Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہر جو کھوئے گئے

آصف فرخی

شہر جو کھوئے گئے

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    زمین کے نیچے سے دریافت شدہ ایک شہر کی اشیا، مکانات، تہذیبی و ثقافتی آثار کی مدد سے تحقیق کی گئی ہے کہ یہ شہر کس زمانہ اور کس قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ مینار پر لکھی عبارت کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ ایک مظلوم قوم تھی جسے تاراج کر دیا گیا تھا۔ جن کی عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا گیا تھا یعنی یہ کہ ظلم و تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

    کوئی جو مجھ سا ہو

    اور مجھ پر بس ترس نہ کھائے

    کہ میں بالآخر اس قوم سے ہوں

    جس کی دانش وری

    اس کے ساتھ مر جائےگی۔

    (لوئی زوکو فسکی)

    زمین کے اندر سے ایک شہر نکلا۔ اتفاقاً کوئی کدال جا ٹکرایا اور زمین کے سینے میں سے، ریت کی تہوں میں چھپی ہوئی دیواریں، برابر چنی ہوئی اینٹوں کی دیواریں، دیواروں کے مکان، مکانوں کی گلیاں، محلے، بازار، پورا شہر برآمد ہوا۔ مدفون گلی کوچے اور کھنڈرائی عمارتیں، جن پر گزرے زمانوں کی دھول بیٹھ گئی تھی، پردۂ خاک سے باہر آئے۔ ماہرین بہت عرصے تک اس پر تحقیق کرتے رہے مگر اس بارے میں نہ جان سکے کہ نہ تو اس کاطرز تعمیر جانا پہچانا تھا نہ وہاں کے آثار دوسرے کھنڈروں جیسے تھے۔ لمبی چوڑی محرابیں، گول دروازے، پتھروں پر کندہ نشانات، عبارتیں، سانپ اور عقاب کا جسم رکھنے والی شبیہیں، مہریں، پرانے سکے، سکوں پر بنی رعب دار شکلیں جن کے بشرے پر شاہی تھی، انداز میں جلال۔ مٹی کے کھلونے، زیور، آہنی ہتھیار، اوزار، ٹوٹے برتن۔۔۔

    کوئی نہ جان سکا کہ یہ کس قوم کی نشانیاں ہیں، وہ کون لوگ تھے جن کے یہ آثار باقی رہ گئے، کس نسل اور کس تہذیب سے تعلق رکھتے تھے اور چلے کہاں گئے۔ سب سے زیادہ حیران کن چیز وہ پراسرار اور پیچیدہ عبارات تھیں جو پڑھی نہیں جا سکی تھیں اور جو شہر کے وسط میں نصب شدہ سفید پتھر کے ایک لمبے مینار پر کندہ تھیں۔ کیڑے مکوڑوں جیسے ٹیڑھے میڑھے نشان پتھر میں کھدے ہوئے۔ کیا کہہ رہے تھے یہ حرف؟ پتہ نہیں۔ آئندگان کے نام کون سے اہم پیغام تھے جو اس قوم نے اپنی یادگار کے طور پر پتھر میں محفوظ کرنے ضروری سمجھے، کیا مضمر تھا ان میں؟ گذرے ہوؤں کی یاد، بیتی چیزوں کے نشان، حکومت و حرفت کے نکات، بہت پرانی تہذیب کا سارا عمل۔۔۔ کون تھے وہ لوگ اس شہر کو بسانے والے؟ کیا سوچتے تھے؟ شمع کی روشنی اور عشق کی گرمی سے واقف تھے؟ فصلوں کی کٹائی پر جشن مناتے تھے اور چاندنی راتوں میں شعر پڑھا کرتے تھے؟

    کیسی تھی ان کی زندگی؟ محقق سیکڑوں برس تک غور کرتے رہے، کچھ حل نہ پا سکے۔ مایوس ہوکر اس شہر کو تاریخ کے دوسرے لاینحل معموں کے ساتھ داخل دفتر کر دیا گیا کہ تاریخ کے دامن میں ایسے شہروں کی کمی نہیں جو ایسے کھوئے گئے کہ کوئی نہ پا سکا۔ مگر ایک محقق دھن کا پکا برابر اس موضوع پر کام کرتا رہا۔ بہت ریاضت کے بعد آخر اسے ایک روز نہایت وجدانی طور پر خیال آیا کہ چوں کہ یہ علاقہ بلاد ہند اور ملک پارس کے درمیان واقع ہے اس لیے ہو نہ ہو یہاں کی زبان میں ہر دو ممالک کی گفتگو کا امتزاج رہا ہوگا۔ اس طور جو اس نے سوچا تو عقدہ یوں کھلا کہ پتھر پر کندہ یہ عبارت، جس کے حروف سیل وقت سے تاراج ہوکر جابجا اکھڑ گئے تھے، یوں تھی،

    ’’اے راہی رہروٹک نظر عبرت سے ادھر دیکھ لے۔۔۔ اسے عزیز ہماری اصل اطراف و جوانبِ۔۔۔ کی ہے، بعد مدت اس سرزمین میں وارد ہوئے، یہاں خیمہ گاڑ کے قیام کیا، قومِ ہنود کو رام کیا، تعمیر اس بلاد مینوسواد کی۔۔۔‘‘

    اس کے بعد مینار اتنا شکستہ تھا کہ عبارت پڑھی نہ جا سکتی تھی۔ کوئی اور نشانی بھی ایسی نہ تھی کہ جس سے شہر تعمیر کرنے والی اس قوم کا حال معلوم ہو۔ بہت تلاش کے بعد مینار کے اندرونی حصے میں دیوار پر کھینچی ہوئی لکیروں سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکا کہ یہاں کسی نے لکھا ہے، ’’غداری کا ایک لمحہ اور وہ ہمارے ملک پر چھا گئے، اسے دبا لیا، ہمارے ہم وطنوں کو ظلم کی آخری غیر انسانی حد پر کھینچ لے گئے، مدت سے ہماری عورتیں ایسے بچے جن رہی ہیں جن کا ناک نقشہ ہمارے لیے اجنبی ہے، انہوں نے ہماری عمارتوں کو ڈھا دیا اور ہمارے ارادوں کو پست کردیا، ہماری تہذیب غارت ہو گئی، انہوں نے ہماری نشانیاں مٹادیں، ہماری زبان پر پابندی لگا دی، ہمارا علم، ہماری صنعت، ہنر، ہماری نشانیاں، ہماری تہذیب، ہماری زبان۔۔۔‘‘

    اس کے بعد عبارت میں کسی اجنبی زبان کے حروف کی اتنی زیادہ آمیزش تھی کہ پڑھا نہ جا سکا۔

    مأخذ:

    آتش فشاں پر کھلے گلاب (Pg. 218)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: طارق پبلی کیشنز کراچی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے