Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سلگتی راکھ

رضیہ کاظمی

سلگتی راکھ

رضیہ کاظمی

MORE BYرضیہ کاظمی

    ’’شنکر۔شنکر۔شنکر۔ اف! بھگوان یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟“ شانتی کو اپنے آپ پر غصّہ آرہا تھا۔ مگر اس کی یہ سوچ ندی کی چنچل دھارا کی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔‘‘

    ’’میں اس کے خیال کو دل سےنکال پھینکنا چاہتی ہوں لیکن شاید اس کا یہ خیال بھی اسی کی طرح شوخ ہےکہ بس اک دم میرے دماغ میں گھسا آ رہا ہے۔ یا میرا یہ دل ہی اب مجھ سے غداری کرنے لگا ہے۔ یہ خود ہی سرکش ہورہا ہے۔ اسے دیکھتے ہی اس کی دھڑکنیں کیوں تیز ہونے لگتی ہیں۔ کہیں شنکر نے اس پر کوئ جادو تو نہیں کر دیا۔ چور جادو گر۔ اگر کسی نے اس دل میں چھپے ہوۓ چور کو پکڑ لیا تو میری کتنی بدنامی ہوگی۔‘‘

    شنکر! تم میرے دل میں کیوں گھسےچلے آ رہے ہو؟ میں شانتی ہوں اورمیں نےدھیرے دھیرے شانت (خاموش) رہنا سیکھ لیا ہے۔

    میں اپنے اس من مندر میں تو اب تک اس دیوتا کی مورتی بٹھاۓ ہوۓ ہوں جس کی شکل و صورت زمانہ نے تو مٹا دی ہےمگر سماج ابھی تک مجھے اس کے چرنوں کی داسی بنے رہنے پر مجبور کر رہا ہے اور میں بھی ایک آدرش بھارتی ناری کی طرح اس کا حکم مانے جا رہی ہوں۔ لیکن اب شنکر شاید اس بے جان مورتی کی جگہ اپنی ہنستی بولتی تصویر بٹھانا چاہتا ہے۔

    پتہ نہیں اسے میرے بارے میں کچھ معلوم بھی ہے یا نہیں؟ منجھلی نے اسےکچھ بتایا بھی ہوگا یا نہیں؟ اس کو بھی لگتا ہوگا کہ میری زندگی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ لیکن کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوا میرے ساتھ اب تک اور نہ اب ہو رہا ہے۔ زندگی تو جیسے وہ اجاڑ جنگل ہے جس میں کوئ ہریالی نہیں یا ایک ایسا درخت ہےجس میں نہ کوئی پھول ہے اور نہ پھل۔ کاش شنکر اس اجاڑ بن کو گلزار بنا سکتا۔

    کاش میں اپنی زند گی کی کتاب اس کے سامنے کھول کر رکھ سکتی۔ ماں کا پیار کسے کہتے ہیں یہ تو میں نے جانا ہی نہیں۔ بابوجی اور چھوٹی بہن کی دیکھ ریکھ میں اپنا کنوارپن گزارا۔ ایک دن سنا کہ دوسری سہیلیوں کی طرح میں بھی بابل کا گھر چھوڑکر پیا کا سنسار بسانے جا رہی ہوں۔ ہمارا خاندان بہت پرانے وچاروں والا ہے ہم بنارسی پنڈت جو ٹھیرے۔ جوڑا منڈپ میں بیٹھا تھا لیکن ابھی تک ہم ایک دوسرے کےلیے بالکل ہی انجان تھے۔ پہلے ہی پھیرے میں گھونگٹ کی اوٹ سے میں نے جھانک کر دیکھا کہ ایک دبلا پتلا سایہ میرے آگے لڑکھڑاتا ہوا چل رہا تھا۔ کھانسی کی آواز متواتر میرے کانوں کے پردےسے ٹکراتی رہی اور میں دوسری سنسکاری لڑکیوں کی طرح اندھی بہری اور گونگی بنی ہوئی بغیر کسی بغاوت کے اس دمہ کے مریض کے سا تھ پھیرے لیتی رہی اور پھر اس کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی ۔بابو جی جہیزکی لعنت سے سستے چھوٹ گیے۔ ساس جی کا بڑی بہو گھر لانے کا ارمان پورا ہو گیا۔

    سسرال پہنچنے پرضروری رسموں کی ادائیگی کے بعد تھکا ہارا دولھا خبر نہیں کہاں گیا لیکن مجھے ساس جی کے کمرے میں ایک کونے میں لگے ہوۓ بستر تک پہنچا دیا گیا۔ سہاگ کے کمرے میں شاید سہاگ رات کے وہ سپنے دیکھنے کے لیۓجو کبھی حقیقت نہ بن سکے۔

    شادی کو ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ سہاگ کی ساری ظاہری نشانیاں بھی ایک ایک کرکے چھن گئیں ۔چوڑیاں چھن چھناکے ٹوٹ گئیں۔ مانگ کا سیندور پونچھ دیا گیا اور حصہ میں کیا آیا سفید بنا کنارے کی دھوتی، پوجا پاٹھ اور ساس جی کی مستقل سیوا۔ پتی کی ارتھی کے ساتھ سماج کے ظالم رواجوں نے میرے سارے ارمان و حوصلے بھی چتا میں جھونک دئے۔ گو میں اب اس سماج میں ہوں جس میں اپنے شوہر کی ارتھی کےساتھ اسکی جیتی جاگتی بیوی کو ستی تو نہیں کیا جاتا تھا مگر اس میں ابھی تک ایک زندہ لاش بناکے چھوڑ دیا جاتا تھا۔

    رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں، خوبصورت گہنےاور سرسراتی ریشمی ساریاں جب منجھلی، چھوٹی بہو اور ساس جی پہن کر تیار ہوتی ہیں تو اپنا دل مچل اٹھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں ابھاگن ہوں۔ توکیا میں نے اپنا بھاگیہ (قسمت) اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ اگر اپنے ہی ہاتھوں انسان اپنی تقدیر گڈھ سکتا تو سنسار میں کوئ دین دکھی کیوں رہتا۔ یہ ہمارا سماج کتنا جاہل ہے کہ پہلے تو کسی اچھے بھلے کو بنا اس کی جانکاری کے کسی ایسے کے پلے باندھ دو جو اپنا ایک پیر چتا پر رکھ چکا ہو اور وہ جب دوسرا پیر رکھ کے سواہا ہو جاۓ تو اس بیچاری پر سب مل کے بدقسمتی کا الزام لاد دو۔ آج اکیسویں صدی میں جبکہ انسان آسمان میں تھگلی لگا رہا ہے ہم اپنے فالتو ریت رواجوں کے اندھے کنوؤں ہی میں پڑے ہوۓ ہیں۔

    چھوٹے لالہ (دیور) کی شادی میں میں کس قدر دوڑ دوڑ کر سب کا ہاتھ بٹا رہی تھی مگر کتنے ہی شگن کے کاموں کی جگہ سےمجھے کسی نہ کسی بہانے ہٹا دیا جاتا۔

    ’’شانتی بہو ابتک تو تمہیں اتنی سمجھ آجانی چاہیۓ تھی کہ تمہیں کس کام میں ہاتھ لگانا ہے اور کس میں نہیں؟” ساس کاکی کے یہ کہنے پر میں کس قدر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ شاید ان سے بھی یہی کہا گیا ہوگا۔ اگر زمانہ میں اندھ وشواس اسی طرح پاؤں پسارے رہا تو کتنے دلوں کو آۓ دن یوں ہی سدا کچوکے لگاۓ جاتے رہینگے۔

    بابوجی تو شاید اپنے کندھے کا جوا اتار کر مجھے بالکل ہی بھول گئے۔ اب شیلا ان کی سیوا میں لگی ہوگی۔ وہ اس کے لیۓ بھی کوئی ایسا مریل ٹٹو کہیں سے پکڑ لائیں گے جو گرہستی کا بوجھ پڑتے ہی ڈھیر ہو جاۓ یا کوئ اوباش شرابی کبابی۔ لیکن بیچارے وہ بھی کیا کریں۔ آج کل سماج نے ہی شادی بیاہ کو شطرنج کا ایسا کھیل بنا دیا ہے کہ اگر لڑکی کے ماں باپ شاطر کھلاڑی نہ ہوۓ تو ہمیشہ مات کھاتے رہتے ہیں۔

    شنکر کی یاد آج شام سے نہ جانے کیوں مسلسل آۓ جا رہی ہے۔ معلوم نہیں کہاں ہوگا کیسا ہوگا؟ کئ دنوں سے ادھر آیا بھی نہیں۔ پچھلےدنوں وہ بہت کھویا کھویا سا دکھا ئ دے رہا تھا۔ لیکن مجھے کیا؟ میں کیوں اس کے بارے میں اتنا سب کچھ سو چنے لگی ہوں؟ اس کے آنے کی راہ کیوں دیکھنے لگی ہوں؟ جب کئ دنوں تک نہیں دکھائ دیتا تو من اداس کیوں رہتا ہے؟ سامنے آتا ہے تو دل کی دھڑکنیں کیوں تیز ہوجاتی ہیں؟ اس سے آنکھیں چار کرنے میں گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے؟ نمستے اور ہوں ہاں سے آگے کچھ بولنے سے کتراتی کیوں ہوں؟ میرے دل میں ضرور کوئی چور ہے۔ اس کے خیال ہی سےمن میں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ ایسا احساس تو کبھی کسی کے لیے نہیں ہوا تھا۔ میرے دل کو اس سے محبّت تو نہیں ہو گئی ہے؟ کہیں میں یہ کچھ پاپ تو نہیں کر رہی ہوں؟ کہیں یہ اپنے سورگ واسی (آنجہانی) پتی (شوہر) کے ساتھ میری غداری تو نہیں؟ شاید شاید مجھے ایک پرپرش (پرائے مرد) کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔ اس سے میرارشتہ ہی کیا ہے؟

    صرف اتنا ہی نہ کہ وہ میری منجھلی دیورانی کا بھائ ہے اور بس۔

    کیا وہ بھی میرے بارے میں ایسے ہی سوچتا ہوگا جیسے میں؟

    لیکن جب میں نے اس کی آنکھوں میں کبھی جھانکا ہی نہیں تو کیسے معلوم ہو؟

    نہ اس نے کبھی مجھسے کوئی بات کی اور نہ اس کےکسی برتاؤ سے ایسا ظاہر کیا۔ مگر میں نے بھی کب اس سے کچھ کہا۔ کہتا بھی کیسے میرے ساتھ ودھواپن(بیوگی) کا لیبل بھی تو لگا ہے۔ میں اس سے اتنی بڑی ہمت کی امید بھی کیوں کروں؟

    ضروری بھی تو نہیں کہ ادھر جو آگ لگی ہے ویسی ہی اودھر بھی ہو؟

    لیکن۔۔۔؟لیکن۔۔۔؟

    ’’پچھلے مہینےجب میں دھوتی چڑھاۓ چوکے میں پونچھا لگا رہی تھی اوروہ اچانک آ گیا تھا تو فورا‘‘ ٹھٹھک کر سوری کہتے ہوۓ وہ واپس چلا گیا۔

    ’’دیدی یہ شانتی جی ہردم کچھ نہ کچھ کام ہی کرتی رہتی ہیں۔ تم بھی تو کچھ کر لیا کرو نہ‘‘۔ منجھلی سے اسے کہتے سنا مجھے کتنا اچھا لگا تھا۔

    ’’تو جاکے تم ہی ہاتھ بٹا دیا کرو نہ انکا جب تمہیں اتنی ہمدردی ہے ان سے“ مجھلی نے بھائ سے جل کے کہا تھا۔ ان کے پاس کام ہی کیا ہے؟ میں تو دو دو بچے پال رہی ہی ہوں۔“

    اس بات پر ساس جی نے بھی ان کی ہاں میں ملائی تھی اور میں دل مسوس کر رہ گئ تھی۔ میرے سینے میں مامتا کس قدر تڑپی تھی۔ مگر مجھے میرا سماج صرف پیٹ کی روٹی اور تن کا کپڑا ہی دے کر سنتشٹ (مطمئن) ہے۔ لیکن کیا کبھی اپنوں نے بھی یہ سوچا کہ اس کے علاوہ جانوروں تک میں کچھ اور بھی اچھائیں (خواہشیں) ہوتی ہیں۔

    ساس جی سو گئی ہیں۔ مجھے لائٹ بند کرنی پڑےگی۔ کوئ کتاب بھی نہیں پڑھ سکتی۔ ابھی اتنی جلدی نیند بھی نہیں آنے کی۔ چلوں تھوڑی دیر آنگن میں ٹہلتی ہوں۔

    ارے منجھلی کے کمرے میں تو کافی بحث مباحثہ سا چل رہا ہے شنکر کی آوازیں بھی سنائ دے رہی ہیں۔ دیورجی ابھی آفس سے نہیں آۓ ہیں اس لیے شاید بھائ بہن دل کھول کر کسی بحث میں لگے ہوۓہیں۔ لیکن شنکرکو تو میں نے کبھی بلند آواز میں بات کرتے بھی نہیں سنا تھا آج اسے کیا ہو گیا ہے۔

    ’’سوری دیدی! تم نےبہت دیر کر دی۔ کتنے دنوں سے یہ وچار میرے دل و دماغ میں پل رہا تھا۔ صرف ہمدردی ہی نہیں بلکہ میں شانتی جی سے پیار کرنے لگا ہوں۔ دربھاگیہ وش آپ کے پریوار (خاندان) کے سنسکاروں کے ڈر سے اپنی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ لیکن اب شانتی جی سے زیادہ کسی اور کو میری ضرورت ہے اور وہ ہےکل روڈ ایکسیڈنٹ میرے مارے جانے والے پیارے دوست وشال کی پتنی شیلا۔ ڈاکٹروں کا وچار ہے کہ اسے دماغی صدمے سے باہر لانے کے لۓ مجھے اس کا وشال بننا پڑےگا۔‘‘

    شانتی سکتے میں آ گئی۔

    اسے ایسا کہ ایسا لگا کہ جیسےاس کے دل کی راکھ میں جو چنگاری سلگ اٹھی تھی اس پر کسی نے ڈھیروں پانی انڈیل دیا ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے