Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعلق

MORE BYنگار عظیم

    کمرہ اس وقت خالی تھا۔ اس نے آہستہ سے اپنا بیگ اٹھایا۔ باہر نکلنا ہی چاہتی تھی کہ وہ پھر نازل ہو گیا۔

    ’’ارے۔ کہاں جارہی ہو؟؟‘‘

    ’’جی۔۔۔ جی گھر۔۔۔ بہت دیر ہو جائےگی۔ یہ شبوا بھی تک نہیں آئی؟؟‘‘ اس نے بے چینی ظاہر کی۔

    ’’ہاں ہاں آ جائےگی۔ چلی جانا۔ میں گاڑی سے چھڑوا دوں گا۔ پانچ منٹ لگیں گے پہنچ جاؤگی۔ آؤ بیٹھو۔ کہاں رہتی ہو؟‘‘

    ’’نند نگری...‘‘

    ’’آؤ یہاں بیٹھو... یہاں...‘‘

    ’’اس نے ہاتھ پکڑ کر اس کو صوفے پر بٹھا دیا اور خود اس کے مقابل دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔

    ’’کون سی کلاس میں پڑھتی ہو؟‘‘

    ’’گیارہویں کلاس میں پڑھتی ہوں؟‘‘

    ’’کیا نام بتایا تھا تم نے اپنا؟‘‘

    ’’جی ملکہ!‘‘

    ’’ہاں ہاں ملکہ... ملکہ۔‘‘

    ’’شبو کہاں چلی گئی ابھی تک نہیں آئی۔‘‘ ملکہ نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے دھیمے لرزتے لہجے میں پوچھا۔

    ’’وہ تو چلی گئی۔‘‘

    ’’چلی گئی؟؟ مجھے چھوڑ کر؟؟... لیکن ابھی تو آپ کہہ رہے تھے وہ ابھی آ جائےگی۔ کسی کو چھوڑنے گئی ہے۔

    ’’ہوں...‘‘ وہ مسکرا رہا تھا۔

    ’’اور وہ... اس کا منگیتر؟؟... میرا مطلب محسن بھائی؟؟‘‘

    ’’وہ بھی گیا... وہ دونوں فلم دیکھنے گئے ہیں۔ آن ملو سجنا‘‘ اس مرتبہ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بڑبڑایا۔ ’’منگیتر۔

    ‘‘

    ’’جی... کیا کہا آپ نے...؟؟‘‘

    ’’کچھ نہیں...‘‘ وہ پھر مسکرایا۔

    ملکہ کی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کہہ رہا ہے۔

    ’’آ... آپ۔ مجھے کیوں روکنا چاہتے ہیں جب کہ میری دوست بھی چلی گئی ہے اور پارٹی بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’تمہیں معلوم نہیں... تم یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘

    ’’جی... جی نہیں... ہاں... جی... جی معلوم ہے۔‘‘

    ’’معلوم ہے۔ تو پھر گھبراہٹ کس لیے؟؟ دیکھو یہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی آئےگا۔ اطمینان رکھو۔‘‘

    ’’جی اسی لیے تو... کہ اب یہاں کوئی نہیں ہے۔

    ’’آپ کی امی کہاں ہیں؟‘‘ وہ اپنا ڈر چھپاتے ہوئی بولی۔

    ’’امی... میری امی پاکستان گئی ہوئی ہیں... والد بھی۔ وہ دونوں بہنیں جو ابھی مل کر گئی ہیں... ساجدہ اور شاہدہ

    میری چھوٹی بہنیں ہیں۔ بازار گئی ہیں... شاپنگ کرنے... اپنی شادی کی... آج کیا تاریخ ہے؟؟‘‘

    ’’تاریخ... جی گیارہ دسمبر۔‘‘

    ’’پندرہ دسمبر کی فلائٹ ہے۔ ہم تینوں کی... پاکستان جاکر ان دونوں کی شادی کرنا ہے... ایک چچا کے یہاں جائے گی اور ایک ماموں جان کے یہاں۔‘‘

    ’’جی اب میں چلوں۔ بہت دیر ہو رہی ہے۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’کیا چلوں چلوں... بیٹھو ابھی... آرام سے... ایسی بھی کیا جلدی ہے؟؟ موڈ بننے دو ذرا۔‘‘

    ’’جی کیا کہا؟‘‘

    ’’شبو تمہاری سہیلی ہے کیا؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’کب سے؟‘‘

    ’’اسی برس ہم دونوں نے گیارہویں میں ساتھ داخلہ لیا ہے۔‘‘

    ’’اس نے بہت کچھ بتایا ہوگا۔ میرے بارے میں۔‘‘

    ’’جی... نہیں تو... یہ بتایا تھا کہ آپ اس کے منگیتر کے اچھے دوست ہیں۔ شبو کے بھائی ہیں اور یہ پارٹی آپ نے انہیں دونوں کے لیے ارینج کی ہے... ان کی منگنی کی خوشی میں... بہت اچھی ہے وہ۔ میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔‘‘

    ’’کیا ہم اچھے نہیں؟‘‘

    ’’جی، میرا مطلب... جی آپ بھی اچھے ہیں۔ بہت ہینڈسم اور بہت اسمارٹ ہیں آپ۔ وہ جھجکتے ہوئی بولی۔

    وہ واقعی بہت وجیہ تھا۔ لمبا قد، کسرتی جسم، سانولا رنگ، تیکھے نقوش، گہری آنکھیں، شریفانہ انداز گفتگو۔ کوئی بھی لڑکی ایک نظر میں ہی اس پر فریفتہ ہو سکتی تھی۔

    ’’کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘

    اس کی نظروں سے بچنے کے لیے ملکہ نے یوں ہی سوال کر ڈالا۔

    ’’میں...‘‘ اس نے شہادت کی انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا۔ ’’محبت... لڑکیوں سے... اور وہ بھی خوبصورت لڑکیوں سے جو بالکل تمہاری طرح ہوں معصوم۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔

    ’’تمہارا کوئی دوست ہے؟؟‘‘

    ’’جی... دوست... میری کئی دوست ہیں۔‘‘

    ’’کوئی لڑکا بھی؟؟‘‘

    ’’لڑکا...؟‘‘ اس نے شرماتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

    وہ اس کے اور قریب آ گیا۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانے لگا۔ وہ تھوڑا الگ کھسک گئی۔ اپنے ہاتھوں کو اس کے ہاتھوں سے چھڑانے لگی۔

    ’’یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘

    ’’تمہارے ہاتھ بہت نرم و نازک ہیں۔ انہیں دیکھ رہا ہوں۔ جب میں نے پہلی مرتبہ تمہیں دیکھا تھا تو پیچھے سے... صرف تمہارے لمبے لمبے بال اور مستی بھری چال ہی دیکھ سکا تھا۔‘‘

    ’’جی... آپ نے کہاں دیکھا مجھے؟؟ کب دیکھا؟؟‘‘ اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے وہ شرماتے ہوئی بولی۔

    ’’تم اتنا شرماتی کیوں ہو؟ آج کل کی لڑکیاں تو... ادھر دیکھو ہماری طرف، تب بتائیں گے ہم نے تمہیں کہاں دیکھا کیسے دیکھا۔‘‘

    انجانے میں ملکہ کی نظریں اٹھیں تو اسے محسوس ہوا اس کی پرکشش شخصیت اس کے وجود میں اتر گئی ہے۔ ان نگاہوں کی تاب نہ لاکر اس نے پھر نظریں جھکا دیں۔

    ’’ہم نے تمہیں پرسوں دیکھا تھا۔ جب تم اور شبو اسکول سے باہر نکل رہی تھیں۔ وہ تمہیں رکشا میں بٹھا رہی تھی۔ میں دور کھڑا تمہیں دیکھ رہا تھا۔ میں تمہیں نہ دیکھتا تو تم یہاں تھوڑا ہوتیں۔‘‘

    ’’جی... جی وہ تو... شبو... کا کہنا...‘‘

    ’’ہاں ہاں شبو ہی تمہیں یہاں لائی ہے۔‘‘

    ’’شبو کا منگیتر بھی بہت اچھا ہے۔ بڑی اچھی جوڑی ہے دونوں کی۔‘‘

    ’’کون۔ وہ۔ محسن؟‘‘

    ’’اچھا اب چلوں... پلیز اب مجھے جانے دیجئے۔ میں پھر آ جاؤں گی کسی دن شبو کے ساتھ۔‘‘ اس نے کسی طرح پیچھا چھڑانے کی غرض سے کہا۔

    ’’میں دوبارہ کسی کو نہیں بلاتا۔‘‘

    جی— کیا کہہ رہے ہیں آپ؟

    ملکہ سوچنے لگی۔ یہ آدمی نہ جانے کیا کیا فضول کی باتیں بکے جا رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔وہ اندر اندر بڑبڑائی۔ اس اکیلے گھر میں اسے وحشت ہو رہی تھی اور وہ جلد سے جلد وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اسے شبو پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ کسی طرح یہاں سے نکلے تو اس کی خبر لے۔

    ’’آؤ تمہیں اپنا گھر دکھا دوں۔‘‘

    ملکہ کو خاموش بیٹھے دیکھ کر اس نے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا۔

    ’’جی... جی پھر اس کے بعد میں گھر چلی جاؤں گی۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’تم تو ایسے ڈر ہی ہو جیسے میں تمہیں کھا جاؤں گا۔‘‘

    گلے میں زبردستی باہیں ڈال کر قدم سے قدم ملا کر ملکہ کو اس نے پورا گھر دکھایا جو سات کمروں اور ایک کشادہ ڈرائنگ روم پر مشتمل تھا جس کے ساز و سامان سے اس کے خاندانی وقار اور رئیسانہ ٹھاٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

    ’’میں کسی کو اپنا گھر دکھانا پسند نہیں کرتا۔ صرف تمہیں ہی دکھا رہا ہوں۔ باقی لڑکیوں کو صرف اپنے کمرے تک ہی محدود رکھتا ہوں۔‘‘

    ملکہ سوچ رہی تھی یہ آدمی ضرور اندر سے کھسکا ہوا ہے۔ اس کی کوئی نہ کوئی چول ضرور ڈھیلی ہے۔ اس سے جتنی جلدی ہو سکے پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔ ’’اچھا اب میں چلتی ہوں بہت وقت ہو گیا ہے۔ آپ کا مکان بھی دیکھ لیا۔ بہت خوبصورت ہے۔ بہت اچھا سجا رکھا ہے آپ نے۔‘‘

    ’’ابھی میرا کمرہ تو رہ ہی گیا...‘‘

    اس نے آخری آٹھویں کمرے کا دروازہ کھولا۔

    اف... کیسی جادوئی خواب گاہ تھی وہ۔ یہاں تو قدم رکھتے ہوئے بھی وہ خوف محسوس کر رہی تھی۔ اس کے چہرے سے ہوائیاں اڑرہی تھیں۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔

    ’’یہاں بیٹھو... ڈرو مت... ڈر کیوں رہی ہو؟‘‘

    اس نے میوزک آن کر دیا... کوئی انگریزی دھن ہلکے ہلکے سروں میں کمرے کی فضا میں پھیل گئی لیکن ملکہ کے قلب کی رفتار میں اضافے کا سبب بن گئی۔ دیواروں پر کئی ننگی تصاویر دیکھ کر تو وہ شرم سے اور گڑ گئی۔ اس نے دیکھا وہ کمرے کے کونے میں رکھی میز پر ایک گلاس میں کوئی مشروب انڈیل رہا ہے۔ حالات کی نزاکت اب پوری طرح اس پر آشکار ہو چکی تھی۔ اسے یقین ہوگیا تھا وہ کسی بہت بڑی مصیبت میں پھنس چکی ہے۔ کئی فلموں کے ریپ کے مناظر اس کی آنکھوں میں گھوم گئے اور وہ ان سے نپٹنے کی ترکیبیں سوچنے لگی۔ وہ پیٹھ کئے گلاس کا مشروب پی رہا تھا۔ ملکہ نے موقع غنیمت جانا دبے دبے قدموں سے وہ پیچھے سرکنے لگی دروازے کی طرف۔ یکایک وہ پلٹ گیا۔ نفی میں گردن ہلائی۔

    ’’اوں۔ ہوں... جانے کا دروازہ میں ہی دکھاؤں گا۔ تمہیں نہیں ملےگا۔‘‘

    ملکہ نے ہاتھ جوڑ دئیے۔ ’’دیکھئے میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں۔ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دیجئے۔‘‘

    ’’میں نے تمہیں کہاں پکڑ رکھا ہے؟‘‘

    ’’جی... میرا مطلب ہے آپ مجھے جانے دیجئے پلیز۔‘‘

    وہ اس کے نزدیک آیا۔ دونوں کندھے پکڑ کر اپنی خوابگاہ کے ریشمی بستر پر بٹھایا۔ اس کے بازوؤں اور شانوں کو سہلاتے ہوئے بولا۔

    ’’بہروز خاں نے کبھی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی ہے۔ تم خود یہاں تک چل کر آئی ہو۔ آئی ہو کہ نہیں؟‘‘

    ’’جی... جی آئی ہوں...‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔ ’’لیکن مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ آپ... وہ تو شبو مجھے اپنا منگیتر دکھانے کے لیے لائی تھی۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔

    ’’وہ ہر ایک کو اپنا منگیتر ہی دکھانے لاتی ہے... سالے... دونوں میرے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ پانچ ہزار روپیہ لیے ہیں انہوں نے... عیش کر رہے ہوں گے دونوں... بھڑوے۔‘‘

    ’’جی... لیکن وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ یقین کیجیے۔‘‘

    ’’میں بھی بےقصور ہوں۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہیں معلوم ہے تم یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘

    ’’میں سمجھی تھی آپ نے پا۔ پارٹی کے بارے میں پوچھا ہے۔‘‘

    وہ سسکیاں لے رہی تھی۔ ہاتھ جوڑ رہی تھی۔ گڑگڑا رہی تھی۔

    ’’تمہاری ان بڑی بڑی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو کس قدر حسین لگ رہے ہیں۔ بالکل چھلکتے جام بس انہیں پی لینے دو پھر چلی جانا۔ میں اتنا برا بھی نہیں۔‘‘ وہ بے پرواہی سے بولا۔

    ’’آپ سمجھ نہیں رہے۔ میں ایک شریف خاندان کی...‘‘

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘

    جی، ہم، تین بہن، بھائی ہیں... دو بہنیں ایک بھائی۔ میں بڑی ہوں۔

    ’’ہاں تو کہاں جانا تھا تمہیں۔ کہاں بتایا تھا گھر۔‘‘

    ’’نند نگری۔‘‘

    ملکہ بات کرتی رہی۔ خود کو بچانے کی آخری ترکیب سوچ کر وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی اس نے فیصلہ کر لیا تھا وہ اس کا نشانہ نہیں بنےگی۔ اگر وہ کچھ ایسا ویسا کرےگا تو اپنے دانتوں سے اس کی بوٹی اتار لے گئی اور اسے تڑپتا ہوا چھوڑ کر بھاگ جائےگی۔

    ’’لیکن نندنگری تو بہت بڑی ہے۔ کس جگہ جانا ہے؟‘‘

    ’’اے پاکٹ میں‘‘

    ’’اے پاکٹ میں کس کے یہاں؟‘‘

    ’’کیا ہم باہر چلیں۔ اس کمرے سے باہر‘‘ ملکہ نے کہا۔

    ’’کیوں۔‘‘

    ’’ایسے ہی...‘‘ ملکہ نے اپنا ڈر چھپاتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ یہ شراب...‘‘

    ’’اوہ... سوری... لیکن میں بہکتا نہیں ہوں... ہاں... تو اے پاکٹ میں جانا ہے؟ کس کے یہاں؟‘‘

    ’’ڈاکٹر حسن کاظمی کے۔‘‘

    ’’حسن کاظمی، کیا کرتے ہیں؟ ڈاکٹر ہیں کیا؟‘‘

    ’’نہیں ٹیچر ہیں۔ اسکول میں۔‘‘

    ’’اوہ... ٹیچر ہیں... کیا نام بتایا تھا۔ حسن کاظمی...

    حسن کاظمی!‘‘ اس نے چبا چبا کر نام دہرایا۔ حسن کاظمی...

    ’’وہ جو... رام جس... سینئر سیکنڈری اسکول میں کیمسٹری کے... کیا وہی؟‘‘

    ’’جی... جی وہی... میں... میں... انہیں...‘‘

    ’’کون ہو تم ان کی؟‘‘

    ’’میں... میں انہیں کی بیٹی ہوں...‘‘

    شغل کرتے کرتے اس نے گلاس میز پر رکھ دیا۔ دو زانو ہوکر فرشی قالین پر اس کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گیا۔

    ’’کیا کہا تم نے؟‘‘... تم ڈاکٹر حسن کاظمی کی بیٹی ہو؟؟‘‘

    ملکہ نے روتے سسکتے اثبات میں گردن ہلائی۔

    پل بھر میں ہی وہ اس کے گھٹنے چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کھٹاک سے میوزک آف کیا اور کمرے میں تیز تیز ٹہلنے لگا۔ کمرے میں خوفناک سناٹا چھا گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور لمبے لمبے کش بھرنے لگا کچھ ہی لمحوں میں اس سلگتے سگریٹ کو قالین پر ڈال کر جوتے سے مسل دیا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا ایک جا رہا تھا۔ اس نے گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔ ملکہ کو خوفناک اندیشوں نے جکڑ لیا۔ یہ لمحے اس پر پہاڑ بن کر گزر رہے تھے۔ ڈر چھپاتے ہوئے بھی وہ تھرتھر کانپ رہی تھی۔ وہ اس کے قریب آیا تو وہ سہم گئی۔ اس نے خود کو سمیٹ لیا۔ وہ اس کے اور قریب آ گیا۔ گدّی سے بال پکڑ کر زور کا جھٹکا دیا اور کھڑا کر دیا۔ پل بھر میں ہی اس کا ہاتھ ہوا میں لہرایا۔

    تڑاخ۔ تڑاخ۔

    ملکہ لرز گئی۔ تو اب یہ مار مار کر اسے قابو میں کرےگا۔

    ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ چیخی۔ پاگل ہو تم۔ وہ اور زور سے چلائی۔

    ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا... تم یہاں... کیا کرنے آئی ہو یہاں؟ بولو؟؟ یہاں کیا کررہی ہو تم؟؟ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔ ’’اور... اور وہ کمینی شبو؟؟... تمہاری دوست؟... دوست ہے وہ؟... چلو نکلو یہاں سے... نکلو... گیٹ آؤٹ... خبردار جو پیچھے مڑی۔‘‘ وہ زورسے چیخا۔ اور پھر خود ہی ملکہ کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا دروازے تک لے گیا اور انتہائی غصہ میں اپنی لال لال آنکھیں نکالتے ہوئے بولا ’’آئندہ تمہیں اس کے ساتھ دیکھ لیا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ سمجھیں‘‘

    دروازہ بند کرکے وہ پیٹھ کے سہارے وہیں ٹک گیا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، آنکھیں بند تھیں اور وہ سر سے پیر تک پسینے میں شرابور تھا۔ وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بڑبڑا رہا تھا— تم ۔۔۔تو ۔۔۔میرے۔۔۔۔ استاد کی بیٹی ہو۔۔۔۔!ا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے