Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سلمہ اور سمندر

خواجہ احمد عباس

سلمہ اور سمندر

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    والدین کی جانب سے بچوں پر بے جا پابندیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھنوں کو اس کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ معروف وکیل سر عظیم اللہ اپنی بیٹی کے مہاوت کی لڑکی جھنیا سے ملنے پر نہ صرف سخت پابندی عائد کرتے ہیں بلکہ اسے سمندری جہاز سے لندن پڑھنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ دوران سفر معصوم ذہن میں اٹھنے والے سوالات، یاد داشت، مشاہدات اور تخیلات کے نتیجہ میں اس کے لا شعور میں سمندر کا ایسا خوف بیٹھ جاتا ہے کہ کیمبرج سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی وہ خوف نہیں نکلتا۔ جب ڈاکٹر انور سے اس کی لو میرج ہو جاتی ہے تو انور کشتی میں ہی بٹھا کر اس کا نفسیاتی علاج کرتا ہے، اور ساحل سمندر پر درد زہ میں مبتلا جو مچھیرن اس سے ملتی ہے اس کا نام بھی جھنیا ہوتا ہے۔

    ’’سلمہ!‘‘

    ’’ہوں۔۔۔‘‘

    ’’خوش ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’کتنی خوش ہو؟‘‘

    ’’اتنی خوش ہوں۔۔۔ اتنی خوش ہوں۔۔۔ کہ بتا نہیں سکتی۔‘‘

    اور بڑی بڑی کالی آنکھیں جو کاجل کی غیرضروری لکیروں کے بغیر بھی بہت خوبصورت تھیں، آہستہ آہستہ پلکوں کے پردے میں چھپتی گئیں، جیسے غلافی پپوٹے اتنی محبت، اتنی مسرت کا بوجھ نہ سنبھال پاتے ہوں۔ (’ایشیائی آنکھیں‘ جن کے بارے میں ایک نوجوان انگریز شاعر نے ایک ’سانیٹ‘ لکھا تھا۔ جہاندیدہ آنکھیں جنہوں نے لندن کا ویسٹ منسٹر اور روم کا سینٹ ہال اور پیرس میں سونالی زا اور قاہرہ کے اہرام مصر اور نیویارک کے فلک بوس سکائی سکریپر دیکھے تھے مگر جن میں محبت کی میٹھی آگ آج پہلی بار بھڑکی تھی۔ انور نے جھک کر اپنی بیوی کی بند آنکھوں کو چوم لیا۔ سلمہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی بڑے ہی خوبصورت اور میٹھے اور سریلے احساس کی نرم نرم لہریں اس کے اوپر سے گزر رہی ہیں۔ دھیرے دھیرے وہ اپنی ہستی کو اس احساس کے سپرد کر رہی ہے۔ وہ نرم نرم لہریں اس پر سے گزر رہی ہیں۔ وہ ان میں ڈوب رہی ہے، وہ ان میں ڈوب جانا چاہتی ہے۔

    نرم نرم لہریں، اس کے تخیل کے کسی کونے میں، جہاں شعور اور لاشعور کی سرحدیں ملتی ہیں، ایک عجیب سی موسیقی سرگوشیاں کر رہی تھی، جیسے شہد کی مکھیاں بھیرویں کا الاپ گنگنا رہی ہوں۔۔۔ نہیں یہ شہد کی مکھیاں نہیں۔ یہ بھڑیں ہیں۔ لاکھوں بھڑوں کی افق تک پھیلی ہوئی لہر اور ان کے ڈنکوں کے میٹھے زہر میں وہ ڈوب رہی ہے اور ڈوب جانا چاہتی ہے۔ مر رہی ہے اور مر جانا چاہتی ہے۔

    اور پھر ایک مدھم شور، ماضی کے افق سے سرسراتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ سمندر کی اٹھتی ہوئی لہروں کا شور، نرم نرم ریت پر متواتر پانی کی محبت بھری مار کا شور۔ مگر دیر تک محبت کے سمندر میں ڈوبی ہوئی عورت یہ نہ سمجھ سکی کہ یہ شور ان کے مکان کے باہر ہے یا خود اس کے من کے اندر ہے۔ شاید یہ میرے برانگیختہ دماغ کا واہمہ ہے۔ اس نے سوچا۔ شاید میرے عمر بھر کے خوف اور خدشے اس غلیم اور عمیق مسرت کے لمحے میں مجھے ڈرانے دھمکانے کے لیے یہ شور کر رہے ہیں۔ میں آج ان کی آواز سنوں گی۔ میں اِن سے نہیں ڈروں گی، نہیں ڈروں گی، نہیں ڈروں گی۔۔۔

    اس کے دل کی دھڑکن کی لے تیز ہو رہی تھی۔۔۔ نہیں سنوں گی، نہیں ڈروں گی، نہیں سنوں گی، نہیں ڈروں گی۔ مگر سمندر کی طوفانی لہروں کی لے بھی اتنی ہی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اب وہ لہریں نرم ریت ہی پر نہیں پھیل رہی تھیں، اب وہ چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ ان کا شور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اب وہ لہریں خود ان کے مکان کی دیواروں پر دستک دے رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سمندر۔۔۔ اس کا پرانا دشمن۔۔۔ جو کب سے اس کی جان کے درپے تھا، اس کمرے میں آن پہنچےگا اور سلمہ کو، اس کے شوہر اور ان کے مسرت بھرے اس لمحے کو بہا کر لے جائےگا، اور ان کا گلا گھونٹ کر اپنی ہیبت ناک کالی گہرائی میں ہمیشہ کے لیے سلا دےگا۔ محبت اور مسرت کے لمحے کی گہرائی سے سلمہ کی چیخ نیم اندھیرے کمرے میں گونجی اور پھر لہروں کے شور میں کھو گئی۔

    ’’سلمہ! میری جان! کیا ہوا؟ ڈر گئیں۔۔۔؟‘‘ انور نے سرہانے رکھے ہوئے لیمپ کا بٹن دبا کر روشنی کی اور اس نے دیکھا کہ سلمہ کا چہرہ پیلا پڑ گیا ہے۔ اس کی پیشانی پسینے سے چمک رہی ہے اور اس کے ہاتھ تھر تھر کانپ رہے ہیں، اور اس نے ان تھرتھراتے ہوئے نرم اور نازک چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ ایسے لگے جیسے دوسہمے ہوئے کبوتر کے بچوں نے باز سے ڈر کر ماں کے پروں میں پناہ لے لی ہو۔۔۔

    (انور نے سوچا کتنے ملائم، کتنے نازک ہیں سلمہ کے ہاتھ۔ ان ہاتھوں نے کبھی ترکاری نہیں چھیلی، کبھی مسالہ نہیں پیسا، کبھی بانوں کے پلنگ نہیں بنے، کبھی برتن نہیں مانجھے، کبھی کپڑے نہیں دھوئے۔ ان ہاتھوں نے تو پار کر اور شیفر قلم سے فلسفے کے لیکچر نوٹ ہی لکھے ہیں۔ یہ ہاتھ صرف پیانوں کے پردوں پر ہی پڑے ہیں۔ ان کی انگلیاں کبھی ستار کی مضراب سے زخمی نہیں ہوئیں۔)

    (اور سلمہ نے سوچا انور اتنا بڑا ڈاکٹر ہے لیکن اس کے ہاتھ تو ایسے مضبوط اور کھردرے ہیں، جیسے کسی لوہار کے ہوں، کسی کان کن یا سڑک کوٹنے والے کے۔ اگر، جب ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی، اس نے اندھیرے میں انور سے ہاتھ ملایا ہوتا اور اس کے حساس چہرے کی نرم مسکراہٹ نہ دیکھی ہوتی، اس کی ہمدردی میں رچی ہوئی آواز نہ سنی ہوتی، اس کے سلجھے ہوئے دماغ کی تلوار جیسی کاٹ کا زخم نہ کھایا ہوتا، تو وہ کبھی ایسے غیرشاعرانہ ہاتھوں میں اپنی زندگی اور محبت نہ سونپتی! مگر کتنی پریقین محبت تھی ان سخت ہاتھوں کی گرمی میں۔ کتنی پرسکون عافیت، کتنا پرخلوص انداز اور عہد۔)

    ٹھنڈے ہاتھوں کی کپکپاہٹ ٹھہر گئی۔ دھڑ دھڑ کرتے ہوئے دل کی لے پرسکون ہوتی گئی اور انور کی آواز سلمہ کو ایسے لگی جیسے زخم پر کوئی پھایہ رکھ دے (کیوں نہ ہو۔ اس نے سوچا۔ میرا شوہر ڈاکٹر جو ہے۔)

    ’’کیا ہوا؟ کوئی ڈراونا خواب دیکھا تھا کیا؟‘‘

    ’’خواب نہیں۔ سمندر۔‘‘

    ’’سمندر؟‘‘

    ’’ہاں۔ سمندر مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘

    ’’لہروں کے شور سے ڈر گئیں؟ تم سچ مچ بچی ہو!‘‘

    (سلمہ نے سوچا انور میری جان۔ میرے پیارے شوہر۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تب ہی تو میں نے نہ جانے کتنے رئیسوں، لکھ پتیوں، کرنیلوں، ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر تم سے شادی کی ہے۔ مگر خدا کے لیے مجھے ’’بچی‘‘ نہ کہا کرو۔ مجھے اس لفظ سے چڑ ہے۔ میں بچی نہیں ہوں۔ میری عمر تیس برس ہے۔ میں نے کیمبرج سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ میں اکیلی ساری دنیا گھوم چکی ہوں۔ میں نے بین الاقوامی شہرت کے عظیم ترین فلسفیوں کی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ میری تقریر سن کر ایک جرمن فلسفی نے مجھ سے کہا تھا کہ، ’’تم ایشیائی نوجوانوں کے دماغ کتنے سنجیدہ، پرسکون اور سلجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ تمہارے مقابلے میں ہمارے نوجوان فلسفی تو ضدی بچے لگتے ہیں۔‘‘ میں دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں، ادیبوں اور فلسفیوں اور آرٹسٹوں سے مل چکی ہوں اور ان میں سے ہر ایک سے اس ہی کی دماغی سطح پر بات چیت کی ہے اور تم مجھے ’’بچی‘‘ کہتے ہو اور جس طرح تم مجھے ’’بچی‘‘ کہتے ہو، اس میں مجھے مذاق کا نہیں رحم اور ہمدردی کا جذبہ معلوم ہوتا ہے، بلکہ ہلکی سی حقارت کا شبہ بھی ہوتا ہے۔ جیسے تمہاری رائے میں میں کم فہم ہوں۔ ناتجربہ کار ہوں۔۔۔ ضدی ہوں۔)

    مکان کے باہر اور خود سلمہ کے من کے اندر لہروں کا شور بڑھتا ہی رہا۔

    ’’انور! مجھ سے ایک وعدہ کرو۔‘‘

    ’’جو تم کہو۔۔۔‘‘

    ’’وعدہ کرو کہ یہ مکان چھوڑ دوگے۔ سمندر کے اتنے قریب میں نہیں رہ سکتی۔‘‘

    ’’میری جان! تو دوسرا مکان تلاش کرلیں گے۔ لیکن سمندر سے تمہیں اتنی نفرت کیوں ہے؟‘‘

    ’’مجھے سمندر سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ’’مگر کیوں؟‘‘

    ’’یہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ بس مجھے سمندر کے خیال ہی سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔‘‘

    ’’بڑی ہی عجیب بات ہے۔‘‘

    مکان کے باہر اور اس کے من کے اندر سمندر کی لہریں شور مچا رہی تھیں۔ سلمہ کامنھ چڑا رہی تھیں۔ ’’تم ہم سے بچنے کے لیے اپنے شوہر کی آغوش محبت میں چھپ جانا چاہتی تھیں نا۔ مگر ہم نے تمہیں وہاں بھی ڈھونڈ نکالا۔ تم ہم سے نہیں بچ سکتیں۔ نہیں بچ سکتیں، نہیں بچ سکتیں۔ ہم تمہارے شوہر کو بھی تم سے چھین لیں گے۔ ہم تم دونوں کی محبت کا گلا گھونٹ دیں گے۔ سمندر کی طاقت بےپناہ ہے۔‘‘

    (اور انور سوچ رہا تھا، ’’سلمہ بہت حسین ہے۔ بہت ذہین ہے۔ بہت اچھی ہے۔ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اتنی محبت جو میں نے آج تک کسی سے نہیں کی۔ لیکن کیا ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہ سکیں گے؟ مجھے سمندر کے قریب رہنا اتنا پسند ہے اور اسے سمندر کی آواز سے بھی ڈر لگتا ہے۔ لاڈ پیار میں پلی ہوئی امیر لڑکیوں کو زیادہ ہی ڈر لگتا ہے۔ کیوں نہ ہو۔ وہ سر عظیم اللہ کی بیٹی ہے جو ہائی کورٹ کے جج تھے اور جنہوں نے لاکھوں روپے بیرسٹری سے کمائے تھے۔ جنہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو انگریز نرسیں رکھ کر پالا تھا اور بچپن ہی سے اسے انگلستان کے اسکولوں میں اور پھر کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلوائی تھی۔

    سلمہ میں سب اچھائیاں ہیں۔ وہ مجھ سے محبت بھی کرتی ہے لیکن اس کا خاندانی ماحول مجھ سے کتنا مختلف ہے۔ وہ سنگ مرمر کے فرش اور سنگ سیاہ کے ستونوں والی محل نما عظیم منزل میں پیدا ہوئی اور میں پیدا ہوا راجہ صاحب مکرم پور تعلقہ دار کے ہاتھی کے اصطبل میں۔ وہ بچپن میں کھیلی انگریز کمشنر صاحب کے بچوں کے ساتھ اور میں کھیلا راجہ صاحب کے سائیسوں، پالکی برداروں، کہاروں کے بچوں کے ساتھ۔‘‘ اور اپنا بچپن یاد کر کے وہ آپ سے آپ مسکرایا۔)

    ’’کیوں، کیا سوچ کر مسکرا رہے ہو؟‘‘ سلمہ نے انور کے بازو پر سر رکھے ہوئے نظر اٹھا کر پوچھا، ’’میں سمندر سے ڈرتی ہوں، اسی لیے تم مجھے بےوقوف اور ڈرپوک سمجھتے ہونا؟ شاید تم مجھے پاگل بھی سمجھتے ہو؟ شاید تم سوچتے ہو ایک دن اس پگلی کے دماغ کا آپریشن کرنا پڑےگا۔‘‘

    ’’نہیں میری جان!‘‘ اس نےسلمہ کے گھونگریالے کٹے ہوئے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔‘‘ اور وہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر بدستور رہی۔

    (وہ سوچ رہا تھا، ’’میں بھی تم سے کم تھوڑا ہی ہوں۔ تم نے بچپن میں مسوری اور نینی تال میں گھوڑے کی سواری کی ہے تو میں نے ہاتھی کی سواری کی ہے۔ جب تمہارے بابا ولایت میں بیرسٹری پڑھنے کے لیے گئے ہوئے تھے، ان دنوں میرے بابا راجہ صاحب کے مہاوت تھے۔ ان کی ہتھنی لکشمی اور اس کے بچے راجہ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ راجہ کی اور میری ایک ہی عمر تھی۔ جب میں گڈلیاں چلتا تھا، اس وقت سے میں اصطبل میں اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ جب ذرا بڑا ہوا تو میرے بابا مہاوت رمضان علی اپنی پیلی پگڑی باندھ کر لکشمی کو راجہ صاحب کی سواری کے لیے تیار کرتے، سنہری جھول پہناتے، چاندی لگا ہودہ کستے۔ تو میں بھی کود کر راجہ پر سوار ہو جاتا اور بالکل جیسے بابا لکشمی کو لوہے کے انکش سے گود کر چلاتے، میں بھی ایک نیم کی ٹہنی کو توڑ کر راجہ کے ماتھے میں چبھوتا اور کہتا، ’’چل رے ہاتھی کے بچے، چل چل چل۔۔۔‘‘ پھر کسی دکھ بھری یاد نے اس کی مسکراہٹ کو اس کے چہرے سے سمیٹ لیا اور انور کی سانولی مگر شفاف پیشانی پر لکیریں پڑ گئیں۔

    (سلمہ نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں اپنے شوہر کے چہرے سے نہیں ہٹائی تھیں اور برابر سوچ رہی تھی، ’’اپنے خیالات میں کھو کر نہ جانے یہ کہاں چلے جاتے ہیں۔ مجھ سے دور، بہت دور، شاید اپنے ماضی میں، جس کے بارے میں وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ میں تمہیں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ مگر میں ماضی سے ڈرتی ہوں۔ اپنے ماضی سے بھی اور ان کے ماضی سے بھی۔ اس پر اسرار تہہ خانے کا دروازہ بند ہی رہے تو بہتر ہے۔ ایک بار کھل گیا تو نہ جانے ماضی کی کیسی کیسی یادوں کے جن اور بھوت آزاد ہوکر ہماری خوشی اور محبت کو تہ و بالا کر دیں۔ نہیں، انور پیارے۔ میں تمہارے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتی۔‘‘

    مگر پھر اس عورت نے، جو کیمبرج کی پڑھی ہوئی یونانی فلسفہ کی ماہر کے لاشعور میں چھپی بیٹھی تھی، اس کے کان میں کھس پسایا، ’’ہو سکتا ہے یہ کسی اور عورت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ شاید کوئی ڈاکٹرنی جو ان کے ساتھ میڈیکل کالج میں پڑھتی ہو۔ شاید کوئی ہسپتال کی نرس۔ یہ نرسیں بھی تو بعض بڑی حسین ہوتی ہیں اور پھر انہوں نے تو ایڈنبرا میں بھی پڑھا ہے۔ وہاں ضرور کسی بھورے بالوں والی انگریز یا سکاٹ لڑکی سے معاشقہ کیا ہوگا۔ اس وقت انہیں اس کی یاد تو نہیں آ رہی؟‘‘)

    (انور سوچ رہا تھا کہ زندگی کے واقعات کا تسلسل بھی کیسا عجیب ہوتا ہے۔ آج سے پچیس برس پہلے اگر اس دن لکشمی نے مست ہوکر راجہ صاحب کے بڑے لڑکے راجندر کا رخ نہ کیا ہوتا، جو فیل خانے کے باہر کرکٹ کھیل رہا تھا، اگر انور کے بابا رمضان علی مہاوت نے راجندر کی جان بچانے کے لیے اپنی جان نہ دی ہوتی، اگر راجہ صاحب نے یتیم انور سے یہ نہ پوچھا ہوتا! کیوں بیٹا تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ اور اگر نو برس کے بچے نے نہ جانے کیسے یہ نہ کہا ہوتا کہ ’’راجہ صاحب میں تو پڑھنا چاہتا ہوں۔‘‘ تو آج وہ کسی سرکس میں ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرتا ہوتا۔ یاکسی اصطبل میں، کسی سیٹھ کے ریس کے گھوڑوں کی مالش کرتا ہوتا اور اس کی ایک تھکی ہوئی، مرجھائے ہوئے جسم کی بیوی ہوتی اور آدھے درجن بچے ہوتے اور حسین سلمہ کا سر آج کسی اور ہی کی آغوش میں ہوتا۔

    مگر راجہ صاحب نے مرتے ہوئے مہاوت سے اپنا وعدہ پورا کیا تھا اور انور اسکول سے کالج، کالج سے میڈیکل۔ کالج اور میڈیکل کالج سے ایڈنبرا یونیورسٹی اور لندن کے ہسپتالوں تک ہو آیا تھا۔ اب اس کا شمار ملک کے بہترین نوجوان سرجنوں میں ہوتا تھا مگر لوگ سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر انور علی کے دماغ کا کوئی ا سکرو ڈھیلا ہے کہ ہزاروں روپے کی پریکٹس کرنے کی بجائے سرکاری ہسپتال میں سات سو روپے ماہوار پر جنرل وارڈ میں پڑے ہوئے مریضوں کے مفت آپریشن کرتا ہے۔

    (اور یک دن اس اسپتال میں اس کے پاس سلمہ آئی تھی اپنڈکس کا آپریشن کرانے اور اس نے کہا تھا، میں تو اس آپریشن کے لیے ویٹینا یا جینوا یا لندن جانے والی تھی، مگر گورنمنٹ ایکسچینج نہیں دیتی۔ آپ کی بڑی تعریف سنی ہے کہ آپ اپنڈکس کا آٖپریشن کرتے ہیں تو چوتھے دن مریض خود چل کر گھر چلے جاتے ہیں۔ تو جس نرسنگ ہوم میں آپ کہیں، میں داخلہ لے لوں اور ڈاکٹر انور علی نے اسے بتایا تھا کہ اگر مجھ سے آپ کو آپریشن کرانا ہے تو آپ کو اسی گورنمنٹ ہسپتال کے جنرل وارڈ میں داخلہ لینا ہوگا اور سرعظیم اللہ مرحوم کی نفاست پسند اور نازک مزاج بیٹی جنرل وارڈ کے خیال ہی سے کانپ اٹھی تھی اور اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ میں مر بھی جاؤں گی لیکن ان گندی مزدوروں اور بھنگنوں کے ساتھ جنرل وارڈ میں نہیں رہوں گی۔ پھر بھی ڈاکٹر انور علی سے معائنہ کروانے میں کوئی ہرج نہیں اور جب معائنے کے دوران میں انور کی سخت کھردری ڈاکٹری انگلیوں نے سلمہ کے پیٹ کو چھوا تھا تو ان کے درد آشنا لمس میں ایک عجیب ٹھنڈک، ایسی عجیب تسکین اور شفا تھی کہ سلمہ نے فیصلہ کر لیا کہ اب آپریشن کراؤں گی تو اسی ڈاکٹر سے۔

    اور سو وہ آپریشن کی میز پر لیٹی تھی اور کلوروفارم کے اثر سے بے ہوش ہونے سے پہلے اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر انور علی کی آنکھیں سرجن کی سفید نقاب میں سے مسکرا رہی ہیں اور یہ دیکھ کر اس نے اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں اور پھر کلورو فارم کے بادل اس کے شعور پر چھا گئے تھے۔ مگر ان بادلوں میں بھی وہ مسکراتی ہوئی آنکھیں اس کو گھور رہی تھیں۔ جب اس کو ہوش آیا تو وہ جنرل وارڈ میں انہی دوسری مریض عورتوں کے درمیان پڑی تھی اور اس کے برابر والے بیڈ کے چاروں طرف پہیوں والی سفید پردے دار دیواروں کو کھڑا کیا جا رہا تھا، کیونکہ ایک بڑھیا بھکارن جو کسی موٹر کے نیچے آ گئی تھی، چل بسی تھی اور دوسری طرف ایک نوجوان مزدورنی جس کے شوہر نے جوش رقابت میں اس کی ناک کاٹ لی تھی، اس شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسے تسلی دیتی رہی تھی۔۔۔

    اور تین دن تک اس ماحول میں وہ پڑی رہی اور انتظار کرتی رہی کہ ڈاکٹر انور علی اسے دیکھنے آئےگا۔ مگر دوسرے جونیئر ڈاکٹر آتے رہے اور وہ نہیں آیا کیونکہ سنا تھا کہ وہ کئی بڑے نازک دل کے آپریشن کر رہا ہے۔ پھر چوتھے دن وہ آیا تھا اور اس نے سلمہ کو ڈانٹ کر کہا تھا، یہ کیا؟ پلنگ پر کیوں لیٹی ہو۔ اٹھو اور وارڈ کے اس کونے تک چل کر جاؤ۔ سلمہ نے کہا تھا، ڈاکٹر صاحب! میں کیسے چل سکتی ہوں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری ٹانگ میں دم ہی نہیں ہے۔ چلنا تو کیا، مجھ سے تو کھڑا بھی نہیں ہوا جائےگا اور ڈاکٹر نے کہا تھا، یہ سب بکواس ہے۔ چلو اٹھو۔

    اور اس کے بولنے کے انداز میں کچھ ایسا جادو تھا کہ سلمہ سچ مچ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے وارڈ کے کنارے تک چلی گئی اور وہاں سے بلا سہارے واپس بھی آ گئی تھی لیکن جیسے ہی وہ ڈاکٹر کے قریب آئی، اس کو اپنی ٹانگوں میں دفعتاً لڑکھڑاہٹ اور کمزوری محسوس ہوئی اور وہ چکرا کر گرنے ہی والی تھی کہ انور نے اسے سنبھال لیا اور سلمہ کو ایسا محسوس ہوا کہ زندگی میں اسے سہارا دینے والے ہاتھ یہی ہیں۔ دو ہفتے بعد ان کی شادی ہوگئی تھی اور انور بیوی کو اپنے چھوٹے سے نئے مکان میں لے آیا تھا جو اس نے کئی ہزار روپے قرض لے کر بالکل سمندرکے کنارے خریدا تھا، مگر اس وقت اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ سمندر کی قربت سلمہ کے لیے اتنی بڑی سوہانِ روح ثابت ہوگی۔)

    ’’مگر کیوں؟‘‘ اس نے پوچھا سلمہ سے بھی اور اپنے آپ سے بھی۔

    ’’کیوں کیا؟‘‘

    ’’سمندر سے تم کیوں ڈرتی ہو؟‘‘ اور اسی وقت ان کے گھر کے باہر سمندر کے کنارے بنے ہوئے پتھروں کے بندھ سے ایک لہر اتنے زور سے آکر ٹکرائی کہ سلمہ اچھل پڑی۔

    ’’میں نے کہا نا کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔۔۔ بس ڈر لگتا ہے۔‘‘

    ’’کوئی وجہ تو ہونی چاہیے۔ کیا تم نے کبھی کسی سائیکاٹرسٹ سے بات کی ہے۔‘‘

    ’’ہاں جب میں کیمبرج میں پڑھتی تھی۔ ایک نوجوان انگریز سائیکاٹرسٹ جارج رسل نے میرا نفسیاتی معائنہ کیا تھا۔‘‘

    ’’اور اس کی کیا رائے تھی؟‘‘

    ’’اس کا کہنا تھا کہ لاشعور کی دنیا میں سمندر سمبل (علامت) ہے جنسی فعل کا اور اس کا خیال تھا کہ ضرورت سے زیادہ شریفانہ ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے میں اس قدرتی فعل سے خائف ہوں۔ اور اس لیے سمندر سے ڈرتی ہوں۔‘‘

    ’’اور کیا یہ سچ تھا؟‘‘

    ’’نہیں وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ خود مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا اور میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہ بہت خوبصورت تھا۔ سنہری گھونگھریالے بال تھے اس کے۔ باتیں بھی بڑی اچھی کرتا تھا۔ مگر۔۔۔‘‘

    ’’مگر۔۔۔؟‘‘

    ’’مگر شراب اور سگریٹ بہت پیتا تھا۔ اس کے دانت پیلے اور گندے تھے اور اس کے منہ سے پائیریا کی بو آتی تھی۔‘‘

    ’’اور کسی سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

    ’’کوئی پسند نہیں آیا۔ کسی سے محبت کر سکتی تھی لیکن اس کی عزت نہیں کر سکتی تھی۔ کسی کی عزت کر سکتی تھی مگر محبت نہیں کر سکتی تھی۔ جب مجھے ایسا آدمی مل گیا جس سے میں محبت بھی کر کستی ہوں اور اس کی عزت بھی کر سکتی ہوں تو اس سے شادی کر لی۔ بس اتنی حقیقت ہے میری نفسیاتی الجھنوں کی۔۔۔‘‘

    ’’لیکن سمندر سے ڈر۔۔۔ یہ بھی تو ایک نفسیاتی الجھن ہے۔‘‘

    ’’ہوگی۔۔۔ مگر اب مہربانی کرکے سمندر کا ذکر مت کرو۔ کوئی اور بات کرو۔‘‘

    ’’تو سنو۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں سلمہ۔ اگر میں ڈاکٹر نہیں شاعر ہوتا، تو خوبصورت الفاظ میں تمہیں بتاتا کہ میں تمہیں کتنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اور ہماری محبت میں کبھی کوئی حائل نہیں ہوگا۔۔۔؟‘‘ سلمہ نے پوچھا۔ اور اس کے ذہن میں وہ لمحے تھے، جب انور نہ جانے کن خیالات میں کھو جاتا تھا۔

    ’’نہیں میری جان۔ دنیا میں کوئی ہماری محبت میں حائل نہیں ہو سکتا۔‘‘ اور اسی وقت گڑگڑاتی، پھنکارتی، چنگھاڑتی ایک لہر آئی اور اتنے زور سے بندھ سے ٹکرائی کہ سارا مکان ہل گیا اور چھینٹے ان کی کھڑکیوں تک پر پڑے۔ سلمہ کاچہرہ ایک بار پھر پیلا پڑ گیا۔

    ’’انور۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔‘‘ اس نے شوہر کی آغوش میں بچوں کی طرح منھ چھپاتے ہوئے کہا۔ انور نے اپنے سینے پر گرم گرم آنسوؤں کو محسوس کیا۔ سلمہ رو رہی تھی۔

    ’’میری پیاری۔ میری جان۔‘‘ وہ کہے جا رہا تھا لیکن اس کا ڈاکٹری دماغ اس عجیب و غریب خوف کی تشخیص کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باہر سمندر غرا رہا تھا۔ چنگھاڑ رہا تھا، دھاڑ رہا تھا۔ ایک بپھرے ہوئے دیو کی مانند۔ اندر سلمہ خوف سے کانپ رہی تھی۔ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ ایک سہمی ہوئی بچی کی طرح۔ دیو غراتا رہا۔ چنگھاڑتا رہا، دہاڑتا رہا۔ بچی کانپتی رہی، روتی رہی، سسکیاں بھرتی رہی۔ یہاں تک کہ سمندر تھک کر ساحل سے لوٹ گیا۔ یہاں تک کہ بچی روتے روتے سوگئی مگر سوتے سوتے بھی وہ سبکیاں بھرتی رہی۔ شاید خواب میں بھی وہ ڈر رہی تھی۔

    تشخیص، بچی جہاز کی ڈیک پر کٹہرے کے سہارے کھڑی لہروں کو گن رہی تھی جو جہاز سے آ آکر ٹکرا رہی تھیں۔’’ایک۔ دو۔ تین۔ چار۔ پانچ۔‘‘ ایک لہر کے بعد دوسری۔۔۔ ہر لہر پانی ہی کی بنی ہوئی تھی لیکن ہر لہر ایک دوسری سے مختلف تھی۔ کوئی اونچی، کوئی نیچی، کوئی مچھلی کی طرح سڈول، کسی کا اونٹ کی طرح کوہان نکلا ہوا، کوئی رینگتی ہوئی آتی تھی، کوئی دوڑتی ہوئی، کوئی جھاگوں سے بنا لیس کا سفید دوپٹہ اوڑھے۔ کوئی مس میری کی طرح نیلا فراک پہنے تھی تو کسی پر سورج کی روشنی سے ستارے جگمگا رہے تھے جیسے اماں کے کامدانی کے دو پٹے پر۔

    ’’چھ، سات، آٹھ، نو، دس، گیارہ۔‘‘ بچی سوچ رہی تھی کہ اتنی بہت سی لہروں کو اللہ میاں کون سے اصطبل میں رکھتے ہوں گے۔ ہمارے گھر میں تو تین گھوڑے ہیں۔ ایک جو فٹن میں جوتا جاتا ہے اور دو جو سواری میں آتے ہیں اور ان کے لیے تین ہی اصطبل الگ الگ بنے ہوئے ہیں تو پھر جتنی لہریں یہ سمندر میں کودتی پھاندتی پھر رہی ہیں ان کے لیے بھی اتنے ہی اصطبل چاہئیں اور پھر جیسے ہر گھوڑے کو کھانے کے لیے دانہ چاہیے، گھاس چاہیے، پینے کو پانی چاہیے، تو ان لہروں کو کھانا پینا کون دیتا ہے۔ پینے کو پانی تو سمندر میں بہت ہے مگر یہ لہریں کھاتی کیا ہیں؟ ابھی بچی اس اہم مسئلے پر غور کر ہی رہی تھی کہ مس میری اپنا نیلا فراک پہنے اپنی موٹی موٹی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں مارتی آ گئیں۔ بچی نے ان کے قدموں کی آہٹ سن کر مڑکر دیکھا کہ سمندر کی ہوا مس میری کے نیلے فراک کو اڑا اڑا کر ان کے موٹے موٹے چربی چڑھے گھٹنوں سے اوپر لے جارہی ہے اور ان کے کھچڑی جیسے بال ہوا میں اڑ رہے ہیں۔

    ’’مس صاحب۔‘‘ بچی نے اپنی انگریز گورنس سے کہا۔

    ’’یس سلمہ!‘‘

    ’’مس صاحب۔ سمندر میں اتنا بہت پانی کہاں سے آتا ہے؟‘‘

    ’’یہ سب واٹر ندی اور دریا میں سے آتا ہے مائی چائلڈ۔‘‘ مس میری نے جواب دیا اور جغرافیہ کی کتاب میں سے سمندر اور دریاؤں والا باب زبانی دہرایا۔

    ’’تو پھر اگر ہم سمندر میں چلتے چلے جائیں، تو دریا آ جائےگا؟‘‘

    ’’یس۔۔۔‘‘

    ’’وہی دریا جو ہمارے گھر کے پاس سے بہتا ہے۔‘‘

    ’’یس۔ وہ بھی آ جائےگا۔‘‘

    ’’میم صاحب۔ ایک بات اور پوچھنی ہے۔‘‘

    ’’پوچھو، مائی چائلڈ۔‘‘

    ’’یہ اتنی ساری لہریں جو ہیں سمندر میں، یہ کھاتی کیا ہیں؟‘‘

    مس میری جنھوں نے اس سوال کا جواب کسی کتاب میں نہیں پڑھا تھا، سوچ میں پڑگئیں لیکن ایک موٹا لال منھ کا مسافر جو دن بھر ڈیک چیئر پر لیٹا ہوا موٹا سگار پیتا رہتا تھا، ایک خوفناک قہقہہ مار کر بولا، ’’ویل و یل بے بی۔ ام تم کو بتاتا ہے۔ یہ سمندر کا لہر چھوٹا چھوٹا بے بی کو کھانا مانگتا ہے۔ تم ریلنگ سے ہٹ کر کھڑا رہو، نہیں تو لہر تم کو بھی کھا جائےگا۔‘‘ اور یہ سن کر بچی کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی اور مس میری نے لال منھ والے کو ڈانٹ کر کہا، ’’مسٹر ولیم۔ دیٹ از ویری بیڈ۔ آپ ایک بے بی کو ڈرانا مانگتا۔ ویری بیڈ۔ کم آن ڈارلنگ۔‘‘ اور وہ بچی کو کیبن میں لے گئی اور اس کو تصویروں والی کتاب دی کہ یہاں بیٹھ کر تصویریں دیکھو۔

    ’’مس صاحب۔‘‘

    ’’یس مائی ڈیر۔۔۔‘‘

    ’’یہ جہاز گھر کب پہنچےگا؟‘‘

    ’’یہ جہاز گھر نہیں جائےگا بےبی۔ یہ تو ساؤتھ ہیمپٹن جائےگا۔ وہاں سے ہم لوگ ریل سے لندن جائیں گے۔‘‘

    ’’لندن کیوں جائیں گے؟‘‘

    ’’اس لیے کہ تمہارے ڈیڈی چاہتے ہیں، تم ادھر فرسٹ کلاس انگلش اسکول میں ایجوکیشن حاصل کرو۔ ادھر سب انگریز بےبی لوگ ہوگا۔‘‘

    ’’مگر میں تو جھنیا کے ساتھ پڑھنا چاہتی ہوں مس صاحب۔‘‘

    ’’جھنیا۔۔۔ وہ سائیس کا چھوکری۔۔۔ چھی چھی چھی۔۔۔ دیٹ ڈرٹی لٹل گرل۔ تمہارا جیسا ہائی کلاس بے بی ایک سائیس کا گندا چھوکری کے ساتھ کس مافک پڑھ سکتا ہے۔ تمہارا ڈیڈی نہیں چاہتا کہ تم ایسا بچہ لوگ کے ساتھ کھیلے۔ اسی واسطے تم کو ہماری ساتھ انگلینڈ پڑھنے کو بھیجتا۔‘‘

    ’’تو پھر جھنیا کو بھی لے چلو مس صاحب۔‘‘

    ’’ہم بولا بے بی کہ وہ ڈرٹی چھوکری ہے۔ ایک دم گندا۔‘‘

    ’’تو ادھر لندن میں ہم اسے نہلائیں گے مس صاحب۔ باتھ ٹب ہوگا نہ ادھر۔۔۔‘‘

    ’’ایسا چھوکری کا ڈرٹ باتھ ٹب میں نہیں دھو سکتا۔‘‘

    ’’تو پھر میں لندن نہیں جاتی۔ میں تو گھر جاؤں گی۔ جھنیا کے ساتھ کھیلوں گی۔‘‘

    ’’گھر ادھر سے چار ہزار میل ہے بےبی۔‘‘

    ’’مگر کدھر ہے؟‘‘

    ’’اُدھر، جہاز کے پیچھے، سمندر کے پار۔‘‘

    اور جب دوپہر کے کھانے کے بعد مس میری سوگئیں تو بچی دبے پاؤں کیبن سے نکلی اور ڈیک کے پچھلی طرف ریلنگ سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ ایک ہاتھ میں اس کے ایک گڑیا تھی اور دوسرے ہاتھ میں دو کیلے۔ وہ جانتی تھی کہ جھنیا کو کیلے بہت پسند ہیں۔

    ’’اہاہاہا۔‘‘ اس نےسوچا، ’’سویہ ہے گھر جانے کی سڑک۔‘‘ جہاز کے پیچھے جہاں پانی کٹ رہا تھا، سفید جھاگوں کی ایک لمبی سڑک بنتی جا رہی تھی۔ جو دور تک چلی گئی تھی۔ حدنظر تک۔ بچی کے گھر تک۔ بچی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ لال منھ والا انگریز اپنی کرسی پر بیٹھا بیٹھا سو رہا تھا اور اس کا سگار منھ میں لگا ہوا سلگ رہا تھا اور اس کی راکھ اس کے سفید سوٹ پر گرتی جارہی تھی اور کئی مسافر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ جہاز کے نیچے اس کے پیٹ میں سے انجنوں کی دھڑدھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ جہاز چلا جا رہا تھا۔ ساؤتھ ہیمپٹن کی طرف۔ لندن کی طرف۔ اس اسکول کی طرف جہاں جھُنیا نہیں ہوگی۔

    جھنیا۔۔۔! اپنی سہیلی کا خیال آتے ہی بچی مسکرادی۔ جھنیا جو کالی تھی مگر جس کے چھوٹے چھوٹے دانت ایسے چمکتے تھے جیسے سچے موتی۔ جھنیا جس کا شلوکہ اور لہنگا ہمیشہ گندا اور پھٹا ہوا ہوتا تھا، جس کی آنکھوں میں ہمیشہ چیپڑ لگے رہتے تھے اور جس کے چہرے اور ٹانگوں پر ہمیشہ گرد کی تہ جمی رہتی تھی مگر جو ہمیشہ ہنستی رہتی تھی، کھیلتی کودتی اور شورمچاتی رہتی تھی اور جب اس کا باپ گھوڑوں کو نہلاتا یا ان کی مالش کرتا تو وہ ضد کرکے گھوڑے پر بیٹھ جاتی تھی، اور کہتی تھی، ’’چل میلے گھولے چل چل چل۔‘‘

    دو برس ہوئے بچی کو ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا۔ جب ڈیڑھ مہینے کے بعد اس کا بخار ٹوٹا تو اتنی کمزور ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے ہدایت کی ابھی مہینے بھر تک چلے پھرے نہیں، پلنگ پر لیٹی رہے اور سو کتنے ہی دن تک وہ لیٹے لیٹے چھت میں لگے ہوئے بجلی کے پنکھے کے پروں کو گنتی رہی۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ، بیس، اٹھائیس، بیالیس۔۔۔ تین سو دس۔۔۔ آٹھ سو بارہ۔۔۔ اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ پنکھے کے پروں کا ایک چکر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ نہ جانے کہاں سے ایک کے بعد ایک، پنکھے کے پر ہوا میں سے نکلتے ہی آتے تھے۔ مگر پھر وہ اس کھیل سے اکتا گئی اور دیواروں پر دوڑتی ہوئی چھپکلیوں کی دوڑ بھاگ میں دلچسپی لینے لگی۔ یہ چھپکلیاں بالکل سرکس کے مداریوں کی طرح تھیں۔ دیوار پر سیدھی اوپر چڑھ جاتی تھیں مگر تھیں بہت گندی۔ کیڑے مکوڑے، مکھی، مچھر کھاتی رہتی تھیں۔ جس کو دیکھ کر بچی کا جی متلانے لگتا اور سو آخر کار اس نے سوچا کہ میں اپنی کھڑکی میں بیٹھ کر باغ ہی کی سیر کرلوں۔

    باغ میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے اور تتلیاں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور دور لان پر ان کابوڑھا مالی گلاب کی کیاریوں میں فوارے سے پانی دے رہا تھا اور نیم کے پیڑ پر لال لال چونچ والے طوطے بیٹھے تھے اور دور آم کے پیڑوں میں ایک کوئل کو کو کر رہی تھی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں ان سب چیزوں سے بچی کا جی اکتا گیا۔ کیونکہ وہ چاہتی تھی کسی سے بات کرنا اور بات کرنے کی اسے ڈاکٹر بینرجی کی طرف سے سخت ممانعت تھی۔ اسی لیے تو اس کے ڈیڈی نے مس میری کو ہدایت کر رکھی تھی کہ کسی کو بچی کے کمرے میں جانے کی اجازت نہ دی جائے اور چونکہ بچی خود بہت باتونی تھی اور مس میری سے ہر وقت اوٹ پٹانگ سوال کرتی رہتی تھی اور ڈیڈی سے سوال کرتی تھی کہ مجھے کوئی پریوں کی کہانی سنائے۔ اس لئے ڈاکٹر اور ڈیڈی دونوں کے حکم سے اس کے کمرے کا دروازہ باہر سے بند رکھا جاتا تھا اور صرف دوا اور کھانے کے اوقات پر مس میری چند منٹ کے لیے اندر جاتی تھیں اور سو جب اس نے باغ میں اپنی ہم عمر ایک بچی کو دوڑتے بھاگتے دیکھا تو سلمہ بےاختیار چلا پڑی۔

    ’’اے۔ اے۔ ادھر آ۔‘‘

    ’’سلام چھوٹی بی بی۔‘‘

    ’’تم مجھے جانتی ہو؟‘‘

    ’’جرور جانتی ہوں۔ یہ فراک جو میں پہنے ہوں یہ تمہاری ہی تو ہے چھوٹی بی بی۔‘‘ اور سلمہ نے پہچان لیا کہ میل اور پیوندوں کے نیچے جو نیلی دھاریوں کا فراک ہے وہ واقعی کبھی اس کا ہی تھا۔

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’جھنیا۔‘‘

    ’’اور میرا نام ہے سلمہ۔‘‘

    ’’نہیں۔ تمہارا نام ہے چھوٹی بی بی۔‘‘

    ’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘

    ’’بابا نے۔‘‘

    ’’تمہارے بابا کیا کرتے ہیں؟‘‘

    ’’آپ کے گھوڑوں کو دانہ کھلاتے ہیں، ان کو نہلاتے ہیں، ان کی مالش کرتے ہیں۔‘‘

    ’’تم تو سائیس رام دین کی بیٹی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’تم اسکول پڑھنے نہیں جاتیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’بابا کہتے ہیں سائیسوں کے بچے سکول نہیں جاتے۔‘‘

    ’’پھر تم دن بھر کیا کرتی ہو؟‘‘

    ’’کھیلتی ہوں اور بابا کہیں تو گھوڑوں کو پانی پلا دیتی ہوں۔‘‘

    ’’اور جب تمہیں بخار آتا ہے تب کیا کرتی ہو؟‘‘

    ’’جب بکھار آتا ہے تو میں کھوب دھوپ میں بھاگتی ہوں۔ پسینہ آکے بکھار آپ سے آپ بھاگ جاتا ہے۔ پر چھوٹی بی بی تم کیوں کمرے میں بند رہتی ہو؟‘‘

    ’’ڈاکٹر اور ڈیڈی کا حکم نہیں ہے باہر نکلنے کا۔‘‘

    ’’ڈاکٹر بہت برا آدمی ہے چھوٹی بی بی۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’وہ سوئی لگاتا ہے۔ ایک بار میرے سوئی لگائی تھی تو تین دن تک بانہہ سوجی رہی تھی۔‘‘

    اور سو ان کی دوستی ہو گئی۔ میلے پیوند لگے فراک پہننے والی سائیس کی بیٹی جھنیا اور نائیلون کا نائٹ گاؤن پہننے والی سرعظیم اللہ کی بیٹی سلمہ سہیلیاں بن گئیں۔ روز جھنیا سلمہ کے لیے باغ میں سے چرا کر پھول، کچی کیریاں اور کچے پکے امرود لاتی اور ان کے بدلے میں سلمہ اسے اپنے بالوں میں لگانے کے لیے ریشمی ربن اور رنگین تصویروں والی کتابیں، اور بولنے والی گڑیاں دیتی اور گھنٹوں سلمہ کھڑکی میں بیٹھی جھُنیا سے باتیں کرتی رہتی۔ سلمہ اکثرسوچتی جھنیا کتنی خوش قسمت ہے۔ دن بھر کھیلتی گھومتی پھرتی ہے۔ کوئی اسے نہیں روکتا۔ دس دس دن نہاتی نہیں، کوئی اسے زبردستی ٹب میں بٹھا کر صابن مل مل کر زبردستی نہیں نہلاتا۔ جو اس کا جی چاہتا ہے کھاتی ہے، جب جی چاہتا ہے درختوں پر چڑھ جاتی ہے۔ اسے دنیا کے بارے میں بھی تو کتنا کچھ معلوم ہے۔

    وہ جانتی ہے کہ گھوڑی کے نال کیسے لگائے جاتے ہیں اور پن چکی پر آٹا کیسے پیسا جاتا ہے اور نوٹنکی میں لال پری کیسے ناچتی ہے اور کالا دیو کیسے دہاڑتا ہوا آتا ہے اور اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور مالی کا بیٹا کلوا جس کا پچھلے برس ہی بیاہ ہوا تھا، کیسے ٹھرا پی کر پہلے اپنی بہو کو مارتا ہے اور پھر پیار کرتا ہے اور اور۔۔۔ جھنیا جس کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی، یہ سب باتیں سلمہ کو سناتی رہتی اور سلمہ کو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ ایک سنسان ٹاپو میں قید ہے، زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کے چاروں طرف زندگی کا سمندر پھیلا ہوا ہے اور اس سمندر میں جھُنیا مزے سے چھینٹے اڑا رہی ہے، تیر رہی ہے۔۔۔ ڈبکیاں لگا رہی ہے۔ایک دن جھُنیا دیر کرکے آئی تو سلمہ نے پوچھا، ’’اری تو کہاں رہی؟ میں تو کب سے تیرا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

    ’’چھوٹی بی بی۔ میں جرا اصطبل میں گئی تھی۔ آپ کی گھوڑی ہے نا چنبیلی، اس کے بچہ ہونے والا ہے۔‘‘

    ’’بچہ کیسے ہوتا ہے؟‘‘

    ’’یہی تو میں دیکھنے گئی تھی چھوٹی بی بی۔‘‘

    ’’پھر دیکھا نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔ بابا کہویں ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر ہے۔۔۔ پر چنبیلی بڑے جور جور سے سانس لے رہی ہے۔ میں تو سمجھی تھی، مر رہی ہے۔ وہ ہماری چت کبری کتیا تھی نا، وہ جب مری تھی تو وہ بھی ایسے ہی سانس لے رہی تھی۔‘‘

    ’’تو کیا چنبیلی بھی مر جاوے گی؟‘‘

    ’’نہیں چھوٹی بی بی۔ پھکر نہ کرو۔ بابا کہویں ہیں کہ مر مر کے ہی جندگی پیدا ہوے ہے۔ اچھا، اب میں چلوں، پھر آؤں گی۔‘‘

    ’’اے جھُنیا۔۔۔!‘‘

    ’’ہاں چھوٹی بی بی۔۔۔‘‘

    ’’میں بھی چلوں تیرے ساتھ؟ دیکھوں گھوڑی کا بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’اور جو کسی نے دیکھ لیا تو بڑے صاحب مجھے ہنٹر لگائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ ابا تو کورٹ گئے ہوئے ہیں اور مس میری اپنے کمرے میں پڑی سو رہی ہیں۔‘‘

    سو وہ کھڑکی سے کود گئی، اور اس کا نائیلون کا نائٹ گاؤن کانٹوں میں الجھ کر کئی جگہ سے پھٹ گیا اور اس کا ٹخنہ چھل گیا۔ مگر اس کا دل ایک نامعلوم مسرت اور ایک عجیب خوف سے دھڑک رہا تھا۔ جیسے وہ دونوں باغ کی کیاریوں میں سے نہیں بلکہ گھنے اندھیرے جنگل میں سے ہوکر پریوں کے دیس کی طرف جا رہے ہوں۔ بالکل جیسے مس میری کی کہانیوں کی شہزادیاں جاتی تھیں اور پھر وہ دونوں اصطبل کے بالکل سامنے تھیں اور اندر سے چنبیلی کے زور زور سے سانس لینے کی آواز آرہی تھی۔ بلکہ ایک بار تو وہ اتنے درد بھرے انداز میں ہنہنائی کہ سلمہ ڈری کہ شاید اس کی پیاری گھوڑی سچ مچ مر ہی رہی ہے مگر فوراً ہی اسے جھنیا کے بابا کا کہنا یاد آیا، کہ مر مر کے ہی زندگی پیدا ہوتی ہے اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ اصطبل کا دروازہ کھلتے ہی زندگی کا سب سے بڑا اور خوفناک راز اس پر آشکار ہو جائےگا اور اس کا دل او ربھی زوروں سے دھڑکنے لگا۔

    لیکن اصطبل کا دروازہ نہیں کھلا۔ اس وقت نہیں کھلا۔ زندگی بھر نہیں کھلا۔ پیچھے سے اس کو بیوک کار کار ہارن سنائی دیا اور جب سلمہ اور جھُنیا نے گھبراکے مڑ کر دیکھا تو سر عظیم اللہ موٹر سے اتر کر ان کی طرف آ رہے تھے۔ بدن پر کچہری والا کالا کوٹ اور دھاریوں والی پتلون۔ سر پر سفید ہیٹ، اور سلمہ نے دیکھا کہ اس کے ڈیڈی کی مونچھیں جو ولایتی گوند سے نکیلی بنائی جاتی تھیں اور ہمیشہ نہ صرف چڑھی بلکہ اکڑی رہتی تھیں، اس وقت غصے سے ہل رہی ہیں جیسے شکار کو دیکھ کر ان کے شکاری کتے شیرو کی دم ہلنے لگتی ہے۔ سلمہ کو پھر اس کے کمرے میں قید کر دیا گیا۔ جھُنیا کے بابا کو کہہ دیا گیا کہ اس کی چھوکری نے پھر کبھی چھوٹی بی بی سے بات کی تو اس کی ہنٹر سے خبر لی جائےگی۔

    اگلے ہفتہ ہی سلمہ کو مسوری پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا اور ایک برس بعد مس میری کی تجویز پر ان کے ساتھ اسے انگلستان بھیج دیا گیا اور جب ان کی بیوک کار احاطے سے باہر سڑک پر آئی تو سلمہ نے دیکھا کہ جھنیا پیچھے دوڑتی ہوئی آ رہی تھی۔ سلمہ چلائی، ’’ڈیڈی۔ ڈیڈی۔ میں جھنیا سے مل لوں۔‘‘ مگر سر عظیم اللہ نے ڈرائیور کو کار نہ روکنے دی اور جھنیا موٹر کے پہیوں سے اڑی ہوئی دھول کے بادلوں میں کھو گئی اور اس کے بعد صرف سڑک ہی سڑک رہ گئی۔ جو ہر لمحے کھلنے والے جیبی فیتے کی طرح لمبی ہی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ اور اب یہ سڑک جہازکے پیچھے پیچھے آرہی تھی اور ہر لمحہ سلمہ اور جھنیا کے درمیان کا فاصلہ لمبا کرتا جا رہا تھا۔

    مگر بچی نے سوچا یہ سڑک یہاں سے ہمارے گھر تک جاتی ہے۔ اگر میں یہاں سے اس سڑک پر چلنا شروع کروں، اور چلتی رہوں، چلتی رہوں، اس وقت سے لےکر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک چلتی ہی رہوں، راستے میں ایک بار بھی نہ رکوں، تو ابھی اصطبل کے پچھواڑے مرغی خانے میں مرغے اذان دے رہے ہوں گے کہ میں گھر پہنچ جاؤں گی اور پیچھے سے جاکے سوتی ہوئی جھنیا کی آنکھیں بند کرلوں گی اور کہوں گی، ’’جھنیاری جھنیا۔ بول تو سہی میں کون ہوں۔‘‘ اور جب وہ میری آواز پہچان کر میرے پیچھے بھاگے گی تو میں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوں گی اور سارے باغ میں اسے دوڑاؤں گی اور اس کے ہاتھ نہ آؤں گی۔ مگر اس وقت تو ڈیڈی وہاں اپنا بھورے رنگ کا ڈریسنگ گاؤں پہنے ٹہل رہے ہوں گے۔ تو پھر کیا ہوا۔ میں ان سے کہہ دوں گی، ’’ڈیڈی! میں لندن وندن نہیں جاؤں گی۔ میں تو یہاں رہوں گی اور جھنیا کے ساتھ کھیلوں گی اور اس کےساتھ اصطبل میں جاکر دیکھوں گی کہ ہماری چنبیلی کے بچہ کیسے ہوتا ہے۔‘‘

    جہاز کے پیچھے پانی پر سفید جھاگوں کی سڑک سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ سلمہ کو ایسا لگا جیسے سڑک مسکرا کر اسے بلارہی ہے۔ جیسے سڑک کہہ رہی ہے، ’’چل سلمہ۔ میں تجھے جھنیا سے ملا دوں۔‘‘ اور سو بچی نے اس سڑک کی طرف قدم بڑھا ہی دیا۔ مگر وہ سڑک نہیں تھی۔ وہ ایک کنواں تھا، اندھیرا اور ٹھنڈا۔ اور دم گھوٹنے والا اندھا کنواں۔ وہ نیچے جارہی تھی اور اس کے کان میں ایک لال منھ والے انگریز کی آواز گونج رہی تھی، ’’یہ سمندر کالہر چھوٹا چھوٹا بےبی کو کھانا مانگتا ہے۔‘‘ اور اب وہ خوفناک لہریں جو ہاتھی کی طرح موٹی تھیں اور اونٹ کی طرح اونچی تھیں اور شیر کی طرح دہاڑتی تھیں اور کہانیوں والے اژدہوں کی طرح پھنکارتی تھیں، بچی کے چاروں طرف شیطانوں کی طرح ناچ رہی تھیں۔ چلا چلا کر کہہ رہی تھیں، ’’ہم تمہیں کھا جائیں گے، ہم تمہیں کھا جائیں گے۔‘‘

    اور نہ جانے کہاں سے ان کے اصطبل کا دروازہ بہتا ہوا وہاں آ گیا اور جب بچی نے وہ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ چنبیلی گھاس پر لیٹی ہوئی زور سے سانس لے رہی ہے اور اس کا پیٹ کسی نے کاٹ ڈالا ہے اور پیٹ میں سے اور بھی بھیانک سمندری لہریں باہر نکل رہی ہیں اور پھر ایک سمندر اور دوسرا سمندر اور تیسرا سمندر سب ایک ہوگئے اور سب مل کر بچی کا گلا گھونٹنے لگے اور اس کے دماغ پر اندھیرا چھانے لگا۔ مگر اس اندھیرے میں گم ہوتے ہوتے اس نے محسوس کیا کہ دو مضبوط ہاتھوں نے اسے پکڑ لیا ہے اور اب وہ کنویں میں نیچے کی طرف نہیں جا رہی، کسی زینے پر چڑھتی ہوئی اوپر کی طرف جا رہی ہے۔جب کئی گھنٹے بعد بچی کو ہوش آیا اور لہروں کے جہاز سے ٹکرانے کی آواز سنائی دی، تو اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں اور دہشت زدہ آواز میں چلائی، ’’مس صاحب! مجھے سمندر سے بچاؤ۔‘‘

    ’’ارے بھئی یہ مس صاحب کون ہیں، جنھیں آواز دے رہی ہو؟‘‘ سلمہ نے آنکھ کھول کر دیکھا کہ دھوپ کمرے میں پھیل چکی ہے اور انور اپنی پیار بھری نگاہوں سے اسے چوم رہا ہے۔

    ’’پیاری بچی! خواب میں پھر ڈر گئیں!‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے شوہر کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا، ’’تم میرے پاس رہوگے تو میں کسی چیز سے نہیں ڈروں گی۔‘‘

    ’’سمندر سے بھی نہیں؟‘‘

    ’’نہیں!‘‘ مگر نہ جانے کیوں انور کو محسوس ہوا کہ اس ’’نہیں‘‘ میں یقین اور قطعیت کی کسی قدر کمی ہے۔

    علاج، سمندر میں لہریں اٹھ رہی تھیں۔ لہروں میں کشتی ڈول رہی تھی اور کشتی پر ایک سرے پر انور بیٹھا تھا اور دوسرے پر سلمہ۔

    (سلمہ سوچ رہی تھی۔۔۔ کہتے ہیں ایسے بھی سچے عاشق ہوتے ہیں جو محبت کی خاطر جان دے دیتے ہیں۔ چلو جی انور میاں، آج تمہاری خاطر ہم بھی جان دیے دیتے ہیں۔)

    (اور انور سوچ رہا تھا۔۔۔ بڈھا ڈاکٹر باسو ہے تو بڑا عقل مند آدمی اور نفسیات کا مانا ہوا استاد۔ مگر بڑے میاں نے کہیں مجھے الٹا سبق تو نہیں پڑھا دیا۔ یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں)

    سمندر میں لہریں اٹھ رہی تھیں اور ہر اٹھتی لہر کے ساتھ سلمہ کا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔ آنکھیں بند کرتی تھی تو اس کا تخیل اسے سمندر کی اندھیری گہرائی میں لے جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگتا اور جب ڈر کے مارے وہ آنکھیں کھول دیتی تو دیکھتی کہ ایک لہر کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری لہر منہ پھاڑے اس کو نگلنے کے لیے چلی آ رہی ہے۔

    (ہائے اللہ۔ اس نے سوچا۔ میں نے کمزوری کے کس لمحے میں اس کشتی میں بیٹھنا منظور کر لیا۔ اس سے تو اچھا تھا کہ میں پہلے ہی کہہ دیتی کہ جاؤ بھائی تم ٹاپو پر جا کر مچھیرن کا بچہ جنواؤ۔ اس کا آپریشن کرو، جو چاہے کرو۔ تم کہو گے تو جہنم میں چلی جاؤں گی مگر اس کشتی میں نہیں بیٹھوں گی۔ سمندر کمبخت میں بھی طوفان آ رہا ہے۔ ہائے اللہ؟ تو کیا میں اللہ کو مانتی ہوں؟ کون جانتا ہے، شاید مانتی ہی ہوں۔ کیمبرج میں پڑھا ہوا فلسفہ تو کہتا ہے، اللہ صرف ایک واہمہ ہے، مگر یہاں سمندر کی ان خونخوار لہروں میں تو مجھے ہر طرف خدا کا قہر ہی قہر نظر آ رہا ہے۔ نہ جانے کون کون سے گناہ میرے نامہ اعمال میں لکھے ہوئے ہیں، جن کی سزا میں مجھے اس سمندری قبر میں آج دفن کیا جائےگا مگر کیا منکر نکیر سمندر کی تہہ میں پڑے ہوئے مردوں سے بھی سوال و جواب کرتے ہیں؟)

    (اور انور سوچ رہا تھا، کمال ہے کہ سلمہ سوئزرلینڈ کی برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کی خطرناک ڈھلوانوں پر سکیٹنگ کر آئی ہے۔ درجنوں بار ہوائی جہاز میں سفر کر چکی ہے۔ خود ساٹھ ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹر چلاتی ہے لیکن ایک کشتی میں دو میل کے سمندری سفر سے اس کی رنگت پیلی پڑ گئی ہے۔ سمندر کی یہ ہیبت تو اس کے شعور میں چھپی بیٹھی ہے نہ جانے کتنے برسوں سے۔ کیا اس ہیبت کو کوئی بھی وہاں سے نکال سکتا ہے؟ شاید محبت نکال سکتی ہے۔ آج بے چاری میری خاطر اس کشتی میں بیٹھ ہی گئی نا۔ بڑا ظلم کیا ہے میں نے اس کے ساتھ۔)

    اس دن سویرے جب وہ سو کر اٹھے تھے تو انور کو یقین نہیں تھا کہ سلمہ اس کے ساتھ آنے کو تیار ہو جائےگی۔ ناشتے کی میز پر سلمہ نے حسب معمول پہلا سوال یہی کیا تھا، ’’ڈارلنگ! وہ فلیٹ ہمیں کب تک مل جائےگا؟‘‘ اور حسب معمول انور نے جواب دیا تھا، ’’بہت جلد۔ شاید اگلے مہینے ہی ہم شفٹ کر جائیں۔ شاید۔۔۔‘‘

    ’’یہ شاید کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ شاید اس عرصے میں تمہارے دل سے سمندر کی ہیبت نکل جائے اور تم سمندر سے ڈرنا چھوڑ دو۔‘‘

    ’’کون کہتا ہے میں سمندر سے ڈرتی ہوں؟‘‘

    ’’تو پھر یہ گھر کیوں چھوڑنا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’بس مجھے سمندر پسند نہیں ہے۔‘‘ یہ انور کے لیے ایک اور حیرت کی بات تھی۔ رات کو وہ سمندر سے ڈرتی تھی لیکن دن کے اجالے میں وہ اس خوف کا اقرار کرنے کو تیار نہیں تھی۔

    ’’بس مجھے سمندر پسند نہیں۔ ‘‘ وہ کہے جا رہی تھی، ’’مجھے سمندر میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے تمہارا سمندر بور کرتا ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز اونچی ہوتی گئی تھی۔ اس میں ہسٹریا کی کیفیت آتی گئی تھی اور انور نے دیکھا تھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک ایسے خوف کی چمک ہے جیسے دن دہاڑے اس نے بھوت دیکھ لیا ہو۔۔۔ دھیرے دھیرے چپو چلاتے ہوئے انور نے کہا، ’’سلمہ تم نے وہ پکچر دیکھی تھی؟‘‘

    ’’کون سی پکچر؟‘‘

    ’’کیا نام تھا اس کا؟ ہاں۔ اب یاد آیا۔ لیون ہر ٹوہیون۔‘‘

    ’’ہاں دیکھی تھی۔ مگر اس وقت اس کی یاد کیسے آئی؟‘‘

    ’’اس میں بھی تو سمندر کا ایک سین ہے۔ ایک شکی مزاج بیوی ہے جو دوسری لڑکی کو کشتی میں بٹھا کر سمندر میں لے جاتی ہے۔‘‘

    ’’ہاں۔ شاید کوئی سین تھا تو ایسا۔ اچھی طرح یاد نہیں۔‘‘

    ’’اور بیچ سمندر میں جاکر بیوی اطمینان سے کہتی ہے کہ کشتی کے تختوں میں اس نے ایک سوراخ کر رکھا ہے، جس میں سے پانی بھرتا جا رہا ہے اور اب تھوڑی دیر میں دونوں ڈوب جائیں گی۔‘‘

    ’’کیا بھیانک کہانی یاد آئی ہے تمہیں؟ بھلا یہ بھی کوئی موقعہ ہے ایسی کہانی سنانے کا؟‘‘

    ’’اس سے بہتر کون سا موقعہ ہو سکتا ہے۔ ہم دونوں کشتی میں ہیں۔ کشتی سمندر میں ہے اور کون جانتا ہے تھوڑی دیر میں سمندر ہماری کشتی میں ہو۔‘‘

    ’’بھئی مجھے ڈراؤ مت۔ خدا کے لیے کوئی اور بات کرو۔ تمہارا سمندر مجھے بور کرتا ہے۔‘‘

    ’’تو سمندر تمہیں بور کرتا ہے؟‘‘ انور نے چپوؤں کو پورے زور سے چلاتے ہوئے دانت پیس کر پوچھا اور اپنی آواز میں سے اس نے محبت کے شائبے کو بھی نکال پھینکا۔

    ’’ہاں ہاں۔ بور کرتا ہے۔‘‘ سلمہ چلائی اور اسی وقت ایک لہر کا طمانچہ اس زور سے پڑا کہ وہ سر سے پیر تک شرابور ہو گئی۔

    ’’جیسے میں بور کرتا ہوں؟‘‘ اور انور کی آواز کا طمانچہ سمندر کی لہر سے بھی بہت زیادہ خوفناک تھا۔

    ’’انور ڈارلنگ! تم کیا کہہ رہے ہو۔ یہ تم کیسے سوچ سکتے ہو۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ تم سے۔۔۔ محبت۔۔۔‘‘

    ’’تم جھوٹ بولتی ہو۔ تم نے آج تک کسی سے محبت نہیں کی۔ نہ مجھ سے، نہ جھُنیا سے۔‘‘

    ’’جھنیا۔۔۔!‘‘ دفعتاً سلمہ کے لاشعور کی تہ میں ہزاروں گھنٹیاں بجنےلگیں۔ ماضی کے پراسرار دروازے آپ سے آپ کھلنے لگے۔ وہ چلائی، ’’جھُنیا کے بارے میں تم کیسے جاتنے ہو؟‘‘

    ’’ایسے کہ تم ہمیشہ خواب میں چلاتی رہتی ہو۔ جھنیا مجھے معاف کر دو۔ جھنیا میں مجبور تھی۔ جھنیا میں تم تک نہیں آ سکتی۔ بیچ میں سمندر ہے اور مجھے سمندر سے ڈر لگتاہے۔ تقریباً ہر رات کو تم سوتے سوتے یہ بڑبڑاتی ہو لیکن سلمہ جو ڈرتے ہیں، وہ محبت نہیں کر سکتے۔ نہ اپنی بچپن کی سہیلی سے، نہ اپنے شوہر سے۔‘‘

    ’’انور تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔؟ مجھے کس بات کی سزا دے رہے ہو؟‘‘

    ’’جانتی ہو میں کون ہوں؟‘‘

    ’’تم میرے شوہر ہو۔ تم ایک مشہور ڈاکٹر ہو۔۔۔‘‘

    ’’مگر جانتی ہو، میرا باپ کون تھا؟ میں کہاں پیدا ہوا تھا؟ کس خاندان میں؟‘‘

    ’’میں نہیں جانتی اور نہ میں جاننا چاہتی ہوں۔ میں تمہیں جانتی ہوں انور۔۔۔ اور میں کچھ جاننا نہیں چاہتی۔ مجھے ماضی کے دروازے کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘

    ’’اس لیے کہ تم ماضی سے ڈرتی ہو۔۔۔ جیسے تم سمندر سے ڈرتی ہو، جیسے تم زندگی سے ڈرتی ہو، جیسے تم محنت اور مفلسی سے ڈرتی ہو، جیسے تم سچائی سے ڈرتی ہو۔‘‘

    ’’یہ جھوٹ ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔‘‘

    ’’تو سنو! میرا باپ تمہارے باپ سر عظیم اللہ کے دوست راجہ جسپال سنگھ تعلقدار کے فیل خانے میں مہاوت تھا۔ میں اسی فیل خانے میں پیدا ہوا تھا۔ میں نے سائیسوں اور بھنگیوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائی ہے اور یہ ڈاکٹری، یہ تعلیم، یہ نام، یہ عزت مجھے بخشش ملی ہے اپنے باپ کی جان کے عوض۔ اس لیے کہ وہ راجہ صاحب کا نمک حلال ملازم تھا اور اس نے مالک کی اولاد کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔‘‘

    ’’یہ سب مجھے کیوں سنا رہے ہو۔ میں نے تم سے محبت کی ہے۔ تم سے شادی کی ہے، تمہارے خاندان سے نہیں۔‘‘

    ’’اسی لیے سنا رہا ہوں کہ جو سچائی سے ڈرتا ہے، وہ مجھ سے کیا کسی سے بھی محبت نہیں کر سکتا۔۔۔ اور اسی لیے آج میں تمہیں یہاں۔۔۔‘‘ سلمہ کے منھ سے ایک چیخ نکل گئی۔ کیونکہ اسی دم اس نے دیکھا کہ کشتی آدھی سے زیادہ پانی سے بھر چکی ہے۔

    ’’انور۔۔۔!‘‘ وہ چلائی۔

    ’’یہ کیا؟ کیا تم مجھے یوں مارنے کے لیے یہاں لائے تھے؟‘‘ انور نے اطمینان سے چپو سمندر میں پھینک دیے۔

    ’’تمہیں تیرنا تو آتا ہوگا ڈارلنگ!‘‘

    ’’آتا ہے۔۔۔ مگر تالاب میں۔۔۔ سمندر میں نہیں۔‘‘

    ’’اسے بھی ایک لمبا چوڑا تالاب ہی سمجھو۔۔۔ صرف گہرائی ذرا زیادہ ہے۔ دو چار ہاتھی ڈباؤ پانی ہوگا۔ وہ سامنے والی چٹانیں زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘ اور اب سلمہ کی ہیبت زدہ نگاہوں نے دیکھا کہ کشتی تین چوتھائی پانی سے بھر چکی ہے اور کسی دم میں ڈوبنے والی ہے۔

    ’’ٹاٹا ڈارلنگ!‘‘ اور یہ کہہ کر انور نے پانی میں چھلانگ لگا دی اور ٹاپو کے کنارے کی چٹانوں کی طرف تیر کر جانے لگا اور پھر ایک اونچی سی لہر آئی اور وہ نظر سے اوجھل ہو گیا۔

    بچی لہروں کو گن رہی تھی۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ کوئی اونچی، کوئی نیچی، کوئی موٹی، کوئی پتلی، کوئی رینگتی ہوئی آ رہی تھی، کوئی دوڑتی ہوئی، کوئی چنگھاڑتی ہوئی اور کوئی دہاڑتی ہوئی اور پھر ان سب لہروں کی ایک نانی اماں آئی اور اس کے ساتھ سمندر سچ مچ کشتی میں آ گیا اور بیس برس کے بعد بچی آج پھر بھوکی لہروں کے بھیانک جبڑوں میں جا پڑی۔ دور کہیں سے ایک آواز گونجی، ’’یہ سمندر کا لہر چھوٹا چھوٹا بے بی کو کھانا مانگتا۔‘‘

    ’’چھوٹا بےبی!‘‘ نمکین پانی چکھتے ہوئے بچی اندھیرے کنوئیں کی تہہ کی طرف جا رہی تھی، کہ اس کے شعور میں کوئی چیز یکا یک بیدار ہو گئی۔ جیسے سویا ہوا شیر جاگ اٹھتا ہے، غراتا ہوا۔ تو یہ لہریں چھوٹے چھوٹے بےبی کھاتی ہیں مگر میں چھوٹا بےبی نہیں ہوں۔ بندر کی طرح لال منھ والے صاحب، کان کھول کر سن لو۔ میں چھوٹا بےبی نہیں ہوں۔ اور اسی وقت اس کے دونوں ہاتھوں نے اس لال منھ والے صاحب کو اس زور سے دھکا دیا کہ نیچے جانے کی بجائے وہ اوپر کی طرف اٹھنے لگی۔ پھر اس کے شعور میں قریب ہی سے ایک جانی پہچانی پیار بھری آواز نے چڑایا، ’’تم سچ مچ بچی ہو، بچی ہو۔ بچی ہو۔‘‘

    ’’میں بچی نہیں ہوں۔‘‘ سمندر کی تہ سے اوپر اٹھتے ہوئےاس کا دل دھڑکتا ہوا چلایا۔

    ’’میں بچی نہیں ہوں۔ میری عمر تیس برس ہے۔ میں نے کیمبرج سے فلسفے میں ڈگری لی ہے۔۔۔ میں نے ساری دنیا کا سفر کیا ہے۔ میں نے ماضی اور مستقبل، ہر دروازے اور تہذیب و تمدن کے ہر دریچے میں جھانک کر دیکھا ہے۔‘‘ مگر ایک آواز جو انور کی سی آواز تھی، اسے چڑائے جا رہی تھی۔۔۔

    ’’مگر تم نے اپنے اصطبل کے دروازے میں سے جھانک کر نہیں دیکھا کہ گھوڑی کے بچہ کیسے ہوتا ہے؟‘‘

    ’’وہ سب بھی مجھے معلوم ہے۔ جانتے ہو میرا شوہر کتنا بڑا ڈاکٹر ہے۔ اس نے مجھے زندگی کے سب بھید بتا دیے ہیں۔ اس وقت بھی وہ اس ٹاپو پر ایک مچھیرن کا بچہ جنوانے جا رہا ہے۔ یہ اس کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے، پھر بھی وہ جا رہا ہے کیونکہ اس وقت ہسپتال میں کوئی دوسرا ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔۔۔ میرا شوہر بہت بڑا آدمی ہے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ میرا شوہر بہت براآدمی ہے۔ وہ تو مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔ ہاں اور کیا۔ مگر میں اتنی آسانی سے مرنے والی نہیں ہوں۔‘‘ اور یہ سوچ کر اس نے اتنے زور سے ہاتھ پاؤں مارے کہ سمندر کی سطح سے باہر نکل آئی۔۔۔ سامنے ہی ٹاپو کی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔ سامنے سے ایک لہر آئی اور اتنے زور سے اس سے ٹکرائی کہ ایک لمحہ کے لیے سلمہ چکرا گئی۔ مگر اگلے لمحے ہی وہ سوچ رہی تھی، ’’وہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو؟ مہاوت کا بیٹا ہے تو ہوا کرے۔ میرے باپ سر عظیم اللہ بھی تو کبھی معمولی وکیل تھے اور ان کے باپ سلیم اللہ اودھ کے لیفٹننٹ گورنر کے منشی تھے اور ان کے باپ نعیم اللہ واجد علی شاہ کا حقہ بھرا کرتے تھے، تو اس میں شیخی کی بات کون سی ہے؟‘‘ اور اس بار جو ایک لہرجبڑا کھولے اس کی طرف بڑھی تو اس نے عین وقت پر ڈبکی لگا دی اور لہر اس کے اوپر سے گزر گئی۔

    ’’ہونہہ!‘‘ اس نے سوچا، ’’یہ سمندر کا لہر چھوٹا چھوٹا بے بی لوگ کو کھانا مانگتا ہے۔۔۔ ابے انگریز کے بچے۔ جا اپنے بابا لوگ کو ڈرا۔ چلا ہے مجھے ڈرانے!‘‘ اور اگلی لہر جو مس میری کی طرح موٹی تازی تھی، جھومتی جھامتی اس کی طرف آئی تو اسے ایسا لگا، جیسے کوئی اس سے کہہ رہا ہو، ’’اِدھر کہاں جا رہی ہو بےبی۔ تمہارے ڈیڈی چاہتے ہیں تم ادھر لندن میں فرسٹ کلاس انگلش اسکول میں ایجوکیشن حاصل کرو۔‘‘ مگر سلمہ اس لہر کے جبڑوں میں سے یہ سوچتی ہوئی صاف نکل گئی، ’’ٹاٹا مس صاحب۔ مگر میں تو اب گھر جاؤں گی اور جھنیا کے ساتھ کھیلوں گی۔‘‘ اور پھر ایک اور لہر آئی۔ اس کیمبرج والے سائیکاٹرسٹ جارج رسل کی طرح دھیمی چال چلتی ہوئی، ’’سلمہ ڈارلنگ! یو آر ریپرسڈ۔ دیٹ از وہاٹ یو آر!‘‘ تم قدرت کی گنہ گار ہو کیونکہ تم جنسی اختلاط سے ڈرتی ہو۔‘‘ اس لہر کے اوپر سے تو وہ ایسی آسانی سے گزر گئی جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو، ’’جاؤ جاؤ جیور جی بوائے! پہلے اپنے دانتوں کے پائیریا کا علاج کروا کے آؤ۔ پھر ذرا انور سے میرے سائیکو انالی سس کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا۔‘‘

    اور پھر لہروں کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ٹاپو کے ساحل پر پایاب پانی میں کھڑی ہوئی اپنے بھیگے ہوئے، تھکے ہوئے، چوٹ کھائے ہوئے بدن میں ایک نئی طاقت، ایک نئی تازگی محسوس کر رہی تھی۔ سامنے سرسبز ٹاپو تھا۔ ناریل کے، کمان کی طرح بل کھاتے ہوئے پیڑ تھے۔ ساحل پر مچھیروں کے جال سوکھ رہے تھے اور دور چھوٹے چھوٹے جھونپڑوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

    ’’دنیا کتنی خوبصورت ہے۔‘‘ اس نے سوچا، ’’آج سے پہلے تو مجھے کبھی اتنی خوبصورت نہ لگی تھی۔‘‘ پھر اس نے مڑ کر دیکھا۔ سمندر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس پر لہریں دوڑ بھاگ کر رہی تھیں جیسے باپ کے سینے پر بچے کھیلتے ہیں۔ کیا یہی وہ سمندر ہےجس سے وہ کبھی ڈرتی تھی! مگر اسے اس کی کوئی وجہ یاد نہ آئی۔ زمین خوبصورت تھی۔ آسمان اور آسمان پر بکھرے ہوئے بادل خوبصورت تھے، نیلا سمندر خوبصورت تھا۔ حسن کے اس پھیلاؤ میں بس ایک ہی کمی تھی۔ اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی۔

    ’’انور۔۔۔!‘‘

    ’’ہائے اس ظالم نے مجھے ڈبونے کی کوشش میں کہیں خود تو جان نہیں دے دی؟‘‘ اور اسی دم سامنے سے آتی ہوئی ایک لہر ٹوٹی اور اس میں سے ایک گھنے سیاہ بالوں والا سر نکلا اور دو چوڑے چکلے شانے نکلے اور ایک لمبا تڑنگا جسم نکلا۔

    ’’ہائے اللہ! یہ سمندر کتنا اچھا ہے کہ اس میں سے آج میرے انور نے جنم لیا ہے!‘‘

    ’’انور ڈارلنگ!‘‘ اور وہ بھاگ کر اس سے چمٹ گئی۔

    ’’تو تم میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے؟ اور میں سمجھی تم مجھے ڈوبنے کے لیے چھوڑ کر چل دیے۔‘‘

    ’’ارے، تم تو رو رہی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’خوشی کے مارے۔‘‘

    ’’تم سچ مچ بچی ہو۔‘‘

    ’’اب تم مجھے جو چاہے کہو۔ میں بچی کہلانے سے نہیں چڑتی۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ اب میں بچی نہیں رہی۔ آج میں جوان ہو گئی ہوں۔ اچھا ہی ہوا وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘

    ’’اسے تو ڈوبنا ہی تھا۔ پورے ڈیڑھ سو روپے دیے ہیں۔‘‘

    ’’تو تم نے جان بوجھ کر یہ سارا ڈھونگ رچایا تھا؟‘‘

    ’’سمندر سے تمہاری دوستی جو کرانی تھی؟‘‘

    ’’اور جو میں سچ مچ ڈوب جاتی؟‘‘

    ’’جس پانی میں تم ڈوبنے والی تھیں وہ صرف چار فٹ گہرا ہے اور تمہارا قد ساڑھے پانچ فٹ ہے۔‘‘

    ’’تم بڑے فراڈ ہو۔‘‘

    ’’بڑا فراڈ تو فرائیڈ ہے۔‘‘

    ’’اور یہ مچھیرن کی زچگی کا بہانہ؟ یہ سب بھی فرضی تھا؟ تمہارا تو ڈاکٹری بیگ بھی ڈوب گیا۔‘‘

    ’’وہ تو خالی تھا۔۔۔ اصل بیگ لے کر میرا اسسٹنٹ پہلے ہی یہاں آ چکا ہے۔‘‘

    مچھیرن کے زور زور سے سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔ جیسے وہ مر رہی ہو۔ سلمہ باہر کھڑی دروازے کی ریخ میں سے جھانک رہی تھی اورخوف سے اس کا دل دھڑک رہا تھا۔

    ’’سلمہ اندر آ جاؤ۔‘‘ اور پھر انور نے مرہٹی میں مچھیرن سے کچھ کہا۔ بیس برس سے جس دروازے کے باہر وہ بچی کھڑی تھی، اسے کھول کر آج وہ اس کے اندر چلی گئی۔

    مچھیرن پسینے میں شرابور ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر کرب سے گہری لکیریں پڑی ہوئی تھیں۔ مگر سلمہ کو دیکھ کر اپنی تکلیف کے باوجود وہ مسکرادی اور اندھیرے جھونپڑے میں اس کے دانت ایسے چمکے جیسے سمندر کی تہ میں سیپ۔ مچھیرن نے مرہٹی میں کچھ کہا۔ انور نے ترجمہ کیا۔ وہ کہہ رہی ہے، ’’بہن! بھگوان کرے یہ دن ہمیں بھی جلدی نصیب ہو۔‘‘

    اور مچھیرن پھر اپنے حیات آفریں کرب میں مبتلا ہو گئی۔ پسینہ، خون اور پھر جیسے مداری ٹوپی میں سے خرگوش نکالتے ہیں، اس کے ہاتھ میں گوشت کا ایک لوتھڑا مگر بےجان۔۔۔ کوئی حرکت نہیں، کوئی آواز نہیں۔ ماں کی آنکھیں بھی بند۔ شاید وہ بھی مرگئی اور پھر ڈاکٹر نے اس گوشت کے لوتھڑے کو زور سے ایک تھپر مارا اور جھونپڑے میں ایک ننھی سی آواز نے اپنی زندگی کا اعلان کیا۔ مری ہوئی ماں کی آنکھیں بھی کھل گئیں۔ خوشی سے چمک اٹھیں۔۔۔ ڈاکٹر سے اس ننھے سے زندہ پتلے کو لے کر اس نے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ سلمہ نے اپنے گال پر گرم گرم آنسوؤں کو محسوس کیا۔

    ’’مر مر کے ہی زندگی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ وہ آنسوؤں کو پیتے ہوئے بولی، ’’جھنیا کے بابو سچ کہیں تھے۔‘‘

    ’’ازھے بابا؟‘‘ مچھیرن نے مرہٹی میں سوال کیا۔

    ’’وہ پوچھتی ہے کہ اس کے بابا کا کیا ذکر ہے۔‘‘ انور نے ترجمہ کیا۔ اور اب سلمہ نے زمین پر بیٹھتے ہوئے مچھیرن کا سیاہ مگر چکنا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا، ’’بہن! تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’ازھا نام؟‘‘ اس نے دہرایا اور سلمہ نے دوستی، محبت اور تشکر کی ایک گرم اور نرم لہر کو اس کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں دوڑتے ہوئے محسوس کیا اور اسے ایسے لگا جیسے اپنے بچپن سے اس کا بیس برس پہلے کا ٹوٹا ہوا رشتہ آج پھر سے قائم ہو گیا ہے۔ پھر مچھیرن بولی، ’’ازھا نام۔۔۔ جھنیا۔۔۔‘‘

    مأخذ:

    خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے (Pg. 119)

      • ناشر: سیمانت پرکاشن، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے