Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعویذ

اقبال متین

تعویذ

اقبال متین

MORE BYاقبال متین

    امی نہ رہیں تو صرف اتنا ہی ہوا نا کہ اپنے کمرے میں نہ رہیں۔ ہمارے گھر میں نہ رہیں۔ اس دم دمے میں بھی نہ رہیں جس کے زنانی دروازے سے سواری گھر جانے پر وہ پردہ داری کی لاج رکھتیں اور راہ گیروں کی نظروں سے خود کو چھپاکر چھپاک سے گھر کی چار دیواری میں ہوجاتیں۔

    میں نے اب بے چوں و چرا یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ ابا کے بعد کچھ دن رینگ کر چپ کے سے دنیا سے اٹھ گئیں۔ لیکن چھوٹم نہیں جانتا تھا، وہ کہتا تھا بھیا، امی ضرور ابا کے کمرے میں بند ہوگئی ہیں۔ میں ذرا اور بڑا ہوجاؤں تو قفل توڑ کر انہیں باہر نکال لاؤں۔

    آج میرا پیاسا احساس مجھے سمجھاتا ہے کہ ہم لوگ شاید یہ اچھا نہیں کرتے۔ بچوں کے معصوم ذہن کو موت کے خیال سے اس طرح بچاتے ہیں، جیسے وہ جان جائیں تو ان کے ذہن پر موت کی پرچھائیں موت بن کر پڑے گی۔ چنانچہ چھوٹم کو زمانے تک امی کی قبر سے واقف نہیں کرایا گیا تھا بلکہ اس کو قبروں کی پہچان تک نہیں تھی۔ مجھے اپنے بڑوں کی یہ حرکتیں بہت اکھرتی تھیں۔ میں صرف سوچ کر رہ جاتا تھا۔ خود بھی اتنی اہلیت نہیں رکھتا تھا کہ انہیں یہ بتاؤں کہ موت کے تصور کے بغیر زندگی کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا حسن نکھرتا ہی اس تصور سے ہے۔ تتلی کے پر،پردوں پر اپنا رنگ نہ چھوڑ جائیں تو وہ پلاسٹک کی ہوجائے گی۔ موت کو ہم نے خوفناک بنا رکھا ہے ورنہ وہ تو زندگی پر ایسی رنگ برنگی چھینٹ اڑاتی ہے کہ کبھی کبھی اس کے آنچل کا سایہ زندگی کو سنوار دیتا ہے۔ شاید یہ بھی اپنا اپنا سوچنے کا انداز ہو۔ لیکن ایسا بھی کیا کہ جس ہونی کا نہ ہونا ممکن نہیں، جس کا زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہو اس کا ایک حصہ چھپاکر زندگی کو معصوموں کے ہاتھ میں تھما دینا کہ لو اس سے کھیلو۔ بھلا یہ کھیل کتنے دن کھیلا جاسکتا ہے۔

    امی کی کھلی آنکھوں پر ابھی کسی ہاتھ نے پیوٹے نہیں ڈھانکے تھے کہ چھوٹم کو رشتے داروں میں کہیں دور بھجوا دیا گیا۔ میرے ساتھ یہ سازش کوئی کر نہ سکا۔ امی جب گھر سے جانے لگیں تو ٹیس اٹھی اور میں بین کرتی عورتوں اور انتظام میں مصروف مردوں کی دھکا پیل سے بچ نکلا۔ اپنے سانس کو قابو میں کرنے سے پہلے ہی میں نے خود کو ایک ایسی موٹر کار کی پچھلی سیٹ پر چھپا لیا جو امی کے ساتھ جانے والی موٹروں کی قطار میں شامل تھی۔ مجھے یقین ہوا کہ امی نے ہی کارکاپٹ کھول کرمجھے اندر دھکیل دیا ہوگا۔ وہ ہماری خدمت کا کچھ ایسا ہی طریقہ نکال لیتی تھیں کہ صرف ان کو معلوم ہو اور ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ ہمیں محفوظ کر رہی ہیں۔

    نیند میں بستر پر لوٹ پوٹ ہونے سے میرا بدن کھل کھل جاتا تھا۔ وہ اس طرح اڑھاتیں جیسے اپنا آپا اڑھارہی ہوں اور میری روٹھی ہوئی نیند کومنارہی ہوں۔ وہ اکثر کہتیں، تو رات بھر بستر پر سوتا ہے یا نیند کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ان کا یہ انداز اظہار مجھے اچھا لگتا۔ ویسے میرے تعلق سے یہ بات مشہور تھی کہ میں کلاس میں سوجاتا ہوں، محفلوں میں سوجاتا ہوں، شادی کی باراتوں میں سو جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان کھڑا کھڑا سو جاتا ہوں۔ اپنی مدماتی آنکھوں کی یہ باتیں سن سن کر کان پک گیےتھے لیکن بستر پر نیند کو ڈھونڈنے کی بات صرف امی ہی کرتیں اور ابا یہ سن کر مسکرانے کی کوشش کرتے۔

    چھوٹم گھر واپس آیا تو ڈھیر سارے کھلونے اس کے ساتھ تھے۔ وہ خاندان کے دوسرے بچوں میں جو امی کے گھر سے چلے جانے کے بعد دوسرے ہی دن آہستہ آہستہ اپنے اپنے بزرگوں کے پاس آگیے تھے، مگن تھا، ایک ایک کھلونے کی چابی گھما کر اس کی نمائش کرتا۔ ان دنوں الکٹرانک کھلونے نہیں نکلے تھے۔ چابی گھمانے کا کاروبار تھا۔ بڑے بزرگ اس چابی کو کھلونوں کے لیے بھی استعمال کرتے اور شاید کھیلنے والے بچوں کے لئے بھی، اسی لیے بچے زیادہ معصوم تھے اور بزرگ کم آشنا۔

    میں کچھ زیادہ ہی سوچتا تھا۔ نہیں معلوم یہ سوچ کی مظلومیت میرے بچپن ہی میں کہاں سے دبے پاؤں مجھ میں داخل ہوگئی تھی۔ چھوٹم کی یہ حرکتیں مجھے دل ہی دل میں روہانسا کرنے لگیں، اس نے میری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ جی چاہا اس کے سارے کھلونے لے کر امی کے قبر پر رکھ دوں۔ ان سے کہوں لو اب ان کی حفاظت کرو۔ گرد نہ جمنے دو ان پر اور چھوٹم سے کہوں جا سارے کھلونے مٹی کے اس تودے پر سے اٹھالا جس پر میں نے رکھے ہیں اور اسی میں امی دبی پڑی ہیں۔ تجھ سے بن پڑے تو انہیں بھی مٹی ہٹاکر نکال لے اور تیری اس موٹر سیکل سے جڑے کیریرمیں ٹھونس لا جو پہیے کی مد سے اس لیے بنا ہے کہ تیری اس موٹر سیکل کا توازن کرسکے۔

    چھوٹم کی یہ موٹر سیکل بڑی شاندار تھی۔ بڑے دالان میں جہاں امی کی میت رکھی گئی تھی دوڑتا ہوا بڑا سا چکر مار کر بھی آہستہ آہستہ چلتا رہتا تھا۔ چابی ختم نہ ہوتی تھی جیسے چھوٹم کے ہاتھوں کی گرفت کی منتظر ہو اور چھوٹم لپک کر اسے اٹھا لیتا۔ سب دوسرے بچے تالیاں پیٹتے۔ مجھے محسوس نہیں یقین ہونے لگتا کہ امی بہت بے چین ہوں گی۔ چھوٹم کی موٹر سیکل کو وہ اس جگہ کا طواف کرتے کس طرح دیکھ سکتی ہیں، جہاں ان کی آنکھ نہ کھلنے کے لئے آخری بار لگی تھی۔ وہ بھی موٹر سیکل کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہوں گی کہ فٹ سے اٹھاکر چھوٹم سے کہیں۔ یہاں نہیں۔۔۔ کہہ رہی ہوں۔۔۔ یہاں نہیں۔۔۔ بھاگ یہاں سے وہاں اتنا بڑا آنگن پڑا ہے، گھما اس میں اپنی موٹر سیکل۔امی بھی کتنی بھولی ہیں، کیا نہیں جانتیں کہ صحن کی اوبڑ کھابڑ زمین پر چابی کی موٹر سیکل نہیں بھاگتی۔۔۔؟ اور چھوٹم اگر اس جگہ کے چکر کاٹے تو کیا ان پر تصدق ہوجائے گا۔

    میرا جی چاہا یہ جو امی کو میں چھوٹم کی موٹر سیکل کے ساتھ بھاگتا ہوا صاف دیکھ رہا ہوں منٹ بھر کو پکڑ کر موٹر سیکل کی چابی انہیں تھمادوں۔ کہوں یہ چابی تم لے جاؤ ورنہ یہ چابی چھوٹم کے ذہن کو سوچ سے عاری کردے گی۔ اور امی۔۔۔ سنو امی دیکھو، وہ زندگی بھر کھلونوں کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔۔۔ دیکھو نا کیسا مگن ہے۔ میں روہانسا ہوں تم نے اتنی دور جاکر ذرا کی ذرا زمین سے پیٹھ لگائی نہیں کہ پھر بھاگ آئیں۔ مجھے چھوٹم سے کوئی بیر نہیں ہے۔ تمہارے لاڈ پیار کا بھی میں نے کبھی برا نہیں مانا۔ تم غلط سمجھتیں رہیں، اس نے پتھر بھر کا کر مجھے مار دیا تھا کیسا تڑپ کر رہ گیا تھا میں۔ اس پر جھپٹا تو تم آڑے آگئیں۔

    ’’جانے بھی دے بیٹا چھوٹا بھائی ہے۔‘‘

    ’’تو کیا اب بڑا ہوگا ہی نہیں؟‘‘

    بس برا مان گئیں تم۔ زبان سے ایسے الفاظ کیوں نکالتا ہے۔۔۔ میری چوٹ نہیں دیکھی۔ ہوگئیں اس کی حمایتی۔ایسے دم دلاسے کسی بچپن کو مرنے سے بچا لیتے ہوں گے لیکن زندگی کو مر مر کر جینے سے نہیں بچا سکتے۔ چھوٹم میرا بھی ہے امی، اور اب تو تم سونپ گئی ہو مجھے۔ لیکن کیا کروں کہ مجھے یہ اتھلا اتھلا جینا اکھراتا ہے۔ اسی لیے شاید مجھے اس وقت چھوٹم کی خوشی بھی بری لگتی ہے۔۔۔ امی کیا ہم پر قیامت نہیں ٹوٹی۔۔۔؟ اور ہم جھولا جھول رہے ہیں۔ کیا ہم کھلونے دے کر بہلانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ آپ بھی عجیب ہیں امی۔ مجھے آپ یاد آرہی ہیں۔ آپ کی باتیں یاد آرہی ہیں۔

    ’’آخر تو کیا بنے گا رے۔ کیا بنے گا آخر۔ ہمیشہ ہی الٹی سیدھی سوچتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’چونچ سے دانہ اٹھانا آئے نہیں۔ کہے چونچ ہی توڑ پھینکوں۔‘‘

    اچھا اب چھوڑئیے بھی مجھے۔ کہیں جاکر رولوں گا، آپ پیچھا کریں گی تو چین سے رو بھی نہ سکوں گا۔ اچھا ہے آپ اپنے چھوٹو کے ساتھ رہیں۔ کیسا مگن ہے وہ۔ آپ سے میری نہیں نبھتی۔

    ایسی باتیں امی سے زندگی بھر ہوتی رہیں۔ میں برا بھی مانتا رہا۔ لیکن آج وہی باتیں اچھی محسوس ہو رہی ہیں تو زبان کو لفظ نہیں ملتے۔ آنکھوں کو آنسو نہیں۔ بھلا یہ بھی کوی جینا ہوا کہ آنسو بھی اپنے نہ رہے۔لیکن یہ سب کچھ کتنے برسوں کا تھا۔ وقت زخموں کا اندمال کرتا ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں، لیکن اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہرے زخم ہرے نہیں رہتے۔ درد بن کر کرنس نس میں سرایت کرجاتے ہیں۔ مرہم لگانا چاہوں تو دکھائی نہیں دیتے۔

    میرے کالج میں پہنچنے تک ابا اور امی کسک بن کر رہ گیے تھے۔ میں نہ چوٹ لگی تو بلبلاتا تھا نہ گھائل ہوتا تو پلکیں بھیگتیں۔ یہ ٹھہراؤ کچھ عجیب سا ٹھہراؤ تھا۔ جیسے جوانی نے خود کو بڑھاپے کے حوالے کردیا ہے اور بہت شانت ہوگئی ہے۔ قہقہے ہنسی میں بدلے اورہنسی مسکان بن کربھی ہونٹوں سے بچ نکلی۔ اتنا ضرور ہوتا کہ کبھی کبھی ہونٹ اس بھولی بسری مسکراہٹ کو پکڑ لاتے۔۔۔ لوگ کہتے میں مسکراتا ہوا اچھا دکھائی دیتا ہوں۔ مجھے امی کا وہ جملہ یاد آتا ہے۔ تو رات بستر پر سوتا ہے یا نیند کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے۔

    میں نہیں جانتا ان دونوں جملوں میں کہیں کوئی مماثلت ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہوا تھا کہ میں بستر پر زیادہ بے آرام رہنے لگا تھا۔ محفلوں میں، مسافروں سے بھری بس میں، یہاں تک کہ ایک اچھا طالب علم ہونے کے باوجود کلاس میں سوجانا میرے لئے کوئی بات نہیں تھی۔ سوتے جاگتے زندگی بیت جاتی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں جانے کیوں میرے حصے میں آگئیں جو تنہائی میں جاگتی رہتی ہیں اور محفلوں میں سو جاتی ہیں۔ بالکل اس کمرے کی طرح جس کو امی نے ابا کے بعد بند کر رکھا تھا۔ اور چھوٹم کہتا تھا کہ امی اسی میں بند ہیں اور ایک دن وہ اسی کمرے سے انھیں برآمد کرلے گا۔ آج ہم یہی کر رہے ہیں۔ امی کو اپنے اندر سے بر آمد کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، پھر اپنے اندر چھپا لیتے ہیں۔ اب ہم ہی وہ کمرے ہوگیےہیں جسے پھوپھی امی مقفل رکھتی ہیں۔

    پھوپھی امی نے امی کے چہلم کے بعد اس کمرے کو کھول کر عود اور لوبان کا دھواں دلوایا تھا۔ اور کسی چیزکو اس کی جگہ سے ہٹائے بغیر جھاڑ جھٹک کر اپنے ہاتھوں صفائی کردی تھی۔ اس دوران کبھی کبھی ان کا پلوان کی پلکوں کی نمی جذب کر لیتا تھا۔

    پھوپی امی نے اس کمرے میں ساتھ دن تک تلاوت قرآن خود بھی کی اور قریبی اہالیان خاندان خواتین کو بھی اس موقع پر اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ جب قرآن کا ورد ہوتا، مجھے ایسا لگتا جیسے کمرہ ویران سا ہوگیا ہے، یا بین کر رہا ہے، یا اونگھ رہا ہے۔ میں آج سوچتا ہوں، ان دنوں اس احساس کی کوئی توضیح نہ کرپاتا تھا۔ شاید ہمارے بڑوں نے اللہ سے پیار کرنا ہمیں نہیں سکھایا۔ اس سے اس درجہ خوف دلایا کہ ہمارے سرکار پر اتارا ہوا قرآن، طاق کی زینت تو بن کر رہ گیا، دل میں اتر کر اس کو منور نہ کر سکا۔ ہاتھوں کے رحل تو بنے، پڑھا بھی گیا طوطے کی طرح۔ مذہب نے انسانیت کے رشتے ضرور تلاش کیے تھے لیکن غم کو ناآسودگی سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی اور وہ جذبہ جو خدا کی پہچان تک لے جاسکتا تھا صبر کے نام سے خوف کی نذر ہوتا رہا۔

    یہ اوٹ پٹانگ باتیں میں آج سوچتا ہوں، ان دنوں میرا ذہن صرف اس بات پر کڑھتا تھا کہ پھوپی امی مجھے اور چھوٹم کو اس کمرے میں داخل ہونے سے روکتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی چھوٹم کو روکنے لگا تھا۔ چھوٹم نے مجھ سے ایک دن کہا تھا کہ، ’’بھیا مجھے ڈر لگتا ہے، تم ساتھ رہو تو امی کو اس کمرے میں ڈھونڈیں۔‘‘

    میں نے بپھر کر اسے ڈانٹ پلائی تھی اور کہا تھا، ’’امی مر گئی ہیں، اب کبھی نہیں آئیں گی۔‘‘ اس نے روہانسا ہوکر کہا تھا ’’مر گئیں تو مرگئیں مگر اس کمرے میں تو رہ جاتیں۔‘‘ میں نے اپنی بڑائی کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ تو بدھو ہے۔ مر گئی ہیں تو پھریہاں کیسے رہ سکتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘ اس نے کہا تھا، ’’لوگ کہتے ہیں مرجانے کے بعد کوئی کبھی نہیں آتا۔ لیکن یہ لوگ جو زندہ ہیں مرنے والوں کو پکڑ کر کیوں نہیں روک لیتے۔‘‘

    میں جانتا تھا کہ خدائی میں کوئی دخل نہیں دے سکتا لیکن چھوٹم کو یہ بات کیسے سمجھا سکتا تھا میں۔ ہاں خدائی سے مجھے خود خوف آنے لگا تھا۔ میں یہ بات کسی کو بتلا بھی نہیں سکتا تھا۔چھوٹم نے بھی زیادہ حجت نہیں کی۔ کہا، ’’بھیا آخر امی جی کہیں رہتی تو ہوں گی۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں رہتی ہیں۔‘‘

    ’’تم جانتے ہو اور ملتے بھی ہو۔‘‘

    ’’مجھے چھوڑ کر اکیلے ملتے ہو بھیا۔ مجھے ملاؤنا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ایک دن لے چلوں گا تجھے۔۔۔ دیکھ لینا امی ایک چھوٹے سے کمرے میں کس طرح رہتی ہیں۔‘‘

    چھوٹم اپنے دوست ونکٹ مرلی اور راس کی چھوٹی بہن بجی کی طرح امی کو امی جی پکارنے لگا تھا۔ ابا کے بارے میں کچھ کہتا تو ابا جی کہتا۔

    میں نے چھوٹم سے رازداری میں کہا کہ یہ ساری باتیں پھوپی امی کو بتانا نہیں۔ ہم کو چھپ کر امی سے ملنے جانا ہوگا۔ چھوٹے نے خوشی خوشی مجھ سے وعدہ کرلیا۔

    میں ان دنوں بس ایک بات بڑی شدت سے محسوس کرتا تھا کہ کمرے کے دروازے کے دونوں پٹ پھوپی امی دن بھر کھلے رکھتیں۔ شام ہوتے ہی پیتل کا بڑا سا چراغ جلاکر کمرے میں رکھ آتیں۔ ایسے میں مجھے یہ کمرہ بڑا آباد سا لگتا۔ بجلی گھر میں تھی ضرور لیکن کٹ گئی تھی۔ میں نظریں بچاکر کبھی دن میں کبھی شام کے بعد کمرے میں گھس جاتا اور ایک ایک چیز کو غور سے دیکھتا۔ ہوا کھلانے کے لیے پھوپی امی الماری کے پٹ ادھ کھلے رکھتیں۔

    ایک قمیض اور پاجامہ الماری میں نفاست سے تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔ نوٹ بک کے ایک پورے صفحے پر امی نے بڑے حروف میں لکھا تھا اور پنوں سے یہ کاغذ تہہ کیے ہوئے جوڑے پر نتھی کردیا تھا۔ لیکن میں نے غور سے دیکھا تھا کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ لکھا تھا، ’’میرے صاحب انتقال کے وقت یہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔۔۔‘‘ میرا جی چاہا یہ کپڑے چپ کے سے پہن لوں اور چھوٹم سے کہوں چل ابھی امی سے مل آئیں۔ تو میرے کپڑے پہن لے۔ دیکھیں۔ اب وہ ہمیں پہچانتی بھی ہیں۔

    پھوپی امی نے کبھی امی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بھائی صاحب کہتے تھے کہ میری بیوی میری ساری بہنوں اور خاندان کی بزرگ خواتین سے زیادہ پڑھی لکھی ہے۔ اس کا املا اور انشا ان سب سے زیادہ درست ہے اور میں نے اردو کے ماسٹر صاحب سے ’’زیب تن‘‘ کے معنی پوچھ لیے تھے۔

    آج میں امی کوزیادہ ہی سوچ رہا تھا۔ ذہن میں ہر طرف وہ تھیں اور آنکھوں میں ان کا کمرے میں سلیقے سے رکھا ہوا سامان۔ میری امی بڑی سلیقے مند مشہور تھیں۔ لیکن سب سجاکر ہمیں چھوڑ گئی تھیں۔ تومجھے ان کے سلیقے سے شاید بیر سا ہوگیا تھا۔ میری نظر جو جزدان میں لپٹے ہوئے قرآن شریف پر پڑی تو میں نے بہت احتیاط سے قرآن شریف کو چھوے بغیر جزدان کھول دیا۔ کتنے ہی سوکھے ہوئے پھول میرے قدموں میں بکھر گیے۔ میں نے جانے کیوں جھرجھری سی لی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ شاید یہ خوف ہی تھا کہ میں نے جھک کر پھول نہیں اٹھائے۔ احتیاط سے جزدان کو اسی طرح باندھ کر قرآن شریف کو دوسرے کمرے کے اوپری طاق میں رکھ آیا۔ بڑا سکون ہوا تھا مجھے، جیسے میں نے اللہ میاں کو میرے اور امی کے درمیان سے ہٹا دیا ہے۔

    گھر والوں کی آنکھ بچا کر اس کمرے میں گھس جانا میرا معمول ہوگیا تھا۔ قرآن شریف کو دوسرے کمرے میں رکھ آنے کے بعد مجھے اس کمرے میں بڑا سکون ملنے لگا تھا۔ میں ایک ایک چیز کو چھوئے بغیر اوپر ہی اوپر غور سے دیکھتا اور امی کے سلیقے کی دل ہی دل میں داد دیتا۔ بہت جی چاہتا تو کسی چیز کو احتیاط سے کھول کر دیکھ لیتا، پھر اسی طرح جگہ ہٹائے بغیر رکھ چھوڑتا۔

    محراب میں دھرے، لکڑی کے ایک چھوٹے سے قلم دان کو میں نے کئی بار دیکھا تھا۔ بہت جی چاہتا تھا کہ اسے کھول کر دیکھوں کہ آخر اس میں امی نے کیا رکھ چھوڑا ہے۔ لیکن میرا ہاتھ محراب تک نہیں پہنچتا تھا۔ باہر دالان سے چوپائی اٹھا لانے اور اس پر چڑھ کر قلمدان کا ڈھکن کھولنے کے منصوبے میں کب سے بنارہا تھا۔ پھوپی امی، مبینہ باجی کے گھر مایوں میں دن سے ہی چلی گئی تھیں۔ میرے لئے یہ سنہرا موقع تھا، کمرے کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے اور اگربتیاں جل رہی تھیں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر چوپائی اٹھالی اور سیدھے محراب کے مقابل زمین پر رکھ دی۔ جلدی میں شاید دیوار سے اس قدر گتھا کر رکھ دی تھی کہ میرا اس پر کھڑا ہونا محال تھا۔ ایک بار کوشش کر کے میں نے چوپائی کا دیوار سے فصل برابر کیا اور اس پر چڑھ کر اطمینان سے چوبی قلمدان کا ڈھکن کھولنا چاہا تو ڈھکن آدھا کھل کر محراب کی چھت کو چھو لیتا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ قلمدان کو محراب سے نکال لیا جائے۔ چنانچہ میں نے بڑی شتابی سے یہ کام انجام دیا اور چوپائی سے اترکر قلمدان اس پر رکھ دیا۔

    کھولا تو خوشبو کے بھبکے نے مجھے مسحور کردیا۔ یہ تو عطر دان نکلا۔ کوئی بارہ عدد شیشیاں ترشے ہوئے چوبی فریم کے جال میں جکڑی ہوئی عطر دان میں دھری تھیں۔ عطر میں بھیگی ہوئی ایک پھولی پھولی سے پڑیا تھا۔ میں نے یہ پڑیا عطردان سے نکالی تو میری ہتھیلی اور انگلیوں کی گرفت بھر گئی۔ میں نے احتیاط سے جیب میں ٹھونس لی کہ یہاں کھڑا رہ کر اس کا جائزہ لینا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ میری انگلیاں، خوشبودار ہوگئی تھیں۔ اس پر بھی میں نے ایک ایک شیشی عطردان سے نکالی۔ کوئی بالکل خالی تھی، لیکن مہک رہی تھی۔ کسی میں پاؤ شیشی عطر تھا۔ نیلا نیلا سا۔ کانچ کا ڈاٹ نکالتے ہی خس کی بو نے نتھنوں کو معطر کردیا تھا۔ کسی میں ایک دم گہرے سرخ رنگ کا عطر تھا۔ تقریباً بھری ہوئی اس شیشی سے کوئی اچھی سی مانوس سی خوشبو آتی تھی۔ میرا اس خوشبو سے واسطہ سا لگتا تھا، جیسے یہ میرے چھٹ پن سے ساتھ ساتھ رہی ہو۔ جی چاہتا ہے، اس کا صحیح رنگ آپ کو سمجھا سکوں۔ یوں سمجھ لیجئے چائے کا گہرا Decotion۔ بس یہ رنگ تھا اس کا۔

    زیادہ شیشیاں خالی تھیں۔ دو ایک میں پیلا پیلا اور گلابی سا عطر تھا جو آدھی آدھی شیشی سے کم ہی تھا۔ میں نے ہر وہ نکالی ہوئی شیشی اس کی جگہ رکھ دی تھی، جس کو کھول کر دیکھا تھا، سونگھا تھا اور اس طرح اپنا کام پورا کر آیا تھا۔ عطردان کو دونوں ہاتھوں میں احتیاط سے پکڑ کرمیں ’’اسٹول‘‘ پر چڑھ گیا اور طاق میں رکھ چکا تب بھی اطمینان کا سانس نہ لے سکا۔ کمرے سے باہر نکل کر میں نے دیکھا۔۔۔ عباسیہ کی ماں جو ہمارے گھر، اوپر کا کام کرتی تھی الگنی پر بھیگے ہوئے کپڑے سکھانے کے لئے ڈال رہی تھی۔ اس نے مجھے مسکراتے ہوئے بغور دیکھا۔ میں ذرا سا بوکھلا گیا اور اس کی مسکراہٹ کو معنی پہنائے بغیر کمرے میں گھس گیا۔ کچھ دیر بعد جھانک کر باہر دیکھا تو وہ نہ تھی۔ چھپاکے سے میں نے باہر لے جاکر چوپائی اس کی جگہ رکھ دی۔

    پیچھے سے کسی نے آہستہ سے کہا، ’’بیٹا اماں یاد آتی ہیں نا۔‘‘

    میں نے مہکتی ہوئی پڑیا کو جیب میں ہی دبوچ لیا جیسے اس کی مہک کو دبوچ رہا ہوں۔ پلٹ کر دیکھا۔ عباسیہ کی ماں تھی۔میں نے کہا، ’’نہیں نہیں اور چلتا بنا۔‘‘

    میں نے پڑیا اپنے لکھنے پڑھنے کی میز کے ڈرائر میں رکھ لی کہ کہیں باہر لے جاکر اور سب کی نظروں سے بچاکر اطمینان سے دیکھوں گا۔ کچھ دیر تک میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے میرا سکون چھن گیا تھا۔ جیب میں ٹھنسی پڑیا نے جیب سے الگ ہوکر اپنی خوشبو اور ذرا سی نمی جیب میں بسا دی تھی اور اس کی مہک مجھے میری امی کی یاد دلا رہی تھی۔

    امی کے قرینے اور سلیقے کی باتیں تو کبھی خاندان بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ ادھر بند کمرہ کھل کر جب میرا راز داں ہوا تھا تو میں نے بھی قدم قدم پر امی کا سلیقہ دیکھا تھا۔ ہر چیز کو جتن سے رکھنے والی امی مجھے محفوظ نہ کرسکیں۔ میں اسی کسک کو ان کی یادوں کا قرینہ سمجھنے لگا تھا۔ اور مجبوری سے سمجھوتہ کیے جارہا تھا، لیکن چھوٹم کو دیکھ دیکھ کر امی سے کبیدگی کا احساس بڑھنے لگتا تو میں امی ہی کو بھول جانے کے جتن کرتا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ چھوٹم کو اتنا بے کس و نامراد چھوڑ کر امی موت کے ساتھ جانے کو تیار ہوگئیں۔ ان کے سارے قرینوں سے مجھے بیر سا ہونے لگتا، لیکن پھر فوری ہی ان پر ترس آنے لگتا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ موت ظالم ہوتی ہے۔

    میں نے سوچا کہ ہاتھ اچھی طرح دھولوں اورکپڑے بدل لوں کہ امی کی خوشبو سے مجھے چھٹکارا ملے لیکن یکایک میرے ذہن نے فیصلہ کن انداز میں بات سمجھا دی کہ تم جب تک بند پڑیا کھول کرنہ دیکھ لوگے بے آرام رہوگے۔۔۔ دیکھ لو۔ پھر صابن سے ہاتھ دھوکر کپڑے بدل لینا۔ میں نے دیر نہیں کی۔ اپنی میز کے خانے سے پڑیا نکال کر پاجامے کے نیفے میں اڑس لی اورباہر چلا آیا۔ گھر سے اتنے فاصلے پر کہ کسی کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ میں نے پشت راستے کی طرف کی اور پڑیا پھر سے ہاتھوں کی گرفت میں جکڑ کر کھول دی کہ جیسے وہ پھر سے کہیں اڑ نہ جائے۔

    اس پڑیا میں چار پھولے پھولے سے تعویذ نکلے۔ میں سمجھ گیا کہ قرآن پاک کی آیتیں ہوں گی۔ جو عطر میں بھیگ بھیگ کر پھول گئی ہیں۔ میں نے کھول کر دیکھا اور دنگ رہ گیا۔ اس میں ایک دانت تھا اور لپٹے ہوئے کاغذ پر کچھ لکھا ہوا تھا جو عطر میں بھیگ جانے کے بعد پڑھا نہیں جاتا تھا۔ میں نے دوسرا تعویذ کھولا تو اس میں بھی ایک کلساٹ مائل دانت نکلا۔ کاغذ کی تحریر بغور دیکھنے پر بھی کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ آخر یہ دانت کس کے ہیں۔ اب تحریر سے میری دلچسپی صرف اس حد تک رہ گئی تھی۔ امی کی ہنستی ہوئی بتیسی تصور میں کھل جاتی تو مجھے کسی کمی کا احساس نہ ہوتا۔ ان کے تو سارے ہی دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ تیسرے تعویذ میں بھی یقین تھا کہ دانت ہی ہوگا۔ میں نے تعویذ کھولا تو دانت ہی نکلا۔ دونوں دانتوں سے اجلا تھا۔ تحریر صاف پڑھی جاتی تھی۔ جو پڑھا نہ جاتا تھا وہ ایسا تھا کہ اس نے جیسے اپنی اہمیت کھودی ہے۔

    ’’میرے صاحب کا تیسرا دانت جو عزیز از جاں چھوٹم سلمہ کی ولادت کے پورے دو ماہ دو دن بعد مسواک کرنے کے دوران نکل گیا تھا۔‘‘

    سات سال پہلے کی تاریخ درج تھی اور میں چھوٹم سے پانچ سال سے کچھ اوپر ہی بڑا تھا۔ میں چاہتا تو اس تاریخ کو بہ آسانی یاد رکھ سکتا تھا، لیکن میری بھیگی ہوئی آنکھوں کو امی نے اپنے ہی حال میں چھوڑ دیا تو چھوٹم جیسے مجھ سے چمٹ کر رونے لگا۔ میں جان گیا تھا کہ چوتھے تعویذ میں بھی دانت ہے۔

    امی نے ابی کے دانتوں تک کی حفاظت کی اور چھوٹم کو چھوڑ گئیں۔ لیکن کیا امی بے قصور نہیں ہیں؟ ہمیں چھوڑ رہی تھیں تو ان کے بس میں کیا کچھ ہوگا۔ میں نے چمٹے ہوئے چھوٹم کو جو مجھ سے دور رہ کر بھی چمٹا ہوا رہتا تھا، الگ کرنا چاہا۔ پھر جانے کس جذبے کے تحت کچھ سوچے بغیر دانتوں کے چاروں تعویذ سامنے بہتی ہوئی گٹر میں پھینک دیے۔ دو ایک کاغذ دانتو ں سے الگ ہوکر گٹرمیں تیر رہے تھے اور دانت ڈوب گیے تھے۔ امی جھپٹ پڑیں۔ میرے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بڑی مضبوطی سے تھام لیے۔

    ’’یہ کیا کردیا تونے؟ یہ کیسے کر سکا تو۔‘‘

    میں نے جھٹکا دے کر امی کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ جدا کیے اور وہ بھیگی آنکھوں سے مجھے تکتی ہوئی چھپاک سے غائب ہوگئیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ کچھ سنبھل کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے پونچھی تھیں تو آنکھیں معطر ہتھیلیوں سے جلنے لگی تھیں۔ میں نے صابن سے ہاتھ دھوئے تھے۔ میں نے اپنے کمرے میں جاکر قمیض بدل لی تھی۔ چھوٹم، عباسیہ کی ماں کی چٹائی پر پڑا پڑا مجھے مٹ مٹ دیکھ رہا تھا۔ قمیض بدل لینے سے بھی امی کی خوشبو نہیں گئی تھی۔ مجھے لگا تھا جیسے امی مجھ میں بس رہی ہیں اور چھوٹم میرے سارے راستے مسدود کر رہا ہے اور شاید میں نے اب کلاس میں سونا بھی چھوڑ دیا ہے۔

    مأخذ:

    شہرآشوب (Pg. 115)

    • مصنف: اقبال متین
      • ناشر: جمیل نظام آبادی
      • سن اشاعت: 2003

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے