Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تانتیا

شوکت صدیقی

تانتیا

شوکت صدیقی

MORE BYشوکت صدیقی

    کرفیو کی رات تھی۔ پت جھڑ کی تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔ ویران گلیوں میں کتے رو رہے تھے۔ کیسانوا ہوٹل خاموشی میں اونگھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ رقص گاہ کے ہنگامے سرد تھے۔ جام منہ اوندھائے پڑے تھے۔ باورچی خانے کی چمنی سے نہ دھواں نکل رہا تھا، نہ چنگاریاں اڑ رہی تھی۔ باہر گلی میں کھلنے والی باروچی خانے کی کھڑکی بھی بند تھی۔ تانتیا دیوار کی اوٹ میں خاموش بیٹھا تھا۔

    جب بازاروں کی چہل پہل اجڑ جاتی اور رات گہری ہو جاتی تو تانتیا اس تنگ و تاریک گلی میں داخل ہوتا۔ دھوئیں میں الجھی ہوئی باورچی خانے کی پھیکی پھیکی روشنی دیکھتا اور کھڑکی پر ابھرنے والے انسانی سائے کا انتظار کرتا لیکن جب دیر تک کوئی نظر نہ آتا تو وہ جھنجھلا کر چلانے لگتا۔

    ’’ابے کیا اپنے باپ کو بھول گئے۔ سالو! یہ انتظاری کب تک ہوگی؟‘‘ باورچی خانے میں بیرے ٹھٹھا مار کر ہنستے، خانساماں کھڑکی سے گردن نکال کر کہتا ’’ارے مرا کیوں جاتا ہے، کوئی میز تو خالی ہونے دے‘‘۔ تانتیا مطمئن ہو جاتا۔ جھوم کر نعرہ لگاتا۔

    ’’واہ کیا بات ہے تیری ۔ جیو میرے راجہ‘‘۔

    بوڑھے خانساماں کو راجہ کہلوانے کا ارمان تھا یا کوئی جذبہ ہمدردی، یا محض احساس برتری کہ خانساماں کو برابر یہ خیال ستاتا رہتا کہ باہر اندھیرے میں تانتیا بیٹھا ہے، سردی بڑھتی جا رہی ہے، اس کے الجھے ہوئے مٹیالے بال اوس میں بھیگتے جا رہے ہیں، اس کی بھوکی آنکھیں کھڑکی کی طرف لگی ہیں۔ وہ ولایتی شراب کی تیز مہک پر جان دیتا ہے۔ اس کی تلخی اسے مرغوب ہے۔ خانساماں اپنے کام میں الجھا رہتا، بیرے مستعدی سے آکر آرڈر پر آرڈر سناتے اور خانساماں کو تانتیا کا خیال ستاتا رہتا۔ رقص گاہ میں قہقہے کھنکتے رہتے، جام ٹکراتے رہتے، آرکسٹرا کے نغمے تھر تھراتے رہتے پھر کوئی میز خالی ہوتی، پھر کوئی بیرا جھوٹی پلیٹوں میں بچا کچھا کھانا لے کر آتا، کسی گلاس میں بچی ہوئی شراب لے کر آتا۔ خانساماں بچے کھچے کھانے کو ایک پلیٹ میں انڈیل کر ذرا قرینے سے لگاتا اور اس پر گلاس کی جھوٹی شراب چھڑک دیتا، آگے بڑھتا اور کھڑکی پر جاکر کھڑا ہو جاتا، تانتیا اسے دیکھتے ہی بےتابی سے جھپٹتا، لیکن خان ساماں پیچھے ہٹ کر تانتیا کی بےصبری سے لطف اٹھاتا ’’سالے اتنی جلدی، بیٹا اصلی شراب پڑی ہے، یوں تھوڑی ملےگی‘‘۔ تانتیا کی گرسنہ آنکھیں چمکنے لگتیں، ہونٹ پھڑپھڑانے لگتے اور بکھری ہوئی مونچھیں دانتوں سے الجھنے لگتیں۔ وہ خوشامد کرنے لگتا۔

    ’’ارے کیوں جلارہے ہو، پیٹ میں آگ لگ رہی ہے‘‘۔

    خان ساماں کو معاً بیروں کے سنائے ہوئے آرڈر یاد آ جاتے، منیجر کی ڈانٹ ڈپٹ یاد آجاتی، وہ جلدی سے ہاتھ باہر نکالتا اور پلیٹ تانتیا کے ہاتھ میں تھما دیتا، تانتیا پلیٹ لے کر فوراً دونوں ایڑیاں جوڑتا اور ایک ہاتھ اٹھا کر خالص فوجی انداز سے سلیوٹ کرتا، مزے لے لے کر ہر چیز کھتا، پاس کھڑے ہوئے آوارہ کتوں کو دھتکارتا۔ خانساماں کو زور زور سے گالیاں دیتا اور خانساماں بےوقوفوں کی طرح ہنستا رہتا۔ شاید اسے گالیاں کھانے کا بھی ارمان تھا۔

    لیکن آج کھڑکی بند تھی۔ تانتیا چلایا بھی، خوشامد بھی کی اور گالیاں بھی دیں۔ بوڑھے خانساماں کو نہ راجہ کہلوانے کا ارمان پیداہوا، نہ رگ ہمددردی پھڑکی، نہ احساس برتری نے ستایا اور نہ گالیوں پر اسے ہنسی آئی۔ چند گھبرائے ہوئے بیروں کے ساتھ وہ بھی باورچی خانے میں سہما ہوا بیٹھا رہا۔

    کھڑکی کھل نہ سکی۔ تانتیا نے مایوس ہو کر اندھیرے میں گلی کے فرش کو دونوں ہاتھوں سے ٹٹولنا شروع کر دیا۔ سوکھے ہوئے ٹوسٹوں کے کچھ ٹکڑے اسے مل گئے۔ اس نے ٹکڑوں کو منہ میں بھر کر چبانا شروع کر دیا۔ باسی مکھن کے کھٹے پن پر اسے شراب کی تلخی یاد آرہی تھی، نزدیک ہی ایک مریل کتا مزے سے ہڈی چچوڑ رہا تھا۔ تانتیا کو اس کے اس طرح ہڈی چچوڑنے پر الجھن ہونے لگی۔ اس نے جل کر اس کے ایک لات جما دی۔ ’’یہاں تو بیٹھے ترس رہے ہیں اور یہ سالے موج اڑا رہے ہیں‘‘۔کتا چیختا ہوا بھاگا اور اس کی چیخیں فلک بوس عمارتوں سے ٹکرا کر گلی کی گہرائیوں میں گونجنے لگیں۔

    گلی کے نکڑ پر لیمپ پوسٹ کی بتی جل رہی تھی۔ اس کی دھندلی روشنی میں پولس والوں کے سائے نظر آئے۔ وہ گشت پر نکلے تھے۔ اچانک کسی نے چیخ کر پوچھا ’’کون ہے گلی میں؟‘‘ ساتھ ہی ٹارچ کی تیز روشنی تانتیا کے جسم پر پڑی۔ وہ بدحواس ہو کر دوسری سمت بھاگا۔ بندوق چلنے کی تیز آواز خاموشی میں ابھری۔ گولی تانتیا کے پیر کے پاس سے چھلتی ہوئی گزر گئی۔ وہ دیواروں کے اندھیرے میں دہکتا ہوا اس سڑک پر آ گیا جو کشادہ بھی تھی اور روشن بھی۔

    تانتیا گھبرا کر ایک کوٹھی کے کھلے ہوئے پھاٹک میں داخل ہو گیا۔ اس نے لان عبور کیا اور بیرونی برآمدے میں پہنچ گیا، سب دروازے بند تھے، مگر کونے والے کمرے کی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی، وہ اس پر چڑھ کر اندر کود گیا اور جھٹ کھڑکی بند کر دی۔

    جب پولیس والوں کے بھاری، بھاری بوٹوں کی آوازیں دور ہو گئیں اور سڑک پر سناٹا چھا گیا تو وہ سنبھل کرکھڑا ہو گیا۔ کمرے میں اندھیرا چھایا تھا۔ روشن دان سے روشنی کی ہلکی ہلکی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ اس نے دیکھا دیوار کے پاس ایک لمبی میز تھی۔ اس پر کچھ کتابیں بکھری ہوئی تھیں، کچھ کاغذات پھیلے ہوئے تھے۔ سگریٹ کا ایک ڈبا بھی موجود تھا، کمرہ خالی تھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ کوٹھی کے دوسرے حصے میں بھی نہ کوئی آہٹ تھی اور نہ آواز۔ خاموشی بہت گہری تھی، وہ میز کے پاس چلا گیا۔ سگریٹ کا ڈبا اٹھا کر کھولا، صرف ایک سگریٹ نکالی اور پھر اسی طرح میز پر رکھ دیا۔ مگر اس نے سگریٹ سلگائی نہیں، بلکہ برابر والے کمرے کا دروازہ کھول کر جھانکنے لگا۔ وہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ وہ کمرے میں چلا گیا۔ اس کمرے میں بھی دھندلی روشنی تھی۔ فرش پر پرانے اخبارات بکھرے ہوئے تھے۔ دیوار کے پاس دو خالی پلنگ پڑے تھے۔ سامنے کھونٹی پر ایک پرانا گائون لٹک رہا تھا۔ تانتیا نے اس کو چھو کر دیکھا۔ گائون اونی کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ تانتیا کو سردی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ اس نے گائون اتارا اور اسے پہن لیا۔ ٹہلتا ہوا دوسرے کمرے میں اس طرح چلا گیا جیسے خواب میں چل رہا ہو۔ اس کمرے میں روشنی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ پکارنے لگا۔

    ’’ارے کوئی ہے یہاں؟‘‘

    ’’کوئی ہے یہاں؟‘‘

    ’’کوئی ہے؟‘‘

    تینو ں مرتبہ اس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر خاموشی میں ڈوب گئی۔ وہ کھویا، کھویا سا آگے بڑھا اور ایک صوفے پر جا کر نیم دراز ہو گیا۔ اس تمام عرصے میں پہلی بار اسے تھکان محسوس ہوئی۔ اس کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ بھوک سے زیادہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ وہ خوابیدہ نظروں سے آتشدان پر رکھے ہوئے دھات کے مجسمے کو دیکھنے لگا۔ مجسمہ اسے اپنی طرح تنہا اور اونگھتا ہوا معلوم ہوا۔

    وہ اٹھ کر آتشدان کے پاس گیا، مجسمے کو اٹھایا اور پھر اس طرح گھبرا گیا جیسے وہ کوئی پراسرار طاقت تھی جو دھات میں سمٹ کر منجمد ہو گئی تھی۔ جیسے وہ صدیوں سے بھٹکا ہوا کوئی راہی تھا جو نڈھال ہو کر ٹھہر گیا تھا۔ تانتیا نے چوکنا نظروں سے ہر طرف دیکھا، کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ دیواروں کا سبز رنگ بڑا خوابناک معلوم ہو رہا تھا۔ خاموشی بہت گہری تھی اور تانتیا کا جسم سردی سے تھرتھرا رہا تھا۔ اسے آرام کی ضرورت تھی۔ مگر اس نے آرام نہ کیا۔ دروازہ کھول کر دوسرے کمرے میں گھس گیا۔ یہ کمرہ بھی خالی تھا۔ اس میں بھی اندھیرا تھا۔ باہر سے آنی والی روشنی کو کھڑکی پر پڑے ہوئے پردے نے روک رکھا تھا۔ تانتیا نے اندھیرے سے وحشت زدہ ہوکر پردے پر ہاتھ مارا اور اسے نوچ کر پھینک دیا۔ روشنی اچانک کمرے میں پھیل گئی۔ تانتیا مسکرانے لگا۔ اس کمرے میں کوئی پلنگ نہ تھا۔ اور فرش بہت ٹھنڈا تھا۔ تانتیا کے برہنہ پیروں کے تلوے سنسنانے لگے۔

    سامنے دیوار سے لگی ہوئی دو الماریاں تھیں۔ اس نے ایک کو کھولا۔ الماری میں میلے کپڑے بھرے تھے۔ اس نے جھنجھلا کر کپڑوں کو اٹھایا اور باہر پھینک دیا۔ پھر الماری کو اطمینان بخش نظروں سے دیکھنے لگا۔ الماری اتنی کشادہ تھی کہ وہ اس میں دبک کر سو سکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا کیا نہیں۔ اس کا جی چاہا کہ ایک بار پھر سب کمروں میں جائے۔ اس نے الماری بند کر دی۔ دروازے کے ایک پٹ میں آئینہ آویزاں تھا۔ الماری کا دروازہ بند کرتے ہی آئینہ سامنے آ گیا۔ اس نے اپنا عکس دیکھا، الجھے ہوئے مٹیالے بال، بکھری ہوئی گھنی مونچھیں، گندی بےترتیب ڈاڑھی اور اس دھندلے، دھندلے چہرے پر چھائی ہوئی ویرانی۔ اس نے خود کو پہچان کر بھی پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ناگواری سے دھات کا مجسمہ اٹھایا اور آئینے پر دے مارا۔ آئینہ ایک چھناکے سے ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور الماری کے پیچھے سے چودہ پندرہ برس کی ایک کم سن سی لڑکی چیخ کر باہر آ گئی۔

    تانتیا نے خوف زدہ ہو کر کہا ’’کون ہے ری تو؟‘‘

    لڑکی گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ ’’میں نمو ہوں‘‘۔

    تانتیا کی سراسیمگی جاتی رہی۔ اسے خود پر غصہ آیا کہ وہ اس کمزور لڑکی سے ڈر کیوں گیا۔ جھنجھلا کر چیخا۔

    ’’حرامزادی! تو یہاں کیا کر رہی تھی؟‘‘

    لڑکی سہمی ہوئی تھی۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ’’میں تو ڈر کر یہاں چھپ گئی تھی‘‘۔

    تانتیا پوچھنے لگا ’’تو یہاں اکیلی ہی ہے اور کوئی نہیں؟‘‘

    لڑکی نے بتایا ’’ڈاکٹر ساب شام ہی کو چلے گئے۔ میں نے کہا مجھے بھی اپنے ساتھ موٹر میں لیتے چلو۔ لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے بھی کیسے جاتے۔ ہوائی جہاز میں دوہی آدمیوں کی تو جگہ تھی‘‘۔ یہ بتاتے بتاتے لڑکی کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت چھا گئی۔ ’’وہ بھی چلے گئے ، بی بی جی کو بھی لیتے گئے اور بابا کو بھی لے گئے‘‘۔

    لڑکی اداس ہو گئی۔

    تانتیا نے پوچھا ’’یہ بابا کون تھا؟‘‘

    لڑکی کا چہرہ نکھر گیا۔ اداسی کا غبار چھٹ گیا، چہک کر بولی ’’ان کا ننھا ، بہت بھولا بھالا تھا۔ بڑا پیارا سا، بالکل ربڑ کا سا لگتا تھا، آؤ تم کو بھی دکھادوں‘‘۔ وہ برابر والے کمرے کی طرف مڑ گئی۔ تانتیا خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ لڑکی نے کمرے میں داخل ہو کر دیوار پر لگی ہوئی ایک خوبصورت بچے کی تصویر دکھائی، جو ایک لڑھکتی ہوئی گیند کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ہنسی کی دھوپ تھی اور ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔

    لڑکی کہنے لگی’’دیکھو! کتنا پیارا ہے!‘‘

    تانتیا سوچنے لگا کہ بچہ جس گیند پر لپک رہا ہے وہ گیند نہیں نمو ہے۔ نمو جواب اسے نہیں مل سکتی۔ نمو جو اس کے لیے اداس ہے۔ لیکن بچہ ہنس رہا تھا۔ وہ کیوں اداس ہو۔ اس کو کوئی اور نمو مل جائےگی۔ تانتیا نے سوچتے سوچتے غضب ناک ہو کر ہاتھ بڑھایا، تصویر ایک جھٹکے سے کھینچی اور فرش پر پٹک دی۔

    لڑکی خوفزدہ ہو کر بولی ’’یہ کیا کیا تم نے؟‘‘

    تانتیا کہنے لگا ’’تو بالکل الو کی پٹھی ہے۔ یہ بھی تو اسی ڈاکٹر کا بیٹا ہے جو تجھے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا‘‘۔ لڑکی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس نے ٹوٹی ہوئی تصویر اٹھائی اور اسے گہر نظروں سے دیکھنے لگی۔ تانتیا سوچنے لگا کہ یہ لڑکی واقعی الو کی پٹھی ہے اور اس کا اپنا جسم سردی سے تھرتھرا رہا ہے، اس کے پیر کے ناسور میں ٹیس اٹھ رہی ہے۔ اس نے نمو سے کہا’’اے لڑکی! ذرا کڑوا تیل لے آ، میں اپنے پیر کے زخم پر ملوں گا‘‘۔

    نمو اس کے قریب آ گئی۔

    ’’کیا ہواتمہارے پیر میں؟‘‘

    تانتیا نے بتایا ’’ناسور ہو گیا ہے‘‘۔

    لڑکی اس کے زخم میں دلچسپی لینے لگی ’’تو اس کا علاج کیوں نہیں کرواتے‘‘۔

    تانتیا نے بتایا ’’بہت علاج کروایا ، ہسپتال میں بھرتی ہوگیا۔ پر یہ ڈاکٹر ہوتے ہی بدمعاش ہیں۔ سالوں نے علاج تو کچھ کیا نہیں ، کہنے لگے کہ تم اپنا پیر گھٹنے پر سے کٹوا دو۔ نہیں تو ساری ٹانگ سڑ جائےگی۔ میں بھی ایک ہی سیانا نکلا۔ جس روز انہوں نے آپریشن کا انتظام کیا، میں رات ہی کو وارڈ کی کھڑکی پھاند کر بھاگ آیا۔ پھر کسی ڈاکٹر واکٹر کے پاس نہیں گیا۔ اپنا تو کڑوے تیل سے ہی کام چل جاتا ہے‘‘۔

    نمو نے جھٹ شلوار چڑھا کر اپنی پنڈلی دکھا دی ’’دیکھو یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ میرا تو اتنا بڑا گھائو ڈاکٹر ساب نے اچھا کر دیا‘‘۔

    تانتیا سوچنے لگا کہ اس کا اپنا پیر بڑا گھنائونا ہے۔ اس پر چیتھڑے لپٹے ہیں۔ ناسور سے پانی بہہ رہا ہے اور نمو کی پنڈلی بہت خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے پرکنواریوں کا اچھوتا پن ہے، نرمی ہے، جوانی کی شگفتگی ہے۔ پھر نمو، نمو نہ رہی صرف ایک لڑکی، ایک عورت رہ گئی۔ تانتیا سوچتارہا کہ اس گھر میں سب کچھ اس کا ہے۔ یہ خوبصورت کمرہ، یہ نرم نرم صوفہ، یہ لہراتے ہوئے پردے، یہ نکھری نکھری صاف شفاف دیواریں اور یہ نمو صرف ایک لڑکی، ایک عورت اور عورت کو کبھی اس نے اتنے قریب نہیں پایا تھا۔

    نمو نے تانتیا کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے کی وحشت کو دیکھا اور گندی گندی آنکھوں کا وہ انداز جسے دیکھ کر وہ شرما بھی گئی، گھبرا بھی گئی۔ اس نے جھٹ اپنی پنڈلی چھپا لی۔ تانتیا جھنجھلا کر نمو کی طرف بڑھا وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگی۔ تانتیا کی جھنجھلاہٹ بڑھتی گئی۔ اس نے جھپٹ کرنمو کو بے ڈھنگے پن سے دبوچ لیا۔ اس کے لباس کو تار تار کر دیا۔ اس کے رخساروں کو چبا ڈالا۔ اس کی نرم نرم چھاتیوں کو، اس کی گداز بانہوں کو اور اس کے تمام جسم کو دانتوں سے نوچنا شروع کر دیا۔ نمو دہشت زدہ ہو کر اسے دیکھتی رہی پھر چیخنے لگی پھر وہ بے ہوش ہو گئی۔

    نمو کا برہنہ جسم فرش پر پڑا تھا۔ اس کے جسم پر جگہ جگہ دانتوں کے نشان تھے۔ رخسار نیلے پڑ گئے تھے اور ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔ کمرے میں گہری خاموشی چھائی تھی، باہر زمستانی ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔

    تانتیا نے نمو کے برہنہ جسم پر پرانا گائون ڈال دیا اور اس کے قریب بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا۔

    تانتیا بیٹھا ہوا چپ چاپ سگریٹ پیتا رہا۔ دھویں کے پیچ و خم لہراتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھائی تھی۔ یکایک رات کے گہرے سناٹے میں ملی جلی انسانی آوازوں کا ہلکا ہلکا شور ابھرنے لگا۔ تانتیا بیٹھاہوا چپ چاپ سگریٹ پیتا رہا۔ شور بڑھتے بڑھتے قریب آ گیا۔ پھر کوٹھی کے احاطے کی چاردیواری پھاندنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ کوٹھی کے بیرونی برآمدے میں قدموں کی آہٹیں رک رک کر ابھرنے لگیں۔ پھر کچھ لوگ دروازہ کھول کر کمرے کے اندر آ گئے۔ وہ سب بلوائی تھے ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے۔ بلم تھے اور لاٹھیاں تھیں۔ چہروں پر ڈھاٹے بندھے تھے۔ تانتیانے ان کو دیکھا اور اس طرح اطمینان سے بیٹھا ہوا سگریٹ پیتا رہا جیسے وہ ان کو پہلے بھی دیکھ چکا تھا جیسے وہ ان کو ہمیشہ سے جانتا تھا۔

    پھر ان میں سے کسی نے پوچھا ’’ابے تو کون ہے؟‘‘

    ’’تانتیا‘‘۔

    ’’ہندو ہے یا مسلمان؟‘‘

    ’’یہ تو میں نے بہت مدت سے سوچنا چھوڑ دیا کہ میں کون ہوں؟ تانتیا نے بے نیازی سے جواب دیا۔

    ’’کیا بکتا ہے؟‘‘ ایک بلوائی نے بڑھ کر اس کے منہ پر زور کا تھپڑ مارا ’’ٹھیک ٹھیک بتا‘‘۔

    ’’میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں‘‘۔ تانتیا نے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ مطمئن نہ ہوئے۔ تانتیا کے گال پر ایک اور کرارا تھپڑ پڑا۔ کسی نے ڈپٹ کر پوچھا ’’سیدھی طرح بتاتاہے کہ نہیں‘‘۔ اس نے جھلکتا ہوا خنجر اس کے سامنے کر دیا ’’اسے دیکھا ہے‘‘۔

    تانتیا خاموشی سے اٹھ کھڑا ہو گیا اور اپنی میلی چیکٹ پتلون کے بٹن کھولنے لگا۔ انہوں نے اسے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا ’’یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘

    ’’پتلون اتار رہا ہوں‘‘۔

    ’’پتلون کیوں اتار رہا ہے؟‘‘

    ’’تا کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تصدیق کر لو کہ میں کون ہوں‘‘۔ تانتیا نے مسکین سی شکل بنا کر کہا اور ایسی نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو تم نے مجھے اب تک نہیں پہچانا، پھر انہوں نے جیسے اسے پہچان لیا۔ ’’اچھا تو یہ تو ہے! ہم سے پہلے ہی یہاں پہنچ گیا‘‘۔ وہ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے۔ پھر انہوں نے نمو کی جانب ہاتھ اٹھا کر پوچھا۔

    ’’یہ کون ہے؟‘‘

    تانتیا نے کہا ’’لڑکی!!!‘‘ اور وہ مسکرادیا۔ اس کی مسکراہٹ میں طنز بھی تھا اور بےباکی بھی۔

    وہ نمو کے جسم کو گھیرکر کھڑے ہو گئے۔ کسی نے گائون ہٹا دیا اور حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا ’’ارے یہ تو بالکل ننگی ہے‘‘۔ سب جھک کر دیکھنے لگے۔

    وہ جھکے ہوئے بھوکی نظروں سے اسے دیکھتے رہے!

    پھر کسی نے ان میں سے کہا ’’ارے یہ تو مر گئی ہے۔ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    سب علیحدہ ہو کر بکھر گئے۔ نمو کے جسم پر گائون ڈال دیا گیا۔ اور وہ تجسس انگیز نظروں سے ہر طرف دیکھنے لگے پھر کوئی بول اٹھا۔

    ’’ڈاکٹر سالاسب کچھ لے گیا۔ اب یہاں کیا دھرا ہے‘‘۔ وہ تانتیا کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’ابے تو یہاں کیا کررہا ہے۔ سالے کیا تو بھی جل کر مر جانا چاہتا ہے‘‘۔

    ایک بلوائی نے تانتیا کو دروازے کی طرف ڈھکیل دیا۔ ’’چل بھاگ یہاں سے‘‘۔

    تانتیا نے گھور کر اس کی طرف دیکھا ’’تو مار کیوں رہے ہو۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے، میں کوئی یہاں بیٹھارہوں گا‘‘۔

    تانتیا مڑا اور آہستہ آہستہ چلتاہوا کوٹھی سے نکل کر باہر آ گیا۔

    باہر آکر تانتیا نے محسوس کیا کہ سڑک وہی ہے۔ جھلملاتی ہوئی روشنیاں وہی ہیں، سامنے ڈاکٹر کی کوٹھی بھی وہی ہے اور یہ کوٹھی اس کی نہیں ہوسکتی کمرہ اس کا نہیں ہو سکتا، نرم نرم صوفہ اس کا نہیں ہو سکتا، لہراتے ہوئے پردے اس کے نہیں ہو سکتے۔ وہ صرف تانتیا ہے، گائون اس نے نمو کو اوڑھا دیا تھا ، دھات کا مجسمہ پھینک دیا تھا او رسگریٹ ختم ہو چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر کی کوٹھی سے دھواں اٹھنے لگا شعلے لال لال زبانیں نکال کر ابھرنے لگے۔ دروازے چٹخ کر شور مچانے لگے پھر کوٹھی کے اندر نمو کی گھٹی ہوئی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ تانتیا کوٹھی کی طرف پلٹ پڑا ، نمو ابھی زندہ تھی اور نمو اسے ابھی چاہیے بھی تھی۔

    تانتیا شعلوں سے الجھتا ہوا کوٹھی میں گھس گیا۔ نمو کے پاس پہنچا ۔ نمو دیکھتے ہی اس سے چمٹ گئی۔ تانتیا نے اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ وہ اسے لے کر باہر نکلنے لگا۔ اس کے چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ شعلے بھڑک رہے تھے۔ لکڑیاں چٹخ، چٹخ کر گرتیں تو چنگاریاں دور تک بکھر جاتیں، وہ شعلوں کے درمیان سے گزرتا، دھوئیں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا باہر آ گیا۔ اس کاچہرہ جھلس گیا تھا۔ ڈاڑھی جل کر اور خوفناک ہو گئی تھی۔ نمو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ قصے کہانیوں کے بھوتوں کی طرح بھیانک معلوم ہوا۔ اس نے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔ تانتیا اسے اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے ایک بار پھر سڑک پر آگیا اور فٹ پاتھ پر دیواروں کے کنار کنارے چلنے لگا۔

    تانتیا دیواروں کی اوٹ میں چلتا رہا۔ اس کے چہرے پر جلن ہوتی رہی اور نمو بازوئوں سے چمٹی رہی۔ پھر ایک پولیس لاری اس کے پاس آکر رک گئی۔ دو کانسٹیبل اترکر نیچے آئے اور اس کو ٹھہرا لیا۔

    ’’کہاں سے آ رہا ہے؟‘‘

    تانتیا نے نمو کو سامنے کر دیا ’’میں تو اس لڑکی کو آگ سے نکال کر لا رہا ہوں‘‘۔

    انہوں نے گاؤن اٹھا کر دیکھا۔ نموخوفزدہ نظروں سے ان کودیکھنے لگی۔ تانتیا نے جھٹ ہاتھ ہٹا دیا۔ ’’اے اس کو نہ کھولو، یہ بالکل ننگی ہے‘‘۔

    وہ ہنسنے لگے۔ ’’تو سالے اس کو لیے کہاں جا رہا ہے؟‘‘

    تانتیا نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘

    وہ بےباکی سے ہنسنے لگے ’’ابے اسے کھڑا تو کر ‘‘۔

    تانتیا نے نمو کو فٹ پاتھ پر کھڑا کر دیا، نمو بالکل چپ تھی، تانتیا بھی چپ تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے نمو کا بازو پکڑ کر ایک طرف کر لیا۔

    ’’یہ ہمارے ساتھ لاری میں جائےگی۔ رات بھر تھانے میں رہےگی اور صبح رفیوجی کیمپ میں پہنچا دی جائےگی‘‘۔

    وہ نمو کو لےکر لاری کی طرف چلنے لگے۔ نمو اب بھی خاموش تھی۔

    تانتیا کہتا رہا ’’ یہ میرے پاس رہے گی۔ میں نے اس کو آگ سے بچایا ہے۔ اسے میرے پاس رہنا چاہیے‘‘۔

    مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ نمو کو لاری میں بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے لاری کا انجن اسٹارٹ کیا اور وہ آگے بڑھ گئی۔ تانتیا لاری کو خوابناک نظروں سے دیکھتا رہا۔ لاری دور ہوتی گئی نمو دور ہوتی گی۔ نمو جس کا جسم لہراتے ہوئے پردوں کی طرح نرم تھا، جس کے چہرے پر کنواریوں کا اچھوتا پن تھا۔ نرمی تھی اور جوانی کی پھوٹتی ہوئی شگفتگی تھی۔ نمو صرف ایک لڑکی، ایک عورت، جسے اس نے اپنے قریب محسوس کیا تھا۔ جسے اس نے چھوکر دیکھا تھا۔

    لاری اندھیرے میں اوجھل ہو گئی۔ تانتیا نے غصے سے فرش پر تھوک دیا اور پولیس والوں کو گالیاں دیتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔

    تانتیا سڑک پر تھکا ہوا سا چلتا رہا مگر وہ جاتا بھی کہاں، سامنے مکان جل رہے تھے، شعلے لہرا رہے تھے۔ دھوئیں کے بادل بلندیوں پر پھیلتے جارہے تھے، جلتے ہوئے مکانوں سے انسانی چیخیں ابھر رہی تھیں۔ وہ آگے نہ گیا ایک نیم کشادہ سڑک پر مڑکر نشیب میں اتر گیا۔ قریب ہی گندا نالا تھا جو سڑک کے نیچے سے گزرتا تھا۔ تانتیا نالے کی پلیا کے نیچے گھس گیا۔

    پلیا کے نیچے اندھیرا تھا۔ کیچڑ تھی اور بڑی تیز بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ماچس جلاکر دیکھا قریب ہی ایک برہنہ لاش پڑی تھی۔ لاش پھول کر اکڑی تھی۔ زبان باہر نکلی ہوئی تھی۔ آنکھیں کچھ اس طرح پھٹی ہوئی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں دیکھو مجھے کتنی بے دردی سے قتل کر دیا گیا، میں نے انتقام نہیں لیا۔ مجھے انتقام لینا چاہیے تھا۔

    وہ وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف چلا گیا۔ جہاں زمین خشک تھی وہ زمین پر بیٹھ گیا۔

    تانتیا اندھیرے میں بیٹھا ہوا سوچتا رہا کہ اس کے چاروں طرف تاریکی ہے۔ کیچڑ ہے اور قریب ہی ایک لاش پڑی سڑ رہی ہے۔ جس کی زبان باہر نکل آئی ہے اور آنکھیں پھٹ گئی ہیں، باہر تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی ہیں۔

    ایک آدمی گھبرایا ہوا پلیا کے سامنے آکر ٹھہر گیا۔ تانتیا اسے دیکھتا رہا۔ مگر جب وہ اندر آکر لمبی لمبی سانسیں بھرنے لگا تو تانتیا نے کہا ’’وہاں کیچڑ میں کیوں کھڑے ہو، ادھر آجاؤ۔ یہاں زمین صاف ہے‘‘۔

    وہ خوف سے چیخ کر بولا ’’تم کون ہو؟‘‘

    تانتیا نے جل کر کہا ’’میں کوئی بھی ہوں ، کیچڑ میں کھڑے ہونے کا شوق ہے تو وہیں کھڑے رہو، نہیں تو ادھر چلے آؤ’’۔

    وہ تانتیا کے قریب آیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔

    ذرا ہی دیر بعد اس نے تانتیا سے پوچھا ’’تم ہندو ہو یا مسلمان؟‘‘

    تانتیا جھنجھلا کر بولا ’’میں کوئی بھی ہوں۔ ابے ہندو مسلمان کے بچے پہلے یہ بتا کہ کوئی سگرٹ وگرٹ بھی ہے؟‘‘

    ’’میرے پاس سگریٹ نہیں ہے، نہ جانے کس طرح جان بچا کر بھاگا ہوں، تمہیں سگریٹ کی پڑی ہے‘‘۔

    تانتیا ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگا۔ ’’ابے جابے تو بھی یونہی رہا‘‘۔

    اجنبی ذرا دیر خاموش رہ کر بولا ’’یہاں تو بڑی بدبو ہے‘‘۔

    تانتیا نے ماچس جلائی اور سڑتی ہوئی لاش دکھلانے لگا ’’دیکھو یہ کوئی مرا ہوا آدمی پڑا سڑ رہا ہے‘‘۔

    وہ خوفزدہ ہو کر تانتیا کے نزدیک سرک گیا پھر آہ بھر کر رقت انگیز لہجے میں بولا ’’ہائے بےچارہ!‘‘

    ’’یار دکھ تو مجھے بھی ہو رہا ہے پر یہ سرکار بھی الو کی پٹھی ہے۔ اتنا گوشت بےکار سڑ کر جا رہا ہے‘‘۔ تانتیا آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ ’’یہی پچھلی جنگ کی بات ہے ہم لوگ برما کے جنگلوں میں جاپانیوں کے خلاف لڑ رہے تھے ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جاپانیوں نے ہیڈکوارٹر والی سڑک بمباری کر کے تباہ کر دی۔ سڑک بندہوئی تو ہمیں راشن ملنا بندہوگیا۔ بس پوچھو نہ کہ کیا بیتی۔ ہم نے سامان لے جانے والی گاڑیوں کے خچروں کو مار مار کر کھانا شروع کر دیا۔ مگر خچرکا گوشت بہت خراب ہوتا ہے۔ سالا ہضم ہی نہ ہوتا تھا۔ پھر ہوائی جہازوں سے راشن پھینکا جانے لگا۔ اس میں ہمیں ایسا گوشت ملتا جسے سکھا کر ڈبوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ سچ کہتاہوں کیا مزے کا گوشت ہوتا تھا۔ اب تمہیں بتائو کہ روز جو اتنے بہت سے آدمی بلوے اور فساد میں مر رہے ہیں، کتنا گوشت بیکار جا رہا ہے، سرکار اس کو سکھاکر کیوں نہیں رکھ لیتی۔ کال کے دنوں میں کام دے گا پھر کال تو یوں بھی پڑ رہا ہے، کتنے ہی بھوکوں کا بھلا ہو جائےگا۔ کہو استاد کیسی کہی؟‘‘تانتیا نے اس کی پیٹھ پرزور سے دھپ مارا ’’ابے تو تو بہت تگڑا ہے! مرے گا تو بہت سا گوشت نکلےگا اور ڈھیر چربی بھی نکلےگی‘‘۔

    اجنبی خوف سے اچھل پڑا۔ اس کی جیبیں روپوں کی جھنکار سے کھنک اٹھیں۔

    تانتیا نے جھٹ اس کی گردن دبوچ لی ’’ابے تیرے پاس تو بڑی رقم ہے، لا نکال‘‘۔

    وہ گھٹی ہوئی آواز میں بولا ’’میری گردن تو چھوڑ دو‘‘۔ تانتیا نے اس کی گردن چھوڑ دی۔

    وہ گڑگڑانے لگا ’’مجھ ستائے ہوئے کو ستا کر تمہیں کیا ملےگا؟‘‘

    تانتیا ہنسنے لگا ’’سیدھی سی بات ہے رقم ہاتھ لگے گی اور کیا‘‘۔ وہ دھکا دے کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ دونوں ہاتھوں سے گردن دبا کر کہنے لگا ’’ابے سیدھی طرح نکالتا ہے یا گھونٹ دوں گلا‘‘۔

    وہ بدحواس ہو کر بولا ’’سب کچھ اندر کی جیب میں ہے نکال لو‘‘۔

    تانتیا نے اس کی جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ نکالے، روپے نکالے اور ریز گاری تک نکال لی۔

    وہ خوشامد کرنے لگا ’’میرے پاس کچھ تو چھوڑ دو‘‘۔

    تانتیا پھر ہنسنے لگا ’’ابے بہت دن تم نے ٹھاٹھ کئے ہیں، کچھ دن یونہی سہی‘‘۔

    ’’تمہارے دل میں ذرا رحم نہیں، میرا گھر جل رہا ہے، سب کچھ لٹ گیا، بیوی کو بھی مارڈالا، بچوں کوبھی قتل کردیا، میری جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے، اب میرے پاس رہ ہی کیا گیا ہے، عزت تو تھی وہ بھی برباد ہو گئی‘‘۔ وہ آدمی بڑا اداس معلوم ہو رہا تھا۔ مگر تانتیا ہنستا رہا ’’ابے تو اس میں گھبرانے کی کون سی بات ہے، تیری لڑکیوں کو کوئی نہ کوئی تو لے ہی جاتا، کوئی اور نہ لے گیا وہ لے گئے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘

    اجنبی خاموش بیٹھا رہا۔ اسے تانتیا سے نفرت محسوس ہورہی تھی۔ وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا مگر اسے اپنی جان بھی پیاری تھی وہ وہیں بیٹھا رہا۔ تانتیا نے اسے پھر چھیڑا۔

    ’’ابے خاموش کیوں بیٹھا ہے، کچھ باتیں ہی کر‘‘۔

    وہ جھنجھلا کر بولا ’’تم نے آج تک لوگوں کو دکھ ہی پہنچایا ہے یا اور بھی کچھ کیا ہے‘‘۔

    تانتیا نے تلملاکر کہا ’’ابے! میں نے کیاکیا ہے،میں نے چلچلاتی دھوپ میں سڑکوں پر محنت کی ہے، کڑکڑاتی سردیوں میں پہرے داری کی ہے۔ فوج میں بھرتی ہوکر گولیاں کھائی ہیں۔ چوریاں کی ہیں۔ جیل کاٹی ہے، مارکھائی ہے، گالیاں سنی ہیں‘‘۔ تانتیا تیزی سے بولتے بولتے اچانک بے نیازی سے ہنسنے لگا۔ ’’اور اب میں بھوکوں مرتا ہوں، شرابیوں کا بچا کچھا کھانا کھاتا ہوں، گوشت کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے کتوں سے لڑتا ہوں، سردی میں سنسان سڑکوں پر ٹھٹھراتا پھرتا ہوں۔ بتائو استاد تم نے یہ سب کچھ کیا ہے اور نہیں کیا تو تمہاری ایسی کی تیسی‘‘۔ تانتیا نے اس کے منہ پرکس کے تھپڑ مارا۔ ’’سالا! الوکا پٹھا! خواہ مخواہ رعب جھاڑتا ہے‘‘۔

    وہ آدمی سہما ہوا خاموش بیٹھا رہا۔ مگر تانتیا سے اب اکتا چکا تھا۔ اس آدمی سے اکتا چکا تھا۔ اندھیرے اورگھٹن سے اکتاچکا تھا۔ وہ اٹھا اور پلیا کے نیچے سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ خزاں کی تیز ہوائیں سسکیاں بھر رہی تھیں۔ رات اور گہری ہو گئی تھی۔ ویران عمارتوں کی پشت پر چاند کی زرد، زرد روشنی ابھر رہی تھی۔ پت جھڑ کے مارے ہوئے سوکھے درخت تار عنکبوت کی طرح الجھے ہوئے نظر آ رہے تھے، تانتیا درختوں کے نیچے چلنے لگا خشک پتے اس کے قدموں کے نیچے ہلکی ہلکی آہٹ پیداکر رہے تھے۔

    سنسان سڑک پر اس کا سایہ بھوتوں کی طرح ڈرائونا معلوم ہوتا، وہ آہستہ آہستہ چلتا رہا۔ پھر ایک موڑ پر کسی نے ٹوکا۔

    ’’کون آ رہا ہے؟‘‘

    تانتیا نے گھبراکر دیکھا ایک فوجی سپاہی رائفل سنبھالے ہوئے اس کی طرف آ رہا تھا۔ تانتیا پلٹ کر دیواروں

    کے سایوں میں دبکنے لگا۔

    مسلح فوجی نے للکارا ’’ہے!! ٹھہر جاؤ‘‘۔

    مگر تانتیا نہ رکا۔ اس نے اپنی چال اور تیز کر دی۔

    ناگاہ، رات کے پرہول سناٹے میں رائفل چلنے کی آواز گونجی۔ گولی تانتیا کی پسلیوں کو توڑتی ہوئی گزر گئی۔ وہ فرش پر گر پڑا۔ سپاہی اس کے قریب آکر ٹھہر گیا۔

    تانتیا نے اس کی طرف دیکھا، ہانپتے ہو ئے لہجے میں بولا ’’جوان! تمہارا نشانہ بہت اچھا ہے کبھی میں بھی اتنا ہی سچا نشانہ لگاتا تھا، پر ان خوبیوں کی کون قدر کرتا ہے، جنگ ختم ہو گئی اور میرا حال تم نے دیکھ ہی لیا‘‘۔ تانتیا نے ہاتھوں میں دبے ہوئے نوٹ، روپے اور ریزگاری سب کچھ سڑک پر پھینک دیا۔ فوجی اپنی رائفل سنبھالے ہوئے حیرت سے دیکھتا رہا۔

    تانتیا اس کی بےنیازی پر بھنا گیا۔ جل کر بولا ’’ابے دیکھ کیا رہا ہے، اس کو اٹھا لے ، سالے اکڑتا کیوں ہے، کہیں ایک دن تیرا بھی یہی حال نہ ہو، ابے اس وقت یہ رقم کام آئےگی‘‘۔

    فوجی نے جھنجھلا کر تانتیا کی کمر پر زور سے لات ماری اور روپیہ اٹھا کر چل دیا۔

    تانتیا کے زخم سے خون بہتارہا، اس کا جسم سنسان سڑک پر پھڑکتا رہا، ہوائیں سسکیاں بھرتی رہیں اور ویران گلیوں میں کتے روتے رہے۔

    یہ کرفیو کی رات تھی، فسادات کی رات تھی، تانتیا کی زندگی کی آخری رات تھی۔ تانتیا مر گیا لیکن اس کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک بھوک زندہ تھی۔

    مأخذ:

    لوح (Pg. 251)

    • مصنف: ممتاز احمد شیخ
      • اشاعت: Jun-December
      • ناشر: رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی
      • سن اشاعت: 2017

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے