Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنگ تراش

عشرت ناہید

سنگ تراش

عشرت ناہید

MORE BYعشرت ناہید

    وہ ایک ماہر سنگ تراش تھا اور اپنی صناعانہ صفتوں سے معمور انگلیوں سے جب بھی کوئی بت تراشتا تو ایسا لگتا کہ یہ مورت بس ابھی بول پڑیگی اور اس خوبی کا راز صرف یہ تھا کہ وہ مجسمہ سازی کرتے وقت اپنی روح کا کچھ حصہ اس مجسمہ میں منتقل کر دیتا تھا۔ وہ روح جو کہ بہت پاکیزہ تھی اور سنگ تراش کے جسم پر قبا کی مانند لپٹی ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی اس کے ہنر کے فسوں میں گرفتار ہو جاتا۔ اس کے مجسموں کو دیکھنے اور خریدنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے اور منہ مانگی قیمت ادا کرتے۔ اس کا فن اس کا جنون بن چکا تھا دراصل اس جنون کے پیچھے اس کا عشق تھا وہ جو دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا تھا جو کہ عرصہ ہوا اپنے معشوق حقیقی کے قرب کی تمنا میں اسے چھوڑ تنہائی کا درد بخش گیا تھا اس کی جدائی نے اسے ایک نئے سوز سے ہمکنار کر دیا تھا۔ سنگ تراش اپنی ا س لافانی محبت کو ایک مجسمہ کی طرح دل میں بساکر اس کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف تھا اور اس کا فن اپنے نکھار کے عروج کی طرف گامزن۔

    آہستہ آہستہ اس کا فن مقدس عبادت میں بدلتا جا رہا تھا اور وہ خود ایک تپسوی کی طرح اس کی ارچنا کر رہا تھا، وہ لین تھا اپنی سادھنا میں، وہ یہ بھول گیا تھا کہ تپسیا جب آخری مرحلے پر پہنچنے کو ہوتی ہے تو دیوتا بھی حسد کا شکار ہو اٹھتے ہیں اور برہما سے وشوامتر کا ملن ناممکن ہو جاتا ہے۔ مینکا رقص کا سہارا لے کر تپسیا بھنگ بھی کر دیتی ہے۔ ان تمام خدشات سے پرے وہ دنیا و مافیہا سے بےنیاز اپنے کام میں منہمک رہتا، صرف اور صرف پتھر اس کے سامنے ہوتے اور وہ اپنی چھوٹی بڑی ہتھوڑیوں سے انہیں تراشتا رہتا۔ لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے بت سازی کے عمل میں مشغول ہوتا، بے قیمت پتھر اس کی انگلیوں کی جنبش سے ا نمو ل بن رہے ہوتے، زندگی نمو پارہی ہوتی کہ کوئی پتھر آکر اس کی ذات کے خاموش سمندر میں تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کرتا وہ چونک اٹھتا لہروں کا ارتعاش کچھ لمحوں کے لیے اسے بے چین ضرور کرتا مگر وہ جلد ہی لہروں کو سکوت کے لیے تہہ آب بھیج دیتا اور پھر محو ہو جاتا اپنی عبادت میں، لیکن جب ایسا بار بار ہونے لگا تو اس نے اپنی قبا کو سمیٹ کر اپنی ذات کو ایک مجسمے میں ڈھال دیا کہ کوئی اسے ڈھونڈ نہ پائے۔

    اس نے ایک انتہائی حسین شہزادی کا عکس پتھر پر کچھ یوں اکیرا کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ سنگ تراش کی روح شہزادی میں تحلیل کرگئی ہو یا پھر جیتی جاگتی سی شہزادی اس مجسمہ میں سما گئی ہو، من و تو کا فرق مٹ چکا تھا گو کہ ایسا کرتے وقت اس کا وجود لہو لہان ہوتا رہا۔ اس کی انگلیوں سے خون رستا رہا مگر وہ دیوانہ وار ضرب لگاتا رہا اور آخر کار وہ ایک نایاب مجسمہ تر اشنے میں کامیاب ہو گیا۔ شہزادی کی آنکھیں دیکھ کر نیلگوں سمندر کا گمان ہوتا اس کے تراشیدہ ہونٹ سرخی مائل محسوس ہوتے۔ یہی دو اعضاء ایسے تھے جو دیدہ بینا پر سنگ تراش کا راز کھول سکتے تھے اور دیدہ نابینا کے لیے تو وہ محض ایک نادر مجسمہ تھا جس سے وہ صرف رومانیت کا حظ اٹھا سکتا تھا۔ شہزادی کی مخمور آنکھوں میں کرب کا سمندر سا ہلکورے لے رہا تھا اس کے رسیلے ہونٹوں میں ایک تشنگی چھپی ہوئی تھی۔ جن میں صدیوں کی ان بجھی پیاس تھی ایک درد بھری روح تھی جو شہزادی کی قبا اوڑھے قلو پطرہ کے حسن کو مات دیتی مونا لیزا کی مسکراہٹ بکھیر رہی تھی۔

    لیکن نگاہ زرقاء شہزادی کے درون کا سفر طے کر چکی تھی۔ ایک مینکا اس کی تپسیا بھنگ کرنے کا قصد کر بیٹھی تھی، لیکن اس بار مینکا نے رقاصہ کا روپ نہیں دھارا تھا بلکہ نقرئی گھنگھروؤں والی آواز میں ڈھل گئی تھی۔ اس کی نگاہوں میں نہیں لہجے میں بنگال کا جادو تھا وہ بات کرنے کے ہنر ہی سے نہیں موسیقی کے تمام سروں سے بھی واقف تھی، اسے معلوم تھا کہ کہاں اور کس لفظ کی ادائیگی کیسے کرنا ہے۔ کس سُر پر زور دینا ہے کسے ہلکے سے ادا کر دینے سے دل ِ سخت مانند ِ موم پگھل جاتا ہے۔ الفاظ کی شمع کس طرح پروانے کو خاکستر کر دیتی ہے.

    وہ جس کا تعارف صرف ایک آواز تھا۔

    اس کا وجود محض الفاظ کا ذخیرہ تھا۔

    لہجہ کا زیر و بم تھا۔۔۔

    لفظوں کا جادو تھا۔۔۔

    حروف کامعنی خیز سلسلہ تھا۔۔۔

    جو کبھی خمار میں ڈوبا ہوتا تو کبھی ایک سرور میں۔

    افف وہ

    مدھ بھری آواز۔۔۔

    اسے اپنی آواز پر بلا کا اعتماد تھا کہ وہ سنگ تراش کے خود ساختہ مجسمے کو اسی کی بدولت پاش پاش کر دینے کا ہنر رکھتی ہے۔

    سنگ ترا ش حیران تھا کہ کوئی بھلا کیسے اس کی ردا کو ہٹا کر اس کے اصل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟

    وہ مصر تھی اسے اس قید سے آزاد کرنے کے لیے جب کہ سنگ تراش بضد تھا باہر نہ آنے کے لیے۔

    سنگ ترا ش اپنے فن پر مغرور

    تو مینکا اپنے سروں پر مسرور

    دونوں کو یہ اعتماد کہ جیت اسی کا مقدر

    ویسے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا جسے گرانے کی خواہش دونوں طرف سے کبھی نہ ہوئی رشتہ صرف آواز کا تھا۔ نہ کبھی سنگ تراش کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی نہ ہی کبھی اس نے سامنے آنا چاہا۔ عجیب تعلق تھا یہ آوازوں کا۔

    وہ جو محض سنگتراش کے فن سے متاثر ہوکر اس سے دوستی کرنے کی غرض سے آگے بڑھی تھی، اب اسے بھی اس رشتے میں ایک انجانی کشش محسوس ہونے لگی تھی، لیکن سنگتراش کے اعتماد نے اس پیارے سے جذبے کو ضد کا ایک تناور درخت بنا دیا تھا۔

    اب بات جیت اور ہار میں بدل چکی تھی۔

    خمار اور سرور کے ساتھ جب سنگ تراش کو مسحور کر دینے والی یہ آواز محبت کا مفہوم سمجھاتی تب سنگ تراش پر ایک مد ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔

    وہ کہتی ‘’محبت ایک پیارا سا موسیقی کا ردھم ہے جو دل کے تاروں کو ہولے سے چھیڑ کر کہے ’مجھے تم سے محبت ہے۔‘ اور پھر دوسرے کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہو جائیں اور مسکراہٹیں لبیک کہہ دیں وہی محبت ہے بت ساز’‘

    اس کی آواز کی جھنکار سچ میں اس کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرنے لگتی۔

    وہ اس کے سحر میں گرفتار ہونے لگتا مجسمہ کی قبا ہلکی سی چاک ہونے لگتی لیکن وہ جلد ہی ہوش میں آکر شاطرانہ طریقے سے چاک قبا کو درست کر لیتا مگر نگاہ زرقاء سے اس کا یہ عمل چھپ نہ پاتا۔ وہ اکثر خود کو سمجھاتا کہ میرے پاس تو میری محبت ہے جو صدیوں سے میرے اندر ڈیرہ ڈالے میری ہمنوا بنی ہوئی ہے بھلا کوئی اور کیسے نقب لگا سکتا ہے؟

    ‘’نہیں سنگ تراش وہ مکین نہیں وہ تو ایک چھلاوہ ہے جب تمہارا یہ خود ساختہ بت پاش پاش ہوگا تب ہی تو تم محبت کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو پاؤ گے تمہیں اس خول سے باہر نکلنا ہوگا اپنے وجود کو اس کی اصل پہچان دینا ہی ہوگی۔’‘ اس کے لہجے میں شہد اتر آتا

    ‘’نہیں نہیں، میری محبت کا حصار بہت مضبوط ہے، وہ میرے نہاں خانے کی مکین ہے جو مجھے سرشار کیے ہوئے ہے’‘

    سنگ تراش بہت معصوم ہو تم، یہ سرشاری دیکھو درد بن کر آنکھوں سے چھلک رہی ہے،

    دیکھو دیکھو سنگ تراش شہزادی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں ایک تشنگی ہے۔’‘

    ’’نہیں نہیں دیکھو وہ مسرور ہے، وہ بہت شاد ہے میری محبت میں’‘ وہ چیخ پڑتا

    وہ اپنے لفظوں میں حلاوت گھولتے ہوئے کہتی

    ’’نہیں سنگ تراش تم اس طرح خود کو بہلا رہے ہو جسے تم محبت کا نام دے رہے ہووہ تو تمہاری روح کا درد ہے۔ جس دن یہ مجسمہ چور چور ہوگا اس دن تمہیں اپنے وجود کا احساس ہوگا تمہیں خود کو پانے کے لیے ایک دن اس خول سے باہر آنا ہوگا۔’‘

    اس کی آواز میں ایک الگ طرح کا خمار ہوتا مگر لہجہ تحکمانہ سا ہو جاتا

    ‘’نہیں نہیں یہ سب جھوٹ ہے’‘وہ بےبسی سے چیخ پڑتا

    ‘’اس نہیں میں ہی تو ’ہاں پوشیدہ ہے سنگ تراش’ لا ہی تو ہونے کا ثبوت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہاری زبان سے ’نہیں‘ لفظ ادا نہیں ہوتا۔ تم اپنے آپ کو اتنا جھٹلاتے کیوں ہو؟‘‘

    وہ جھنجھلانے لگتی۔

    ‘’دیکھو دیکھو تمہارے مجسمے میں شگاف پڑنے لگا۔’‘

    وہ حیران پریشان مجسمے پر ہاتھ پھیرتا اسے ہر طرف سے دیکھتا اسے تو کوئی شگاف نظر نہیں آتا

    ‘’نہیں یہ ممکن نہیں’‘

    ‘’ایسا ہی ہے’‘

    فضا میں اس کی نقرئی گھنگھرو سی ہنسی بکھر جاتی

    ‘’ایک دن تمہارا یہ بھرم ٹوٹے گا سنگ تراش’‘

    اس کا یقین سنگ تراش کے دل کی دھڑکنوں کو پھر منتشر کرنے لگتا

    ‘’ہاں مگر یہ عین ممکن ہے کہ تم اعتراف نہ کر پاؤ کیونکہ تم ڈرپوک جو ہو ازل سے۔ لیکن آج تم مجھ سے ایک وعدہ کرو سنگ تراش کہ جس دن تمہیں کسی سے محبت ہو جائے تم اس کا اعتراف اور اظہار ضرور کروگے’‘

    ‘’نہیں میری روح مجھ سے روٹھ جائیگی’‘وہ بےبس سا نظر آنے لگتا

    ‘’روٹھ جانے دو اسے۔ سچ کو سامنے آنے د و’‘ وہ کمال ہشیاری سے قائل کرتی

    یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اب وہ آہستہ آہستہ، دن بہ دن اس کی آواز کے سرور میں کھونے لگا تھا ا س کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ میں ایک الگ طرح کا نشہ ہوتا تھا جس کی بازگشت چاروں طرف تھی جس سے وہ نجات پانا چاہتا تھا لیکن وہ جتنی کوشش کرتا تھا اتنا ہی وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جا رہا تھا اور آخر ایک دن وہ چیخ ہی پڑا۔

    ‘’ہاں۔۔۔ ہاں مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے محبت ہو گئی ہے’‘

    اور اسی لمحہ اسے محسوس ہوا کہ وہ تو دور بہت دور تھی اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی بت میں شگاف پڑ چکا تھا مجسمہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگا تھا روح نے پوری قوت سے اسے ایک بار پھر سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ بھر بھری مٹی اس کے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتی چلی گئی۔۔۔ پھسلتی چلی گئی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے