Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سسکتی تہذیب

داؤد محسن

سسکتی تہذیب

داؤد محسن

MORE BYداؤد محسن

    برس کا آخری دن تھا۔ سورج دن بھر کا سفر طے کرکے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ دھوپ زرد اور ملائم ہو چکی تھی عمارتوں کے سائے دراز ہو چکے تھے اور ہواؤں میں ہلکی ہلکی خنکی آ چکی تھی۔ میں چائے پیتے ہوئے اخبار ہاتھوں میں تھامے تھوڑی دیر تنہا بیٹھ کر سوچنے لگا۔ پرسکوں ماحول میں دل کچھ لکھنے کی طرف مائل کر رہا تھا۔ اخبار ایک طرف رکھ کر خیالات کو سمیٹنے لگا تاکہ کوئی کہانی کا پلاٹ ذہن میں آ جائے۔ یوں تو کئی خیالات ذہن کے پردے پر نمودار ہونے لگے، مگر سب منتشر اور چیدہ چیدہ۔ کہانی کا پلاٹ سوچتے سوچتے دماغ اچاٹ ہو گیا اور ذہن بھی گنجلک ہونے لگا۔ ایسی حالت میں اٹھ جانے میں ہی خیریت تھی۔ تھوڑی دیر گھومنے کی ارادہ سے گھر سے پیدل نکل پڑا۔

    سورج چھپ گیا تھا اور آسمان پر سیاہی چھا چکی تھی۔ میں گلیوں سے نکل کر شہر کی ایک مشہور سڑک پر پہنچا۔ موٹر گاڑیاں فراٹے بھرتی جارہی تھیں جن کی گڑ گڑاہٹ سے کان پھٹنے لگے۔ ہر شخص گذرے ہوئے برس کی مانند اپنی منزل کی طرف تیز رفتاری سے گذر رہا تھا۔ بڑے بڑے لائٹوں اور بلبوں کی روشنی سے سڑکیں منور ہو چکی تھیں اور بڑی بڑی عمارتوں پر بجلی کے قمقمے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ ان سب کا نظارہ کرتے ہوئے میں اپنی سوچوں میں ڈوبا جا رہا تھا کہ اچانک ایک جاتی ہوئی کار آہستہ ہو گئی جس میں سے میرے پرانے دوست ارشد نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور آگے چل کر انہوں نے اپنی کار روک دی، میں ان کے قریب پہنچ گیا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے مجھے اپنی کار میں بیٹھنے کا حکم صادر کیا۔ میرے انکار کے باوجود وہ مجھے ایک ہوٹل لے گئے۔ چونکہ ہم ایک عرصہ بعد ملے تھے۔ میں نے پوچھا۔ کہاں جا رہے تھے جناب؟

    نیا سال گلے لگانے۔ ارشد نے جواب دیا۔

    مطلب یہ کہ آپ بھی نئے سال کا جشن منا رہے ہیں؟ میں نے دریافت کیا۔

    یقینا۔۔۔ شہر کے سہ ستارہ ہوٹل میں ایک ماہ قبل ہی میری بکنگ ہو چکی ہے۔ ارشد نے شان جتاتے ہوئے کہا۔

    آپ کب سے ان ہوٹلوں میں جانے لگے۔ جبکہ ابھی چھ سات سال پہلے اپنے محلے والی چائے کی دکانوں میں آپ کو کوئی ادھار چائے بھی دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اتنی قلیل مدت میں جناب نے بڑی ترقی کی ہے اور نئے سال کو خوش آمدید اور پرانے سال کو خیرباد کہنے کے لئے ایسے ہوٹلوں میں جانے کے قابل جو ہو گئے ہیں۔ کیا یہاں بھی ادھار ا چلتا ہے یا کسی کی جیب کاٹی ہے۔ میں نے طنزیہ لہجہ میں پوچھا۔

    تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے۔ پچھلے چار پانچ برسوں سے میں اسی ہوٹل میں نئے سال کا جشن منانے کا اہتمام کر رہا ہوں۔ وہاں شاندار انتظام ہوتا ہے، لذیذ اور مرغوب غذائیں، دوستوں کا ہجوم ذات پات اور فرقہ بندی سے پرے سب مل بیٹھتے ہیں۔ پیتے ہیں، کھاتے ہیں اور خوشی سے ناچتے ہیں، ہر ایک کے ہاتھ میں چھلکتے جام گویا زندگی ناچ اٹھتی ہے۔ وہاں پینے، کھانے اور ناچنے کا لطف ہی نرالا ہوتا ہے۔ ان دنوں اس جشن میں ہمارے شہر میں حسینائیں اور جوان عورتیں بھی شرکت کر رہی ہیں۔ جن کی آمد سے جشن کا رنگ دوبالا ہو جاتا ہے اور بہت مزہ آتا ہے۔ فیروز، چیتن، سلیم اور راکیش سب اسی ہوٹل میں آتے ہیں۔ مگر آپ تو ایسی محفلوں سے ہمیشہ کتراتے ہیں۔ ساری باتیں ارشد نہایت خوشی سے کہہ جا رہے تھے۔

    میں نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔ یقیناً ہمارا شہر بہت ترقی کر چکا ہے اور آپ بھی۔۔۔ ویسے جہاں تک مجھے علم ہے آپ تو کبھی ایسی محفلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نئے سال کا انتظار تو درکنار تاریخ معلوم کرنے کے لئے دوسرے دن کیلینڈر دیکھنے یا کسی سے پوچھنے کے عادی تھے۔ آپ کو یہ شوق کب سے چرانے لگا ہے۔

    وہ دن ہوا ہوئے جناب! ویسے آج میرا موڈ اچھا ہے اور آج میں اداس ہونا نہیں چاہتا۔ اب مجھے اجازت دیجئے۔ ارشد نے آنکھیں چڑھاتے ہوئے کہا۔

    بالکل سچ کہہ رہے ہو۔ نیا سال جو آ رہا ہے۔ جاتے جاتے یہ تو بتاتے جائیے کہ کب سے یہ نیا سال آپ کا ہونے لگا۔ کیا آپ ہماری تہذیب بھول گئے ہیں،آپ تو اس سے قبل ایک پکے اور سچّے۔۔۔

    میں نے انہیں ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا۔

    میں آج بھی وہی ارشد ہوں ا ورآپ اب تک وہی فرسودہ خیالات کے قائل ہیں۔ ہمارے تعلق سے آپ کی سوچ کا زاویہ بدل گیا ہے۔ ارشد نے ذرا تلخ لہجہ میں کہا۔

    جی ہاں، میں آج بھی فرسودگی کا قائل ہوں۔ جسے آپ فرسودگی کہہ رہے ہیں دراصل وہ ہماری تہذیب ہے۔ ہمیں تو اپنی نئی نسلوں کے لئے ایک نمونہ بننا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہماری صدیوں کی تہذیب پامال ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری نئی نسل غیروں کی تہذیب اپنانے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ ایسے عالم میں آپ جیسے شریف لوگ بھی ہماری تہذیب کا گلا گھونٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں بےدھڑک کہا۔

    کس تہذیب کی بات کر رہے ہو۔ مذہب کے نام پر بندوقیں اٹھانا، عبادت گاہوں میں گھس کر معصوم اور بےقصوروں پر حملہ کرنا، بم کے ذریعہ معصوم لوگوں کی جانیں گنوانا، دوسروں کے حق مارنا، رشوت لینا اور دوسروں کی امانت میں خیانت کرنا کیا ہماری تہذیب ہے۔ آپ اس بات سے واقف ہیں کہ ساری دنیا اسی دن کو نئے سال کی ابتدا تسلیم کرتی ہے۔ بین الاقوامی کیلینڈر بھی یہی ہے۔ ہمارا ملک بھی اسی پر عمل پیرا ہے۔ ہم جس ماحول اور ملک میں سانس لے رہے ہیں اس سے سمجھوتہ کر لینے میں کیا برائی ہے۔ لین دین اور تجارت وغیرہ معاملات میں ہمیں سب کے ساتھ مل جل کر رہنا پڑتا ہے، آج کی رات ہم تمام آپسی نفاق اور رنجشوں کو شراب میں گھول کر پی جاتے ہیں۔ ارشد نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے ایک ہی سانس میں مسلسل کہنا شروع کر دیا۔

    میں نے انہیں روکتے ہوئے کہا۔ یہ سب درست ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری ذہنیت بدل دیں اور ہمارے اسلاف کی تہذیب کو نیست و نابود کر دیں۔ میں بڑی دیر سے غور کر رہا ہوں کہ آپ کی سوچ ہی نہیں بلکہ آپ کی ذہنیت بھی مکمل طور پر بدل گئی ہے۔

    ارشد نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔ میری نہیں بلکہ آپ کی سوچ بدل گئی ہے۔

    میں نے ان کی خفگی محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ارشد بھائی، جائیے اور نئے سال کا جشن منائیے۔

    میں انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل پڑا۔ ارشد صاحب پر ان دنوں دولت کا نشہ طاری تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں تقریباً چار پانچ سال بڑے تھے۔ میں انہیں اسکول کے زمانے سے جانتا تھا۔ ان دنوں وہ ایک دبلے پتلے اور مریل تھے۔ گھریلو حالات نہایت خستہ تھے۔ مفلسی نے اعلیٰ تعلیم کی راہوں میں رکاوٹیں پیدا کیں اور انہیں تقدیر اسکول سے گیراج لے گئی۔ ذہین اور چالاک تھے۔ چند سالوں میں اپنے فن میں انہوں نے مہارت حاصل کر لی اور اپنا ایک گیراج شروع کر دیا۔ خوب محنت اور لگن سے کام کرتے رہے دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی۔ رفتہ رفتہ پرانی گاڑیوں کی تجارت بھی کرنے لگے پھر دیکھتے ہی دیکھتے نئی موٹر گاڑیوں کی انہوں نے ایجنسی لے لی اور ایک بڑے شو روم کے مالک بن گئے۔ دولت کے ساتھ ساتھ شہرت بھی خوب حاصل کی۔ یہ بات مشہور ہے کہ عیسائیوں کے پاس جب دولت آتی ہے تو سالگرہ اور پارٹیاں زیادہ ہونے لگتی ہیں، ہندؤں کو دولت میسر ہوتی ہے تو پوجا پاٹ اور بھگتی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مسلمانوں میں دولت آتی ہے تو عیاشی بڑھ جاتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ارشد صاحب ان عادات سے کہاں تک مبریٰ تھے۔ دولت مند لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا برابر والوں میں ہوتا ہے۔ ارشد صاحب بھی آج کل بڑے بڑے لوگوں کی صحبت میں رہنے لگے۔ دولت کا نشہ چڑھا تو شاید رنگ رلیوں میں مبتلا ہو گئے۔

    ارشد صاحب کے متعلق سوچتے ہوئے میں وہاں سے آگے بڑھا۔ گاڑیوں اور لوگوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ میرا گذر شہر کی ایک مشہور بیکری کے پاس سے ہوا۔ وہاں لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع تھی۔ قریب جا کر دیکھا تو بیکری میں انواع و اقسام کی مٹھائیوں کے علاوہ آج کا اسپیشل ’کیک‘ بھی تھا۔ مختلف رنگوں اور اقسام کے کیک نمائش کے لئے شو کیس میں رکھے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کیک سے ودھان سودا اور تاج محل بھی بنائے گئے تھے جنہیں دیکھنے کے لئے مردوں، عورتوں اور بچوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک جانب لوگ جوق در جوق کیک خرید رہے تھے۔ میں نے بھی کچھ مٹھائیاں اور بسکیٹ وغیرہ خرید کر واپس گھر کی راہ لی۔ راستے میں ہر چھوٹے بڑے شراب خانے پر لوگ شراب اس طرح خرید رہے تھے گویا وہ بھاجی اور ترکاری خرید رہے ہوں بعض تو کھلے عام پی رہے تھے اور چند لوگ تونشہ میں چور ہو کر بہک چکے تھے۔ راستے کی دونوں جانب کئی جگہوں پر نئے سال کے گریٹنگ کارڈس بک رہے تھے۔ رنگین اور فیشنیبل کپڑوں میں ملبوس جوان لڑکیاں اور لڑکے گریٹنگ کارڈس خرید رہے تھے۔ ٹیلی ویژن، موٹر سائیکلوں اور جوتوں وغیرہ کی دکانوں میں کئی لوگ نئے سال کے آفرس کی تلاش میں منہ کھولے کھڑے تھے۔ کئی ہوٹلوں کے باہر’’صرف جوڑی‘‘ کے بورڑس لگے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میں اپنے گھر لوٹ آیا۔

    کھانے کا وقت ہو چکا تھا گھر میں سب منتظر تھے۔ کھانے سے فارغ ہوکر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اپنے بچوں کے ہمراہ بستر پر چلا گیا۔ آنکھوں میں نیند کا خمار لئے سوتے ہوئے میرے کم سن لڑکے نے مجھ سے پوچھا۔ ابو! مجھے نئے سال کے گریٹنگ کارڈس چاہیئے۔

    کس کے لئے بیٹا۔ دھیمے لہجے میں میں نے دریافت کیا۔

    مجھے اپنی میاتھس ٹیچر کو دینا ہے۔ اس نے نہایت سادگی سے کہا۔

    تمہارے اور بھی ٹیچرس ہیں نا بیٹا۔ صرف میاتھس ٹیچر کو ہی کارڈ کیوں دینا چاہتے ہو !میں نے اسے پھسلاتے ہوئے پوچھا۔

    اس لئے کہ وہ مجھے بہت پسند ہے اور وہ میری پسندیدہ ٹیچر ہے۔ اس نے نہایت معصومیت سے جواب دیا۔

    مجھے بےاختیار ہنسی آ گئی۔ میں اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اسے سمجھانے لگا۔ یہ ہمارا رواج نہیں ہے اور یہ ہمارے لئے نیا سال نہیں ہے بیٹا! ہمارا نیا سال تو محرم کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔

    ابو! یہ تومیں بھی جانتا ہوں۔ لیکن میرے اسکول کے تمام ساتھی کل گریٹنگ کارڈس لاکر اپنے اپنے اساتذہ کو دینے والے ہیں۔ اس لئے مجھے بھی دلائیے۔ وہ پھر اصرار کرنے لگا۔

    اگر کوئی دیتا ہے تو اسے دینے دو۔ یہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔ میں نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔

    تہذیب کا کیا مطلب ہے اور یہ کہاں ہے امّی جان! اس نے اپنی امّی سے پوچھا۔

    یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب اس کی امی کے پاس تو کیا میرے پاس بھی نہیں تھا۔ میں حیرت میں پڑ گیا اور اس کا معصوم چہرہ تکنے لگا۔ اس پر نیند کا غلبہ طاری ہونے کے باوجود وہ میرے جواب کا منتظر تھا۔ میں نے تہذیب کا سیدھا سادہ مفہوم بتاتے ہوئے کہا۔ بیٹا! ہماری تہذیب۔۔۔ یعنی ہمارا رہن سہن، طور طریقہ اور چال چلن سب کچھ اسلامی احکامات کی روشنی میں ہوں، کیونکہ ہم۔۔۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اسے تہذیب کی مزید وضاحت کیسے کی جائے کیونکہ وہ تو ابھی بچہ تھا اس کے معصوم ذہن میں یہ بات کیسے سما سکےگی۔ وہ مجھے جواب طلب نظروں سے دیکھتے دیکھتے سو گیا۔

    اسے سلانے کے بعدمیں اسی سوچ میں دیر تک کروٹ بدلتا رہا۔ کافی دیر تک نیند نہیں آئی۔ بالآخر بستر سے اٹھ کر ہال میں چلا گیا اور ٹی۔ وی آن کیا۔ ہر چینل پر جوان لڑکیاں تھیں۔ اشتہارات میں تو خدا کی پناہ۔ کپڑوں کے نام پر بدن کے اوپری حصہ پر ایک پٹی اور نیچے ایک چندی۔ جنہیں دیکھ کرنہ صرف شرم کی آنکھیں بند ہوں بلکہ شرم کو بھی شرم آ جائے۔ دیکھا جائے تو موجودہ زمانے میں عورتوں سے زیادہ مرد ہی پردے میں ہیں۔ شرٹ اور پیانٹ میں سارا بدن ڈھکا اور چھپا رہتا ہے اور صرف چہرہ کھلا رہتا ہے۔ الغرض ہر ایک پروگرام میں مرد اور عورتیں ناچ رہی تھیں۔ چیخ و پکار، بھونڈا پن اور بے ہودہ مذاق جو پھکڑ پن اور ابتذال سے پر تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کا اثر تو ہمارے سماج پر پڑ چکا ہے جس کی لپیٹ میں ہمارے دوست ارشد صاحب اور دیگر دوست بھی آ گئے ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

    ایک چینل پر گذرے ہوئے سال کے مشہور واقعات و حالات دکھائے جا رہے تھے۔ جن میں بمباری، سیلاب، طوفان سے مرنے والوں کے حالات وکیفیات کے علاوہ ہمارے ملک کے وزراء کی کارستانیاں، اسکینڈلوں اور گھٹالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہمارا ملک سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام نہیں دے پا یا تھا۔ مگر رشوت خوری، گھٹالے، اسکینڈل کے علاوہ حکومتیں گرانے اور بنانے میں تمام ممالک سے آگے تھا۔ گھڑی پر میری نظریں برابر تھیں جس کی سوئیاں مسلسل اپنا سفر طے کر رہی تھیں۔ شاید وہ بھی پرانے سال کو گڈ بائی اور نئے سال کو ویلکم کرنے لئے بےقرار تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھڑی کی تینوں سوئیاں بغلگیر ہو گئیں۔ ٹی۔ وی پر نئے سال کی تقریبات کا راست ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اچانک روشنی گل ہو گئی۔ ممکن ہے وہاں موجود تمام افراد کے لئے گھڑی کی سوئیوں کی طرح آپس میں۔۔۔ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پھر ساری محفل روشنی سے جگمگا اٹھی۔ وہی ناچ گانے اورشراب و کباب کا دور جاری ہو گیا۔ اسی اثنا میں میرے گھر کے اطراف و اکناف پٹاخوں کی آوازوں سے فضا گونج اٹھی۔ رات کے سناٹوں کو چیرتی ہوئی چیخ و پکار اور مختلف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ نشہ سے چور ہوکر لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ چند منٹوں بعد لوگوں کی بھا گ دوڑ سنائی دی۔ میں نے کھڑکی کا ایک دریچہ کھول کر دوڑتے ہوئے ایک شخص سے دریافت کیا۔ اس نے بتایا کہ قریب ہی پولس لاٹھی چارج کر رہی ہے۔ لوگ نئے سال کی خوشی برداشت نہ کر سکے، راستوں پر ہلہ مچانے لگے اور راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے تو پولس نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور بالآخر وہ لاٹھی چارج کرنے لگی۔ میں مسکراتا ہوا اندر چلا گیا۔ ٹی۔ وی۔ کا سوئچ آف کرکے بستر پر چلا گیا۔ نیند غائب ہو چکی تھی۔ دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد میں نے ایک کتاب کی ورق گردانی شروع کی۔ ایک جملہ پر میری نظر پڑی۔

    ‘’بچپن کی بہت سی چھوٹی چھوٹی یادیں جو کب کی بھول چکی تھیں پچیس برسوں کے بھاری بوجھ کے نیچے ایک دم پھڑپھڑاکر تڑپ کر نکل آئیں اور کم سن دیہاتی چھوکریوں کی طرح سامنے اچکنے کودنے لگیں۔ ‘‘

    ان الفاظ پر ذہن کی سوئی اٹک گئی اور میں دیر تک غور کرتا رہا۔ پچیس برس، پچیس برس۔۔۔ مگر یہاں تو سینتالیس اڑتالیس برس تھے جو یکے بعد دیگرے سینتالیس اڑتالیس روپیؤں کی طرح خرچ ہو گئے۔ بچپن، لڑکپن اورجوانی کی یادیں تازہ ہو نے لگیں۔ اچھے اور برے دنوں کی بھی یاد آئی۔ پھر گذرے ہوئے برس کی گھٹنائیں اور اپنے اعمال بھی یاد آئے۔ اتنے میں میں اپنی ذات سے نکل کر ملک کے حالات پر غور کرنے لگا۔ گذشتہ سال گویا کہ صدی کی مانند لگا۔ جس میں بنیاد پرستوں نے متعدد شہروں اور بستیوں کو نذرِ آتش کیا، خون کی ہولی کھیلی۔ جس کے نتیجہ میں کئی مانگیں سونی ہوئیں اور ان گنت گود اجڑ گئے۔ سیکڑوں خاندانوں کا صفایا ہو گیا، لاکھوں لوگ بے گھر وب سر و ساماں ہو گئے۔ گنگا جمنی تہذیب جو صدیوں سے ہمارے ملک میں رائج تھی دھرم اور مذہب کے نام پر چند نام نہاد مفاد پرستوں اور جنونیوں کے ہاتھوں اس کی بلی چڑھ گئی۔ کیا ہماری یہی تہذیب ہے اگر یہی حالت رہی تو ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہماری آئندہ نسل۔۔۔ انہیں خیالات نے بےقرار کر دیا اور انہیں سوچوں میں تارے گنتے ہوئے رات گذر گئی۔

    نئے سال کا سورج طلوع ہوا۔ میں حسبِ معمول اخبار کی سر خیاں دیکھتا گیا۔ صدر مملکت اور دوسرے سیاسی رہنماؤں نے تمام کو نئے سال کی شبھ کامنائیں دی تھیں۔ یہ بھی خبر تھی کہ کئی شہروں میں نئے سال کے جشن کے موقع پر پولس کو گولیاں چلانی پڑیں اور اس ضمن میں کئی لوگ گرفتار بھی ہوئے۔

    ناشتہ سے فارغ ہو کر ذہن پر نیند کا غلبہ اور بوجھل دماغ لئے میں کالج چلا گیا۔ وہاں پہنچتے ہی نئے سال کی مبارک بادیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بادلِ نخواستہ مجھے بھی ‘’تھینک یو، سیم ٹو یو‘‘ کہنا پڑا۔ ہمارے کیمپس میں کئی تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ ہمارے ماتحت جو ادارے تھے وہاں باقاعدہ کلاسس چل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعدمجھے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ بازو کے ادارہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جاتے جاتے ایک کلاس روم میں اچانک میز پر رکھے ہوئے ایک بڑے کیک پر میری نظر پڑی۔ میں نے ایک طالب علم سے دریافت کیا۔ یہ سب کیا ہے؟

    طالب علم نے جواب دیا۔۔۔ کیک ہے سر۔

    تمہیں کیک لانے کے لئے کس نے کہا تھا؟

    ہم نے کل اپنی انگلش مس سے پرمیشن لی تھی سر۔ آج وہی مس کے ہاتھوں کیک کٹوانے والے ہیں۔

    میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ یہ سب ہمارے یہاں نہیں چلتا اور یہ ہمارا رواج نہیں ہے۔ یہ کیک یہاں سے لے جاؤ۔ ورنہ۔۔۔

    چھوڑئیے سر! آپ کیوں اس جھمیلے میں پڑتے ہیں۔ یہ ان کا معاملہ ہے اور یہ سب اس ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ دیکھ لیں گے اور یہ بیچارے بچے تو نادان ہیں۔ میرے ساتھی نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔

    مگر ہمیں تو بالکل پسند نہیں ہے اور ہمارے یہاں اس کا رواج بھی نہیں ہے۔

    اگر ہمیں پسند نہیں ہے تو ضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی ناپسند ہو اور ان کی سوچ بھی ہماری جیسی ہی ہو۔ میرے ساتھی نے ان کی حامی بھرتے ہوئے کہا۔

    میری ذہنی کیفیت اور میری ناراضگی کا اندازہ ہوتے ہی ایک استاد نے وقتی طور پر کیک ہٹانے کے لئے طالب علموں سے آہستہ سے کہا۔ وہاں سے ہم چل کر اپنے کمرہ میں جابیٹھے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں کا ماحول ہی کیا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہر کوئی خوشی خوشی ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے ہاتھ ملا رہا تھا۔ اکثر اساتذہ کے چہرے کھل اٹھے تھے۔ کیک کاٹے اور ایک دوسرے کو کھلائے جا رہے تھے۔ وہ سب اتنے خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے انہیں جشن آزادی اور دیگر تقاریب کے موقع پر اتنی خوشی مناتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بعض تو اس طرح گلے مل رہے تھے گویا ان کے لئے عید الفطر ہو۔ طالب علم کلاس رومس سے نکل کر میدان میں پہنچ گئے اور وہ بھی ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دینے لگے۔ یہ سارا منظر دیکھ کر میں نے سوچا کہ عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ کل رات میں ہی مکمل طور پر نئے سال کا جشن منا کر اپنی اپنی مصروفیات میں جٹ گئے ہیں اور ہمارے لوگ لیٹ لطیفوں کی طرح باسی عید منانے پر آمادہ ہو گئے ہیں وہ بھی بے ڈھنگے پن سے، نا اہلوں اورکم بختوں کو نقل کرنا بھی نہیں آتا۔

    جس تہذیب کا میں پجاری تھا یہاں اس کی دھجیاں اڑ رہی تھیں۔ مجھے اس ماحول میں گھٹن ہونے لگی۔ کالج کی گھنٹی بجنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھامیں وہاں سے نکل گیا۔

    ابھی گھر نہیں پہنچا تھا کہ راستے میں موبائل فون بجا۔ ادھر سے میرے دوست ریاض کی آواز آئی۔ سلام کے فوراً بعد اس نے کہا۔ ارشد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

    میں نے حیرانی سے پوچھا۔ ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کل شام ان سے میری ملاقات ہوئی تھی اور وہ بہت خوش تھے۔

    ادھر سے آواز آئی۔ میں نے سنا ہے کہ کل رات سہ ستارہ ہوٹل میں نئے سال کی پارٹی تھی جس میں ارشد بھی شریک تھے گذرے ہوئے برس کا غم غلط کرتے ہوئے خوب پیتے رہے اور غم دور ہونے پر نئے سال کی آمد کی خوشی میں پھر جم کر نشہ کرتے رہے دیر رات جب گھر لوٹے تو رات تقریباً دو ڈھائی بجے دل کا شدید دورہ پڑا۔ اسی وقت انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر آج صبح نئے سال کے سورج کی پہلی کرنیں جیسے ہی افق پر نمودار ہوئیں وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے