Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیلا

MORE BYرشید جہاں

    جہاں موٹی، گوری، منجھولی شیلا میں اور کمزوریاں تھیں وہاں اس کی خوش مزاجی بھی شامل تھی، ’’ہاں‘‘ کے سوا دوسرا لفظ تو وہ جانتی ہی نہیں تھی اور، ’’نہیں‘‘ کااستعمال اس نے شاید کبھی کیا ہو۔ کسی کے ہاں ڈنر پر اگر کوئی مہمان آخری وقت پر انکار کردے تو جگہ بھرنے کو شیلا کو گھسیٹ بلائو۔ جب کہیں بڈھے ایک میز پر جمع ہوجائیں تو شیلا ان کے خوش کرنے کو بٹھائی جائے ، جوان جمع ہوجائیں تو ان کی دل لگی کا آلہ شیلا بنے۔ عاشق اپنا رونا اس کے سامنے روتے، جوان لڑکیاں جب نئی نئی محبت کا شکار ہوتیں اور انھیں راز دار کی تلاش ہوتی تو وہ بھی شیلا کے پاس پہنچتیں، بیویاں بے خطر اپنے اپنے شوہروں کو شیلا کے پاس چھوڑ دیتیں۔ شیلا ایک ایسی عمر سے گزر رہی تھی کہ بڈھے مرد اس کو انجان سمجھ کر ترس کھاتے اور جوان اس کو بڈھی سمجھ کر ہنستے، وہ اکتالیس سال کی غیر شادی شدہ عورت تھی۔

    جس محلہ میں وہ رہتی تھی وہاں وہ بہت ہر دل عزیز تھی۔ اس کی نیک نیتی اور چال چلن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکتا تھا۔ بال بچوں والی عورتیں، کنواری شیلا پر بڑھاپا آتا دیکھ کر ترس کھاتیں، لیکن شیلا بہت خوش تھی، وہ خود اْلٹا ان عورتوں پر ترس کھایا کرتی تھی، یہ عورتیں کیا جانتی تھیں۔ جانوروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں اور شیلا کے دل میں تو لازوال اور پاک محبت کی ایک کان تھی، جس کی روشنی میں وہ مگن رہتی تھی، پاس ہی وکیل گوپال چند کی ماں رہتی تھی، پرانے زمانے کی جاہل عورت تھی جو بات دل میں آئی منھ پر دھر دی، ’’ہاہ! کیسی جوانی برباد کی ہے پڑھ کر یہی تو ہوتا ہے کہ کوئی سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ اب دیکھو کچھ نہ ہوتیں تو آٹھ دس بچوں کی ماں ہوتیں!‘‘ شیلا ہنس کر بات ٹال دیتی۔

    محبت اس نے بھی کی تھی۔ کبھی وہ محبت ایک بے پناہ طوفان کی صورت میں اس کو دیوانہ رکھتی تھی۔ اس پر بھی بہت لوگ فدا ہوچکے تھے ،لیکن شیلا کے دل میں صرف ایک ہی کی چاہ تھی اور وہ مرد بیوی بچوں والا تھا۔ ایک عرصہ ہوا جب دونوں ملے تھے، شیلا اٹھارہ انیس سال کی جوان لڑکی تھی، ہریش چندر پر وہ فدا ہوگئی۔ جب دونوں خاندانوں کا ملنا بڑھتا گیا تو یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف زیادہ رجوع ہونے لگے، لیکن کبھی کوئی ناجائز یا بدتہذیبی کی حرکت ہریش چندر نے نہ کی، بحثیں ہوتیں، کتابوں پر تنقیدیں ہوتیں، محبت اور عشق بھی زیر بحث آتے، اور شیلا ہریش چندر کی پاک اور بے لوث محبت کے فلسفہ پر یقین کرتی جاتی۔ رفتہ رفتہ دونوں اسی پاک اور روحانی محبت کا مزہ اٹھانے لگے جو ہریش چندر کے خیال میں محبت کا بہترین رخ تھا۔ ان کے دل و دماغ پر روحانی محبت کا غلبہ چھا گیا۔ ایسی محبت کا جو دنیا کی گندگیوں اور حسیات سے پاک تھی او رجن کا خیال کرنا بھی گناہ تھا۔

    گوپال چند ایک روز اس کے پاس آیا۔ شیلا کے دل میں گوپال کی بہت عزت تھی، وہ اس کو شریف اور دیانت دار جوان سمجھتی تھی کہنے لگا، ’’شیلا جی! اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی دوست ساوتری سے کہہ دوں کہ جب وہ باہر جائے تو آپ کا نام لے دے۔ وہ ہاسٹل میں ابھی نئی نرس ہے اور میٹرن اس پر بہت سختی کرتی ہے۔ جب باہر جاتی ہے تو بہت کرید کرید کر پوچھتی ہے کہ کہاں جارہی ہو۔ اگر وہ آپ کا نام لے دیا کرے تو میٹرن کچھ نہ کہے گی۔‘‘

    شیلا گوپال سے یہ باتیں سن کر حیران رہ گئی۔ اس کے خیال میں گوپال کی محبت ایک اور لڑکی سے تھی اور اب اس پرانی درشن کو چھوڑا تو چھوڑا لیکن بے ایمانی کی کیا ضرورت تھی۔ شیلا کی پاک محبت کو دھکا لگا کیا لوگ اتنی جلدی بدل جاتے ہیں۔ گوپال کی عزت اس کے دل میں کم ہوگئی۔ آخر کو بولی، ’’مجھے یہ نہیں پسند کہ میرا غلط نام لیا جائے میں اس لڑکی کو جانتی بھی نہیں۔‘‘

    ’’اگر آپ اجازت دیں تو کل شام کو میں اس کو یہاں لے آئوں۔‘‘

    شیلا نے مجبور ہوکر اجازت دے دی۔

    دوسرے دن وہ چائے پر آئے، وکیل گو عینک لگاتا تھا لیکن پھر بھی خوش رو جوان تھا اور اس کی دوست کو دیکھ کر تو شیلا حیران رہ گئی۔ تیئیس چوبیس سال کی ایک عورت تھی۔ سوکھی، مدقوق اور برسوں کی بیمار معلوم ہوتی تھی۔ کالے رنگ کے سامنے اس کے دانت اوربھی چمک رہے تھے۔ وکیل اور وہ کافی گھلے ملے لگتے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آگ تھی جس کے سامنے وکیل تاب نہ لاسکتا تھا۔ چائے پی کر وہ دونوں چلے گئے، لیکن شیلا وہیں بت بنی بیٹھی رہی اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس نے اپنی کتنی بے قدری کی ہے۔ نہ کبھی اپنی صورت کی خبر لی اور نہ ڈھنگ کا کپڑا پہنا۔ ایک ایسے مرد کے پیچھے عمر برباد کردی جو دراصل برسوں کی ملاقات کے بعد بھی غیر تھا۔ وہ اب بھی آتا تھا۔ دور بیٹھ کر لیلیٰ مجنوں کے قصے رونے! اس کو وہی مزہ آتاتھا جو لوگوں کو چڑیوں کو پنجروں میں بند کر کے پالنے میں آتا ہے۔ جان بوجھ کر اس کو ایک عجیب و غریب محبت کے قلعہ میں بند کردیا تھا۔ شیلا اٹھی اور وہ کہتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی، ’’میری جو بھی رائیں ہیں وہ سب انہی صاحب کی بتلائی ہوئی ہیں اور میں تو محض ایک گراموفون ریکارڈ کی طرح ان کو دوہرایا کرتی ہوں۔‘‘

    ان کا منھ فق ہوگیا۔ جس طرح پنجرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر مالک کادل سن سے ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ بھی شیلا کی طرف دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور تھوڑی دیر بعد بولے، ’’یہ کیا مذاق ہے‘‘ وہ بیچارے سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے یہ سوانگ بنایا گیا ہے۔

    ’’کون سا مذاق؟‘‘ شیلا نے اپنے اوپر نگاہ ڈال کر کہا، ’’یہ کپڑے! کیوں کیابری لگ رہی ہوں؟‘‘

    ’’بری لگ رہی ہو! میں نے تو تم کو پہچانا ہی نہیں۔ تم وہ شیلا ہی نہیں جس سے ملنے میں آیا تھا‘‘ یہ کہہ کر ہریش چندر بیٹھ گئے۔

    شیلا بھی ہنس کر بیٹھ گئی، ’’تو کیا مضائقہ ہے اب نئی شیلا سے مل لیجئے۔‘‘

    اب انھوں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا اور تھوڑی دیر بعد بولے، ’’کیا تمھاری شادی بھگوان داس سے ہونے والی ہے؟‘‘

    ’’آپ سے کس نے کہا؟‘‘

    ’’ایک دن بھگوان داس نے خود ذکر کیا تھا۔ پھر اوروں سے بھی سنا۔‘‘

    ’’بھگوان داس نے آپ سے ذکر کیا تھا اور آپ نے کیا کہا؟‘‘

    ’’اس نے میری بیوی سے کہا تھا کہ وہ آپ کو راضی کریں، لیکن میں نے اس کو وہیں خاموش کردیا۔‘‘

    ’’کس طرح؟‘‘

    ’’کس طرح! میں نے کہہ دیا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تمہارا ارادہ شادی کرنے کا نہیں ہے۔‘‘

    ’’یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘ شیلا نے ہنس کر کہا۔

    ’’شیلا! یہ میں کیا سن رہا ہوں! بجائے خوشامد کے اب ان کی آواز میں ذرا سی خفگی تھی۔ اتنے سالوں میں وہ شیلا کو اپنی ملکیت ہی سمجھنے لگے تھے۔

    ’’سن کیا رہے ہیں۔ آخر جب آپ نے شادی کرلی ہے تو میں کیوں نہ کرلوں۔‘‘

    ’’تم اچھی طرح جانتی ہو میری شادی تم سے ملنے سے پہلے ہوگئی تھی جب میںبچہ تھا۔ اس کا ذکر ہی کیا۔ میری اور تمہاری محبت بالکل دوسری چیز ہے۔ وہ آلودگیوں سے پاک اور دنیاوی خواہشوں سے آزاد ہے۔ ہماری محبت روحانی ہے۔ ایشور کے لیے بتائو کیا سچ مچ تم بھگوان داس کو وعدہ دے چکیں؟ اے مالک میں نے اس مندر کی پوجا اتنے برس اسی لیے کی تھی۔‘‘

    ’’جس مندر کی پوجا تم نے اتنے برسوں اپنی بیوی کے ساتھ بڑے آرام سے رہ کر کی ہے وہ میں نے یہاں اکیلے تڑپ تڑپ کر کی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کیوں میں بھی اس مندر کی پوجا اسی طرح نہ کروں جس طرح کہ تم اب تک کرتے رہے ہو۔‘‘

    ’’عورت مرد میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ شیلا! عورت گندی ہوجاتی ہے۔ اس کا دل اور جسم کبھی الگ الگ نہیں رہ سکتا۔ وہ بس ایک ہی کی ہوتی ہے ایک ہی کے خیال میں مرجاتی ہے۔ ورنہ اس میں اور طوائفوں میں فرق کیا ہے۔‘‘

    ’’اور مرد؟‘‘

    ’’مرد ایک بادل ہوتا ہے جو آندھی کی طرح اٹھتا ہے اور مینھ کی طرح برس جاتا ہے۔ وہ چاہے کہیں اٹھے ، کہیں برسے اس میں فرق نہیں آتا۔‘‘

    ’’اور اس بادل کا دل؟ اس کا کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’شیلا آج تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ تم معصوم ہو۔ میں تمھیں کیسے سمجھائوں۔‘‘

    ’’اکتالیس سال کی معصوم شیلا۔ اہا اہا اہا بڑھیا شیلا ہا ہا ہا‘‘ وہ زور سے ہنس پڑی۔ ہریش چندر اب شیلا کی طرف التجا سے دیکھ رہے تھے، چاہتے تھے کہ وہ پھر آنسوئوں کا تار باندھ دے ، ان کے پائوں اپنے آنسوئوں سے بھگودے اور کہے کہ نہیں میرے دیوتا تو تمھیں ہو۔‘‘ شیلا کھڑی ہوگئی اور ضبط سے کہنے لگیـ:

    ’’تم مرد ضرور ہو شاید ساری دنیا کے مرد ایسے ہی ہوتے ہوں، لیکن تم تو بہت ظالم ہو۔ انیس سال کی عمر میں میری تم سے ملاقات ہوئی، میں تم کو دیکھ کر اور تمھاری تقریر کے جال میں پھنس کر تمہاری پرستش کرنے لگی۔ تم مجھ سے بڑے تھے۔ دو بچوں کے باپ تھے۔ تم نے جان بوجھ کر میری کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ تم جہاں ملتے تھے مجھ سے جان جان کہہ کر باتیں کرتے۔ میری تعریف کرتے۔ ایک آدھ جملہ کان میں بھی کہہ دیتے۔ تم نے اپنی طاقت مجھ پر محسوس کرلی تھی اورمجھے اپنے پائوں تلے روندنا چاہتے تھے۔ آخر ایک دن تم نے مجھ سے کہلوالیا کہ میں تم پر مرتی ہوں اور پھر تم کس قدر انجان بن گئے۔ رفتہ رفتہ تم نے مجھے یہ یقین دلا دیا کہ عورت بس ایک ہی سے محبت کرسکتی ہے۔ ایک کی ہوسکتی ہے۔ محبت صرف دل کی ہوتی ہے پاک محبت انسانی خواہشوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔ مجھ میں جو کچھ جوش و خروش تھا میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اپنی یہ حالت بنالی اور یہ سمجھ بیٹھی کہ بس تم ہی میری دنیا ہو۔ تم کبھی کبھار آتے ہو۔ دیوتا کی طرح بیٹھ جاتے ہو اور اپنی پوجاکروا کے چلے جاتے ہو۔ میں پھر اکیلی اس دنیا میں رہ جاتی ہوں جو صرف میرے خیالوں میں بستی ہے۔ ہاں اب اصلی دنیا میں آنا چاہتی ہوں، گو یہ بھی جانتی ہوں کہ وقت بہت نکل گیا ہے، ’’تھوڑی دیر ٹھہر کر‘‘ ہریش چندر آج وہ مندر جس کی بنیادیں ہوا میں تھیں ٹوٹ گیا۔ اب پجارن ہی نہیں رہی تو دیوتا کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    ہریش چندر نے عجیب لہجہ میں کہا، ’’تمھیں کیا ہوگیا ہے شیلا! لوگ تم پر ہنسیںگے کہ بڑھاپے میں سینگ کٹا کر بچھڑوںمیں داخل ہوئی ہو۔‘‘

    وہ تن کر کھڑی ہوگئی، ’’تم صرف خود غرض ہی نہیں ہو بلکہ ظالم بھی ہو اب تم ہی میرے بڑھاپے کا مذاق اڑانے لگے۔ جائو ایشور کے نام پر یہاں سے جائو۔ کہیں میں تمھیں مار ہی نہ ڈالوں۔۔۔‘‘ وہ کرسی پر گر گئی اور رونے لگی۔

    ہریش چندر اب امید سے ہاتھ بڑھاکر اس کی طرف آئے، وہ پھر کھڑی ہوگئی اور چیخی، ’’جائو میں کہتی ہوں چلے جائو۔‘‘ او رپھر وہ کمرے سے بھاگ گئی۔ اس دن شیلا اپنے میں ایک عجیب بے چینی محسوس کرتی رہی۔ ہریش چندر کی یاد میں اس نے برسوں اور بے گنتی آنسو بہائے تھے، لیکن یہ آنسو دوسرے تھے۔ یہ ایک دوسری خواہش تھی جو اس کو رلارہی تھی ،وہ بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

    ہریش چندر کے یہ الفاظ کہ سب ہنسیںگے کہ سینگ کٹاکر بچھڑوں میں داخل ہوگئیں اس کو کسی طرح نہ بھولتے تھے۔ رات کو خواب میں بھی یہی دیکھتی تھی کہ دنیا اس پر ہنس رہی ہے۔ اس نے اپنا طرزو رویہ آہستہ آہستہ بدلنا شروع کیا۔ یہ خیال کہ لوگ اس پر ہنسیںگے ہر وقت غالب رہتا تھا اور وہ ہر قدم سنبھل کر اٹھاتی۔ کھدر چھوڑ کر سودیشی پہننے لگی۔ کرتے چھوڑ کر صدریاں شروع کردیں۔ چپلیں چھوڑ کر ہندوستانی کامدار جوتی خریدی۔ لوگ شیلا کی اس تبدیلی کے عادی تو ہورہے تھے لیکن عورتیں اس کو اتنا بے ضرر نہیں خیال کرتی تھیں۔ جوان لڑکیاں تک اس سے خوف کھانے لگی تھیں۔

    ایک جوان فوجی افسر ا س پر بہت ریجھا ہوا تھا۔ شروع شروع میں غالباً شیلا کی مادرانہ محبت نے اس کو اپنی طرف مائل کیا تھا لیکن اب رفتہ رفتہ قدرت نے اس کو بچہ سے بدل کر مرد کردیا تھا۔ گو شیلا لاپروائی ظاہر کرتی تھی لیکن دراصل اس کے دل میں اس لڑکے سے محبت ہوچلی تھی۔ اس کے ساتھ کسی قسم کا خیال کرنا ہی حماقت تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آسانی سے اس کا اپنا لڑکا ہوسکتا تھا ادھر بھگوان داس اس سے شادی پر مصر تھے ، اپنے چھوٹے بچو ںکا واسطہ دلا رہے تھے لیکن شیلا کا دل تو اس جوان لڑکے میں پھنس رہا تھا، اس کی ہر ادا شیلا کو ایک ایسا موسم بہار معلوم ہوتی تھی جس کی کلیاں ابھی کھلنے ہی والی ہو ںاور بھگوان داس اس کے مقابلے میں بالکل پت جھڑ تھے ، وہ سوچتی تھی کہ اسے کیا ہوگیا ہے؟ ساری منطق جو اس نے بچپن سے سیکھی تھی اور جس کو ہریش چندر کے یہ الفاظ کہ سینگ کٹاکر بچھڑوں میں داخل ہوگئیں۔ بس اس کے قدم روک دیتے تھے۔

    وکیل اور اس کی دوست اکثر ایک ساتھ نظر آجاتے تھے لیکن شیلا کے گھر پر وہ نہیں آئے۔ ایک دن وہ لڑکی اکیلی آئی اور ایک اٹیچی کیس اسے دے کر بولی، ’’تھوڑے دن کے لیے چھٹی پر جارہی ہوں۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی اگر آپ اس کو امانت رکھ لیں۔‘‘ شیلا نے اس کو وکیل کے لیے چھیڑا وہ جھینپ کر خاموش ہوگئی۔

    پندرہ روز کے بعد شیلا بازار کو گئی تو ساوتری اس کو ایک دوکان میں ملی، وہ زرق برق کپڑے پہنے اور گہنوں سے لدی بہت ہی بدنما معلوم ہورہی تھی، اس کو دیکھ کر بے ساختہ شیلا کے منھ سے نکلا، ’’کیا آپ کی شادی ہوگئی؟‘‘

    اس نے شرماکر، ’’جی ہاں‘‘ کہا۔ شیلا نے سوچا کہ وکیل نے چھپ کر ہی شادی کی ہوگی ورنہ اس کی ماں مجھ کو ضرور بلاتی۔ پھر شیلا کو اپنے ان خیالوں کو سوچ کر جو اس نے وکیل کی طرف سے کرلیے تھے بہت رنج ہوا اور وکیل کی عزت پھر اس کے دل میں ہوگئی۔

    شیلا نے اسے مبارک باد دی اور خوشی ظاہر کی۔ وہ کچھ بے چین سی ہوگئی اور اسی پرانی افسردہ سی آوازمیں بولی:

    ’’میرے شوہر اجین کی ریاست میں نوکر ہیں‘‘ اس کے کہنے سے شیلا سمجھ گئی کہ وہ نہیں چاہتی کہ وکیل کا نام سب کے سامنے لیا جائے لہٰذا وہ چپ ہوگئی۔

    لڑکی بہت اداس نظر آتی تھی۔ ایک منٹ شیلا کو اس سے الگ بات کرنے کو مل گیا اور اس نے پوچھا، ’’کیا وکیل نے آپ سے شادی نہیں کی؟‘‘

    وہ بولی، ’’نہیں وہ تو کرنا چاہتا تھا۔‘‘

    شیلا کو اور تعجب ہوا اور اس نے پھر پوچھا، ’’تو کیا آپ کے والد نے؟۔‘‘ اتنے میں لوگ آگئے ، اس نے سرہلایا اور شیلا چلی آئی۔ سارے راستے وہ اسے برا بھلا کہتی رہی کیسی رائے ہے کہ باپ کے کہنے سے اتنے اچھے لڑکے کو چھوڑ دیا۔ شیلا کے باپ نے بھی کوشش کی تھی کہ وہ شادی کرے۔ ایک سے ایک اچھے پیغام موجود تھے۔ لیکن شیلا نے باپ کی ایک نہ مانی اور بیوی بچوں والے ہریش چندر کی محبت میں یہ دن گزار دیے اور اس بدصورت لڑکی کو ایک چاہنے والا ملا بھی تو اس نے یہ بے قدری کی۔ شام کو وہ ا پنا اٹیچی کیس لینے آئی اور بیٹھ گئی ، شیلا نے پھر وہی باتیں شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا کہنا کیوں سنا جب آپ دونوں کو محبت تھی تو پھر اور کیا چاہئے تھا۔‘‘

    ’’پتا جی راضی نہیںہوئے۔ ا س کے پاس روپیہ کم ہے اور وکیلوں کی آج کل چلتی بھی نہیں ہے۔‘‘

    ’’لیکن روپیہ تو خوشی کے لیے ضروری نہیں ہے اور یہ دوسرا شخص بہت امیر ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں جائداد والا ہے اور پانچ سو کا نوکر ہے۔‘‘ شیلا نے اس کی صورت کو دیکھا۔ یقین نہیں آیا۔

    ’’آپ کے باپ نے بھی آپ کو روپیہ دیا ہوگا۔‘‘

    ’’دس ہزار دیا ہے۔‘‘

    دس ہزار کی حقیقت ہی کیا ہے کہ ایک امیر جوان ایسی بدصورت عورت سے شادی کرلے شیلا نے پھر پوچھا۔

    ’’غالباً آپ کی شادی پرانے ڈھنگ پر ہوئی ہوگی۔ آپ نے اسے دیکھا نہ ہوگا۔‘‘

    وہ اسی مردہ آواز میں بولی، ’’نہیں دو دفعہ مل چکی تھی۔‘‘

    شیلا کے پاس اب کوئی سوال نہ تھا اور حیرانی حد کو پہنچ چکی تھی۔

    وہ بولی، ’’میں نے وکیل صاحب کو آپ کے ہاں بلایا ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ان سے مل لوں‘‘ شیلا نے اجازت تو دے دی لیکن اسے دنیا داروں کی طرح نصیحت بھی کرنی شروع کردی کہ اب جو ہوگیا سو ہوگیا۔ ہندو دھرم کی بھی بہت سی باتیں سمجھائیں۔ دنیا کی راہ بھی دکھائی۔ وہ ہنسنے لگی۔ پہلی دفعہ شیلا نے اسے ہنستے دیکھا وہ بولی، ’’میں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔‘‘ ہنسی ا س کی اور بھی بری تھی۔

    ’’نہیں جی آپ مجھے کیا سمجھائیںگی۔ میں وکیل سے بالکل محبت نہیں کرتی۔‘‘

    ’’محبت نہیں کرتی۔‘‘

    وہ پھر ہنسی’’محبت مجھے ہے او ربے حد ہے میں دیوانی ہوں، لیکن ایک ایسے مرد پر جس سے میری کبھی شادی نہیں ہوسکتی۔ ایک مسلمان لڑکے پر۔‘‘

    ’’مسلمان لڑکے پر۔‘‘

    ’’ہاں بہن جی۔ میرے پتا جی ایک بہت دھارمک ہندو ہیں میں نے یہ نوکری بھی اسی لیے کی تھی کہ اس کے قریب رہ سکوں، ہر ہفتہ اتوار میں اس کے ساتھ گزارتی تھی۔ بعض دفعہ روز یہاں سے دو گھنٹہ کا سفر کر کے جاتی تھی کسی کو خبر نہ تھی۔ میرے رشتہ داروں کو بالکل معلوم نہیں۔ اب وہ آگے پڑھنے کے لیے ولایت چلا گیا ہے میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اب میں اپنے شوہر کے ساتھ دو ماہ بعد ولایت جارہی ہوں۔‘‘ یہ سب کچھ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔

    کیا شیلا خواب دیکھ رہی تھی!

    ’’اور وکیل؟‘‘

    ’’وکیل کو سب معلوم ہوگیا ہے۔ وہ بہت ہی سیدھا اور نیک انسان ہے۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ میں اس سے اس شرط پر شادی کرلوںگی کہ وہ میرے اور میرے محبوب کے تعلقات کے درمیان دخل اندازی نہ کرے۔‘‘

    ’’اور وہ راضی ہوگیا؟‘‘

    ’’وہ راضی نہ ہوا تو میں نے دوسری جگہ شادی کرلی۔‘‘

    ’’اور وہ راضی ہوگیا؟‘‘

    ’’اسے خبربھی نہیں۔‘‘

    شیلا کو یقین نہ آیا کہ ایک ہندو مرد شادی کرتا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ بیوی دوسرے کے ساتھ رہ چکی ہے۔

    لڑکی نے کہا، ’’دو ہفتہ میں اس کے پاس رہی وہ میرے لیے پاگل ہو رہاہے‘‘ ہنس کر’’بے چارہ بدقسمت انسان!‘‘

    ’’تو آپ نے اس مسلمان سے شادی کیوں نہ کرلی؟‘‘

    ’’میرے والد اس کے والد۔ بس کیا کہوں اتنے برے آدمی ہیں وہ کبھی راضی نہ ہوتے۔ مجھے ہزار پڑھوایا لکھوایا ہے لیکن میں تو ہندو اور وہ بھی ایک پوزیشن رکھنے والے۔ زہر کھاکر مرجاتے، یہ کس طرح ممکن تھا دوسرے بدنامی سے میں خود دور بھاگتی ہوں۔ بدنام عورت سے میں بھی سخت نفرت کرتی ہوں۔‘‘

    شیلا کی سیدھی سمجھ میں یہ معمہ نہ آسکا۔ وہ ایک مسلمان سے شادی کر کے ماں باپ سب کو ناراض کرسکتی تھی لیکن یہ نہ کرسکتی تھی کہ ایک طرف تو کسی ہندو سے شادی کرلیتی اور پھر اسی کو دھوکہ دیتی اوربدنامی کے ڈر سے ہر کام ٹیڑھا کرتی۔ اتنی جرأت اس میں نہ تھی او رنہ اتنی چالاکی شیلا کے دوسرے سوال کا جواب ساوتری نے اس طرح دیا۔

    ’’نہیں میرے شوہر کو خبر نہ ہوگی، ’’انھیں بتائے گا کون‘‘

    ’’وکیل‘‘

    ’’میں نے پہلے ہی آپ سے کہا کہ وہ نہایت ہی شریف اور سیدھا ہے وہ میرا اصل جاں نثار ہے۔ ہرگز ایسا نہیں کرے گا۔‘‘

    ’’آپ کا مسلمان عاشق ہی بتادے تو؟‘‘

    ’’نہیں وہ کیسے بتائے گا۔‘‘

    ’’لیکن وہ آپ کے اس طرح شادی کرنے پر کیا کہے گا۔‘‘

    ’’بہت سخت ناراض ہوگا، لیکن میں سمجھا لوںگی اور کوئی راستہ نہیں اچھا معاف کیجئے۔ آپ کا بہت وقت لیا۔‘‘

    ’’وکیل صاحب آئے بھی نہیں۔ اگر آئیں تو کہہ دیجئے کل اس وقت یہیں پر ملوںگی۔‘‘

    تھوڑی دیر ٹھہر کر’’ نہیں جی ہر انسان اپنی بات آپ سمجھتا ہے۔ مجھے آپ اتنا برا خیال نہ کیجئے محبت دیوانی ہوتی ہے۔اگر آپ ہی کسی پر ایسی ہی پاگل ہوتیں تو ضرور اس سے ملنے کی کوئی ترکیب نکال لیتیں اور سوکھی محبت میری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    خدا حافظ کہہ کر اپنا اٹیچی کیس اٹھایا اور رخصت ہوئی۔ اس نے یہ کہنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ کسی سے نہ کہئے گا۔ کیا وہ انسانی فطرت سمجھنے میں ایسی تیز تھی کہ اس نے محسوس کرلیا کہ اس کا راز بالکل محفوظ ہے۔ ہاں شیلا کو اتنا یاد رہا کہ جب وہ باتیں کرتی تھی تو اس کی آنکھیں جوش سے اس طرح چمکتی تھیں کہ اس کی بدصورتی غائب ہوجاتی تھی اورآنکھ اس کے چہرے پر سے نہ ہٹتی تھی۔ شیلا اسی حالت میں بیٹھی رہی۔ ایک عورت جس کو وہ گائے، بدصورت اور احمق کے لقب سے یاد کرتی رہی تھی اس بائیس سال کی عمر میں شیلا سے زیادہ تجربہ کار تھی، ’’کوئی دوسرے کی بات کو نہیں سمجھتا۔۔۔ ٹھیک کہتی ہے! میری مصیبت کون سمجھتا ہے۔ شادی کرنے کی ہمت اس لیے نہیں کہ دنیا ہنسے گی اور عشق میں آگے بڑھنے کی ہمت یوں نہیں کہ، ’’سینگ کٹاکر بچھڑوں میں داخل ہوگئیں۔‘‘

    مأخذ:

    naya adab aur kaleem jild 2 no 1 2 3 (Pg. 310)

      • ناشر: سید سبط حسن
      • سن اشاعت: 1940

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے