Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرل اور شمپا

مدھو رائے

سرل اور شمپا

مدھو رائے

MORE BYمدھو رائے

    سرل اور شمپا میں محبت تھی اور دونوں تقریباً ہر روز شام کے وقت باغ میں بیٹھا کرتے۔ سنیچر اور اتوار کا پورا دن ساتھ گزارتے اور باتیں کرتے تھکتے نہ تھے۔

    ایک دن شام کو سرل اور شمپا باغ میں بیٹھے پیار سے باتیں کررہے تھے اور شمپا نے سرل سے کہاتھا کہ قیامت تک یوں بیٹھ سکیں تو کتنا اچھا ہو۔ سرل بے حد دلچسپ باتیں، جنھیں سننے کو طبیعت چاہے، ایسی باتیں شمپا کو سنارہاتھا کہ یکایک باغ کی بتی ناکافی روشنی میں اس نے دیکھا کہ شمپا کا دایاں ہاتھ نظر نہ آرہا تھا۔ سرل ابتدا میں تو نہ سمجھ سکا کہ شمپا کا ہاتھ ابھی ابھی تو تھا، اتنی دیر میں کہاں غائب ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ سرل کچھ سمجھ سکتا، شمپا کا ہاتھ، پورا بازو لباس تک غائب ہوگیا۔ اس بازو کے آر پار نظر آرہاتھا۔ سرل ایک دم خوفزدہ ہوگیا۔ سرل نے بولنا جاری رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے شمپا کے ہاتھ کو غائب کردینے والے خطوط شمپا کے گلے، گردن، سر اور پورے جسم پر پہنچ گئے۔ شمپا پوری طرح سے غائب ہوگئی۔ سرل خوف کا مارا بولتا ہی رہا۔

    باغ تھا، بینچ تھی، لیکن شمپا یکایک غائب ہوگئی۔ سرل ایک دم سے بت بن گیا۔ اس کی زبان خاموش ہوگئی۔ باتیں بڑے مزے میں ہورہی تھیں۔ ایسامعلوم ہوتا تھا کہ سرل بولنے سے کبھی تھکے گا نہیں، لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ شمپا غائب ہوگئی۔ سرل کوئی فیصلہ نہ کرسکا کہ شمپا کے غائب ہوجانے کی وجہ سے اسے بیٹھے رہنا چاہیے، تلاش کرنا چاہیے یا چلے جانا چاہیے۔

    سرل نے آہستہ سے پوچھا، شمپا، تو ہے؟ لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ سرل کا خوف دور ہوگیا تھا۔ حیرت کم ہوگئی تھی۔ آہستہ آہستہ اکیلے ہی اکیلے بولنے کے احساس سے اس نے دانتوں تلے زبان دبالی۔ وہم ہوگا۔ سرل کھڑا ہوگیا۔ اس خوف سے کہ کہیں بینچ اسے بزدل نہ سمجھ لے، وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑا رہا، پھر جیسے بینچ کی نظریں بچا کر وہ وہاں سے کھسکنے اور پھر آہستہ آہستہ چلنے لگا، پھر تیز تیز قدم اٹھانے لگا اور آخر کار بھاگ کر باہر سڑک پرآگیا۔

    سرل کو یاد آیا کہ شمپا غائب ہوگئی ہے۔ سرل نے فیصلہ کیا کہ شمپا کے گھر جاکر معلوم کیا جائے۔ وہ چلتے چلتے ہوٹل کے قریب پہنچا۔ اس ہوٹل میں سرل اور شمپا روز چائے پیا کرتے تھے۔ سرل چائے دانی میں چائے پسند کرتاتھا۔ چائے دانی میں اٹھتی ہوئی چائے کی پتیوں کی بو سونگھنے سے اسے نشہ سا چڑھ جاتا تھا۔ ہوٹل میں فون تھا، جہاں اس وقت چند نوجوان لڑکے پبلک فون پر شرارتیں کررہے تھے۔ رسیور میں سننے کے ہی جگہ سے سن رہے تھے اور اسی میں بول رہے تھے۔ سرل بیزاری سے کھڑا رہا۔ ان لڑکوں نے سرل کو کئی دفعہ شمپا کے ساتھ دیکھاتھا، آوازے کسے تھے۔ کوئی نام نہ جانتا تھا لیکن صورت سے آشنا تھے۔ سرل کا خیال تھا کہ اسے فون کرنے آتا دیکھ کر یہ لڑکے ہنسی ٹھٹھا کرنے لگیں گے لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس پر نظر پڑتے ہی لڑکے خاموش ہوگئے اور احترام سے دور ہٹ گئے۔ سرل نے فون ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ہیلو۔۔۔ سرل نے پوچھا، شمپا ہے؟

    سرل کی سمجھ میں نہ آیاکہ اس فون پر کچھ سنائی کیوں نہیں دیتا۔ اس نے فون کو اوندھا کرکے سکے ڈالنے کے ڈبے پر ہاتھ مار کر سننے کی کوشش کی لیکن کچھ سنائی دیا ہی نہیں۔ ہوٹل کا منیجر اس کا واقف کار تھا۔ اس نے اور لڑکوں نے کوشش کی۔ فون میں کوئی خرابی نہ تھی۔ سرل نے پھر کوشش کی۔ دوسری طرف سے آواز آرہی تھی، ہیلو۔ سرل پوچھ رہا تھا، شمپا وہاں ہے؟ دوسری طرف سے سنائی دیا۔۔۔ شمپا؟ اور بس۔ پھر خاموشی چھا جاتی۔

    سرل نے فون رکھ دیا۔ وہ سوچ میں غرق، حیرت میں ڈوبا ہوا اور آہستہ دانت پیستا باہر آیا۔ ہوٹل کے باہر پان کی دوکان تھی۔ اس نے وہاں رک کر کسی دو آدمیوں کو رکشا میں سوار ہوکر کہیں جاتے دیکھا۔ اسے یاد آیاکہ شمپا کے گھر رکشا میں بیٹھ کر ہی جایاجاسکتا ہے۔ سرل رکشا میں بیٹھ کر شمپا کے گھر پہنچا۔ باہر رکشا روکے رکھنا چاہا۔ شاید شمپا گھر میں ہوتو اسے ساتھ لے جاسکے۔ سرل نے جیب ٹٹولی، پیسے پورے نہ تھے۔ سرل نے رکشا رخصت کردی۔ گھر میں گیا۔

    ’’شمپا؟‘‘

    شمپا کے گھر میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔

    ’’شمپا کون؟‘‘

    ارے! سرل نے سوچا، یہ کیا؟ شمپا کے گھر میں ہی کوئی شمپا کو جانتا نہیں؟ تب اسے یاد آیا کہ شمپا کے گھر میں سب شمپا کو بے بی کہتے تھے۔ وہ پوچھنے ہی والا تھا، بے بی کہاں ہے کہ گھر میں سے ایک بڑی عمر کی خاتون، پیوند لگی ساڑی سے آٹے میں لتھڑے ہوئے ہاتھ پوچھتی باہر آئیں۔ شمپا کی پھوپھی تھیں۔ ان کا نام چمپا بین تھا۔ سرل نے گھبرا کر کہا، نہیں، نہیں۔ شمپا، شمپا، آپ کی بھانجی۔۔۔ بے بی۔۔۔ بے بی۔۔۔ سب اس کی صورت تکنے لگے۔ جیسے وہ کوئی بدتمیزی کی بات کرگیا ہو۔

    سرل نے سوچا کہ اس نے چمپا نہیں کہا تھا۔ چمپا بہن یا چمپا پھوپھی کہاہوتا بشرطیکہ اسے چمپا بہن سے کام ہوتا۔ اسے توشمپا سے کام تھا اور اس نے شمپا ہی کہاتھا۔ بے بی، بے بی، اندر سے شمپا کی چھوٹی بہن ہاتھ میں، اندر جال کو مک کی کتاب لیے باہر آئی۔ موسم سرما میں اس کے جامنی رنگ کے گال پھٹ جاتے تھے۔ اس نے عینک لگا رکھی تھی۔ اپنی عمر کے حساب سے شمپا کی چھوٹی بہن بڑی ہی سنگ دل معلوم ہوتی تھی۔ اس نے بے یقینی سے سرل کی طرف دیکھا، کیا کام ہے؟

    نہیں، نہیں۔ مجھے شمپا سے کام ہے۔ اس کی بڑی بہن باہر آئی۔ اس کے چہرے پر مہاسے تھے۔ اس نے بالوں کی ایک لٹ پیشانی پر چاند کی طرح جما رکھی تھی۔ یہ بھی شمپانہ تھی۔ سرل نے تقریباً گھٹ کر کہا، ’’یہ نہیں، یہ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے پہلے شمپا کے باپو سے بات کی، شمپا، آپ کی منجھلی بیٹی۔۔۔ لیکن بات اس سے آگے بڑھی ہی نہیں۔ جانے کیوں شمپا کے گھر میں شمپا تھی ہی نہیں۔ وہ سب اتنے حیرت زدہ تھے جیسے وہ کسی غلط گھر میں آگیا ہو۔

    سرل نے کہا، دیکھیے، اور اسے یاد آیا کہ اس کے پاس شمپا کا ایک فوٹو تھا۔ دیکھیے میں فوٹو دکھاتا ہوں۔ اس نے پرس سے فوٹو نکال کر بڑھاتے ہوئے کہا، یہ لڑکی، بابو جی ہنس پڑے۔ فوٹو خود سرل کا تھا۔ سرل نے فوٹو دیکھا اور قریب قریب روپڑا۔ اس نے تمام جیبیں دیکھ ڈالیں۔ شمپا کی تصویر تھی ہی نہیں۔

    سرل وہاں سے چل دیا۔ وہاں سے کچھ دور شمپا کی ایک سہیلی رہتی تھی۔ سرل اس کے گھر پہنچا۔

    آؤ سرل بھائی، سہیلی نے کہا۔ ماں، سرل بھائی آئے ہیں۔ ماں باہر آئی، کیوں سرل طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟

    ’’شمپا ہے؟‘‘

    ’’شمپا کون ہے؟‘‘

    ’’شمپا۔ شمپا تیری سہیلی، وہ ہے یہاں، وجے بھائی کی لڑکی۔۔۔‘‘ سرل نے عاجز آکر ہاتھ جوڑ دیے۔ سہیلی نے بھی فوراً نمستے کی۔ شمپا کی سہیلی شمپا نام کی کسی لڑکی سے واقف نہ تھی۔ شمپا، لڑکی کا نام ہے، سرل کی کچھ سمجھ میں نہ آیاکہ اب کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ شمپا کل کالج آئے گی تو ملاقات ہوگی۔ اس کی سہیلی نمستے کرکے اب بھی کھڑی تھی۔

    سرل نے پہلا پیریڈ شمپا کے انتظار میں گزار دیا۔ پھر وہ باہر کھڑے کھڑے تھک گیا۔ دوسرے پیریڈ میں کلاس میں جاکر بیٹھا۔

    ’’رول نمبر ایک سودو!‘‘

    ’’پریزنٹ سر!‘‘

    اور ایک سو بیس شمپا کا تھا۔۔۔ رول نمبر ایک سو بیس، پروفیسر نے چیخ کر کہا۔ کوی جواب نہ ملا۔ پروفیسر نے پھر نمبر پکارا۔ خاموشی۔ سرل نے سوچا کہ پریزنٹ لگوانے کے لیے لڑکی کی جگہ لڑکا جواب دے گاتو پکڑا جائے گا کہ فوراً آواز آئی پریزنٹ سر۔ کسی لڑکے کی آواز۔ سرل نے ایک دم سے اونچے ہوکر دیکھا۔ کوئی موٹا لڑکا حاضری لگوارہا تھا۔ پروفیسر نے دھیان نہ دیا، رول نمبر ایک سو اکیس۔

    پیریڈ ختم ہواتو سرل اس موٹے لڑکے کے پاس گیا۔ کچھ پوچھنے ہی جارہاتھا کہ اس کی نوٹ بک پر نظر پڑگئی۔ لکھاتھا کوٹھاری کے ٹی، رول نمبر ۱۲۰، سرل نے پروفیسر سے پوچھا، سر! رول نمبر ایک سو بیس میں کون ہے۔ پروفیسر نے بے رخی سے آفس میں جاکر معلوم کرنے کو کہا۔ آفس والے نے کہا، رول نمبر ایک سو بیس کوٹھاری کے ٹی کا ہے۔ اور شمپا کا؟ آفس والے نے پندرہ منٹ تک رجسٹر کے صفحات الٹ پھیر کرنے کے بعد کہا، ’’رول میں شمپا شکل کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘

    ’’شمپا وجے رائے شکل۔۔۔‘‘ سرل نے اصرار کیا۔ رول دیکھنے کا چارج چار آنے تھا۔ آفس والے نے سرل کو دیکھ کر ایک ہی دفعہ کا چارج لیا اور کہا، ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘

    سرل نے کالج میں تقریباً سب سے پوچھا، شمپا کہاں ہے؟ یہ بتانا تو ایک طرف رہا، کوئی شمپا سے واقف تک نہ تھا۔

    سرل کا ایک دوست اس کا رازداں تھا۔ سرل اس سے شمپا کے متعلق سب کچھ بتایا کرتاتھا۔ سرل نے اپنے دوست سے واقعہ بیان کیا تو وہ اس کی صورت تکنے لگا۔ شمپا، اس کے دوست نے کہا، اور بتایا کہ وہ یہ نام پہلی دفعہ سن رہا ہے۔ سرل نے کہا، تم سے اس کی روز تو باتیں کرتا ہوں۔ دوست نے جواب دیا، کیاپتہ، مجھے تو یاد نہیں آرہا۔ سرل نے ہاسٹل جاکر شمپا کے خطوط پڑھنے کے لیے سوچا۔ خط بیگ میں تھے ہی نہیں۔ شمپا نے اسے ایک فونٹین پین تحفتاً دیاتھا۔ اس پر سرل اور شمپا کانام کندہ تھا۔ اب سرل نے دیکھا، اس پر کچھ بھی کندہ نہ تھا۔ پین بنانے والی کمپنی کا نام تھا اوربس۔

    سرل نے شام کو باغ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ باغ میں جانے سے پہلے اس نے ہوٹل میں جانے کا ارادہ کیا۔ ہوٹل میں جاکر اس نے ہوٹل کے منیجر سے، میرے ساتھ جو لڑکی آیاکرتی ہے، کے متعلق پوچھا۔ منیجر نے حیرت سے پوچھا، لڑکی؟ تم تو اکیلے ہی آتے ہو۔ ویٹر نے بھی یہی کہا۔ سرل نے کہا، یاد نہیں وہ لڑکی کئی دفعہ یہاں سے فون کیا کرتی تھی کہ دیر ہوگئی ہے، اسی لیے کھانا کھاکر آئے گی۔۔۔ ابھی پرسوں ہی تو اس نے فون کیا تھا اور گزشتہ کل میں نے اس کے گھر فون کیا تھا۔

    منیجر نے کہا، لیکن یہاں فون ہے ہی کہاں؟ آپ کو دھوکہ ہوا ہے، وہم ہے آپ کا؟ سرل دل میں بولا، مجھے وہم ہوا ہے۔ اس نے اٹھ کر ٹیلی فون کی جگہ دیکھی۔ وہاں کچھ نہ تھا۔ فون تھا ہی نہیں۔

    سرل چلتے چلتے باغ میں پہنچا۔ گزشتہ کل جس بینچ پر بیٹھے تھے اس کے قریب گیا اور اس نے حیرت سے دیکھا کہ بینچ ایک طرف سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ پل بھر میں بینچ غائب ہوگیا اور سرل نے دیکھا کہ وہ خود مہندی کی باڑ کے قریب کھڑا ہوا ہے۔

    بلیک بورڈ پرلکھی چاک کی تحریر کی طرح باغ باقاعدہ بجھتاجارہاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باغ کہیں غائب ہوگیا۔ سرل دوڑ کر پھاٹک سے باہر نکل گیا اور پھر گھوم کر پیچھے دیکھا۔ جہاں باغ تھا، وہ کولتار کی سڑک بن گئی تھی۔ جہاں ہوٹل تھاوہاں جدید طرز کا مکان بن چکا تھا۔ سرل نے گھبرا کر رکشا روکا اور شمپا کے گھر پہنچا۔ شمپا کے گھر آج صرف اس کے بابوجی تھے۔

    وجے رائے نے پوچھا، ’’کہاں سے تشریف لارہے ہیں آپ؟‘‘ سرل نے متعجب ہوکر اپنا تعارف کرایا۔ میں کل بھی تو آیاتھا یہاں۔ وجے رائے نے کہا، آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ کل تو گھر بند تھا۔ سب کے سب بمبئی گئے ہوئے ہیں۔ میں خود بھی آج ہی واپس آیا ہوں۔، وجے رائے نے کہا کہ انھوں نے پہلے کبھی سرل کو نہیں دیکھا۔ سرل بھاگتا ہوا شمپا کی سہیلی کے گھر گیا۔ وہاں سرل کو کوئی پہنچانتا نہ تھا۔ وہاں دوچارا ٓدمی جمع ہوگئے۔ تم پتہ بھول گئے ہو بھائی، کہہ کر وہ لوگ اسے راستہ بتانے لگے۔ سہیلی نے کہا، ’’پکھالی کی پول میں میری پھوکی کی لڑکی رہتی ہے وہ بالکل میرے جیسی ہے۔ شاید تم اسے ڈھونڈ رہے ہو۔‘‘

    دوسرے دن سرل نے کالج میں قدم رکھاتو رول نمبر ایک سو دو کے جواب میں ایک سکھ لڑکا حاضری لگوارہاتھا۔ آفس میں چار آنے دے کر رول نمبر دکھوایاتو معلوم ہوا کہ رول نمبر ایک سو دو ہے گریوال جے سی کا۔ اور پٹیل سرل۔۔۔ نام کا کوئی لڑکا کالج میں ہے ہی نہیں۔ سرل نے اپنی کتابیں اورنوٹ بکس دکھائیں۔ پتہ نہیں کیسے وہ سب کی سب گریوال جے سی کے نام کی تھیں۔ اسے یہ سب کی سب آفس میں دے دینی پڑیں۔ سرل نے ہاسٹل میں جاکر معلوم کیا۔ اس کے کمرے میں کوئی پردیسی رہتا تھا۔ اس نے بڑے احترام سے سرل کا استقبال کیا اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ سرل نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ وہ گزشتہ رات یہاں سویا تھا اور دوسال سے یہیں سوتا رہا ہے۔ یہ اس کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔

    پردیسی کا نام تھائی براؤن۔۔۔ ٹی فارٹیڈ، یعنی تھیوڈر۔ پردیسی نے اسے سمجھایا۔ سرل نے الگنی پر لٹکتے ہوئے اپنے کپڑے دکھائے۔ پتہ چلا کہ کپڑے اس کے ناپ کے نہ تھے۔ الماری میں کتابیں تھیں لیکن ان پر نام تھیوڈر براؤن تھا۔ ہاسٹل کے رجسٹر میں سرل کا نام نہ تھا۔ سرل نے یونیورسٹی میں اپنے نام کی تحقیق کروائی۔ وہاں گزشتہ پانچ برس کے رکارڈ میں سرل نام کا کوئی لڑکا نہ تھا۔ میونسپلٹی کے رجسٹروں میں بھی اس کانام نہ تھا۔

    وہ دو ایک رسالوں کا خریدار تھا مگر ان پرچوں کے خریداروں میں اس کا نام نہ تھا۔ بتی کے بغیر بائیسکل چلانے کے گناہ میں ایک دفعہ پکڑا گیا تھا لیکن کورٹ میں اس کا نام یا جرم درج نہ تھا۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے اس کے سر میں سخت چوٹ آئی تھی تب اسے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ وہاں کے رجسٹر میں وہ نہ تھا۔ ہاسپٹل کے دفتر میں اس کی کوئی کوئی بک نہ تھی۔ میونسپلٹی کے ریکارڈ میں اس کا شہری نمبر42221 تھا جو کسی سفید بالوں والے تاجر کے نام سے تھا۔ کالج کے شناختی کارڈ میں اس کا فوٹو نہ تھا، نام نہ تھا، لائبریری کے رجسٹر میں سے اس کے دستخط، سیکڑوں دستخط غائب ہوگئے تھے۔ پوسٹ آفس میں اس کے نام ہرمہینے آئے ہوئے منی آرڈر کی رسیدیں دکھوائیں تو ان میں سرل کا نام نہ تھا۔ سرل نے گھر تار کیالیکن اس کے گاؤں کے نام کا کوئی گاؤں تھا ہی نہیں۔

    سرل نے اپنی گھڑی اور فونٹن پین بیچ دینے کا ارادہ کیا۔ اس نے اپنے ایک دوست کو یہ دونوں چیزیں دکھانی چاہیں، حالانکہ اسے یقین تھا کہ دوست اسے پہچانے گا نہیں۔ دونوں چیزیں دکھا کر کچھ کہے، اس سے پہلے ہی دوست نے بڑے تشکر سے کہا، ’’اوہ۔ تھینک یو۔ کہاں سے ملیں؟‘‘ سرل کوئی جواب دے، اس سے پہلے دوست نے اپنی بیوی سے کہا، دیکھا۔ میں نے کہا نہیں تھا کہ ہم ٹرین میں ہی بھول گئے ہیں۔ یہ بھائی بچارے لے آئے۔ بھائی! تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ میری گھڑی ہے۔‘‘

    ’’اہ! تمہارا نام ہے نا ان پر؟‘‘ دوست کی بیوی نے گھڑی اور پین لیتے ہوئے کہا۔ جیسے اسے خوف ہو کہ یہ پھر گم ہوجائیں گی۔ بیوی نے چیزیں دونوں کو دکھائیں، ’’اشوک ترویدی‘‘ نام کندہ تھا۔ اشوک ترویدی نے سرل کو شربت پلایا اور مذاقاً کہا، ’’سردیوں میں شربت، لیکن معاف کرنا گھر میں دودھ نہیں ہے۔۔۔ میری بیوی بے حد گرم مزاج کی ہے نا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔‘‘

    چلتے چلتے سرل کو احساس ہوا کہ اس کے جوتے بے حد تنگ ہوگئے ہیں۔ اس نے اتار کر دیکھے اور دیکھا کہ جیسے وہ دس برس کے لڑکے کے ہوں۔ سرل نے جوتے وہیں رکھے اورننگے پاؤں چل دیا۔ چلتے چلتے سر پر ہاتھ پھیرا تو دیکھا کہ سر گنجا تھا۔ ایک بھی بال نہ تھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالنے لگا تو پتہ چلا کہ وہ صرف جانگھیا پہنے چل رہا ہے اور جانے کیوں کوئی اس پر حیرت کااظہار نہیں کررہا ہے۔ سرل دوڑنے لگا، اس کے رونگٹے ہو اکی لپیٹ میں آکر اڑے نے لگے اور بدن پر سے غائب ہوگئے۔ وہ برہنگی کی حالت میں بھاگتا ہوا چشمے پر پہنچا۔ پانی میں پیر ڈال کر باہر نکالے، پیر باہر آئے ہی نہیں۔ رانوں سے نیچے اس کی ٹانگیں غائب ہوگئی تھیں۔ سرل نے ریت پر اپنا نام لکھنے کی کوشش کی، وہ لکھنا بھول گیاتھا، صرف ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنارہاتھا۔

    چشمے کے شفاف پانی میں اپنا عکس دیکھنے کے لیے اس نے اپنا سر جھکایا۔ کچھ دکھائی نہ دیا۔ پانی بہہ رہاتھا اور اس کی تہہ میں کی ریت پر پتھر صاف نظرآرہے تھے لیکن سرل کا عکس دکھائی نہ دے رہاتھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسانا چاہیں تو وہاں کچھ نہ تھا۔ ابھی ابھی وہ پانی کے بہنے کی اور کوئل کی آواز سن رہاتھا لیکن اب وہ آوازیں خاموش تھیں۔ وہ کچھ سن نہ سکتا تھا، کچھ دیکھ نہ سکتاتھا، احساس نہ کرسکتا تھا، چھو نہ سکتا تھا۔ سرل سر سے پیر تک غائب ہوگیاتھا۔

    سرل کا نام و نشان دنیا سے یوں مٹ گیاتھا جیسے سرل خود ایک وہم ہو۔ آپ کو کچھ دھوکہ ہوا ہے، کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، کچھ بھول ہوگئی ہے، لیکن سرل جانتا تھا کہ جب تک وہ ہے، ایسا خود اعتمادی سے کہہ سکتا ہے، تب تک اس کاوجود ہے۔ اوریہاں سرل نے اپنی ہستی کو روک دیا، کیوں کہ اس کے تعلقات کی طرح اس کی خود اعتمادی بھی شاید حیرت سے پوچھ لے گی،

    ’’آپ کو؟ کہیں دیکھا ہو ایسا تو یاد آتا نہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے