Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سندباد جہازی کا نیا سفر

ہاجرہ  مسرور

سندباد جہازی کا نیا سفر

ہاجرہ مسرور

MORE BYہاجرہ مسرور

    کہانی کی کہانی

    تمثیلی پیرایہ میں سرمایہ داری کے تارو پود کو بکھیرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں سرمایہ داری، جاگیر داری اور شہنشاہیت کے مخلتلف روپ اور ان کے معاون و آلہ کار افراد کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔

    صاحبو! ایک دو نہیں۔ تابڑتوڑ سات سفر کر چکنے کے بعد، ہاتھوں پیروں میں یوں ہی دم نہیں رہا۔ اس پر نصیبوں کا دیا سارا عیش و آرام مہیا تھا۔ بے فکری میں یکبارگی جو نیند کا غلبہ ہوا تو الف لیلہ کے اوراق میں لپٹ کر سو گیا۔ رنگا رنگ انقلابات آئے اور گزر گئے مگر میں تھکا ہارا گہری نیند سوتا رہا۔ اسی طر ح چین کی نیند سوتا رہتا تو غنیمت تھا مگر قسمت میں ابھی کچھ اور بھی دیکھنا لکھا تھا۔ گہری نیند میں ایک بار زور کی ٹھوکر سر پر محسوس ہوئی اور پٹ سے آنکھیں کھل گئیں۔ دیکھا تو میرے جسم کو پھلانگ کر ایک عجیب و غریب شخص گزرا۔ سر پر عمامے کے بجائے ایک مضحکہ خیز ٹوپی، جس کی زبان ماتھے پر پڑی ہوئی تھی، عبا و قبا کے بجائے جسم پر اور ہی وضع قطع کا منڈھا منڈھایا لباس۔ کندھے پر لوہے اور لکڑی کا مرکب ایک کبڑا ہتھیار جس کی نوک سے پتلی لمبی برچھی بندھی ہوئی۔۔۔ وہ جھک جھک کر زمین کو سونگھتا اور خوشی سے گھوڑے کی طرح پاؤں پٹکتا اور ابابیلوں کی طرح سیٹی بجاتا۔

    آنکھیں مل مل کر یہ اجنبی شکل دیکھی۔ مگر مجھ سے تو نہ پہچانا گیا۔ حیران و پریشان اس کی جانب تکتا تھا کہ اسی وقت عبا و قبا والے ادھر آتے نظر پڑے۔ وہ دور ہی سےجھکے جھکے اجنبی کی طرف دوڑے اور قریب پہنچ کر گھٹنوں کے بل جھک کر زمین کریدنے لگے۔ کریدتے رہے، حتی کہ مارے تکان کے ان کی زبانیں باہر نکل پڑیں اور پسینے سے شرابور ہوگئے۔ تب وہ مل کر جھکے اور ہاتھ پھیلادیے۔۔۔ اجنبی نے چند سکے جیب سے نکال کر اچھال دیے اور خوشی سے اچھلتےہوئے سیٹی بجائی اور اپنی لمبی لمبی ٹانگیں پھیلاکر اکڑ گیا۔ اس کے ہونٹوں سے لگی ہوئی بتی سے دھواں نکل نکل کر میرے عبا و قبا والوں کے اجڑے چہروں پر مہیب سایہ بن کر ڈول رہا تھا۔ میں یہ سب ماجرا دیکھ کر نہایت دل شکستہ ہوا کیونکہ میری سمجھ میں خاک بھی نہ آیا تھا۔ اسی دل شکستگی کے عالم میں میں نے اپنےآٹھویں غیر متوقع سفر کی ٹھانی۔ سامان تجارت ہمراہ لے جانے کی عادت تھی اس لیے اردگرد دیکھا تو ماشاء اللہ سوائے اپنی ذات کے سب جھاڑو پھری ہوئی تھی۔ نہ وہ محل، نہ سونے چاندی کے برتن، نہ فرش و فروش، نہ لونڈی غلام۔ چپ چاپ منہ لٹکا کر ایک سمت ہو لیا۔

    ابھی چلتے چلتے تھکا بھی نہیں تھا کہ سامنے ایک لق و دق سپاٹ میدان نظر آیا۔ جہاں ایک عجیب الخلقت شے کے قریب کچھ لوگ کھڑے نظر آئے۔ مجھے بڑھتا دیکھ کر ان میں سے ایک نے ڈپٹا کہ تماشا دیکھنے آئے ہو تو دور ہی کھڑے رہو۔ میں اپنی اس ذلت پر آنسو بہانے لگا کہ آہ کیا وقت تھا اور اب کیا وقت آ لگا ہے۔ خیال تھا کہ ان لوگوں میں سے کوئی میرے رونے کا سبب پوچھے گا۔ مگر جب یہ امید ختم ہوگئی تو میں نے خود ہی اپنا دکھڑا سنایا اور کہا کہ میں اپنے وطن سے منہ کالا کر جانا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر وہ سب ہنسنے لگے۔ پھر ان میں سے ایک دفعتاً سنجیدہ ہو کر میری قیمتی انگوٹھی کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا، ’’یہ ہمیں دے دو تو ہم تمہیں نکال لے چلیں۔‘‘ میں بخوشی راضی ہوگیا۔۔۔ اس سودے کے بعد میں نے نہایت اطمینان سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کرمیدان میں کھڑی ہوئی اس عجیب الخلقت شے کو دیکھنا شروع کیا۔ مگر سوائے اس کے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ بیک وقت مچھلی، پرند اور تین پہیوں کی گاڑی ہے۔ ابھی میں خلق خدا کی اس صنعت پر حیران ہی ہو رہا تھا کہ ایک شخص میرے قریب آیا اور کہنے لگا، ’’جلدی کیجیے ہوائی جہاز چھوٹنے والا ہے۔‘‘

    میں نے اللہ کا نام لیا اور اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ مرد خدا اس عجیب صنعت کے قریب جا کر رک گیا اور مجھے اس پرند نما پہیوں والی مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونے کا اشارہ کیا۔ میں جو اس نیلے آسمان تلے بہت سے عجائب و غرائب سے دوچار ہو چکا تھا، اس موقع پر اپنے نحیف و نزار جسم میں تھرتھری محسوس کرنے لگا مگر پھر فوراً ایک خیال مدد کو پہنچا کہ اللہ کا ایک پیغمبر تو سمندر کی مچھلی کے پیٹ میں گزارا کرتا رہا۔ پھر میں تو ایک بندۂ فقیر و ذلیل ہوں۔ تب میں دانت بھنچ کر اس کے اندر داخل ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہاں تو خلاف توقع روشنی بھی ہے۔ بیٹھنے کے لئے آرام دہ جگہیں بھی اور دوسرے لوگ بھی موجود ہیں۔ میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر بجالایا اور بیٹھ گیا۔ اپنے بائیں ہاتھ کو دیکھا تو ایک کھڑکی نظر آئی جس سےنظر تو پار ہوسکتی تھی مگر ہاتھ نہیں نکل سکتا تھا۔ میں نے باہر دیکھنا شروع کیا۔

    دفعتاً ایک شور برپا ہوا اور زمین بھاگنے لگی اور پھر زمین ڈوبنے لگی۔ ڈوبتی ہی چلی گئی۔ تب میرے اندر گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ نیچے دھنستی اور دور تر ہوتی ہوئی زمین سے نظریں ہٹا لینے کے باوجود سر شدت سے چکراتا رہا اور پیٹ کے اندر کوئی شے رہ رہ کر الو کی طرح اچکیاں لیتی رہی۔ معلوم ہوا کہ قے ہونے والی ہے اور پھر قے ہوگئی جو برابر بیٹھے ہوئے بادبان جیسے پھولے ہوئے شخص پر گری۔ اس مرد بادبان نما نے خونخوار نظروں سےمجھے گھورا اور مارے شرم کے میں بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ میں ایک صاف شفاف بستر پر چت پڑا ہوں۔ اردگرد نظر گھمائی۔ اتفاق سے ہو کا عالم بھی نہیں تھا اور آدم زاد مع بنت حوا کے۔۔۔ دودھ جیسے سفید کپڑوں میں ملبوس موجود تھا۔ آدم زاد کے ہاتھ میں ایک عجیب آلہ تھا جو اس کے کانوں سے لے کر میرے سینے تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’تم کون لوگ ہو اور میں کہاں ہوں؟‘‘

    یہ سن کر آدم زاد مسکرایا اور بولا،’’یہ کوہ نامستان ہے۔ تم چونکہ ہوائی جہاز میں مرنےلگے تھے۔ اس لیے ادھر سے گزرتے ہوئے وہ تمہیں یہاں چھوڑ گئے۔‘‘ یہ جواب باصواب سن کر میرے سیاح جسم کی ساری رگیں پھڑکنے لگیں۔ میں نے بستر سے اٹھتے ہوئے کہا، ’’اے خدا کے نیک بندو! تم نے میری جو خدمت کی، اس کا صلہ تمہیں خدا دے گا۔ مجھے اب رخصت کرو کہ میرا کام سفر و سیاحت ہے۔‘‘ میری بات سن کر بنت حوا نےمجھے پکڑ کر لٹانے کی کوشش کی اور آدم زاد بولا، ’’ابھی آپ کمزور ہیں اس لیے آرام کیجیے۔‘‘ اس محبت بھرے سلوک کا میرے قلب پر بہت زیادہ اثر ہوا اور میری آنکھیں پرنم ہوگئیں۔

    میں نے کہا، ’’میرا نام سندباد ہے۔ اور سندباد کے سفر اور جستجو کا چکر انہی لمحوں میں رکتا ہے جب ہارون الرشید کو اپنے سنہرے چھپر کھٹ پر میرے مصیبتوں سے پر سفر کی داستان سنتے سنتے ریشم میں ڈوبے ڈوبے نیند آنے لگتی ہے اور اس کے شبستان کی کافوری شمعیں گھل گھل کر بجھنے لگتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر وہ آدم زاد بنت حوا کی طرف فکر مند ہو کر دیکھنے لگا اور آہستہ سے بولا، ’’معلوم ہوتا ہے بڈھا الف لیلہ پڑھتے پڑھتے پاگل ہوگیا ہے۔‘‘ یہ سرگوشی سن کر میرے کلیجے میں ایک ہوک اٹھی کہ ہائے واقعی اب وہ زمانہ کہاں۔ اس کے ساتھ ہی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میں نے کہا، ’’خدا کے نیک بندو! میرا زمانہ نہیں رہا نہ سہی بہرحال مجھے اجازت دو کہ کمر کس کر کوہ نامستان کی سیر کو نکلوں اور سفر و سیاحت کی چاٹ پوری کروں۔‘‘

    تب آدم زاد بے پروائی سے بولا، ’’کمر تو ہرگز مت کسئے گا۔ آپ کی آنتوں ہی میں ساری گڑبڑ ہے۔ اور ہاں میرے کمپونڈر کو ہماری خدمات کا بل ادا کر دیجیے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ دونوں کھٹ پٹ کرتے سفید پردے کے پیچھے غائب ہوگئے اور میں کمپونڈر کے آنے سے پہلے کھڑکی کی راہ سے بھاگ گیا۔

    باہر آتے ہی طبیعت بوجھل ہوگئی اور گرمی محسوس ہونے لگی۔ حالانکہ میں بہت اونچائی پر تھا۔ آسمان بھی صاف تھا۔ مگر یہ عجیب بات تھی کہ فضا میں کہرا بھرتا نظر آتا تھا جیسے زمین سے پھوٹ رہا ہو۔ اور اس کہرے میں سیاہ ہیولے سے بل کھانے لگتے تھے۔ ہر طرف ایک بھبھک سی تھی۔ جیسے کہیں قریب ہی سمندر میں پانی کھول رہا ہو۔ شاید یہی وجہ تھی یا وہم تھا کہ مجھے اپنے پیروں تلے کی زمین دھیمے دھیمے جھولتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے پریشان ہوکر اپنا زر کار چغہ اتار کر کندھے پر ڈال لیا اور بغیر کمر کسے ہی چل دیا۔ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا، گرم گرم کہرا زیادہ ہی ہوتا جاتا، اچانک دور سے کچھ غیرانسانی سے قہقہوں کی آواز سنائی پڑی۔ مسلسل اور متواتر، جیسے قہقہے لگانے والے کے گلے میں سکے اور تلواریں بج رہی ہوں۔ میں خوفزدہ ہوا مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ سندباد جو ٹھیرا اس لیے جستجو تو کرنا ہی تھی۔

    میں نے گہرے کہرے میں ہر طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا مگر چند گز کے فاصلے سے نظر محدود ہو جاتی۔ تب میں اس سمجھ میں نہ آنے والے طلسم پر غضب ناک ہوا کہ آخر میں نے آج سے سینکڑوں برس پہلے تابڑتوڑ سات سفر کیے ہیں اور قسم قسم کے طلسمات سے چٹکی بجاتے میں واقف ہوگیا۔ پھر اس طلسم میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو کچھ پلے ہی نہیں پڑتا۔ اب جو میں نے غصے سے تنتنا کر ایک جست لگائی تو معاً کسی چیز سے ٹکرا کر غش کھا گیا۔ خدا جانے کتنی دیر بعد انہی غیر انسانی قہقہوں کی آواز سے ہوش میں آیا تو اپنے تئیں ایک دیوار کے قریب پڑا پایا جس کا رنگ سونے کا تھا۔ یہ عجیب و غریب دیوار دیکھ کر میں خدا کا شکر بجا لایا کہ سفر کامیاب ہوتا نظر آتا ہے۔ میں نے گڑگڑا کر دعا کی کہ اے خدا مجھ پر طلسمات کے دروازے کھول دے۔

    یہ دعا کرنے کے بعد جسم میں توانائی محسوس ہوئی، اور میں نے دروازے کی تلاش میں ایک چکر کاٹا۔ اس سلسلے میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ محض ایک دیوار نہیں بلکہ سونے کا بڑا بھاری گنبد ہے۔ دولت کا یہ پہاڑ دیکھ کر میرے منہ میں کلیوں پانی آگیا۔ اب میں پروانہ وار گنبد کے گرد دروازے کی تلاش میں دوڑتا تھا، لیکن دروازہ نظر نہ آنا تھا نہ آیا۔۔۔ آخر خیال آیا کہ علی بابا کو خزانے تک پہنچنے کے لیے ’’سم سم کھل جا‘‘ کا اسم معلوم کرنا پڑا تھا، ہو نہ ہو یہاں بھی کوئی نہ کوئی ایسا ہی معاملہ ہے۔

    فکر مند ہوکر میں نے دیوار سے پیٹھ لگائی کہ ذرا دم لے لوں، لیکن دیوار سے پیٹھ لگنا تھا کہ گرمی کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ میں یا العجب کہے بغیر زمین پر اوندھ گیا۔ چند لمحوں بعد حواس درست کرنے کے ساتھ عمامہ درست کرکے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ گنبد تو آہستہ آہستہ پگھل رہا ہے۔ ایسے خوبصورت اور قیمتی گنبد کے پگھل پگھل کر برباد ہو جانے کے خیال سے میرے دل پر سانپ لوٹ گیا اور بہت دیر تک لوٹتا رہا۔۔۔ ذرا دیر تک گنبد سےا ٹھتے ہوئے قہقہوں کی آواز کو بھولے رہا اور سوچتا رہا کہ گنبد پگھل کیوں رہا ہے۔۔۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کئی ہاتھوں نے مجھے جکڑ لیا۔ بمشکل مڑ کر دیکھا تو اپنے تئیں دو انسانی شکلوں کے ہاتھوں گرفتار پایا۔۔۔ میں نے تڑپ کر پوچھا، ’’بھائیوں! تم کون ہو؟‘‘

    جواباً انہوں نے یک زبان ہوکر مجھے ماں کی گالی دی اور کہا، ’’ابے ہمیں پہچانتا نہیں۔ ہم اس گنبد کے محافظ ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے میری گدی پر کئی دھولیں جمائیں۔ جب وہ دھولیں بجانے سے فارغ ہوئے تو میں نےملائم لہجے میں کہا، ’’اے بندگان خدا! تم نے اپنی زبانوں اور ہاتھوں سے اپنے عہدے کی اطلاع مجھے بہم پہنچائی، اس کا خدا تمہیں اجر دے گا۔ اب مجھے تو رخصت کرو۔‘‘ اب کی میری بات سن کر انہوں نےمجھے بہن کی گالی دی اور کہا، ’’سالے تو علم بگھا رہا ہے۔ اس لیے یقیناً خطرناک آدمی ہے۔ اس شبہے کی بنا پر ہم تجھے چھ صدیوں کے لیے مرغیوں کے ڈربے میں بند کریں گے۔‘‘

    میں اپنےعجیب و غریب جرم اور نرالی سزا کے خوف سے تھرا گیا۔ ان حضرات کو مڑ مڑ تکتا تھا اور خدا سے دعا کرتا تھا کہ اے پاک بے نیاز پہلے سات سفروں میں تو نے جتنی مشکلیں آسان کیں وہ تو خیر کیں، اب کی تو بچالے تو آئندہ کے لیے سفر سے توبہ کرتا ہوں۔ الا سفر آخرت۔۔۔! اس دعا سے فارغ ہو کر میں نےعرض کیا، ’’حضرات میرا کوئی قصور نہیں، میں تو پردیسی ہوں۔‘‘ جواباً اب کی انہوں نے مجھے بیٹی کی گالی دی۔ ’’یہ تمہاری چیں چپڑ اور بھی مشکوک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے میرا عمامہ کھسوٹ کر مجھے باندھا اور سونے کی دیوار پر دو لاتیں رسید کیں جس سے فوراً ایک عدد دروازہ نمودار ہوگیا اور مجھے کھینچتے ہوئے اندر لائے جہاں ہر طرف سکوں کی کھنک تھی۔ مگر میں کچھ دیکھنے بھالنے کے موڈ میں نہیں تھا اس لیے بس آنکھیں بند کیے بین کر رہا تھا۔

    ’’لوگو! فریاد ہے، بڈھا سندباد بے قصور پکڑا گیا۔‘‘ میرے بین پر ہر طرف سندباد، سندباد کی سرگوشیاں ہونے لگیں۔ اچانک اشرفیوں کا ایک پردہ کھنک کر سرکا اور محافظوں نے مجھے ایک دم چھوڑ دیا۔ میں اوندھے منہ گرا۔ پھر جب سراٹھایا تو حسب عادت ہر طرف کا جائزہ ایک نظر میں لیا۔ ہیرے جواہرات سے مزین سونے کا ایک بہت بڑا تخت جس کی پشت پر ایک تاجدار شبیہ بنی ہوئی تھی، کچھ ویسی ہی جیسی میں نے اپنے دیس میں دوبارہ آنکھ کھول کر دیکھی تھی اور اس تخت پر شبیہ سے ٹیک لیے ایک زن معمر جو غضب کی لحیم شحیم تھی، ناک بھوں چڑھائے بیٹھی تھی۔ منہ پرلالی ہی لالی پھوٹ رہی تھی۔ اور جسم پر سونے کے تاروں کا خوبصورت لبادہ اور ہاتھ میں گنگا جمنی زنجیر کا ایک سرا تھما ہوا۔ تخت کے قریب فرش پر ایک بڈھا پھونس سر جھکائے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں قلم اور زانو پر سیاہ کاغذ۔۔۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘ تخت نشین نے ڈانٹ کر سوال کیا۔ تب میں نے دست بستہ عرض کیا، ’’بندہ پرور، میں ایک بندہ حقیر و ذلیل ہوں نام سندباد، کام سفر، جان بخشی ہو تو کہوں کہ بے قصور پھنسا ہوں۔‘‘ میری بات سن کر اس زن لحیم و شحیم کے ماتھے پر تیوری موٹی ہوگئی۔ اس نےگرج کر پوچھا، ’’ایں! سندباد، کیا مطلب؟‘‘ اس سوال سے میں رنجیدہ ہوا اور بسور کر عرض کیا، ’’اس بندہ بے دام کو سند باد کہتے ہیں، الف لیلوی سندباد!‘‘

    قسمت سیدھی تھی۔ اس لیے وہ برجستہ مسکرائی اور محافظوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور پھر بولی، ’’معاف کرنا سندباد، تم صورت اور لباس سے کچھ بہروپئے لگتے ہو، ورنہ میرے محافظ بڑے ہوشیار ہیں، بہرحال مجھے تم سے مل کر خوشی ہوئی۔ بات یہ ہے کہ مجھے ان دنوں ماضی سے محبت اور مستقبل سے نفرت ہوگئی ہے، اور تم بھی تو یادگار زمانہ ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بہ نفس نفیس اٹھی اور میری مشکیں کھول دیں اور جھاڑ پونچھ کر مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ میں حسب عادت اس مصیبت سے نجات پانے پر درگاہ خداوندی میں سجدہ شکر بجا لاتا، اس نے کہنا شروع کردیا،

    ’’مجھے خیال آتا ہے کہ تمہارا آقا ہارون الرشید خوش نصیب تھا۔ مزے سے دلچسپ کہانیا ںسنتے سنتے سو جایا کرتا تھا۔ آج کی دنیا کے آقا تو اخبار پڑھتے پڑھتے راتوں کی نیند اڑا دیتے ہیں۔ اف فوہ، ہمارا ماضی کتنا شاندار تھا، کتنا سنہرا۔‘‘ وہ یہ کہہ کر چند لمحوں کو چپ ہوکر سوچنے لگی۔ پھر اچانک بڈھے کی طرف متوجہ ہوئی، ’’لکھو! پس واضح ہو کہ ماضی بڑی شاندار چیز ہوتی ہے، کیونکہ ماضی ایک ٹھوس حقیقت ہے اور مستقبل ایک خیال۔ اس لیے اس ترقی کے دور میں سوائے ٹھوس حقیقت کے سب کچھ بے کار ہے۔‘‘ اونگھتا ہوا بڈھا سیاہ کاغذ پر لکھنےلگا۔

    گفتگو کے اس انداز سے میں حیران رہ گیا۔ ابھی شاید میں اس بارے میں کوئی سوال کرتا کہ وہ بولی، ’’کچھ اپنا حال چال سناؤ سندباد؟‘‘ میں نے اول تا آخر اپنا حال چال سنایا اور اپنی بے روزگاری کا شکوہ کیا۔ اس عالم میں میری آنکھیں بھر آئیں، مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگی۔ اور میں اس غمگساری پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تب اس نے سسکیاں لیتے ہوئے مجھے صبر کرنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگی، ’’سندباد تمہارے آنسوؤں میں پٹرول کی بو ہے تم تو دراصل عرب سیاست پر رو رہے ہو۔‘‘ یہ کہنے کو تو کہا مگر فوراً مڑ کر تاجدار شبیہ کو سلام کیا اور دھیرے سے ہنس کر بڑبڑائی، ’’معاف کیجیے گا ملک معظم۔۔۔‘‘ اچانک وہ پھر اونگھتے ہوئے بڈھے کی طرف مڑ کر بولی، ’’لکھو! پر واضح ہو کہ ہمارے دل میں مقدس سرزمینوں کا درد ہے۔ مگر ہم اتنے فراخ دل ہیں کہ ان سرزمینوں کو روندنے والوں کو بھی سر پر اٹھائے پھرتے ہیں اور یہی استغنا ہماری شان ہے۔ اس کے آگے کوئی نعرہ لکھو تو ٹھیک رہے گا۔۔۔‘‘ بڈھا بڑی سستی سے سیاہ کاغذ پر قلم گھسیٹنے لگا۔

    یہ احوال دیکھ کر میرے پیٹ میں مارے تجسس کے مروڑ ہونے لگا۔ میں نے دست بستہ عرض کیا، ’’اے خاتون ذی جاہ، قصہ سوتے جاگتے کا تو سنا تھا مگر ہنستے روتے کا نہیں۔ اس کا کیا سبب ہے کہ پہلے تو جناب روئیں اور پھر ہنسنے لگیں۔‘‘ اس دخل درنا معقولات پر پہلے تو اس کے ماتھے پر تیوری آئی اور پھر چلی گئی۔ آخر وہ بڑے ناز سے ترچھی نظریں کر کے بولی، ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔‘‘ میں اس برجستگی پر اور اپنی کم عقلی پر بہت زیادہ خوش ہوا۔ کیونکہ تیوری کے اتار چڑھاؤ نے مجھے خوش ہونے پر قانع کر دیا تھا۔

    ذرا دیر کی خاموشی کے بعد وہ کچھ سوچ کر کہنے لگی، ’’سندباد تمہاری غریب الوطنی اور بیروزگاری کی مجھے بہت فکر ہوگئی ہے۔ اچھا دیکھو اگر تم اشتراکی سماج کے خلاف ایک زوردار کتاب لکھنے لگو تو میں تمہیں روٹی کپڑا دینے کو تیار ہوں۔ جب تک کتاب تیار نہیں ہوگی ایک یتیم خانے میں تمہاری شب بسری کے لیے بھی انتظام کرادوں گی۔ لیکن جب کتاب مکمل ہوجائے گی تو تمہیں کوئی ہوٹل الاٹ کرادوں گی۔ اس کے بعد اگر تم نے اسی موضوع پر کئی کتابیں لکھ دیں تو اگر تمہیں کسی ملک کا سفیر بنا کر نہ بھیج سکی تو پھر مصنفین پر مجوزہ احتسابی کمیٹی کا مستقل صدر بنادوں گی۔ کہو منظور ہے؟‘‘

    میں یہ مژدہ جاں فزا سن کر باغ باغ ہو گیا۔ تڑپ کر کہا، ’’حضور کے اس الطاف خسروانہ کے صدقے، روٹی کپڑا بھی نہ ملے تو ناچیز عمر بھر آپ کی خدمت کرے گا۔ ایک کتاب کیا ہزاروں کتابیں بغیر کسی صلے کے لکھے گا۔ لیکن ذرا یہ تو بتائیے کہ یہ ’اشتراکی سماج‘ کون بزرگوار ہیں، تاکہ لکھتے وقت میں ان کی چھی طرح خبر لوں۔‘‘ تب وہ ہاتھ جھٹک کر بولی، ’’اشتراکی سماج کے بارے میں کچھ جانے بغیر لکھوگے تو کتاب زیادہ زوردار ہوگی، اور پھر سمجھ بوجھ کر کچھ لکھا تو پھر تمہاری لیاقت ہی کیا ہوئی؟‘‘

    یہ سن کر میں اپنے فضول سوال پر شرم سے پانی پانی ہوگیا اور سر جھکا کر کہا، ’’بہت اچھا، میں اپنی لیاقت کے جوہر اب یوں دکھاؤں گا کہ کانوں میں روئی ٹھونس کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر کتاب لکھوں گا، اور ایسی کہ دنیا عش عش کر اٹھے۔ مجھے صلے کی تمنا نہیں، بس یہی کہ آپ اس بندہ بے دام کو اپنے قدموں سے جدا نہ کریں۔‘‘

    میری یہ تقریر دل پذیر سن کر وہ پھولے نہ سمائی، کمال محبت سے میری پیٹھ تھپتھپائی اور فیصلہ سنایا، ’’سند باد تمہارے اس جذبہ وفاداری سے میں بہت خوش ہوں۔ آج سے میں نےتمہیں اپنی خدمت میں لے لیا۔‘‘ اس کے فورا بعد ہی وہ بڈھے کی طرف متوجہ ہوئی، ’’لکھو! واضح ہوا کہ ملک میں ہائے بیروزگاری، وائے بھوک کے نعرے شورش پسندوں کی ایجاد میں ہمارے ہاں غیرملکیوں تک کو بڑے بڑے عہدے مل جاتے ہیں۔ اب ہم اسے کیا کریں کہ ملکیوں میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ ان عہدوں تک پہنچنےکے لیے کوئی معقول کام کر دکھائیں۔ ’’بڈھے نے جھک کر سیاہ کاغذ پر لکھنا شروع کر دیا۔

    میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر بجالایا۔ روٹی کپڑے کی طرف سے اطمینان ہونے کی وجہ سے میری رگ تجسس پھڑکی میں نے ذرا شوخی سے کہا، ’’حضور سات سفر کر چکا ہوں، اور عجیب عجیب طلسمات کے دروازے مجھ پر پاٹوں پاٹ چلے ہیں۔ مگر یہاں تو کورا کا کورا ہوں اور یہی۔۔۔‘‘ اس پر وہ تیزی سے میری بات کاٹ کر بولی، ’’اچھا بابا گھبراؤ نہیں سب معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اتنا کہہ کر ذرا جھلاہٹ میں زور سے اپنے ہاتھ کی گنگا جمنی زنجیر کھینچی اور معاً دور دور سے شور آہ و بکا بلند ہوا اور میرے پیروں تلے کی زمین زور زور سے پینگ لینے لگی۔ یہ ماجرا دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے مگر میں نے جلدی سے خالی خانے میں اپنے فالتو اوسان فٹ کرلیے اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیے اب کیا گزرتی ہے۔ لیکن وہ خلاف توقع بڑبڑائی، ’’لاحول ولا۔۔۔ بے خیالی میں زنجیر زور سے کھنچ گئی اور کوہ نامستان میں ضرورت سے زیادہ بھوک پھیل گئی۔۔۔‘‘

    تب میں نے زنجیر کے طلسم کی طرف سے بے پروا ہو کر ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’حضور دیوزاد ہیں یا؟‘‘ یہ سوال سن کر وہ زور سے ہنس پڑی اور بولی، ’’بھئی تم الف لیلوی مخلوق تو اخبارچیوں اور پڑوسیوں سے بھی زیادہ کھوجی نکلے۔ ہاں بابا تم ٹھیک پہچانے میں ہوں تو دیوزاد مگر کسی سے کہنا مت۔‘‘ اور میں نے کان پکڑ کر کہا، ’’سرجائے اور راز نہ جائے۔۔۔ مگر آپ دیوزاد ہیں تو آپ کے سینگ کہاں ہیں؟‘‘ اس پر اس زن مہربان نے آہستگی سے ہاتھ جھٹک کر بتایا، ’’بھئی میرے سینگ فولڈنگ ہیں۔ بالوں تلے چھپائے رکھتی ہوں۔ اس ترقی کے دور میں کھلے بندوں سینگ اٹھائے پھرنا تہذیب کے خلاف ہے۔‘‘

    یہ جواب سن کر میں زار و قطار رونے لگا۔ اس نے پوچھا، ’’اب کیوں روئے؟‘‘ میں نے بتایا، ’’میں اپنا وہ زمانہ یاد کر رہاہوں، جب دیوزاد تہذیب کے معاملے میں صفر ہوا کرتے تھے، ایک آپ ہیں۔‘‘ میری بات سن کر وہ نہایت درجہ مسرور ہوئی اور جھوم کر کہا، ’’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘‘ اس پر میرے منہ سے پھسل ہی تو پڑا، ’’مزید معلومات۔‘‘ پھر میں ڈرا کہ پہلے کی طرح جھلا نہ جائے۔ مگر شکر ہے کہ وہ ایک ادائے دلربایانہ سے ہنسی اور کہا، ’’سیدھی طرح کہونا کہ انٹرویو چاہتے ہو، پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ تب میں نے اس کا نام اور خاندان معلوم کرنے کے لیے بے قراری کا اظہار کیا جس کے جواب میں وہ یوں گویا ہوئی، ’’بھئی خوب! گویا تم میرا نام بھی نہیں جانتے۔ خیر اگلے وقتوں کے ہو، چلو معاف کردیا۔‘‘

    اتنا کہہ کر اس مہذب دیونی نے مشفقانہ تبسم فرمایا اور کہنا شروع کیا، ’’دیکھو بھئی سندباد میرا نام ہے سرمایہ داری، تم نے شہنشاہیت کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں انہیں کی ناجائز اولاد ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی گود لی ہوئی ہوں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوں شہنشاہیت کے لیے اب دل کھنچتا ہے تو کہتی ہوں، ہو نہ ہو انہی کا خون ہوں۔ پہلے تو میں سچ مچ بڑی گستاخ تھی مگر اب وہ بات نہیں۔ میری ایک بڑی بہن بھی ہے اس کا نام ہے جاگیرداری۔ کسی زمانے میں بڑی چٹکو مٹکو تھی۔ ایک وقت تھا کہ ساری دنیا میں چوکڑی بھرتی پھرتی تھی۔ میرے جسم میں نیا نیا خون جوش مار رہا تھا اس لیے جاگیرداری سے میری شروع ہی سے نہیں بنی۔ میں نے زمین والوں سے خوب چکنی چپڑی باتیں کیں اور بھڑکایا کہ مجھ سے پوچھو یہ کم بخت جاگیرداری کیسی حرفوں کی بنی ہوئی ہے۔ اس کا ایک ایک حال جانتی ہوں۔ یہ تو یوں ہی اترا اترا کر تمہارا کلیجہ بھی چبا جائے گی اور آہ نہ کرے گی۔ مجھے دیکھو میں کچی لکڑی ہوں جدھر لچکاؤگے لچک جاؤں گی۔۔۔

    میری یہ بات سن سن کر زمین کے باسی مجھ پر دم دینے لگے۔ جاگیرداری کی معشوقانہ کج ادائیوں نےدل تو پہلے ہی پھوڑا کر رکھے تھے۔ موقع پاکر انہوں نے میری مغرور بہن کی ٹانگ پر تاریخ نگار کے قلم کا وہ بھرپور وار کیا کہ بے چاری لنگڑی ہوکر رہ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا بول بالا ہوتا گیا اور میری اماں بہنا میرا منہ تکنے لگیں۔۔۔ لیکن جب سے میری کمر جھکنے لگی۔ میں نے اپنی اماں بہنا سے نفرت کرنا چھوڑ دی بلکہ اب تو ان کے معاملے میں میرا دل موم ہوگیا ہے۔ میں ہر وقت اور ہرجگہ اماں شہنشاہیت کا یہ پیغام سنتی رہتی ہوں کہ میری بچی میں نے تمہاری گستاخیاں معاف کر دیں۔ میں تو اب زمین کی ہتھیلی پر ننھے سے پھپھولے کی طرح جمی ہوں۔ جانے کب پھوٹ بہوں، بس تم کو یہی نصیحت ہے کہ جاگیرداری سے ہر جگہ مل جل کر رہو اور خاندان کا نام چلاؤ۔ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ اب میں یہ نصیحتیں گرہ میں باندھ کر رکھتی ہوں۔

    در اصل جب سےمیں زمین کے کچھ حصوں سے پٹ کر نکلی ہوں آنکھوں تلے سرخ دھبے ناچنے کا مرض ہوگیا ہے۔ بہن جاگیرداری مجھے سمجھاتی ہے کہ سب وہم ہے۔ مگر وہ سٹھیا گئی ہے۔ ایسی باتوں کو سمجھنے کی بے چاری کی عمر نہیں رہی۔ اسے خود بڑی مدت سے کمی خون کی شکایت ہے، بے شمار کسانوں کے کلیجے نچوڑ نچوڑ کر انجکشن دیے جاتے ہیں، مگر اس کی رگیں ہیں کہ سوکھتی ہی جارہی ہیں۔ اب تو دوا کے ساتھ دعا پر بھی اتر آئے ہیں، آج کل مذہبی پیشواؤں کی فوج کی فوج تعویذیں لکھ لکھ کر جمع کر رہی ہے۔ اور وہ بے چاری ان تعویذوں سے لدی منتوں مرادوں کی اولاد کی طرح پنپ ہی نہیں چکتی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ٹھنڈی سانسیں لینے لگی۔ پھر اچانک اونگھتے ہوئے بڈھے کی طرف مڑی۔

    ’’لکھو! پس واضح ہوا کہ گھر کی نااتفاقی اچھی نہیں ہوتی۔ اس لیے کوہ نامستان والوں کی بھی اسی میں عافیت ہے کہ وہ نشیب و فراز کے جھگڑے اٹھانے والوں کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے، سرخرو دھرتی کی طرف ہانک دیں اور پھر نہایت اتحاد و اتفاق سے ہمیں حکومت کرتے دیکھیں۔ اس کے آگے اور جو جی چاہے لکھ لو، ہوسکے تو کوئی گرما گرم شعر۔۔۔‘‘ بڈھا اونگھ اونگھ کر لکھنے لگا۔

    میں یہ داستان اور اس کا نتیجہ سن کر اس لیے کمال درجہ محظوظ ہوا کہ میرے زمانے سے صدیوں بعد کی باتیں میرے لیے کس قدر بعید از فہم ہو چکی ہیں۔ بہرحال میں نےعادتاً دوسرا سوال کر دیا کہ، ’’علیا حضرت کا کوہ نامستان سےکیا تعلق ہے؟‘‘ اس پر علیا حضرت نے بڑی ادا سے فرمایا، ’’بھئی سندباد تم اتنا بھی نہیں سمجھتے؟‘‘ یہ سن کر اپنی ناسمجھی پر میں حد درجہ شرمسار ہوکر رونے کی کوشش کرنے لگا۔ تب اس زن معقول نے نہایت شیریں تبسم فرماتے ہوئے کہا، ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوہ نامستان سے میرا تعلق ناجائز ہے۔ بعضے میرے تعلق پر کہتے ہیں، واہ محنت کریں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں۔۔۔ بہرحال تمہیں اس فضول بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ ماں کے ہاتھ سے پھسلتی ہوئی چیز بیٹی نہیں لپکے گی تو پھر کیا ایرے غیرے آئیں گے؟‘‘

    ’’بالکل درست۔ صد فی صد قانونی اور شرعی بات ہے۔ ہاں تو گویا آپ نامستان کی ملکہ معظمہ ہیں؟‘‘ میں نے اب کی اپنی معاملہ فہمی کاسکہ بٹھانے کے لیے جلدی سے کہا۔ اس پر اس نے بپھر کر جواب دیا، ’’اے واہ! میں کیوں ہونےلگی ملکہ۔۔۔ اس ترقی کے دور میں مجھے ایسی باتیں پسند نہیں آتیں۔ اسی بات پر اماں سے میری کبھی کبھی ٹھن جاتی ہے۔ وہ اب بھی کہا کرتی ہیں کہ ناک چاہے یوں پکڑو چاہے ووں۔ پکڑی جاتی ہے ناک۔ مگر مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ بھئی آخر اماں بیٹی میں بظاہر تو کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، خیر جانے دو اس منحوس بحث کو۔‘‘

    اتنا کہنے کے بعد اس کے لال لال چہرے پر کرب کے آثار پیدا ہوگئے۔ یہ دیکھ کر میں دم بخود رہ گیا۔ دل ہی دل میں خدا سے اپنی جان کی خیر مناتا تھا کہ کہیں جلال میں آئی ہوئی دیونی کے سینگ کھٹاک کھٹاک سر سےاونچے نہ ہو جائیں۔ مگر میری دعا قبول ہوگئی اور اس مہذب دیونی نے کھنکھار کر دھیمی آواز میں کہا، ’’بھئی سندباد خیال نہ کرنا، کسی وقت بیٹھے بیٹھے میرا موڈ بگڑ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ آج کل دنیا میں خواہ مخواہ کی جو گڑبڑ ہے اس کی وجہ سے میرے تلوے سے لگتی ہے اور دماغ میں بجھتی ہے۔‘‘

    ’’کیا گڑبڑ ہے دنیا میں، اگر اس غلام کو معلوم ہو تو کوئی تدبیر سوچے۔‘‘ میں نے سہم کر کہا۔ تب اس نےمنہ بناکر جواب دیا، ’’یہی کہ پاؤں کی جوتی سر کوآتی ہے۔‘‘ اس پر میں نے فی البدیہہ تدبیر عرض کی کہ، ’’علیا حضرت۔ اگر یہ بات ہے تو ایسی جوتی کو سات سلام کیجیے اور ننگے پاؤں رہیے۔ میری پلکیں آپ کے قدموں تلے بچھی ہیں۔ مجال ہے جو کوئی نامعقول کنکر بھی آپ کے تلوے میں چبھے۔۔۔‘‘

    اس نےمیری بات سن کر تبسم فرمایا اور کہا، ’’مگر بھئی جوتی کے بغیر ہم ہی نہیں رہتے۔۔۔ خیر تم ان باتوں میں نہ پڑو، نہایت معمولی باتیں ہیں، ہاں تو میں تم سے کہنا چاہتی تھی کہ اس بڑھاپے میں سفرکا پیشہ بالکل ترک کر دو۔‘‘ اس پر میں نے عرض کیا، ’’کیا کرتا، پیٹ کی خاطر پہلے بھی پاؤں میں چکر تھا، اب بھی یہی نصیب ہوا۔۔۔ مگر اب تو آپ کاخادم ہوں اور۔۔۔‘‘ تب اسنے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، ’’پیٹ۔۔۔ پیٹ۔ تم الف لیلوی لوگوں کے بھی پیٹ ہوتا تھا؟ میں تو سمجھتی تھی کہ آج کی دنیا ہی ایسی لچر باتوں میں مگن ہے۔۔۔ خیر۔۔۔‘‘

    یہ بات سن کر میں اپنی ہلکی بات پر بہت شرمند ہوا اور ابھی شاید دیر تک شرمندہ ہوتا رہتا کہ دیونی کا ہاتھ بےخیالی میں تخت کے پائے پر پڑگیا۔ معاً ایک کھٹاک ہوئی اور تخت کا وہ پایہ ایک انسانی شکل میں بدل گیا۔ ہاتھ ہلا ہلا کر وہ شکل کچھ کہتی اور منہ سے جھاگ اڑاتی۔ اس سے قبل کہ میں کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا، دیونی نے جلدی سے دوبارہ ہاتھ مار اور پایہ برابر ہوگیا۔ تب میں منہ کھولے رہ گیا، اور دیونی ہنسنےلگی اور جھک کر بولی، ’’اب تم نے دیکھ لیا تو بتا دوں کہ میرا یہ تخت بڑا طلسمی ہے۔ یہ نہ ہو تو مجھے سانس لینا دوبھر ہوجائے۔ ان دنوں۔‘‘

    میں نے جلدی سے اپنی آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا، ’’خدا کے لیے یہ حرف بد اپنے منہ سے نہ نکالیے۔ دشمنوں کو سانس لینا دوبھر ہو۔۔۔‘‘ میری محبت سے وہ کمال خور سند ہوئی اور کہنے لگی، ’’سندباد تم بڑے ازلی وفادار معلوم ہوتے ہو، اسی لیے میں تمہیں اس طلسم سے آگاہ کرتی ہوں۔۔۔ یہ جو ابھی تم نے ہاتھ ہلاتا جھاگ اڑاتا انسان دیکھا تھا اس کا نام ہے ’’لیڈر۔‘‘ اور کام ہے لوگوں کو الو بناکر ان کافاختہ اڑادینا یا پھر بیچ دینا۔‘‘ میں نےحیران ہو کر کہا، ’’افوہ تب تو یہ بڑاجادوگر ہے۔ ایسی چیز قبضے میں ہو تو مزےہی مزے ہیں۔‘‘

    تب وہ خوش ہوکر بولی۔ ’’ہاں ہے تو بڑے کام کی چیز۔ بکتا بھی خوب ہے اور بیچتا بھی خوب ہے۔ حال ہی میں اس نے کوہ نامستان لاکھوں کوششوں کے بعد حاصل کیا اور میری گرہ میں باندھ دیا۔ یہی کچھ اس نے پڑوسی کو ملک نامستان کا بنایا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اس سودے میں اماں بیٹی کی ان بن بڑھ جائے گی، کیونکہ ظاہر ہے بڑھاپے میں دنیا کی لالچ بڑھ جاتی ہے۔ مگر اس مخلص نے یہی نہیں ہونے دیا نہ ہونے دے گا۔ اب بھی اماں کی خدمت میں حاضر ہوکر یقین دلا آتا ہے کہ بیٹی آخر بیٹی ہے۔ خواہ وہ ہر خطہ زمین پر گرگٹ کر طرح اپنا رنگ بدل لے، کالی بنے یا گوری۔ نیلی بنے یا پیلی، مسلمان کہلائے یا ہندو، عیسائی بنے یا بدھ، بہرحال رہے گی بیٹی۔ یہ لین دین تو صرف اس لیے ہوا تھا کہ لوگ یکسانیت سے اکتائے ہوئے تھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی۔

    میں نے آنکھیں پھاڑ کر بے ساختہ داد و تحسین کی بارش کردی اور پوچھا، ’’کیوں حضور یہ تحفہ آپ نے پایا کہاں سے؟‘‘ بولی، ’’یہ ایک تو نمونتًا رکھ چھوڑا ہے، میرے اسٹور میں بھرے پڑے ہیں۔ ڈھیروں کوہ نامستان کے چپے چپے پر بکھرے پڑے ہیں۔ گھٹیا، بڑھیا ہر قسم کے کھلے بازار میں خرید لو جتنے چاہو۔ ہاں مگر یہ بتادوں کہ کچھ گھٹیا مال خراب بھی ہوگیا ہے۔ اسے خریدنے جاؤ تو کاٹنے دوڑتا ہے۔ خیر تم ان باتوں میں نہ پڑو۔ نہایت معمولی باتیں ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے دوسرے پائے پر ہاتھ مارا۔ کھٹاک سے پائے کی جگہ ایک اور انسانی شکل نمودار ہوئی۔ آنکھیں چکر مکر گھماتا، نتھنے پھڑکاتا جیسے سب کچھ دیکھ لینا چاہتا ہو۔ جیسے سب کچھ سونگھ لینا چاہتا ہو۔ مجھ خاکسار نے ہر پھر کر اسے ملاحظہ کیا اور پھر سوالیہ نظروں سے دیونی کو دیکھنے لگا۔ وہ کہنے لگی، ’’اے ہے، تمہاری آنکھوں سے رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ ندیدوں کی طرح۔ لو سنو۔ اس کا نام ہے اخبار نویس اور کام ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانا۔ صاحب یہ بڑے دھڑلے کی چیز ہے۔ بیچ بازار مرغ لڑاتا ہے۔ طاقتور ایسا کہ بڑے بڑوں کو بنا بگاڑ دے۔ لوگ کسی کی اتنی نہیں سنتے جتنا اس کا لکھا ہوا پڑھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ’’لیڈر‘‘ بھی اس کے بغیر نہیں چمکتا۔ جس کے قابو میں یہ آجائے اس کی چاندی ہی چاندی ہے۔ پچھلے دنوں تو میرے لیے دوہرا کام کر رہا تھا۔ ایک طرف لاکھوں انسانوں کا خون حاصل کرنے کے لیے موت کا کولہو چلانے والوں کی ہمت افزائی بھی کرتا تھا اور دوسری طرف میرے کاروبار کے معاملات کو نہایت بنا چنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا۔

    اب یہ حال ہے کہ میری کسی پیارے کو چھینک بھی آجائے تو شہتیر جتنے موٹے قلم سے ’’شکر الحمد للہ‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھتا ہے۔ اور مجھ سے حسد کرنے والے کیڑے مکوڑوں پر پہاڑ بھی ٹوٹ پڑے تو بہ مشکل ’’پوٹ‘‘ میں خبر دیتا ہے۔ اور دب کر مرنے والوں کے ایسے کان کھینچتا ہے کہ لطف آ جاتا ہے۔ مگر جناب! اس قوم سے بھی چند ایسے نکل گئے جو ضمیرکی روشنی میں کام کرنے کی باتیں کرتے ہیں، بھلا پوچھیے کہ اس ترقی کے دور میں جب کہ ہزاروں کینڈل پاور کے بلب کی روشنی بھی حاصل کی جا سکتی ہے تو ضمیر کی روایتی روشنی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیوں ہے نا؟‘‘

    ’’بالکل درست!‘‘میں نے سر ہلا کر یقین کے ساتھ کہا۔ ’’اچھا تو یہ بھی عام طور پر پائے جاتے ہیں؟‘‘ ایسے ایسے طلسمی انسان دیکھ کر میرے دل میں لالچ پیدا ہوگئی۔ ’’ہاں! مگر بہت زیادہ تعداد میں نہیں۔ بہرحال بلیک مارکیٹ سے نہیں خریدنا پڑتے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نےتیسرے پائے پر ہاتھ مارا۔ وہی کھٹاک ہوئی اور ایک انسانی شکل نمودار ہوئی۔ نورانی صورت آنکھیں آسمان پر ٹنگی ہوئی۔ ایک ہاتھ سے دنیا کی بے ثباتی کا اشارہ کرتے اور دوسرے سے زمین ٹٹولتے جاتے۔ ایسی نورانی شکل ایک مدت مدید، عرصہ بعید کے بعد دیکھتی تھی۔ اس لیے میں دیکھتا ہی رہ گیا، اور سوچا کہ جس کے قبضے میں یہ نور ہو اس پر کوئی آنچ کیوں آنے لگی۔

    دیونی نے میری پسندیدگی بھانپ کر کہنا شروع کیا، ’’یہ ہیں مذہبی پیشوا۔ ان کی ہسٹری تو تم جانتے ہی ہو۔ ان دنوں تو بڑے مخلص ثابت ہو رہے ہیں۔ جب میری گنگا جمنی زنجیر کی گرفت سخت ہوتی ہے تو لوگ بلبلا کر اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں۔ اس موقعہ پر یہ حضرت آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر نعرہ لگاتے ہیں۔ ع ہر درد ہر مرض کی دوا ہے ہمارے پاس۔ لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آتے ہیں، آپ نذرانے وصول کرنے کے بعد کہتے ہیں۔۔۔ اے کیڑے مکوڑو! زمین بڑی ذلیل جگہ ہے، اس پر قدم جمانے اور آرام کرے کے لیے جد و جہد کرنا جہنمی ہونے کی نشانی ہے۔ یہ سن کر لوگ جہنم کے خوف سے تھر تھراتے واپس ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں ہر معاملے میں کام آنے کی آپ میں صلاحیت ہے، اچھے خاصے ’امرت دھارا‘ ہیں۔‘‘ یہ احوال سن کر میں بھی جہنم کے خوف سے تھرتھرا گیا اور کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

    اب دیونی نے چوتھے پائے پر ہاتھ مارا تو اس دفعہ ایک عجیب افیونی انسان نظر آیا۔ ایک طرف ٹکٹکی لگائے دیکھتا تھا اور جیسے کچھ سمجھ نہ رہا ہو۔ اپنے آپ میں مگن اکڑوں بیٹھا قلم کی نوک سےخلال کر رہا تھا۔ مجھے قلم کی اس توہین پر غصہ آگیا۔ مگر پھر سوچا کہ خلال میں جانے کیا طلسم ہے۔ اتنے میں دیونی کہنے لگی، ’’آپ کو ادیب کہتے ہیں۔ آپ کی برادری ہر ملک میں خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ مگر انہیں میں ایسے بزرگوار بھی دستیاب ہوتے ہیں جو ہمیشہ الگ تھلگ بیٹھے اپنی جوئیں مارتے رہتے ہیں۔ بھاؤ تاؤ کے زمانے سے قبل جب اس کی ساری برادری اجنبی پنجہ مروڑنے میں لگی ہوتی تھی تو اس نمونے کے ادیب اندھیرے گوشوں میں دبکے اپنی زندگی کے نوبلوغتی دور پر غور کیا کرتے تھے۔ مگر جب یہ بات انجام پاگئی تو یہ چونک کر اٹھے اور دہائیاں دیتےمیرے قدموں سے آ لگے۔

    مجھے تو کوئی خاص فائدہ مند نظر نہیں آتے تھے۔ صاف کہہ دوں کہ مجھے بذات خود ادب ودب سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ لوگوں کے کان بھرنے کی وجہ سے اس قوم ہی کو مردود خیال کرتی تھی۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بھی بڑی کام کی چیز ہے، اور ہر زمانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اب ان بیچارے کا یہ حال ہے کہ اپنی ساری برادری کی در در پھٹ پھٹ سے بے نیاز میری خاطر سارے زمانے سے لڑے مرے جاتے ہیں۔ کبھی روح کی بات کرتے ہیں تو کبھی مذہب بگھارتے ہیں، کبھی جنس کو سینے سے بھینچتے ہیں تو کبھی سیاست کی ٹانگ توڑتے ہیں، غرض میری خاطر بڑے پاپڑ بیل رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر میں نے کہا، ’’واللہ جس کے چار ایسے وفادار غلام ہوں اس کی طرف کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

    تب میری بات سن کر وہ اچانک اونگھتے ہوئے بڈھے کی طرف متوجہ ہوئی، ’’لکھو! پس واضح ہوا کہ غیر ملکیوں تک کو یقین ہے کہ ہم مضبوط ہیں۔ ہماری بنیادوں کو متزلزل کرنا ناممکن ہے، اس لیے شورش پسند کیڑوں کو اپنے عمل کا جائزہ لینا چاہیے۔‘‘ بڈھا لکھنے لگا۔ یہ لکھوا کر وہ بڑی شفقت سے میری طرف مڑی اور یوں گویا ہوئی، ’’سندباد، میں تمہاری محبت اور جذبہ وفاداری سے بہت خوش ہوئی۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں سیر و سیاحت کی لت پڑی ہوئی ہے۔ اس لیے آؤ تمہیں ’کوہ نامستان‘ کی سیر کرا لاؤں۔‘‘ یہ سن کر میں فوراً کمر کستے ہوئے اٹھ کھڑاہوا۔ لیکن وہ مسکراتے ہوئے بولی، ’’چلنے کی زحمت کیوں کی جائے؟ قریب سے دیکھنے پر بہت سی چیزیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اپنے تخت پر ایک گھونسہ رسید کیا۔ معاً ایک ننھا سا دریچہ نمودار ہوا اور ہم دونوں دیکھنے لگے۔ وہ بولی، ’’آہ ہا! دیکھو کیسا دل خوش کن نظارہ ہے۔۔۔ یہ سامنے اونچے اونچے محل۔ اس سے ذرا نیچے ان محلوں کی یہ چھوٹی چھوٹی بھونڈی نقلیں۔۔۔‘‘ اور وہ بالکل نشیب میں کالے کالے، نیلے نیلے نقطے سے۔۔۔ افوہ! بھئی ذرا سمجھو تو یہ کتنا دلچسپ منظر ہے۔ اوپر سے دیکھنے والے اگر یہ رنگا رنگی نہ دیکھیں تو دنیا کا لطف ہی کیا۔۔۔؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے دریچہ بند کرتے ہوئے کہا، ’’سنو! میرا خیال ہے کہ میری فرمائشی کتاب کا نام تم ’دنیا رنگ رنگیلی بابا‘ رکھنا۔ امید ہے کتاب کا خاکہ تو تمہارے ذہن میں بن گیا ہوگا۔۔۔؟

    میں نے الطاف و عنایات کے بوجھ تلے ہانپتے ہوئے کہا، ’’خدا آپ کو اور آپ کی اماں بہن کو قیامت تک سلامت رکھے، آپ نے اپنے طلسمات کے دروازے مجھ پر کھول دیے، اب میں آپ کا بندہ بے دام ہوں۔ قلم دوات مہیا ہو جائے تو ابھی آپ کی فرمائشی کتاب شروع کردوں۔ کیا نام۔۔۔ اشتراکی سماج کے خلاف۔۔۔ بہت خوب!‘‘

    مارے جوش کے کمر کس کر آستینیں چڑھانے لگا۔ اس عمر میں روٹی کپڑے کی طرف سے بے فکری کا خیال کتنا مزے دار تھا۔ مگر صاحبو! آستینیں چڑھاتے ہوئے خدا جانے کیسے گنبد کے پگھلنے والی بات یاد آگئی۔ اور میں نے دوزانو ہوکر نہایت اداس لہجے میں عرض کیا، ’’حضور! کتاب تو لکھوں گا مگر ایک بات اور پوچھوں گا۔‘‘ اجازت ملنے پر پوچھا، ’’یہ آپ کا سونے کا گنبد پگھل کیوں رہا ہے؟‘‘

    صاحبو! میرا یہ سوال کرنا تھا کہ سونے کے گنبد میں دیونی کی چنگھاڑ گونجی، ’’او نابکار! تو بھی ’شورش بسند‘ نکلا؟ یہ کہہ کر اس نے اپنے بال کھسوٹ ڈالے اور قلم والے بڈھے کے دوہتڑ مار کر چیخی، ’’لکھو! پس واضح ہوا کہ جو سونے کے گنبد کے پگھلنے کی گپ مارتے ہیں ان کی گردن مارنے میں کوہ نامستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا اور عقبیٰ کی بھلائی ہے۔۔۔‘‘ بڈھا اونگھ اونگھ کر لکھنے لگا۔

    مگر صاحبو! یہ احوال دیکھ کر میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ گنبد میں ہر طرف بھگدڑ سی مچی ہوئی تھی۔ بس میری سمجھ میں یہی آیا کہ میاں سندباد بھاگ چلو قسمت پلٹا کھا چکی ہے۔ اس سے قبل کہ گالیوں سے مسلح محافظ میرے قریب آتے، میں نےقلانچ بھری اور سونے کی دیوار پر دو لاتیں رسید کیں اور سرپٹ روانہ ہوا۔ بھاگتے بھاگتے خیال آیا کہ محافظ پیچھا نہ کرتے ہوں۔ یہ سوچ کر میں ایک گھنے درخت پر چڑھ کر گھنی ٹہنیوں اور پتوں میں دبک کر بیٹھ رہا۔۔۔ حوف سے تھر تھر کانپتا تھا اور اس ناگہانی پر قسمت کو کوستا تھا۔ جب اس مشغلے سے اکتا گیا تو سوچنے لگا کہ وہ مہذب دیونی کتنی مہربان تھی۔ پھر یہ کیا کہ ایک سچی بات سن کر گردن مارنے پر آمادہ نظر آنے لگی، لاکھ سوچتا تھا مگر کچھ پلے نہ پڑتا۔ اسی ادھیڑ بن میں شام ہوگئی۔

    آخر میں نے فیصلہ کیا کہ سونے کے خوبصورت گنبد کے پگھلنے کا راز معلوم کروں۔ اور پھر بی دیونی کو یقین دلا کر سات سلام کروں۔ وہ بھی ایسی خوش ہو کہ مجھے اپنے تخت کا پانچواں پایہ نہ بنا لے تو میں اپنا نام ’سندباد جہازی‘ نہیں، ’ہند باد لکڑہارا‘ رکھ لوں۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے خوب کمر کسی اور درخت سے کود پڑا۔ اللہ کا نام لیا اور نشیب کی طرف چل پڑا۔۔۔ کیونکہ بڑے عزم سےاکڑ اکڑ کر چل رہا تھا، اس لیے پاؤں پھسلا اور پھسلتا ہی گیا۔ کافی راستہ اس طرح طے کرنےسےمجھ پر غشی طاری ہوگئی۔ جب ہوش آیا تو دیکھا کہ شام کی گہری دھند میں ایک شخص مجھ ناتواں پر جھکا ہنستا اور تالیاں بجاتا ہے۔ اس کی صورت بندروں جیسی تھی۔ میں نے کہا، ’’بھائی میرے! مصیبت زدوں پر ہنسنا انسانوں کا کام نہیں۔‘‘

    یہ سن کر وہ بندر نما انسان متاثر ہوا اور بولا، ’’در اصل میں سمجھا تھا کہ تم بالکل جدید طریقے پر اسکیٹنگ کر رہے ہو۔ ویسے مجھے افسوس ہے۔ کیونکہ میں بڑا انسانیت پرست ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس سے چل دیا۔ میں نے شام کے اندھیرے میں ہر طرف غور سے دیکھا۔ میرے اردگرد نئے نئے طرز کے چھوٹے چھوٹے محل بکھرے ہوئے تھے۔ ذرا اور نیچے نظر جاتی تو ان محلوں کی بھدی بھدی نقلیں نظر آتیں۔ جو جتنے نشیب میں جاتے گھٹیا ہوتے جاتے۔ معاً میرے ذہن میں مجوزہ کتاب ’’دنیا رنگ رنگیلی بابا‘‘ کا خیال آگیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس شخص کا تعاقب کروں۔ شاید کتاب کے لیے کچھ معلومات حاصل ہو سکیں، پس میں نے اس شخص کا پیچھا کیا۔ وہ مزے سے سیٹی بجاتا چلا جا رہا تھا۔ آخر ایک سونی جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا اور ٹھنڈی سانسیں بھر بھر کے بار بار تھوکنے لگا۔ اس کے تھوکنے کا طریقہ عجیب تھا۔ پہلے تو وہ منہ اٹھا کر سونے کے گنبد کی طرف تھوکتا جو لازمی طور پر اس کے منہ پر آجاتا۔ پھر نشیب میں پھوار سی برساتا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کر سخت حیران ہوا۔ سامنے آکر پوچھا، ’’بھائی تم کون ہو، اور یہ کیا حرکت کر رہے ہو؟‘‘

    مجھے سامنے پاکر وہ چونکا اور ہنسنے لگا۔ بولا، ’’مجھے نہیں جانتے؟ اچھا پہلے بتاؤ کہ تم کس تھیٹر سے بھاگے ہو؟‘‘ میں نے صحیح صحیح بتا دیا۔ مگر جان بوجھ کر سونے کے گنبد والی بات چھپا گیا کہ مبادا محافظوں کے ہاتھوں پکڑا جاؤں۔ میرا احوال سن کر وہ بولا، ’’بھئی سندباد یقین نہیں آتا۔ خیر تم کہتے ہو تو تقریباً یقین کیے لیتے ہیں۔‘‘ میں نے اس عنایت کا شکریہ ادا کیا اور تقاضا کیا کہ اب کچھ اپنا حال بتائے۔

    اس نے بے پروائی سے ٹانگیں ہلاتے ہوئے کہا، ’’مجھے بورژوا کہتے ہیں۔ اس بستی میں میرا ہی راج سمجھو۔ ایک زمانے تک دنیا بھر میں میرا ہی بول بالا رہا ہے۔ مگر اب کچھ جاہل بکواس کرتے ہیں کہ میں اپنا سنہرا دور ختم کر چکا ہوں۔ مگر مجھے ایسی باتوں پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ میں خود ان ’’جاہلوں‘‘ کے فلسفے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ دور ان کا ختم ہوتا ہے جن میں ترقی کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ ساری دنیا کی بات تو جانے دیجیے جناب! کوہ نامستان جیسے دقیانوسی جگہ پر ہماری خواتین تک بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ آج وہ چوئنگم کھاتی ہیں، پیانو بجاتی ہیں، ناخن اور کتے پالتی ہیں اور اپنے شوہروں اور بھائیوں کے دوستوں سے عشق کرنے کے حق میں جدوجہد کر رہی ہیں۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے سونے کے گنبد کی طرف تھوکا جو اس کے منہ پر آگرا، اس کے بعد فوراً نشیب کی طرف پھوار برسا دی۔ میری سمجھ میں اس کی باتیں خاک بھی نہ آئی تھیں۔ اس لیے میں اپنی کم عقلی پر جھلایا ہوا تھا۔ جل کر کہا، ’’بھئی تھوکنا ہے تو سیدھی طرح تھوکو۔‘‘

    بولا، ’’سندباد ڈارلنگ! تم بے چارے صدیوں کے گڑے مردے ہو میری پالیسی کو کیا سمجھو گے۔‘‘ میں ترکی بہ ترکی بولا، ’’تم ہی بتاؤ تو جانیں؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’سونے کے گنبد کی طرف اس لیے تھوکتا ہوں کہ میں جب کمزور ہو کر گرتا ہوں تو نشیب ہی کا ایک کیڑا بن جاتا ہوں۔۔۔ کہو مسٹر سندباد کیا سمجھے؟‘‘ اور چونکہ اس منحوس سفر میں شروع ہی سے عقل ماری گئی تھی، اس لیے حسب معمول کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جل کر کہا، ’’تمہارا سر۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میں چل دیا۔ اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور لپک کر پیچھے سے ایک دھکا دے دیا۔ اب جو میں لڑھکنیاں کھاتا چلا ہوں تو چلتا ہی گیا۔

    صاحبو! سخت جان تھا اس لیے اب کی پھر آنکھ کھل گئی۔ کپڑے کیچڑ میں لت پت تھے اور جسم ٹوٹ رہا تھا۔ مگر وہ سند باد ہی کیا جو ہوش میں آتے ہی جستجو کے لیے کمر نہ کس لے۔ پس میں نے لیٹے لیٹے پٹکے سے کمر کس کر ہر طرف نظر دوڑائی یہ ’’ہندبادوں‘‘ کی بستی تھی اور میں ایک بڑے میدان کے قریب پڑا ہوا تھا اور اس میدان میں میری طرف سے پیٹھ کیے بے شمار ’’ہندباد‘‘ جمع تھے، اور ایک ہند باد اونچے چبوترے پر کھڑا ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ یہ بے شمار ہندباد بھی بالکل ویسے ہی بیمار، تھکے، سوکھے اور بھوکے تھے۔ جیسا کہ الف لیلوی ’’ہندباد‘‘ تھا۔۔۔ وہ ہند باد جس نےمیرےمحل کی ایک دیوار کے نیچے لکڑی کا گٹھا پھینک کر اپنے تئیں سوال کیا تھا کہ دن بھر کی کڑی مشقت کے بعد مجھے اور میرے اہل و عیال کو پیٹ بھر کر روکھی سوکھی بھی کیوں نہیں ملتی۔ اور پھر یہ سن کر میں نے سات راتوں تک اس کے اعزاز میں اپنے دوستوں کو کھانے کھلا کر اسے اپنی کہانیاں سنائی تھیں، اور محنت کرتے رہنے کی تلقین کی تھی۔ میں جلدی سے اٹھ کر ہند بادوں کے مجمع میں شامل ہوگیا، اور سننے لگا۔۔۔

    چبوترے والا ہندباد کہہ رہا تھا، ’’بھائیو! تمہارے خون کا ابال، تمہارے عزم کی آنچ سونےکے گنبد کو پگھلاکر چھوڑے گی۔۔۔‘‘ میرا یہ سننا تھا کہ میں نے پھر کچھ نہیں سنا۔ گڑبڑا کر مڑا کہ بھاگ کر اپنی دیونی کو اس خوفناک طلسم سے آگاہ کروں۔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ لو بھئی کتنی جلدی سونے کے گنبد کے پگھلنے کا سبب معلوم ہو گیا۔ میں کندھے مار مار کر مجمع میں راستہ بنانے لگا تو دیکھا کہ ایک محافظ کھڑا چپکے چپکے کچھ لکھ رہا ہے۔ محافظ کے ہاتھ میں پڑنےکے خوف سے میں وہیں دبک گیا، اور تدبیر سوچنے لگا کہ محافظ سے مڈبھیڑ ہوئے بغیر کیونکر سونے کے گنبد تک پہنچوں۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ مجمع میں سے ایک زن کمر خمیدہ اٹھی اور چبوترے پر پہنچ گئی۔ اس کی چادر جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور پاؤں میلے اور برہنہ تھے۔

    اس نے ہاتھ اٹھا کر کہنا شروع کیا، ’’میرے بچو! میں نےتمہاری سب باتیں سنیں۔ مجھے معلوم ہے کہ سونے کا گنبد ہی تم بچوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا۔ میں اپنے ہوش و حواس کے پچاس بروں میں یہی دیکھتی اور سمجھتی آئی ہوں۔ میرا باپ تمام تمام دن خون پسینہ ایک کرنے کے بعد بھی اپنی بیوی اور بچوں کوپیٹ بھر روٹی اور تن بھر کپڑا نہ دے سکتا تھا۔ یہی پریشانی میرے بھائی کوتھی۔ یہی شکایت میرے خاوند کو رہی، میرا بیٹا بھی یہی گلہ کرتا ہے، اور اب میرا پوتا بھی یہی سوچنے لگا ہے۔ میرے بچو! اب حکم ملتا ہے کہ شکایت نہ کرو، کیونکہ تم اپنے مالک اب آپ ہو مگر میرے بیٹو! بتاؤ مالکوں کی یہی حالت ہوتی ہے؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے تھکے ہارے ہند بادوں کی طرف اشارہ کردیا۔ پھر دونوں ہاتھوں کے سہارے کمر سیدھی کرکے بولی، ’’میرے لاڈلو! تم مالک نہیں ہو، چیل کے گھونسلے میں رکھے ہوئے گوشت کے مالک کیڑے مکوڑے کیسے ہوسکتے ہیں؟ میرے بچو! مجھ بوڑھی کی عمر روتے کٹی۔ آخری وقت میں چاہتی ہوں ہنستی ہوئی جاؤں، مگر سونے کے گنبد کے ہوتے تمہاری ماں کے ہونٹوں پر ہنسی آئی ہے نہ آئے گی۔۔۔‘‘

    اتنا کہہ کر اس زن کمر خمیدہ نے اپنی پھٹی ہوئی چادر پھیلادی۔ جیسے اپنے بچوں سے کچھ مانگ رہی ہو، ہندبادوں کے چہرے مشعلوں کی طرح جگمگا اٹھے، تیز تیز سانسوں کا طوفان آگیا اور ہر طرف گرم گرم کہرا بڑھنے لگا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ وہ کہرا کیا تھا۔ جو سونے کے گنبد کے قریب مجھے بوکھلائے ہوئے تھا۔

    میں یہ عجیب و غریب باتیں سن سن کر بری طرح خوفزدہ ہوگیا اور سوچنے لگا کہ بھلا یہ ملک سندباد کے رہنے کے لائق ہو سکتا ہے جہاں ہندباد اپنے نصیب پر قانع نہیں۔ ہرگز نہیں! صاحبو! میں نہایت دل شکستگی کے عالم میں دوسرے سفر کی اسکیم بنا رہا تھا کہ اچانک اونچائی سے محافظوں کے پرے کے پرے اترنا شروع ہوئے اور آناً فاناً ہند بادوں کے مجمع پر بھوکی چیلوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ ذرا ذرا سے بچے ان کے جوتوں تلے رل گئے، عورتوں کی چھاتیاں اور سر برہنہ ہوگئے اور کئی جگہ آگ بھی بھڑک اٹھی۔۔۔ غرض یہ کہ ایک قیامت برپا ہوگئی۔

    میں اپنی جان بچاکر بھاگا۔ اور جب ایک گلی میں مڑنے لگا تو پیچھے مڑ کر دیکھا میدان میں جمے ہوئے ہندبادوں کو محافظ روند رہے تھے، مگر وہ چبوترے پر کھڑی ہوئی زن کمر خمیدہ اسی طرح گود پھیلائے ہوئے تھی۔ میرے ساتھ بھاگنے والوں میں دو لوگ اور بھی تھے۔ وہ ایسے سرپٹ جا رہے تھے کہ ان کے لباس میرے منہ کے قریب پھڑپھڑا رہے تھے۔۔۔ ان میں سے ایک نے ہانپتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں وہی عورت نامحرموں کے سامنے اپنا چہرہ برہنہ کر سکتی ہے جو سن یاس کو پہنچ چکی ہو۔‘‘

    دوسرے نےاور تیز دوڑتے ہوئے زور سے کہا، ’’اور میرا خیال ہے کہ وہ عورت ابھی اولاد پیدا کرنےکے لائق ہے۔‘‘

    تب میں نے ان دونوں کے آگے بھاگتے ہوئے کہا، ’’اور میرے خیال میں وہ عورت گود پھیلائے ہوئے اولاد ہی مانگ رہی تھی۔‘‘

    مأخذ:

    سب افسانے میرے (Pg. 431)

    • مصنف: ہاجرہ مسرور
      • ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور
      • سن اشاعت: 1991

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے