aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

رفیعہ منظور الامین

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

رفیعہ منظور الامین

MORE BYرفیعہ منظور الامین

    خوابوں پر توکسی کی پابندی نہیں ہے۔ آنکھوں کے ان جھپکتے دروازوں پر چاہے کوئی پہرہ بٹھا لیجئے، خوابوں کی سنہری پری کسی طرح اپنے جھلمل کرتے پروں کو سمیٹے چھم سے اندر داخل ہوہی جاتی ہے۔ پھر سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں، ہر پابندی اٹھ جاتی ہے اور کوئی تخیل کی ان پرسکون حدوں کو چھو لیتا ہے جو جاگتی آنکھوں کا خواب کبھی نہیں بننے پاتیں۔ لیکن مشکل تو یہی ہے کہ اس دنیا میں خدا نے ہر چیز کی حد مقرر کر دی ہے اور تھوڑی بہت کسر جو اس نے چھوڑی تو اس کے بنائے انسان نے یہ کمی پوری کردی۔

    کھانے پینے، بولنے چالنے کی حد، غم و خوشی کی حد، جاگنے سونے کی حد، حتی کہ گنی چنی سانسوں کی حد۔۔۔ اتنا بڑا مالک اور یہ جز رسی! بس چلے تو لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان چند سانسوں کے اس ’جبری تحفہ‘ کو اسی مالک کے حضور پٹک کر بھاگیں اور ایسے گم ہوں کہ اس کے فرشتے بھی انھیں ڈھونڈھ لانے میں ناکام ہو جائیں۔ لیکن انھیں تو دنیا میں آنا ہے، جہاں ملکوں کی حدیں ہیں، ہوا پانی کی حدیں ہیں، دل کے جذبات اور دوستی کی حدیں ہیں۔ بہرحال حدوں کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ پتہ نہیں وہ حد کب تک آئے گی جب یہ ساری حدیں ختم ہو جائیں گی۔

    خوابوں کے انھیں تانوں بانوں میں الجھ کر اعجاز اور نکہت نے شادی کی تھی اور کمال تو یہ تھا کہ شادی کے سات سال گزرنے کے بعد بھی ان کی آپس کی محبت نئے نویلوں کی سی ہی تھی۔

    ’’نکی! جب ہم مریں تو میں وصیت کر کے مروں گا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے۔‘‘

    ’’اور جو میں تم سے پہلے ہی مر گئی تب کیا ہوگا؟‘‘ نکہت ہنس کر کہتی۔

    ’’تب میں تجھ میں بھس بھروا کر رکھوں گا۔ دفن تھوڑی کرنے دوں گا۔‘‘ اعجاز سے کوئی موزوں جواب نہ بن پڑتا۔

    ’’ہونا آخر کو مرد۔۔۔ جسم سے آگے اور کیا سوچوگے؟‘‘ نکہت طعنہ دیتی۔

    ’’روح کے سودے تو اوپر والی دنیا میں ہوتے ہیں جانم۔۔۔ ہم تو گوشت پوست کے بنے گنہگار انسان ہیں۔۔۔ بات یہیں کہیں کی ہونی چاہئے۔‘‘

    ’’بی بی۔۔۔‘‘ کسی نے پکارا۔

    ’’یہ لو آ گئے تمھارے عزرائیل علیہ السلام۔۔۔‘‘ اعجاز نے چڑھ کر کہا، ’’کمبخت میعادی بخار کی طرح پابندی سے چلا آتا ہے۔ آج کیا مانگنے آیا ہے؟‘‘

    ’’ارے وہ سن لے گا بیچارہ غریب۔ دھیرے بولو۔‘‘ (پکار کر) ’’کیا ہے بڑے میاں؟‘‘

    ’’بی بی ذرا کٹوری میں مرچ دے دیجئے۔‘‘ پڑوسن کے بوڑھے خانساماں نے کہا۔

    ’’کل ہماری مرچ آ جائےگی تو لاکر واپس کر دوں گا۔‘‘

    ’’بڑے میاں، اتنی مرچیں کھائی ہیں تم نے ہماری کہ اب تو کوئی مرچ کا کھیت ہی ہمارے نام لکھوانا ہوگا۔‘‘ اعجاز نے کہا اور بڑے میاں اسے نہایت اعلیٰ درجہ کا مذاق سمجھ کر اپنے ساڑھے تین دانت دکھاتے ہوئے ہنس پڑے۔

    ’’ہی۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ مرچ تو حضور آج ہی مانگی ہے۔‘‘ اتنے میں ان کی مرچ آ گئی اور وہ لے کر چلتے بنے۔ لیکن اعجاز کے جسم میں جو ہلکی ہلکی سی مرچیں لگ رہی تھیں، وہ ویسی ہی باقی رہیں۔

    ’’نکی۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے۔۔۔‘‘ اس نے کچھ متفکر سا ہوکر کہا۔

    ’’کیوں، کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ اعجاز کے لہجے میں سنجیدگی کا شائبہ دیکھ کر نکہت چونکی۔

    ’’کافی دنوں سے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے ہاتھ کچھ سوج سے رہے ہیں۔‘‘ اعجاز نے اپنے ہاتھوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

    نکہت کے ہاتھ جو منتشر کاغذوں کو اکٹھا کر رہے تھے، رک گئے۔ اس کے چہرے پر فکر کی پرچھائیاں ابھر آئیں۔

    ’’کچھ دنوں سے تمھارا چہرہ بھی کچھ سوجا ہوا سا ہے لیکن میں نے تم سے کہا نہیں۔ سوچا کہ راتوں کو جاگ جاگ کر لکھتے رہتے ہو، اس سے آنکھیں سوج آئی ہوں گی۔ تم اپنی صحت کا خیال بھی تو نہیں کرتے ہو۔ چلو ڈاکٹر سے مل لیتے ہیں۔‘‘

    ’’چھوڑو بھی۔۔۔ مل لیں گے پھر۔۔۔ واقعی پچھلے دنوں میں بہت جاگتا رہا ہوں۔‘‘ وہ دراصل نکہت کے پرنور اور شاداب چہرے پر دکھ اور فکر کے سایوں کا ناچ نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس نے سوچ لیا کہ ہزار بار آئے اس خیال کو وہ عملی جامہ ضرور پہنائےگا اور ڈاکٹر سے مل ہی لےگا۔

    اعجاز کے لیے دنیا میں صرف دو چیزیں اہم تھیں۔ ایک تو نکہت دوسرے اس کا فن، جو اس لیے اسے عزیز تھا کہ اس کے ذریعہ وہ نکہت کا پیٹ بھرتا اور تن ڈھانکتا تھا۔ وہ کوئی بہت ہی اعلیٰ پائے کا ادیب نہیں تھا، پھر بھی اتنا تو اسے مل ہی جاتا کہ وہ اور نکہت بھلے مانسوں کی طرح زندگی گزار لیتے۔ ان دونوں کی آپس کی محبت کوئی افلاطونی محبت نہیں تھی بلکہ سیدھے سادے انسانوں کی سی محبت تھی جس میں روح اور جسم کے درمیان کوئی خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا۔

    شام کو پبلشر سے اپنی زیر طبع کتاب کا معاوضہ لے کر جب وہ گھر لوٹ رہا تھا، تو ڈاکٹر نعیم کے شاندار مطب کے آگے ٹھٹک گیا۔

    ’’چلو مل لیں نعیم سے بھی۔ کبھی کبھی ڈاکٹر کی بھی مزاج پرسی کر لینی چاہئے۔‘‘ اس نے سوچا اور بوجھل جیبوں کی خوشی سے لدا لدایا اندر چلا گیا۔ نعیم اور وہ اسکول سے کالج تک ساتھ رہے اور پھر نعیم نے ڈاکٹری میں داخلہ لے لیا تھا۔ اس میں شک نہیں، نعیم اب وہ نعیم نہیں رہا تھا جو دس سال پہلے تھا۔ اب وہ کوئی معمولی ڈاکٹر نہیں تھا۔ لیکن اس کے فن کے ساتھ ساتھ اس میں موجودہ انسان نے بھی جلا پائی تھی۔ امریکہ سے واپس ہوئے اسے لگ بھگ دو سال ہو گئے تھے اور اتنے کم عرصے میں ہی اس نے شہرت کے ان کنگوروں کو چھو لیا تھا جن تک پہنچنے کے لیے اچھے اچھے کہنہ مشق عقابوں تک کے پر جلتے تھے۔ اعجاز کا تعارفی کارڈ گئے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے، نعیم باہر نکل آیا۔ اسی کھلے دل اور کھلی بانہوں سے۔ ابھی تک اعجاز کا عکس اس کی آنکھوں میں نہیں دھندلایا تھا، یہ دیکھ کر اعجاز کو بڑی مسرت انگیز ناامیدی ہوئی۔ کھلی بانہوں کی وسیع دنیا میں خود کو گم کرنے کے لیے وہ بھی آگے بڑھا۔ دو چار چک پھیریاں دینے کے بعد نعیم نے پہلا سوال نکہت کے بارے میں کیا،

    ’’درد دل کا کیا حال ہے؟‘‘ وہ نکہت کو ہمیشہ ’درد دل‘کہا کرتا تھا۔

    ’’اب ذرا ادب سے نام لیا کر۔۔۔‘‘ اعجاز نے کہا، ’’اب وہ تیری بھابی بن چکی ہے۔‘‘ اور دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ بلند کیا۔ لیکن نعیم کا قہقہہ ادھورا رہ گیا۔ وہ اب گہری نظر سے اعجاز کو تک رہا تھا۔ اس نے دھیرے سے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ رد عمل کے طور پر اب اعجاز بھی چپ تھا اور دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ نعیم کی نظریں بےچین اور گہری، اعجاز کی آنکھیں حیران تھیں۔

    ’’اعجاز میرے ساتھ آؤ۔۔۔‘‘ نعیم نے گویا حکم دیا۔ اس کے پیچھے چپ چاپ اعجاز ایکزامی نیشن روم میں چلا گیا۔

    ’’میں، میں۔۔۔‘‘ اس نے گلا صاف کرتے ہوئے اپنے میں کچھ خود اعتمادی لانے کی کوشش کی، لیکن نعیم اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہی رہا۔ بہت ہی تیز روشنی میں اعجاز کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے بدن کے کپڑے کسی بچے نے چھین لیے ہوں۔ وہ بےچین ہوکر پہلو بدلنے لگا۔ لیکن نعیم اس کی حالت سے مکمل طور پر بےخبر اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس نے اعجاز کی انگلی میں سوئی سی بھونک کر ایک شیشہ کے ٹکڑے پر خون کا ایک قطرہ لیا اور دوسرے ٹیبل پر جہاں خوردبین رکھی تھی، پتہ نہیں کیا کیا کرتا رہا۔ چند منٹ بعد وہ شیشہ کے اس ٹکڑے کو روشنی میں بغور دیکھ رہا تھا۔ اس نے وہ تیز روشنی بند کر دی اور کرسی کھینچ کر اعجاز کے مقابل بیٹھ گیا۔

    ’’کیا بات ہے بھائی۔۔۔؟‘‘ اعجاز نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کرلوں۔ مگر تمھارا خیال کبھی ایک ڈاکٹر کی طرح ذہن میں آتا ہی نہ تھا۔‘‘

    نعیم ہونٹ سکوڑے سوچتا ہی رہا۔

    ’’نعیم۔۔۔ کیا کوئی بہت ہی گمبھیر (Serious) بات ہے؟‘‘

    ’’ہاں اعجاز۔۔۔ معاملہ کچھ سنجیدہ (Serious) ہی ہے۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ جلد کہو۔۔۔ خدا کے لیے۔‘‘

    ’’تمھیں کوڑھ ہو گیا ہے اعجاز۔‘‘

    اعجاز کے منہ سے ایک عجیب و حشت ناک کراہ نکلی، جو نہ انسان کی کہلائی جاسکتی تھی او رنہ کسی جانور کی۔ اس کے ہاتھوں نے مضبوطی سے کرسی کے دستوں کو پکڑ لیا تھا، جیسے انھیں پانی پانی کر دےگا۔

    ’’مجھے۔۔۔ مجھے کوڑھ ہو گیا ہے۔۔۔ نعیم، یہ سوجن اسی کی ہے۔۔۔ کیسے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیوں ہوگیا ہے مجھے کوڑھ؟‘‘

    ’’قسمت کی بات ہے میرے دوست۔‘‘

    اعجاز نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانک لیا اور اس کی سسکیاں فضا میں پھیلنے لگیں۔ نعیم اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر بعد ایک کہنہ مشق ڈاکٹر کی ڈھارس بندھانے والی آواز میں اس نے کہا، ’’امید پر دنیا قائم ہے اعجاز! تم بھی عام بودے انسانوں کی طرح جی چھوڑنے لگے۔ اب یہ کوئی لاعلاج مرض تو نہیں رہا جو تم یوں ناامید ہو رہے ہو۔ کل صبح ہی سے تمھارا علاج شروع ہوگا۔ میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا میرے بھائی اور۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’باقی تم سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم خود سمجھدار ہو۔ ’’اس کا اشارہ نہکت کی طرف تھا۔

    ’’یہ مرض متعدی ہے۔‘‘

    اعجاز اب تک سفید کاغذ پر سیاہی بکھیرتا آیا تھا لیکن آج اس کی اجلی چادر جیسی زندگی پر کسی نے سیاہی کی بوتل ہی الٹ دی تھی۔ جس کا داغ روز بروز پھیلتا ہی جاتا تھا۔ اس نے نکہت سے اس بارے میں کچھ نہ کہا لیکن اس سے دور رہنا بھی ضروری تھا جو اعجاز کے لیے دنیا کا مشکل ترین کام تھا اور نکہت کے لیے بھی ناقابل برداشت رنج کا باعث۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت لکھنے پڑھنے کی نذر کرنے لگا۔ اس اچانک ابھرتی خلیج کو نکہت سمجھ نہ پائی۔ ایک روز اس نے اعجاز کے شانے پر سر رکھ دیا اور پھوٹ پڑی۔ اس کے ان بہتے آنسوؤں میں، اعجاز کا دل چاہا کہ اپنی ہستی بہا دے۔ بڑی مشکل سے اس نے نکہت کو منایا اور یقین دلایا کہ اب وہ اتنا مصروف نہیں رہا کرےگا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا کہ حقیقت نکہت پر ظاہر کردے لیکن پھر کسی قوت نے اسے روک لیا۔

    اس کے دل میں کچھ دنوں سے یہ اندیشہ جنم لے رہا تھا کہ جیسے ہی اس کی حالت کا پتہ نکہت کو ہوگا، وہ اس سے ڈرنے اور نفرت کرنے لگےگی اور وہ نکہت کو کسی بھی قیمت پر کھونے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ بھرے طوفان میں اس چھوٹی سی کشتی کا سوار تھا جو اپنے انجام سے ناواقف ہوکر کنارے آ لگے گی یا غرقاب ہو جائےگی۔

    گو نعیم پوری توجہ سے اس کا علاج کر رہا تھا لیکن اعجاز کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بیماری کم ہونے کی بجائے اور بھی مضبوطی سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔ اس کی انگلیوں کی جلد رسنے لگی تھی اور نعیم اس پر پٹیاں باندھتا رہتا۔ نکہت سے اس نے بہانہ بنا دیا کہ اسے خارش ہو گئی ہے۔ اس نے کبھی نکہت کی محبت پر شبہ نہیں کیا۔ اسے پورا بھروسہ تھا کہ وہ کبھی کسی حالت میں بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑےگی لیکن اس کا خود اپنے آپ پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا تھا۔ وہ ’’اگر‘‘ اور ’’مگر‘‘ کے جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتا تھا اور یہ دماغی کیفیت اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک دن نکہت نے کہا، ’’میں کچھ دنوں کے لیے بھائی جان کے ہاں شملہ ہو آؤں؟‘‘

    بات چھوٹی سی تھی لیکن اعجاز کے دماغ پر ایٹم بن بن کر گری، ’’نکہت اسے چھوڑ کر جانا چاہتی ہے!‘‘ تیر سا اس کے دل پر لگا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کہ نکہت نے اسے چھوڑ کر جانے کا سوال اٹھایا۔ حقیقت یہ تھی کہ مضمحل اور بےرس زندگی میں نکہت رنگ بھرنا چاہتی تھی۔ شاید چند دن کی جدائی اعجاز میں پھر وہی تبدیلی لے آئے جس کی وہ دلدادہ تھی۔ ایک فنکار کے حساس دماغ نے چھلانگ لگائی اوربہت آگے پہنچ گیا۔ اس نے اپنی ہی مقرر کی ہوئی ساری بندشوں پر لعنت بھیجی اور نکہت کو جکڑتا ہوا بولا، ’’چلی جاؤگی۔۔۔ نکی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤگی تم؟‘‘

    ’’پھر میں کیا کروں۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اب تمھیں میری ضرورت نہیں رہی۔‘‘

    ’’دیکھ لینا میں جان دے دوں گا۔۔۔‘‘ نکہت نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، ’’لو نہیں جاتی۔‘‘

    لیکن اس چھوٹے سے واقعے نے اعجاز کے ڈر کو اور بھی پختہ کر دیا اور ڈر ہمیشہ بھیانک اسکیمیں جنم دیتا ہے۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ نکہت اسے چھوڑ کر کبھی نہیں جائےگی۔ وہ اسے نہیں جانے دےگا۔ وہ اس کے ساتھ ہی جئےگی اور اسی کے ساتھ مرےگی۔

    دوسرے دن سے اعجاز پھر وہی پہلے والا اعجاز تھا اور نکہت کی زندگی میں شادابیاں لوٹ آئی تھیں۔ اعجاز پر سے اس بھیانک بیماری کا جان لیوا احساس ختم ہو چکا تھا لیکن احساس کے خاتمہ سے بیماری کا تو خاتمہ نہیں ہوتا اور پھر اس احساس کی جگہ ایک دوسرے احساس نے لے لی تھی، جو زیادہ خوفناک اور زیادہ خطرناک تھا۔ اس نے جان بوجھ کر اپنے رستے ہوئے ہاتھ نکہت کو لگانے شروع کر دیے کیونکہ اس کے خیال میں یہی ایک طریقہ تھا جس سے نکہت سدا اسی کی ہوکر رہ سکتی تھی اور پھر ایک روز جب اسے پتہ چلا کہ نکہت بھی اسی کشتی کی سوار بن چکی ہے تو اکیلے پن میں اس نے قہقہے لگائے۔ اتنا ہنسا، اتنا ہنسا کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں لیکن جب وہ خاموش ہوا تو اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے یا اس جنون انگیز رنج و غم کے جو عرصہ سے اس کی روح پر مسلط ہوتا آ رہا تھا۔

    جب نعیم نے اعلان کر دیا کہ نکہت کو بھی اس کی بیماری لگ چکی ہے، اس نے نکہت کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔ دھیرے دھیرے نکہت کے ساکت ہاتھوں میں جنبش ہوئی اور آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے اعجاز کا سر دونوں ہاتھوں سے اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مسکرا پڑی۔

    ’’سمجھ رہے تھے۔ میں تمھیں چھوڑ کر چلی جاؤں گی؟‘‘

    ’’اعجاز میں نے تمھیں پہلے ہی تاکید کر دی تھی کہ نکہت کو اس کے والدین کے پاس بھجوا دو۔‘‘ نعیم اندر داخل ہوتے ہوئے بولا، ’’لیکن تم نے خود غرضی کی حد کردی۔۔۔ اب تم آنسو بہا رہے ہو جب کہ وقت گزر چکا۔‘‘

    ’’نعیم بھائی آپ انھیں کچھ نہ کہیں۔۔۔ ان کے بغیر زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی۔‘‘ نکہت نے کہا۔

    ’’ایک ڈاکٹر جذباتی نہیں بن سکتا نکہت۔ اعجاز میرا دوست ہے لیکن میں شاید کبھی اسے معاف نہیں کرپاؤں گا۔‘‘ اس نے ایک انجکشن نکہت کے بازو میں لگا دیا۔

    بہت دنوں یہ بات چھپی نہ رہ سکی اور رفتہ رفتہ ان کے دوست احباب کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا گیا اور آخر کار نعیم تک محدود ہوگیا اور نعیم بھی ایک دوست سے زیادہ ایک ہمدرد اور اپنے فن سے لگاؤ رکھنے والا ڈاکٹر بن کر رہ گیا تھا۔ وہ درحقیقت اعجاز سے ناراض تھا لیکن اس اعجاز سے نہیں جو اس کا مریض تھا۔ ان دونوں کے لیے اس نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن اکثر وہ خود پر جھلا جاتا کہ کیوں اس کا فن نکہت کے لیے بےاثر ہو گیا ہے۔ دن بدن نکہت کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی لیکن لیکن اعجاز کی کیفیت میں ایک ٹھہراؤ سا آ گیا تھا۔ ایک روز اعجاز نے دیکھا کہ نکہت نے اپنی وہ بڑی سی فریم کی ہوئی تصویر چپکے سے اٹھائی اور لے جاکر ٹرنک میں بند کردی۔ اس تصویر میں وہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ مسکرا رہی تھی اور اب۔۔۔ اس کے جسم پر ابھرتے ہوئے بدنما داغ دھبے قہقہے لگا رہے تھے۔ ان روشن آنکھوں میں اندھیرے در آئے تھے۔

    اعجازکو خود سے نفرت سی ہو گئی۔ وہ دوڑ کر نکہت سے لپٹ گیا اور اس کے تلووں سے آنکھیں ملنے لگا۔ نکہت نے اپنے کمزور اوربد ہیئت ہاتھوں سے پکڑ کر اسے زبردستی اٹھایا اور مسکرا دی۔ داغ دار اور کریہہ مسکراہٹ۔ وہ اب زیادہ تر خاموش رہتی۔ لیکن اس کے ہونٹوں پر ازلی اور ابدی مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ اعجاز کا دل چاہتا کہ اس مسکراہٹ کے میٹھے زہر کو پی کر ہمیشہ کی نیند سو جائے۔

    چند روز سے نکہت کو بخار نے پریشان کر رکھا تھا جو دیکھتے دیکھتے بہت بڑھ گیا۔ اعجاز دوڑا ہوا گیا اور نعیم کو لیے واپس ہوا۔ نکہت بے سدھ سی پڑی ہوئی تھی۔ اسے دیکھنے کے بعد نعیم نے اسے دوسرے کمرے میں چلنے کا اشارہ کیا۔ اس نے اعجاز کو یہ دل خراش خبر دی کہ نکہت کا معاملہ اب اس کے بس کا نہیں رہا ہے۔

    ’’قدرت کی ستم ظریفی اعجاز۔۔۔‘‘ اس نے کہا، ’’تم جس بھنور سے باہر نکل رہے ہو، اسی بھنور نے نکہت کو ہضم کرنے کی ٹھانی ہے۔‘‘

    ’’یا خدا۔۔۔‘‘ اعجاز کے منہ سے ایک کراہ نکلی، ’’ایسا نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ اس نے اپنا چکراتا ہوا سر تھام لیا۔

    ’’اعجاز! اب اسے یہاں رکھنا بےکار ہے۔ تم اسے آگرہ لے جاؤ اور وہاں کے ہسپتال میں داخل کر دو اور۔۔۔‘‘ اس نے کچھ رکتے ہوئے کہا، ’’اب تمھارا اس کے ساتھ رہنا خطرہ کو دوبارہ دعوت دینا ہوگا۔ تم تیزی سے ٹھیک ہو رہے ہو۔‘‘

    اچانک دھڑام سے کسی کے گرنے کی آواز آئی اور دونوں اندر بھاگے ہوئے گئے۔ کھلے ہوئے ٹرنک کے پاس نکہت سینے سے اپنی وہی تصویر چمٹائی پڑی تھی اور اس کی آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔

    مأخذ:

    شب خون (Pg. 51)

      • ناشر: سید رشید قادر
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے