Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سیالکوٹ کا لاڑا

رتن سنگھ

سیالکوٹ کا لاڑا

رتن سنگھ

MORE BYرتن سنگھ

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو بچپن میں ایک گلیانی سے محبت کیا کرتا تھا۔ گلیوں میں سوئیاں، کندھوئیا بیچنے والی راجستھان کی ان گلیانیوں نے بڑے گھروں میں اپنے پکے ججمان بھی بنا رکھے تھے۔ ان گھروں میں جب کوئی خوشی کا موقع آتا تو یہ گلیانیاں وہاں ناچتی گاتی تھی۔ ایسے ہی ایک گھر کا نوجوان لڑکا اپنے بچپن میں ایک گلیانی کی محبت میں پڑ جاتا ہے اور جوان ہونے تک اسی کے عشق میں مبتلا رہتا ہے۔

    میں نے اپنی لاڑی کو بچپن میں اس وقت چن لیا تھا جب میں ماں کا دودھ پیتا بچہ تھا اور وہ لاڑی تھی ایک گوگلیانی۔

    پنجاب میں گوگلیانی، راجستھان کی ان عورتوں کو کہتے ہیں جو گلی گلی، گھر گھر، سوئیاں اور کندھوئیاں بیچتی ہیں۔ یہ سوئیاں، کندھوئیاں بیچتے ہوئے انہوں نے اپنے پکے ججمان بھی بنارکھے ہیں۔ اپنے ججمانوں کے گھروں میں نئے بچے کی پیدائش پر لوریاں، شادی ہونے پر گھوڑیاں اور دوسرے خوشی کے گیت گایا کرتی ہیں، کوئی افسوس کا موقعہ ہو، وہ بین کے دردناک گیت گاکر اپنے ججمانوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہوتی ہیں۔میری پیدائش کے موقع پر بڑی گوگلیانی چونکہ مرگئی تھی، اس لیے اس کی چودہ پندرہ سال کی بیٹی میری لوری کے گیت گانےآئی،

    گوگیلانی گاوے لوری

    کاکا لمبڑی عمریاتوری

    اونچ اَٹریا جو توجائے

    تجھ کو دنیا سیس نوائے

    تیرا اونچا ہو اقبال

    امبڑی لامصری کا تھال

    گوگلیانی گاوے گھوڑی

    لاڑا لاڑی بڑھیا جوڑی

    جو تو بیاہ کرنے کو جائے

    کوئی اپسرا بیاہ کر لائے

    تیری چاچی ہوئے نہال

    چاچی لامصری کاتھال

    کاکا بلاں وچ مسکائے

    دادی پیلاں پاندی آئے

    متھا چمے مرچاں وارے

    دادی پوتے توں بلہارے

    اس کا مکھڑا سوہا لال

    دادی لامصری کا تھال

    میری ماں بتایا کرتی تھی کہ مجھے گود میں لے کر، گوگلیانی اپنی باریک لمبی آواز میں جب یہ لوری گارہی تھی تو پتہ نہیں کب میں اس کے دودھ کو منہ میں ڈال کر چپل چپل پینے لگا۔ میں دودھ پی رہاتھا اور شرم کے مارے گوگلیانی کا چہرہ لال انار ہوتاجارہاتھا۔

    دادی نے جب مصری کے بھرے ہوئے تھال کے اوپر پانچ روپے رکھ کر گوگلیانی کی جھولی میں ڈالے تو بولی، ’’لے میں نے تجھے مصری کھلادی تو بھی ماں بننے والی ہے، تو بھی مجھے مصری کھلانا۔ گوگلیانی نے شرم کے مارے مجھے اپنی چھاتی سے بھینچ لیا اور جب وہ مجھے ماں کی گود میں ڈالنےلگی، میں واپس جاہی نہ رہاتھا۔ اتنی اچھی لگی تھی مجھے گوگلیانی۔

    جب میں کچھ بڑا ہوا تو گوگلیانی کی انگلی تھامے میں گلی گلی گھوماکرتا تھا۔ وہ سوئیاں اور کندھوئیاں بیچتی رہتی اور میں اس کے غرارے یا رنگ دارچنری کو تھامے اس کی طرف دیکھتا رہتا۔ جب وہ کسی کی لوری گاتی تو مجھ پر وجد کا سا عالم طاری ہوجاتا تھا۔ میں آنکھیں بند کیے اپنےکانوں میں اس کی میٹھی آواز کا رس گھولتارہتا۔لوگ مذاق میں اس سے پوچھتے کہ یہ تیرا کون لگتا ہے تو وہ ہنس کر کہتی، ’’یہ میرا لاڑا ہے۔‘‘

    رہی میری بات تو میں تو کہتاہی تھا کہ یہ میری لاڑی ہے۔میرا جواب سن کر لوگ ہنستے اور میری لاڑی کا رنگ چنبے کی طرح کھل اٹھتا۔

    میرے ذہن میں اپنی اس لاڑی کی جو تصویر محفوظ ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ کنوئیں کی طرح گہری، ٹھوڑی کےاوپر شعلوں کی طرح دہکتے دو تراشے ہوئے ہونٹ، ان کے اوپر لٹکتی تیکھی پتلی تلوار سی ناک، اس ناک پر رکھی ہوئیں کٹار سی بڑی بڑی آنکھیں جن کے اوپر کالی بھنویں اس طرح جھکی رہتیں جیسے آنکھوں کی خوب صورتی کوچھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہوں۔ اس کے ماتھے کے عین بیچ و بیچ بالوں کے چیر سے لٹکتی ہوئی چاندی کی زنجیر کے سہارےایک ٹیکا جھولتارہتا تھا۔ سر کے بیچ و بیچ چوک پھول اور اس چوک پھول کی اونچی ٹیسی پر اٹکا ہوا اس کی گہرے رنگ کی ساڑھی یا دوپٹے کاپلو، جو اس کے لمبے چہرےکو اپنے ہالے میں لیے رہتا تھااور اس کی چنری کے رنگ کی دمک اس کے گورے رنگ پر پڑتی ہوئی کوئی ایساجادو جگاتی جیسے قوس قزح کے ساتوں رنگ اس کے چہرے پر نکھر آئے ہوں۔

    پھر اس کے ہاتھوں سے لے کر کہنیوں تک اور کہنیوں سے لے کر کندھوں تک سفید، لال اور ہرے رنگ کاچوڑا بازوؤں کی ذرا سی حرکت سے جھنجھنا اٹھتا تو مجھے ایسا لگتا جیسے چھاکے والے کنوئیں کی اونچی نشار کاپانی ’’اولو‘‘ میں گرتا ہوامیٹھا گیت گا رہا ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں، میں اس کی گود میں بیٹھ کر اس کی چپکی ہوئی چولی میں ٹنکے چھوٹے چھوٹے شیشوں میں اپنا چہرہ دیکھاکرتا تھا۔ چہرہ دیکھتااور اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیاں ان شیشوں پر مار مار کر کہا کرتاتھا، ’’میں یہاں بھی ہوں، میں یہاں بھی ہوں۔‘‘

    ’’میرا لاڑا تو میرے دل میں رہتا ہے۔‘‘ وہ مجھے اپنے سینے سے بھینچ کر کہتی تھی۔

    پھر یہ ہوا کہ بچپن کے دن بہت پیچھے رہ گئے۔

    آخری مرتبہ جب میں نے اپنی لاڑی کو دیکھا تب میں چودہ پندرہ سال کا بھرپور جوان ہوگیا تھا۔ جوان، لمبا چوڑا، چھ فٹ سے نکلتاقد، سر پر کلف لگی پگڑی باندھ کرمیں پورا مرد لگتا تھا۔ اس بار جب وہ آئی تو میرےبڑے بھائی کی منگنی ہوئی تھی اور اس کی سربال سے بڑے بڑے موتی چور کے لڈو آئے تھے۔ ایک ایک لڈو پاؤ پاؤ بھر کا تھا۔ اتنا موٹا کہ میرےدونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں نہ سماتا تھا۔ہمارے گھر کے کھلے چوڑے آنگن میں گوگلیانی بدھائی کاگیت گا رہی تھی،

    ہوئی منڈے دی کڑمائی

    گوگلیانی دئے بدھائی

    دوہٹی بیٹھی پیڑا ڈاہ کے

    گل وچ ہار ہمیلاں پا کے

    اس کی گودمیں کھیلے بال

    امبڑی لامصری کاتھال

    گوگلیانی گا رہی تھی، ناچ رہی تھی۔ ناچتی ہوئی جب وہ تیزی سے چکر پر چکر کاٹتی تو اس کاکھلا گگرا، چھتری کی طرح پھیل جاتا اور اس کے دوپٹے، اس کی چولی میں ٹنگے رنگ برنگے شیشوں سے رنگ برنگی کرنیں پھوٹتی رہتیں۔

    اس موقع پر سب خوش تھے۔

    سب اس کے تال میں تال ملاکر تالی بجا رہے تھے۔

    اس تالی میں اگر کسی کے ہاتھ نہیں اٹھ رہےتھے تو میرے۔ میں اداس تھا۔ میرا بچپن بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اس لیے گوگلیانی کی انگلی تھامے اس کے ساتھ نہیں گھوم سکتاتھا۔ اب میں اس کے ڈیرے میں جاکر اس کی گدڑی کے نرم اور گرم بستر میں اپنی لاڑی کے سینے سے لگ کرنہیں سوسکتاتھااور ابھی میں پورا مرد بھی نہیں بنا تھا کہ کھل کر اس سے اپنے عشق کااظہار کردوں۔ میں تو ابھی سوچ رہاتھا کہ وہ میری لاڑی ہے اور اب سر پر کلف دار پگڑی باندھے، پورا مرد بننے کی کوشش کےباوجود مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب مجھے لاڑی کے سینے سے لگ کر جو سکھ مل سکتا ہے، اسے کیسے حاصل کروں۔

    اس کاناچ جاری تھا۔اس کے گیت کی باریک دھن اب بھی میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی اور اس رس کانشہ دھیرے دھیرے میرے وجود پرچھا رہاتھا لیکن مجھے مکمل سرشاری نہیں مل رہی تھی۔ مجھے لگ رہاتھا جیسے میرے بڑے ہونے کے ساتھ ہی میری لاڑی مجھ سے دور ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے اس نے ابھی تک میری آنکھوں میں جھانک کر نہیں دیکھا تھا۔ پہلے کی طرح اپنے سینے سے لگاکر مجھ سے پیار نہیں کیا تھا۔ اس کمی کو پوراکرنےکے لیے میں باربار اپنے بچپن میں لوٹ جاتا لیکن لاڑی کے جسم سے نکلتی کرنوں کی رنگینی مجھے واپس آنگن میں لے آئی۔

    میری اداسی کو شاید گوگلیانی نے بھی بھانپ لیا۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ ناچتےناچتے کب اس کابازو کوند کر لپکا۔ مجھے تو تبھی پتہ چلا جب اس نے بازو سے پکڑ کر مجھے آنگن کے بیچ و بیچ کھینچ لیا اور مرےے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، میرے جوان چہرے کے دونوں طرف ناگن کی طرح سرگھماتے، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال اس نے گیت کامکھڑا اٹھایا،

    میرا لاڑا کھڑا اداس

    میں تو جاتی اس کے پاس

    میری دولت اس کاپیار

    اپنی جان میں کروں نثار

    یہ تو میرا قیمتی لعل

    امبڑی لامصری کا تھال

    گیت جاری تھا۔ لاڑی میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گدے کی تال میں ناچ رہی تھی۔ چاروں طرف کھڑے میرے گھروالے اور محلے بھر کی عورتیں مرد اکٹھے ہوکر اپنی تالی سے تال دےرہے تھے، ہنس ہنس کر دوہرے ہو رہےتھے اورمیرے لیے تو جیسے وقت کاچلتا ہوا چکر رک گیا تھا۔ آسمان سےامرت کی گنگا اتر رہی تھی اور دھرتی اس امرت کو گرہن کرکے سچے سکھ کاآنند لے رہی تھی۔ اس سرشاری میں میری آنکھیں مندی جارہی تھیں۔ ان آنکھوں میں اتنی تاب ہی نہیں تھی کہ میں اپنی لاڑی کے سورج کی طرح چمکتے چہرے کی طرف دیکھ سکوں۔

    مجھے ہوش اس وقت آیا جب میں نے دیکھا کہ لاڑی میری دادی کے لائے ہوئے لڈوؤں سےبھرے تھال کو اپنے جھولے میں ڈال رہی تھی۔ لڈو جھولے میں رکھ کر اس نے تھال میں رکھے چاندی کے دس سکے بھی اٹھائےاور انہیں بھی اپنے جھولے کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔

    گوگلیانی میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ مجھے بہت اچھا لگا۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ اب لاڑی کے لیے وہاں سب کے موجود ہونے کے باوجود اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اگر کوئی تھا تو صرف میں، جس کی طرف دیکھ کر وہ بار بار مسکرا رہی تھی۔

    اس نےذراسادم لے لیا تو وہ خود ہی بولی، ’’اب تک تو میں بڑے بیٹے کی کڑمائی کی بدھائی دینے کے لیے گارہی تھی۔ اب میں صرف اپنے لاڑے کے لیے گاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نےایک ادا سے شرارت بھری نظر سےمیری طرف دیکھا۔ میں تو پہلے ہی اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جو ناچتے ناچتے سرخ انار ہو رہاتھا۔ میرے اندر کاجوان مرد یہ سوچ رہا تھا کہ یہ عورت کسی طرح بھی چونتیس پینتیس کی نہیں لگتی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت اس کے لیے ٹھہر گیا ہو۔ گزرتے ہوئے وقت کااس پر کچھ بھی اثر نہ پڑ رہا ہو اور جیسے وہ میری ہم عمرہی ہو۔

    اتنے میں اپنےجھولے کو سمیٹتی ہوئی وہ اٹھی اور پھر کھڑے ہوکر بازو لہراکر اس نےایک ہاتھ کان پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے اپنی طرف کھینچ کر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگالیا، میرے ماتھے اور گال چوم کر گیت کی تان اٹھائی،

    مجھ کو مل گیا میرا لاڑا

    جیون بھر کا ساتھ ہمارا

    ہم نےچن لی اپنی راہ

    ٹنڈے لاٹ کی نہیں پرواہ

    منڈیا میں مچھلی تو جال

    دادی لا مصری کا تھال

    گوگلیانی مجھے اپنے ساتھ لے کر گا رہی تھی، ناچ رہی تھی، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے اپنے حسن کے جادو سے مسحور کر رہی تھی۔ سب ہنس رہے تھے، خوش ہو رہے تھے۔ لیکن میری خوشی کی کوئی تھاہ نہیں تھی۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ جس مقام پر خوشی کی انتہا ہوتی ہے وہ مقام سوئی کی نوک کے ہزارویں حصے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ انسان کا وجود تو دور رہا۔ وہ اپنے تصور میں بھی اس مقام پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اس اونچائی سے اس کے قدم جب پھسلتے ہیں تو وہ رنج کی گہری کھائی میں جاگرتا ہے اور وہ خوشی جسے پانے کے لیے اس کا من مچلتا رہتا ہے، وہی سوئی کی نوک کی طرح اس کے وجود کے روئیں روئیں میں چبھ کر اسے چھلنی کرتی رہتی ہے، لہولہان کرتی رہتی ہے۔

    یہی میرے ساتھ ہوا۔

    زندگی کے اس موڑپر جہاں گوگلیانی نے میرے گھروالوں کے سامنے مجھے اپنا لاڑا مان کر زندگی بھر ساتھ رہنےکا گیت گاتےہوئے کہا تھا کہ اے لڑکے میں وہ مچھلی ہوں جو تمہارے جال میں پھنس چکی ہے۔

    ہاں زندگی کے اسی موڑ پر میرا دل غم سے روشناس ہوا۔

    ہوا یہ کہ میری لاڑی نے جب سے میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یہ گیت گایا تھا کہ،

    مجھ کو مل گیا میرا لاڑا

    جیون بھر کا ساتھ ہمارا

    ہم نےچن لی اپنی راہ

    ٹنڈے لاٹ کی نہیں پرواہ

    منڈیا میں مچھلی توں جال

    دادی لا مصری کا تھال

    بس اسی وقت سےمجھ پر نشہ طاری تھا۔ مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ اس دن جب لاڑی اپنا سوئیوں کندھوئیوں والاتھیلا کندھے سے لٹکائے ہمارے گھر سے اپنے ڈیرے کی طرف گئی تو میں ہانپتا ہانپتا گھر کی چھت پر چڑھ کر کھیتوں کی پگڈنڈیوں میں اٹھلا اٹھلاکر چلتی اپنی لاڑی کو اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ مجھے دکھائی دیتی رہی تھی۔

    اور جب وہ آموں کے جھنڈ کے پاس جاکر نظروں سےاوجھل ہوگئی، تب بھی میرے تصور نےاسے اس پگڈنڈی کے ہر موڑ پر کھڑا کرکے دیکھا کہ وہ وہاں کتنی خوب صورت لگتی ہے۔

    میرے ہونٹ انہی بولوں کو گنگناتے رہے،

    منڈیا میں مچھلی تو جال

    منڈیا میں مچھلی تو جال

    لیکن میرا یہ سپناجاگتے میں دیکھا ہوا سپنا تھا۔

    اس مقام پر جب میرے دل کو کسی طرح قرار نہیں آیا تو میں نےماں سےسفید شلوار مانگی۔ اپنے بڑے بھائی کی شہر سے دھل کر آئی ہوئی استری کی ہوئی قمیص پہنی۔ سر پر کلف لگی پگڑی باندھی اور اس طرح اپنی طرف سے پورا چھیلا بن کر میں گوگلیانی کے ڈیرے کی طرف چل دیا۔شام کے وقت وہاں اچھا خاصا جمگھٹ لگتاتھا۔

    گوگلیانیوں کے مردوں کی بھٹیاں جن میں دن کے وقت وہ کسانوں کے لیے دارانتیاں و کھرپیاں بنایا کرتے تھے، شام کے وقت وہ الاؤ میں تبدیل ہوجاتیں، ان میں ایک طرف گوگلیانیاں کھانا بناتیں اور دوسری طرف مرد آگ سینکتے رہتے، گود ہول کے وقت جب کسان اور چرواہے لوٹتے تو ان کے جلتے ہوئے الاؤ کے گرد کبھی کبھی گانے بجانےکے پروگرام بھی ہوجاتے۔ اس دن شام کے دھندلکے میں جب میں وہاں پہنچا تو ویسا ہی جمگھٹ لگاہوا تھا۔ سب لوگ اردگرد کھڑے تھے اور میری لاڑی بیچ میدان میں بوڑھے نمبردار کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ناچ رہی تھی گارہی تھی،

    آیا سیالکوٹ کا لاڑا

    یہ تو من کا میت ہمارا

    میں نےایسی جوت جلائی

    اس کی لوٹ جوانی آئی

    اس کومل گئے بیتے سال

    بوڑھے لا مصری کا تھال

    لاڑی بے سدھ ہوکر گا رہی تھی۔ وہی شمع کی طرح دہکتا چہرہ، وہی ناگن سی لہراتی اس کی چوٹی اور۔۔۔

    میرے دل پر چوٹ لگی۔ یہ تو میری لاڑی ہے صرف میری اور یہ کسی دوسرے کے ساتھ ناچ رہی ہے۔زحمی سانپ کی طرح پھنکارے مارتا میں الٹے پاؤں واپس لوٹ آیا تو لاڑی نے آدھے راستے میں ہی مجھے آدبوچا، ’’تم لوٹ آئے ناراض ہوکر۔۔۔ ارے پگلے یہ تو ہماری روزی روٹی ہے۔ نمبردار کے ساتھ تو میں ڈھونگ کر رہی تھی۔‘‘ لیکن میرا غصہ کافو رنہیں ہوا۔میں آنکھوں میں آنسو بھرے لوٹ آیا۔

    اس رات میں نے کھانانہیں کھایا، اگلے دن بھی نہیں۔ سارا دن اپنے گھر کی پچھلی اندھیری کوٹھری میں رضائی میں دبکا پڑا رہا۔ وہ رات وہ دن میرے لیے زندگی کی سب سے اندھیری رات تھی، جس میں میرے تن بدن پر کانٹے چبھتے رہے، روح لہولہان ہوتی رہی۔ اگلے دن گوگلیانی آئی تو اسے دادی سے پتہ چلاکہ میں نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔ جب اس کے آواز دینے پر بھی میں باہر نہیں آیا تو وہ خود ہی اندر آگئی۔ آتے ہی میرے ساتھ رضائی میں لیٹ گئی۔ مجھے سینے سے لگاکر پیار کیا۔ اپنےدوپٹے سے میرے آنسو پونچھے، میرے ماتھے اور گالوں کو چوما۔

    اتنے میں اس کے اشارے پر دادی میرے لیے چاولوں کی تھالی بھر کےلے آئی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سےایک ایک لقمہ کرکے مجھے چاول کھلائے۔ آخری لقمے پر بولی، ’’لے یہ بھی کھالے، اتنے پیار سے تو میں نے اپنے خصم کو بھی کھانا نہیں کھلایا ہوگا۔‘‘ پھر وہ پاس کھڑی دادی سے بولی، ’’سردارنی تمہارا یہ پوتا بھی اب جوان ہوگیا ہے۔اس کے لیے بھی بڑھیاسی لاڑی ڈھونڈ تو پھر میں اس کے بیاہ کی گھوڑی گانے آؤں گی۔‘‘

    ’’تو کیا دےگا رے، سیالکوٹ کے لاڑے، مجھے اپنی گھوڑی گانےکا۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے ٹھوڑی سے میرا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔

    ’’تماکرےجیسی سندر چاند سی بہو۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’یہ بات ہوئی نہ کچھ۔‘‘

    ’’لیکن وہ میری لاڑی کی بہو ہوگی، نمبردار کی لاڑی کی نہیں۔‘‘ میں نے شرارت بھری نظر سےاس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس کی ہنسی کے ساتھ ہی اس اندھیری کوٹھری کا کونہ کونہ میری لاڑی کے حسن کی چمک سے جگمگا اٹھا۔ میں نے دیکھا اس کے چہرے پر ماں کی ممتا چھلک رہی تھی اور محبوبہ کا پیار بھی۔

    مأخذ:

    پناہ گاہ (Pg. 71)

    • مصنف: رتن سنگھ
      • ناشر: رتن سنگھ
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے