Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسٹوری

ابرار مجیب

اسٹوری

ابرار مجیب

MORE BYابرار مجیب

    اسٹوری رات کافی بیت چکی تھی، بہزاد الیاسی کو اس کاعلم اچانک ہی ہوا جب بے چینی سے ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر ڈیجیٹل وال کلاک پر جاٹکی جس پر ٹو تھرٹی ایٹ اے ایم کے سبز ہندسے انگریزی حروف کے ساتھ چمک رہے تھے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، اندھیرے میں اسٹریٹ لائٹ کی روشنی کے دائرے میں پانی کی ٹوٹتی بکھرتی بوندوں کا منظر اسے راحت بخش محسوس ہوا کیونکہ اندر کمرے میں امس تھی، گھٹن تھی، اے سی آن کرنا ممکن نہیں تھا، بجلی کی ریگولر سپلائی گئی ہوئی تھی اور کالونی میں جنریٹر سے بجلی فراہم کی جا رہی تھی۔ بہزاد کی بےچینی سے بے خبر اس کی بیوی علینہ بہزاد سو رہی تھی۔ جب وہ لوٹ کر آئی تھی تو اس نے اسے اسی طرح ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ اس کے موڈ کو بھانپ کر علینہ نے اسے یوں ہی ٹہلنے دیا اور خود لباس تبدیل کرکے اپنا بھاری میک اپ اتارنے کے لیے باتھ روم میں چلی گئی۔ وہ خوبصورت تھی اور یہ میک اپ اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتا تھا۔ خوبصورتی کا تعلق اس کے پیشے سے بھی تھا، وہ شہر کے ایک مشہور مال میں علینہ بیوٹی اسپا کی مالکن تھی، اس کا یہ اسپا خاص طور سے ہربل بیوٹی مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے مشہور تھا۔ علینہ کے بالوں کی تراش، چہرے کا حسن، اس کے جسم کے نشیب وفراز۔۔۔ وہ اپنے بیوٹی اسپا کے لیے خود ہی ایک چلتا پھرتا اشتہار تھی۔ باتھ روم سے لوٹ کر اس نے کافی بنائی اور ایک کپ بہزاد الیاسی کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھ لیا تھا،ُُ کیا بات ہے، بہت پریشان لگ رہے ہو؟۔‘‘ یہ سوال اس نے کسی جواب کی توقع میں نہیں کیا تھا، بس عادتا ’’پوچھا تھا، الیاسی اس قسم کی بےچینی کا اکثر شکار رہتا تھا اور علینہ اس کی عادی ہو چکی تھی۔ الیاسی کافی کا مگ لیتے ہوئے صرف ہوں کرکے رہ گیا۔ ان کی بارہ سالہ بیٹی ٹی وی پر کارٹون فلم دیکھ رہی تھی۔ علینہ نے ایک انگڑائی لی جو اس بات کا اظار تھا کہ وہ بہت تھکی ہو ئی ہے اور بستر پر دراز ہونا چاہتی ہے، الیاسی اس انگڑائی کے معنی سمجھتا تھا، اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر منہ پھیر کر اپنے خیالات میں گم ہو گیا۔ علینہ کافی پی کر سیدھے بستر میں گھس گئی۔بیٹی ٹی وی دیکھتے دیکھتے صوفے پر ہی سو گئی۔ باہر یوں ہی بارش ہوتی رہی، اسٹریٹ لائٹ کے دائرے میں پانی کی بوندیں یوں ہی ٹوٹتی بکھرتی رہیں اور وہ یوں ہی ٹہلتا رہا، اپنے آپ میں گم اور ٹی وی پر کارٹون فلم لگاتار چلتی رہی۔

    بہزاد الیاسی چینج ٹی وی کا پروگرام مینیجر تھا۔ پچھلے ایک مہینہ سے اس کے ٹی وی چینل کی ٹی آر پی تیزی سے گر رہی تھی۔ کوئی دھماکہ نہیں، کوئی سنسنی نہیں، کوئی ایسی خبر نہیں جو لوگوں کے دل و دماغ کو مفلوج کر دے۔ کوئی دھماکے دار انٹرویو، کوئی اسٹوری نہیں جو لوگوں کی یکسانیت کے شکار ذہن کو سنسنی خیز تفریح سے پھڑکا دے، تلذذ کی ایک لہر سی دوڑا دے۔اس کی نظر میں رپورٹر نارکارہ ثابت ہو رہے تھے۔ روز روز سیاسی خبریں، نیتاؤں کے بھاشن، ان کے جاہلانہ انٹرویو، لوگوں نے شاید چینج ٹی وی کو دھیرے دھیرے دیکھنا کم کر دیا تھا، اسی تناسب سے ٹی وی کے اشتہارات بھی کم ہو رہے تھے اور اس کی آمدنی بھی۔ پچھلے مہینے کی فینانشیل آڈٹ کا ڈاٹا دیکھنے کے بعد میڈیا کارپوریٹ مینیجر نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا تھا جس میں ایک دھمکی اور سرد مہری صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ اس نے الیاسی سے کہا تھا کہ جلد ہی کوئی دھماکہ کرو، ایسے کام نہیں چلےگا اور چینلز کو اسٹوری کہاں سے مل رہی ہیں۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈو، پرائیوٹ سپورٹ لو، نئے اسٹوری میکررز کو تلاش کرو۔ کیا کر رہے ہو تم؟ بہزاد الیاسی نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ملک اور ملک کے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، آخر کچھ ہو کیوں نہیں رہا ہے اور اگر ہو رہا ہے تو ہماری آنکھوں سے اوجھل کیسے ہے۔ دہشت گردی، نہیں نہیں، یہ مال اب باسی ہو چکا ہے، ہندو دہشت گردی، مسلم دہشت گردی، عیسائی دہشت گردی، یہودی دہشت گردی، فلسطینی دہشت گردی، دہشت گردی ہی دہشت گردی، لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں، کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ اسے یاد آیا پندرہ دن قبل ایک ٹی وی چینل نے ایک اسٹوری چلائی تھی، اسٹوری کیا تھی، ہاں وہ ایک سنسنی پیدا کرنے میں بہت کامیاب رہے۔ ایک غریب بستی میں چار برس کا بچہ اس گڑھے میں گر گیا تھا جسے میونسپلٹی والوں نے کھودا تھا اور کوئی حفاظتی انتظام کئے بغیر اسے یونہی کھلا چھوڑ دیا تھا۔ بچہ کے گرتے ہی اس چینل نے بریکنگ نیوز دی، بچہ کو گڑھے میں کسمپرسی کے عالم میں روتا بلکتا اور اس کے غریب ماں باپ کو آہ و بکا کرتے دکھاتے رہے۔ گڑھے کے چاروں طرف کھڑے ہجوم سے باتیں کرتے رہے، پھر پبلک کال لینے کا سلسلہ شروع کیا، ہزاروں کالیں آنے لگیں۔ لوگ خون کے آنسو روتے ہوئے گفتگو کرنے لگے، غم کا ایسا سماں بندھ گیا جیسے سارا ملک اس واقعہ سے سوگوار ہو گیا ہے۔ اچھا خاصہ ماحول بن گیا، حکومت کی مشنری حرکت میں آ گئی۔ چینل نے اسے اپنی کامیابی بتائی۔ بچہ کو نکالنے کی مہم شروع ہوئی، ایک سرنگ کھود کر پارا ملٹری فورس کے جوانوں نے بچہ کو گڑھے سے نکالا۔ اب نیتاوٗں کے انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوا۔ صوبائی حکومت نے اس بہادر بچے کو پانچ لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا۔ راتوں رات مذکورہ چینل کی ٹی آر پی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ بہزاد بے چینی سے ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا۔ سوچتا رہا، دفعتاُُ اس کی گہری سوچ اور بےچینی کا سلسلہ اس کے اپنے موبائل کے رنگ ٹون نے توڑ دیا۔ موبائل اٹھا کر دیکھا، کارپوریٹ میڈیا مینیجر کا نام چمک رہا تھا۔

    ’’ہلو سر۔‘‘ بہزاد کسی قدر ہکلاتے ہوئے بولا۔

    ’’میں نے یہ ہلو، ہائے سننے کے لیے فون نہیں کیا ہے، ابھی تک جاگ رہا ہوں، تم سمجھ سکتے ہو۔‘‘

    ’’یسس، یس سر، میں سوچ رہا ہوں، جلد ہی کوئی اسٹوری ہاتھ لگ جائےگی۔‘‘ اس نے بستر کی طرف دیکھا، بیوی نے نیند میں عجیب سا منہ بنایا، تھوڑا کنمنائی اور پھر کروٹ بدل کر سو گئی۔

    ’’لسن الیاسی، ٹین ڈیز، ناٹ مور دین دیٹ، اوکے، ڈو سم تھنگ اکسپلوزیو، آدر وائز۔۔۔ یو نو، لیٹ می نو ان ڈیٹیل آز سن آز پاسیبل، اوکے۔‘‘

    ’’تھینکس، تھینک یو سر، آئی ول ڈو اٹ، آئی ول ڈو بیفور یور ڈیڈ لائین۔ آئی ایم شیور اٹ ول بی آ گریٹ اسٹوری۔‘‘

    ’’آئی ہوپ سو، بائے۔‘‘

    سالا، الیاسی کی زبان پر گالی آتے آتے رہ گئی، کارپوریٹ آفس میں بیٹھ کر یہ خود کیا کرتا ہے؟ فون گھماتا رہتا ہے بس۔ الیاسی ایک بار پھر ٹہلنے لگا، اسی وقت بیوی نے سر اٹھایا اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر نیند سے بوجھل آواز میں پوچھا۔

    ’’کس کا فون تھا، ابھی تک جاگ رہے ہو۔‘‘

    ’’کارپوریٹ میڈیا مینیجر کا، تم سو جاوٗ۔ مجھے سوچنے دو۔‘‘ الیاسی دھیرے سے بولا۔

    ’’اوکے، لیکن ٹی وی تو بند کردو اور پنکی کو اس کے کمرے میں سلادو ، پلیز۔‘‘

    وہ خاموش رہا، اس نے ٹی وی آف کیا اور پنکی کو اس کے کمرے کے بستر پر ڈال کر چادر سے ڈھک دیا اور بالکنی میں آکر دوبارہ سوچنے لگا، کمرے کی امس سے باہر کی فضا بہتر تھی، ہوا کا ہلکا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اس نے دور شہر کی طرف دیکھا۔ زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بارش اب بہت ہلکی ہو چلی تھی۔

    بہزاد تقریبا ’’دس بجے سو کر اٹھا، اس کا سر ابھی تک بھاری تھا۔ اس نے پلنگ سے اتر کر پاوٗں میں سلیپر پہنا اور باتھ روم کی طرف جانے لگا، اسی درمیان اس کی نظر ٹیبل پر رکھے موبائل پر پڑی، اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا، ’نیو میسج‘ اسکرین پر نمایاں تھا۔ اس نے میسیج اوپن کیا، نیوز ایڈیٹر اوم سوامی کا پیغام تھا،’ کال می، اٹس ارجنٹ !‘ اس نے موبائل ٹیبل پر رکھ دیا، اسے محسوس ہوا کہ دماغ اور بھی بوجھل ہو گیا ہے۔ وہ باتھ روم میں چلا گیا۔ فارغ ہوکر تولیہ سے منہ پوچھتا ہوا وہ باہر نکلا، دیکھا بستر پر بیوی نہیں تھی، وہ اپنے بیوٹی اسپا کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ اس کی بیٹی بھی ماں ہی کے ساتھ اسکول جا چکی تھی۔ بہزاد الیاسی نے موبائل اٹھایا اور نیوز ایڈی ٹر کم چیف انکر کو کال کیا۔

    ’’سر جلدی پہنچئے، ایک دھانسو، گریٹ اسٹوری ہے۔‘‘

    ’’کیا ہے؟‘‘

    ’’آپ آئیے سر، پلیز کم کیوکلی۔’’ اوکے۔ ‘‘اس نے موبائل رکھ دیا اور جلدی جلدی تیار ہونے لگا، گراج سے گاڑی نکال کر وہ تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا چینج چینل کی عمارت میں پہنچا اور کار پارک کرکے سیدھے اپنے آفس میں داخل ہو گیا، اس درمیان اسے اسٹاف کے وش کا جواب دینے کا بھی ہوش نہیں تھا۔ نیوز ایڈی ٹر پہلے ہی سے اس کے آفس میں موجود تھا۔ اس کے پہنچتے ہی بے صبری سے اس نے بتایا کہ صوبے کے چیف منسٹر کی کانوائے کی ایک گاڑی نے ایک غریب سبزی والے کو ٹکر مار دی، اس کانوائے کے ساتھ چیف منسٹر کے لیے ہر طرح کی سہولیات سے مزیں ایک ایمبولینس بھی تھی لیکن اس غریب سبزی والے کو اس ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال نہیں لے جایا گیا، اسے ایک آٹو میں ڈال کر اسپتال بھیج دیا گیا اور اس نے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔ ہم نے بری کنگ نیوز دی ہے، لیکن اسے ایک ایونٹ کے طور پر چلایا جا سکتا ہے اور چیف منسٹر کی سنابری، اس کے مہاراجہ جیسے اڈی ٹیوڈ کو ہائی لائٹ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹوری تیار ہے، اس کے ساتھ ہی ہم لائیو کال لیں گے۔‘‘

    ’’جسٹ ویٹ، لیٹ می کال کارپوریٹ میڈیا مینیجر۔‘‘ اس نے کہا اور میڈیا مینیجر کو کال کرنے لگا۔

    ’’ہلو۔‘‘ کارپوریٹ مینجر کی آواز آئی۔

    ’’سر، ہمارے چینل نے بریکنگ نیوز دی ہے، آپ نے دیکھا۔‘‘

    ’’آئی ایم واچنگ ناؤ، بٹ۔۔۔ ڈونٹ ٹرائی ٹو پُٹ اسٹریس آن چیف منسٹر، اسے ایک ایکسی ڈنٹ کی طرح دکھاتے رہو۔‘‘

    ’’وہاٹ؟‘‘ بہزاد الیاسی حیرت سے بولا۔ ’’سر یہ ایک گریٹ اسٹوری ہے، چیف منسٹر کی کانوائے میں ایمبولینس بھی تھی، اس کے باوجود اس غریب کو ایمبولینس میں نہیں ڈالا گیا، شاید وہ بچ جاتا، وی ہیو ٹو ہائی لائٹ دس ایشو!‘‘

    ’’ڈونٹ بی ایکسائٹیڈ، اوکے۔ جیسا کہہ رہا ہوں ویسا ہی کرو، یہ کوئی گریٹ اسٹوری نہیں ہے۔ ہائی لائٹ دا پوائنٹس سیڈ بائے چیف منسٹر، ایمبولینس بہت دوری پر تھی، اس سبزی والے کو اس میں رکھنا ناممکن تھا۔ آلسو ٹیل دا پبلک اباؤٹ دا اناوؤنسمنٹ آف چیف منسٹر، چیف منسٹر نے اس سبزی والے کی فیملی کو پانچ لاکھ دینے کا اعلان کیا ہے۔‘‘

    ’’بٹ سر!‘‘

    ’’نو اف اینڈ نو بٹ، وی کانٹ ایفورڈ آکنفلکٹ ود دا رولنگ کلاس، انڈر اسٹینڈ، چیف منسٹر کو خوش کرو۔ جو کہہ رہا ہوں وہی کرو، اوکے۔‘‘ کارپوریٹ میڈیامینیجر نے فون کاٹ دیا، باسٹرڈ، اس نے دل میں کہا اور نیوز ایڈیٹر کو ہدایت دینے لگا۔ نیوز ایڈیٹر حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا لیکن کچھ بولا نہیں اور آخر میں یس سر کہہ کر آفس سے باہر نکل گیا۔ باہر نکلتے ہوئے اس نے بھی اپنے دل میں کہا باسٹرڈ۔

    ’’بہزاد الیاسی جب آفس سے نکلا تو شام ہوچکی تھی اور سمندر کی طرف سے آنے والی ہواؤں میں نمی تھی۔ اوپر آسمان پر سیاہ بادلوں کی بوجھل پرت پھیل رہی تھی، تیز بارش کا امکان تھا۔ الیاسی کو محسوس ہوا کہ اس کے دماغ میں بھی سیاہ بادلوں کی ایک پرت بنتی جا رہی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔اسے اپنی بیوی کا خیال آیا اور پھر بچی کا، ہمیشہ کی طرح اس کی بیوی بچی کو اسکول سے گھر پہنچا چکی ہوگی اور دوبارہ اپنے مال لوٹ گئی ہوگی۔ گھر پر کام والی بائی بچی کا خیال رکھتی تھی۔ اسے گھر پہنچنا تھا، اس نے سوچا جلدی سے گھر پہنچ جائے تاکہ کچھ سوچ سکے، ایسا کچھ جو چینج ٹی وی کی یکساں صورت حال میں کوئی چینج لا سکے۔ پارکنگ لاٹ سے اس کی کار نکل کر سڑک پر پھسل رہی تھی، پانی سے بوجھل سیاہ بادلوں نے بارش کے موٹے قطروں کوآہستہ آہستہ ٹپکانا شروع کر دیا تھا، اسے معلوم تھا دھیرے دھیرے یہ ہلکی پھلکی بونداباندی تیز طوفانی بارش میں بدل جائےگی۔ اس شہر میں بارش کا مزاج ہی ایسا تھا۔ سمندر اچانک دھاڑنے لگتا اور اونچی اونچی لہریں ساحل پر اگی چٹانوں سے اپنا سر ٹکرانے لگتیں ۔ اس سے پہلے کہ بارش بےلگام ہو اسے گھر پہنچ جانا چاہئیے۔ اوور برج سے گزرتے ہوئے نیچے ریلوے لائین کے اس پار دور تک پھیلے آل موسیٰ کے گھیٹو جسے انگریزی میں سلمز کہتے ہیں، پر اس کی نظر چلی گئی، ادھر سے گزرتے ہوئے وہ روز ہی اس بے ترتیبی سے بنے اینٹ اور ٹین کے دور تک پھیلے ڈھیر کو اور برج سے دیکھتا تھا جو شہر کے پاش علاقے کے درمیان اگ آیا تھا، دیکھتا تھا اور بغیر کچھ سوچے گزر جاتا تھا، لیکن آج اچانک اس کے دماغ میں ایک کوندا سا لپک گیا۔اسے یاد آیا اسی کچرے کے جنگل میں ایک دن جیسے آگ لگ گئی تھی۔ ہزاروں شوشل ورکر، این جی او، سیاسی رہنما اور غم وغصہ سے لبریز لوگوں کا ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ اسی بستی کی ایک چودہ سالہ بچی کے ساتھ ایک کار کے اندر نشہ میں دھت تین رئیس زادوں نے بڑی بے رحمی سے زنا باالجبر کیا تھا۔ یہ بچی روڈ کراسنگ پر پھولوں کے گلدستے بیچتی تھی۔ ان تینوں رئیس زادوں نے رات کے وقت اس بچی کو بہلا پھسلا کر کار میں بٹھا لیا اور ایک سنسان جگہ پر کار کے اندر ہی اس کے ساتھ زنا کیا۔ زنا کرنے کے بعد ان تینوں نے اس بچی کو اپنے خیال کے مطابق لگ بھگ جان سے مار کر وہیں پھینک دیا تھا، لیکن معجزاتی طور پر وہ بچ گئی، اس کا نام نیلما تھا۔ اس واقعہ نے لوگوں کے اندر نفرت کی ایک لہر دوڑا دی، ان جی او ز نے اسے ایک تحریک کی شکل دے دی، پولس جو کہ شروع میں اس واقعہ کو دبانے کی کوششوں میں لگی تھی کیونکہ تینوں بدمعاش سماج کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن کا اثرو رسوخ حکومت کے اداروں پر قائم ہے۔ جب عوامی چیخ اور ٹی وی پر مباحثوں نے ایک تحریک کی شکل لے لی تو حکومت حرکت میں آئی اور ان تینوں مجرموں کو گرفتار کر لیا، مقدمہ چلا اور دو کو عمرقید کی سزا ہوئی ۔ ایک مجرم نے پولیس کسٹڈی میں خودکشی کرلی تھی۔ بہزاد الیاسی کو یاد آیا کہ یہ بریکنگ نیوز بھی اسی کے چینل نے سب سے پہلے دی تھی۔ اس واقعہ کو گزرے تقریبا’’ پانچ برس بیت چکے تھے، نیلما جو کہ زندہ بچ گئی تھی اب انیس سال کی ہوگئی ہوگی۔ اتنے سالوں میں نیلما کی کوئی کھوج خبر نہیں لی گئی، اس کے بارے میں کسے جاننے کی فرصت تھی۔ بہزاد الیاسی کے دماغ میں سیاہ بادلوں کی جو پرت بنی تھی وہ پوری طرح صاف ہو گئی اور اب اس میں سنہری دائرے بننے لگے، انجانے ہی سیٹی بجانے کے انداز میں اس کے دونوں ہونٹ سکڑ گئے۔ ایک بار پھر اس نے سوچا کہ جو خیال یا آئیڈیا ابھی اس کے دماغ میں سنہری دائروں کی شکل میں چمک رہا ہے کہیں غائب نہ ہو جائے، اسے جلد از جلد گھر پہنچ جانا چاہیے اور کارپوریٹ میڈیا مینیجر سے بات کرنی چاہئیے۔

    گھر پہنچتے پہنچتے موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان میں ہزاروں سوراخ ہو گئے ہوں اور ان سوراخوں سے پانی کی موٹی موٹی دھار ایک تار کی صورت نکل رہی ہو۔ اس نے گراج میں کار پارک کی اور کال بیل دبا کر کھڑا ہو گیا، اس کا دماغ لگاتار مشغول تھا، ماتھے پرتین لہرئیے چھوٹے چھوٹے سانپوں کی طرح نمایاں تھے۔ کام کرنے والی بائی نے دروازہ کھولا۔ اندر پہنچ کر وہ اپنے ڈپلکس کی پہلی منزل پر پہنچ گیا، لابی میں اس کی بیٹی ٹی وی آن کئے ڈسکوری چینل پر ڈائنا سارس کی تاریخ پر ایک ڈاکو منٹری دیکھ رہی تھی، اسے دیکھ کر اس نے ہائے ڈیڈی کہا۔ الیاسی نے جھک کر اسے پیار کیا اورسیدھے اپنے اسٹڈی روم میں چلا گیا۔

    کارپوریٹ میڈیا مینجر کو کال کرنے سے پہلے وہ انٹر نیٹ پر تھوڑا پڑھنا چاہتا تھا۔ لیپ ٹاپ آن کرکے وہ کرسی پر بیٹھ گیا، گوگل سرچ میں اس نے لکھا ’’نیلما ریپ کیس‘‘۔ ایک سیکنڈ میں ہزاروں لنک کی فہرست سامنے آ گئی، اس نے ایک معتبر اخبار کے لنک کو کلک کیا اور تفصیلات پڑھنے لگا۔ پڑھ چکنے کے بعد اس کے ذہن میں اسٹوری کا ایک خاکہ سا بن گیا، اسے لگا کہ ذہنی گھٹن کی کیفیت میں کچھ کمی سی آ گئی ہے اور وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے۔ اس خاکہ پر وہ باریکی سے غور کرنے لگا، اسے لگا کہ دل کے اندر کہیں اخلاق کا کوئی انکھوا پھوٹنے کو ہے، شاید ضمیر ملامت کے ہتھیار تیز کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے بعد اس کے ذہن پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ اس نے ذہن کو جھٹک دیا۔ جس اسٹوری کی اسے تلاش تھی وہ بہت جلد اس کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری، ضمیر نے ایک بار پھر ملامت کے ہتھیاروں کو نکالنے کی کوشش کی ، وہ بالکنی میں چلا آیا اور آنکھیں بند کرکے ضمیر کا گلہ گھونٹنے لگا، ضمیر چھٹپٹایا، لیکن مرا نہیں، اس نے جیب سے سگرٹ نکالی اور اسے سلگا کر ڈھیر سارا دھواں حلق کے اندر اتار لیا، اسے محسوس ہوا ضمیر کا دم گھٹ گیا اور ہاتھ پاؤں مارتے مارتے بےہوش ہو گیا۔

    بہزاد الیاسی نے سوچا کارپوریٹ میڈیا مینجرکو فون کرے، پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا، گفتگو سے پہلے اسٹوری کا خاکہ بنالیا جائے تو اسے سمجھانے میں آسانی ہوگی، یہ سوچتا ہوا وہ اسٹڈی روم میں لیپ ٹاپ آن کرکے بیٹھ گیا، کچھ دیر تک خیالات کو ذہن میں مجتمع کرتا رہا، پھر ورڈ پروسیسر پر اپنے خیالات کو منتقل کرنے لگا۔ کئی بار پڑھا، قطع وبرید کی اور مطمئین انداز میں سر ہلا کر موبائل سے کارپوریٹ میڈیا منیجر کو کال کرنے لگا۔

    ’’یس الیاسی، ٹیل می۔‘‘

    ’’سر، ایک اسٹوری ہے، یاد ہے آپ کو نیلماریپ کیس؟‘‘ الیاسی نیلما ریپ کیس کی تفصیلات بتانے لگا، دوسری طرف کارپوریٹ میڈیا منیجر پوری دلچسپی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے اسٹوری کے پس منظر کو پسند کیا تھا۔ الیاسی محسوس کر سکتا تھا کہ گھاگ مینیجر کی بوڑھی عیار آنکھیں چمک رہی ہوں گی۔

    ’’گڈ آئیڈیا الیاسی، آئی تھنک دئیر ول بی آکرائی فرام میڈیا اٹ سیلف، اچھا ہے ، پبلسٹی ملےگی، گو آہیڈ، ہائر دا ایجنسی، آئی ہوپ، ڈاکو منٹری دھماکہ کرےگی۔‘‘ مینیجر کی آواز میں مسرت کی آمیزش تھی۔ ’’ریپ کی گرافیکل ڈیٹیل ہونی چاہئے، ڈاکومینڑی میکر کو اچھی طرح سمجھا دو، یور آوٗٹ لائین از سو گڈ، اس میں گرافیکل ڈیٹیلز کے بارے میں تم نے لکھا ہے۔ وی ہئیو ٹو کور آل دا ایکسپریشنز، اینڈ مائنوٹ موومنٹس آزویل۔ اوکے الیاسی، وش یو آ گڈ لک، بائے۔‘‘

    ریپ کی گرافیکل ڈیٹیل لفظوں میں، بہزاد الیاسی کا دماغ تھوڑی دیر کے لیے گہرے اندھیرے میں ڈبکیاں مارنے لگا اور وہ بار بار اپنے سر کو جھٹکنے لگا۔ سالا، اس نے دل میں کہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے میڈیا مینجر کا چہرہ گھوم گیا جس کے ہونٹوں کے کناروں سے رال ٹپک رہی تھی۔ ڈسکوری چینل پر دکھایا گیا ایک منظر اس کی آنکھوں میں ابھر آیا جس میں ایک لکڑ بگھا شیروں کے کھائے شکار کے بچے کھچے حصے کی طرف ادھر ادھر دیکھتا ہوادھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔

    کارپوریٹ میڈیا مینجر کی پسندیدگی نے بہزاد الیاسی کے اندر خوشی کی لہر دوڑائی یا اس کے اندرون میں دکھ کے بادل سر ابھارنے لگے، وہ خود اس جذبے کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ تناؤ کی تنی ہوئی کمان ابھی تک تنی ہوئی تھی کہ دھیرے دھیرے ڈھیلی پڑ رہی تھی، یہ انداز ہ لگانا بھی اس کے لیے مشکل تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور آنکھیں بند کرکے کرسی سے پشت لگا کر لگ بھگ پیچھے کی طرف جھک سا گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے دیوار پر ایک چھپکلی دیکھی تھی جو بہت خاموشی سے دھیرے دھیرے ایک طرف بڑھ رہی تھی، شاید کسی پتنگے کو نشانہ بنانے کے لیے، الیاسی پر تھکن اس قدر حاوی تھی کہ اس نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ چھپکلی واقعی کسی پتنگے یا کیڑے کو چٹ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے یا یوں ہی بے مقصد چہل قدمی کر رہی ہے۔ آنکھ بند کرتے ہی اس پر نیم غنودگی کی کیفیت طاری ہو گئی، دھند کے ہلکے بادلوں کے درمیان اس نے خود کو ایک غبارے میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جو کچھ دیر تک تیزی سے بلند ہوتا رہا، پھر اچانک اس کے وزن میں اضافہ ہونے لگا اور جیسے وہ غبارے سے ایک ٹھوس پتھر میں تبدیل ہو گیا جو بہت تیزی سے نیچے کی طرف گر رہا تھا۔ ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ اس کی آنکھ کھل گئی، کچھ دیر تک دماغ میں سناٹے کی کیفیت طاری رہی، پھر اس نے اٹھ کر فرج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پیا اور سوچنے لگا۔ اس کے دماغ میں ایک نام گونجا ’’روبی شرما‘‘۔

    روبی شرما متوسط قد کی، جوانی کو گڈ بائی کہتی ہوئی سانولی سلونی عورت تھی، اس کے بال لمبے لیکن ہلکے گھنگھریالے تھے جنہیں وہ کھلا رکھتی تھی اور جواس کی کمر کی ڈھلان پر ختم ہو جاتے تھے، چہرے پر عمر کے اثرات اتنہائی باریک نظر نہ آنے والی جھریوں کی شکل میں نمایاں ہونے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں میک اپ کی ہنرمندی نے بہت خوبصورتی کے ساتھ ڈھک دیا تھا۔ وہ اپنے چلنے کے انداز، ہونٹوں پر کھینچی ہلکی سی مسکراہٹ کی لکیر اور بےحد متوازن بدن کی وجہ سے بےحد پرکشش نظر آتی تھی۔ لیکن اس کی شخصیت کی یہ بلاخیز کشش کبھی بھی ٹی وی اسکرین پر ابھر کر نہ آ سکی، اس کا چہرہ فوٹو جینک نہیں تھا، اسی لیے کیمرہ اس پرکشش، دلآویز شخصیت کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کر سکا، کیمرے کے اس دھوکے کو وہ اپنی آواز کی ماڈولیٹنگ اور باڈی لینگویج سے توازن دینے میں کامیاب رہتی تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ ایک ذہین عورت ہے، اس کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں جو سامنے والے کو اندر تک کریدنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بہزاد الیاسی روبی شرما کو برسوں سے جانتا تھا۔ روبی شرما نے چینج ٹی وی کے لیے کئی ڈاکومنٹری بنائے تھے جن میں ایک دو تہلکہ خیز ثابت ہوئے۔ صبح ہی صبح الیاسی نے اسے فون کیا تھا اور آفس میں ملنے کی درخواست کی تھی۔

    روبی شرما جب اس کے آفس میں داخل ہوئی تو کوئی سوا دس بج رہے تھے، الیاسی نے مسکر ا کر اسے وش کیا، روبی شرما بھی مسکرائی اور اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنے بالوں کو ایک مخصوص ادا سے پیچھے کی طرف جھٹک کر بولی،’’ہاں بولو ۔‘‘

    ’’نیلما ریپ کیس، میں نے فون پر ذکر کیا تھا۔‘‘ بہزاد الیاسی نے ٹھہر کر نیلما کے چہرے کا جائزہ لیا، پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ ’’اس پر ایک ڈاکومنٹری بنانی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر میز کی دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ایک سگرٹ نکال کر انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان دبا کر مسکرایا جیسے اجازت طلب کر رہا ہو۔

    ’’نو پرابلم، کیری آن، یہ نیلما ریپ کیس، یار، اٹس این اولڈ اسٹوری، کیا ڈاکومنٹری بنےگی اس پر؟‘‘ روبی شرما نے بہزاد الیاسی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

    ’’ہمیں ریپسٹ کے پوائنٹ آف ویو کو فوکس کرنا ہے۔‘‘

    ’’وہاٹ؟‘‘

    بہزاد الیاسی نے سگرٹ سلگا کر ایک لمباکش لیا اور دھواں دوسری طرف چھوڑتا ہوا اپنی پیشانی کو رگڑنے لگا، تھوڑی دیر بعد میں اس نے سگرٹ ایش ٹرے میں مسل دی اور ایک گہری سانس لے کر بولا۔ ’’یس روبی ریپسٹ مائنڈسیٹ، ہز پوائنٹ آف ویو، ان لوگوں نے کیوں کیا، کیسے کیا، ایوری تھنگ، گرافک ڈیٹیل، سمجھ رہی ہونا۔‘‘

    ’’سی، الیاسی آئی ڈونٹ ہئیو پرابلم، بٹ یونو، کافی ہنگامہ کھڑا ہو جائےگا۔ ڈو یو ہئیو اینی آؤٹ لائین؟‘‘

    الیاسی نے نیچے جھک کر ایک فائل نکالی اور اسے روبی شرما کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’جسٹ اسکان اٹ، یو ول انڈر اسٹینڈ وہاٹ وی وانٹ ایکزیٹلی۔‘‘

    روبی شرما صفحات پلٹنے لگی، ایسا لگ رہا تھا جیسے سچ مچ اس کی آنکھیں اسکانر کی طرح کام کر رہی ہیں۔ اوپر سے نیچے، اوپر سے نیچے، اس نے سارے صفحات پلٹ ڈالے۔ ’’ہوں۔‘‘ اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پیچھے کی طرف جھک گئی۔ ’’بیٹیاں، ہا ہا ہا ہا، الیاسی تمہاری کھوپڑی میں بہت گندا دماغ ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا، بٹ آگین، آئی ول سے، بہت ہنگامہ ہوگا۔ سیکنڈ تھنگ، دونوں ریپسٹ کو لائف ایمپریشنمنٹ ہوئی ہے، ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ پولیٹیکل ہیلپ کی ضرورت ہوگی، بیوروکریسی کو بھی انوالو کرنا ہوگا۔ منسٹری آف ہوم افئیرس، یونو، بجٹ فارکاسٹ کرنا مشکل ہے۔‘‘

    ’’بجٹ کے بارے میں چنتا مت کرو بالکے۔‘‘ بہزاد الیاسی خالص ہندی میں کسی سادھو مہاتما کی طرح مسکراتا ہوا بولا۔ ’’وی ول پے، کارپوریٹ مینجر کا اپروول ہے، نیلما کی فیملی سے انٹر ایکشن میں تو کوئی پرابلم نہیں آئےگی، آئی ہوپ۔‘‘

    ’’نو، نیلما کی کیا پرابلم آئے گی، اوکے دین، اگر چینج ٹی وی تیار ہے تو میں اس پر ورک آؤٹ کرتی ہوں۔‘‘ روبی شرما نے سنجیدگی سے کہا۔ تھوڑی دیر تک دونوں میڈیا کے تعلق سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، پھر روبی شرما نے ہفتہ بھر کے اندر اسے پروگریس کی اطلاع دینے کا وعدہ کیا اور الیاسی سے ہاتھ ملا کر دروازے کی طرف بڑھ گئی، دروازہ کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے دفعتا ‘‘اسے کچھ خیال آیا اور وہ پلٹ واپس آ گئی، اس نے اجازت لے کر الیاسی سے فائل لی اور آفس سے باہر نکل گئی۔‘‘

    روبی شرما نے تیزی کے ساتھ ڈاکومنٹری ’’بیٹیاں‘‘ پر کام شروع کر دیا تھا۔ ایک ہفتہ کے اندر ہی اس نے بہزاد الیاسی کو رپورٹ دے دی، اس رپورٹ کے مطابق، منسٹری آف ہوم آفئیرس سے اجازت مل گئی تھی اور بجٹ کا ایک اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اس ڈاکو منٹری کو بنانے میں تین مہینہ کا وقفہ لگ سکتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ کئی سائیکلوجیکل حملوں کے بعد ہی ریپسٹ کھل کر گفتگو کر سکتے تھے۔ اس درمیان روبی شرما اور اس کی ٹیم نے نیلما کو ڈھونڈھ نکالا، وہ اسی جھونپڑ پٹی میں رہتی تھی، اس کا باپ مر چکا تھا، اس کی شادی ایک نشیڑی سے ہو چکی تھی اور اب وہ ایک بچے کی ماں تھی۔ اس کے گال پچکے ہوئے تھے، گود میں بچہ تھا اور پھولا ہوا پیٹ ایک اور بچے کی آمد کی گواہی دے رہا تھا۔ روبی شرماکو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اسے بس اس بات کی خوشی تھی کہ نیلما اسے مل گئی۔ نیلما جو اس کے ڈاکومنٹری ’’بیٹیاں‘‘ کی مانو ہیروئین تھی۔

    تین مہینے سے کچھ پہلے ہی ’’بیٹیاں‘‘ تیار ہو گئی۔ روبی شرما نے فائنل ایڈیٹنگ کے بعد الیاسی کو مطلع کیا اور الیاسی نے کارپوریٹ میڈیا مینیجر کو۔ میڈیا مینجر نے الیاسی کو ہدایت دی کہ ایک کلوز ڈور اسکریننگ ارینج کرے اور اس میں فارن کی ’’گلیکسی ٹی وی‘‘ کے نمائندے کو بھی بلائے۔ گلیکسی ٹی وی اکثر ان کے پروگرام کے فارن رائٹس خرید لیتا تھا اور اس سے چینج ٹی وی ایک تو فارن میں مقبول ہو رہا تھا، دوسرے اس کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔

    ڈاکو منٹری ’’بیٹیاں‘‘ کی شروعات رنا باالجبر کے اس مخصوص واقعے کی ڈرامائی تشکیل سے ہوئی جس میں اداکاروں نے فطری اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زنا باالجبر کے واقعاتی ارتقا کو بالکل حقیقی رنگ دے دیا تھا۔ کٹ ٹو کٹ نیلما کا چہرہ بھی نمایاں ہوتا اور دو زانیوں کا بھی۔ سڑک کے کنارے بوسیدہ فراک میں ملبوس ہاتھوں میں پھولوں کا بہت سارا گلدستہ لئے ایک نوجوان ہوتی ہوئی لڑکی، نیم اندھیرا، سڑکوں پر کاروں اور سواریوں کے آنے جانے کا منظر، سڑک کنارے کھڑی نیلما کے سامنے ایک چمچماتی ہوئی کار رکنا، ایک ہاتھ کا کھڑکی سے نکل کر اشارے سے بلانا، اندر کا منظر، تین جوان لڑکے، پچھلی سیٹ پر دو اور ایک ڈرائیونگ سیٹ پر، نشہ سے چور، نیلما کا کار کی کھڑکی تک آنا ایک گلدستہ بڑھانا، ایک لڑکے کا اس کے جسم کو ٹٹولتے ہوئے دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنا۔ ڈرائیونگ سیٹ والے کا کار سے باہر نکلنا اور نیلما کے پیچھے آکر کھڑا ہو جانا، پچھلی سیٹ کے دروازہ کا کھلنا اور ڈرائیونگ سیٹ والے کا نیلما کو کار کے اندر دھکیلنا۔ اندر کا منظر ، نیلما دونوں لڑکوں کی گرفت میں چھٹپٹاتی ہوئی اور تینوں کے جنونی قہقہوں کی گونج۔ ہال میں بیٹھے سامعین اس ری کنسٹرکشن کو دیکھ کر اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے، ونڈر فل کی آوازیں ہال میں کئی بار گونجیں۔ واقعات کی تشکیل میں آگے کار کا ایک سنسان سڑک پر رکنا اور تینوں لڑکوں کا یکے بعد دیگرے نیلما کے جسم کی دھجیاں بکھیرنے کا عمل کچھ علامتی انداز میں اور کچھ کھل کر دکھایا گیا تھا، ہال میں سامعین تالیاں بجا رہے تھے۔ آخر میں لڑکوں نے بیہوش نیلما کی گردن دبا کر ڈھلواں اور پتھریلی زمین پر لڑھکا دیا تھا۔

    ’’بیٹیاں‘‘ کادوسرا حصہ نیلما کا گھر اور اس کی بستی کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس میں نیلما سے مکالمہ اور اس کے ردعمل پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ اس پوچھا گیا کہ جب اس کے ساتھ یہ سب ہو رہا تھا تو وہ کیا محسوس کر رہی تھی؟ نیلما جب خاموش رہی تو انکر نے پوچھا کہ کیا اسے غصہ آ رہا تھا؟ نیلما کوئی واضح جواب نہیں دے پائی، صرف سر ہلا کر رہ گئی۔ انکر نے نیلما کی بات اپنی زبان میں کہی کہ اسے غصہ آ رہا تھا۔ نیلما نے ہاتھ اٹھایا، پھر کہا نہیں اسے پتہ نہیں، وہ شاید بےہوش تھی۔ کارپوریریٹ میڈیا مینجر نے الیاسی سے جھک کر کہا، نیلما کے اس اسٹیٹ منٹ کو ڈیلیٹ کرو، اس سے ڈاکو منٹری کا فلو متاثر ہو رہا ہے۔ الیاسی سر ہلا کر رہ گیا، اس کے اندر خواہ مخواہ لفظ سالا گونجنے لگا۔

    اس ڈاکومنٹری کا سب سے اہم حصہ زانیوں کا انٹرویو تھا۔

    جب پوچھا گیا کہ ان لوگوں نے ریپ کے بعد اپنے طور پر نیلما کو قتل کیوں کیاتو ایک نے کہا۔ ’’سالی نے تنگ کردیا تھا۔ بہت چھٹپٹا رہی تھی، میرا تو منہ بھی نوچ لیا۔ اگر وہ چپ چاپ رہتی تو ہم اسے نہیں مارتے، پیسے دے کر گھر بھیج دیتے۔‘‘ ہال میں دبی دبی ہنسی کی آواز ابھری۔ میڈیا مینجر روبی شرما کے کندھے پر ہاتھ مار کر بولا، ’’ویری نائس۔‘‘

    دوسرے مجرم نے انٹرویو کے دوران انکر کو اطلاع دی۔ ’’ارے تم نہیں جانتی ،یہ جھونپڑ پٹی والیاں سالی رنڈی ہوتی ہیں، یہ تو اپنی مرضی سے دھندا کرتی ہیں۔ یہ بھی تو جوان ہو چکی تھی، کتنوں کے ساتھ سوئی ہوگی۔ ہم نے کیا تو سالے این جی او نے اندولن چلا دیا اور یہ این جی او والے کم حرامی ہیں کیا؟ بہت لوگوں کو جانتا ہوں، سیوا کے نام پر رنڈی خانے چلاتے ہیں۔‘‘ ہال میں جیسے لوگوں پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔

    انٹرویو کے دوران ایک مجرم نے ہاتھ ہوا میں لہرا کر اور نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹ کر سسکی لیتے ہوئے کہا۔ ’’لونڈی کو جھوٹ موٹ کا مائنر بتا کر ہمیں سزا دی گئی، سالی پوری جوان تھی۔ مجھے تو بچی کی عادت نہیں ہے، وہ جو مر گیا ہے وہ بچی کے چکر میں رہتا تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جب وہ لونڈیا ہماری کار کی کھڑکی کے پاس جھکی تھی تو اس کا سینہ ٹھیک ٹھاک جوان لڑکی جیسا تھا اور ریپ کے وقت بھی سب ٹھیک ٹھاک تھا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں وحشی کی چمک تھی۔ ہال میں بیٹھے کچھ لوگ خواہ مخواہ منہ چلانے لگے تھے، ایک دو نے بہت گہری سانس لی۔

    مجرموں سے لیے گئے انٹرویو میں زنا باالجبر کے واقعے کو اس طرح ابھارا گیا تھا جیسے کرکٹ کی لائیو کمنٹری ہوتی ہے۔ آخر میں یہ پیغام تھا کہ ہماری بیٹیاں آج محفوظ نہیں ہیں۔ وحشت کا بازار گرم ہے اور حکومت کو اس پر سخت کاروائی کرنی چاہئیے۔ زنا کے جرم میں پھانسی کی سزا دینی چاہئیے وغیرہ وغیرہ۔

    ڈاکو منٹری کی اس کلوز ڈور اسکریننگ کی خبر اخباروں میں آئی، پھر دوسرے چینل میں بھی یہ خبر دکھائی گئی۔ ایک اہم اخبار نے اس ڈاکو منٹری کی ٹرانسکرپٹ شائع کر دی۔ ڈاکو منٹری پر اعتراضات کا طومار بندھ گیا۔ الیاسی کا خیال تھا کہ یہ لیک میڈیا کارپوریٹ مینجر کی ایما پر کیا گیا تاکہ منفی ردعمل کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کی جائے۔ اس ڈاکومنٹری کے اس حصہ پر سب سے زیادہ اعتراض کیا گیا جس میں دونوں مجرموں کا انٹرویو تھا جس میں ریپ کے ایک ایک لمحہ کی تصویر اس طرح کھینچی تھی کہ مانو سب کچھ نظر کے سامنے ہو رہا ہو۔ کئی دنوں تک ہنگامہ ہوتا رہا لیکن دھیرے دھیرے معاملہ شانت ہونے لگا، منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈکاسنٹنگ نے کچھ کٹ کا مشورہ دیا اور آزادیٔ اظہار کے عظیم فلسفہ کی پاسداری میں براڈ کاسٹ کی اجازت دے دی گئی۔

    ’’بیٹیاں‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی، فارن میں اس ڈاکومنٹری نے تہلکہ مچا دیا اور اسے کئی عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ چینج ٹی وی کی ٹی آرپی آسمان کو چھو گئی۔ لیکن وقت گزرا اور مقبولیت کی گرد ایک بار پھر بیٹھنے لگی۔ کئی مہینے گزر گئے، بہزاد الیاسی کی بے چینی عود کر آئی اور ٹہلنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ دماغ میں سناٹا تھا اور کوئی نئی اسٹوری سامنے نہیں آ رہی تھی۔ ایک دن ایسے ہی سناٹے کی کیفیت میں میڈیا کارپوریٹ مینجر کی کال آئی۔ ’’الیاسی، ہاؤآر یو۔‘‘

    ’’فائین سر۔‘‘ اس نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا ’’گڈ۔ اچھا دیکھو ایک نئی اسٹوری پر کام شروع کرو۔‘‘

    ’’وچ اسٹوری سر۔‘‘

    ’’اولڈ وومین ریپ کیس، ایک مہینہ پہلے، راجندر نگر پاش علاقے میں، یاد ہے؟’’ وہ ساٹھ برس کی اولڈ لیڈی، مسز دیویانی شرما؟ ’’یس، رائٹ۔ گو آہیڈ۔‘‘ ’’لیکن سر اس پر کون کام کرےگا؟ آپ جانتے ہیں وہ۔۔۔‘‘ ’’یس، آئی نو وہ روبی شرما کی ماں تھی۔ تم کسی اور ڈاکومنٹری ایکسپرٹ سے بات کرو۔‘‘

    ’’سر۔‘‘

    ’’اور ہاں۔ اس ڈاکو منٹری کا نام ہوگا’’ مائیں۔ ’’اوکے۔ بائے۔‘‘

    بہزاد الیاسی بہت دیر تک سناٹے کے عالم میں کھڑا رہا، پھر اس نے نظریں گھمائیں، بیوی بیڈ پر سکون سے سو رہی تھی۔ اس نے ایک جھرجھری لی اور باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے