Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سراغ رساں

قاضی عبدالغفار

سراغ رساں

قاضی عبدالغفار

MORE BYقاضی عبدالغفار

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے داروغہ کی کہانی ہے، جو بغیر لاش ملے ہی زمیندار کے قتل کی جانچ کر ڈالتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے زمیندار کے نوکر کو گرفتار کرتا ہے اور پھر ان لوگوں کے خلاف وارنٹ نکلواتا ہے جن پر اسے شک ہوتا ہے۔ اس میں ایک طوایف بھی شامل ہوتی ہے۔ جب وہ طوایف کو گرفتار کرنے جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ہفتہ پہلے زمیندار صاحب کے ساتھ بمبئی چلی گئی ہے۔

    اکتوبر کے مہینے کی ۶ تاریخ تھی اور سال تھا ۱۸۸۵ء۔ ۸۵ نہ ہوگا تو ۸۶ء ہوگا۔ غرض تھے گلابی جاڑے۔ ایک فرد کی سردی تھی، صبح صبح تھانہ میں بھنگی جھاڑو لگا رہا تھا اور داروغہ جی برآمدہ میں اپنے پلنگ پر آدھے لیٹے آدھے بیٹھے، حقہ پی رہے تھے۔ منہ ان کا ابھی باسی تھا۔ رات کے جمع شدہ چیز ہنوز آنکھوں کے کویوں میں جمع تھے۔

    ایک شخص بھاگا ہوا آیا،

    ’’سلام داروغہ جی! غضب ہو گیا داروغہ جی، غضب ہو گیا سرکار!‘‘

    ’’ابے غضب کے بچے کچھ کہتا بھی ہے یا خواہ مخواہ چیخے جاتا ہے۔‘‘ داروغہ جی نے چڑ چڑاکر فرمایا۔

    ’’داروغہ جی بڑا بھاری قتل ہو گیا۔ ہمارے میاں کو کسی نے مار ڈالا۔۔۔ ہائے۔ ہائے!‘‘

    ’’کون ہے تیرا میاں، ابے کس نے مار ڈالا، صاف صاف سیدھی سیدھی بات کر، ورنہ دوں گا ایک لات!‘‘

    ’’اجی سرکار! ہمارے میاں خداداد خاں زمیندار پتوکھیڑہ کل شام تو اچھے خاصے تھے اور اب کمرہ کے دروازہ بند ہے۔ پکارتے پکارتے میں تھک گیا۔ دروازہ پیٹا، آوازیں دیں، گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔‘‘

    ’’ابے کہرام سے ہمیں کیا کام، مرغی کے، یہ بتا وہ رات گئے کہاں تھے؟‘‘

    ’’کہیں نہیں سرکار۔۔۔ اب سرکار کو تو معلوم ہی ہے۔ ان کا آنا جانا موہنی طوائف کے یہاں تھا۔ وہیں سے شام کو واپس آئے تھے۔ بس پھر تو کہیں گئے نہیں۔ وہ تو داروغہ جی اچھے خاصے تھے۔ ہائے ہائے۔ یہ کیا ہو گیا۔ ہائے ہائے۔‘‘

    ’’سن بے حرامزادہ! جو پوچھوں وہ بتا۔ بک بک کرے گا تو ابھی منھ ٹیڑھا کر دوں گا۔ ہاں، بتا اب، کس نےقتل کیا ان کو۔۔۔ ٹھیک ٹھیک بتا۔‘‘

    ’’اے لو! سرکار، بھلا مجھے کیا معلوم؟ یہ تو سرکار آپ ہی معلوم کریں گے۔‘‘

    ’’کیوں بے! ہم تیرے باپ کے نوکر ہیں۔ ہم معلوم کریں گے اور تو نہ بتائےگا۔ بتا، بول۔۔۔ نہ بتائےگا؟ اٹھوں پھر میں؟‘‘

    ’’سرکار! اولاد کی قسم مجھے معلوم نہیں۔‘‘

    ’’اولاد کا جنا! حرامی سالا۔۔۔! ارے کوئی ہے، ذرا لے تو جاؤ اس اولاد کے جنے کو حوالات میں! ان حرامزادہ کو یہ تو خبر ہے کہ ان کے آقا صاحب قتل کر دیے گئے۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ کس نے قتل کیا۔۔۔ ہم سے پوچھتا ہے سالا۔۔۔ ہم ان کو بتائیں۔۔۔ لینامنشی جی! ذرا تھوڑی سی ٹھکنتی تو کر ڈالو۔ باز خان کے سپرد کر ڈالو۔ وہ اس کا مزاج درست کر لیں گے۔۔۔‘‘

    مقتول زمیندار صاحب کے دروازہ پر کانسٹیبل ٹہل رہے ہیں۔ داروغہ جی وردی پہنے پیٹی لگائے محلہ کے لوگوں کے بیانات لے رہے ہیں۔

    ’’ہاں تو مقتول شراب بہت پیتا تھا۔ موہنی طوائف سےاس کا تعلق تھا؟ اور بیوی سے کس بات پر جھگڑا ہوا کرتا تھا؟ بتاؤ جی، صاف صاف کہو۔۔۔ ہاں! تو وہ موہنی کے گھر سےشام کو کس وقت آیا تھا۔ تم نے واپس آتے دیکھا، کوئی سات بجے کے قریب، ٹھیک! پھر تم سے کچھ بات کی تھی؟ بات نہیں کی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے، جھوٹ مت بکو۔ سچ سچ بات کہو۔ شراب پئے ہوا تھا۔ نشہ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔ پھر تم سے بات کیوں نہیں ہوئی؟ نشہ کی حالت میں تو ضروربات ہونی چاہیے تھی۔۔۔ جھوٹے ہو تم۔۔۔ بکواس نہ کرو۔۔۔ یہ کیا بھید ہے کہ تم نے اس سے بات نہیں کی۔ اچھا مان لیا کہ اس نے بات نہیں کی۔ مگر تم نے بات کیوں نہ کی؟ تمہیں سانپ سونگھ کیا تھا؟ تمہاری زبان کو دیمک چاٹ گئی تھی؟ کیوں جی؟ نہیں بتاؤگے؟ اچھا مجھے بھی دیکھا ہے ٹیڑھی انگلیوں سے صاف گھی نکال لیتا ہوں۔ ہونہہ! جمعدار ذرا لے جاؤ اس بدمعاش کو حوالات میں۔۔۔ ہم آتے ہیں۔ ابھی۔۔۔‘‘

    اب داروغہ جی نے موقعہ کا معائنہ شروع کیا۔

    دوسری منزل پر وہ کمرہ تھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ باہر کی طرف ایک کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ داروغہ جی نے بہت غور سے اس کو دیکھا،

    ’’اگر کوئی گھر کا آدمی نہیں ہے تو وہ ضرور ادھر سے چڑھ کر داخل ہوا اور ادھر ہی سے نکل گیا۔ ذرا دیکھنا باہر کی دیوار پر کوئی نشان تو نہیں ہے۔‘‘

    دیوار پر نشان بہت تھے۔ لمبے، سیدھے، گول ہر قسم کے نشان تھے۔

    ’’اچھا اب دیوار کے نیچے زمین پر دیکھو۔‘‘ ڈبیا میں سے پان نکال کر کھاتے ہوئے داروغہ جی نے ہدایت فرمائی۔ بارش ہو چکی تھی، نرم زمین پر انسان اور جانور کے قدموں کے سینکڑوں نشانات موجود تھے۔

    ’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ رات میں ادھر سے آیا۔ ادھر ہی سے آیا۔ ادھر سے نہ آیا تو پھر کدھر سے آیا (داروغہ جی نے حاضرین کی طرف نظر کرکےاس سوال پر زوردیا کہ گویا کسی نےان کی رائے پر اشتباہ ظاہر کیا ہے) بیشک ادھر سے آیا! مگر چڑھا کیسے؟‘‘

    ’’جی صاحب، چڑھنے کا کیا ہے، چڑھ گیا ہوگا۔ رسی باندھ کر، بانس رکھ کر۔‘‘ ایک محلہ والے نے لقمہ دیا۔۔۔

    ’’پاگل ہو‘‘ داروغہ جی نے جھڑکا ’’کہیں قیاسات سے سراغ رسانی کی جاتی ہے۔ پکے نشانات اور اشارے ملنے چاہئیں۔ اچھا اب دیکھو یہاں قریب کوئی سیڑھی موجود ہے یا نہیں؟‘‘

    ’’زمیندار صاحب کے اصطبل میں ایک بانس کی سیڑھی رکھی ہوئی ملی۔‘‘

    ’’ہاں۔ اب دیکھو بات سمجھ میں آئی۔ کھڑکی کھلی ہوئی، دروازہ اندر سے بند۔ دیوار پر نشان۔ سیڑھی موجود۔ قاتل کاراستہ معلوم ہو گیا!‘‘ داروغہ جی نے خاص طور پر ان صاحب کی طرف نظر کرکے فرمایا جنہوں نے رسی اور بانس کا ذکر کیا تھا۔

    ’’کھڑکی کھلی ملی ہوگی۔ قاتل اندر گھس آیا ہوگا۔ بھئی مقتول تو ہمیشہ کے بےفکر تھے ہی۔ ہم تو جانتے تھے۔ کسی دن یہ حشر ہونے والا ہے۔ عیاشی۔ شراب خواری۔ بری صحبت۔‘‘

    ناصحانہ انداز میں داروغہ جی نے اپنے شانے ہلاکر افسوس کا اظہار فرمایا۔ ’’کیوں شیخ جی! میں کچھ غلط کہتا ہوں؟ سیدھے سیدھے چلتے تو آج اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوتے۔ اب مرے پڑے ہیں۔ بھائی خدا بچائے!‘‘

    ’’ہاں صاحب خدا بچائے۔‘‘ محلہ والوں نے آواز میں آواز ملائی۔

    ’’ارے میاں! ہم سے کیا کہتے ہو۔ ہم تو روز ایسے سینکڑوں تماشے دیکھا کرتے ہیں۔‘‘

    کمرہ کے دروازہ میں باہر سے قفل لگاکر مہر کردی گئی۔ کھڑکی کے نیچے ایک کانسٹیبل مقرر کیا گیا اور داروغہ جی محلہ والوں کو سمیٹ کر تھانہ میں آ گئے۔ چلتے وقت مقتول کے کسی عزیز نےمقتول کی لاش اور کفن دفن کاکچھ ذکر کیا۔ داروغہ جی پل پڑے ’’ارے میاں، کچھ قتل بھی ہے۔ ابتدائی تحقیقات تو ہو لینے دو۔ ابھی تو جناب میں لاش کو ہاتھ بھی نہ لگانے دوں گا۔ ایسی گھبراہٹ کیا ہے۔ آخر کفن دفن تو ہونا ہی ہے۔اب نہیں، دس گھنٹہ بعد سہی۔‘‘

    یہ کہہ کر داروغہ جی۔ داروغہ جی کے پیچھے چھ کانسٹیبل۔ کانسٹیبلوں کے پیچھے محلہ والے، محلہ والوں کے پیچھے محلہ کے لونڈے اور محلہ کے لونڈوں کے پیچھے محلہ کے دو تین کتے۔

    تحقیقات کی پہلی منزل ختم ہوئی۔

    کھانا کھاکر، حقہ پی کر، داروغہ جی نے تھوڑا سا قیلولہ کیا۔ اس کے بعد پھر اپنی جھبے دار پگری سر پر رکھ کر معائنہ موقع فرمانے کی غرض سے نکلے۔ مکان کے چاروں کونوں پر کانسٹیبل کھرے تھے۔ کمرہ کے داروازہ کا تالا داروغہ جی نے خود کھولا۔ آگے آگے وہ۔ ان کے پیچھے جمعدار صاحب کمرہ میں داخل ہوئے۔

    ’’دیکھو جمعدار۔ کوئی اندر نہ آنے پائے۔ نوجوان افسران اکثر یہی تو غلطی کرتے ہیں کہ روک ٹوک نہیں کرتے۔ لوگ موقع واردات پر جمع ہو جاتے ہیں اور جرم کے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ کسی کو مت آنے دو۔‘‘

    یہ حکم دے کر داروغہ جی نے تفتیش کی دوسری منزل میں قدم رکھا۔

    کمرہ کی حالت یہ تھی،

    دروازہ پر میلے ململ کے پردے۔ فرش پر ایک پرانا قالین۔ ایک کونے میں کھڑکی کے پاس ایک مسہری جن کے پردے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے۔ بستر کی چادر و تکیہ کے غلاف میلے۔ ایک کونے میں جوتوں کے چند جوڑے۔ ان پر گرد جمی ہوئی۔ مسہری کے پاس ایک چھوٹی میز پرایک گلاس اور راکھ دانی۔ فرش پر سگریٹوں کے بہت سےٹکڑے تھے۔

    داروغہ نے بہت احتیاط کے ساتھ بستر کی لٹکتی ہوئی چادر کواٹھاکر مسہری کے پیچھے جھانکا۔ وہاں دس بارہ وسکی کی خالی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں اورایک دو ٹوٹے ہوئے گلاس۔ پھر داروغہ جی نے کھڑکی سے جھانکا۔

    ’’بہت اونچی ہے۔ ضرور سیڑھی لگائی ہوگی۔ دیکھو جمعدار انگلیوں کے نشانات۔ادھر دیکھو۔ ان کیواڑوں پر۔ ان کا فوٹو لینا ہوگا اور یہ بوتلیں بھی سب تھانے لے جاؤ اوریہ ٹوٹے ہوئے گلاس بھی اور یہ راکھ دانی بھی اور۔۔۔ یہ تو دیکھو۔ قالین پر یہ دھبہ کیسا ہے؟ ہے تو سرخی مائل۔ تعجب نہیں کہ خون کا دھبہ ہو۔ اس کو بھی لے جاؤ تھانہ۔

    ’’مگر‘‘ جمعدار نے کہا ’’سرکار مقتول کی لاش کہاں ہے؟‘‘

    ’’توبہ! عجب گھونگے ہو۔ جو بات آدمی کی سمجھ میں نہ آئے۔ اس کا کہنا کیا ضرور ہے۔ پہلے قاتل کا کھوج تو لگاؤ۔ مقتول کی لاش بھی مل جائےگی اور اگر نہ بھی ملے تو بھی قتل تو قتل ہے۔ ابھی تو زندہ پکڑو۔ مردہ تو مردہ ہے اس کی فکر پھر کر لینا۔۔۔ سمجھے؟‘‘

    داروغہ جی نے بہت پرمعنی لہجہ میں کہا ’’سمجھے؟‘‘

    ’’لیکن سرکار!‘‘ بےعقل جمعدار نے پھر کہا ’’اگر قتل اسی کمرہ میں ہوا، تو پھر لاش کہاں گئی؟‘‘

    ’’اونہہ! کیا کوڑھ مغز ہو اور بھائی۔ قتل ہوا۔ یہ تو مانتے ہونا کہ قتل ہوا۔ اچھا اب یہ بھی مان لیا کہ اسی کمرہ میں ہوا، بہتر! اب یہ بتاؤ کہ قاتل کہاں گیا؟ قاتل اگر مل گیا تو مقتول کی لاش کا بھی پتہ مل جائےگا اور وہ نہ ملا تو پھر لاش ملے یا نہ ملے۔ سب یکساں ہے! بھائی میرے! ان باتوں کے سمجھنےکے لیے تجربہ چاہیے، تجربہ۔۔۔! یاد نہیں۔ پچھلے سال اس سوداگر کا قتل! لاش کو قاتل کہاں سے کہاں لے گئے تھے۔ اب تو جمعدار تم یوں سمجھ لو کہ ارتکاب جرم تو ہوا۔ لاش نہیں ہے نہ سہی البتہ یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ اگر لاش اس کمرہ میں نہیں تو قاتل ایک آدمی نہ تھا۔ کم از کم دو ہوں گے جو لاش کو اٹھاکر لے گئے۔۔۔ یہ دیکھو یہ کیا ہے تکیہ پر خون کا نشان۔۔۔ اگر تکیہ پر خون کا دھبہ ہے تو سمجھ لو کہ سوتے میں قتل کیا گیا۔ اچھا تو اٹھاؤ یہ تکیہ بھی لو، لے چلو تھانہ کو۔‘‘

    ’’اس بوٹ کے تسمے کہاں ہیں؟‘’ ایک جوتے کو ٹھوکر مار کر داروغہ جی نے فرمایا۔۔۔ ’’دونوں تسمے نکال لیے گئے ہیں۔۔۔ اس سے کیا پتہ چلتا ہے، کچھ سمجھے جمعدار؟‘‘ پھر جمعدار کے جواب کا انتظار کیے بغیر ’’اگر یہ خون کے دھبے خون کے دھبے نہیں ہیں، تو اغلب یہ ہے کہ جوتوں کے تسموں سے گلا گھونٹا گیا ہے۔۔۔ یہ ذرا دور کی کوڑی۔۔۔‘‘ داروغہ جی مسکرائے! ’’کیوں جمعدار۔۔۔ ہے پتے کی بات؟‘‘

    اتنے میں پولیس کے ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لے آئے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوئے جیسے ٹہلتے ہوئے کلب میں جارہے ہیں۔ ایک اخبار ان کے ہاتھ میں تھا۔

    ’’ارے میاں داروغہ جی، سنا تم نے؟ سرحد پر جنگ شروع ہو گئی۔ بھئی یہ سرحدی پٹھان بھی بلائے بے درماں ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ سرحد کی طرف فوجیں جا رہی ہیں۔۔۔ اب پھر چلےگی کچھ روز۔۔۔‘‘

    داروغہ جی کو نہ سرحد کی جنگ سے کوئی دلچسپی تھی نہ سرحد کے پٹھانوں سے۔ انہوں نے سنی ان سنی کرکے کہا،

    ’’ڈاکٹر، دیکھو تو قالین پر یہ خون کا دھبہ ہے نا؟‘‘

    ڈاکٹر صاحب نے جیب سے عینک کا خانہ نکالا۔ خانہ میں سے عینک نکالی۔ پھر جیب میں سے رومال نکالا۔ رومال سے عینک کے دونوں شیشے صاف کیے۔ اس کے بعد ناک کی نوک پر عینک کی کمانی رکھ کر قالین کی طرف متوجہ ہوئے۔

    ’’دھبہ تو ضرور ہے کچھ سرخی مائل بھی ہے۔ خون ہی ہوگا۔ ممکن ہے خون ہو۔ معلوم تو خون ہی ہوتا ہے۔ خون ہے۔ ضرور خونہی ہے۔ سنا تم نے۔ داروغہ۔ یار ہماری چھاؤنی سےبھی فوج جانے والی ہے اور جو کہیں ہم کو بھی حکم مل گیا تو ہوگی بڑی کوفت اور بے لطفی۔‘‘

    ’’اچھا فرض کرو‘‘ داروغہ جی نے جمعدار کو مخاطب کرکے کہا ’’فرض کرو یہ خون ہے تو پھر گویا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقتول کو دو طرح قتل کیا گیا۔ پہلے چھری یا کسی آلہ دھار وار سے اور پھر دی گئی پھانسی، جوتے کے تسموں سے، یا یوں ہوا کہ پہلے پھانسی دی پھر چھری بھونک دی! اور نہیں تو پھر یا خون کا دھبہ غلط یاجوتے کے تسموں والی بات!‘‘ اس طرح داروغہ جی نے گویا اپنی قطعی رائے ظاہر فرمائی۔

    ’’اور اگر دونوں باتیں غلط نہ ہوئیں، نہ تسمے، نہ پھانسی، پھر۔۔۔ ارے یار چل بھی یہاں سے۔ بس ہو گئی تفتیش کامل۔ سنتے ہیں کہ گاندھی جی نے اپنے آشرم کا سارا گھروندا توڑ ڈالا۔ ارے یار۔ یہ تو کچھ عجب آدمی ہے۔ گاندھی۔ بھئی واہ!‘‘

    ’’افوہ! بکے جاتے ہو‘‘ داروغہ جی جھنجلا گئے۔۔۔ ’’معاملہ کو الجھاؤ مت، سلجھاؤ، تفتیش کا یہی بنیادی اصول ہے۔‘‘

    اپنی اخبار بینی کی داد داروغہ جی سے نہ پاکر ڈاکٹر صاحب نے عینک اتار کر اس کے خانہ میں رکھ لی اور خانہ جیب میں اور یہ فرماتے ہوئے چل دیے،

    ’’اچھا یار شام کو آئیں گے۔ لاش کا پتہ چل جائے تو ہمیں بلا لیجو۔‘‘

    ’’اس صندوقچی کو دیکھو۔ اس میں کیا ہے؟ گھڑی پرانی معلوم ہوتی ہے۔ ۱۲ روپے، ایک انگشتری، لو تو بس (جمعدار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا) یہ الجھاؤ تو سلجھ گیا۔۔۔ قتل کی غرض چوری نہ تھی۔ مال موجود ہے۔ اب اگر قتل کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے تو دشمنی!‘‘

    داروغہ جی نے خالص منطقی استدلال فرمایا ’’یہ بات تو صاف ہے سمجھے جمعدار۔‘‘

    جمعدار نے سر ہلاکر اثبات کا اشارہ کیا۔ وہ اکثر اثبات ہی کا اشارہ کرنے کے عادی تھے!

    ’’اچھا جی! پتے کی باتیں تو سب معلوم ہو گئیں۔ اب ذرا دماغ پر زور دو۔ قاتل کون ہو سکتا ہے؟‘‘ داروغہ جی نے اب دوسرا نکتہ حل فرمانے کی کوشش شروع کی۔ جمعدار صاحب نے اپنی عقل کے پانسے پھینکنے شروع کیے۔

    ’’سرکار! مقتول کا کوئی دشمن ہی یقیناً اس کا قاتل ہے۔‘‘ جمعدار صاحب نے گویا یہ ایک بالکل نئی بات ڈھونڈ نکالی۔ پھر انہوں نے دشمنوں کی فہرست پیش کی۔

    ’’منولال بنئے سے بہت مقدمہ بازی ہو رہی تھی۔ میں نے سنا ہے کہ اپنے نوکر کو بھی۔۔۔ وہی جو اب حوالات میں ہے بہت مارا پیٹا کرتے تھے۔۔۔ کہتے ہیں کہ بیوی سے بھی ان بن رہتی تھی، موہنی طوائف کے معاملہ میں خان بہادر صاحب سے بھی لاگ ڈانٹ تھی۔ اب خدا ہی جانے سرکار، ان میں سے کس نے یہ کارروائی کی!‘‘ جمعدار صاحب گویا امکانات کے پورے میدان پر پھیل گئے!

    ’’اونہہ۔۔۔‘‘ داروغہ جی کے دل کو بات نہ چپکی۔۔۔ ’’تم تو جمعدار بے پر کی اڑانے لگے۔ ارے میاں، تک بندی سے کیا فائدہ، قدم قدم بڑھنا چایے۔ قاتل کا پتہ لگانے سے پہلے پتہ لگانے کے صحیح طریقہ کا پتہ لگانا چاہیے۔ یعنی یہ معلوم کرنا چاہیے کہ پتہ کس ذریعہ سے لگ سکتا ہے۔ ملازم کو تو میں نے بند کر ہی دیا۔۔۔ سالا پچاس جوتوں میں سب کھول دےگا۔۔۔ اور دو چار کو اور بند کر دوں۔۔۔ بس ان سب کا عرق نچور لیجیو۔۔۔ یہ نہیں کہ کاتا اور لے دوری۔۔۔ ہلکی آنچ پر تفتیش کی ہانڈی پکاؤ۔۔۔ ہاں جمعدار!‘‘

    ’’بجا ہے سرکار! پھر آپ کاتجربہ اور آپ کی عقل ہم جاہلوں، گنواروں کے پاس کہاں؟‘‘

    بارہ دن گزر گئے، مقتول کی لاش کا پتہ نہیں۔ قاتل بھی لاپتہ ہے۔ تفتیش جاری ہے اور داروغہ نے مسل مرتب کرلی ہے۔ شہادتیں تیار ہیں۔ ثبوت کے گواہ بھی تجویز ہو گئے ہیں۔ مجسٹریٹ سے گرفتاری کا وارنٹ مانگا جانے والا ہے۔ ہر چیز تیار ہے۔ درحقیقت سارا مقدمہ اور چالان تیار ہے۔ صرف خفیف سی کمی یہ رہ گئی ہے کہ ابھی قاتل کا پتہ نہیں چلا اور اس کے علاوہ غیراہم سہی، لیکن ایک کمی یہ بھی ہے کہ مقتول کی لاش کا پتہ نہیں۔ مشتبہ اشخاص کئی ہیں۔ بحث صرف یہ ہے کہ کس کے اور کتنوں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرایا جائے۔ رات کو داروغہ جی کھانا کھاکر اپنے بستر پر لیٹے ہیں، سامنےایک مونڈھے پر تھانہ کے ’’منشی جی‘‘ اور جمعدار بیٹھے ہیں۔ تینوں کے بیچ میں۔۔۔ اس تثیث کا مرکزی نقطہ۔۔۔ ایک حقہ رکھا ہوا ہے۔ گفتگو بہت رازدارانہ ہے۔

    ’’اجی، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ وارنٹ ہو جائے۔ کسی کے خلاف ہی ہو۔ مقدمہ تو عدالت میں آ جائے۔ ثبوت تو تیار ہو ہی جائےگا اور اس میں آسانی بھی بڑی ہے جو کوئی اپنے کو بے گناہ کہے گا وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرےگا۔ کردے ثابت۔ ہم اگر تین ملزم پیش کریں گے، ایک اگر بری ہوگا تو دو رہ جائیں گے۔ دو اگر بری ہو گئے تب بھی ایک تو رہےگا۔‘‘

    ’’اور اگر تینوں عدالت سےبری ہو گئے؟‘‘ منشی جی نے لقمہ دیا۔ عدالتی کارروائیوں کے متعلق داروغہ جی کے مشیر خاص منشی جی تھے۔

    ’’منشی جی تم بھی کیا باتیں کرتے ہو، تین ملزموں میں سے ایک بھی مجرم ثابت نہ ہو سکے؟‘‘

    دس دن اور گزر گئے۔ داروغہ جی نے تین ملزموں کے گرفتاری کے وارنٹ حاصل کر لیے۔ سب سے پہلے پولیس کی جماعت موہنی طوائف کے گھر وارنٹ کی تعلیم کرنےپہنچی۔

    ’’ارے کواڑ کھولو! کہاں ہے موہنی؟ کیا کہا، نہیں ہے؟ یہاں نہیں ہے تو کہاں ہے؟ چھپ کر کہاں جائےگی، حرامزادی، بمبئی گئی ہے، یہ نہ کہہ دیا حج کرنے گئی ہے۔ بتاؤ سالو! کہاں ہے ملزمہ، ہم سے بچ کر کہاں جائےگی سسری! یہ پولیس ہے پولیس ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے۔ ابھی حاضر کرو ملزمہ کو۔۔۔ نہیں تو۔۔۔‘‘

    ’’سرکار! وہ تو قسم خدا کی بیس پچیس روز سے یہاں نہیں ہیں۔ بمبئی گئی ہوئی ہیں۔‘‘

    ’’بمبئی کی ایسی تیسی۔ سچ بتاؤ کہاں چھپایا ہے۔۔۔ یوں نہبتائےگی۔ حرامزادی، چوٹی پکڑ کر لگاؤ تو ایک چانٹا۔ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں، مجھے بھی کوئی تماشبین سمجھا ہے، ناٹکہ جی! میں تھانہ دار ہوں۔ تھانہ دار۔ لینا جمعدار ذرا بڑھیا ڈہڈو کی خبر!‘‘

    داروغہ جی ایک بید کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے، سگریٹ منہ میں دبائے ٹہل رہے ہیں،

    ’’جیسی چاہو قسم لے لو داروغہ جی۔ موہنی یہاں نہیں ہے، ہاں کل آنے والی ہے۔ وہ بمبئی سےآج چلی ہوگی۔ ہزار گواہ پیش کر دوں گی۔ اس کو گئے تو بیس پچیس دن ہو گئے۔ کیوں استاد جی کہتے نہیں ہو، تم ہی تو اس کو پہنچانے اسٹیشن پر گئے تھے اور داروغہ جی آپ سے کیا پردہ ہے۔ آپ جاکر پوچھ نہ لیجیے، وہ تو خان صاحب کے ساتھ گئی ہے۔

    ’’کون خان صاحب، بتا حرامزادی کون خان صاحب، ہم نہیں جانتے کون خان صاحب، ملزمہ کو حاضر کر۔‘‘

    ’’ارے وہی خان صاحب۔ داروغہ میاں، انہیں کون نہیں جانتا؟ وہی ناپتو کیڑہ کے زمیندار۔ خداداد خاں۔۔۔ کیوں استاد جی، تم نے تو دونوں کو ریل میں سوار ہی کرایا تھا۔‘‘

    اس شب کو داروغہ جی نے اپنے روزنامچہ میں کیا کھپایا اور منشی جی نے کیا لکھا۔۔۔ ہمیں معلوم نہیں۔ تفتیش بہرحال نامکمل ہی رہی۔

    مأخذ:

    تین پیسے کی چھوکری (Pg. 79)

    • مصنف: قاضی عبدالغفار
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1934

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے