Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سمندر کی بیماری

آصف فرخی

سمندر کی بیماری

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    افسانہ ماحولیاتی آلودگی پر مبنی ہے۔ سمندر کی سیر کرنے والوں کی بدولت ساحلی علاقے میں آباد لوگوں کا گزر بسر معمولی کھانے پینے کی چیزیں بیچ کر ہو جاتا ہے۔ لیکن آلودگی ختم ہونے تک سمندری سیر پر پابندی لگنے کے بعد سیکڑوں لوگ بے روزگار ہو گیے۔ بے حس سماج، عدلیہ، انتظامیہ اور کاروباری لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے پر ہی پابندی لگائی جائے۔

    شہر کے ساتھ والا سمندر پہلی مرتبہ اپنی ماں کی طرح اس دن لگا جب اس نے میرا گلا دبانا شروع کیا۔

    آدھی سے زیادہ رات گزرنے کے بعد ڈھائی، پونے تین بج رہے ہوں گے۔ یعنی وہ گھڑی گزر چکی تھی جب میری بےخوابی عام راتوں میں عروج پر ہوتی ہے۔ پورے دن کی تھکن اور نیند سے محروم باقی ماندہ رات کے تصور سے بےآرام بستر میں کروٹیں لیتے رہنے، کبھی چادر اوڑھنے کبھی اتارنے، تکیے میں منھ دینے، سب کچھ کر دیکھنے کی بے سود کوشش کرتے رہنے کے بعد میں اپنے سر کے بال نوچنے کے لیے تیار ہوتا ہوں۔ نیند کسی طور آکے نہیں دیتی اور اس گھڑی یہ پتا لگ جاتا ہے کہ یہ ہو کر رہےگا۔ لیکن وہ گھڑی آئی اور آکر گزر گئی۔ مجھے اونگھ آ گئی ہوگی۔ اس لیے کہ مجھے اس وقت پڑے جاگتے رہنا یاد نہیں ہے، ورنہ باقی تمام راتوں کے ایک ایک لمحے کی اذیت، آنکھوں میں چبھتی ہوئی سوئیوں کی طرح، میرے ذہن پر مرتسم رہتی ہے۔

    بے خوابی کی ریت آنکھوں میں بھری رہتی ہے۔ نیند کا سمندر آتے آتے پلٹ جاتا ہے۔ میں دیکھتا رہ جاتا ہوں۔ اس رات نیند کا جھونکا آ گیا۔ جانے کیسے اور اسی کی یہ سزا ملی۔

    سوتے جاگتے، اونگھتے ٹھیلتے کی جانے کون سی گھڑی تھی کہ آنکھ گھبرا کر کھل گئی۔ ایسا لگا کہ کوئی گلا دبا رہا ہے۔ معاً مجھے امی جان کا خیال آیا۔ نہیں، امی، ایسا تو مت کیجیے۔۔۔ یہ لمس ان کی انگلیوں کا نہیں تھا۔ کوئی میرے سینے پر چڑھا بیٹھا ہے اور مضبوط ہاتھوں سے میرا گلا دبوچے ہوئے ہے۔ میری گردن پر کسی ہاتھ کی گرفت نہیں تھی مگر خیال امی کا آیا۔ کانٹوں بھری ٹہنی سے کسی نے میرا چہرہ لہو لہان کر ڈالا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ لیکن اٹھ بھی نہ سکا۔ نڈھال ہوکر فوراً بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ سینے پر بوجھ سا تھا۔ گلے میں ایک ٹیس اٹھی اور چمکتا ہوا درد گھونٹ گھونٹ حلق میں کڑواہٹ گھولنے لگا، اترتے اترتے زور سے لپکا اور پھر رک گیا۔ مگر درد تھما نہیں۔

    وہ پھر لوٹ کر آیا۔ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ۔ جیسے کسی نے میری گردن کو دو کرے، کھردرے ہاتھوں میں گھیرا ہوا ہے اور اس زور سے بوجھ ڈال رہا ہے کہ گردن ٹوٹ جائےگی۔ نرخرہ پھٹ جائےگا۔ گردن کی رگیں تن کر پھولیں گی، پھر چٹخ جائیں گی۔ میں نے گھبرا کر چیخنا چاہا۔ امی، امی جان، یہ مت کریں، آپ کو خدا رسول کا واسطہ یہ مت کریں۔ لیکن میری آواز گھٹ کر رہ گئی۔ حلق سے خرخراہٹ کے سوا کوئی آواز نہیں نکلی اور یہ گھٹی ہوئی آواز پھنس کر میری گردن میں بل ڈالنے لگی، اسے بھینچنے لگی۔۔۔ مگر امی نے میری آواز نہیں سنی۔ انہوں نے میری بات نہیں مانی۔ گردن جیسے اس بوجھ سے اکڑنے لگی، اب یہ میری برداشت سے باہر ہوا جا رہا تھا۔

    کچی نیند کا شائبہ کب کا اچٹ چکا تھا۔ میں نے چادر اتار کر ایک طرف ڈال دی اور بستر سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کمرے کا گدلا اندھیرا دھند کی طرح آنکھوں میں پھیل رہا تھا۔ اٹھ کر کمرے کی بتی جلانا بھی بہت مشکل لگ رہا تھا۔ گردن تھی کہ اس میں کھنچاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر مجھے کچھ بھی، کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

    میری خرخراہٹ سے بستر کی دوسری طرف وہ چونک گئی۔ اس کی آنکھ میری کراہ سے نہیں کھلی کیونکہ وہ پہلے سے جاگی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نیند نہیں، مرچیں سی بھری ہوئی تھیں اور وہ آنکھوں کو مسلے جا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے گردن گھما کر میں نے اس کی طرف منھ کیا۔ گدلے اندھیرے میں بھی وہ آنکھیں سرخ نظر آ رہی تھیں اور ڈبڈبائی ہوئی۔۔۔ وہ ہانپ رہی تھی۔ سینے میں سانس سمیٹتے ہوئے اس نے اٹک اٹک کر کہا، ’’یہاں کچھ ہے!‘‘ اس کی آواز ٹوٹ کر اندھیرے میں بکھر رہی تھی، ’’یہاں کچھ ہے۔۔۔ یہاں سے نکلو، بھاگو!‘‘

    اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے میں اس کی طرف دیکھے گیا۔ اس کے خد و خال بھی صاف نہیں تھے۔ پھٹی پھٹی آواز اور ہاتھوں سے مسلتی ہوئی وہ لال لال آنکھیں۔۔۔ آواز گونج رہی تھی، ’’بھاگو! کچھ ہے۔۔۔‘‘

    نام سے بھی پہلے، اس کی ایک موجودگی تھی۔ امی جان کے علاوہ۔۔۔ بستر کی دوسری طرف اس کی آواز کھوکھلی ہوئی پھر چٹخ گئی۔ اسے دوبارہ نہ سننا پڑے، اس خوف نے مجھے بستر سے دھکیل دیا۔ میں نے اپنی گردن کو ٹٹولا۔۔۔ اس پر کسی کی انگلیوں کی گرفت نہیں تھی، دباؤ اسی طرح تھا۔۔۔ اور چیزوں سے ٹکراتے ہوئے چپل پہننے کے لیے پاؤں بڑھایا لیکن پیر کا انگوٹھا اس کی پٹی کی سیدھ میں نہیں آتا تھا، بار بار باہر نکل جاتا تھا۔ ہلکورے لیتا ہوا یہ درد رکے تو چیزیں بھی اپنی جگہ قایم رہیں۔ مگر وہ گھٹن جاری رہی اور اسی طرح چپل آدھی اٹکا کر آدھی گھسیٹتا ہوا اٹھا، کمرے کی سہمی ہوئی، التجا بھری نصف طوالت طے کرتا ہوا اس کے بستر تک آیا۔ میری وہاں موجودگی سے بے خبروہ آنکھیں ملے جا رہی تھی اور منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی۔

    میں نے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا۔ ٹھنڈی مٹی کے بے جان ڈھیر کی طرح وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ہی گرنے لگی۔ میں نے سہارا دے کر اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھے۔ جہاں دروازہ ہونا چاہیے تھا، وہاں اندھیرا دبیز تھا۔ چابی قفل میں ہی لگی ہوئی تھی اور اس کی ٹھنڈی دھات الگ سے نظر آ رہی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی ایک بھبھکا سا آیا اور ہم کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے کمرے سے باہر آئے۔ نام سے پہلے، یہاں اس کی ایک موجودگی تھی۔ امی جان کے علاوہ۔۔۔ ہمیں اس سے بچنا تھا۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس کا اندازہ بھی نہیں تھا جو گھر میں بھر رہی تھی۔

    میں کھانس رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ سوتے ہوئے بچوں کو کپڑوں کی گٹھری کی طرح پچھلی سیٹ پر ڈالا اور گاڑی کو دیوانہ وار چلانا شروع کر دیا۔ مجھے ہوش بھی نہیں تھا کہ میں نے کہاں کہاں تالا لگایا ہے اور کہاں گھر کو یو ں ہی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ بس اتنا اندازہ تھا کہ گاڑی کا رخ خود ہی شہر کی طرف تھا، سمندر کے مخالف رخ۔

    ہوا میں کاٹ سی تھی، ہم ابھی گھر سے نکلے ہی ہوں گے کہ مجھے احساس ہوا۔ میں نے ہاتھ بڑھاکر گاڑی کا شیشہ اوپر کر لیا۔ ہرحرکت میں اس طرح کر رہا تھا جیسے نیند میں چل رہا ہوں۔ آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی پوری طرح عادی بھی نہ ہوئی تھیں اور گاڑی کی رفتار نے تیزی بھی اختیار نہ کی تھی کہ بہت قریب سے ہوکر نکلنے والی ایک گاڑی کے ہارن نے مجھے چونکا دیا۔ تیزی سے بریک لگانے سے سڑک کی بجری پر ٹائر چرچرائے اور ہارن بج اٹھے۔ میں گاڑی چلاتے چلاتے ٹھٹک گیا۔ تبھی بدبو کا احساس ہوا۔ ایک بھبھکا سا سانس کے ساتھ آیا، پھر جیسے نتھنے مرچوں سے بھر گئے۔

    میری آنکھوں میں بھی جلن ہونے لگی اور ان سے پانی بہنے لگا۔ بدبو کا بھبھکا اتنا تیز تھا کہ ناک اور حلق میں بھرنے لگا۔ میں نے منھ بند کرلیا اور ہونٹ بھینچ لیے۔ بدبو گاڑی میں بھر رہی تھی، اس سے بچ کر نکلنا مشکل لگ رہا تھا۔ گھنی، گاڑھی بدبو اور اتنی دبیز کہ چاقو سے کاٹ لو۔ مگر وہ خود ہی چاقو کی طرح ناک اور حلق کو کھرینچ کر رکھ دے۔ نہیں، وہ گھنی بھی نہیں تھی، اس کے مرغولے تھے جو رہ رہ کر ہوا میں پھیل رہے تھے اور ناک میں اترے جا رہے تھے۔ میرے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ وہیل کو تھامنے کے بجائے آنکھوں کو مسل رہے تھے کہ برابر میں ایک گاڑی نے تیزی سے بریک لگائے اور اور زور سے روکا ورنہ میری گاڑی تو اس سے بھڑ ہی گئی تھی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ اتنے ہی قریب ایک گاڑی اور تھی، اس کے برابر ایک اور۔۔۔ سامنے والی گاڑی ابھی چلی ہی نہ تھی اور پیچھے سے ایک اور آ رہی تھی۔ اس کے ڈرائیور نے بھی جیسے ہارن پر ہاتھ رکھ کر باقی سب کچھ بھلا دیا تھا۔

    سڑک گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ سب لوگ سمندر کی طرف پیٹھ کرکے شہر کا رخ کر رہے تھے۔ ہوا بوجھل تھی اور بدبو ناقابل برداشت۔۔۔ میں اب امی جان کے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہا تھا۔ گاڑی کے آگے گاڑی آ گئی تھی، سڑک سے اتر کر کچے میں لوگوں نے گاڑیاں ڈال دی تھیں، ہارن چیخ رہے تھے، دونوں طرف سے گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ پولیس کے سپاہی کا پتا تھا نہ ٹریفک والوں کا، لوگ دیوانہ وار نکل پڑے تھے اور کسی کو پتا نہ تھا کہ راتوں رات کیا ہو گیا ہے۔ سی ویو اور کلفٹن کی طرف سے آنے والی سڑکیں گاڑیوں اور لوگوں سے بھرتی جا رہی تھیں اور جیسے ان کی ہی رفتار سے وہ دبیز بدبو بھی امڈی چلی آ رہی تھی، دھویں کی طرح پھیلتی ہوئی، سانس میں گھل کر جی متلا دینے اور آنکھیں جلانے والی بدبو۔ یہ اسی طرف سے آرہی تھی جدھر سے وہ سب آ رہے تھے۔

    ’’انہوں نے سمندر کو گندہ کر دیا ہے۔‘‘ کسی نے چلتی گاڑی کی کھڑکی میں سے منھ نکال کر کہا۔ میں نے اس کی آواز آدھی سنی، آدھی نہیں سنی۔ کوئی بچہ ہوگا۔ برافروختہ اور برہم، جسے معلوم بھی نہیں کہ اس سے اس کے بچپن کا سمندر چھین لیا گیا ہے۔

    مگر مجھے اس بات پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ٹریفک کا سپاہی نہ جانے کہاں سے نمودار ہوکر سیٹی بجا رہا تھا اور آڑی ترچھی پھنسی ہوئی گاڑیوں کو ایک ہی سمت مڑنے کے لیے اشارہ کر رہا تھا، وہ سمت جہاں بہت پہلے سے پھنسی ہوئی گاڑیوں کی قطار کی وجہ سے مڑنا ممکن ہی نہیں تھا۔ گاڑی چند انچ کھسکتی تو پتا چلتا کہ سی ویو اور درخشاں کے اندر اندر گلیوں سے لوگ اتنی تیزی اور اس تعداد میں نکلے ہیں کہ سڑکیں گاڑیوں سے بھر گئی ہیں۔ سپاہی سیٹی بجاتےادھر سے ادھر بھاگے جا رہا تھا، کوئی اس پر خاص توجہ نہیں دے رہا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ زہریلی گیس کا فوجی حملہ ہے نہ غیر مرئی آسیب، کلفٹن کے ساحل پر پھنسے ہوئے اس جہاز سے تیل رس رہا ہے جس کی تصویر کل رات بی بی سی ٹی وی پر دکھائی گئی تھی یا شاید کسی انڈین چینل پر۔ ٹی وی کی تصویر حقیقت بن گئی، اس پر غور کرنے کا کس کے پاس وقت تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ اس جگہ سے نکلیں، ٹریفک کے اس پاگل کر دینے والے رش سے باہر آئیں۔ لوگ چیخ رہے تھے، شور مچا رہے تھے، ہارن بے تحاشا بجائے جا رہے تھے۔ دو آدمی، جن کی گاڑیاں ٹکرا گئی تھیں، ہاتھا پائی پر اتر آئے تھے اور سامنے والی گاڑی میں سے ایک عورت کے قے کرنے کی آواز آ رہی تھی۔

    شہر کے ساتھ ساتھ سمندر کے کنارے کنارے چلتا چلا آرہا تھا میں۔ شہر اور سمندر مجھے ان دوبیماروں کی طرح لگے، اسپتال میں بستروں کی کمی کی وجہ سے جن کو ایک ساتھ لٹا دیا گیا ہو۔ کسے پروا کہ ان کا انفیکشن بھی مشترک ہے کہ نہیں اور کیا دونوں کا جنازہ اسپتال سے ساتھ ہی اٹھایا جائےگا۔ پھیکا چہرہ، جھلسا ہوا رنگ اور خون نچڑے ہوے دق زدہ بدن۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بیمار ڈال دیا تھا اور اب ایک ہی بستر پر ایک دوسرے کے بوجھل سانس گن رہے تھے۔۔۔ ایک ایک کرکے۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کتنے ہی دنوں کے لیے میری یہ سمندر کی آخری جھلک تھی۔

    اب نہیں دیکھ سکوں گا جو سمندر میری شاموں میں گھلا ہوا تھا اور جس پر پھیلتی ہوئی اجالے کی کرن سے میرا دن روشن ہوتا تھا، جس کی ہواؤں میں میرے بال بکھرتے تھے اور جس کے جزر و مد میں مجھے اپنے موڈز کا swing نظر آتا تھا۔ جیسے یہ دوست بچھڑ رہا ہے اور پتا بھی نہیں چل رہا ہے کہ کیوں، کتنے دن کے لیے۔

    مگر مجھے فکر سمندر کی نہیں، امی کی تھی۔ میرے یوں واپس آ جانے پر وہ کیا کریں گی۔ گھر میں مجھے قبول تو انہوں نے کر لیا تھا، اس لیے کہ اس وقت اس کے سوا چارہ نہ تھا اور کراچی کے ساحل پر تیل بردار جہاز سے Oil Spill کی خبر بڑے بڑے حروف میں اگلی صبح کے اخباروں میں پہلے صفحے پر چھپ چکی تھی۔ اتنی رات گئے سرخ آنکھوں، بکھرے بالوں کے ساتھ دروازے کی گھنٹی بجاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ دروازہ کھول کر ایک طرف ہو گئیں۔ وہ کیا چیز ہے جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے نہیں پوچھا تو میں نے بتایا بھی نہیں۔ میرے لیے بتانا یوں بھی مشکل تھا کہ مجھے خود اس وقت نہیں معلوم تھا (پوری طرح تو اب بھی نہیں معلوم) اور بس یہی غنیمت لگ رہا تھا کہ انہوں نے یہ نہیں کہہ دیا کہ فالتو آدمی گھر کے اندر نہ آئیں۔ سر جھکائے میں اندر آ گیا اور اس کونے میں بیٹھ گیا جو ٹیلی وژن کے سامنے میری مستقل نشست سی بن گیا تھا۔ یہاں ایک فائدہ یہ تھا کہ ہر گھنٹے خبریں سننے کے ساتھ ساتھ میں جان سکتا تھا کہ سمندر کے روگ نے مجھے گھر کی دہلیز پر دوبارہ پہنچا دیا ہے۔

    سمندر تو بس ایک بہانہ ہے۔

    سمندر کے ہاتھوں زک پہنچنے سے پہلے میں امی جان کا صدمہ جھیل چکا ہوں۔ مگر میں اس کا قصوروار انہیں کسی طرح نہیں ٹھیرا سکتا۔ انہوں نے کتنی بار موقع دیا۔ میں ہی بدل کے نہ دیا۔ ’’پھر آ گئے محلے والوں کی جان کو روکے؟‘‘ وہ رات گئے دروازہ کھولتے ہی شروع ہو جاتی تھیں۔ ’’ائے میں کہتی ہوں یہ اوائی توائی پھرنا چھوڑ دو۔ کسی کام دھندے سے لگو۔ چار پیسے کماکے لانے کا ہنر سیکھو۔ کب تک جوتیاں چٹخاتے رہوگے اور چھوٹے بھائی کا منھ دیکھتے رہوگے؟‘‘

    ایک ریلا سا آتا اور میں شرابور ہوتا چلا جاتا۔ اب تو اس کا ایک ایک لفظ مانوس ہو چلا تھا، ’’سویرے سے یہی رونی صورت لیے پھر رہے ہو کہ کوئی دیکھ لے تو دن بھر روٹی نصیب نہ ہو۔ بال بناؤ، داڑھی صاف کرو۔ رات کے کپڑے بدلو۔ دو دن ہوگئے۔ کیا چیکٹ اتروائی کا جوڑا لوگے؟ یاد نہیں؟ آج چھوٹے بھائی کے سسرال والے آنے کو ہیں۔ آئے گئے کا لحاظ نہیں کرتے تو سمدھیانے کی شرم کر لو۔ خود تو کسی کام کے تھے نہیں۔ کتنی بار کہا خیالی ہیولے کو زندگی کا ساتھی سمجھنا چھوڑ دو اور یہ دلدر وبال اولاد کی جگہ نہیں لے سکتے۔ یہ جی کا روگ ہیں۔‘‘

    ٹی وی کے آگے اسی نشست پر بیٹھا ہوا تھا میں۔ خیال تو ان لوگوں کو کرنا چاہیے تھا جو مہمان بن کر دوسرے گھر میں آئے تھے۔ خبر نہیں انہوں نے ناک بھوں چڑھائی یا امی جان نے پیش بندی کر ڈالی۔ وہ کمرے کی دہلیز پر کھڑے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ جگہ کہاں ہے، کہاں بیٹھیں۔ ’’ابھی تھوڑی دیر میں جگہ کھل جائے گی۔ فالتو آدمی باہر چلے جائیں۔‘‘ میری طرف رخ کر کے وہ کہہ رہی تھیں۔ میں اٹھا اور اس دن بھی سمندر کی طرف چلا گیا۔

    سمندر میری عادت نہیں تھا۔ میرے لیے ٹھکانا بھی نہیں تھا۔ وہاں جانا میں نے دوبارہ شروع کیا تھا کہ بےکار، بےمصرف قدم اٹھانے اور پلٹنے کے لیے گنجایش بہت تھی۔ سمندر بھی بےمحابا تھا۔ وہی بچپن کا دیکھا بھالا اور ساتھ کھیلا ہوا سمندر۔ اس وقت سمندر سے ابو وابستہ تھے۔ ہاکس بے کی اسی ایک ہٹ کے برآمدے میں دھوپ سینکنا، پتھر کی سیڑھیوں سے اترکر ریت پر آنا، دھنستے ہوئے پیروں سے پھسلتی ہوئی ریت پر چلنا، انگلیوں سے ریت پر نام لکھنا اور حروف کے پیچ و خم میں پانی بھرتے ہوئے دیکھنا، ریت کے گھروندے بنانا، بالٹی سےان میں پانی انڈیلنا اور ریت کی دیواروں پر سیپیاں سجانا، اونٹ کی سواری کرنا اور لہروں پر اچھلتی ہوئی گیند کے ساتھ دور تک پانی میں چلے جانا یہاں تک کہ چیختی ہوئی امی جان ذرا سا دھبا بن جائیں۔۔۔

    تھرماس میں چائے اور ٹوکری میں سینڈوچ بھر کر اتوار کے اتوار ابو کے دفتر کی ہٹ پر کتنی ہی شاموں کا سورج سمندر کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے کہ اس کا پگھلتا، لرزتا عکس اب بھی آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ ابو کی انگلی تھام کر اسی سمندر کے کنارے دور تک چلا جانا۔ ہنستے مسکراتے ابو طرح طرح کے منھ بناتے جاتے، گالوں میں ہوا بھر کر آوازیں نکالتے، بے تکے مزاحیہ شعر پڑھتے اور گانے سناتے۔۔۔

    اینا مینا ڈیکا

    ڈائی ڈاما نیکا

    رام پام پوچ، رام پام پوچ

    لہروں کے پیہم شور کے ساتھ ان کی آواز کا اتار چڑھاؤ مجھے اب بھی یاد ہے اور ہر بار لہریں یہی گیت مجھے سناتی رہتی ہیں۔ ابو کی موت کے بعد سمندر نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ امی جان کو اتنے بے پناہ پانی سے ہول اٹھتے تھے اور یوں بھی وہ شہر کی آدمی تھیں۔۔۔ تنگ، اندھیری، پرپیچ گلیاں، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی آڑی ترچھی عمارتیں، بہت سارے لوگ، ہجوم، تل دھرنے کو جگہ نہیں، فالتو لوگ باہر جائیں۔۔۔

    مگر کہاں جائیں؟ سمندر نے بھی بلانا چھوڑ دیا۔

    اس شام بھی میرے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نے سمندر کا رخ کیا۔ میں اس سے پہلے ٹی وی کے سامنے والے مانوس، آرام دہ کونے سےاٹھ جانا چاہتا تھا کہ امی جان کی چیختی ہوئی آواز اور چھوٹے بھائی کی گھورتی ہوئی نظریں مجھے فالتو آدمی ہونے کا احساس دلائیں۔ ابو کی پرانی، جھولنے والی کرسی چپ تھی، بالکل چپ، جیسے دم بخود رہ گئی ہو۔ میں بھی چپ چاپ اٹھا اور نظریں بچا کر سمندر کے پاس آ گیا حالانکہ میں نے باہر ٹی وی پر بار بار دہرایا جانے والا یہ اعلان سن لیا تھا کہ پورا ساحلی علاقہ ’’کارڈون آف‘‘ کر دیا گیا ہے اور فضائی آلودگی کی وجہ سے عام شہریوں کا داخلہ وہاں بند ہے۔ میں سڑک چھوڑ کر کچی زمین پر آیا اور پیدل چلتا چلا گیا یہاں تک کہ قدموں تلے زمین بدل کر بھر بھری ریت بن گئی، ساحل کی نشانی۔ سمندر سامنے تھا۔

    شام کا اندھیرا سمندر میں گھلنے لگا تھا۔ سمندر کی رنگت پہلے ہی تبدیل ہوچکی تھی۔ نیلگوں سبز اور سفید پانی پر تیل کے کالے کالے چکتے تیر رہے تھے۔ ان کا حجم بڑھ رہا تھا اور تعداد بھی۔ سمندر کے اوپر جیسے ایک اور سمندر۔۔۔ سیاہ فام، وزن دار، دم گھونٹ دینے والا، زندگی کا دشمن۔۔۔ آنکھوں میں جلن ہونے لگتی اور بو بڑھتی جاتی جوں جوں آپ سمندر کے نزدیک آتے، مگر میں جان بوجھ کر ہوا کے مخالف سمت میں کھڑا تھا۔ جہاں جہاں سے پانی اترا تھا، وہاں ریت پر بھی سیاہ دھبے تھے۔ ریت بھی آلودہ ہوئی تھی اور ٹیلی وژن کی خبروں میں میں نے دیکھا تھا کہ اس ریت کی ٹوکریاں بھر بھر کر ہٹائی جا رہی ہیں اور ٹرک میں لادی جارہی ہیں۔ شہر کے مضافات میں جس بستی کے پاس یہ ریت دفن کی جارہی تھی وہاں کے لوگ بھی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

    ڈوبتے سورج کے سامنے وہ غیرملکی جہاز نظر آ رہا تھا جو خلیج کی کسی بندرگاہ سے تیل لاد کر لا رہا تھا اور ساحل پر بھٹک کر کسی چٹان سے ٹکرا گیا تھا۔ یا پھر وہ پہلے ہی سے نقصان رسیدہ جہاز تھا جو پوری احتیاطی جانچ پڑتال کے بغیر، ایک بڑی رقم کی فراہمی کے بعد، حکام سے اجازت خرید کر کے ادھر آ گیا تھا اور پھر حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ کیا ہوا تھا، یہ پوری طرح کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔ شہر کے لوگ بھی خبروں سے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر بس اندازہ ہی لگا سکتے تھے۔ ان کو محض اتنا معلوم تھا کہ اس سے تیل رس رہا ہے اور بہہ بہہ کر یہ تیل ساحل پر تباہی مچا رہا ہے۔ ان سب قیاس آرائیوں اور اندازوں سے دور، سمندر کے بیچ میں کھڑا ہوا، موجوں سے ٹکراتا ہوا جہاز کسی بدروح کا ہیولا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔ اکیلا، ، خالی، اندھیرا۔۔۔

    ساحل پر اس کو دیکھنے کے لیے جمع ہو جانے والوں کا وہ ہجوم بھی چھٹ گیا تھا جو شروع کے ایک آدھ دن رات گئے تک وہاں جمع ہونے لگا تھا۔ شہروالوں کو جو نیا تماشا مل گیا تھا، پولیس نے اسے روک دیا۔ میں اکیلا ہی اس طرف ٹہلتا گیا جس طرف پولیس نہیں تھی۔ بوجھل ہوا اب بھی دم گھونٹ رہی تھی اور پانی کی چمک سیاہی مایل تھی۔ ریت میں قدموں کے نشان بن رہے تھے اور میں ان کی ترتیب دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں کسی نرم چیز سے ٹکرائے۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ وہ پرندہ تھا جو وہاں مرا ہوا پڑا تھا۔ اس کی چونچ مضبوطی سے بند تھی اور چوڑے چوڑے پروں پر تیل کی سیاہی جھلک رہی تھی۔۔۔ وہ اڑ سکا نہ تیر سکا۔ کتنی تکلیف سے مرا ہوگا، میں نے سوچا اور واپس مڑ گیا۔

    ’’لوگ سمندری تفریح گاہوں کا رخ نہ کریں، متبادل مقامات کا ارادہ کریں جب تک کہ سمندر کو تفریح کے لیے دوبارہ کھول نہیں دیا جاتا۔۔۔‘‘ حکومت کے ذرایع کا یہ اعلان ریڈیو اور ٹی وی سے بار بار نشر ہونے لگا۔ ایک لمحے کے لیے بھی میں اس پر یقین نہیں کر سکا۔ ماحولیاتی آلودگی اور سمندری حیات کو نقصان کی تفصیل تو میری سمجھ سے باہر تھے، اتنا مجھے معلوم تھا کہ یہ محض تفریح گاہ کی عارضی بندش کا معاملہ نہیں ہے۔ مجھے ان بے شمار لوگوں کا دھیان آیا جو اس سمندر کے حوالے سے اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں، بالواسطہ ہی سہی۔۔۔ ساحل کے ساتھ بنے ہوئے ہوٹلوں کے بیرے، مداری اور بندر تماشا دکھانے والے، گھوڑے کی سواری کرانے والے، فقیر، غبارے والے، بندوق کا نشانہ لگوانے والے، جیب کترے، طوائفیں، ہیجڑے، قسمت کا حال بتانے والے، جوتے پالش کرنے والے، آئس کریم بیچنے والے، رکشہ ٹیکسی چلانے والے۔۔۔ اب یہ اپنی روزی روٹی کے لیے کیا کریں گے سمندر کے بغیر؟

    لوگوں کو وہاں جانے سے روکنے کے لیے پولیس موبائل پر سے میگافون کی یہ آواز اور کچھ نہیں تھی، مجھے لگا شہر کا سمندر ان سے امی جان کی آواز میں کہہ رہا ہو، فالتو آدمی باہر چلے جائیں، ادھر کا رخ ہرگز نہ کریں۔ یہ اعلان سن کر ان کے جسم کی بھی ساری طاقت سلب ہو جائےگی۔ نہ ہلنے کی طاقت رہےگی نہ اٹھنے کی مجال۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں روز اس کے پاس جاؤں گا کہ سمندر بیمار ہے۔ سمندر سے ملاقات کا وقت کوئی نہیں ہے۔

    مجھے جب موقع ملتا میں سمندر کی ملاقات کو چلا جاتا۔ امی جان آتے جاتے دیکھ رہی تھیں، مگر اس وقت تک انہو ں نے کچھ کہا نہیں۔ میں نے منھ پر باندھنے کے لیے وہ سفید کپڑا لے لیا جس کے بغیر سمندر کے قریب کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ عجیب سا لگا مجھے، جیسے طاعون یا کسی متعدی مرض میں مبتلا آدمی کو دیکھنے جا رہے ہوں۔ مگر میں نے سفید کپڑا لگا لیا اور بدبو سے بچنے کے لیے ناک سکیڑتا ہوا اپنے گھر جا پہنچا۔

    گھر خالی پڑا تھا۔ آس پڑوس کے مکانوں میں اکا دکا آدمی تھا۔ لوگ جیسے اس بستی کو چھوڑ گئے تھے۔ میں اپنے مکان کی بالکنی میں بیٹھ گیا اور خالی بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگا۔ میں نے دیکھا سمندر قریب آ رہا ہے۔ اس میں سے بدبو نہیں امڈ رہی بلکہ اس میں کشش ہے۔ میں نے ایک بار پھر خواب دیکھا کہ میں اس کام میں مصروف ہوں جسے انگریزی میں محبت کرنا کہنے لگے ہیں۔ اردو میں جو کہتے ہیں وہ اتنا برا معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیں تو اچھا۔ نہیں، اس کو کچھ کہنا چھوڑ دیں۔ سمندر خوبصورت اور زورآور۔ اس میں سپردگی تھی، بانکپن تھا۔ وہ نرم ہو کر دب جاتا، سختا کر لپکتا تھا، بدمست ہوکر آگے بڑھا آتا تھا، والہانہ پن کے ساتھ لپٹ جاتا تھا، اس کے لب وا ہوجاتے، آغوش وسیع ہونے لگتی۔ سینہ کشادہ ہو جاتا اور نچلا بدن کپکپانے لگتا۔ یہ سمندر محبت کرنے کے لیے بہت تھا۔

    دستک سن کر میں نے بالکنی سے جھانکا۔۔۔ اس اجاڑ بستی میں کون آئےگا۔۔۔؟ سمندر میرے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ میرے گھر پہنچ گیا تھا۔ میں نے نکل کر دیکھا، گلی میں دور دور کوئی نہ تھا۔ میں نے جلدی سے دروازے کی چٹخنی کھول دی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی دعوت دیتی ہوئی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ میں اس کی طرف بڑھا تو اس کے لب پیوست ہو گئے۔ جیسے وہ ایک بہت بڑا دہانہ تھا، گیلا اور گہرائی میں کھلتا ہوا، جو بوسوں کی نمی سے بھر جانے کو بےتاب تھا۔ اس کا سینہ ہل رہا تھا، اس کے بازو کانپ رہے تھے اور وہ لپک رہا تھا۔۔۔

    مگر ان لوگوں کا انکار پیہم اور بے حد اصرار کے ساتھ تھا۔ ایک کے بعد ایک اعلیٰ افسر کا انٹرویو ٹی وی چینلز پر نشر ہوتا جن میں وہ مسلسل کہے جاتے کہ یہ وقتی حادثہ ہے، تفریح گاہیں جلد ہی کھول دی جائیں گی۔۔۔ ایک اہم افسر نے لوگوں کی تشویش کی ساری ذمہ داری غیرملکی نشریات پر ڈال دی، ’’ان کا دعویٰ غلط ہے۔ لوگ بیمار ہوکر نہیں بھاگے۔ چند مچھلیوں اور پرندوں کے سوا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ایک ہی کچھوا ہے جسے وہ بار بار دکھائے جا رہے ہیں۔ سرکاری تحقیقات جاری ہیں۔ عوام سے اپیل کی جاتی ہے۔۔۔‘‘

    میرے پاؤں خود بخود اٹھ گئے۔ بالکنی کی سیڑھیاں اتر کر میں ساحل کی طرف چلا آیا۔ دم گھونٹ دینے والی بدبو اور آنکھوں کی جلن والی تیزی ہوا سے چھنٹی نہیں تھی۔ مگر اب کی بار کوئی اور ہی چیز مجھے وہاں لیے جا رہی تھی۔ شہر سے الٹے رخ، سمندر کی جانب۔ جہاں جہاں سے ریت اٹھائی گئی تھی، وہاں گڑھے سے بن گئے تھے جو دھوپ کی چمک میں اور بھی بدنما لگتے۔ کسی گڑھے میں پانی بھر گیا تھا اور ایک میں مردہ مچھلیاں۔ سمندر کے خروج کے ساتھ آنے والی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں۔ واپس پلٹتا ہوا سمندر انہیں ریت پر ہی چھوڑ جاتا۔ جیسے سمندر اپنے مردے اگل رہا ہو۔ ساحل پر ہر وقت منڈلانے والے چیل کوے انہیں کھاتے نہ جنگلی کتے۔ ان کے گلتے ہوئے ڈھیر سے بساند اٹھ رہی تھی۔ اس گڑھے سے ذرا آگے ہی میں نے ایک کچھوا مرا ہوا دیکھا۔ وہ بھی مٹی میں آدھا دھنسا ہوا تھا۔ اور اس سے آگے ایک سی گل۔

    میں نے ماسک ہٹاکر اپنا ننگا چہرہ ان کے سامنے کر دیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے کہاں ہونا ہے اور کس حالت میں۔ اب مجھے اس بیمار سمندر کی نگاہ داری پر مامور کر دیا گیا ہے۔ میں نے جان لیا کہ میں مر گیا۔ میرا شہر مر گیا۔ میرے شہر کا سمندر مر گیا۔ اس کے ساحل مر گئے۔ سیکڑوں مچھلیاں، کچھوے، بحری پرندے، کیکڑے، آبی پودے۔۔۔ مرنے کے بعد بھی ہم برسوں ایڑیاں رگڑتے، سسکیاں بھرتے، دم توڑتے رہیں گے اور امی جان کی آواز گونجتی رہے گی۔۔۔ فالتو آدمی، باہر۔۔۔

    ایک بار پھر میں نے سمندر کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے ایک پٹے ہوئے بچے کی طرح لگ رہا تھا جو ڈانٹ کھاتے کھاتے رونے لگا ہو۔ سسکیاں بند نہیں ہو رہی ہیں۔ آنسوؤں نے چہرے پر میلی لکیر ڈال دی ہے اور ناک بہہ بہہ کر منھ میں جا رہی ہے جس پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔ اس بیمار بچے کے آنسو کون پونچھےگا؟ سمندر کی طرف میری امی جان تو آنے سے رہیں۔ ان کا ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور ہونٹ کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ جو کہہ رہی تھیں، میں ان کے ہونٹوں پر پڑھ سکتا تھا۔۔۔

    میں نے شہر کی طرف سے پیٹھ موڑ لی اور سمندر کا رخ کر کے آگے بڑھتا گیا۔ سمندر میرے سامنے اٹھ کر دوڑنے لگا اور دوڑتے دوڑتے پھیلتا جا رہا تھا۔۔۔شہر کے ساتھ والا سمندر پہلی مرتبہ اپنی ماں کی طرح اس دن لگا جب اس نے میرا گلا دبانا شروع کیا۔

    آدھی سے زیادہ رات گزرنے کے بعد ڈھائی، پونے تین بج رہے ہوں گے۔ یعنی وہ گھڑی گزر چکی تھی جب میری بےخوابی عام راتوں میں عروج پر ہوتی ہے۔ پورے دن کی تھکن اور نیند سے محروم باقی ماندہ رات کے تصور سے بےآرام بستر میں کروٹیں لیتے رہنے، کبھی چادر اوڑھنے کبھی اتارنے، تکیے میں منھ دینے، سب کچھ کر دیکھنے کی بے سود کوشش کرتے رہنے کے بعد میں اپنے سر کے بال نوچنے کے لیے تیار ہوتا ہوں۔ نیند کسی طور آکے نہیں دیتی اور اس گھڑی یہ پتا لگ جاتا ہے کہ یہ ہو کر رہے گا۔ لیکن وہ گھڑی آئی اور آکر گزر گئی۔ مجھے اونگھ آ گئی ہوگی۔ اس لیے کہ مجھے اس وقت پڑے جاگتے رہنا یاد نہیں ہے، ورنہ باقی تمام راتوں کے ایک ایک لمحے کی اذیت، آنکھوں میں چبھتی ہوئی سوئیوں کی طرح، میرے ذہن پر مرتسم رہتی ہے۔

    بے خوابی کی ریت آنکھوں میں بھری رہتی ہے۔ نیند کا سمندر آتے آتے پلٹ جاتا ہے۔ میں دیکھتا رہ جاتا ہوں۔ اس رات نیند کا جھونکا آ گیا۔ جانے کیسے۔ اور اسی کی یہ سزا ملی۔

    سوتے جاگتے، اونگھتے ٹھیلتے کی جانے کون سی گھڑی تھی کہ آنکھ گھبرا کر کھل گئی۔ ایسا لگا کہ کوئی گلا دبا رہا ہے۔ معاً مجھے امی جان کا خیال آیا۔ نہیں، امی، ایسا تو مت کیجیے۔۔۔ یہ لمس ان کی انگلیوں کا نہیں تھا۔ کوئی میرے سینے پر چڑھا بیٹھا ہے اور مضبوط ہاتھوں سے میرا گلا دبوچے ہوئے ہے۔ میری گردن پر کسی ہاتھ کی گرفت نہیں تھی مگر خیال امی کا آیا۔ کانٹوں بھری ٹہنی سے کسی نے میرا چہرہ لہو لہان کر ڈالا۔ میں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ لیکن اٹھ بھی نہ سکا۔ نڈھال ہوکر فوراً بستر پر ڈھیر ہوگیا۔ سینے پر بوجھ سا تھا۔ گلے میں ایک ٹیس اٹھی اور چمکتا ہوا درد گھونٹ گھونٹ حلق میں کڑواہٹ گھولنے لگا، اترتے اترتے زور سے لپکا اور پھر رک گیا۔ مگر درد تھما نہیں۔

    وہ پھر لوٹ کر آیا۔ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ۔ جیسے کسی نے میری گردن کو دو کرے، کھردرے ہاتھوں میں گھیرا ہوا ہے اور اس زور سے بوجھ ڈال رہا ہے کہ گردن ٹوٹ جائےگی۔ نرخرہ پھٹ جائےگا۔ گردن کی رگیں تن کر پھولیں گی، پھر چٹخ جائیں گی۔ میں نے گھبرا کر چیخنا چاہا۔ امی، امی جان، یہ مت کریں، آپ کو خدا رسول کا واسطہ یہ مت کریں۔ لیکن میری آواز گھٹ کر رہ گئی۔ حلق سے خرخراہٹ کے سوا کوئی آواز نہیں نکلی اور یہ گھٹی ہوئی آواز پھنس کر میری گردن میں بل ڈالنے لگی، اسے بھینچنے لگی۔۔۔ مگر امی نے میری آواز نہیں سنی۔ انہوں نے میری بات نہیں مانی۔ گردن جیسے اس بوجھ سے اکڑنے لگی، اب یہ میری برداشت سے باہر ہوا جا رہا تھا۔

    کچی نیند کا شائبہ کب کا اچٹ چکا تھا۔ میں نے چادر اتار کر ایک طرف ڈال دی اور بستر سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کمرے کا گدلا اندھیرا دھند کی طرح آنکھوں میں پھیل رہا تھا۔ اٹھ کر کمرے کی بتی جلانا بھی بہت مشکل لگ رہا تھا۔ گردن تھی کہ اس میں کھنچاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ مگر مجھے کچھ بھی، کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

    میری خرخراہٹ سے بستر کی دوسری طرف وہ چونک گئی۔ اس کی آنکھ میری کراہ سے نہیں کھلی کیونکہ وہ پہلے سے جاگی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نیند نہیں، مرچیں سی بھری ہوئی تھیں اور وہ آنکھوں کو مسلے جا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے گردن گھما کر میں نے اس کی طرف منھ کیا۔ گدلے اندھیرے میں بھی وہ آنکھیں سرخ نظر آ رہی تھیں اور ڈبڈبائی ہوئی۔۔۔ وہ ہانپ رہی تھی۔ سینے میں سانس سمیٹتے ہوئے اس نے اٹک اٹک کر کہا، ’’یہاں کچھ ہے!‘‘ اس کی آواز ٹوٹ کر اندھیرے میں بکھر رہی تھی، ’’یہاں کچھ ہے۔۔۔ یہاں سے نکلو، بھاگو!‘‘

    اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے میں اس کی طرف دیکھے گیا۔ اس کے خد و خال بھی صاف نہیں تھے۔ پھٹی پھٹی آواز اور ہاتھوں سے مسلتی ہوئی وہ لال لال آنکھیں۔۔۔ آواز گونج رہی تھی، ’’بھاگو! کچھ ہے۔۔۔‘‘

    نام سے بھی پہلے، اس کی ایک موجودگی تھی۔ امی جان کے علاوہ۔۔۔ بستر کی دوسری طرف اس کی آواز کھوکھلی ہوئی پھر چٹخ گئی۔ اسے دوبارہ نہ سننا پڑے، اس خوف نے مجھے بستر سے دھکیل دیا۔ میں نے اپنی گردن کو ٹٹولا۔۔۔ اس پر کسی کی انگلیوں کی گرفت نہیں تھی، دباؤ اسی طرح تھا۔۔۔ اور چیزوں سے ٹکراتے ہوئے چپل پہننے کے لیے پاؤں بڑھایا لیکن پیر کا انگوٹھا اس کی پٹی کی سیدھ میں نہیں آتا تھا، بار بار باہر نکل جاتا تھا۔ ہلکورے لیتا ہوا یہ درد رکے تو چیزیں بھی اپنی جگہ قایم رہیں۔ مگر وہ گھٹن جاری رہی اور اسی طرح چپل آدھی اٹکا کر آدھی گھسیٹتا ہوا اٹھا، کمرے کی سہمی ہوئی، التجا بھری نصف طوالت طے کرتا ہوا اس کے بستر تک آیا۔ میری وہاں موجودگی سے بے خبروہ آنکھیں ملے جا رہی تھی اور منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی۔

    میں نے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا۔ ٹھنڈی مٹی کے بے جان ڈھیر کی طرح وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ہی گرنے لگی۔ میں نے سہارا دے کر اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھے۔ جہاں دروازہ ہونا چاہیے تھا، وہاں اندھیرا دبیز تھا۔ چابی قفل میں ہی لگی ہوئی تھی اور اس کی ٹھنڈی دھات الگ سے نظر آ رہی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی ایک بھبھکا سا آیا اور ہم کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے کمرے سے باہر آئے۔ نام سے پہلے، یہاں اس کی ایک موجودگی تھی۔ امی جان کے علاوہ۔۔۔ ہمیں اس سے بچنا تھا۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس کا اندازہ بھی نہیں تھا جو گھر میں بھر رہی تھی۔

    میں کھانس رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ سوتے ہوئے بچوں کو کپڑوں کی گٹھری کی طرح پچھلی سیٹ پر ڈالا اور گاڑی کو دیوانہ وار چلانا شروع کر دیا۔ مجھے ہوش بھی نہیں تھا کہ میں نے کہاں کہاں تالا لگایا ہے اور کہاں گھر کو یو ں ہی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ بس اتنا اندازہ تھا کہ گاڑی کا رخ خود ہی شہر کی طرف تھا، سمندر کے مخالف رخ۔

    ہوا میں کاٹ سی تھی، ہم ابھی گھر سے نکلے ہی ہوں گے کہ مجھے احساس ہوا۔ میں نے ہاتھ بڑھاکر گاڑی کا شیشہ اوپر کر لیا۔ ہر حرکت میں اس طرح کر رہا تھا جیسے نیند میں چل رہا ہوں۔ آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کی پوری طرح عادی بھی نہ ہوئی تھیں اور گاڑی کی رفتار نے تیزی بھی اختیار نہ کی تھی کہ بہت قریب سے ہوکر نکلنے والی ایک گاڑی کے ہارن نے مجھے چونکا دیا۔ تیزی سے بریک لگانے سے سڑک کی بجری پر ٹائر چرچرائے اور ہارن بج اٹھے۔ میں گاڑی چلاتے چلاتے ٹھٹک گیا۔ تبھی بدبو کا احساس ہوا۔ ایک بھبھکا سا سانس کے ساتھ آیا، پھر جیسے نتھنے مرچوں سے بھر گئے۔

    میری آنکھوں میں بھی جلن ہونے لگی اور ان سے پانی بہنے لگا۔ بدبو کا بھبھکا اتنا تیز تھا کہ ناک اور حلق میں بھرنے لگا۔ میں نے منھ بند کرلیا اور ہونٹ بھینچ لیے۔ بدبو گاڑی میں بھر رہی تھی، اس سے بچ کر نکلنا مشکل لگ رہا تھا۔ گھنی، گاڑھی بدبو اور اتنی دبیز کہ چاقو سے کاٹ لو۔ مگر وہ خود ہی چاقو کی طرح ناک اور حلق کو کھرینچ کر رکھ دے۔ نہیں، وہ گھنی بھی نہیں تھی، اس کے مرغولے تھے جو رہ رہ کر ہوا میں پھیل رہے تھے اور ناک میں اترے جا رہے تھے۔ میرے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ وہیل کو تھامنے کے بجائے آنکھوں کو مسل رہے تھے کہ برابر میں ایک گاڑی نے تیزی سے بریک لگائے اور اور زور سے روکا ورنہ میری گاڑی تو اس سے بھڑ ہی گئی تھی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ اتنے ہی قریب ایک گاڑی اور تھی، اس کے برابر ایک اور۔۔۔ سامنے والی گاڑی ابھی چلی ہی نہ تھی اور پیچھے سے ایک اور آ رہی تھی۔ اس کے ڈرائیور نے بھی جیسے ہارن پر ہاتھ رکھ کر باقی سب کچھ بھلا دیا تھا۔

    سڑک گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ سب لوگ سمندر کی طرف پیٹھ کرکے شہر کا رخ کر رہے تھے۔ ہوا بوجھل تھی اور بدبو ناقابل برداشت۔۔۔ میں اب امی جان کے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہا تھا۔ گاڑی کے آگے گاڑی آ گئی تھی، سڑک سے اتر کر کچے میں لوگوں نے گاڑیاں ڈال دی تھیں، ہارن چیخ رہے تھے، دونوں طرف سے گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ پولیس کے سپاہی کا پتا تھا نہ ٹریفک والوں کا، لوگ دیوانہ وار نکل پڑے تھے اور کسی کو پتا نہ تھا کہ راتوں رات کیا ہو گیا ہے۔ سی ویو اور کلفٹن کی طرف سے آنے والی سڑکیں گاڑیوں اور لوگوں سے بھرتی جا رہی تھیں اور جیسے ان کی ہی رفتار سے وہ دبیز بدبو بھی امڈی چلی آ رہی تھی، دھویں کی طرح پھیلتی ہوئی، سانس میں گھل کر جی متلا دینے اور آنکھیں جلانے والی بدبو۔ یہ اسی طرف سے آرہی تھی جدھر سے وہ سب آ رہے تھے۔

    ’’انہوں نے سمندر کو گندہ کر دیا ہے۔‘‘ کسی نے چلتی گاڑی کی کھڑکی میں سے منھ نکال کر کہا۔ میں نے اس کی آواز آدھی سنی، آدھی نہیں سنی۔ کوئی بچہ ہوگا۔ برافروختہ اور برہم، جسے معلوم بھی نہیں کہ اس سے اس کے بچپن کا سمندر چھین لیا گیا ہے۔

    مگر مجھے اس بات پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ٹریفک کا سپاہی نہ جانے کہاں سے نمودار ہوکر سیٹی بجا رہا تھا اور آڑی ترچھی پھنسی ہوئی گاڑیوں کو ایک ہی سمت مڑنے کے لیے اشارہ کر رہا تھا، وہ سمت جہاں بہت پہلے سے پھنسی ہوئی گاڑیوں کی قطار کی وجہ سے مڑنا ممکن ہی نہیں تھا۔ گاڑی چند انچ کھسکتی تو پتا چلتا کہ سی ویو اور درخشاں کے اندر اندر گلیوں سے لوگ اتنی تیزی اور اس تعداد میں نکلے ہیں کہ سڑکیں گاڑیوں سے بھر گئی ہیں۔ سپاہی سیٹی بجاتےادھر سے ادھر بھاگے جا رہا تھا، کوئی اس پر خاص توجہ نہیں دے رہا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ زہریلی گیس کا فوجی حملہ ہے نہ غیرمرئی آسیب، کلفٹن کے ساحل پر پھنسے ہوئے اس جہاز سے تیل رس رہا ہے جس کی تصویر کل رات بی بی سی ٹی وی پر دکھائی گئی تھی یا شاید کسی انڈین چینل پر۔ ٹی وی کی تصویر حقیقت بن گئی، اس پر غور کرنے کا کس کے پاس وقت تھا۔ اصل بات تو یہ تھی کہ اس جگہ سے نکلیں، ٹریفک کے اس پاگل کر دینے والے رش سے باہر آئیں۔ لوگ چیخ رہے تھے، شور مچا رہے تھے، ہارن بے تحاشا بجائے جا رہے تھے۔ دو آدمی، جن کی گاڑیاں ٹکرا گئی تھیں، ہاتھا پائی پر اتر آئے تھے اور سامنے والی گاڑی میں سے ایک عورت کے قے کرنے کی آواز آ رہی تھی۔

    شہر کے ساتھ ساتھ سمندر کے کنارے کنارے چلتا چلا آ رہا تھا میں۔ شہر اور سمندر مجھے ان دوبیماروں کی طرح لگے، اسپتال میں بستروں کی کمی کی وجہ سے جن کو ایک ساتھ لٹا دیا گیا ہو۔ کسے پروا کہ ان کا انفیکشن بھی مشترک ہے کہ نہیں اور کیا دونوں کا جنازہ اسپتال سے ساتھ ہی اٹھایا جائےگا۔ پھیکا چہرہ، جھلسا ہوا رنگ اور خون نچڑے ہوے دق زدہ بدن۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بیمار ڈال دیا تھا اور اب ایک ہی بستر پر ایک دوسرے کے بوجھل سانس گن رہے تھے۔۔۔ ایک ایک کرکے۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کتنے ہی دنوں کے لیے میری یہ سمندر کی آخری جھلک تھی۔

    اب نہیں دیکھ سکوں گا جو سمندر میری شاموں میں گھلا ہوا تھا اور جس پر پھیلتی ہوئی اجالے کی کرن سے میرا دن روشن ہوتا تھا، جس کی ہواؤں میں میرے بال بکھرتے تھے اور جس کے جزر و مد میں مجھے اپنے موڈز کا swing نظر آتا تھا۔ جیسے یہ دوست بچھڑ رہا ہے اور پتا بھی نہیں چل رہا ہے کہ کیوں، کتنے دن کے لیے۔

    مگر مجھے فکر سمندر کی نہیں، امی کی تھی۔ میرے یوں واپس آجانے پر وہ کیا کریں گی۔ گھر میں مجھے قبول تو انہوں نے کر لیا تھا، اس لیے کہ اس وقت اس کے سوا چارہ نہ تھا اور کراچی کے ساحل پر تیل بردار جہاز سے Oil Spill کی خبر بڑے بڑے حروف میں اگلی صبح کے اخباروں میں پہلے صفحے پر چھپ چکی تھی۔ اتنی رات گئے سرخ آنکھوں، بکھرے بالوں کے ساتھ دروازے کی گھنٹی بجاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ دروازہ کھول کر ایک طرف ہو گئیں۔ وہ کیا چیز ہے جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے نہیں پوچھا تو میں نے بتایا بھی نہیں۔ میرے لیے بتانا یوں بھی مشکل تھا کہ مجھے خود اس وقت نہیں معلوم تھا (پوری طرح تو اب بھی نہیں معلوم) اور بس یہی غنیمت لگ رہا تھا کہ انہوں نے یہ نہیں کہہ دیا کہ فالتو آدمی گھر کے اندر نہ آئیں۔ سر جھکائے میں اندر آ گیا اور اس کونے میں بیٹھ گیا جو ٹیلی وژن کے سامنے میری مستقل نشست سی بن گیا تھا۔ یہاں ایک فائدہ یہ تھا کہ ہر گھنٹے خبریں سننے کے ساتھ ساتھ میں جان سکتا تھا کہ سمندر کے روگ نے مجھے گھر کی دہلیز پر دوبارہ پہنچا دیا ہے۔

    سمندر تو بس ایک بہانہ ہے۔

    سمندر کے ہاتھوں زک پہنچنے سے پہلے میں امی جان کا صدمہ جھیل چکا ہوں۔ مگر میں اس کا قصوروار انہیں کسی طرح نہیں ٹھیرا سکتا۔ انہوں نے کتنی بار موقع دیا۔ میں ہی بدل کے نہ دیا۔ ’’پھر آ گئے محلے والوں کی جان کو روکے؟‘‘ وہ رات گئے دروازہ کھولتے ہی شروع ہو جاتی تھیں۔ ’’ائے میں کہتی ہوں یہ اوائی توائی پھرنا چھوڑ دو۔ کسی کام دھندے سے لگو۔ چار پیسے کماکے لانے کا ہنر سیکھو۔ کب تک جوتیاں چٹخاتے رہوگے اور چھوٹے بھائی کا منھ دیکھتے رہوگے؟‘‘

    ایک ریلا سا آتا اور میں شرابور ہوتا چلا جاتا۔ اب تو اس کا ایک ایک لفظ مانوس ہو چلا تھا، ’’سویرے سے یہی رونی صورت لیے پھر رہے ہو کہ کوئی دیکھ لے تو دن بھر روٹی نصیب نہ ہو۔ بال بناؤ، داڑھی صاف کرو۔ رات کے کپڑے بدلو۔ دو دن ہو گئے۔ کیا چیکٹ اتروائی کا جوڑا لو گے؟ یاد نہیں؟ آج چھوٹے بھائی کے سسرال والے آنے کو ہیں۔ آئے گئے کا لحاظ نہیں کرتے تو سمدھیانے کی شرم کر لو۔ خود تو کسی کام کے تھے نہیں۔ کتنی بار کہا خیالی ہیولے کو زندگی کا ساتھی سمجھنا چھوڑ دو۔ اور یہ دلدر وبال اولاد کی جگہ نہیں لے سکتے۔ یہ جی کا روگ ہیں۔‘‘

    ٹی وی کےآگے اسی نشست پر بیٹھا ہوا تھا میں۔ خیال تو ان لوگوں کو کرنا چاہیے تھا جو مہمان بن کر دوسرے گھر میں آئے تھے۔ خبر نہیں انہوں نے ناک بھوں چڑھائی یا امی جان نے پیش بندی کر ڈالی۔ وہ کمرے کی دہلیز پر کھڑے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ جگہ کہاں ہے، کہاں بیٹھیں۔ ’’ابھی تھوڑی دیر میں جگہ کھل جائےگی۔ فالتو آدمی باہر چلے جائیں۔‘‘ میری طرف رخ کر کے وہ کہہ رہی تھیں۔ میں اٹھا اور اس دن بھی سمندر کی طرف چلا گیا۔

    سمندر میری عادت نہیں تھا۔ میرے لیے ٹھکانا بھی نہیں تھا۔ وہاں جانا میں نے دوبارہ شروع کیا تھا کہ بے کار، بے مصرف قدم اٹھانے اور پلٹنے کے لیے گنجایش بہت تھی۔ سمندر بھی بے محابا تھا۔ وہی بچپن کا دیکھا بھالا اور ساتھ کھیلا ہوا سمندر۔ اس وقت سمندر سے ابو وابستہ تھے۔ ہاکس بے کی اسی ایک ہٹ کے برآمدے میں دھوپ سینکنا، پتھر کی سیڑھیوں سے اترکر ریت پر آنا، دھنستے ہوئے پیروں سے پھسلتی ہوئی ریت پر چلنا، انگلیوں سے ریت پر نام لکھنا اور حروف کے پیچ و خم میں پانی بھرتے ہوئے دیکھنا، ریت کے گھروندے بنانا، بالٹی سےان میں پانی انڈیلنا اور ریت کی دیواروں پر سیپیاں سجانا، اونٹ کی سواری کرنا اور لہروں پر اچھلتی ہوئی گیند کے ساتھ دور تک پانی میں چلے جانا یہاں تک کہ چیختی ہوئی امی جان ذرا سا دھبا بن جائیں۔۔۔

    تھرماس میں چائے اور ٹوکری میں سینڈوچ بھر کر اتوار کے اتوار ابو کے دفتر کی ہٹ پر کتنی ہی شاموں کا سورج سمندر کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے کہ اس کا پگھلتا، لرزتا عکس اب بھی آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ ابو کی انگلی تھام کر اسی سمندر کے کنارے دور تک چلا جانا۔ ہنستے مسکراتے ابو طرح طرح کے منھ بناتے جاتے، گالوں میں ہوا بھر کر آوازیں نکالتے، بے تکے مزاحیہ شعر پڑھتے اور گانے سناتے۔۔۔

    اینا مینا ڈیکا

    ڈائی ڈاما نیکا

    رام پام پوچ، رام پام پوچ

    لہروں کے پیہم شور کے ساتھ ان کی آواز کا اتار چڑھاؤ مجھے اب بھی یاد ہے اور ہر بار لہریں یہی گیت مجھے سناتی رہتی ہیں۔ ابو کی موت کے بعد سمندر نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ امی جان کو اتنے بے پناہ پانی سے ہول اٹھتے تھے اور یوں بھی وہ شہر کی آدمی تھیں۔۔۔ تنگ، اندھیری، پرپیچ گلیاں، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی آڑی ترچھی عمارتیں، بہت سارے لوگ، ہجوم، تل دھرنے کو جگہ نہیں، فالتو لوگ باہر جائیں۔۔۔

    مگر کہاں جائیں؟ سمندر نے بھی بلانا چھوڑ دیا۔

    اس شام بھی میرے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نے سمندر کا رخ کیا۔ میں اس سے پہلے ٹی وی کے سامنے والے مانوس، آرام دہ کونے سےاٹھ جانا چاہتا تھا کہ امی جان کی چیختی ہوئی آواز اور چھوٹے بھائی کی گھورتی ہوئی نظریں مجھے فالتو آدمی ہونے کا احساس دلائیں۔ ابو کی پرانی، جھولنے والی کرسی چپ تھی، بالکل چپ، جیسے دم بخود رہ گئی ہو۔ میں بھی چپ چاپ اٹھا اور نظریں بچاکر سمندر کے پاس آ گیا حالانکہ میں نے باہر ٹی وی پر بار بار دہرایا جانے والا یہ اعلان سن لیا تھا کہ پورا ساحلی علاقہ ’’کارڈون آف‘‘ کر دیا گیا ہے اور فضائی آلودگی کی وجہ سے عام شہریوں کا داخلہ وہاں بند ہے۔ میں سڑک چھوڑ کر کچی زمین پر آیا اور پیدل چلتا چلا گیا یہاں تک کہ قدموں تلے زمین بدل کر بھر بھری ریت بن گئی، ساحل کی نشانی۔ سمندر سامنے تھا۔

    شام کا اندھیرا سمندر میں گھلنے لگا تھا۔ سمندر کی رنگت پہلے ہی تبدیل ہو چکی تھی۔ نیلگوں سبز اور سفید پانی پر تیل کے کالے کالے چکتے تیر رہے تھے۔ ان کا حجم بڑھ رہا تھا اور تعداد بھی۔ سمندر کے اوپر جیسے ایک اور سمندر۔۔۔ سیاہ فام، وزن دار، دم گھونٹ دینے والا، زندگی کا دشمن۔۔۔ آنکھوں میں جلن ہونے لگتی اور بو بڑھتی جاتی جوں جوں آپ سمندر کے نزدیک آتے، مگر میں جان بوجھ کر ہوا کے مخالف سمت میں کھڑا تھا۔ جہاں جہاں سے پانی اترا تھا، وہاں ریت پر بھی سیاہ دھبے تھے۔ ریت بھی آلودہ ہوئی تھی اور ٹیلی وژن کی خبروں میں میں نے دیکھا تھا کہ اس ریت کی ٹوکریاں بھر بھر کر ہٹائی جارہی ہیں اور ٹرک میں لادی جارہی ہیں۔ شہر کے مضافات میں جس بستی کے پاس یہ ریت دفن کی جا رہی تھی وہاں کے لوگ بھی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

    ڈوبتے سورج کے سامنے وہ غیرملکی جہاز نظر آ رہا تھا جو خلیج کی کسی بندرگاہ سے تیل لاد کر لا رہا تھا اور ساحل پر بھٹک کر کسی چٹان سے ٹکرا گیا تھا۔ یا پھر وہ پہلے ہی سے نقصان رسیدہ جہاز تھا جو پوری احتیاطی جانچ پڑتال کے بغیر، ایک بڑی رقم کی فراہمی کے بعد، حکام سے اجازت خرید کر کے ادھر آگیا تھا اور پھر حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ کیا ہوا تھا، یہ پوری طرح کسی کو بھی نہیں معلوم تھا۔ شہر کے لوگ بھی خبروں سے ٹکڑے جوڑ جوڑ کر بس اندازہ ہی لگا سکتے تھے۔ ان کو محض اتنا معلوم تھا کہ اس سے تیل رس رہا ہے اور بہہ بہہ کر یہ تیل ساحل پر تباہی مچا رہا ہے۔ ان سب قیاس آرائیوں اور اندازوں سے دور، سمندر کے بیچ میں کھڑا ہوا، موجوں سے ٹکراتا ہوا جہاز کسی بدروح کا ہیولا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔ اکیلا، ، خالی، اندھیرا۔۔۔

    ساحل پر اس کو دیکھنے کے لیے جمع ہو جانے والوں کا وہ ہجوم بھی چھٹ گیا تھا جو شروع کے ایک آدھ دن رات گئے تک وہاں جمع ہونے لگا تھا۔ شہر والوں کو جو نیا تماشا مل گیا تھا، پولیس نے اسے روک دیا۔ میں اکیلا ہی اس طرف ٹہلتا گیا جس طرف پولیس نہیں تھی۔ بوجھل ہوا اب بھی دم گھونٹ رہی تھی اور پانی کی چمک سیاہی مایل تھی۔ ریت میں قدموں کے نشان بن رہے تھے اور میں ان کی ترتیب دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ چلتے چلتے پاؤں کسی نرم چیز سے ٹکرائے۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ وہ پرندہ تھا جو وہاں مرا ہوا پڑا تھا۔ اس کی چونچ مضبوطی سے بند تھی اور چوڑے چوڑے پروں پر تیل کی سیاہی جھلک رہی تھی۔۔۔ وہ اڑ سکا نہ تیر سکا۔ کتنی تکلیف سے مرا ہوگا، میں نے سوچا اور واپس مڑ گیا۔

    ’’لوگ سمندری تفریح گاہوں کا رخ نہ کریں، متبادل مقامات کا ارادہ کریں جب تک کہ سمندر کو تفریح کے لیے دوبارہ کھول نہیں دیا جاتا۔۔۔‘‘ حکومت کے ذرایع کا یہ اعلان ریڈیو اور ٹی وی سے بار بار نشر ہونے لگا۔ ایک لمحے کے لیے بھی میں اس پر یقین نہیں کر سکا۔ ماحولیاتی آلودگی اور سمندری حیات کو نقصان کی تفصیل تو میری سمجھ سے باہر تھے، اتنا مجھے معلوم تھا کہ یہ محض تفریح گاہ کی عارضی بندش کا معاملہ نہیں ہے۔ مجھے ان بے شمار لوگوں کا دھیان آیا جو اس سمندر کے حوالے سے اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں، بالواسطہ ہی سہی۔۔۔ ساحل کے ساتھ بنے ہوئے ہوٹلوں کے بیرے، مداری اور بندر تماشا دکھانے والے، گھوڑے کی سواری کرانے والے، فقیر، غبارے والے، بندوق کا نشانہ لگوانے والے، جیب کترے، طوائفیں، ہیجڑے، قسمت کا حال بتانے والے، جوتے پالش کرنے والے، آئس کریم بیچنے والے، رکشہ ٹیکسی چلانے والے۔۔۔ اب یہ اپنی روزی روٹی کے لیے کیا کریں گے سمندر کے بغیر؟

    لوگوں کو وہاں جانے سے روکنےکے لیے پولیس موبائل پر سے میگافون کی یہ آواز اور کچھ نہیں تھی، مجھے لگا شہر کا سمندر ان سے امی جان کی آواز میں کہہ رہا ہو، فالتو آدمی باہر چلے جائیں، ادھر کارخ ہرگز نہ کریں۔ یہ اعلان سن کر ان کے جسم کی بھی ساری طاقت سلب ہو جائےگی۔ نہ ہلنے کی طاقت رہے گی نہ اٹھنے کی مجال۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں روز اس کے پاس جاؤں گا کہ سمندر بیمار ہے۔ سمندر سے ملاقات کا وقت کوئی نہیں ہے۔

    مجھے جب موقع ملتا میں سمندر کی ملاقات کو چلا جاتا۔ امی جان آتے جاتے دیکھ رہی تھیں، مگر اس وقت تک انہو ں نے کچھ کہا نہیں۔ میں نے منھ پر باندھنے کے لیے وہ سفید کپڑا لے لیا جس کے بغیر سمندر کے قریب کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ عجیب سا لگا مجھے، جیسے طاعون یا کسی متعدی مرض میں مبتلا آدمی کو دیکھنے جارہے ہوں۔ مگر میں نے سفید کپڑا لگا لیا اور بدبو سے بچنے کے لیے ناک سکیڑتا ہوا اپنے گھر جا پہنچا۔

    گھر خالی پڑا تھا۔ آس پڑوس کے مکانوں میں اکا دکا آدمی تھا۔ لوگ جیسے اس بستی کو چھوڑ گئے تھے۔ میں اپنے مکان کی بالکنی میں بیٹھ گیا اور خالی بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگا۔ میں نے دیکھا سمندر قریب آ رہا ہے۔ اس میں سے بدبو نہیں امڈ رہی بلکہ اس میں کشش ہے۔ میں نے ایک بار پھر خواب دیکھا کہ میں اس کام میں مصروف ہوں جسے انگریزی میں محبت کرنا کہنے لگے ہیں۔ اردو میں جو کہتے ہیں وہ اتنا برا معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیں تو اچھا۔ نہیں، اس کو کچھ کہنا چھوڑ دیں۔ سمندر خوبصورت اور زورآور۔ اس میں سپردگی تھی، بانکپن تھا۔ وہ نرم ہو کر دب جاتا، سختا کر لپکتا تھا، بدمست ہوکر آگے بڑھا آتا تھا، والہانہ پن کے ساتھ لپٹ جاتا تھا، اس کے لب وا ہو جاتے، آغوش وسیع ہونے لگتی۔ سینہ کشادہ ہو جاتا اور نچلا بدن کپکپانے لگتا۔ یہ سمندر محبت کرنے کے لیے بہت تھا۔

    دستک سن کر میں نے بالکنی سے جھانکا۔۔۔ اس اجاڑ بستی میں کون آئےگا۔۔۔؟ سمندر میرے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ میرے گھر پہنچ گیا تھا۔ میں نے نکل کر دیکھا، گلی میں دور دور کوئی نہ تھا۔ میں نے جلدی سے دروازے کی چٹخنی کھول دی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی دعوت دیتی ہوئی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ میں اس کی طرف بڑھا تو اس کے لب پیوست ہو گئے۔ جیسے وہ ایک بہت بڑا دہانہ تھا، گیلا اور گہرائی میں کھلتا ہوا، جو بوسوں کی نمی سے بھر جانے کو بے تاب تھا۔ اس کا سینہ ہل رہا تھا، اس کے بازو کانپ رہے تھے اور وہ لپک رہا تھا۔۔۔

    مگر ان لوگوں کا انکار پیہم اور بےحد اصرار کے ساتھ تھا۔ ایک کے بعد ایک اعلیٰ افسر کا انٹرویو ٹی وی چینلز پر نشر ہوتا جن میں وہ مسلسل کہے جاتے کہ یہ وقتی حادثہ ہے، تفریح گاہیں جلد ہی کھول دی جائیں گی۔۔۔ ایک اہم افسر نے لوگوں کی تشویش کی ساری ذمہ داری غیرملکی نشریات پر ڈال دی، ’’ان کا دعویٰ غلط ہے۔ لوگ بیمار ہوکر نہیں بھاگے۔ چند مچھلیوں اور پرندوں کے سوا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ایک ہی کچھوا ہے جسے وہ بار بار دکھائے جارہے ہیں۔ سرکاری تحقیقات جاری ہیں۔ عوام سے اپیل کی جاتی ہے۔۔۔‘‘

    میرے پاؤں خود بخود اٹھ گئے۔ بالکنی کی سیڑھیاں اتر کر میں ساحل کی طرف چلا آیا۔ دم گھونٹ دینے والی بدبو اور آنکھوں کی جلن والی تیزی ہوا سے چھنٹی نہیں تھی۔ مگر اب کی بار کوئی اور ہی چیز مجھے وہاں لیے جا رہی تھی۔ شہر سے الٹے رخ، سمندر کی جانب۔ جہاں جہاں سے ریت اٹھائی گئی تھی، وہاں گڑھے سے بن گئے تھے جو دھوپ کی چمک میں اور بھی بدنما لگتے۔ کسی گڑھے میں پانی بھر گیا تھا اور ایک میں مردہ مچھلیاں۔ سمندر کے خروج کے ساتھ آنے والی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں۔ واپس پلٹتا ہوا سمندر انہیں ریت پر ہی چھوڑ جاتا۔ جیسے سمندر اپنے مردے اگل رہا ہو۔ ساحل پر ہر وقت منڈلانے والے چیل کوے انہیں کھاتے نہ جنگلی کتے۔ ان کے گلتے ہوئے ڈھیر سے بساند اٹھ رہی تھی۔ اس گڑھے سے ذرا آگے ہی میں نے ایک کچھوا مرا ہوا دیکھا۔ وہ بھی مٹی میں آدھا دھنسا ہوا تھا۔ اور اس سے آگے ایک سی گل۔

    میں نے ماسک ہٹاکر اپنا ننگا چہرہ ان کے سامنے کردیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے کہاں ہونا ہے اور کس حالت میں۔ اب مجھے اس بیمار سمندر کی نگاہ داری پر مامور کر دیا گیا ہے۔ میں نے جان لیا کہ میں مر گیا۔ میرا شہر مر گیا۔ میرے شہر کا سمندر مر گیا۔ اس کے ساحل مر گئے۔ سیکڑوں مچھلیاں، کچھوے، بحری پرندے، کیکڑے، آبی پودے۔۔۔ مرنے کے بعد بھی ہم برسوں ایڑیاں رگڑتے، سسکیاں بھرتے، دم توڑتے رہیں گے اور امی جان کی آواز گونجتی رہےگی۔۔۔ فالتو آدمی، باہر۔۔۔

    ایک بار پھر میں نے سمندر کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے ایک پٹے ہوئے بچے کی طرح لگ رہا تھا جو ڈانٹ کھاتے کھاتے رونے لگا ہو۔ سسکیاں بند نہیں ہو رہی ہیں۔ آنسوؤں نے چہرے پر میلی لکیر ڈال دی ہے اور ناک بہہ بہہ کر منھ میں جا رہی ہے جس پر مکھیاں بھنک رہی ہیں۔ اس بیمار بچے کے آنسو کون پونچھےگا؟ سمندر کی طرف میری امی جان تو آنے سے رہیں۔ ان کا ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور ہونٹ کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ جو کہہ رہی تھیں، میں ان کے ہونٹوں پر پڑھ سکتا تھا۔۔۔

    میں نے شہر کی طرف سے پیٹھ موڑ لی اور سمندر کا رخ کر کے آگے بڑھتا گیا۔ سمندر میرے سامنے اٹھ کر دوڑنے لگا اور دوڑتے دوڑتے پھیلتا جا رہا تھا۔۔۔

    مأخذ:

    میرے دن گزر رہے ہیں (Pg. 37)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: شہرزاد، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے