کالی شلوار
خُلاصَہ
ایک پیشہ کرنے والی عورت سلطانہ کی روح کی الم ناکی اور اس کے باطن کے سناٹے کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے خدا بخش اسے پیار کا جھناسا دے کر انبالہ سے دہلی لے کر آتا ہے اور اس کے بعد شنکر محض کالی شلوار کے عوض اس کے ساتھ جس قسم کا فریب کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرد کی نظر میں عورت کی حیثیت محض ایک کھلونے کی ہے۔ اس کے دکھ، درد اور اس کے عورت پن کی اسے کوئی پرواہ نہیں۔
دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا، ’’دِس لیف۔۔۔ ویری بیڈ۔‘‘ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔
انبالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کرکہہ دیا کرتی تھی، ’’صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔‘‘ اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی، ’’صاحب، تم ایک دم الو کا پٹھا ہے۔ حرام زادہ ہے۔۔۔ سمجھا۔‘‘ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ ان سے باتیں کرتی۔ یہ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگیے تھے