Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شناخت

ذکیہ مشہدی

شناخت

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے برہمن زمیندار خاندان کی کہانی، جس نے اپنے ایک بچے کی پرورش کی ذمہ داری ایک مسلم خدمت گزار بابو سائیں کو سونپ دی تھی۔ حالانکہ برہمن خاندان نے اپنے اس بچے کی پرورش اسی طرح کر رہے تھے، جیسے دوسرے بچوں کی پرورش کی تھی۔ لیکن اس بچے کے جسم میں جیسے غذا لگتی ہی نہ تھی۔ سارا دن کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کے باوجود وہ ایک دم سوکھے کانٹے کی طرح دکھتا تھا۔ بابو سائیں کی سرپرستی میں آنے کے بعد اس میں کچھ تبدیلی آنے لگی تھی۔ بابو سائیں اسے گوشت، مرغا، یخنی سب کچھ کھلاتا۔ اپنے ساتھ تکیے پر بھی لے جاتا۔ بچے کی ضد پر بابو سائیں نے اسے اردو بھی سیکھا دی تھی۔ جب برہمن خاندان والوں کو اس بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے بچےکو واپس بلا لیا کہ بابو سائیں تو اسے مسلمان ہی بنا دے گا۔

    بوباسائیں نے پیتل کی بالٹی دونوں گھٹنوں کے بیچ دبائی اور قرآت کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر کجری کا دودھ دوہنا شروع کیا۔ شرر شرر۔۔۔ بھرپور دھار بالٹی سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے بالٹی بھرنے لگی۔ چھلکتی بالٹی لے کر وہ خوشی خوشی اوسارے تک آئے۔ آگے لکشمن ریکھا تھی۔

    بوباسائیں کے اندر اللہ میاں کی فٹ کی ہوئی گھڑی لگی ہوئی تھی۔ کیا مجال جو وقت کا اندازہ غلط ہوجائے۔ بڑی پنڈتائین نہاکے پوجا ختم کرچکی ہوں گی۔ منجھلی تو کب کی تلسی کو جل چڑھاکے رسوئی گھر میں آچکی ہوں گی۔ ناشتے کی نگرانی انہیں کے ذمے تھی۔ چھوٹی ان کی مدد کیا کرتی تھیں لیکن آج کل وہ مائیکے گئی ہوئی تھیں۔

    بوباسائیں کے اندر اللہ میاں کی فٹ کی ہوئی گھڑی لگی ہوئی تھی۔ کیا مجال جو وقت کا اندازہ غلط ہوجائے۔ بڑی پنڈتائین نہاکے پوجا ختم کرچکی ہوں گی۔ منجھلی تو کب کی تلسی کو جل چڑھاکے رسوئی گھر میں آچکی ہوں گی۔ ناشتے کی نگرانی انہیں کے ذمے تھی۔ چھوٹی ان کی مدد کیا کرتی تھیں لیکن آج کل وہ مائیکے گئی ہوئی تھیں۔

    بوباسائیں نے کہارن کو پکارا، ’’اری کل بتیا دودھ لے جا آکے۔‘‘ پھر انہوں نے مسرور لہجے اور بلند آواز میں اعلان کیا: ’’آج تو کمال ہوگیا۔ کجری نے پوری بالٹی بھرکے دودھ دیا ہے۔ کل نظر اتاری تھی نا۔‘‘ انہیں معلوم تھا ان کی آواز اوسارے کے بعد بڑا سا آنگن پار کرکے رسوئی میں پنڈتائن کے کانوں تک پہنچ گئی ہوگی۔ وہ گاؤں کی مسجد کے موذن تھے۔ پانچوں وقت کھیت کھلیان پار کرتی چھٹ پٹ پھیلے بیس پچیس مسلمان گھروں تک ان کی آواز یو نہی ہوا کے دوش پر تیرتی پہنچ جایا کرتی تھی۔ باہمنوں کا گھر کتنا ہی بڑا ہو یہ اوسارے سے رسوئی کا فاصلہ تو کوئی چیز ہی نہیں تھا۔

    ’’نظر لگنے والی بات سب سے پہلے ہم نے کہی تھی۔ رسوئی میں کھٹرپٹر کرتے، توند سنبھالتے موٹے رسوئیے نے فخر سے کہا اور بڑے بھیا کی تھالی میں خوب سنکا ہوا لال کرکرا، گوبھی کا پراٹھا ڈال کر بھرواں مرچ کے اچار کی کٹوری بھی بڑھادی۔ تینوں بھائی بیٹھے ہوئے تھے۔ ماتھے تک گھونگھٹ کھینچ کر پنڈتائن جھپاجھپ پراٹھے اتار رہی تھیں۔ رسویا لوئی پھر کر انہیں دیتا جاتا تھا۔ بڑی سی پرات میں کدوکش کی ہوئی، مسالہ گوبھی اس کے سامنے رکھی تھی۔ وہ ہاتھ سے بھراون سمیٹ کر اندازہ لگارہا تھا کہ اور گوبھی کدوکش کرنی پڑے گی یا کام چل جائے گا۔ چولہے کے دونوں ’مونہوں‘ پر توے چڑھے ہوئے تھے۔

    ’’ہاں کہی تو تھی مگر بخر اتاری تو بوباسائیں نے نا۔‘‘ کلاوتی نے بالٹی رکھتے ہوئے کہا۔ موٹے رسوئیے کی ہر بات کاٹنا اس نے اپنا اولین فریضہ قرار دے رکھا تھا۔

    ’’دوسری بالٹی دے آؤ۔ کالی کا بھی دودھ نکال لے گا بوبا، سائیں۔‘‘ پنڈتائن نے پراٹھے پر چمچ بھر گھر کا دانے دار گھی ڈالتے ہوئے کلاوتی کو حکم دیا اور رسان سے بولیں، ’’اب نظر تو بوباسائیں ہی اتارتے ہیں۔ آدمی کو لگے کہ گیا بھینسی کو۔‘‘

    ’’ملکائن۔ کالی کا دودھ تو ہم ابال بھی چکے۔‘‘رسوئیے نے کہا۔ ’’پہلی بالٹی اسی کی تھی۔‘‘ بالٹی کی طرح اس کا لہجہ بھی چھلکا چھلکا سا تھا۔

    ’’اچھا ٹھیک ہے۔ بوباسائیں سے کہو، ذرا بیٹھیں۔ ناشتے میں آج کچھ دیر ہوگی۔‘‘

    پیغام ملنے پر ان کا جواب پھر ہوا پر تیرتا ہوا ہی آیا، ’’ہم جارہے ہیں ملکائن۔ گھر پر ہی کھالیں گے۔ اب یہاں کھایا یا وہاں۔ آج ہمیں بھی دیر ہو رہی ہے۔ وہ قدرے بھچکتی چال کے ساتھ باہر نکلنے کو ہوئے۔

    ’’بوباسائیں، بو باسائیں‘‘ آواز میں لجاحت تھی، ’’نکل مت جائیے گا۔ ناشتہ بڑی چاچی بھجوارہی ہیں۔ ہمارے ساتھ ڈنڈ بیٹھک لگانا ہے۔‘‘ گھر کے بچوں میں سب سے چھوٹے لڑکے نے جو نہاکر ابھی باہر نکلا تھا، رسوئی کی طرف جاتے ہوئے پکار کر کہا۔ گیارہ سالہ شیام نارائن اپادھیائے کو پہلوانی کا شوق چرایا تھا۔ بوباسائیں کبھی گاؤں کے اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھک لگایا کرتے تھے اور سینکیا پہلوان کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن شیام نارائن کے لیے بڑے پنڈت جی یعنی ان کے دادا نے جو عرف عام میں ددّو کہلاتے تھے، مناسب سمجھا کہ بوبو سائیں ان کی ورزش کی نگرانی کریں۔ شیام نارائن کو اکیلے تو کیا چچیرے بھائیوں یا آس پاس کے لڑکوں کے ساتھ بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ساما بھیا، بوبا سائیں کے بڑے چہیتے تھے۔ جو کچھ کہہ دیں اوربوبا سائیں نہ مانیں۔ اس لئے سائیں پلٹ آئے۔ کچھ دیر بعد ان کا ناشتہ بھی آ گیا۔ ان کے ناشتے کے برتن الگ تھے۔ المونیم کی تھالی، کٹوری اور چائے کے لئے تام چینی کا بڑا سا مگ جو تاملوٹ کہلاتا تھا۔ برتن بھلے ہی الگ ہوں لیکن ناشتہ وہی ہوتا تھا جو سب کھاتے تھے۔ اس لیے اس وقت بھی سرخ کرکرے گھر کے دانےدار گھی میں تلے گوبھی کے پراٹھے، بھرواں مرچ کا اچاراور تاملوٹ میں خوب میٹھی، بہت سا اونٹا ہوا دودھ ڈال کربنائی ہوئی گرما گرم چائے ان کے سامنے لا کر رکھ دیے گئے۔

    ’’اے بھیا! دیر مت کیجئے گا۔ پھٹا پھٹ آ جائیے۔‘‘ ناشتہ کرکے کنویں سے ذرا ہٹ کر اپنے برتن مانجتے ہوئےبوبا سائیں نے پکار کر کہا۔ ’’دن چھوٹا ہونے لگا ہے، ظہر کی اذان کا وقت جلدی ہو جاتا ہے۔ کئی کام نمٹانے ہیں بیچ میں۔‘‘ بوبا سائیں کی زندگی بڑے بندھے ٹکے ڈھرے پر چلتی رہتی تھی۔ فجر کی اذان دیتے، پھر نماز پڑھ کر وہ تھوڑی دیر لیٹ رہتے۔ اس عرصہ میں ان کی نیک اور کم سخن بی بی جن کا نام حوربانو تھا، ان کے لیے شیشے کے پرانے سے گلاس میں گڑ کی کالی چائے لا کر رکھ دیتی۔ (بساطی سے بھٹے کے تازہ بالوں کے بدلے لیا گیا یہ گلاس ان کے سگھڑاپے کا مظہر تھا۔ اس لیے کہ کئی برس کے روزانہ استعمال کے بعد بھی ٹوٹا نہیں تھا)بوبا سائیں کہتے تھےکہ مرنے سے پہلے اسی زندگی میں حور مل گئی ہے۔ اس لیے آخرت میں ان کے امکانات محدود ہو گئے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ اذان دینے کی ڈیوٹی تو نہایت چوکسی کے ساتھ بجاتے کہ یہ فریضہ ان کے مرحوم والد نے ان کے کندھوں پر ڈالا تھالینو فجر کی نماز کے علاوہ باقی نمازیں چھوڑ کر بھاگ لیا کرتےتھے۔ ویسے ان کی نماز چھوڑ کر بھاگنے کی عادت بہت پرانی تھی۔

    گاؤں کی مسجد کے اس وقت کے امام صاحب نے سائیں برادری کے لڑکوں کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا تھا کہ کم از کم یہ نسل بھیک مانگنے کا پیشہ چھوڑ کر کچھ کرنے لگے ورنہ حال یہ تھا کہ بوباسائیں کے والد دلدار سائیں کو اپادھیائے کے بڑے بزرگوں نے پانچ بیگہہ زمین دے کر اس پر بسایا تھا پھر بھی وہ گھوڑی پر بیٹھ بھیک مانگنے نکلا کرتے تھے کہ یہ ان کا آبائی پیشہ تھا۔ دلدار سائیں کے اندر ایک خداداد صلاحیت تھی۔ وہ دودہارو جانوروں کی ہر قسم کی بیماری کا علاج کرلیا کرتے تھے ۔ اس وقت گاؤں کیا، قصبے میں بھی ویٹنری ڈاکٹر نہیں تھا۔ زیادہ پریشان ہو تو جانور کو شہر لے جانا پڑتا تھا۔ برہمنوں کی پوری گوشالہ تھی۔ بوبا سائیں کے والد گیوں کی جھاڑ پھونک بھی کرتے تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا اسی لیے اپادھیاؤں کے یہاں دودھ کے دریا بہتے ہیں اور گھی کھا کھا کے لڑکے گھی کی طرح سفید اور چکنے ہیں۔ الا سب سے چھوٹے بیٹے کے اکلوتے لڑکے شیام نارائن کے۔

    ولدار سائیں نے بڑے پنڈت جی کے زور دینے پر اور خود بھی کچھ سوچ کر محبوب محمد سائیں کو مولوی صاحب کے حوالے کردیا جہاں کوئی پانچ سات لڑکے ٹاٹ پر بیٹھ کر قرآن حدیث اور کچھ اردو سیکھتے۔ لیکن محبوب سائیں کہہ کے تو نکلتے کہ مدرسے جارہے ہیں لیکن اکثر و بیشتر غائب ہوجاتے اور گاؤں کے حاشیے پر رہنے والے چماروں کے لونڈوں کے ساتھ امرائیوں میں کنچے کھیلتے۔ کئی مرتبہ دلدار سائیں ان کے ہاتھ باندھ کر گھسیٹ کر لائے اور مولوی صاحب کے پاس چھوڑ گئے۔

    ایک مرتبہ تو ایک واقعہ بھی ہوگیا۔

    دلدار سائیں صاحب زادے کے ہاتھ باندھ کر رسی گھسیٹے چلے آرہے تھے کہ راستے میں ایک نہایت پھٹے حال فقیر دکھائی دیا۔ محبوب سائیں بولے، ’’ا ابا ہمیں بڑا ترس آرہا ہے۔ ہماری جیب میں ایک ادھنا ہے اسے دےدیں؟‘‘

    ’’اب ذات کا سائیں تو بھیک لے گا کہ دے گا؟ اچھا چل نیکی دل میں آئی ہے تو دے دے۔‘‘

    ’’تو ابا ہاتھ کھولو گے تب نا۔‘‘محبوب سائیں نے منمناکر کہا۔

    ابانے رسی کھول دی ۔ محبوب محمد بھاگے بگٹٹ، کہاں کی اکنی اور کیسا ادھنا اور کون سا فقیر۔ دودن تک گھر نہیں آئے کہ ابا کا غصہ ٹھنڈا ہولے تو چلیں۔ ادھر ابا ان دودنوں میں اچھی طرح ابل چکے تھے۔ گھر سے نکلے تک نہیں کہ کہیں لونڈا چپکے سے آکے اماں کے ہاتھ کی پکی کھاکے، روپیہ آٹھ آنہ موس کے نکل نہ لے۔ تیسری شب چپکے سے محبوب محمد عرف بوبا سائیں گھر میں داخل ہوئے تو نہ جانے کون سا موکل ابا کے قبضے میں تھا کہ انہیں خبر ہوگئی۔ وہ جوتاکاری کی بیٹے کی کہ آج تک وہ ہنس کر یاد کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس دن پٹائی نہ ہوئی ہوتی تو آج بوباسائیں نپٹ جاہل ہی ہوتے اور وہ عزت نہ ہوتی جو آج مل رہی ہے۔ آج ہم اذان دیتے ہیں، امام صاحب بیمار پڑجائیں تو نماز بھی پڑھادیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ برہمن خاندان نے ہمیں بالٹی تھمادی ہے، ہم ان کے یہاں دودھ نکالتے ہیں ورنہ مسلمان مویشی چرانے لے ضرور جاتے تھے ان سے دودھ نہیں نکلوایا جاتا تھا۔

    دلدار سائیں بیٹے کو جانوروں کے علاج اور جھاڑ پھونک کااضافی علم بھی دے گئے تھے۔ پھر بھی ابا کو یہ ملال رہ گیا کہ محبوب محمد سائیں نے ان کے خواب آدھے ادھورے ہی پورے کیے تھے۔ وہ انہیں باقاعدہ مولوی اور حافظ بنانا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ تربیت کے لیے مولوی صاحب نے امامت ان کے سپرد کی تھی۔ ادھر نمازی سجدے میں گئے ادھر بوباسائیں درمیان سے غائب ہوگئے۔ اتنا لمبا سجدہ۔ ایک نمازی نے ذرا سراٹھانےکی ہمت کی تو دیکھا امام صاحب غائب ہیں۔ ہلچل مچ گئی۔ اس بار پھر چارچوٹ کی مار پڑی تھی لیکن دلدار سائیں کی سمجھ میں آگیا تھا کہ نالائق بیٹا پانچ سات سپارے حفظ کرنے اور اردو میں خط و کتابت کرلینے سےآگے نہیں بڑھ پائے گا۔ چلو اتنا بھی کون تھا برادری میں پوراقرآن حفظ نہ سہی ختم تو کیا تھا۔ اور قرأت کے ساتھ۔ کٹر مٹر مسئلے مسائل کا حل بھی بیان کرلیتے تھے۔ دعا اور دوا دارو سب یاد تھے۔ دودھارو جانوروں کے علاج کے لیے ویسے تو جڑی بوٹیاں استعمال کرتے تھے لیکن جھاڑپھونک، گنڈا، تعویذ بھی خوب کرلیاکرتے تھے۔ ادھر کچھ دنوں سے ڈھورڈنگر کے علاوہ ساما بھیا کی نگرانی بھی ان کے سپرد کردی گئی تھی۔

    ہوا یوں کہ ایک دن اکھاڑے سےخبر آئی کہ لڑکوں میں جھگڑا ہوگیا ہے، اس وقت سامنے بوباسائیں بھی موجود تھے۔ ددو نےانہیں کوروانہ کیا کہ جاکے گھر کے لونڈوں کو پکڑ لائیں۔ اپنےگھرکے تین اور ساما بھیا کو گناجائے تو ساڑھے تین لڑکے ملوث تھے۔ اکھاڑے میں خاصی مارپیٹ ہوگئی تھی۔ گاؤں کے کنارے رہنے والے کچھ ہریجنوں کو اکساکر پٹی داروں نےبھیجا تھا۔ پٹی داروں کے ساتھ زور کرنے کے لیے ویسے بھی بڑے مالک نےمنع کیا تھا چہ جائیکہ تاڑی اتارنے والے پاسیوں سے ربط ضبط۔ تینوں بڑے پوتوں کو بڑے مالک نےپیٹ پاٹ کے درست کردیا جو ویسے بھی مارکھاکے آئے تھے کہ اقلیت میں تھے۔ اب ’’ایڈمنسٹریشن‘‘ نے الگ دھنائی کی۔ پندرہ سولہ سال کے مسیں بھیگتے نوجوان لڑکے سرجھکاکے ددو کی مار چپ چاپ یوں جھیل گئے جیسے گھنےدرخت کے نیچے کھڑے ہوں اور اوپر سے پھول گر رہے ہوں ٹپاٹپ، ٹپاٹپ۔ ساما بھیا کو صرف ڈانٹ کر چھوڑ دیا گیا۔ (اگرچہ ڈانٹ ایسی تھی کہ ان کا پیشاب خطا ہوتے ہوتے بچا) بعد میں چچازاد بھائیوں نےشکایت کی کہ ددو صرف ہمیں کو مارتے ہیں ساما کو ایک تھپڑ تک نہیں پڑا۔ شکایت بوباسائیں کے سامنے اس انداز سے کی گئی کہ وہ بڑے مالک تک اسے پہنچادیں۔

    ددو کے پاس سیڑھی پر بیٹھ کر گپ کرتے وقت کھیتوں کی سنچائی سے لے کر ٹھاکروں کے بیٹے کے ایک ہریجن بیوہ کی کٹیا سے نکلتے دیکھے جانے کی کہانی سناتے ہوئے آخر میں انہوں نے کہا، ’’بڑے مالک تینوں بڑے پوتوں کو کچھ زیادہ ہی پیٹ دیا آپ نے۔ شکایت کر رہے ہیں کہ ساما بھیا کو ایک لپڑ بھی نہیں جڑا۔ لڑکوں کے من میں میل آ رہا ہے۔‘‘

    ’’ارے شیام نارائن کو ماریں گے تو دفعہ 201لگ جائے گی اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ نہیں۔‘‘ پھر اپنی ہی بات پر وبھوتی نارائن اپادھیائے اتنی زور سے ہنسے کہ سامنے مولسری کے درخت پر بیٹھا گوریوں کا جھنڈ بھرا مار کے اڑ گیا۔

    اس دن اپادھیاؤں کے اس مشترکہ خاندان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی بہو سب سے چھوٹے پوتے کی ماں چھوٹکی پنڈتائن گھونگھٹ کے اندر آنسو پونچھ پونچھ کے خوب روئیں جب کہ ان کے بیٹے کو مار بھی نہیں پڑی تھی۔ ددو کا دفعہ 201لگنےوالامذاق لوگوں کو اتنابھایا کہ اس کا تذکرہ کئی دن رہا۔ جتنی بار لوگ ہنستے وہ تلملا جاتیں۔ ان کا بیٹا اتنا کمزور کہ باپ دادا سرزنش کے لیے دوہاتھ جھاڑدیں تو مر ہی جائے۔ خوش حال پشتینی زمین جائداد والے خاندان میں ایسا قحط زدہ دکھائی دینے والا سوکھا مارا لڑکا وہ بھی دولڑکیوں پر ایک اکیلا بھائی۔ پھر یہ کہ سوکھی لکڑی جیسے جلدی جل اٹھتی ہے ویسے ہی ذرا سے میں ناراض ہوکر دوسروں پر پل پڑیں اور مارکھاکے لوٹیں۔ لوگ چڑچڑاکے مزا لیتے تھے۔ پرانے وقتوں کی زمینداری نہیں رہ گئی تھی کہ لوگ خاندان کے نام سےکچھ زیادہ ہی خوف کھائیں اور ددو اپنے دادا شری کی طرح جسے چاہیں پیڑ سےبندھواکے پٹوادیں۔

    (ساما بھیا جب الہ آباد یونیورسٹی سےہسٹری آنرز کرنے کے بعد شیام نارائن اپادھیائے آئی۔ پی۔ ایس بن کے لوٹے تو بھلے ہی ددو نے گوشت خوروں کے لیے چار بکرے کٹواکے اور سبزی خوروں کے لیے کیسر بادام کی کھیر پوڑی تیار کراکر جشن منایا ہو لیکن ڈومن حجام کی حیرت نے سب پر پانی پھیر دیا کہ ’’ارے کپتان بن گئیں ساما پدھیا؟ ان کا تو ہم ہی اکھاڑے ماں چار بار پٹکے تھے۔‘‘)

    ’’ارے بوباسائیں کچھ تمہیں کرونہ لڑکے کےلیے۔ یہ ایسا ہی رہ جائے گا کیا؟ چاروں چچازاد ڈنڈ بیٹھک لگاتے ہیں ٹھاکر تک منہ لگتے ہوئے ڈرتے ہیں اور یہ پٹ آئے بھیکن نائی کے لڑکے ڈومن سے۔‘‘

    چھوٹی پنڈتائن نے بوباسائیں کو ڈیوڑھی کے پچھواڑے والی بگیا کی طرف بلواکر دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکر کلاوتی کہارن کی معرفت کہلوایا۔

    ’’اچھا چھوٹی ملکائن آج سے ببوا ہمارے ذمے۔‘‘ بوباسائیں نے پھل دار درختوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے کل بتیا کی وساطت نظرانداز کرکے آواز براہ راست اندر پہنچادی۔ ببوا کو دراصل کچھ عرصہ پہلے ٹائیفائد ہواتھا۔ بداحتیاطی کی وجہ سے پندرہ دن کے اندر دوبارہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد سےہی پنپ نہیں سکے تھے۔ بالکل ہی بقول بوباسائیں پت لہنگے ہوگئے تھے۔ برہمنوں کے تین چار گھروں میں مرد گوشت کھاتے تھے۔ ان میں اپادھیائے گھرانہ بھی شامل تھا۔ کبھی کبھار ’باٹی‘ لگتی تھی ۔ محبوب سائیں ہی خصی خریدکرلاتے، ذبح کرکے گوشت بھی بناتے۔ سری پائے اور دوسرا انگڑ کھنگڑ خود لے لیتے تھے۔ گوشت پکانے میں ددو خود کھڑے ہوتے جو گھر سے باہر پکتا اور وہیں کھایا بھی جاتا۔ اس میں دو ایک خصوصی درجے والے مسلمان مرد بھی شریک ہوتے تھے۔ اس کے برتن گھر سے باہر گوشالہ کے قریب ایک ٹین کی چھت والے چھوٹے سے کمرے میں رکھے رہتےتھے۔ وہیں لکڑیاں اوراپلے بھی رکھے جاتےتھے۔ جب تک دادی حیات تھیں اس کمرے کی لکڑیاں اور اپلے تک گھر کی رسوئی میں نہیں آتے تھے۔ ان کی موت کےبعد اتنی رعایت ہوگئی تھی کہ پورے گھر کی جلاون وہیں رہتی تھی۔ برتن ایک کونے میں الگ رکھے رہتے یہ معلوم ہوکر کہ گھر کے بیشتر مردوں کو گوشت سے پرہیز نہیں تھا، ڈاکٹر نے شیام نارائن کے لیے چوزے کا شوربہ تجویز کیا تھا۔ یہ تجویز ان کی والدہ نے سنی ان سنی کردی۔ اس لیے کہ اس میں جھنجھٹ بہت تھا ۔ اس کی جگہ وہ دودھ اور پھل کھلاتی رہتی تھیں جو صاحب زادے کو سخت ناپسند تھے۔ انہیں تو صبح شام چاٹ پکوڑے دےدو۔

    بوباسائیں ایک اسٹوپ خرید کر لائے اور ایک المونیم کاہینڈل والا چھوٹا برتن جو شہر میں ساس پین کہلاتا ہے۔ ایک پلاسٹک کے ڈبے میں انہوں نے تیز پتہ، الائچی اور دارچینی جیسے خوشبودار مسالے اور ایک ڈبے میں نمک لاکر رکھا۔ اب وہ روز گھر سے ایک چوزہ ذبح کرکے لے آتے اور اس کی یخنی تیارکردیتے تھے۔ ساما بھیا کو وہ شوربہ نہایت پسند آگیا تھا۔ چوزے کی قیمت چھوٹکی پنڈتائن کبھی اناج اور کبھی نقد کی صورت دے دیا کرتی تھیں گرچہ بوباسائیں نہ کبھی مانگتے نہ وہ یہ کہہ کر دیتیں کہ یہ اس کی قیمت ہے۔ ادائیگی بھی روزانہ نہیں تھی۔ جب ان کا جی چاہتا دے دیتیں اور نہایت فراخ دلی کےساتھ دیتیں کہ چوزے کی تو قیمت ہوتی ہے لیکن محبت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

    ایک دن بوباسائیں کی اہلیہ حور بانو پنڈتائنوں سے ملنے ان کے گھر گئیں۔ بیٹھنے کو مچیادی گئی، ڈلیا میں گڑچبنیا، اور تام چینی کے مگ میں چائے پیش کی گئی۔ تینوں خواتین نے ان سے گھل مل کر حال چال پوچھا تو باتوں باتوں میں حور بانو نے کہا کہ چھوٹے بھیا سب بھائیوں میں خوبصورت ہیں۔ پٹی داروں میں بھی کوئی اتنا سندر لڑکا نہیں ہے، اس پر سے سانجھ دیکھیں نہ سویرا کبھی شمشان نکل گئے تو کبھی قبرستان۔ برگد تلے گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں تو گلی چھٹک کر کہا ں جاتی، کس کو لگتی ہے کیا پتہ۔ سو بہتر ہوگا کہ دوا اور غذا اپنی جگہ لیکن ان کے گلے میں کچھ گنڈا تعویذ بھی ڈال دیا جائے۔ تینوں خواتین نے حامی بھری بلکہ دونوں بڑی چاچیوں نے یہ بھی کہا کہ تعویز تو ان کے فرزندوں کے گلے میں بھی پڑنا چاہیے، جوان ہورہے ہیں۔ لوگوں کی نطریں تو رہتی ہی ہیں۔ اوجھا کو بلاکر ایک آدھ بار جھڑوایا تو جاچکا ہے۔ اور رہے ساما بھیا تو ان کے لے جب ٹائفائڈ، ری لیپس، ہوا تھا تو باقاعدہ جاپ ہواتھا۔ پھر بھی گلے میں کچھ مستقل طور پر پڑا رہے تو اچھا ہے۔

    ’’تو ہم جائیں حاتم سائیں کے تکیے پر!‘‘

    اپنی ساس تو گزرگئی تھیں لیکن بیوہ چاچی ساس ابھی موجود تھیں۔ سن سفید، ہلتی ڈولتی وہ بھی بیٹھ گئی تھیں کہ حور بانو پورےگاؤں کی خبریں سنانے میں استاد تھیں خاص طور پر ٹھاکروں کے بیٹوں کے ہریجن ٹولہ کے چکر لگانے کی خبریں۔ حاتم سائیں کانام سن کر تینوں بہوؤں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر نظریں گھر کی بزرگ کو تھمادیں۔ انہوں نے ہلتا سر کچھ اور ہلادیا۔ پھر کچھ سوچ کر بولیں، ’’چلی جانا حور بانو، تکیے سے تو پنڈتانے کا پرانا ناطہ ہے۔ ہماری ساس کے وقت میں تو فصل کی پہلی چیز دیوتا کو بھوگ لگانے کے بعد تکیے پر ہی بھیجی جاتی تھی۔ اس وقت حاتم سائیں کے دادا تکیے پر بیٹھتے تھے جو کہہ دیتے تھے سچ ہوتا تھا اب ایسے لوگ کہاں پھر بھی اثر تو ہے۔‘‘ پھر انہوں نے بہوؤں کی طرف دیکھ کرکہا، ’’ا سوپ میں رکھ کر چوڑا اور بھیلی بھجوادینا۔‘‘

    دوسرے دن حور بانو سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹ کر ساما بھیا کو لے کر بڑے سائیں کے تکیے پر گئیں۔ چار پانچ سائیں گلے میں منکے ڈالے آنکھوں میں سرمہ ہلائے بیٹھے چلم پی رہے تھے۔ مزار کے طاق میں چراغ روشن تھا۔ ایک پتلے گوٹے سے مزین غریبا مئوچادر پڑی ہوئی تھی۔ چادر پرسوکھے ہار پھول پڑے صاحب مزار کی کس مپرسی کی داستان کہہ رہے تھے۔ حق اللہ۔۔۔ بڑے سائیں نے پنڈتوں کے جانشین کوآتے دیکھ کر نعرہ بلند کیا۔ حوربانو نےبھیا کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ایسے سوکھے مارے تھے کہ کچھ وزن ہی نہیں تھا۔ مشکل سے چھ سات برس کے لگتے تھے اور ویسا ہی وزن تھا۔

    سبھی فقیروں نے باری باری بچےکو پھونکا پھر ایک بار اجتماعی نعرہ بلندکیا، حق اللہ اور چلم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ صرف بڑے سائیں تسبیح پھیر رہے تھے۔ پھیرتے پھیرتے بولے، ’’ شام کو آکے تعویذ لے جانا محبوب محمد کی اہلیہ۔ جب حکم ہوگا تب ہی اتارا جائے گا۔ بے ادبی نہ ہو اس لیے اتار کر ندی میں ڈالا جائے گا۔ باقی دن جسم سے الگ نہ ہو۔‘‘

    ساما بھیا چوزے کے شوربے، حاتم سائیں کے تکیے اور ڈاکٹر کے ٹانک کے مشترکہ اثر کے تحت اب خاصے صحت مند ہوگئے تھے اور کسرت بھی کرنے لگے تھے جو بوباسائیں کی نگرانی میں بھیکن حجام کے اکھاڑے جاکر کی جاتی تھی۔

    ساما بھیا نے دیر نہیں لگائی۔ اکھاڑے جانےکے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان کا ایک خواب تھا، اپنے اوپر ہنسنے والے سبھی لوگوں کو کم از کم ایک پٹخنی ضرور دیں۔ اور جنہوں نے انہیں پٹخا انہیں تو اٹھنے ہی نہ دیں۔ اس خواب کے پورا ہونے کے آثار کچھ کچھ نظر آنے لگے تھے جس میں بوباسائیں کی مدد شامل تھی۔ وہ بوبا سائیں کی جان نہیں چھوڑتے تھے۔

    جب تک بھیا کسرت کر رہے تھے، بوباسائیں بیٹھے ایک خط کا مفہوم پوری طرح ذہن نشین کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ خط ان کے ایک نانہالی رشتے دار نےدوردراز کے ایک گاؤں سے آنے والے شخص کی معرفت بھجوایا تھا۔ وہ اپنی لڑکی کارشتہ سائیں کی بیٹی کے ساتھ کرناچاہتےتھے۔

    تبھی ساما بھیا ہانپنے کانپتے آگئے۔ چلیں بوباسائیں۔ انہوں نے بوباسائیں کے شانوں کے اوپر سےسیاہ روشنائی سے بڑے بڑے حروف میں لکھی تحریر پر نظر ڈالی۔ انہیں وہ تحریر بہت مختلف لگی اور بہت دلچسپ بھی۔ وہ ہندی سے بالکل الگ تھی (انگریزی سے بھی جو بس ابھی ان کے اسکول میں شروع کرائی ہی گئی تھی) انہوں نے اس انوکھی تحریر کو غور سے دیکھا۔ انہیں یاد آیا کہ ایک با جب بوباسائیں پنچ سورہ پڑھ رہے تھے تب بھی ایسا ہی کچھ نظر آیا تھا۔ ایسی تحریر جو ان کے لیے نئی تھی۔

    ’’یہ کیا ہے سائیں؟‘‘

    ’’چٹھی ہے بھیا۔‘‘

    ’’نہیں بوباسائیں یہ لکھاوٹ کیسی ہے؟‘‘

    ’’یہ اردو ہے۔‘‘

    ’’اردو کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’اردو۔۔۔ اردو جیسے ہندی ہوتی ہے نہ بیٹا ویسے ہی ایک بھاشا ہوتی ہے۔‘‘

    ’’تم کو آتی ہے بوباسائیں؟‘‘

    ’’آتی ہے۔‘‘

    ’’اردو میں کچھ بول کر بتاؤ۔‘‘

    ’’وہی تو بول رہے ہیں۔‘‘

    ’’تم تو ہندی بول رہے ہو بوباسائیں۔‘‘

    بوباسائیں نے سر کھجایا۔ اب کیسے سمجھائیں۔

    ’’بتاؤ نا بوباسائیں۔ ہم سے اردو میں پوچھو تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’تمہارانام کیا ہے؟ اب کیا ہے نہ بیٹاکہ اردو میں کہیں گے ایسے ہی مگر لکھیں گے دوسری طرح۔‘‘

    ’’اچھا تو لکھ کے دکھاؤ۔‘‘

    سائیں نے آس پاس پڑی ایک پتلی ڈنڈی اٹھائی۔ اس سے کچی زمین پر لکھا، ’’تمہارا نام کیا ہے۔‘‘

    ’’بوباسائیں ہمیں ایسے لکھنا سکھادو۔ اردو میں۔‘‘

    بوباسائیں بےحد خوش ہوگئے، کسی نے ان سے پڑھنا سکھانے کی بات کی۔ ان کی زبان اردو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اچھا دیکھیں گے۔

    دوچار دن بعد ساما بھیا نے اپنی فرمائش دوہرائی تو وہ بولے، ’’ ضرور بھیا۔ چلیے ابھی شروع کرتے ہیں۔‘‘ پاس میں کاغذ پتر کچھ تھا نہیں۔ گئیوں کے شیڈ کے بغل میں چارے کی کوٹھری تھی۔ وہاں سے انہوں نے ہنسیا نکال کے پیپل کی ایک ٹہنی توڑی اور ہنسیا سے ہی نوک بنائی پھر کچی زمین کی مٹی کرید کرایک بڑا سا مستطیل بناکر اس میں چھ خانے نکالے اورچھ عدد ابتدائی حروف تہجی لکھے۔ سوچا ایک بار میں چھ بہت ہیں۔ الف کو چھوڑ کر باقی سب ایک جیسے۔ صرف نقطوں کا پھیر بدل۔ ساما بھیا نہایت ذہین تھے۔ بہت جلدی سیکھ گئے۔ ڈنڈی کی نوک سے کچی مٹی میں نوکیلی شاخ سے لکھنے کاعمل بذات خود بہت دلچسپ تھا۔ اور یہ نئے حروف بہت دلچسپ، انوکھے اور پرکشش تھے۔ تیسرے دن انہوں نے مٹی پر کی گئی مشق کو سلیٹ پر ازخود دوہرایا اور خوشی خوشی سلیٹ لے کر بڑی چاچی کے پاس پہنچ گئے۔

    چاچی دیکھو ہم نےکیا لکھا، ’’ الف، بے، پے، تے۔‘‘ وہ مسرور لہجے میں بولے۔

    کمر پے ہاتھ رکھے بڑی دادی بھی ہلتی ڈولتی ادھر ہی آرہی تھیں۔ انہوں نے آنکھیں بھینچ کر دیکھا۔ ’’ کیا ہے رے ساما؟‘‘

    ’’ہمیں بوباسائیں اردو لکھنا پڑھنا سکھا رہے ہیں۔‘‘

    بڑی پنڈتائن نے غور سےسلیٹ دیکھی۔ ان کا پورا چہرہ سرخ ہوگیا۔

    ’’ارے کل بتیا! جا، جا کے کہہ اس مرے سائیں سے۔۔۔ لڑکا کو ایکدمّے مسلمان بنادیبے کا۔‘‘

    (لڑکےکوایکدم ہی مسلمان بنادے گا کیا)

    مأخذ:

    یہ جہان رنگ و بو (Pg. 133)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2013

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے