہارا سفید گھوڑا بند ہے۔‘‘ میں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا، ’’مجھے سفید گھوڑے کا یہ تھان کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘ الیاس ہنسنے لگا۔ پھر بولا، ’’الماری میں ہوگا۔ تم اس کی اگاڑی پچھاڑی کھولو۔ میں پہنچتا ہوں‘‘

    میں نے اٹیچی میں سے وائٹ ہارس کی بوتل نکال کر میز پر رکھی تو وہ تولیہ لپیٹ کر باہر آگیا۔ اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور ساتھ والے کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک وسیع و عریض پلنگ پر دو تکیے سجے تھے۔ بولا، ’’یہ ہے سفید گھوڑی کا تھان۔‘‘

    مجھے الیاس کی اس حرکت سے ہمیشہ کی چڑ تھی۔ اس لیے شاید میرے تیور دیکھ کر وہ بولا، ’’یہ سب نشے ہیں میری جان۔ شراب پینا، عورت سے پیار کرنا، سچ بولنا، ڈاکا مارنا۔۔۔ یہ سب نشے ہیں۔ جو شخص ان میں سے کوئی بھی نشہ کرتا ہے اسے دوسرے نشوں پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ تم چلو، میں کرتا پاجامہ پہن کر ابھی آیا۔‘‘

    پھر ادھر سے الیاس بڑے کمرے میں داخل ہوا، ادھر سے ہوٹل کا ایک سنجیدہ اور باوقار بیرا آیا۔ بہت نیک آدمی لگتا تھا، بس ماتھے پر محراب کی کمی تھی۔ پھر وہ الیاس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس مسکراہٹ نے اس کی پوری شخصیت بدل ڈالی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ یا تو آنکھ مار دے گا یا چھرا نکال لے گا۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ اس نے آنکھ ماردی اور پھر دروازے کاپردہ یوں اٹھایا جیسے چھرا نکالا ہے۔

    پہلے ایک عورت اندر آئی۔ یہ بڑی تندرست عورت تھی۔ خون اس کے پورے چہرے سے پھوٹا پڑ رہا تھا۔ یہ خون اس کی آنکھوں میں بھی چمک رہا تھا اور اس کی ہتھیلیوں میں بھی۔ اس کے جسم کا باقی حصہ برقعے میں تھا مگر مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اسی طرح لہو لہان ہوگا۔ میرا جی چاہا، تعارف ہوجائے تو اس سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ آپ کون سے وٹامن کھاتی ہیں۔ ایک قدم اندرآکر اس نے ہم دونوں کو ایک نظر دیکھا۔ پھرالیاس کا رخ کرکے اس نے آنکھیں جھکائیں اور سلام کے طور پر سر کو ذرا سا خم کیا۔ فوراً بعد وہ پلٹ کر جیسے سرگوشی میں بولی، ’’آبھی جاؤنا بلقیس۔‘‘ بیرا اسی طرح پردہ اٹھائے کھڑا تھا اور اسی طرح مسکرا رہا تھا۔

    عورت نے الیاس سے کہا، ’’نئی نویلی ہے نا، ڈرتی ہے۔‘‘ پھر وہ دروازے میں گئی، ’’بے وقوف ہو تم تو۔ بالکل ہی دیہاتن ہو۔ اب ایسا بھی کیا۔ آجاؤ نا بلی۔‘‘

    الیاس نے تکیے کے نیچے سے بٹوا اٹھاکر ایک سو کے بہت سے نوٹوں میں سے ایک نوٹ نکالا اور دروازے کے پاس جاکر بولا، ’’یہ لیجیے میرے کمرے کی دہلیز الانگنے کا نذرانہ۔۔۔‘‘ عورت نے فوراً الیاس کے ہاتھ سے نوٹ لے لیا اور بولی، ’’اب تو آنا ہی پڑے گا بلو۔ یہ لو۔۔۔‘‘ اس نے نوٹ والا ہاتھ آگے بڑھایا مگر پھر اسے تہہ کرکے مٹھی بند کرلی اور سرگوشی میں بولی، ’’اری پگلی! ہوٹل کا معاملہ ہے۔ چلو اب جلدی سے آجاؤ۔ ایک گھنٹے سے جو میں تمہیں سمجھا رہی تھی تو کیا اس کا تم پر یہی اثر ہوا؟ بیوقوف۔‘‘ پھر باہر جاکر اس نے بلقیس کو جیسے دھکا دے دیا۔

    بیرے نے پردہ گرادیا تو الیاس بولا، ’’دیکھو سراج! کچھ بھیج دو۔ کباب اور تکے۔ کیوں ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا مگر جواب عورت نے دیا، ’’ذرا تیز مرچوں والے کباب ہوں۔ سمجھے بھائی سراج؟‘‘ سراج چلا گیا۔ الیاس نے بڑھ کر چٹخنی چڑھادی اور بولا، ’’تشریف رکھیے۔‘‘ سب بیٹھ گئے۔ بلقیس بھی بیٹھ گئی مگر اس نے برقعے کی نقاب گرارکھی تھی۔

    ’’یہ میری عجیب د یوانی بیٹی ہے۔‘‘ عورت نے اپنے برقعے کے ٹچ کھولتے ہوے کہا، ’’یہ میری سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔ آپ نے اس کا چہرہ تو ابھی نہیں دیکھا مگر اس کا قد تو پسند ہے نا آپ کو؟‘‘ الیاس بولا، ’’جی ہاں۔۔۔ سبحان اللہ!‘‘ میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ پلٹ کر الیاس کو دیکھا۔ اتنے پیارے اور مقدس الفاظ اس نے کتنے اوباش لہجے میں ادا کیے تھے۔ الیاس میری اس حرکت سے بہت محظوظ ہوا۔ وہ ہنسنے لگا اور بولا، ’’یہ میرے دوست ہیں مگر بہت شرمیلے۔ ان سے قسم لے لیجیے جو انہوں نے آج تک کسی عورت کو چھوا بھی ہو۔ ان کا نام رؤف ہے مگر آپ انہیں مردوں کا بلقیس سمجھ لیجیے۔‘‘

    عورت بے اختیار ہنسنے لگی۔ وہ اتنی ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر اس نے برقعہ اتار کر صوفے کی پشت پر ڈال دیا۔ توبہ! وہ کس بلا کی صحت مند عورت تھی۔ اس کے ننگے بازوؤں میں مچھلیاں تڑپ رہی تھیں اور اس کا بلاؤز فولاد کی جالی سے بنا ہوگا، ورنہ جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہوتا۔

    ’’سن بلقیس!‘‘ عورت بولی، ’’ذراسی بھی حیا ہو تو اب برقعہ اتاردو۔ نہیں اتارو گی تو میں تمہیں عورتوں کی رؤف کہنے لگوں گی۔‘‘ اب کے الیاس بے اختیار ہنسا اور ساتھ ہی اس نے میرے بازوؤں میں اس زور کی چٹکی لی جیسے وہ میرا دشمن ہو۔ میں نے اس میں اتنی وحشت کبھی نہیں دیکھی تھی۔ دروازے پر کسی نے جیسے انگلی کے جوڑے سے پراسرار دستک دی۔ الیاس نے دروازہ کھولا۔ سراج ٹرے میں کباب اور تکے سجاکر لایا اورمیز پر رکھ کر بولا، ’’اور کوئی حکم؟‘‘

    ’’ضرورت پڑی تو میں گھنٹی بجادوں گا۔‘‘ الیاس نے کہا۔ سراج واپس جاتے ہوئے رکا۔ پہلے بلقیس کی طرف دیکھا، پھر الیاس کو وہی خوفناک آنکھ مار کر بولا، ’’یوں کب تک بیٹھے رہیں گے صاحب؟ منہ دکھائی دیجیے اور پھر۔۔۔ اور پھر تکے کھائیے!‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا اور عو رت مسلسل ہنستی چلی گئی۔ ’’بڑا بدمعاش ہے یہ سراج۔ چل ہٹ۔ اور دیکھ ایک اچھی سی نئی ٹیکسی روکے رکھنا۔ میٹر بے شک ابھی سے ڈاؤن کردے۔ کیوں جی؟‘‘ اس نے الیاس سے پوچھا۔

    ’’ضرور ضرور۔‘‘ الیاس بولا۔ سراج چلا گیا تو اس نے دروازہ بند کرکے اور پردہ کھینچ کر بٹوے میں سے ایک سو کا نوٹ نکال کر دونوں ہاتھوں پر یوں رکھا جیسے طشتری میں سجایا ہے۔ عورت نے اٹھاکر تہہ کیا اور پہلے نوٹ سمیت اسے بلاؤز میں اڑس کر مسکرائی۔ سر کو یوں جنبش دی جیسے اجازت دے رہی ہے۔ الیاس پلٹا اور بلقیس کی نقاب الٹ دی۔

    وہ بڑی عجیب سی لڑکی تھی۔ عجیب یوں کہ کچھ ایسی خوبصورت تو نہیں تھی مگر خوبصورت لگتی تھی۔ اس کا رنگ بہت سفید تھا مگر اس کے چہرے کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ البتہ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا کہ کمی کہاں رہ گئی ہے۔ اس کا ہر نقش دوسرے نقش کا سہارا بنا ہوا تھا۔ اس کا حسن زنجیر کی کڑیوں کا سا تھا۔

    نقاب الٹتے ہی اس نے کنکھیوں سے عورت کی طرف دیکھا تو وہ بولی، ’’لو، ایسی واہیات شرم بھی کیا! میں نے گھر سے چلتے ہوئے بتانہیں د یا تھا کہ اپنے آدمی ہیں۔‘‘ الیاس نے تپائی اٹھاکر بلقیس کے سامنے رکھی۔ پھر اس پر وائٹ ہارس کی بوتل اور چار گلاس رکھ دیے۔ اور بلقیس پہلی بار بولی، ’’جی میں تو اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ الیاس نے احتجاج کیا، ’’اس نعمت سے تو رؤف کا سا الو بھی محروم نہیں ہے اور آپ۔‘‘ عورت نے الیاس کی بات کاٹی، ’’سراج نے کہا تھا کہ آپ کو تازہ مال چاہیے۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ بلقیس آج پہلی بار کسی ہوٹل میں جائے گی۔ اسے کیا پتہ کہ یہ سب کیا ہوتا ہے۔ تپائی یہاں میرے پاس لائیے۔‘‘

    مگر الیاس اٹھ کر عورت اور بلقیس کے درمیان بیٹھ گیا اور بلقیس کی ٹھوڑی کے نیچے سے برقعے کی ڈوری کی گرہ کھولتے ہوئے باقاعدہ گانے لگا،

    ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم

    ہر شب پیاہی کرتے ہیں مے، جس قدر ملے

    ’’مجھے تو کوئی سکواش پلادیجیے۔‘‘ بلقیس نے بچوں کی طرح فرمائش کی۔ اور جب تک الیاس گھنٹی بجانے کے لیے اٹھتا، میں نے کہا، ’’میں لاتا ہوں۔‘‘

    ’’ہائیں۔۔۔!‘‘ عورت چہکی، ’’رؤف صاحب تو بولتے بھی ہیں۔‘‘ اس پر عورت اور الیاس کے علاوہ بلقیس بھی ہنسی اور بلقیس کو ہنستا پاکر الیاس اور زور سے ہنسا، اور میں باہر نکل آیا۔ سراج کو سکواش بھجوانے کو کہا اور وہاں سے گھر کی راہ لی۔

    یہ لڑکی میرے ذہن پر مسلط ہوگئی تھی۔ الیاس کے ہاں یوں تو میں نے کئی عورتیں دیکھی تھیں۔ ان کی صورتیں مختلف تھیں، مزاج مختلف تھے، مگر مسکراہٹ کے معاملے میں وہ سب ایک جیسی تھیں۔ وہ مسکراتی تھیں تو لگتا تھا وہ یہ مسکراہٹ بازار سے خرید کر لائی ہیں۔ یہ شرماتی تھیں تو صاف معلوم ہوتا تھا کہ انہیں بڑاتکلف کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر یہ لڑکی تو بالکل ایسی لڑکی تھی جیسی متوسط طبقے کے گھروں میں ہوتی ہیں۔۔۔ معصوم، بے خبر اور راضی برضا۔۔۔ مجھے الیاس پر غصہ تو کئی بار آیا تھا مگر نفرت آج پہلی بار محسوس ہوئی۔

    چند برس پہلے میں نے بڑی کوششوں اور سفارشوں کے بعد اسے آٹے اور چینی کا ڈپو دلوایا تھا، تو وہ کتنا پیارا آدمی تھا۔ بس کبھی کبھار شراب پیتا تھا اور سہگل کی طرز میں غالب کی غزلیں گاتا تھا۔ آواز بہت رسیلی تھی، اس لیے شراب نوشی کی ہر محفل میں مدعو ہونے لگا۔ یوں اس کی وجہ سے مجھے بھی شراب نوشی کی لت پڑگئی۔ پھر اونچے طبقے کی محفلوں میں مسلسل شرکت کی برکت سے اسے چند لاکھ کا درآمدی لائسنس مل گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ کئی لاکھ نقد کی آسامی بن گیا۔ وہ پنڈی چلا گیا اور وہیں اپنا صدر دفتر قائم کیا۔ اب وہ لاہور اور کراچی میں بعض ملیں لگانے کی سوچ رہا تھا۔ انہی دنوں وہ ایک بار پنڈی سے لاہور آیا تو مجھے اسی ہوٹل میں مدعو کیا اور وہیں پہلی بار مجھے معلوم ہوا کہ وہ شراب کے علاوہ عورت سے بھی شوق کرنے لگا ہے۔

    دوست آدمی تھا۔ اور پھر اس نے اتنا امیر ہوجانے کے باوجود میرے ابتدائی احسان کو یاد رکھا تھا، اس لیے وہ جب بھی لاہور آیا میں اس کی غروب آفتاب کی مشغولیتوں میں شامل رہا۔ لاہو رمیں اس کی تیسری یا چوتھی آمد پر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’شراب کی حد تک ٹھیک ہے کہ تم جس سوسائٹی میں گھومتے ہو اس میں شراب نہیں پیوگے تو بدتہذیب کہلاؤگے اور کاروبار کو بھی نقصان پہنچاؤگے مگر یہ عورت والا قصہ چھوڑو۔ عورت کسی نہ کسی کی بیٹی یا بیوی یا ماں ضرور ہوتی ہے۔ اور ہم پاکستان کے رہنے والے ہیں اور یہ رشتے ہمارے لیے آج بھی مقدس ہیں۔ سو تم یوں کرو کہ شادی کرلو۔۔۔‘‘ اس نے مجھے اطلاع دی کہ اس نے شادی کرلی ہے اور اس کی ایک پیاری سی بیوی ہے اور تین بچے ہیں۔ اور، ’’فکر نہ کرو رؤف! میری بیوی پرانے زمانے کی عورت نہیں ہے۔ میں اسے ہر مہینے دوہزار نقد پیش کردیتا ہوں اور اس کے بدلے میں اس نے مجھے ہر بات کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘

    میں نے سوچا، صرف جیب کے بھاری یا خالی ہونے سے قدریں کیسے بدل جاتی ہیں۔ چنانچہ میں چپکا ہو رہا۔ مگر جب بھی گفتگو میں کبھی اس کے گھر کا ذکر آیا تو میں نے اس کی بیوی کے بارے میں ’’تمہاری بیوی‘‘ کہہ کر بات کی۔ اسے ’’بھابی‘‘ نہ کہا۔ کیونکہ بھابیاں اپنے شوہروں کو ہر رات ایک نئی عورت کا انتظام کرلینے کی اجازت نہیں دیا کرتیں۔ میں نے شاید صرف اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے یہ فلسفہ گھڑلیا تھا کہ الیاس اگر عیاش ہے تو اس کی عیاشی صرف ایسی عورتوں تک محدود ہے، جو الیاس کے پاس نہیں آئیں گی تو کسی اور کے پاس چلی جائیں گی۔ سو ہے تو یہ خراب بات مگر کچھ ایسی بھی خراب نہیں ہے کہ میں اتنے اچھے دوست سے نفرت کرنے لگوں۔

    مگر بلقیس کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ الیاس عیاشی کی مقررہ حدیں پھاند گیا ہے اور میں نے تو پاگلوں کو بھی دیکھا ہے کہ تھوکنا چاہیں گے اور سامنے پھولوں سے لدی جھاڑی ہوگی تو اس سے ہٹ کر تھوکیں گے۔۔۔ زندگی میں پہلی بار مجھے یقین ہوگیا تھا کہ الیاس دراصل کمینہ آدمی ہے۔

    خاصی دیر تک پلنگ پر کروٹیں بدلنے کے بعد میں ایک دم اٹھا اور چپل گھسیٹتا باہر لپکا۔ میں نے ایک ٹیکسی روکی اور ڈرائیور سے کہا کہ وہ محفوظ حد تک جس قدر تیز چلا سکتا ہے چلائے۔ میں نے اسے میٹر سے دوگنی رقم دینے کا وعدہ کیا اور کار الیاس کے ہوٹل کی طرف اڑنے لگی۔ میں نے بڑا ظلم کیا تھا کہ الیاس کے کمرے میں اس لڑکی کے داخل ہوتے ہی اسے رخصت نہ کردیا تھا۔ الیاس یقیناً برامانتا مگر وہ میری نیت پر شبہ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ یقیناً میری بات مان لیتا اور ایک معصوم لڑکی ہمیشہ کے لیے تباہ ہونے سے بچ جاتی۔ وہ لڑکی جو اُن سب لڑکیوں کی نمائندہ تھی جن کے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی خاطر اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں۔ مگر جب یہ ذریعہ بھی کارگرنہیں ہوتا تو اپنے مستقبل کی خاطر بیٹیوں کو بیچ ڈالتے ہیں۔

    ہوٹل کے سامنے ٹیکسی روک کر میں نے دگنا کرایہ ادا کیا اور اوپر لپکا مگر سیڑھیوں ہی میں سراج مل گیا۔ وہ تکوں، کتابوں کی خالی پلیٹیں اٹھائے لارہا تھا۔ مجھے دیکھا تو وہی شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں بلکہ اس کے سارے چہرے پر کودی۔ پھر وہ بولا، ’’صاحب تو بی بی کو لے کر ابھی ابھی کہیں چلے گئے ہیں۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کہاں گئے ہیں؟ کچھ بتاکر نہیں گئے؟‘‘

    وہ ہنس کر بولا، ’’بھولے بادشاہو! یہ بھی کوئی بتانے والی باتیں ہوتی ہیں۔‘‘

    گھر آکر میں نے الیاس کو ایک خط لکھا جس میں اسے کمینہ اور خبیث اور ذلیل تک کہہ ڈالا۔ میں نے اس سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیا اور اسے خبردار کیا کہ وہ آئندہ مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کرے۔ ’’میں تم جیسے اخلاق باختہ بدکرداروں پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘ ظاہر ہے اس کے بعد الیاس سے میری کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ پھر میرا تبادلہ لاہور سے کراچی ہوگیا اور یوں میں پنڈی سے دور ہوگیا۔

    کراچی میں پہلے روز جب میں اپنے سٹاف سے ملا تو اس صف میں اپنے ایک پرانے دوست اور ہم جماعت مشتاق کو بھی کھڑا پایا۔ وہ اس دفتر میں میرا ہیڈکلرک تھا۔ اس سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کالج کے زمانے میں وہ بڑا پرہیزگار مشہور تھا اور سب نے اس کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے گھڑ رکھے تھے اور اس سے جنت کے ویزے لینے آتے تھے۔ اب بھی میں نے دیکھا کہ وہ صورت سے بدستور نیک آدمی ہے۔

    شام کو اس نے مجھے دعوت پر اپنے گھر بلایا اور جب سب معززین شہر سے میرا تعارف کرا چکا تو الماری میں سے وائٹ ہارس کی دو بوتلیں نکالیں اور ہم سب کے ساتھ پینے بیٹھ گیا۔ حیرت تو ہوئی مگر شراب نوشی کی حدتک میں بڑا فراخ دل ہوں۔ سب کو معاف کردیتا ہوں۔ اس لیے اسے بھی معاف کردیا۔ پھر جب کھانے کے بعد سب مہمان چلے گئے تو وہ بولا، ’’آپ دوسرا شوق بھی یقیناً فرماتے ہوں گے!‘‘ میں نے پوچھا، ’’دوسرا شوق؟‘‘ اور مشتاق کچھ اس طرح مسکرایا کہ میں نے ایک پل کو یہ بھی سوچا کہ کہیں مشتاق کے روپ میں یہ لاہور کا بیرا سراج تو نہیں ہے؟‘‘ پھر وہ اٹھا اور بولا، ’’میں نے یہ انتظام بھی کر رکھا ہے۔‘‘

    اس نے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولا تو خوشبو سے لدی ہوئی ایک عورت مٹکتی اور مسکراتی ہوئی اندر آگئی۔ میں سمجھا یہ مشتاق کی بیوی ہے، اس لیے میں ادب میں کھڑا ہوگیا۔ پھر جب میں صوفے پر بیٹھا تو مشتاق اسی سراج والی مسکراہٹ سے بولا، ’’شوق فرمائیے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ عورت صوفے کے اس طرف سے کھسک کر میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی۔

    میرا جسم جیسے بجلی کے ننگے تار سے چھوگیا۔ میں تڑپ کر اٹھا تو عورت اور مشتاق بہت زور سے ہنسے مگر جب میں مشتاق کو باقاعدہ گالیاں دینے لگا تو عورت تیر کی طرح دوسرے کمرے میں گھس گئی اور مشتاق مجھ سے معافیاں مانگنے لگا۔

    میں گھر آیا تو جیسے اس عورت کی خوشبو میرے ساتھ چمٹی چلی آئی تھی۔ میں نے اسے صرف ایک نظر دیکھا تھا مگر ایسی عورتوں کو ایک نظر دیکھنا بھی کافی ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں میں نے اطالوی مصوروں اور یونانی مجسمہ سازوں کے ہاں تو دیکھی ہیں مگر عام زندگی میں کبھی نہیں دیکھیں۔ کتنی دیر تک وہ میرے ساتھ لگی قہقہے مارتی رہی اور خوشبوئیں لنڈھاتی رہی۔ نیند میں بھی اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ میری آنکھ کھلی تو مجھے یا د آیا کہ ایک بار وہ بادل کو چادر کی طرح لپیٹ کر آسمان پر جابیٹھی تھی اور پھر سر پر ستاروں بھری ٹوکری رکھے آئی تھی اور انہیں میرے قدموں پر نچھاور کرکے مجھ سے لپٹ گئی تھی اور میں یوں ہڑبڑاکر جاگ اٹھا تھا جیسے میرا جسم بجلی کے ننگے تار سے چھوگیا ہے۔

    دوسرے روز میں نے جان بوجھ کر مشتاق کو کوئی دس بارہ مرتبہ اپنے دفتر میں بلایا مگر اس نے مجھ سے آنکھیں نہ ملائیں۔ وہ مجھ سے شرمندہ تھا، اس لیے اسے پتہ ہی نہ چلا کہ میں اس سے بھی زیادہ شرمندہ ہوں۔‘‘

    میں بولا، ’’میں بھی تم سے بہت شرمندہ ہوں مگر تم سے بھی زیادہ اس بیچاری عورت سے شرمندہ ہوں۔ وہ بھی کیا سوچتی ہوگی کہ کس بدتمیز سے سابقہ پڑا۔ عورت چاہے کیسی بھی ہو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اور کل میں نے بڑی بدتہذیبی، بڑے اجڈپنے کا مظاہرہ کیا۔ دراصل یہ شراب انسان کو بھی سفید گھوڑا بنادیتی ہے۔ تم تو خیر میرے پرانے دوست ہو۔ تمہیں تو میں تمہارے کان مروڑ کر بھی منالوں گا، مگر کسی طرح مجھے اس عورت کے پاس لے چلو۔ میں اس سے معافی نہیں مانگوں گا تو میرا ضمیر میرے لیے عذاب بنارہے گا۔‘‘

    وہ بہت کمال کی عورت نکلی۔ اس نے مجھے فوراً معاف کردیا۔ پھر وہ مشتاق کی موجودگی ہی میں مجھ سے لپٹ کر رونے لگی اور بولی، ’’مجھے تو پہلی ہی نظر میں آپ سے محبت ہوگئی ہے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ اس فقرے کو ختم ہونے کے فوراً بعد مجھے بھی اس سے محبت ہوگئی۔

    پھر اچانک وہ عورت کہیں اندرون سندھ چلی گئی اور وہاں کسی بڑے زمیندار سے باقاعدہ عقد کرکے پردے میں بیٹھ گئی۔ میں نے دفتر سے چھٹی لے لی اور مشرقی پاکستان کے کسی انتہائی مشرقی گوشے میں تبادلہ کرانے کا پروگرام بنالیا مگر بھلا ہو مشتاق کا کہ وہ میری مدد کو پہنچا۔ کالج کی بعض ہوائی دوستیاں بھی کتنی پائیدار ثابت ہوتی ہیں۔ اس نے میرے تبادلے کے پروگرام منسوخ کرکے ہر رات ایک نئی عورت کا پروگرام مرتب کیا۔ اور اس پروگرام پر عمل کرکے میں نے اپنی محبت کی ناکای کے سب زخم مندمل کرلیے۔

    یہ انہیں دنوں کی بات ہے جب میں نے سوچا کہ میں نے کتنی ذرا سی بات پر الیاس کے سے دوست سے تعلق ختم کردیے تھے۔ میں نے الیاس کو دل سے معاف کردیا اور اسے خط لکھا۔ اس کا فوراً جواب آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ اس اطلاع سے اتنا خوش ہوا کہ زندگی میں پہلی بار اس نے دوپہر کو شراب پی لی۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ دسمبر میں کراچی آکر مجھ سے ایک بہت بڑا جشن منوائے گا۔ اس لیے سفید گھوڑے کے علاوہ اس کے لیے ایک اچھوتی سفید گھوڑی مخصوص کردی جائے۔

    میں نے مشتاق سے اس کا ذکر کیا تو اس نے ایک بہت امیر کاروباری کے متعلق بتایا کہ، ’’عرصے سے اس کا ایک کام اٹکا ہوا ہے۔ آپ کے قلم کی ذرا سی جنبش سے یہ کام ہوسکتا ہے۔ مجھ سے کئی بار کہہ چکا ہے مگر نہ کوٹھی کی بات کرتا ہے نہ کار کی۔ کہتا ہے صاحب سے کہو، میں اچھوتے سے اچھوتا مال پیش کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’کاروں کوٹھیوں کو ماروگولی۔ بہت جمع ہوچکی ہیں۔ تم آج ہی اس سے بات کرو کہ صاحب مان گیا ہے۔ پھر اسی سے الیاس کا بندوبست کرنے کو بھی کہیں گے۔۔۔‘‘ مشتاق گیا اور آدھ گھنٹے کے اندر واپس آکر اطلاع دی کہ آج شام کو سب انتظام ہوجائے گا۔

    شام کو مشتاق بڑی سنجیدہ اور باوقار صورت لیے میرے کمرے میں آیا تو میں میز پر وائٹ ہارس کی بوتل رکھے بیٹھا تھا۔ پھر اس نے مجھے سراج کی طرح آنکھ ماری اور پردہ اٹھادیا۔ پہلے ایک عورت اندر آئی۔ یہ بڑی تندرست عورت تھی۔ خون اس کے پورے چہرے میں سے پھوٹا پڑرہا تا۔ یہ خون اس کی آنکھوں میں بھی چمک رہا تھا اور اس کی ہتھیلیوں میں بھی۔

    اس نے میری طرف دیکھا اور جیسے لمحے بھر کے لیے منجمد ہوکر رہ گئی مگر پھر فوراً ہی اس نے آنکھیں جھکائیں، سلام کے طور پر سر کو ذرا سا خم کیا اور جیسے سرگوشی میں بولی، ’’آبھی جاؤ نا رضیہ۔‘‘ پھر وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ’’نئی نویلی ہے نا، ڈرتی ہے۔‘‘ پھر وہ دروازے میں گئی، ’’آجاؤنا رضو۔‘‘ پھر باہر جاکر اس نے رضیہ کو جیسے دھکا دے دیا۔

    اس نے جوں ہی میرے کمرے میں قدم رکھا، میں نے بڑھ کر اس کی نقاب ایک جھٹکے سے الٹ دی او روہ صوفے پر گرسی پڑی۔ وہ بڑی عجیب سی لڑکی تھی۔ عجیب یوں کہ کچھ ایسی خوبصورت تو نہیں تھی مگر خوبصورت لگتی تھی۔ اس کا ہر نقش دوسرے نقش کا سہارا بناہوا تھا۔ اس کا حسن زنجیر کی کڑیوں کا سا تھا۔

    ’’اچھی ہو بلقیس؟‘‘ میں دانت بھینچ کر بولا۔ میں ایسا نہ کرتا تو چیخ پڑتا۔

    مشتاق ہنسنے لگا، ’’بلقیس نہیں صاحب! رضیہ۔‘‘

    عورت ایک دم بولنے لگی، ’’ذرا جلدی سے جاؤ مشتاق بھائی۔ کچھ تکے کباب بھجوادو۔ اور دیکھو کباب ذرا تیز مرچوں والے ہوں جو مجھے بالکل رلادیں۔‘‘

    مشتاق چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ عورت کبابوں کے آنے سے پہلے ہی رو رہی ہے۔ اس نے لپک کر چٹخنی چڑھادی اور پلٹ کر میرے قدموں میں ڈھیر ہوگئی۔ وہ اپنے بھیگے ہوئے گال میرے پاؤں سے رگڑ نے لگی اور فریاد کرنے لگی، ’’میرا پردہ رکھ لیجیے صاحب! میرا اور میری بیٹی کا پردہ خدا کے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میں کیا کروں صاحب! میری ایک ہی بیٹی ہے مگر سب نئی بیٹی مانگتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کو کیسے بدلوں صاحب! اسی لیے شہر بدل لیتی ہوں۔۔۔ مجھ نگوڑی کو کیا پتہ تھا کہ آپ لوگ بھی شہر بدل لیتے ہیں۔ خدا کے لیے صاحب، خدا کے لیے میرا او رمیری بیٹی کا پردہ رکھ لیجیے ورنہ کوئی ہمیں دوپیسے کو بھی نہیں پوچھے گا۔‘‘

    دوسرے دن میں نے الیاس کو خط لکھا کہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں کراچی آنا چاہتے تو ہزار بار آؤمگر میرے پاس نہ آنا۔ میں کل رات سے مرچکا ہوں۔

    مأخذ:

    کپاس کا پھول (Pg. 162)

    • مصنف: احمد ندیم قاسمی
      • ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے