Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعاقب

MORE BYسید صداقت حسین

    وہ خوشبووں کی سرزمین تھی۔ جہاں فکرونشاط کے گلاب کھلتے تھے۔ مگر یہ ہی گلاب ریاستی طاقت کے مرکزی دھارے کو کھٹکتے بھی تھے۔ پھر ایک دن جنگ کا آغاز ہو گیا۔ جنگ کے نا ختم ہونے والے سلسلہ نے زندگیوں کو نفسیاتی سطح پر اپاہج کرکے رکھ دیا۔ لمحہ بہ لمحہ جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ جبکہ داخلی اور خارجی سطح پر اس کے غیر فطری اثرات نے انسانوں کے اعصاب شل کرکے رکھ دئیے تھے۔ ایک غیرمحسوس طریقے سے جنگ کی بڑھتی سمٹتی تشکیل کا دائرہ نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر ثقافت و سماج کے غیر متحارب خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ جس نے معاشرت کی قوی بنیادوں میں زلزلہ پیدا کر دیا۔

    وہ جنگ کے جبری مسلط کئے جانے اور اس کی طوالت کے غیر فلسفیانہ جواز کے خلاف سینہ سپر تھا۔ وہ رزم گاہوں میں بھڑکتی آگ کو بجھانا چاہتا تھا۔ تاکہ زندگی خوف کی عارضی پناہ گاہوں سے نکل کر تابناک سورج کا ازسر نو حصہ بن سکے۔ مگر عقبی دیوار کے اس پار دھندزدہ علاقے میں جنگ میں بطور ہتھیار استعمال ہونے والے کتوں کے بھونکنے کی مسلسل آوازوں نے اسے جنگ کے میدان سے بھگانے کی ٹھان رکھی تھی۔

    موت اونچے مچانوں پر گھات لگائے زندگی اور آزادی کے خوابوں کو روندھنے کے لیئے ہمہ وقت تیاررہتی تھی۔ جبر کے اس خوف تلے زندگی کا رومانس روپوش تھا۔ وہ ان کتوں سے ھنستی بستی زندگیاں بچانا چاہتا تھا۔ جو زندگی کو موت کی مفرور ملازمہ سمجھتے تھے جو زیست کے تعاقب میں لمبے لمبے دانت نکوسے ہر طرف گھوم رہے تھے۔

    ٹھنڈ اسکے استخوانوں میں گھس کر اسے نڈھال کر رہی تھی اسے خوف تھا کہ شدید سردی اسکے عزم کو شکست نا دیدے اور یوں جیتی ہوئی بازی اس سے چھن نا جائے۔ یکلخت اسے محسوس ہوا کہ سرد حالات اسکا حوصلہ توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اٹھا اور ایک نئے عزم کے ساتھ اندھیرے میں ان کتوں کے خوف سے جو اس کا پیچھا کر رہے تھے بھاگتے بھاگتے شہر پناہ کی سب سے بلند و بالا عمارت کی سیڑھیوں پر ڈھیر ہو گیا۔

    اسی اثنا عمارت کا آہنی دروازہ ایک غیر مانوس چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھلا پھر ایک محبت بھری آواز نے اس کے خوف کو بڑی حد تک منتشر کر دیا۔ گھبراو نہیں میرے بیٹے تم یہاں اب محفوظ ہو۔۔۔

    پناہ کی آواز نے اسے ایک مسحورکن مسرت سے ہمکنار کیا ہی تھا کہ اس کی نظر آواز کے بھاری بھرکم بوٹوں پر پڑی جو کالے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے