Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہر کی رات

بلراج مینرا

شہر کی رات

بلراج مینرا

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    طبیعت کی کجی کے باعث ایک ایسے پریشان شخص کی کہانی ہے جو سماجی اصول و قوانین کی پابندی کرنے سے گریزاں ہے۔ بس میں اس سے سگریٹ پینے کے لیے منع کیا جاتاہے تو اگلے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے۔ رات بھر ادھر ادھر شہر کی سڑکوں پر سرگرداں رہتا ہے پھر جب وہ دوسری بس میں بیٹھتا ہے اور اسے سگریٹ پینے سے منع کیا جاتا ہے تو وہ پھر اتر جاتا ہے۔

    ابھی اس نے سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ بس آن دھمکی۔

    سگریٹ لبوں میں دبا کر اس نے فٹ بورڈ پر قدم رکھا تو بس چل پڑی۔

    جہازی بس خالی پڑی تھی اور کنڈکٹر ڈرائیور کے پاس سے اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    کنڈکٹر اس کی جانب بڑھا تو اس نے ہپ پاکٹ میں ہاتھ ڈال کر پینتیس نئے پیسوں کے سکے ٹٹولے۔

    ’’ماڈل ٹاؤن!‘‘ سگریٹ اس کے لبوں میں کانپا۔

    مسٹر! بس میں بیڑی سگریٹ پینا منع ہے۔ کنڈکٹر نے ٹکٹ پنچ کرنے سے پہلے کہا۔

    اس نے پانچ نئے پیسوں کا سکہ کنڈکٹر کی طرف بڑھایا۔

    بس روک دیجئے! I'll get down here۔۔۔ سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

    کنڈکٹر کے ماتھے پر بل پر گئے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر تیزی سے رسی کھینچی، گھنٹی زور سے بجی اور بس ایک جھٹکے سے رک گھی۔

    ’’اب کیا مصیبت ہے۔۔۔؟‘‘ ڈرائیور کی جھنجھلائی ہوئی آواز آئی۔

    وہ آخری ٹرپ طے کر تے ہوئے ڈرائیور کی جھنجھلاہٹ سے مانوس تھا۔ اس نے اطمینان سے Exit کی طرف قدم بڑھائے۔

    ’’مسٹر، پانچ پیسے کا ٹکٹ۔۔۔؟‘‘ کنڈکٹر نے پکارا۔

    اس نے کچھ نہ سنا اور بس سے اتر گیا۔

    بس پھر چل پڑی۔

    وہ Statesman بلڈنگ کے پاس کھڑا تھا۔

    پھیپھڑوں تک سگریٹ کا طویل کش کھینچتے ہوئے اس نے اپنے لئے گھر کا راستہ تجویز کیا اور جیکٹ کے کالر اٹھا کر قدم بڑھائے۔

    ایکسچنج کی گھڑی میں پونے گیارہ بج رہے تھے۔

    شنکر مارکٹ دن بھر کے ہنگاموں کے بعد خاموش پڑی تھی۔ مگر ’’لابوہیم‘‘ میں مدھم مدھم بتیاں جل رہی تھی۔ اور سامنے گھٹیا قسم کے ہوٹلوں میں گاہگوں سے نبٹنے کے بعد نوکر لوگ کھانا کھا رہے تھے۔

    کناٹ پیلس کا وہ حصہ، ’’لابو ہیم‘‘ کی مدھم بتیوں اور گھٹیا قسم کے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہوئے نوکروں کے باوجود ویران پڑا تھا۔

    ’’دسمبر کے وسط میں رات کے گیارہ بجے لوگ گھروں میں بیویوں کے پہلو میں سو رہے ہوتے ہیں!‘‘ اس نے سگریٹ سلگایا۔

    ’’ہم نے تو دن کے گیار ہ بجے بھی لوگوں کو یہیں کناٹ پیلیس میں سوتے دیکھا ہے!‘‘ وہ آپو آپ مسکرا دیا۔

    اس کے قدم بڑھ رہے تھے۔

    منٹو برج کے نیچے وہ بےاختیار ہی چلا اٹھا

    ’’نگ ااااااام م۔۔۔!‘‘

    رات کے سناٹے میں اس کی آواز گونجی اور اسی لمحے اس نے گونجتی ہوئی تیز و تند پکار سنی۔

    ’’نگ ااااااام م۔۔۔!‘‘

    اس کا جی چاہا کہ پکار کا جواب دے ابھی وہ ارادہ باندھ ہی رہا تھا کہ گرڑ گرڑ گرڑ گرڑ پل پر سے گاڑی گذرنے لگی۔

    پل کے نیچے کہرام مچا ہوا تھا۔

    وہ پل کے نیچے سے نکل آیا اور منٹو روڈ کی طرف بڑھنے لگا۔

    منٹو روڈ اندھیروں، اجالوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ دورویہ کھڑے ہوئے نیم کے پیڑ سو رہے تھے اور پیڑوں کی قطاروں کے پیچھے مرکزی حکومت کے ملازموں کے گھر خاموش پڑے تھے، گہرے خاموش!

    ’’ہجوم کے شور اور ہجوم کی خاموشی میں کتنی مماثلت ہے۔۔۔‘‘ اس نے سگریٹ سلگایا۔ ایسی ہی ایک خاموشی رام لیلا گراؤنڈ میں پاؤ ں پسارے ہوئے تھی، جیسے نجات کے لمحوں سے لطف اندوز ہو رہی ہو۔ دن بھر کے سیاسی ہنگامے، شور و غل تقریروں، رام لیلا گراؤنڈ کی چوڑی چھاتی میں دفن تھے۔ رام لیلا گراؤنڈ کے پر لے کنارے پر آصف علی روڈ کی اونچی عمارتیں خاموش کھڑی تھی۔ ان کی چھتوں پر نیون سائن کے جلتے بجھتے اشتہارات روشنی کے آنسو بہار ہے تھے اور ان آنسوؤں کی روشنی میں سنگ مرمر کا چبوترہ اور اس کی طیارے کے پرو ں کی طرح پھیلی ہوئی چھت اونگھ رہی تھی۔ رات کی خاموشی چبوترے کی روندی ہوئی چھاتی سہلا رہی تھی۔۔۔ بھانت بھانت کی بولیوں والے سیاسی کارکن جانے کہاں سوئے ہوئے تھے۔

    اس نے چند قدم اٹھائے اور چبوترے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

    غیرمحسوس طور پر اس نے سنا۔

    ’’بیٹھ جاؤ! بیٹھ جاؤ! تقریر سنو!‘‘

    بھائیوں اور بہنوں، آج ہم یہاں اس لئے اکھٹے ہوئے ہیں کہ، ہم پر آفت آن پڑی ہے۔۔۔‘‘ اس کے کان بج رہے تھے۔

    سانس لینے میں اسے دقت محسوس ہوئی۔ اس نے سگریٹ سلگایا۔

    ’’ہجوم، بھیڑ بھاڑ بھیڑوں کے گلے میں بولتے ہوئے اس کا جی بھی نہیں گھبراتا، شاید یہ شخص خود بھی اپنے آپ میں ایک ہجوم بن گیا ہے اور اکائی ٹوٹ گئی ہے۔۔۔‘‘

    اس نے جلدی جلدی لمبے ڈگ بھرے اور سرکلر روڈ پر آ گیا۔

    سرکلر روڈ کے دائیں کنارے پر ارون ہوسٹل میں بتیاں ٹمٹما رہی تھیں، اکھڑے ہوئے سانسوں کی طرح۔

    اس نے Casuality Deptt کی طرف قدم بڑھائے۔

    Casuality Deptt کے باہر تین چار ایمبولینس وین کھڑی تھیں اور برآمدے میں چار پانچ آدمی اکڑوں بیٹھے بیڑیاں پی رہے تھے۔ اس نے دروازہ اندر کی جانب دھکیلا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔

    ’’ارے تم نگم! اس سمے؟‘‘

    اس نے ہاتھ بڑھایا۔

    ’’بیٹھو۔۔۔ پالی، ایک کپ چائے لانا۔۔۔!‘‘

    وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

    ’’کیسے آنا ہوا؟‘‘

    وہ مسکرایا، ’’ایسے ہی۔۔۔ ادھر گذر رہا تھا، سوچا، تم سے ملے ایک زمانہ ہو گیا ہے۔۔۔!‘‘

    ’’تم آج ملنے چلے آئے، اتفاق کی بات ہے، میں آج ہی نائٹ ڈیوٹی پر آیا ہوں۔۔۔ چائے پیو۔۔۔! ٹھنڈی ہو جائےگی۔۔۔!‘‘

    اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔

    ’’نگم، اور کیا حال ہے دل ناداں کے۔۔۔!‘‘

    ’’بڑا سکون ہے پیارے! شاید سکون موت کے بس میں بھی نہیں! دل ناداں کے بارے میں سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔۔۔ کیا دن تھے اور کیا خواہشیں تھی۔۔۔ تمہاری طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں نے سوچا بھی نہیں کہ تم ڈیوٹی پر ہوگے یا آف ہوگے۔ تم مل گئے، ہم مل بیٹھے، تم نہ ملتے، میں انہی قدموں سے لوٹ جاتا۔۔۔ کیا ضروری ہے کہ خواہش کی تکمیل خوشی بن جائے اور خواہش پوری نہ ہو تو ماتم۔ ماتم یا خوشی از خود کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اول اور آخر احساس ہے۔۔۔ احساس اپنی ذات کا جو حاصل و محرومی سے بے نیاز ہے، جو نہ ذلت محسوس کرتا ہے، نہ احسان قبول کرتا ہے، جس کےلئے راستے ٹیڑھے ہیں نہ سیدھے۔۔۔ میں بک تو نہیں رہا ڈاکٹر ماتھر میرے!‘‘

    ڈاکٹر ماتھر نے کہا۔

    ’’تم بے حسی کی منزل پر پہنچ گئے ہو نگم!‘‘

    ’’ممکن ہے، تم صحیح ہو! مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہاری رائے کو جھٹلاؤں۔۔۔ میرے لئے تو اب الفاظ اپنے معنی کھو بیٹھے ہیں۔۔۔ ایک دن میں ٹی ہاؤس میں خالی الذہن بیٹھا ہوا تھا میرے پاس ہر بنس اور کرشن بیٹھے ہوئے تھے۔ میری نظریں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں اور میرے خالی ذہن میں کوئی جذبہ خیال پیدا کرنے کے لئے کوشاں تھیں۔۔۔ دو صوفے چھوڑ کر نول پوری بیٹھا ہوا تھا اور میری طرف دیکھ رہا تھا۔ ہربنس کی کسی زیادتی کے پیش نظر وہ ہربنس کے ساتھ بیٹھنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اس لئے وہ الگ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں مجھ سے کہہ رہی تھیں، ادھر آؤ۔۔۔ تم جانتے ہی ہو میرے اور نول پوری کے تعلقات کو، ایک دو قالب تھے ہم کبھی۔۔۔ اس دن میرا خالی ذہن میرے لئے نئی زندگی ڈھونڈ لایا۔۔۔ بھئی، میں جہاں بیٹھا ہوں، بیٹھا ہوں۔ نہ ہربنس میری توہین کر سکتا ہے نہ نول پوری میری عزت۔۔۔ نہ ہر بنس میرا دشمن ہے اور نہ نول پوری میرا دوست۔۔۔ میں اپنے آپ میں سب کچھ ہوں۔۔۔

    لوگ کہتے ہیں، نول پوری کے پاس اچھی نوکری ہے، اچھی بیوی ہے۔۔۔ وہ پانچ بجے آفس سے اٹھتا ہے، ساڑھے پانچ بجے گھر پہنچ جاتا ہے۔ سات بجے ٹی ہاؤس پہنچتا ہے اور پھر ساڑھے نو بجے گھر پہنچ جاتا ہے۔۔۔ اوقات کی یہ ترتیب اس کی Domestic harmony قائم کئے ہوئے ہے۔۔۔ مجھے پتہ ہی نہیں، میں کب اٹھتا ہوں، کب سوتا ہوں۔ مر گیا تو کوئی رونے والا بھی نہیں۔ میرے لئے نہ تو نول پوری کی زندگی قابل رشک ہے اور نہ ہی میری اپنی زندگی باعث ندامت ’’میں‘‘ ہوں اور بس۔‘‘

    ’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔ وہ مجھے نائی کہتا ہے۔۔۔ وہ مجھے چاہے نائی کہے یا موچی۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔! ’’میں‘‘ نائی بھی ہو سکتا ہے، موچی بھی اور بھنگی بھی اور اگر ’’میں‘‘ صاحب اختیار ہے تو آئن اسٹائن بھی۔۔۔! ’’وہ‘‘ کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ ہجوم ہو سکتا ہے، بھیڑ ہو سکتا ہے۔۔۔ شور و غل، ہنگامہ، میں میں، چیں چیں۔۔۔ تم مسکرا رہے ہو ماتھر!‘‘

    ماتھر نے کہا،

    ’’مجھے تم سے ڈر لگ رہا ہے نگم!‘‘

    ارے نہیں بھائی میرے ایسی کوئی بات نہیں اگر مجھے سڑک کے پار جانا ہے تو ہری بتی کے سگنل کے سمے بھی جانا ہے اور اگر نہیں جانا تو لال بتی کے سگنل کے سمے بھی نہیں جانا۔۔۔! اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔

    ماتھر نے ریسیور اٹھایا۔

    ’’Casuality Deptt۔۔۔ کہا ں کشمیری گیٹ؟ ابھی بھیجتا ہوں۔۔۔ پالی ڈرائیور کو بلاؤ۔۔۔ نگم تم گھر جا رہے ہو؟ ایمبولینس کشمیری گیٹ تک جا رہی ہے، تم وہاں اتر جانا۔۔۔ پالی، ڈرائیور کو بلاؤ بھئی!‘‘

    ’’اچھا پیارے!‘‘

    ڈرائیور کے پاس بیٹھتے ہی اس نے سگریٹ سلگایا۔

    ’’چل پیارے، بہت کروٹیں بدل چکے۔‘‘

    ایمبولینس سرپٹ دوڑ رہی تھی۔

    فیض بازار ویران پڑا تھا۔ اوپر تلے مخلوق سوئی ہوئی تھی۔ سارا بازار دودھیا روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ اتنی تیز روشنی میں بھی لوگوں کو نیند آ گئی تھی۔

    آزاد پارک اور لال قلعہ کا میدان سونا پڑا تھا۔ روشنی کم تھی۔ لال قلعہ کی دیوار بے حسی سے کھڑی تھی۔ خلا میں وائرلیس Poles کی سرخ آنکھیں بنا پلک جھپکائے جانے کیسے تک رہی تھیں۔

    کشمیری گیٹ تک وہی سناٹا تھا۔

    کشمیری گیٹ کے چوراہے پر ایمبولینس رکی۔۔۔ قریب ہی ایک شخص اوندھے منہ زمین پر پڑا تھا اور فاصلے پر ایک کار کھڑی تھی۔اس نے ایمبولینس سے اترتے ہوئے اوندھے منہ پڑے ہوئے شخص کو دیکھا اور سگریٹ سلگایا۔

    ’’چلو اپنا یار ڈاکٹر مصروف رہےگا۔‘‘

    اس کے قدم شہر کی فصیل سے باہر کی طرف اٹھ رہے تھے فصیل سے باہر آنے پر اسے سردی لگی۔ اس نے جیکٹ کا گرا ہوا کالر پھر اٹھا دیا اور آہستہ آہستہ علی پور کی جانب بڑھنے لگا۔

    اس کے پاؤں سن ہو رہے تھے اور وہ بوجھل قدم اٹھاتا آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ زمین کی ساری ٹھنڈک تلوؤں سے اس کے جسم میں سرایت کر رہی تھی۔ اس نے جھک کر پاؤں کی جانب دیکھا۔ وہی ایک پٹی والی اس کی محبوب چپل اس کے پاؤں میں تھی۔ مگر چپل کا وجود، عدم وجود میں منتقل ہو گیا تھا۔

    اس نے سگریٹ لبوں سے ہٹا کر گہرا طویل سانس کھینچا۔ اس کے پھیپھڑوں میں برف کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ وہ بھیگے ہوئے پرندے کی طرح پھڑپھڑایا اور تیزی سے قدم اٹھانے لگا۔

    شہر کا یہ علاقہ۔۔۔ شہر کے اس علاقے کی رات خوب تھی۔

    سڑک کالی اور چکنی تھی، روشنیاں مدھم تھیں۔ کنارے پربنی ہوئی کوٹھیاں اور دفتر پرانی وضع قطع کے تھے اور پیڑگھنے تھے۔ ہر فرلانگ پر قدرے تیز روشنیوں والے پٹرول پمپ بنے ہوئے تھے۔

    دور دور تک سناٹا پھیلا ہوا تھا۔

    اندر پرستھ کالج کے باہر جہاں دن بھر چڑیاں چہچہاتی رہتی تھیں اور عقاب پر تولے منتظر رہتے تھے، اب وہاں الو بھی نہیں بول رہے تھے۔

    اس نے سگریٹ سلگایا۔

    ’’شہر بھی خوب ہے۔۔۔ رات کو ہجوم کی خاموشی، شہر کی خاموشی بن جاتی ہے اور دن کو ہجوم کاشور، شہر کا شور۔۔۔!‘‘

    اولڈ سکریٹریٹ کے قریب اس کے قدم رک گئے، اس کے کانوں کے پاس سائیں سائیں سے ایک آواز نکل گئی۔

    اس نے چاروں طرف دیکھا۔

    فلیگ اسٹاف روڈ کی جانب سے اسے سپاہی کی ٹوپی بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔

    ’’کون ہے وہاں؟‘‘

    وہ کھڑا رہا۔

    سپاہی قریب آیا۔

    ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘

    وہ مسکرا دیا۔

    ’’آوارگی!‘‘

    سپاہی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

    ’’راتوں کو گھومنا جرم ہے۔‘‘

    وہ پھر مسکرایا۔

    ’’تو آوارگی جرم ہے!‘‘

    سپاہی نے ذرا بوکھلا کر کہا،

    ’’میرے ساتھ چلو، سول لائنز تھانے تک!‘‘

    سپاہی نے اس کا بازو تھام لیا۔

    وہ پھر مسکرایا۔

    ’’چلو!‘‘

    سپاہی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔

    اس نے سپاہی کی طرف سگریٹ بڑھایا اور آگے بڑھ گیا۔

    علی پور روڈ اس کا ساتھ نہ دے سکی۔

    وہ مال روڈ پر پہنچ گیا اور پھر دھیمے دھیمے کنگزوے۔

    قمقموں کی سیدھی زنجیر خلا میں معلق تھی اور جہاں قمقموں کی زنجیر نیم کے پیڑوں کے جھنڈ کی وجہ سے ٹوٹتی تھی، وہاں اس کا گھر تھا۔

    اس نے سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ ایک کا راس کے قریب آن رکی،

    ’’آپ ماڈل ٹاؤن تک چل رہے ہوں، تو آئیے۔‘‘

    اس نے کار کا دروازہ کھولا اور بیٹھ گیا۔

    کار چل پڑی۔

    اس نے سگریٹ کا طویل کش کھینچا، کار کےاندر پھیلے ہوئے اندھیرے میں سگریٹ کا شعلہ چمکا۔

    Don't mind۔۔۔ ’’سگریٹ مت پیجئے!‘‘

    ’’کار روک دیجئے! I'll get down here‘‘

    سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

    کار ایک جھٹکے سے رک گئی۔

    و ہ دروازہ کھول کر اتر گیا۔

    کار ایک جھٹکے سے، تیزی سے چل پڑی۔

    اس نے قدم بڑھائے۔ قمقموں کی ٹوٹی ہوئی زنجیر کے پاس، نیم کے پیڑوں کے جھنڈ کے پیچھے، اسے اپنا گھر نظر آ رہا تھا۔۔۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 59)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے