Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شکستہ پروں کی اڑان

ذکیہ مشہدی

شکستہ پروں کی اڑان

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی ادھیڑ عمر بیوہ عورت کی کہانی ہےجو اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی ہے لیکن اس کے اندر کی نسوانی خواہشیں اور آرزوئیں اب بھی جوان ہیں۔ اس عمر میں اسے بیٹی کی شادی کی فکر ہونی چاہیئے تھی، لیکن وہ اپنی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی اس خواہش کو تب مزید پنکھ لگ گئے جب ایک خوبصورت نوجوان ان کے پڑوس میں آ کر رہنے لگا۔ خاتون نے اس نوجوان سے اپنے مراسم بڑھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے خواب رنگین ہونے لگے۔ مگر یہ رنگ دیرپا ثابت نہیں ہوئے اور ایک ہی جھٹکے میں اڑ گئے، جب اسے پتہ چلا کہ وہ نوجوان اس سے نہیں، بلکہ اس کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘

    ’’کس لفنگے کے چکر میں پڑی ہو۔ خدا خدا کرو۔ لڑکی جوان ہو رہی ہے۔‘‘ دلہن چچی نے پھر وہی بات کہی جس سے ناصرہ بیگم کو پتنگے لگتے تھے۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ بھلا یہاں لڑکی کے جوان ہونے کا کیا ذکر ہے اور خدا خدا کرنے کو تو ابھی عمر باقی ہے۔ میاں بھری جوانی میں داغ دے گئے تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوگیا کہ بے چاری بیوہ مسجد میں تبدیل ہوجائے۔ ناصرہ بیگم کا چہرہ سرخ ہوگیا۔

    ’’تم کیوں جلتی ہو جی۔ ساری عمر مصلے پر بیٹھی رہیں۔ کیا نتیجہ ملا؟ سنا ہے تمہارے میاں آج کل پھر اسی کل چڑی کے ساتھ دیکھے جارہے ہیں۔‘‘ انہوں نے دلہن چچی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ دلہن چچی رومال پر پھول کاڑھتے اچانک رک گئیں۔ ’’دشمنوں نے اڑائی ہوگی۔ آفس میں ساتھ کام کرتی ہے، ان کی ماتحت ہے۔ کہیں راستہ چلتے مل گئی اور دوباتیں کریں تو لوگوں نے بات کا بتنگڑ بنادیا۔‘‘

    ’’اجی ہاں۔۔۔‘‘ناصرہ بیگم دوپٹے میں منہ چھپا کر ہنسیں۔ ’’تمہارے میاں ایسی ہی مشہور ہستی ہیں کہ لوگ ان کی ذاتی زندگی کی ٹوہ میں لگے رہیں۔ اور کوئی کام نہیں لوگوں کو؟ کھلے عام منہ مارتے دیکھتے ہیں جب ہی کہتے ہیں کچھ۔‘‘

    ’’بلا سے۔۔۔‘‘ دلہن چچی کی انگلیاں چابک دستی سے نقش و نگار بناتی رہیں۔ ’’مرد لٹیرے۔ مگر بندھے تو اسی کھونٹ سے ہیں۔‘‘ انہوں نے دوپٹے کے پلو کی طرف اشارہ کیا۔ ’’شام ڈھلے آجاتے ہیں۔ دن کا حساب لینے میں نہیں جاتی۔ مگر بیوی تم تو عورت ہو پھر عمر خاصی ہوگئی۔ اب تو بیٹی بیاہنے کی فکر کرو۔‘‘

    ناصرہ بیگم کو ایسا لگا کہ جیسے ان کا پاؤں جلتے توے پر پڑگیا ہے۔ وہ خود دلہن بننے کی فکر میں تھیں او ریہ کالی زبان والی دلہن چچی انہیں ساس بنانے پر مصر تھیں۔ ابھی سیاہ بالوں میں ڈھونڈنے سے بھی چاندنی کا تار نہ ملتا۔ ستار کے تاروں جیسا کسا کسایا بدن اور چکنی شفاف جلد۔ عورت کی عمر بس اتنی ہی ہوتی ہے جتنی دیکھنے والے کو لگے۔ نہ ایک دن کم نہ ایک دن زیادہ۔ ان کا جی چاہا دلہن چچی کے ہاتھ سے سوئی لے کر ان کا منہ سی دیں۔ زبان سے آگ جھڑتی ہے۔ کیا مزے سے بارود میں فلیتہ لگاکر اطمینان سے کام کرتی رہتی ہیں۔ مگر ناصرہ بھی ہر پھر کر اپنی داستان سنانے دلہن چچی کے پاس ہی آتی ہیں۔ وہ ان کی واحد سہیلی تھیں۔ رشتے کے چچا کو بیاہ گئیں اس لیے دلہن چچی کہلائیں۔ زبان کترنی کی طرح چلتی تھی مگر دل کی صاف اور کھری اور دوستی نباہنے والی تھیں۔

    جس دن اسد سے ملاقات ہوتی، ناصرہ بیگم کے چہرے پر گلاب کھل جاتے۔ دل میں پنکھ لگ جاتے، جی چاہتا گھر کی چھت پر چڑھ جائیں اور ساری دنیا سے پکا رپکارکر کہیں، ’’آج اس نے پھر پیار سے دیکھا‘‘ مگر ان کی ساری دنیا دلہن چچی کی ذات میں سمٹ جاتی تھی جو تھیں تو عورت مگر پیٹ کی ہلکی نہیں تھیں۔ ان کی زبان تیزاب کی بوچھار کرتی تھی۔ پھر بھی ناصرہ بیگم ان کے سامنے جی کا بوجھ ہلکا کیے بغیر نہ رہتیں۔

    اسد پڑوس میں رہنےوالی مسز خان کے بھائی تھے۔ ابھی تک تو جانے دنیا کے کس نہاں خانے میں پوشیدہ تھے لیکن پچھلے چھ ماہ سے انہوں نے بہن کے یہاں مستقل پڑاؤ ڈال دیا تھا۔ مسز خان لاولد تھیں۔ بڑے سےجنگلے میں بس دومیاں بیوی۔ اس لیے اکثر رشتہ دار آتے جاتے رہتے تھے، خوب خاطریں ہوتیں۔ اسد نے تعلیم ختم کرکے پہلے سرکاری نوکری کی پھر نہ جانے کیا سوجھی کہ نوکری چھوڑ کر پرائیویٹ پریکٹس کی دھن میں مسز خان کے یہاں آبسے۔

    ناصرہ بیگم جان محفل تھیں۔ بیوگی نے ان کے مزاج پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔ میاں شروع سے ہی بیمار رہتے تھے۔ منحنی، دھان پان، اب مرے کہ جب مرے، اس پر چڑچڑے، بدمزاج۔ بیوی جس قدر خوش مزاجی دکھاتیں، انہیں اسی قدر پتنگے لگتے۔ ناصرہ بیگم کی ہی ہی ٹھی ٹھی پر البتہ کوئی اثر نہ پڑتا۔ مزے سے بھربھر ہاتھ چوڑیاں پہنتیں، گوری گوری ہتھیلیوں میں مہندی رچاتیں۔ لانبے جھمکے ان کے بیضوی چہرے پر بہت کھلتے مگر میاں کے منہ کا مزہ دواؤں نے کچھ ایسا کڑوا کردیا تھا کہ انہیں کچھ بھی میٹھا نہ لگتا۔ ہر وقت تیوریاں چڑھی رہتیں۔ نہ جانے کیسے پندرہ برس گھسیٹ گئے۔ ان کی موت کے بعد ناصرہ بیگم چند دن تو دوپٹے سے ناک رگڑتی رہیں، یاسمین کو چمٹاکر ایک آدھ مرتبہ چیخیں چلائیں بھی مگر پھر وہی باغ و بہار ہنسی انہیں ہر وقت شرابور رکھتی اور دوسروں کو بھی بھگوبھگو جاتی۔ کہیں شادی ہو تو ڈھولک بجانے اور گیت گانے کو تیار، دعوت ہو تو بریانی اور شربریخ پکانے کو تیار۔ ہر تقریب، ہر رسم میں شریک۔ بیوہ ہونے پر بھی کوئی ان سے وہم نہیں کرتا تھا۔ کچھ ایسی دلچسپ اور باغ و بہار شخصیت تھی ان کی۔

    جائداد کافی تھی اور اولاد صرف سترہ برس کی کچی کلی سی یاسمین جو بیٹی کم اور بہن زیادہ نظر آتی۔ میاں اپنی زندگی میں بھی مدفاضل تھے۔ تھے تو بھی ٹھیک تھا، چلے گئے تو بھی ٹھیک۔ زندگی سکون کے ساتھ رواں دواں تھی کہ کہیں سے اسد نازل ہوگئے۔ ایک بڑا سا پتھر پھینکا چھپاک! اور ناصرہ بیگم کی ناؤ ہچکولے کھانے لگی کبھی ادھر کبھی ادھر۔ مگر گلے گلے ڈوب کر وہ بہت خوش تھیں۔

    بھلا میٹھی میٹھی نظروں کی ابتدا کسی کو یاد ہوتی ہے کہ کب کس نے کہاں کیوں کر دیکھا؟ وہ ابتدا تو کہیں سے سرسراتے ریشم کی طرح پھسل آتی ہے اور زمان و مکان کا احاطہ کرجاتی ہے۔ ناصرہ بیگم کو بھی ابتدا کا پتہ نہ تھا۔

    ایک بار انہوں نے بیلے کی کلیوں کے بہت سے گچھے ڈھیر کردیے تھے۔ کچھ مسز خان کی طرف ، کچھ ناصرہ بیگم کی طرف۔ پھر ہنس کر بولے تھے، ’’آپا، آپ کیا کیجیے گا، اپنے حصے کے بھی انہیں کو دے دیجیے۔ لانبی چوٹی پر پھول بہت زیب دیتے ہیں۔‘‘مسز خان کے بال بہت چھوٹے تراشے ہوئے تھے۔ وہ خوش مزاجی سے ہنسنے لگیں۔ انہیں بھی ناصرہ بیگم کے گھنے اور لانبے بال بہت پسند تھے۔

    ایک بار سب لوگ اکٹھے پکنک کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اسد نے سہارا دے کر ناصرہ بیگم کو گاڑی سے اتارا تھا اور اتارتے ہوئے شاید جان بوجھ کر دیر لگائی تھی اور اس بار تو کمال ہی ہوگیا۔ انہوں نے ناصرہ بیگم کی جھولتی ہوئی بالیاں چھولی تھیں۔ ’’بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر سب کچھ زیب دیتا ہے، لانبے جھمکے ہوں یا گول بالیاں۔‘‘ انہوں نے اپنی ٹھہری ہوئی آواز میں کہا تھا اور ناصرہ بیگم کی آنکھوں میں یہاں سے وہاں تک جگنو سے چم چم کرتے چلے گئے تھے۔

    ’’بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر سب کچھ زیب دیتا ہے، بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر سب کچھ زیب دیتا ہے۔ بعض چہرے۔۔۔‘‘ کسی نے یہ جملہ ریکارڈ کرکے ٹیپ ان کے دل میں فٹ کردیا اور وہ اسے دلہن چچی کے آنگن میں بجانے چلی آئیں۔ دلہن چچی کو اس عمر میں ان کی عشق بازی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ بار بار ان کی آنکھوں میں جوان ہوتی ہوئی یاسمین کا سراپا گھوم جاتا اور وہ مزید چڑجاتیں۔ ناصرہ بیگم نے یہ بالیاں چھونے والی بات بتائی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئیں۔

    ’’اوئی بیوی! تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ رہی ہے۔‘‘ جلبلا کر بولیں اور ناصرہ بیگم کے پورے وجود میں شعلے رینگ گئے۔ اس سے بڑی گالی انہیں کبھی کسی نے نہیں دی تھی۔ کہاں وہ ننھا سا، نرم سا، رومان پرور لمس جو سونےکی بالیوں سے گزرتا ہوا ان تک پہنچا تھا اور کہاں ہاتھا پائی جیسا مکروہ لفظ۔ انہیں ایسا لگا جیسے بچپن کی دوستی کی بنیادیں ڈھے رہی ہیں۔ پہلی بارانہیں دلہن چچی پر اتنا غصہ آیا کہ جی چاہا کھیرے کی طرح انہیں چباکر رکھ دیں کچر کچر۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور شعلہ بار نگاہوں سے انہیں دیکھتی ہوئی بولیں، ’’ذرا زبان سنبھال کر بولا کرو۔ تمہیں راز دار سہیلی سمجھ کر دل کی بات کرلیتی ہوں تو تمہیں گالیاں دینےکا حق مل گیا؟ آئندہ اس طرح کی بات کی تو خدا کی قسم کبھی صورت نہیں دیکھوں کی۔‘‘

    دلہن چچی اسی دل جلانے والے ٹھنڈے پرسکون چہرے کے ساتھ میاں کی بش شرٹ پر استری پھیرتی رہیں۔ پھر چند لمحوں بعد شفاف نگاہیں اٹھاکر بولیں، ’’تو اس لفنگے کی خاطر تم برسوں کے تعلقات ختم کروگی؟ وہ چڑھتا سورج ہے۔ جوان، کنوارا، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تم؟‘‘ مناسب تشبیہ ہاتھ نہ آنے پر وہ لمحہ بھر کو خاموش رہ گئیں۔ ’’میری بات گرہ میں باندھ لو بنو۔ کوئی مرد اپنے سے بڑی اور جوان بیٹی کی ماں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔ تفریح کر رہا ہے۔ خدا سے لو لگاؤ ناصرہ۔ کیوں برباد ہونے پر تلی ہوئی ہو۔‘‘

    ناصرہ بیگم سرخ ہوکر پھٹ پڑنے والے مقام پر پہنچ کر دفعتاً سیاہ پڑ گئیں۔ وہ جوان بیٹی کی ماں بہرحال تھیں۔ اس کی جوانی سے وہ کب تک آنکھیں چراتی رہیں گی؟ دوبرس؟ چار برس؟ پھر ان کی اپنی جوانی کتنے دن اور ساتھ دے گی؟ دو برس؟ چار برس؟ یہ حسن کب تک برقرار رہے گا؟ یہ جلد کب تک تنی رہے گی؟ انہیں سانپ سونگھ گیا۔ بھڑکتے شعلوں پر جیسے کسی نے بالٹی بھر ٹھنڈا پانی ڈال دیا تھا۔

    ’’وہ جوان، کنوارا، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور تم؟‘‘ دلہن چچی کیا کہتے کہتے رک گئی تھیں ڈھلتی دھوپ؟ مزے سے اترا ہوا پھل؟ مرجھایا ہوا پھول؟ کون سی تشبیہ ان کے ہونٹوں پر آکر منجمد ہوگئی؟ کانپتی ٹانگوں سےناصرہ بیگم بیٹھ گئیں۔ خاموشی سے دلہن چچی کے ہاتھ کا بنایا ہوا لذیذ ناشتہ زہر مار کیا۔ انتہائی خوش مزہ چائے گلے سے پار کی اور دل برداشتہ سی گھر چلی آئیں۔ اپنے گھر کے چھوٹے سے لان کو پار کرتے ہوئے، وہ پھر اسد سے ٹکرائیں۔ ’’آپ؟‘‘

    وہ ہکلائے، ’’۔۔میں آپ سے ملنے آیا تھا۔ سجادی بوا نے بتایا کہ آپ اپنی چچی کے یہاں گئی ہوئی ہیں تو میں واپس ہونے لگا۔‘‘ وہ کچھ بوکھلائے ہوئے سے لگ رہے تھے۔ ناصرہ بیگم کھل اٹھیں۔ دلہن چچی کا جگایا ہوا درد لمحے بھر میں برسات کی دھوپ کی طرح اڑ گیا۔ بے اختیار جی چاہا کہ اس اونچے، چوڑے، مضبوط مرد کےبازوؤں میں خود کو گم کردیں۔ دل سڑک کوٹنے والے انجن کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ بولیں، ’’کیوں خیریت تو ہے؟ میرا خیال کیسے آیا؟‘‘

    ’’جی خیریت ہی خیریت ہے۔‘‘ وہ مسکرائے۔ ’’آپ کے لیے کچھ میگزین لایا تھا۔ آپ کہہ رہی تھیں نا کہ جی نہیں لگتا۔ ایک ناول بھی ہے۔‘‘

    ’’خاک پڑے دلہن چچی پر۔ کیسا دہلاتی ہیں۔ میری اور اس کی عمر میں مشکل سے تین چار برس کافرق ہوگا۔ خاندان میں ہی کتنی شادیاں ایسی ہوئی ہیں جن میں دلہن دولہا سے بڑی تھی۔ یوروپ میں تو آئے دن یہ ہوتا رہتا ہے۔ ’نینسی کھیسی‘ جیسا محاورہ شاید دنیا کی کسی اور زبان میں رائج نہیں ہے۔‘‘

    ’’اللہ اللہ کرو۔۔۔ اجی عمر پڑی ہے اللہ اللہ کرنے کو۔ اور بڑھاپے میں بیٹھ کر کرنا ہی کیا ہے۔ بس بہو بیٹیوں پر حکم چلانا اور تسبیح گھمانا۔‘‘محبوب کے سامنے ہونےکے باوجود وہ دل ہی دل میں دلہن چچی پر غصہ اتارنے لگیں۔ پھر اچانک انہیں اسد کی موجودگی کااحساس ہوا جو کسی گھنے سایہ دار درخت کی طرح سامنے کھڑے تھے۔

    ’’آئیے اب چائے پی کر جائیے گا۔‘‘ ان کی آواز کی تہہ میں خوشی کی ایک پتلی سی دھار بہہ رہی تھی ترل رل ، ترل رل۔۔۔ جیسے اوپر سے سخت دھرتی کے اندر میٹھے پانی کا جھرنا بہتا ہے۔

    اسد کسی فرمانبردار پالتو جانور کی طرح پیچھے ہولیے۔ ناصرہ بیگم نے ڈرائنگ روم کی بتی جلائی۔ کچن میں سجادی بوا کھٹر پٹر کر رہی تھیں۔ آنگن میں مولسری کے درخت کے پاس ٹیبل بچھائے یاسمین ہوم ورک میں مصروف تھی، اس کا دوپٹہ کرسی کی پشت پر پڑا ہوا تھا۔ اس نے سراٹھایا، ایک نظر ماں پر ڈالی، دوسری اسد پر اور پھر سرجھکاکر اکبر اور بابر کے رشتوں کی وضاحت میں مشغول ہوگئی۔ کل اس کا ہسٹری کا امتحان تھا۔

    ناصرہ بیگم نے سجادی بوا کو بلاکر کہا کہ وہ باڑھ پھلانگ کر مسز خان کو بھی بلا لائیں اور چائے کا پانی اسٹوو پر رکھ دیں۔ پھر وہ مہدی حسن کے کچھ نئے ریکارڈ نکال کر اسد کو دکھانے لگیں جو وہ پرسوں ہی خرید کر لائی تھیں۔ اسد ریکارڈ لینے کو جھکے تو ناصرہ بیگم کا ملائم اور معطر دوپٹہ ان کے سر سے ٹکرایا۔ انہوں نے ایک لمبی سانس لی۔ ’’آپ کا ذوق بہت پاکیزہ ہے۔ کیا موسیقی اور کیا سجاوٹ اور لباس۔ افسوس کہ کوئی قدردان نہیں ہے۔ ایک ذاتی بات کہوں آپ سے؟‘‘

    شاید وہ لمحہ قریب آگیا ہے۔۔۔ بہت قریب۔ اتنا قریب کہ اب وہ انہیں چھولے گا۔ ناصرہ بیگم نے ڈوبتی ابھرتی سانسوں کے ساتھ سوچا۔ اسد شاید آسمان کی لامتناہی اور بے کراں وسعتوں کے اس پار سے بول رہے تھے۔

    ’’آپ کو شادی کرلینی چاہیے۔ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟‘‘ لمحہ ناصرہ بیگم کو چھو چکا تھا۔ وہ پسینے میں نہا گئیں۔ بوکھلاہٹ میں ریکارڈ ان کے ہاتھ سےچھوٹ پڑے۔

    ’’میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کہی۔‘‘ اسد کی آنکھیں انتہائی مہربان اور شفیق تھیں۔ ناصرہ بیگم بیہوش ہونے والی تھیں کہ مسز خان اچانک دھڑدھڑاتی ہوئی اندر داخل ہوئیں۔

    ’’کیا غلط صحیح ہو رہا ہے بھئی؟‘‘

    ’’کچھ نہیں آپا میں کہہ رہا تھا کہ چائے کی بڑی شدید طلب ہو رہی ہے۔‘‘

    اس رازداری نے ناصرہ بیگم کو نہال کردیا۔ ہاں بھلا مسز خان کے سامنے وہ کھلم کھلا کہہ بھی کیا سکتے ہیں بڑی بہن ٹھہریں۔ انہوں نے بوا سے چائے کے لیے کہا اور پھر ریکارڈ پلیئر آن کردیا۔

    اکتوبر کے گلابی جاڑوں کی اس گلابی رات کو ناصرہ بیگم کو نیند نہیں آئی۔

    ’’آپ کو شادی کرلینی چاہیے۔ ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے۔‘‘ ادھر وہ سونے کی کوشش کرتیں اور ادھر کوئی کان میں پکارتا اور وہ جاگ پڑتیں۔ ذرا کوئی دلہن چچی سے جاکر کہے کہ اسد نے کیا کہا ہے۔ بڑی آئیں عمر کا طعنہ دینے والی۔ کل ہی جاکر بتاؤں گی۔ کیا دوستی نبھارہی ہیں۔ ضرور جلتی ہوں گی۔ میری ہم عمر ہیں مگر توند نکل آئی ہے۔ آنکھوں کے گرد جھریاں دکھائی دینے لگی ہیں۔ رنگت میں وہ آب نہیں رہی۔ اوپر تلے پانچ بچے پیدا کرکے بہت خوش ہیں۔ پہلی مرتبہ ناصرہ بیگم کو خیال آیا کہ اچھا ہی ہوا جوان کے میاں مریل چڑی مار تھے کہیں آج ان کے بھی دوچار بچے اور ہوتے تو اسد پاس پھٹکتے بھی نہیں۔ بلا سے میں دوچار برس بڑی ہوں۔ دیکھنے میں تو ہرگز نہیں لگتی۔ جوش میں آکر انہوں نے سرہانے لگا سوئچ دبادیا۔ کھٹ سے روشنی ہوئی اور رات کے دو بجے وہ مسہری کے مقابل رکھی ہوئی سنگھار میز کے قد آدم آئینے میں اپنے سراپا کاجائزہ لینے لگیں۔ انہوں نے ذرا اتراکر دیکھا، وہ مشل سے تیس کی نظرآتی تھیں۔ چھریرا بدن، صاف رنگت، بے عیب جلد، غلافی آنکھیں جو نیند اسی ہوکر اور زیادہ غلافی ہوگئی ہیں۔ اچانک ان کی آنکھوں تلے ایک سایہ لہرایا۔

    ان کے کمرے کی کھڑکی مسز خان اور ان کے اپنےمکان کے درمیانی گھاس کے قطعے پر کھلتی تھی ۔ یہ وہم نہیں تھا۔ گھاس کے اس قطعے پر انہوں نے قدموں کی سرسراہٹ بالکل صاف سنی تھی۔ غالباً یوں اچانک ان کے کمرے کی بتی جلنے پر کوئی روشنی سے بچ کر دبے پاؤں بھاگا تھا۔ انہوں نے ٹارچ اٹھائی اور سجادی بوا کے شوہر کو پکارتی ہوئی باہر نکل آئیں۔ وہ دونوں میاں بیوی باورچی خانے سے ملحق کوٹھری میں سوتے تھے۔

    سامنے سے یاسمین آرہی تھیں۔ بلی کی طرح دبے پاؤں۔ بدن سمیٹے۔ اکتوبر کے گلابی جاڑوں کی خنک رات میں پسینے سے نہائی ہوئی۔

    ناصرہ بیگم کے پاؤں دھرتی نے پکڑ لیے۔ بیٹا تم؟ وہ کچھ یوں بدحواس ہوگئیں کہ اگر ڈاکوؤں کی پوری فوج بھی گھر میں داخل ہوجاتی تو بھی نہ ہوتیں۔ پھر وہ اچانک چیخیں، ’’یاسمین کون تھا؟‘‘

    چاروں طرف سے گھر جانے پر حملہ کردینے والی بلی کی طرح یاسمین تن کر کھڑی ہوگئی۔ اس کے جسم کی قوسیں نمایاں ہوگئیں۔ اور اس شدید کرائسس کے لمحے میں بھی ناصرہ بیگم کو سوچنا پڑا کہ ان کی بیٹی واقعی جوان ہوگئی ہے۔ دلہن چچی سچ کہتی ہیں۔

    ’’باہر اسد تھے امی! مگر خدا کے لیے پہلے پوری بات سن لیجیے پھر کچھ بولیے گا۔ ہماری محبت پاک ہے۔ اسد مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک انہوں نے آپ سے کچھ نہیں کہا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ شاید آپ مجھے گریجویشن سے پہلے شادی کے بندھن میں جکڑنا پسند نہ کریں۔ اور اسی لیے وہ آپ کی اتنی للوچپوکرتے رہتے ہیں کہ ہمارے کنبے میں گھل مل جائیں۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

    یاسمین نے اور کیا کیا کہا، ناصرہ بیگم سن نہیں سکیں۔ کٹے ہوئے پیڑ کی طرح دھم سے وہ وہیں برآمدےمیں پڑے تخت پر بیٹھ گئیں۔ ماہ و سال کی جو دھول برساتی آندھیاں ان کے قریب سے کنی کاٹ کر گزر جاتی تھیں، اب اچانک کوڑے برسانے لگیں۔ پڑوس کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی تو ناصرہ بیگم اٹھیں اور انہوں نے کپڑوں کی الماری میں وہ جانماز تلاش کرنا شروع کردی جسے عرصہ پہلے وہ کہیں رکھ کر بھول چکی تھیں۔

    مأخذ:

    پرائے چہرے (Pg. 109)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے