aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سہائے

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والے فسادات اور ان میں انسانی خون کی ارزانی کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ جس میں ایک ہندو نوجوان (جو ممبئی میں رہتا ہے) کے چچا کا کراچی میں قتل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان دوست سے کہتا ہے کہ اگر یہاں فساد شروع ہو گئے تو ممکن ہے کہ میں تمہیں قتل کر ڈالوں۔ اس جملے سے مسلمان دوست کو شدید صدمہ پہنچتا ہے اور وہ پاکستان چلا جاتا ہے لیکن جانے سے پہلے وہ سہائے نامی دلال کی کہانی سناتا ہے جو ہر قسم کے مذہبی تعصب سے پاک صرف ایک انسان تھا۔ (یہ منٹو کے ساتھ پیش آنے والے حقیقی واقعے پر مبنی کہانی ہے۔)

    ’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں، یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندومار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کرکے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہوگیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ایک ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جاسکتے ہیں۔۔۔ مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں، روح میں ہوتا ہے۔۔۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

    ممتاز اس روز بہت ہی پرجوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔۔۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جدا ہو کر پاکستان جارہا تھا۔۔۔ پاکستان، جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

    ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جدا ہورہا تھا۔ جگل کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اسکا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا، ’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔‘‘

    ممتاز نے اس سے پوچھا، ’’کیا کرو گے؟‘‘ جگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا، ’’میں سوچ رہا ہوں، بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

    یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہوگیا اور اس کی یہ خاموشی تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جارہا ہے۔

    ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگل کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے، ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘ غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں۔۔۔ ممتاز کو جو کہ اس کا جگری دوست تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہوگیا تھا۔۔۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔

    صبح اٹھتے ہی اس نے پینا شروع کردی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے باندھا اور بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جارہا ہے۔۔۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کررہا ہے، لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کیلیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کررہا ہے۔

    میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں۔ اشارۃًمیں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔

    جگل تین چار پگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہوگیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے۔ ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں۔ لانڈری سے کپڑے لانے تھے۔۔۔ یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے، لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا، ’’یاد ہے برج۔۔۔ آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا، گوبند نے ہمیں ایک روپیہ ادھار دیا تھا۔‘‘

    راستے میں ممتاز خاموش رہا۔ مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر، لیکن وہ کچھ ایسی پرخلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہوگیا، لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہوگئے۔

    ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہیں۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بےحد بھیڑ تھی۔ ہزارہا ریفیو جی جارہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔۔۔ بے پناہ ہجوم تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جارہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جارہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں۔ جواس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔

    جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔۔۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، ’’یہ محض فریبِ نظر ہے۔۔۔ آسمان اور سمندر کا آپس میں ملنا۔۔۔ لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر دلکش ہے۔۔۔ یہ ملاپ!‘‘

    جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی یہ کہی ہوئی بات چٹکیاں لے رہی تھی، ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

    ممتاز نے جہاز کے بار سے برانڈی منگوائی، کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔۔۔ ہم چاروں گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیو جی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہورہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔

    جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا، ’’مجھے معاف کردینا ممتاز۔۔۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دکھ پہنچایا تھا۔‘‘

    ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا، ’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں۔۔۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مارڈ الوں۔۔۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔۔۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔‘‘

    جگل نے اثبات میں سر ہلایا، ’’لیکن مجھے افسوس ہے۔‘‘

    ’’تم مجھے مار ڈ التے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔‘‘ ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔۔۔ ایک مسلمان کو۔۔۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ ایک انسان کو مارا ہے۔۔۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مار ڈالا ہے۔۔۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔۔۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔‘‘

    تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شر وع کیا، ’’ہو سکتا ہے، میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلانا شروع کردیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں۔۔۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں۔۔۔ لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔۔۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کردیا۔۔۔ بتاؤ، تم اور میں کس تمغے کے مستحق ہیں؟ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلعت کا حقدار ہے۔۔۔ میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار۔۔۔ بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔۔۔‘‘

    باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت جذباتی ہوگیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً اس کی اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

    یہ سن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرےبے چینی سے کہا، ’’نہیں بالکل ٹھیک نہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک توہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی طرح ادا نہیں کرسکا۔۔۔ مذہب سے میری مراد، یہ مذہب نہیں، یہ دھرم نہیں، جس میں ہم میں سے ننانوے فی صدی مبتلا ہیں۔۔۔ میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت بخشتی ہے۔۔۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔۔۔ لیکن یہ چیز کیا ہے؟ افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دکھا سکتا۔‘‘ یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا، ’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟ کٹر ہندو تھا۔۔۔ پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کس کی؟‘‘

    ’’ایک بھڑوے کی۔‘‘ ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا، ’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

    ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرفِ عام میں ایک بھڑوا تھا۔۔۔ عورتوں کا دلال۔۔۔ لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔‘‘

    ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رک گیا، جیسے وہ پرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کررہا ہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا، ’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔۔۔ کچھ سہائے تھا۔۔۔ بنارس کا رہنے والا۔ بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا تھا۔۔۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے۔ لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔۔۔ صرف صفائی ہی نہیں، ہر کام۔۔۔ اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔۔۔ رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجیے۔۔۔ اگر کسی لڑکی کے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپاتا نہیں تھا۔۔۔ اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔۔۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔۔۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔۔۔ معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں، زیادہ کیوں نہیں۔۔۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کرکے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزازی کی دکان کھولے گا۔۔۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔‘‘

    میں یہاں تک سن چکا تو میرے منہ سے نکلا، ’’عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘

    ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی، ’’میرا خیال تھا کہ وہ سر تا پا بناوٹ ہے۔۔۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیو ں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں، اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از وہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابل یقین تھی کہ وہ دس بارہ لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔۔۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا، امینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں۔۔۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں۔۔۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں۔۔۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔۔۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرادی تھی، لاہور سے خط لکھا ہے کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزازی کی دکان کھول سکے۔ یہ سن کر تو میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا، چونکہ میں مسلمان ہوں۔ اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔‘‘

    میں نے ممتاز سے پوچھا، ’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

    ’’بالکل۔۔۔ اس کے قول و فعل میں کوئی بعد نہیں تھا۔۔۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں۔۔۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔‘‘ جگل نے سوال کیا۔ ’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘

    ’’اس کی موت پر‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔ ’’فسادات شروع ہو چکے تھے۔۔۔ میں علی الصبح اٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔۔۔ کرفیو کے باعث بازارمیں آمدورفت بہت ہی کم تھی۔ ٹرام بھی نہیں چل رہی تھی۔۔۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا، تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گھٹری سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کوئی پاٹی والا (مزدور) سو رہا ہے۔۔۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رک گیا۔۔۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔۔۔ میں پھر رک گیاآس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔۔۔ اس کی ٹول کی سفید قمیص جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لتھڑی ہوئی تھی۔۔۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کردیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے۔ ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔۔۔ میں اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سےٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔۔۔ پھر ایک دم اس کے سارے بدن میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا، ’’آپ؟۔۔۔آپ؟‘‘

    میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کردی۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔۔۔ سامنے ہسپتال ہے، کیا میں وہاں اطلاع دوں؟

    ’’اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے۔ میرے دن پورے ہو چکے تھے۔۔۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

    بھگوان کو جانے کیا منظور تھا، لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہوکر، مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے، اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس کامارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑاتھا، وہ بھی مسلمان تھا۔۔۔ میں ڈرپوک تو نہیں، لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا نہ گیا تو پوچھ گچھ کے لیے دھیر لیا جاؤں گا۔ ایک بار خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں۔۔۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا، میں ٹھہر گیا۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رک گئے۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں، جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیص کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا، مگر جب کچھ اور کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا، ’’نیچے بنڈی ہے۔۔۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیوراور بارہ سو روپے ہیں۔ یہ۔۔۔ یہ سلطانہ کا مال ہے۔۔۔ میں نے۔۔۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔۔۔ آج اسے۔۔۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔۔۔ آپ اسے دے دیجیے گا اور۔۔۔ کہئے گا فوراً چلی جائے۔۔۔ لیکن۔۔۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

    ممتاز خاموش ہوگیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ابھری تھی، دور، ادھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہورہی ہے۔

    جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا، ’’میں سلطانہ سے ملا۔۔۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔‘‘

    جب ہم ممتاز سے رخصت ہو کر نیچے اترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔ اس کا داہنا ہاتھ ہل رہا تھا۔۔۔ میں جگل سے مخاطب ہوا، ’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتاز، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔۔۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

    جگل نے صرف اتنا کہا، ’’کاش، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

    مأخذ:

    فسانے منٹو کے (Pg. 343-350)

      • ناشر: کتابی دنیا، دہلی
      • سن اشاعت: 2007

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے