Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوئی کی نوک پر رکا لمحہ

حسین الحق

سوئی کی نوک پر رکا لمحہ

حسین الحق

MORE BYحسین الحق

    وہ تین:

    سائیکرا ٹوفل۔ بھرنتن تاؤ۔ اور شتمبیر

    اسٹیج پر بیٹھے ہیں۔

    اسٹیج کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ یا تو کھلا آسمان ہے اور آسمان کے نیچے کچھ بھی نہیں ہے، یاچاروں طرف سے بند ایسا ہال ہے جس میں ہوا آنے جانے کے لیے بھی کوئی سوراخ نہیں، یا شاید ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسری کیفیت ہو۔

    جس مقام کا تذکرہ ہے: وہاں سامعین کے بیٹھنے کی جگہ سب کرسیاں الٹی پڑی ہیں، میزیں الٹی ہیں اور تمام الٹی کرسیوں اور میزوں کا رخ اسٹیج کی مخالف سمت میں ہے۔

    ڈائس پر سائیکراٹوفل بھرنتن تاؤ اور شمبیر ایک دوسرے کی پشت سے پشت ملائے بیٹھے ہیں۔

    اس طرح کہ اگر دیکھنے والے ہوتے، تو یہ ان کی مخالف سمت میں ہوتے۔

    تینوں گفتگو میں مصروف ہیں۔

    بھرنتن تاؤ: اب روشنی ہونی چاہئے۔

    سائیکراٹوفل: کیا روشنی نہیں ہے؟

    شتمبیر: شاید ہے یا شاید نہیں۔

    بھرنتن تاؤ: (غصے میں) اب ہوش میں آجاؤ۔ فیصلے کی گھڑی قریب آپہنچی، ٹامک ٹوئیا مارنا تاریخی جرم ہے۔

    شتمبیر چپکے چپکے ہنستا ہے (جیسے رو رہا ہو)

    سائیکراٹوفل: نوکروں کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟

    بھرنتن تاؤ: ان کا تذکرہ بہرحال فضول ہے۔ انہیں بھر پیٹ کھانا مل رہا ہے اور اب رستہ چلتے کوئی کتا ان کا کھانا نہیں چھینتا۔ کیا اتنا کافی نہیں ہے؟

    شتمبیر: (سائیکراٹوفل کی طرف مخاطف ہوکر) اِدھر تم نے کیا کیا پڑھا؟

    سائیکراٹوفل: تم ایک اچھے شہری کب بنوگے؟

    شتمبیر: ترمیمات کا یہ طویل سلسلہ کیا تکلیف دہ نہیں ہے؟

    سائیکراٹوفل: (سرگوشی کے انداز میں) کچھ خبر نہیں۔۔۔ کچھ خبر نہیں۔۔۔ کچھ خبر نہیں۔۔۔‘‘

    اچانک سائیکراٹوفل بھرنتن تاؤ کی طرف مڑتا ہے اور بہت ہی تیکھے لہجے میں پوچھتا ہے، ’’اب تو سچ بول دو۔آخر ہمارا جرم کیا تھا؟‘‘

    شتمبیر: تبدیلی مکمل ہے؟

    بھرنتن تاؤ: (چونک کر اور گھبراکر کھرا ہوجاتا ہے اور شتمبیر کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے چیختا ہے) ’’تم۔۔۔ تم۔۔۔ تم کہیں وہی تو نہیں؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ ’’بولو، تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ (شتمبیر کو گلے سے پکڑ کر جھٹکا دیتا ہے) تم ہمارا باطن کھرچنا چاہتے ہو؟ تم نے کیوں کہاں؟ کیسے کہا؟ کیسے کہا تم نے؟‘‘ (غصے کی شدت سے کانپ رہا ہے اور شتمبیر کو جھنجھوڑے جارہا ہے)۔

    ’’سائیکراٹوفل جلدی سے دونوں کے بیچ آجاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ نہیں۔۔۔ یہ نہیں۔۔۔ ابھی اس کا موقع نہیں۔۔۔ ہم سب ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔۔۔‘‘

    شتمبیر سرگوشیوں میں بدبداتا ہے، ’’اس کا قصور نہیں۔۔۔ کوئی قصور نہیں۔۔۔ حالات۔۔۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔۔۔ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘ بھرنتن تاؤ ابھی تک ہانپ رہا ہے اور سرگوشی میں بول رہا ہے:

    ’’ہاں میرا واقعی کوئی قصور نہیں۔۔۔ ہم میں سے کوئی کسی کے بارے میں بھی یہ سوچ سکتا ہے۔۔۔ تم اگر ہو تو میرے اعتراف یا انکار سے بے پروا ہوکر جب جو چاہو، جیسے چاہو کرسکتے ہو۔۔۔ کیسا گھناؤنا ہے یہ سب کچھ۔۔۔ تعفن زدہ قابل نفرت۔۔۔ وقت اپنی ساری بے حیائی کے ساتھ اپنے آپ کو کتوں اور سوروں کی کوکھ سے جنمانے میں مصروف۔۔۔ فیصلوں کا یہ مضحکہ خیز ڈرامہ۔۔۔ کل ایک لڑکا صرف اس لیے غضب کا شکار ہوا کہ اس نے محلے میں بجبجاتے پیخانوں اور نالیوں میں لڑتے ہوئے سوروں کی لاشوں اور موتریوں کے تعفن سے بھرپور راستوں کا تذکرہ اپنے گھر سے باہر کردیا۔‘‘

    ایک طرف سے ایک نوکر اخبار لے کر آتا ہے اور سائیکراٹوفل فوراً اخبار کی طرف جھپٹتا ہے۔

    شتمبیر: کچھ نیا؟

    بھرنتن تاؤ: (مسکراتے ہوئے) ’’سب خیریت ہے‘‘

    سائیکراٹوفل: (دونوں کو دیکھتے ہوئے) جو کچھ ہے اس کے جاننے کا ذریعہ بھی وہی ہے جو نہیں ہے۔

    شتمبیر: (نوکر سے مخاطب ہوکر) تم کیسے ہو بھائی؟

    نوکر: (گھبراکر اور گھگھیانے کے انداز میں ہکلاکر)۔۔۔ ’’جی۔۔۔ ی۔۔۔ جج۔۔۔ جی سرکار؟‘‘

    سائیکراٹوفل: کوئی تکلیف؟ کوئی کمی؟

    نوکر: (جلدی سے) ’’نہیں سرکار۔۔۔ سب کھیریت ہے۔۔۔ بفاقی جمن بھی کھانا کھا لیہن۔‘‘

    سائیکراٹوفل: کھانے کے علاوہ کوئی ضرورت؟

    نوکر حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیتا ہے۔۔۔ جی۔۔۔ ی۔۔۔ ی۔۔۔؟

    بھرنتن تاؤ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوتا ہے اور چیخ اٹھتا ہے۔۔۔

    ’’نیچ، کمینے۔۔۔ بے حس۔۔۔ دور ہوجا۔۔۔ گٹ آؤٹ۔۔۔‘‘

    شتمبیر: چہار سمت پھیلے ہوئے معصوم جنہیں تم نیچ کہتے ہو، یہی دراصل ریڑھ کی ہڈی ہیں نیو کی اینٹ۔۔۔ محل کے کنگورے کی سلامتی ان کے وجود کی احسان مند۔۔۔ اس سورج کے نیچے پھیلی ہوئی اس بھری پری کائنات میں مختلف رنگوں زبانوں اور اوہام کے اسیر۔۔۔ یہ وہ شاہکار ہے جو ’’نہیں‘‘ہو کر بھی ’’ہے‘‘ کے دائرے کے مرکزی نقطے کے ناز کا سبب۔۔۔ مگر روزِ ازل سے یہی شعور سے محروم۔۔۔ کچھ محدود لوگوں نے ہمیشہ بھیڑ بکریوں کو جدھر چاہاہانکتے رہے۔۔۔ ہانکتے رہے۔۔۔ ہانکتے۔۔۔‘‘

    اچانک سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، چہرے پر شدید اندرونی کرب کی علامات، جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو، جیسے کچھ چاہ کر بھی کہنے پر قادر نہ ہو۔۔۔ رنگوں کی مختلف لہریں۔۔۔ چہرہ بدلنے لگتا ہے۔۔۔ کبھی ازل سے صلیب پر چڑھے کسی جھریوں بھرے بوڑھے کا عکس۔۔۔ کبھی خون کی طرح سرخ آفتاب کی تمازت کے نقوش۔۔۔ کبھی کچھ۔۔۔ کبھی کچھ۔۔۔‘‘

    بھرنتن تاؤ اس کے چہرے کے ان تمام انقلابات سے بےپروا، پورے کمرے کی زمین پر، ایک چھڑی سے، اپنی پوری طاقت کے ساتھ وار کر رہا ہے۔۔۔

    سائیکراٹوفل اس طرف منھ کرکے کھڑا ہے جدھر اگر سامعین ہوتے توبیٹھتے۔۔۔

    اچانک سائیکراٹوفل بولنے لگتا ہے:

    ’’یہ واقعی تمہارے اسٹیج پر سے غائب ہونے ہی کا عہد ہے، تمہارا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟ آلسی، بے شرم، ان پڑھ، بے حس، بےعقل۔۔۔ کل جب تم تھے تب بھی تم نہیں تھے، تمہارے دماغ میں تو ہمیشہ سے بھونسہ بھرا رہا۔۔۔ تم جو نہیں ہو، سن سکو تو سنو کہ یہاں ایک تو اپنے ہی جذبات کی شدت کا شکار ہے، اس کی جذباتیت کا سدا یہی عالم رہا کہ یہ شروع تو ہوتا ہے پوری طاقت، توجیہہ، تیقن اور دلیل کے ساتھ لیکن کچھ ہی دور چل کر رنگوں کا قیدی بن جاتا ہے، یہ اس کی پوری قوم کا المیہ ہے۔۔۔ یقین کا فقدان، دلیل کا بحران، تشکیک کی بہتات۔۔۔ یہ بڑھ ہی نہیں سکتا۔۔۔ دوسرا شعلہ جوالہ، اپنی آگ کا خود شکار۔۔۔ احساسِ برتری کا اسیر، قاضی جی کیوں بدلے؟ شہر کے اندیشے سے۔۔۔ ہر عمل کا اپنے کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔۔۔ باقی باہر سب ذلیل و ذلہ خوار۔۔۔ نوکروں کی فوج۔۔۔ تمہارے ذہنی رشتہ دار۔۔۔

    اچانک بھرنتن تاؤ پلٹتا ہے اور اپنی مضبوط چھڑی سے ایک بھرپور وار سائیکراٹوفل پر کرتا ہے، سائیکراٹوفل بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بچ نہیں پاتا اور بھرنتن تاؤ اس کے سنبھلتے سنبھلتے تابڑ توڑ بے تحاشہ چھڑی مارتا ہے۔۔۔ سائیکراٹوفل نہ چیختا ہے نہ چلاتا ہے۔۔۔ کچھ دیر بچنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔پھر بےہوش ہوکر گر پڑتا ہے۔

    بھرنتن تاؤ کچھ دیر تک سائیکرا ٹوفل کو دیکھتا رہتا ہے، پھر اس پر تھوک کر آگے بڑھ جاتا ہے اور ناظرین کی گیلری کی طرف مخاطب ہوکر زور زور سے کہتا ہے:

    ’’پچھلی متعدد گہری اندھی راتوں سے یہی تماشا جاری ہے،آج جو کچھ ہوا، اس میں سے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔۔۔ تمٍ! گدھوں کی اولاد۔۔۔ تم کو نہ کل کچھ معلوم تھا نہ آج۔۔۔ نعرہ لگا کر گھر میں گھس جانے والے بزدلو! ایک مثال نہیں کہ ان نے جو آج باہر نہیں ہیں، اور اُن نے جو آج باہر ہیں، کسی نے بھی سامنے آکر مقابلہ کیا ہو، تم بھی مقابلے پر نہیں آسکتے۔۔۔ وہ دور گزر گیا جب کلکتہ میں تالاب کے چاروں طرف محاصرہ رہتا تھا اور تالاب کے اندر لڑکے اور لڑکیاں رات رات بھر جاڑے کی ٹھٹھرتی راتوں میں اس حصار میں بزدلانہ مفاہمت کے بجائے ڈبکیاں لگایا کرتی تھیں۔۔۔ تم۔۔۔ اخ تھو۔۔۔ تھو۔۔۔‘‘

    حاضرین کی صفوں کی جانب زور زور سے تھوک پھینکتا ہے۔

    شتمبیر آہستہ آہستہ نارمل ہوتا ہے اور بے ہوش سائیکراٹوفل کی پیشانی سے رستا خون دیکھ کر بھرنتن تاؤ کی طرف مڑ کر کہتا ہے۔۔۔ ’’رویے کی یہ بےمعنویت تمہارے لیے ستم قاتل بن سکتی ہے دوست!‘‘

    بھرنتن تاؤ: (قہقہہ لگاکر) ’’ہاہاہا۔۔۔ پھر تم نے توجیہہ تیقن اور دلیل کا ریکٹ چلایا؟ شتمبیر کچھ جواب نہیں دیتا، کچھ دیر تک سائیکراٹوفل کو دیکھتا رہتا ہے، پھر آہستہ سے ناظرین کی گیلری کی طرف پلٹتا ہے۔۔۔ کچھ دیر اُدھر دیکھتا ہے۔۔۔ اور پھر بھرنتن تاؤ کی طرف مڑتا ہے:

    شتمبیر: یہ گیلری کب تک خالی رہے گی؟

    بھرنتن تاؤ: جب تک یہ مضحکہ خیز ڈرامہ جاری ہے۔

    شتمبیر: یا جب تک یہ گیلری خالی ہے، یہ مضحکہ خیز ڈرامہ بھی جاری رہے گا؟

    بھرنتن تاؤ چونک کر شتمبیر کی طرف دیکھتا ہے اور دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

    شتمبیر آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا ہوا اسٹیج سے نیچے اترکر دیکھنے والوں کی گیلری کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ بھرنتن تاؤ پھٹی پھٹی آنکھوں سے شتمبیر کی طرف دیکھ رہا ہے۔۔۔ چہرہ اندرونی کرب کا مظہر۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اپنے اعمال پر خود قادر نہیں۔۔۔ شتمبیر کی طرف رخ کرکے منھ کھولتا ہے مگر آواز نہیں نکلتی۔۔۔ پورا منہ پھاڑ دیتا ہے لیکن آواز غائب۔۔۔ بڑی مشکل سے پھنسی پھنسی دبی دبی آواز نکلتی ہے۔۔۔ شتمبیر۔۔۔‘‘ شتمبیر آگے بڑھتے بڑھتے رک جاتا ہے، پلٹ کر بھرنتن تاؤ کی طرف دیکھتا ہے اور مسکراکر کہتا ہے:

    ’’ایک بے چین سور ایک پرسکون سقراط سے بہتر ہے بھرنتن تاؤ!‘‘

    پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔۔۔ کچھ دور چل کر پھر رکھتا ہے، اور پلٹ کر کہتا ہے:

    ’’فیصلے کی گھڑی قریب آپہنچی، ٹامک ٹوئیاں مارنا تاریخی جرم ہے‘‘

    بھرنتن تاؤ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا ہے جیسے زمین نے اس کے پیر پکڑ لیے ہوں۔۔۔ لیکن چہرہ اندرونی کرب کا مظہر ہے۔۔۔ شدید تکلیف کے آثار نمایاں۔۔۔ کبھی (شاید شتمبیر کو آواز دینے کے لیے) منھ کھولتا ہے، پھر بند کرلیتا ہے۔۔۔ پھر کھولتا ہے۔۔۔ پھر بند کرلیتا ہے۔۔۔ کبھی ذرا سا ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور پھر جلدی سے پیچھے کھینچ لیتا ہے۔۔۔‘‘

    سائیکراٹوفل بے ہوش پڑا ہے۔

    شتمبیر ناظرین کی گیلری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    ناظرین کی گیلری خالی ہے، سب کرسیاں ٹیبل اور میزیں الٹی پڑی ہیں۔

    اور۔۔۔

    اور اسٹیج کی کیفیت جیسی تھی ویسی ہی ہے۔۔۔!

    مأخذ:

    سوئی کی نوک پر رکا لمحہ (Pg. 135)

    • مصنف: حسین الحق
      • ناشر: تخلیق کار پبلیشرز، دہلی
      • سن اشاعت: 1997

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے