Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمندر

آصف فرخی

سمندر

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    کچھوے کی پیدائش اور اس کی مکمل زندگی کا احاطہ کرتی یہ کہانی انسانی زندگی کے ارتقا کی تمثیل ہے۔ واحد متکلم مکمل چاند کی رات میں ساحل پر کچھووں کے آنے اور بچہ جننے کا پورا عمل دیکھنے کی غرض سے جاتا ہے۔ سمندر کی پرشور موجوں کو دیکھ کر وہ زندگی کے رازہائے سربستہ پر غور کرنے میں اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ سمندر سے کچھوے کے نکلنے کا لمحہ گزر جاتا ہے۔ اپنے خیالوں کی دنیا سے وہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کھچوے ریت ہٹا کر اپنا بھٹ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ بھٹ بنا کر اس کے انڈے دینے اور پھر سمندر میں اس کے واپس جاننے کا پورا عمل دیکھنے کے بعد وہ گھر واپس آجاتا ہے۔کچھوے کے ایک چھوٹے بچے کو اٹھا کر جس طرح راوی چومتا ہے، اس سے اس کے مامتا کے جذبہ کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ 

    یہ افزائش کا زمانہ تھا۔ کئی دن سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کوئی چیز اندر سے بتا رہی ہے کہ ان کا وقت قریب آ گیا ہے، ان کے آنے کا وقت، وہ آ رہے ہیں، پانی پر چلتے ہوئے، ہزاروں آبی میل کا سفر طے کرتے ہوئے میرے ساحلوں پر لوٹ کر آ رہے ہیں، بھاری بھرکم، گابھن، چپ چاپ، ادھر کا رخ کیے ہوئے، اپنے پنکھ جیسے بازوؤں سے سمندروں کو کاٹتے ہوئے، موجوں کی گیلی چادر الٹتے ہوئے، کسی ان جانی جبلی قوت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے وہ یہیں آ رہے ہیں، اسی ساحل کی مٹی پر تا کہ وہی ازلی سلسلہ دہرایا جائے جو نامعلوم وقت سے جاری تھا، جس کی تکمیل میں ان کی بقا مضمر تھی، جس کھیل میں میں بھی شریک ہونا چاہتا تھا، تماشائی کی حیثیت سے ہی سہی۔ میں ساحل پر کچھووں کو دیکھنا چاہتا تھا۔

    میں کئی دن سے منصوبہ بنا رہا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب پورے چاند کی رات آئےگی اور سمندر میں مد اپنے پورے عروج پر ہوگا تو میں ساحل پر جاؤں گا اور چٹانوں کی اوٹ میں بیٹھ کر کچھووں کے آنے، سمندر سے باہر نکلنے، ریت میں بھٹ بنانے اور انڈے دینے کا پورا عمل دیکھوں گا۔ وہ پر اسرار، جسم سے عاری قوت مجھے مبتلائے حیرت رکھتی تھی جو سمندری کچھووں کے سرد لہو میں گھنیرے سربستہ راز کی طرح شامل ہے اور موسم کی ایک آن میں اس طرح ان کے جسم پر حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے گہرے سمندروں کو چھوڑ کر خشکی پر آ جاتے ہیں اور اپنی اگلی نسل انڈوں کی صورت ریت میں دفن کرکے پھر پانی میں اتر جاتے ہیں۔

    میں یہ سب دیکھوں گا۔ میں یہ تفصیلات طے کر رہا تھا کہ رات ساحل پر بنے ہوئے تفریحی بنگلوں میں سے کسی کی کچھ پرواہ نہیں اگر وہ اس بات کا کچھ اور مطلب سمجھے، رات کے لحاظ سے گرم کپڑے تو پہننے ہی ہوں گے اور سمندر یوں بھی ان دنوں خنک ہوتا ہے، جوتے ربر کے ہوں کہ میں نرم آواز قدموں سے چلوں اور کچھوا میری آہٹ سے چونک نہ پڑے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بھی چیز ان کے فطری عمل میں مداخلت کرے۔ چاہے وہ میں ہی کیوں نہ ہوں۔

    یک بیک کچھووں سے مجھے دل چسپی کیوں پیدا ہو گئی تھی؟ کچھووں کو آتے ہوئے دیکھنے کا خیال تو پرانا تھا، کئی بار سوچا مگر مصروفیات کے دائرے سے نکلنا ہی نہ ہوا، مگر ایک دن، ایک ایسے دن جو دوسرے تمام دنوں کی طرح عام سا دن تھا، میری آنکھ کھلی تو میرے کمرے میں سمندر کی خوش بو بسی ہوئی تھی۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ خوش بو میری بیوی کی ہے، رات میں اسے ماہواری کا لہو آیا ہے، مگر نہیں، یہ سمندر کی خوش بو تھی، واضح طور پر سمندر کی کھاری اور نم خوشبو۔ کیا رات میں جوار بھاٹا یہیں ہوتا رہا تھا، میرے کمرے میں؟ میں سوتا رہا اور سمندر دبے پاؤں آیا، چڑھتا پانی ہر چیز پر چھا گیا، رات بھر ان تمام چیزوں کو اپنے گیلے پن کا حصہ بنائے رہا جو دن میں خشک اور ریتیلی رہتی ہیں، اور صبح ہونے سے پہلے الٹے پیروں پھر گیا۔ کمرے میں جیسے اس کے چھوڑے ہوئے نشان بکھرے پڑے تھے۔ آبی پودوں کے ٹکڑے، سیپیاں، ستارہ مچھلیاں، مردہ کیکڑے۔ نہیں، وہاں ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا، صرف فرش کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی یہاں سے پانی اترا ہے۔

    اس لمحے سمندر کی بے پناہ خواہش نے مجھے سن کر دیا۔ سمندر تک جانے، اسے دیکھنے، اسے چھونے اور اس کے نرم نرم نیلے نیلے پانیوں میں اپنا آپ گیلا کرنے کی پاگل خواہش میرے اندر کروٹیں لینے لگی۔ بستر سے اٹھ کر منہ دھونے کے لیے میں بیسن دانی کے سامنے کھڑا ہوا تو دیوار پر نصب آئینے میں میرا چہرہ موجوں کی سطح پر بنے ہوئے عکس کی طرح کانپ رہا تھا۔ جتنی دیر چائے کی پیالی میرے سامنے رکھی رہی، سمندر مجھے بلاتا رہا، پیالی میں سے اٹھتا ہوا دھواں اصل میں سمندر کا کہرہ تھا۔ دفتر جانے کے لیے نکلا تو آخری سیڑھی پر۔۔۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں اسے دیکھ سکتا تھا، واقعی دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ایک انڈا رکھا ہوا تھا، بہت بڑا اور خاکستری مائل۔

    اس کی نوک اوپر تھی۔ وہ سیدھا کھڑا ہوا تھا۔ روشنی کے رخ سے اس کے آرپار نظر آ رہا تھا کہ اس میں کچھ ہے، کوئی چیز جو ابھی پوری طرح واضح اور متشکل نہیں ہوئی مگر اس نے ایک جسم اختیار کر لیا ہے۔ روشنی کا زاویہ بدلا تو میں نے دیکھ لیا کہ وہ کیا تھا۔ وہ شفاف جھلیوں میں لپٹا ہوا جنین تھا، کسی چوپائے کا جنین۔ لیکن وہ انسان کا بھی تو ہو سکتا تھا۔ اس مرحلے پر اتنا زیادہ فرق تو نہیں ہوتا۔ میں سیڑھیوں پر حیرت زدہ کھڑا تھا کہ وہ انڈا چٹخ گیا اور اس میں سے وہ رینگتا ہوا نکلا، بہت چھوٹا سا، مٹی ملے کاہی رنگ کا، چابی کے چھلے سے لٹکے ہوئے پلاسٹک کے کھولونوں جیسا کچھوا۔ وہ ہوا پر چلتا ہوا آیا، چلتے چلتے رکا اور الٹ گیا۔ اب وہ چپٹا تھا اور بالکل ساکت۔ اس کے چاروں پنجوں کی انگلیاں الگ الگ نظر آ رہی تھی، وہ مل کر پنکھ والے بازو بن گئیں اور وہ جو رینگتا ہوا آیا تھا تیرتا ہوا لوٹ گیا۔

    میرا رکا ہوا قدم دوبارہ اٹھا۔ میں دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترتا رہا۔ جو کچھ میں نے دیکھا تھا، وہ سچ تو نہیں ہو سکتا تھا۔ میں آخری سیڑھی پھلانگ کر اس جگہ سے، اسی جگہ سے جہاں مجھے انڈا رکھا ہوا دکھائی دیا تھا، یوں گزر گیا جیسے ہوا میں سے گزر رہا ہوں۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ سوائے ہوا کے اور ہوا راستہ نہیں روکتی۔ میں نے پھاٹک کے سامنے کھڑی ہوئی گاڑی کا دروازہ کھولا، بریف کیس پچھلی سیٹ پر رکھا، گاڑی اسٹارٹ کی اور دفتر کے راستے پر چل دیا۔

    سڑک پر صبح سویرے کا مخصوص ہجوم تھا، سیکڑوں پیدل، ہزاروں گاڑیاں۔ میری گاڑی بھی اس متحرک قطار کا حصہ بن گئی۔ گاڑی کے پہیے سڑک پر پھسلتے جا رہے تھے، میرا دھیان کہیں اور تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھ سے کوئی چیز کھو گئی ہے، بہت قیمتی چیز اور مجھے اس کی بازیافت کرنی چاہیے، ورنہ میں ہمیشہ پچھتاتا رہوں گا۔ ناقابل تلافی خسارے کے شدید احساس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسا کیوں محسوس ہو رہا تھا مجھے؟ غور کیا تو خیال آیا کہ نقصان کا یہ احساس اس لمحے سے شروع ہوا تھا جب میں نے کچھوے کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے وہیں گاڑی روک دی اور جب دوبارہ اسٹارٹ کی تو اس کا رخ گھر کی جانب تھا۔

    گاڑی کو غلط سمت جاتے ہوئے دیکھ کر دوسرے گاڑی والوں نے زور زور سے ہارن بجائے اور ایک آدمی نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے کھڑکی میں سے سر نکالا اور چیخ کر کہا، ’’رانگ سائڈ۔‘‘ مگر میں اسی طرح چلتا رہا۔ میری بیوی نے مجھے ناوقت گھر واپس آتے ہوئے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ وہ میرے تیزی سے بدلتے ہوئے موڈ کی عادی ہو گئی تھی۔ ’’آپ بھی کراچی کے موسم کی طرح ہیں۔‘‘ وہ کہتی تھی۔ ایک اور دفعہ غصے کے عالم میں اس نے میری مثال جاڑے کی دھوپ سے دی تھی۔ شاید اس لیے کہ میں بظاہر غنیمت نظر آتے ہوئے بھی کسی کو حرارت پہنچانے کے قابل نہیں تھا۔ شاید وہ برا نہ مانتی ہو، مگر مجھے ایک احساس جرم سا ہوتا تھا کہ میں اپنی اندرونی کیفیات کی خاطر گھر والوں کو نظرانداز تو نہیں کر رہا؟ اسی وجہ سے میں شادی اور گھر بار کے جھنجھٹ سے ہچکچاتا تھا۔

    میں اپنے خوابوں کا پابند تھا۔ پتہ نہیں کیسا شوہر اور باپ ثابت ہو رہا ہوں۔ مجھے ہر وقت اپنے آپ پر شک ہوتا تھا۔ کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں؟ کوئی شکایت تو وہ کرتا نہیں تھا۔ چپ چاپ میری ڈیسک کے نیچے بیٹھا رہتا تھا۔ گھنٹوں وہ وہاں بیٹھا رہتا جہاں پیر رکھنے کے لیے لکڑی کی ٹیک بنی ہوئی تھی، اور میرے پاؤں کی انگلیوں سے کھیلتا رہتا۔ اس کے نرم ہاتھوں کے لمس سے میرے تلوے میں گدگدی ہونے لگتی اور میں اپنا پیر واپس کھینچ لیتا تو پیر کا انگوٹھا سمٹ جاتا جیسے کچھوا اپنی گردن خول کے اندر سکیڑ رہا ہو۔ اس کی یہ عجیب عادت تھی کہ وہ میرے پاؤں سے کھیلتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور عجیب عادت تھی۔ وہ میرے جوتوں میں پیر ڈال کر چلتا تھا۔

    جب میں چھوٹا تھا تو میں بھی اپنے ابا کے جوتوں میں پیر ڈال کر چلتا تھا۔ چلنا میں نے دیر سے شروع کیا تھا۔ بچپن کی جو پہلی واضح یاد ہے، وہ لکڑی کا گڈولنا ہے۔ اس کا رنگ لال اور سبز تھا اور اس کے آگے چھوٹا سا پہیا لگا ہوا تھا۔ میں اس کا سہارا لے کر کھڑا ہو سکتا تھا اور اس کا ڈنڈا پکڑ لیتا تھا تو وہ آگے سرکتا تھا اور میں اس کے ساتھ ساتھ کھسکتا جاتا تھا۔ اس سے پہلے جب بھی مجھے چلانے کی کوشش کی گئی، یہی ہوا کہ جوں ہی ابا نے میرا ہاتھ چھوڑا میں گر پڑتا۔ اس کے بعد میں نے اپنے سہارے کھڑا ہونا اور چلنا سیکھا تھا۔

    یہ ساری باتیں مجھے یاد آ رہی تھیں مگر ان سب سے زیادہ طاقتور یہ خیال تھا کہ مجھے سمندر کے پاس جانا تھا۔ آج لازمی طور پر جانا ہے۔ میں سمندر کے لیے اتنی کشش کیوں محسوس کر رہا تھا۔ وجہ مجھے نہیں معلوم، لیکن اس دن میرے اندر سمندر کے پاس جانے کی خواہش یوں پیدا ہو رہی تھی جیسے کسی بچھڑے ہوئے سے ملنے کی خواہش۔ میں دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور اس سڑک پر ہو لیا جس کے خاتمے پر سمندر تھا۔

    سڑک کے ساتھ مکانوں کے بجائے کارخانے آ گئے۔ یہ کارخانے شہر اور سمندر کے بیچ میں حائل ہیں۔ ایک مزدور بستی کے نیم پختہ، گنجان مکانوں کے آگے بجری ریتی ڈھونے والے کسی ٹرک کا ٹوٹا ہوا ڈھانچہ پڑا تھا۔ سمندری ہوا کی وجہ سے اس پر زنگ لگ رہا تھا۔ ڈھانچے کا سامنے والا حصہ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ماقبل تاریخ کے کسی دیوقامت حشری حیوان کا جبڑا۔

    کارخانوں سے آگے نکلتے ہی ہوا بدلنے لگی۔ میں نے کھڑکی کھول کر ہوا کو سونگھا۔ میں ہوا کو سونگھ کر آنے والے موسم کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ جانوروں کی اس جبلت پر مجھے رشک آتا ہے۔ اس وجہ سے زمین پر ان کا قیام زیادہ مستحکم معلوم ہوتا ہے۔ ہوا میں نومبر کی نرم خنکی گھلی ہوئی تھی، کراچی کا نومبر جب دوپہر کی دھوپ میں پھیکی پھیکی تپش ہوتی ہے اور رات میں ٹھنڈک، ہوا چلتی ہے تو موہوم خواہشیں جاگنے لگتی ہیں۔ سڑک کے کنارے ایک پیڑ تھا جس میں کوئی پتہ نہیں تھا۔

    راستے کے ایک موڑ پر گاڑی اچھلی تو شیشہ اوپر کرنے کے ہینڈل سے میری کہنی ٹکرا گئی۔ کہنی میں ٹیس اٹھی تو مجھے یاد آیا کہ کہنی کی چوٹ بیوی کی موت کا محاورہ بھی ہے۔ کیا میرے لاشعور میں کہیں یہ سانحہ بھی چھپا ہوا ہے؟ ایک نئی خلش نے مجھے پکڑ لیا۔ کہیں اس کے ساتھ میرا سلوک ناروا تو نہیں تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی ذاتی اور شخصی حیثیت کو میں نظرانداز کر رہا ہوں اور صرف اس بات کا لحاظ کر رہا ہوں کہ وہ میرے بچے کی ماں ہے۔ بچے کے ساتھ تو مجھے وابستگی کا شدید احساس تھا۔ مگر بچہ بھی تو اسی سے زیادہ مانوس ہے۔ گھر میں اس کی جو حیثیت ہے، کہیں اس کی وجہ سے تو میں اندر ہی اندر کبیدہ خاطر نہیں ہو رہا؟ ایک چھت کے نیچے رہتے رہتے ہم اجنبی تو نہیں بنتے جا رہے؟ ہم ایک دوسرے کے لیے مناسب بھی تھے؟ وہ مضبوط ہے، میں کمزور۔ میں الجھا ہوا اور پریشان حال ہوں، سوچتا رہتا ہوں اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں۔

    اس کو ضرورت نہیں ہے اس قسم کی لاحاصل دروں بینی کی۔ وہ بہت عملی اور واقعیت پسند ہے۔ اسے واضح طور پر معلوم ہے کہ زندگی کی روزمرہ مشکلات سے کس طرح نبٹا جائے۔ اسے جینے کا ڈھنگ آتا ہے۔ ایک میں ہوں کہ مجھ سے جو توقعات اور مطالبے ہیں انہیں پورا کرنا تو کیا، قبول بھی نہیں کر سکتا۔ شاید میں جذباتی طور پر اس کا محتاج ہو گیا ہوں، شاید وہ اپنے دل میں مجھے قابل نفرت سمجھتی ہے اور ظاہری طور پر میری باتیں مان کر مجھے بہلا رہی ہو، جیسے اچانک سمندر کے پاس جانے کی یہ خواہش۔ میں نے گاڑی روک دی۔ سامنے چنگی ناکہ تھا۔ ہاکس بے تک جانے کے لیے یہاں ٹیکس دینا پڑتا تھا۔

    آگے دوہری سڑک کی درمیانی پٹی میں ناریل کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ہر پیڑ کے گرد لکڑی کا حفاظتی کٹہرہ تھا جس میں یہ پیڑ ملزموں کی طرح کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پیڑ اپنی قدرتی بلند قامتی حاصل نہیں کر سکا تھا۔ ان کا رنگ پھیکا تھا۔ ان کے پتے پژمردہ تھے۔ یہ پنپ کیوں نہیں سکے؟ سڑک کے دائیں بائیں خالی میدان تھا، جہاں تک نظر جائے خالی ہی خالی اور دور سے آتی ہوئی سمندر کی آواز۔ جنوب کے رخ، افق پر نظر آنے والے سرمئی سائے، عمارتیں اور جہاز تھے۔ کیماڑی، میں نے ان سایوں کو ایک نام دیا۔ اس سے پہلے خالی زمین اور زمین کے سرے پر دھوپ میں چمکتی، لہراتی ہوئی لکیر۔ یہ سمندر تھا۔

    راستے میں مچھیروں کی ایک آدھ کچی بستی آئی تو میں وہاں رکے بغیر چلتا رہا۔ ایک بستی کے کنارے خالی میدان میں مچھلیاں پکڑنے کا جال سوکھ رہا تھا۔ اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سمندر۔۔۔ اچانک سمندر۔ مگر نہیں، پوری طرح نہیں۔ اس لیے کہ سمندر کے اتنے حصے کو چاروں طرف سے زمین نے گھیرا ہوا تھا۔ وہ زمین بند تھا۔ اس کے کناروں پر نمک کی ڈھیریاں رکھی ہوئی تھیں۔ پانی میں سے نمک نکال لیا گیا تھا اور وہ بند پانی سڑ رہا تھا۔ ایک اکیلی چڑیا پر مارے بغیر اڑ رہی تھی۔ میرا دل اداسی سے بھر گیا۔

    سامنے سمندر یوں چمک رہا تھا جیسے صیقل کی ہوئی تلوار۔ وہ اس درندے ی طرح غرا رہا تھا جو زنجیروں سے بندھا ہوا نہ ہوتا تو بستی پر چڑھ آتا۔ سمندر پر پہلی نظر پڑتے ہی مجھے پہلا لمس یاد آ گیا۔ اس کا پہلا لمس۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، نرم نرم ہاتھوں کی گلابی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ وہ چند لمحے پہلے ہی اس دنیا میں آیا تھا، چھوٹا سا، بے بس اور معصوم، باریک آواز میں روتا ہوا۔ میں نے اسے گود لیا تو میرا دل فخر و انبساط سے بھر گیا تھا۔ میں اپنے آپ کو وشال اور مہان سمجھنے لگا کہ یہ چھوٹا سا انسان، اس میں رواں زندگی میرا کارنامہ ہے۔ مگر پھر میں نے اپنے آپ کو بہت چھوٹا محسوس کیا، اس قوت کے سامنے جس نے مجھ سے اس کو اخذ کیا تھا اور زندگی کے اس عمل میں میرے جسم و ذات کو محض ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا تھا۔

    میں اکثر اس کے بارے میں سوچتا تھا۔ کیسی ہوگی اس کی زندگی؟ میں اس کے لیے جو محبت محسوس کرتا تھا اس میں خوف کی اس درجے آمیزش کیوں تھی۔ مجھے اعتبار کس کا نہیں تھا، اپنا، اس کا یا وقت کا؟ مجھے خیال آیا کہ مجھے اس کو یہاں بھی ساتھ لے کر آنا چاہیے تھا۔ لیکن شاید وہ یہاں آکر پریشان ہوتا۔ اسے گھر پر چھوڑ کر کیا میں نے خود غرضی کا ثبوت دیا ہے؟

    میں اسے کلفٹن کے ماہی خانے میں بھی کئی مرتبہ لے کر گیا تھا۔ اسی پدرانہ فریضے کے جذبے کے تحت۔ میں چاہتا تھا کہ اسے سمندر اور سمندر کی زندگی کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ مگر مجھے اس جگہ شدید کوفت محسوس ہوتی تھی۔ یہ کوفت حال ہی میں پیدا ہوئی تھی۔ حالاں کہ کلفٹن کا ماہی خانہ اس شہر میں میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا، جہاں میں زمانہ طالب علمی سے جاتا رہا ہوں۔ وہاں کی جن دو چیزوں سے مجھے خاص طور پر کوفت ہوتی تھی، ان میں سے ایک تو پانی کا وہ بڑا سا ٹینک تھا جس میں شارک مچھلی کو رکھا گیا تھا۔ میں یہ دیکھ کر اندر ہی اندر کھول اٹھتا تھا کہ شارک کی ساری خون آشامی اور درندگی اس طرح پانی کے اس ٹینک میں موجود ہیں جیسے وہ بالکل بےضرر اور نمائشی ہوں۔ ڈولفن کی طرح جو بہت جلد سدھ جاتی ہے اور تماشائیوں کے سامنے گیند سے کھیلتی ہے۔

    دوسری چیز جو مجھے بہت بری لگتی تھی، وہ تھے سمندری گھوڑے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں مجھے بہت پسند تھی یہ چھوٹی سی مچھلی جس کا منہ گھوڑے جیسا ہوتا ہے، بلکہ جب اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ کلفٹن کے ماہی خانے کے لیے سمندری گھوڑے حاصل کر لیے گئے ہیں اور کراچی کے لوگ پہلی مرتبہ اس حیرت انگیز سمندری مخلوق کو دیکھ سکیں گے، تو میں اسی دن خاص طور پر انہیں دیکھنے گیا تھا۔ مجھےوہ بالکل شطرنج کے گھوڑے معلوم ہوئے تھے جو گن کر ڈھائی گھر چلتے ہیں، دو آگے اور ایک ترچھا۔ پھر میں نے اس کے بارے میں ایک باتصویر کتاب میں پڑھا کہ اس مچھلی کا نر انڈے سیتا ہے اور اپنے سینے کی جھلی میں بچوں کو پالتا ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے دھچکا سا لگا جیسے اپنے کسی دوست کا اوچھا پن مجھ پر ظاہر ہو گیا ہو۔ اس کے بعد جب میں بچے کی انگلی پکڑے، شیشے کے اس ٹینک کے سامنے رکا جس میں سمندری گھوڑے رکھے ہوئے تھے تو مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جیسے وہ میری کم زور اور مجہول انفعالیت کی نقل اتار رہے ہوں۔ اس دن کے بعد سے میں نے ماہی خانے جانا چھوڑ دیا۔

    اگر اسے معلوم ہوتا کہ میں یہاں آ رہا ہوں تو وہ ساتھ چلنے کی ضد کرتا۔ میں کہیں بھی جاؤں، وہ ساتھ چلنے کی ضد کرتا ہے۔ پھر مجھے تکلیف دہ تفصیل کے ساتھ یاد آیا کہ گھر سے نکلتے وقت میں نے دروازہ کس طرح بند کیا تھا۔ سمندر تک پہنچنے کی بےقراری میں، مجھے دھیان ہی نہیں رہا کہ وہ خدا حافظ کہنے کے لیے دروازے میں کھڑا ہوا ہے۔ وہ آکر میری ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر اندر کیا تو اس نے اپنا سیدھا ہاتھ دروازے کی چوکھٹ پر ٹکایا ہوا تھا۔ میں دروازہ بند کرنے لگا۔ وہاں اس کا ہاتھ تھا۔ دروازہ اس کے ہاتھ پر بند ہوا۔ وہ رویا بالکل نہیں۔ اس نے زور سے سسکی بھری۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ بند ہوتے ہوئے دروازے نے اس کی انگلیاں بھینچ رکھی تھیں۔ میں نے فوراً دروازہ کھول کر اس کی انگلیوں کو چھڑایا، مگر مجھے معلوم تھا کہ اس کو میں نے اذیت پہنچائی ہے، میں اس کا مجرم ہوں۔ اس کی انگلیاں خون سے نچڑی ہوئی لگ رہی تھیں اور حرکت نہیں کر رہی تھیں۔ میں نے ہلکے سے پھونک ماری۔ خون کا دوران اور انگلیوں کا رنگ درد کی سرخ لہر بن کر واپس آنے لگا۔ اگر اس کی انگلی کٹ جاتی تو؟

    ساحل کی ریت پر بیٹھا ہوا میں لکیریں بنا رہا تھا اور یہ سب سوچ رہا تھا۔ ان چٹانوں پر بیٹھ کر میں انتظار کروں گا، کچھووں کے آنے کا انتظار۔ یہاں کی ریت بھربھری تھی، گیلی اور ٹھنڈی۔ چٹانوں کو تراش کر کسی نے سیڑھیاں بنادی تھیں۔ جو چٹان پر بنے ہوئے بنگلے تک جاتی تھیں۔ پتھر کی ان سیڑھیوں پر پڑی ہوئی ریت ہوا سے سرسرا رہی تھی۔ بنگلے چٹانوں کی اوپری سطح پر بنے ہوئے تھے۔ سمندر نیچے تھا۔ میں اوپر نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہاں ریت خشک تھی، کیوں کہ اسے گیلا کرنے کے لیے سمندر صرف رات گئے، چڑھے چاند کی تاریخوں میں آتا تھا، خفیہ عشق کرنے والے مرد کی طرح۔ میں جس چٹان پر بیٹھا ہوا تھا، اس کو سمندر ہر بار چھوتا تھا۔ موجوں کی سیڑھیاں چڑھتا اترتا آتا اور بکھر جاتا، لمبی زبان کی طرح چٹان کو چاٹتا، میرے پیر چھوتا اور لوٹ جاتا۔

    سمندر کے سامنے بیٹھے بیٹھے مجھے ایسا لگا کہ یہ لمحہ میری اب تک کی بیتی ہوئی زندگی کا حاصل ہے۔ اس آن میں چیزوں کو نئے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ جیسے ہر بات اور ہر واقعے کا حاصل چند چیزیں ہی ہیں۔ گیلی ریت پر پیر ٹکائے ہوئے، میری نظریں سمندر کی چھوئی ہوئی اس چٹان پر جمی تھیں جس کے ایک رخ پر سیپی چپکی ہوئی تھی۔ ادھر ادھر وہ تمام چیزیں بکھری ہوئی پڑتی تھیں جنہیں سمندر اپنے ساتھ بہا کر لاتا ہے اور پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اس لمحے مجھے معلوم ہوا کہ چیزیں اتنی اہم کیوں ہیں۔ پتھر کی وہ چٹان، چٹانوں میں گھرا ہوا سمندر کا پانی، سیپیاں، سمندر کے پودے، مچھلی کی ہڈی، یہ سب بے حد حقیقی تھے۔ ایک ایسی حقیقت کے حامل جومجھ سے آزاد اور بےگانہ تھی، یہ ایک مکمل اقلیم تھیں، ایک لامتناہی سلسلہ، صورتیں، ہیئتیں، ساخت، نقشے، تار و پود۔ یہ پوری کائنات تھی۔

    مجھے ایسا محسوس ہوا۔۔۔ شاید میں اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں سکتا۔ کیوں کہ میرے پاس اسے بتانے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔۔۔ کہ میں ہر چیز کو، ہر چیز کی اصل کو بہت گہرائی اور بہت شدت کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ پہلی بار میرا ان سے رابطہ ہوا ہے، میں سمجھ رہا ہوں، محسوس کر رہا ہوں۔

    اس وقت پورا ساحل خالی پڑا تھا۔ یہ وہ وقت نہیں تھا جب شہر کے لوگ سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ سمندر کا شاندار نظارہ صرف میرے لیے تھا، مجھ اکیلے کے لیے۔ دنیا ایسی ہی ہوگی جس وقت انسان نہیں آیا تھا۔ یا اس کے بعد ہو جائےگا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے کہیں لکھا ہوا دیکھا تھا کہ انسان مٹ جائے گا، جیسے ریت پر بنا ہوا چہرہ، سمندر کے کنارے۔ کیا آخر میں یہی ہوگا؟ مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا۔

    ساحل سنسان پڑا ہوا تھا۔ آسمان میں کوئی پرندہ نہیں تھا۔ موجوں کے بننے اور بکھرنے کی آواز آرہی تھی۔ مگر اس پورے منظر میں کوئی بات کھٹک رہی تھی۔ ہاں، کچھ گڑبڑ تھی۔ مگر کیا؟ کوئی چیز تھی جو ایسی نامعلوم، غضب ناک اور تباہ کن تھی، جو انسان کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔ سمندری ہوا میں خطرے کی بو تھی۔ دھوپ میں چمکتے سمندر، چٹانوں میں گم ہوتے ہوئے ساحل، ساحل سے ٹکرانے والے سفید سفید سمندر جھاگ اور جھاگ سے اڑنے والی پھوار سب اس خطرے کے احساس کے حامل تھے۔

    مجھے پھر وہ یاد آیا۔ خطرے کی بو سونگھ کر لوگ اپنے بچوں کے ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ اس وقت وہ میرے جوتے پہن کر چل رہا ہوگا۔ جب بھی وہ میرے جوتے پہن کر چلتا، مجھے برا لگتا تھا۔ کہیں اسے میری جیسی زندگی نہ گزارنی پڑے۔ آگے چل کر اس کا کیا ہوگا؟ اس بات سے زیادہ کہ وہ بڑا آدمی بنے، میری یہ خواہش تھی کہ وہ اس عہد کے گم نام کشتگان میں ایک اور چہرہ نہ بن جائے۔ میرے دل میں اس کے لیے محبت امنڈنے لگی۔ میں نےاس کے ہونٹوں کو چوما۔ میں نے اس کے ماتھے کو چوما۔ وہیں سمندر کے کنارے بیٹھے بیٹھے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھوا۔

    ابھی کل کی ہی تو بات ہے۔ وہ تصویروں کا البم لے کر بیٹھا ہوا تھا۔ میرے گزشتہ دنوں کے ورق یوں پلٹ رہا تھا جیسے وہ ان دنوں کا حساب لے رہا ہو۔ اس نے ایک تصویر پر انگلی رکھ دی۔ تصویر میں ایک لڑکا اپنے ابو کی انگلی تھامے ہوا کھڑا تھا۔ اس نے لڑکے کے چہرے کی طرف اشارہ کیا، ’’یہ ابو ہیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ میں بہت حیران ہوا۔ حیرت اس بات پر نہیں تھی کہ اس نے مجھے پہچان لیا، حیرت اس بات پر تھی کہ تصویر کھنچواتے وقت میں اس امکان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آنے والے دنوں میں کوئی مجھے اس تصویر میں پہچانےگا، کوئی ایسا وجود جس کا مجھ سے وہی رشتہ ہوگا جو اس تصویر میں کھڑے ہوئے دوسرے آدمی سے میرا تھا۔

    ’’ابو کیا آپ کے بھی ابو تھے؟‘‘ اس کے سوال نے مجھے غلیل میں رکھے ہوئے کنکر کی طرح بہت دور اچھال دیا۔ ماضی میں پہنچ کر اب میں ٹھیک اسی جگہ کھڑا ہوا تھا جہاں وہ لمحہ حال میں موجود ہے۔ مجھے لگا کہ اس کے اور میرے گراف ایک دوسرے کے آمنے سامنے چل رہے ہیں۔ جوں جوں اس کا گراف اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے، میں گھٹتا جا رہا ہوں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا حریف ہے۔ مجھے وہ شخص یاد آیا جو اس تصویر میں میرے ساتھ کھڑا تھا۔ میرے ابا۔ میرے بچے کے باپ کے باپ۔

    میں ساحل کی ریت پر بیٹھا سمندر میں چھوٹے چھوٹے کنکر اچھال رہا تھا۔ آتے جاتے جزر و مد کے ساتھ ان کچھووں کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی تک آئے نہیں تھے، نہ اندھیرے سے پہلے آئیں گے اور اپنے ابا کو یاد کر رہا تھا۔ کتنا اہم کردار تھے وہ میری زندگی میں، ایک ایسا مستحکم حوالہ جس سے خود میرا اپنا وجود متعین ہوتا تھا اور اب وہ محض ایک گزری ہوئی یاد بن کر رہ گئے تھے کہ کبھی کبھی یہ بھی خواب لگتا تھا کہ ایک آدمی میرا باپ تھا۔ میرے شعور اور یادوں کا آغاز بھی اس نقطے سے ہوتا تھا جب مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ میں ان سے الگ ایک ہستی رکھتا ہوں۔

    یہ ابا ہی تھے جن کے دیے ہوئے نام پر میں نے اپنی زندگی بسر کی، جن کے بنوائے ہوئے مکان میں، جن کی منتخب کی ہوئی لڑکی کے ساتھ، جن کی پسند کے پیشے میں، میں نے اپنی زندگی گزاری۔ کبھی میرے اندر ان کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑک اٹھتی۔ میں جان بوجھ کر ان سے گستاخی کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں میں ان سے اتنی شدید محبت بھی کرتا تھا کہ جتنی وہ خود اپنے آپ سے نہ کر سکے (کہ انہیں زندگی اپنی ناکامیوں کے ساتھ گزارنی تھی۔) میں ان سے یوں مانوس تھا جیسے کوئی اپنے آپ سے مانوس ہو جاتا ہے۔

    جب میں چھوٹا تھا تو وہ میرے بال کٹوانے کے لیے نائی کی دکان پر لے جایا کرتے تھے۔ نائی کی دکان کو دور سے دیکھ کر میں ہاتھ چھڑانا چاہتا اور وہ ہاتھ پکڑ لیتے۔ گھومنے والی کرسی پر بٹھا کر نائی مجھے سفید چادر اوڑھاتا (کیا میں مر گیا ہوں؟) اور میں روتا جاتا تو وہ بہلاتے اور نائی سے کہتے تھے، ’’استرا ہلکے ہاتھوں سے لگانا، کھال پر کھرینچ نہ پڑے۔‘‘ آنسو بھری آنکھوں سے دیکھا ہوا وہ دھندلا منظر اب بھی یاد ہے کہ میری قمیص کا دامن کٹے ہوئے بالوں سے بھرا ہوا ہے، نائی پف سے میری گدی پر پاؤڈر لگا رہا ہے اور آئینے کے اندر بیٹھے ہوئے وہ اخبار پڑھ رہے ہیں، سگریٹ پی رہے ہیں۔ (نہیں، میں زندہ ہوں ابھی!)

    اس سے بھی پہلے، چلنے میں مشکل ہوتی تھی تو میں بیٹھ کر گھسٹتا تھا اور چمکنے والی، گھومنے والی چیزوں کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا تھا۔ ابا نے مجھے چابی سے چلنے والا لٹولا کر دیا تھا۔ وہی لٹو ایک دفعہ میں نے ان پر کھینچ کر پھینکا تھا۔ اس سے ان کی عقل داڑھ کے برابر کا دانت ہل گیا تھا۔ بہت برسوں کے بعد وہ مجھے یہ چوٹ ایک قصے کی طرح سنایا کرتے تھے۔ اس کے بعد پھر ان کے دانت ایک ایک کر کے ٹوٹنے، ان سے رخصت ہونے لگے، جیسے اس عمارت کے کرائے دار جو اب رہنے کے قابل نہ رہی ہو۔

    اس وقت مجھے اپنے بچپن کے ابا نہیں بلکہ ماضی قریب کے باپ کے باپ یاد آ رہے تھے۔ اس وقت تک وہ میرے لیے ایک اور آدمی بن چکے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ وہ چاول ہاتھ سے کھاتے تھے، چمچے سے نہیں۔ پہلے مجھے اس پر حیرت ہوتی تھی، کیوں کہ مجھ سے ہاتھوں سے نوالہ نہیں بنایا جاتا، چاول گر جاتے ہیں۔ بعد میں ان کی یہ عادت مجھے بری لگنے لگی۔ اس وقت تک وہ میرے لیے دیوقامت آدرش کی جگہ محض ایک اور شخص بن گئے تھے، ایسا شخص جس کے رویوں پر مجھے اعتراض بھی ہوتا تھا۔ مجھے یہ عجیب سا لگتا تھا کہ وہ چائے پیتے ہیں تو چسکی لینے کی آواز آتی ہے، باتیں کرنے میں ہاتھ بہت چلاتے ہیں، بات کہہ کر بھول جاتے ہیں اور اونچا سننے لگے ہیں۔ اور اس خیال سے کہ دوسرا ان کی بات نہیں سن سکتا خود بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ ان کی اور عادت یہ تھی کہ کسی سے بات کر رہے ہیں تو بجائے اس کی طرف دیکھنےکے چہرہ دوسری طرف ہے۔ مجھے ڈر لگتا تھا کہ وہ اس قدیم روایت کی طرح ہیں، جس کے دوچہرے ہیں، ایک ماضی کی طرف اور ایک آئندہ کی طرف۔

    بعض باتوں میں وہ دوبارہ سے بچہ بن گئے تھے۔ مٹھائی ان کے لیے بالکل منع تھی، مگر وہ چھپ چھپ کر مٹھائی کھاتے تھے۔ میٹھی چیزیں ان سے چھپانی پڑتی تھیں۔ رات کو شکر دان تالے میں رکھا جاتا تھا۔ ان پر اس طرح کی پابندیاں لگاتے ہوئے خود ہی مجھے شرمندگی ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے جسم کے خلیے اس شکر کے بھوکے ہیں جو پہلے ہی ان کے خون میں فاضل مقدار میں موجود ہے مگر ان تک پہنچ نہیں سکتی۔ سست روی ان کے ہر کام میں کتنی آ گئی تھی۔ معمولی سے معمولی کام میں بھی ان کو گھنٹوں لگ جاتے۔ باتیں وہ مستقل بیتے دنوں اور پرانی جگہوں کی کیا کرتے تھے۔ وہ بار بار وہی باتیں دہرائے جاتے جنہیں سن کر ہم اکتا چکے تھے مگر احترام کی وجہ سے سنتے تھے۔ ابا ایک اور ملک میں، ایک اور زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔

    ان کی بعض عادتوں پر اس وقت جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ ممکن ہے اب ان ہی باتوں کے بارے میں زیادہ تحمل کا رویہ رکھتا۔ مگر اب انہیں میری برداشت کی ضرورت نہیں تھی۔ وہی باتیں، جن پر مجھے اس وقت اعتراض ہوتا تھا، ان میں سے بعض کو میں اپنے اندر پانے لگا تھا۔ کبھی کبھی میں چونک پڑتا اور اپنے آپ کو بالکل اسی طرح بات کرتے ہوئے یا سوچتے ہوئے پاتا جس طرح وہ کیا کرتے تھے۔ بہت دنوں بعد، میں نے ان کا پرانا بکس کھول کر دیکھا تھا کہ اس میں کیڑا لگ رہا ہے۔ اس میں ان کے پرانے گرم پتلون اور کوٹ رکھے ہوئے تھے، انہیں میں نے نکال کر پہننا شروع کر دیا تھا۔ ان میں کاٹ چھانٹ کی ضرورت بھی نہیں پڑی تھی۔ مشابہت مکمل تھی۔

    آخری عمر میں ذیابیطس اور فشار خون نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔ پہلے انہیں جو دوا ملتی تھی اس سے پیشاب بہت آتا تھا، بعد میں ان کا پیشاب بند ہو گیا تھا۔ اسپتال سے ضد کر کے وہ گھر واپس آ گئے تھے۔ ڈاکٹروں نے پیشاب کے لیے نلکی ڈال رکھی تھی۔ نلکی چوبیس گھنٹے پڑی رہتی تھی۔ نلکی کے لیے انہوں نے پاجامے میں سامنے سوراخ کر کے گنجائش بنالی تھی اور نلکی کےساتھ لگی ہوئی تھیلی کو ہاتھوں میں اٹھائے اٹھائے وہ سارے گھر میں پھرتے تھے۔ وہ بیک وقت مضحکہ خیز اور الم ناک معلوم ہوتے تھے۔ اس تھیلی میں ان کا پیشاب پڑا ہوا نظر آتا تھا۔ جب وہ چلتے تھے تو تھیلی کے اندر ان کا پیشاب ہلتا تھا۔

    ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق میں نے ان کا پیشاب ٹیسٹ کرنا بھی سیکھا تھا۔ پیشاب کو آگ پر رکھ کر اور ایک کیمیائی محلول کو، جس کا نام مجھے اب بھول گیا، ملانےکے بعد یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ اس کا رنگ نیلا یا سبز ہی رہے۔ پیشاب کے رنگ کے حساب سے ہی انہیں انسولین کا ٹیکا لگتا تھا۔ یہ ٹیکا بھی میں ہی لگاتا تھا۔ دونوں بازو ٹیکے کے نشانوں سے بھر گئے تھے۔ وہ مجھے اپنا پیشاب دیتے ہوئے جھینپتے تھے۔ پیشاب لیتے ہوئے شروع میں، میں بھی ہچکچاتا تھا۔ مجھے گھن آتی تھی۔ گھن سے زیادہ کوئی اور کیفیت، جس کا نام میں نہیں جانتا۔ اس وجہ سے کہ یہ ان کا پیشاب تھا۔ مجھے ان کے دفتر کا پرانا چپراسی یاد آگیا تھا، جو ہمارے گھر میں اوپر کا کام بھی کبھی کبھار کرتا تھا اور بات بات پر قسم کھاتا تھا کہ جو فلاں کام نہ کیا تو اپنے باپ کے پیشاب سے نہیں۔ اس وقت بھی یہ جملہ بے ہودہ معلوم ہوتا تھا۔ شاید میں جس چیز سے اب گھبراتا تھا، وہ اسی جملے کی بازگشت تھی۔

    کیا مجھے اس بات پر گھن آتی تھی کہ ان کا جسم بھی تھا، جس کے اپنے حیاتیاتی تقاضے تھے اور اسی جسم سے میرا رشتہ تھا؟ ہم لوگ جسم کی حقیقت سےاتنا ڈرتے کیوں ہیں؟ اس کو ہمیشہ غلیظ کیوں سمجھتے ہیں؟

    اسپتال کی وہ شام بھی مجھے یاد تھی جب انہیں نیم بے ہوشی کے عالم میں دوبارہ داخل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بستر کا سرہانہ نیچے اور پاؤں اوپر کردیے تھے۔ منہ میں ایک گول سی ٹیوب رکھ دی گئی کہ زبان دانتوں میں بھنچ نہ جائے۔ ان کے بستر کے پاس لکڑی کے بینچ پر میں نے پوری رات آنکھوں ہی آنکھوں میں گزاری تھی۔ شام کو ان کا سانس اتنی تیزی سے چل رہا تھا کہ ایک سانس سینے میں سمانے بھی نہ پاتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا، اب اتنا دھیما ہو گیا تھا کہ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ صبح ہونے والی تھی کہ میں نے دیکھا ان کے بازو میں چڑھائی جانے والی گلوکوز کی ڈرپ بوند بوند گرنا بند ہو چکی ہے۔ میں ڈاکٹر کو بلا کر لایا۔ ڈاکٹر نےان کی آنکھوں میں روئی کی بتی پھراکر دیکھی۔ ان کی پلکیں نہیں جھپکیں۔ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر آنکھیں بند کر دیں۔ ان کا سینہ لکڑی کے تختے کی طرح سپاٹ تھا۔ چہرے کی جلد، جس پر تل چٹے بال اگے ہوئے تھے، پھیکی اور زرد ہو چکی تھی۔ منہ کھلا ہوا تھا۔ زبان پر لیس دار مادہ جمع تھا۔

    ڈاکٹروں نے ان کے دونوں پیروں کے انگوٹھے باندھ دیے۔ ایک پٹی جبڑے کے نیچے باندھ دی گئی۔ ان کی ناک سے آکسیجن کی نلکی بھی نکال دی گئی۔ آکسیجن کے سلنڈر کے ساتھ ایک بوتل لٹکی ہوئی تھی۔ اس میں سے بلبلے پھوٹ رہے تھے۔ بستر کے ساتھ لٹکی ہوئی تھیلی میں پیشاب بھرا ہوا تھا۔ نلکی کا ایک حصہ اس غبارے کی طرح تھا جس میں ہوا نہ بھری گئی ہو۔ ڈاکٹر نے اس میں سرنج گھونپ دی۔ سرنج پانی سے بھر گئی اور نلکی ان کے لنگ سے پھسلتی ہوئی باہر آنے لگی۔ ایک طرف کو ڈھلکا ہوا لنگ مردہ چڑیا معلوم ہو رہا تھا۔ اس پر اکھڑے ہوئے پلاسٹر کا نشان بھی تھا۔ نلکی باہر آگئی تو لنگ کا سوراخ، جو پھیل گیا تھا، مردہ چڑیا کی کھلی ہوئی چونچ معلوم ہو رہا تھا۔ مجھ سے یہ دیکھا نہیں گیا۔ میں نے ان پر چادر ڈال دی۔ تب یک لخت میرے اندر آنسوؤں کے سمندر نے یورش کی۔

    اس کے بعد سے ایک اور ہی سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لاش۔۔۔ ہاں وہ جو میری پیدائش کا ذمہ دار تھا محض ایک جسم بن کر رہ گیا تھا، بے جان جسم جس سے گھن آ رہی تھی۔۔۔ لاش کے اسپتال سے لے جائے جانے، لوگوں کو اطلاع دینے، قبرستان میں جگہ حاصل کرنے، قبر کھدوانے اور جنازے کا بندوبست کرنے کے انتظامات، میں میکانکی طور پر یہ سارے کام کرتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ یہ سب کچھ ایک غم انگیز سانحے اور ذاتی صدمے کے بجائے کسی تقریب کا سا موقع بنتا جا رہا ہے جس کے لیے بھاگ دوڑ اور اہتمام کرنا پڑ رہا ہے۔ باقی کی تفصیل میں بھول چکا ہوں، یہ ضرور یاد ہے کہ جنازے کو کندھا میں نے دیا تھا، لاش کو قبر میں اتارنے کے بعد جب مٹی ڈالی جا رہی تھی تو میں نے بھی دو مٹھیوں میں مٹی بھر کے پھینکی تھی اور اس کے بعد دیر تک پلکیں جھپکتا رہا تھا جیسے وہ دو مٹھی مٹی میری آنکھوں میں کھٹک رہی ہو۔

    ہاں مجھے وہ میت گاڑی بھی یاد ہے جس میں جنازہ گھر سے قبرستان لے جایا گیا تھا۔ جس وقت یہ مسئلہ اٹھا تھا کہ جنازہ کیسے جائےگا، اس وقت کسی کو، یہ یاد نہیں کسے، خیال آیا تھا کہ ایک تنظیم ہے جو میت گاڑیاں کرائے پردیتی ہے۔ اس کے دفتر ٹیلی فون کر کے یہ گاڑی منگوائی گئی تھی۔ یہ دراصل ایک بس تھی جس میں چند مسافروں کی سیٹوں کے علاوہ جنازہ رکھنے کی جگہ تھی۔ باہر کے رخ پر اس نیم مذہبی نیم سیاسی جماعت کا نام سبز اور نیلے حروف سے لکھا ہوا تھا جس کی یہ گاڑی تھی۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگنے کے بعد اس تنظیم کی بس یہی سرگرمی رہ گئی تھی کہ وہ جنازوں کے لیے لوگوں کو میت گاڑیاں فراہم کرے۔ اس کا نام بھی صرف ان ہی میت گاڑیوں پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے شہر میں ایسی کئی گاڑیاں چلتی ہوئی دیکھی ہیں مگر ان میں سےکسی میں بیٹھنے کا اتفاق اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔

    ایک اور آخری یاد۔ جب ان کا چہرہ آخری دفعہ دکھایا جا رہا تھا تو کھال کا رنگ سبزی مائل ہو گیا تھا۔ اس وقت انہیں دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ اس میں اس شخص سے مشابہت بہت کم ہے جسے میں جانتا تھا بلکہ اس کیفیت کا کوئی نام ہے، کوئی مثال ہے جو اس وقت میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ اتنے برسوں کے بعد وہ شکل اور وہ کیفیت مجھے یاد آئی، سبزی مائل مردنی کی گم نام یاد۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ جو نام اس وقت یاد آتے آتے رہ گیا تھا، وہ کچھوا تھا، کچھوا۔ انہیں دیکھ کر مجھے کچھوا یاد آ رہا تھا، کچھوا جس کا خول ٹوٹ چکا ہو، جو اب اپنی گردن سکیڑ کر دیکھنے والی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔

    ایک دفعہ ایسا کچھوا میں نے ساحل کی ریت پر پڑا ہوا بھی دیکھا تھا۔ اس کا صرف خول رہ گیا تھا، کچھوا مر چکا تھا۔ نہیں، مرا نہیں تھا بلکہ اس نے سر اور بازو اندر سمیٹ لیے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مردہ ظاہر کر رہا تھا۔ اس کا صرف خول ہی خول نظر آرہا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے یاد آیا تھا کہ کسی نے اس کے بارے میں کوئی بات کہی تھی۔ کب اور کس نے، یہ تو یاد نہ رہا، وہ بات یاد رہ گئی۔ ٹانگیں اور سر سمیٹے ہوئے کچھوے کو دیکھ کر کہا گیا تھا کہ یہ سارے کا سارا درمیان ہے۔ کہنے والے نے اس کو کسی چیز سے تشبیہ بھی دی تھی۔ کاہے سے، یہ میں بھول چکا تھا۔ زندگی سے دی ہوگی۔ اس کے بھی تو دونوں سرے غائب ہیں، محض درمیان ہی درمیان ہے اور پھر ایسی گمبھیر باتیں عموماً زندگی کے بارے میں ہی کہی جاتی ہیں۔

    رات ہو چکی تھی اور مجھے خیال ہی نہیں رہا تھا۔ میں یہ ساری باتیں سوچنے میں لگا رہا اور کچھوے کو سمندر سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھ سکا۔ میرے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ میں کسی بات کے ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، تو اس کے بارے میں اتنا سوچتا ہوں، تیاری اتنی کرتا ہوں کہ اسے ہوتے ہوئے دیکھنا ہی رہ جاتا ہے۔ میں نے جب دیکھا تو کچھوا سمندر سے نکل آیا تھا۔ سمندر اور آسمان مل کر ایک ہو گئے تھے۔ اندھیرے میں موجوں کا پانی چمک رہا تھا۔ سیاہ موجوں کی سطح پر جھاگ اٹھ رہا تھا۔ آج موجیں کچھ زیادہ ہی بےقرار تھیں۔ پورا چاند تھا۔ سناٹے میں موجوں کے ساحل سےٹکرانے کی آواز گونج رہی تھی۔ چاندنی نے سمندر پر نور کا ایک راستہ بچھا دیا تھا۔ کیا وہ اس راستے پر چلتا ہوا آیا تھا، یا اس جھاگ سے اٹھا تھا؟ یہ مجھے نہیں معلوم۔

    میں نے تو جب دیکھا تھا تو ساحل پر ایک سایہ گھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ اسی طرف آ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کا بے ڈول، بھاری جسم ریت پر بڑی مشکل سے گھسٹ رہا تھا۔ اب وہ رک گیا۔ وہ گردن اٹھا کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اسےمیری موجودگی ناگوار گزر رہی ہوگی۔ مجھ سے بدکنے کے بجائے وہ اس طرح کھڑا تھا جیسے میں اس کے راستے کی رکاوٹ ہوں، میں ہٹ جاؤں تو وہ ریت میں اپنا گھونسلا بنائے۔ میں چٹان کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے، کچھوے کی مادہ ساحل پر آگے بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ وہ پانی کے نشان سے بہت اوپر آ گئی اور ریت میں اپنے لیے جگہ ڈھونڈنے لگی۔ اب وہ اپنے بازوؤں سے زمین کھود رہی تھی۔ اس کے مضبوط، پنکھ نما بازو، جن سے وہ موجوں کا ورق پلٹتی تھی، ریت ہٹا رہے تھے۔

    سامنے والے بازوؤں سے اس نے ریت میں ایک گڑھا سا پیدا کر لیا تھا، جس میں اس کا بدن دھنستا جا رہا تھا۔ وہ اس گڑھے میں اتر گئی تھی اور اس کا خول ساحل کی زمین کی سطح پر آ گیا تھا۔ اس کی موجودگی کا پتہ صرف اس طرح چل رہا تھا کہ اس کے بازوؤں کی مسلسل حرکت سے ریت ہل رہی تھی۔ اس کو دیکھنے کے لیے میں اور قریب آ گیا۔ اب وہ اپنے پچھلے بازوؤں سے مٹی ہٹا رہی تھی۔ اوپر کی خشک ریت کی جگہ اندر سے پانی میں بھیگی ہوئی اور جمی ہوئی مٹی نکل رہی تھی۔ ذرا سے فاصلے پر موجیں مچل رہی تھیں۔ چاندنی رات کے آسیب میں موجیں اپنے قد سے کئی کئی گنا اوپر اچھل رہی تھیں، جیسے سحر میں مبتلا ہوں۔

    وجوں کے گرنے کاشور ہو رہا تھا۔ شاید وقت بھی تھم گیا تھا، کیوں کہ یہ منظر تو ابدی تھا۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میں سہم گیا۔ آدھی رات، وحشی سمندر، چاندنی رات کا سوناپن، زمین کی تہہ میں دبکا ہوا کچھوا، صدیوں کا سکوت اور ان سب کے سامنے ایک اکیلا آدمی، میں۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگا کہ میں اس غیر آباد سیارے پر ایک اکیلا آدمی ہوں، جو چٹانوں کی اوٹ میں بیٹھ کر فطرت کے اس مہیب اور طاقت ور مظاہرے کو دیکھ رہا ہے جس میں شمولیت کی ہمت اس میں نہیں۔

    مجھے جھرجھری آ گئی۔ میں نے دوبارہ کچھوے کی طرف دیکھا۔ اب اس طرف بالکل سکوت تھا۔ اس نے انڈے دینے شروع کر دیے ہوں گے۔ کچھ ہی دیر میں گڑھا انڈوں سے بھر جائےگا۔ مجھے خیال آیا کہ اس وقت کچھوی رو رہی ہوگی۔ کیا میں اس کی آنسو دیکھ سکوں گا؟ میں نے وہ روایت سن رکھی تھی کہ انڈے دیتے وقت کچھوی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں۔ کچھوی آنسو کس لیے بہاتی ہے، جسمانی تکلیف کی وجہ، سمندر چھوڑنے کے دکھ سے یا اپنے انڈے بچوں کے خیال سے، اس سوال کا جواب بھی مجھے نہیں معلوم۔ دوسرے سوالوں کی طرح۔

    کچھوی کو آنسو بہاتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا۔ میرے سامنے وہ گڑھے میں پڑی رہی۔ میں اسےایک عالم محویت میں نہ جانے کتنی دیر دیکھے گیا۔ رات خنک ہو چلی تھی۔ چاند ڈھل رہا تھا۔ سمندر کا رنگ بالکل سیاہ تھا۔ گڑھے میں کچھ ہلتا ہوا نظر آیا۔ اس کا سر باہر نکلا۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ وہ گڑھے سے باہر نکلنے لگی۔ وہ واپس جا رہی تھی۔ اب کی بار وہ بہت تکلیف سے چل رہی تھی۔ وہ ذرا سی دور گھسٹتی، پھر رک جاتی، رک کر ادھر ادھر دیکھتی، پھر گھسٹنے لگتی۔ اس کو اتنی مشکل میں دیکھ کر مجھے خدشہ ہوا کہ وہ سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی دم نہ توڑ دے۔ وہ رک جاتی تو بالکل یوں لگتا کہ مرگئی ہے۔ میں اسے بہت انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ ذرا دیر بعد اس پر حرکت کے آثار پیدا ہو جاتے اور وہ سرکنے لگتی۔ اس کے طاقتور بازو جو موجوں کو چیر کر اس کے لیے راستہ بناتے تھے، خشکی پراس کی کوئی مدد نہیں کر رہے تھے۔ ان پر ریت اور کنکر چپک گئے تھے۔ یہ جگہ جگہ سے چھل بھی گئے تھے۔ کتنی مشکلوں سے وہ سمندر تک پہنچ ہی گئی۔ سمندر کا پانی آگے بڑھ کر اس کے پاؤں چھونے کے لیے آیا۔ اس نے زور سے بازو مارا اور پانی میں تیرتی ہوئی سمندر میں گم ہوگئی جہاں سے وہ آئی تھی۔

    اس کے گھسٹنے سے ساحل کی ریت پر دو طرفہ نشان بن گئے تھے۔ یہ نشان سمندر پر جا کر ختم ہوتے تھے۔ ان نشانات پر الٹے پیروں چلتا ہوا میں اس گڑھے تک پہنچ گیا جہاں سے اس نے واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔ انڈے دینے کے بعد اس نے گڑھا مٹی سے ڈھک دیا تھا۔ ساحل پر اب ان نشانوں کے سوا کوئی اور ثبوت نہیں تھا کہ وہ اپنی سمندر کی دنیا سے نکل کر یہاں آئی تھی۔

    اس گڑھے کی تھوڑی سی مٹی ہٹا کر میں نے دیکھا۔ مٹی میں انڈے دبے ہوئے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک اٹھا لیا۔ وہ ابھی تک گرم تھا۔ کچھوے کے بدن کے حرارت اس میں موجود تھی۔ گڑھے میں اس جیسے اور بھی انڈے بھرے ہوئے تھے، پنگ پانگ کی گیند جتنے، سفید کھردرے، اور پتلے چھلکے والے۔ میں سب تو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر وہاں کوئی ستر اسی انڈے ہوں گے۔ کچھوی ایک جھول کے انڈے ریت میں دفنا کر اپنے پانی میں لوٹ گئی کہ سورج کی تپش اور زمین کی گرمی باقی کے عمل کو پورا کر دیں گی۔ گرمائی کی ایک مدت حاصل کر لینے کے بعد جنین بچہ بن جائےگا اور اپنی کیچلیوں سے چھلکا توڑ کر انڈے سے باہر نکل آئےگا۔ مگر سارے انڈے اپنے اس امکان کو پورا نہیں کر پاتے۔ ان میں سے کتنے ہی کتوں اور انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک زمانے میں کراچی کی فیشن ایبل بیکریوں میں کچھوے کے انڈے بکا کرتے تھے۔ پھر ان کی فروخت پر پابندی لگ گئی تھی۔ نہیں، یہ سمندر کی امانت ہیں، ان کو محفوظ رہنا چاہیے۔ میں نے وہ انڈا واپس رکھ دیا اور اس پر دوبارہ مٹی ڈال دی۔

    کچھوے کے یہ انڈے یہاں مٹی میں دبے رہیں گے، کچھوا انہیں بھول کر دور جا چکا ہوگا، سمندر میں اس کی زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی ہوگی، انڈوں میں سے بچے نکلیں گے اور زمین سے سمندر میں اتر جائیں گے، اس بات سے قطعاً لاتعلق کہ وہ کس انڈے میں سے نکلے ہیں، وہ بھی اپنے آبائی سمندروں میں تیرتے پھریں گے جہاں سے ان کی ماں نکل کر انہیں جنم دینے آئی تھی۔ اس پورے سلسلے میں براہ راست جسمانی ربط کے باوجود ایک دوسرے کی قربت سے جو لاپرواہی تھی، وہ مجھے بے حد حیرت انگیز معلوم ہوئی، شاید تھوڑی سی قابل رشک بھی۔

    صبح کاذب کا وقت ہو گیا تھا۔ سمندر پر چھائی ہوئی دھند کا بادل دوسرے ساحل کی طرف پرواز کرتا جا رہا تھا، جہاں پر نظر نہ آنے والا شہر نیند میں غافل پڑا تھا۔ اس وقت سمندر بہت شانت تھا۔ اس کی آواز میں دھیرج تھا۔ دور کہیں ایک موج اٹھتی، سطح آب پر شکن پڑ جاتی اور وہ شکن در شکن چلتی ہوئی اس طرف بہتی چلی آتی۔ دھندکا پردہ چھٹنے لگا اور سمندر کے رخ پر ہوا چلنے لگی۔ اب موجیں اوپر اٹھتی ہوئی نظر آ رہی تھیں، ان کے سروں پر سفید جھاگ جھلملا رہا تھا۔ بے کراں سمندر کی دوسری نامعلوم حد سے پیدا ہوتی ہوئی، بلند وبالا سرمگیں موجیں۔ ایک کےبعد ایک اٹھتی ہوئی اور گرتی ہوئی شیشے کی موجیں اور پھر اچانک ایک موج کی بالائی سطح پر ہلکی سی جھلملاہٹ، روشنی بھی نہیں، نور کا محض ایک شائبہ، روشنی کا نقطہ بڑھ کر لکیر بنتا ہوا اور وہ منور لکیر ایک موج سے دوسری موج پر پھیلتی ہوئی۔

    آسمان اور سمندر جو ایک دوسرے سے مل کر سیاہی کا یکساں پردہ بنے ہوئے تھے، الگ ہونے لگے۔ دودھیا اجالا بے کراں سمندر پر تیزی سے پھیلتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ بادل تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ ان کے پیچھے سے سورج طلوع ہوگا۔ چٹانیں اندھیرے سے نمودار ہونے لگیں۔ پاگل موجیں ان سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی تھیں۔ چٹانوں کے پیچھے زمین تھی، بے مصرف چھوڑی ہوئی زمین اور میری تنہائی۔

    اندھیرے اجالے کے درمیان رکی ہوئی یہ دنیا مجھے اچانک بہت خوبصورت محسوس ہوئی۔ شاید یہ حقیقی نہ تھی، یہ کوئی خواب تھا جس میں رات اور دن، آسمان اور سمندر گھل مل کر ایک ہو گئے تھے، جس میں بیتے ہوئے دن اور خیالوں کی باتیں زیادہ حقیقی محسوس ہو رہی تھیں۔ ان چیزوں سے بھی زیادہ جو نظر آ رہی تھیں۔ شاید یہ کیفیت زندگی کی اصلیت سے زیادہ قریب بھی تھی۔ نیند سے جاگتے ہوئے سمندر کے طلسم کو میں کھڑا دیکھتا رہا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اب گھر چلنا چاہیے۔ میں واپس ہونے لگا۔ گھر کا خیال آتے ہی وہ پھر سے یاد آنے لگا۔ اس کا چوڑا ماتھا، کالی بھونرا سی آنکھیں، گتھی ہوئی بھنویں اور گال کی ابھری ہوئی ہڈی۔۔۔ سب یہی کہتے ہیں کہ وہ مجھ پر پڑا ہے۔

    مگر وہ شوخ اور چلبلا کیوں نہیں ہے، جیسے اس کی عمر کے دوسرے بچے ہوتے ہیں؟ میں نے خود سے سوال کیا اور جھنجھلا گیا۔ وہ خاموش رہتا تھا اور اس کی کالی کالی آنکھوں میں ان گنت سوال بھرے رہتے تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھتا تھا، حساس بہت تھا اور اکثر بیمار رہا کرتا تھا، اس کا چہرہ ایک بار پھر میری نگاہوں میں گھوم گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ میرے جوتوں میں پیر ڈالے ہوئے چل رہا ہے۔ میں نےاسے روکنا چاہا مگر میری آواز اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اسے میرا مزاج اور میری طبیعت ورثے میں ملی ہے، کہیں اسے میری جیسی زندگی بھی نہ گزارنی پڑے۔ میں نے سوچا اور میں کانپ گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں نے اس کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ احساسِ جرم کی شدت سے میں نے گردن جھکالی۔

    اس لمحے میرے پیر کے پاس سرسراہٹ ہوئی۔ کوئی چیز رینگتی ہوئی میرے پیر کے پاس سے نکلی۔ میں نے گھبرا کر پاؤں کھینچ لیا۔ پھر میں نے نیچے زمین کی طرف دیکھا۔ وہ زمین پر رینگ رہا تھا۔ وہ ادھر اُدھر بھٹکتا پھر رہا تھا۔ کچھوے کا یہ بچہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے کسی نہ کسی بھٹ میں دبے ہوئے انڈوں میں سے نکل کر آیا تھا۔ اپنی پیدائش کے گڑھے سے مٹی ہٹا کر وہ اس سمندر کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا جو اس کی زندگی کا عنصر تھا۔ ریت پر بھٹکتے بھٹکتے وہ پانی تک پہنچ جائےگا اور جوں ہی اس کے بدن کا پانی سے پہلا لمس ہوگا، وہی سمندر کا پانی جس کے لمس کا ذائقہ اس کے لاکھوں برس پرانے نسلی حافظے میں محفوظ تھا، وہ بہت تیزی سے تیرتا ہوا آگے نکل جائےگا۔ ایک مرتبہ سمندر میں اترجانے کے بعد وہ پھر کبھی خشکی پر لوٹ کر نہیں آئےگا۔ صرف وہ مادہ جو اس سے ہم جفت ہوکر اس کا حمل اٹھائےگی، وہ گہرے سمندروں میں تیرتی ہوئی ایک بار پھر لوٹ کر اسی ساحل پر آئےگی جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی اور اپنے مستقبل کی امانت انڈوں کی صورت میں اس ساحل پر چھوڑ جائےگی۔

    مجھےخیال آیا کہ جب سے شہر کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ان کچھووں کی نسل تقریباً ختم ہونے لگی ہے جو لاکھوں برس سے سینڈزپٹ اور ہاکس بے کے ساحلوں پر انڈے دینے آتی ہے، حکومت کے ایک محکمے کے کارکن ان کے نوزائیدہ بچوں کو سمندر میں پہنچنے سے پہلے روک کر ان پر ایک نمبر اور نشانی باندھ دیتے تھے۔ میرے پاس اس کے بازوؤں میں باندھنے کے لیے کوئی نشانی نہیں تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ سمندری کچھوے کا جنم چکر ہے، اور یہ چھوٹا سا کائی مائل کچھوا جو میری ہتھیلی پر سکڑا ہوا پڑا ہے، اس کا حصہ اس کا اگلا قدم ہے۔ وہ بےضرر اور کم زور نظر آ رہا تھا۔ کیا اسے اپنی اہمیت کی خبر تھی؟ میں نے اسے سکڑتے ہوئے دیکھا اور میرا دل اس کے لیے بھر آیا۔ مگر اسے میری ہم دردی یا خیرسگالی کی کیا پرواہ ہوگی۔ اس کی تو دنیا ہی الگ تھی۔ اس میں زندگی کی ایسی لوچدار اور اپنی جگہ مکمل شدت احساس تھی جس کا قالب بھی میری ہم دردی بلکہ میرے وجود کے لیے ناقابل حصول تھا۔

    میرا جی چاہا کہ وہ میرا بچہ ہوتا۔ میں نے اسے لبوں تک لا کر چوم لیا۔ اس کا لمس میرے لیے اجنبی تھا۔ سرد اور نامانوس۔ بے حد دکھ اور ملال کے ساتھ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ میں اسے سمندر میں اچھالنے والا تھا، مگر مجھے خیال آیا کہ اس کے لیے ریت پر رینگنا ضروری ہے تاکہ اس میں اسی ساحل پر واپس آنے کی جبلت جاگ جائے۔ اس کے بہن بھائی سمندر کے افق پر ستاروں کی روشنی دیکھ کر پانی میں اتر چکے ہوں گے۔ میں نے اسے ریت پر رکھ دیا۔ کچھ دیر وہ یوں ہی پڑا رہا۔ پھر اس کے بازو باہر آئے اور وہ ریت پر آہستہ آہستہ رینگتا ہوا سمندر کی طرف جانے لگا جہاں وہ اپنی زندگی کو جاری رکھےگا۔ میں اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور جب وہ سمندر میں غائب ہو گیا تو میں بوجھل قدموں سے چلتا ہوا واپس آ گیا۔

    مأخذ:

    چیزیں اور لوگ (Pg. 45)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: احسن مطبوعات، کراچی
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے