Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تج دو تج دو!

غیاث احمد گدّی

تج دو تج دو!

غیاث احمد گدّی

MORE BYغیاث احمد گدّی

    یہ الفا٭۔۔۔

    باربار اس کی سماعت کے تعاقب میں یہ الفاظ آتے رہے۔ جب وہ سونے کے لیے بستر پر دراز ہوتا اور خاموش، سنسان کمرے اور اس کی دیواروں کو تکتے تکتے تھک جاتا تو آنکھیں بند کر لیتا، پھر بند آنکھوں میں جانے کتنی صدیوں کی درمیان پھیل جاتیں، افسردگی کا تسلط ہو جاتا اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کے ہونٹ ہلتے، جہاں سے گویائی ہولے سے سر اٹھاتی اور کچھ ایسے الفاظ ادا ہوتے جن کو سننے کے لیے اس کی سماعت تیار نہ ہوتی، وہ کان بندکر لیتا اور آنکھیں اس وقت آپ ہی آپ کھل جاتیں۔ کمرہ ویسے ہی ویران ہوتا۔ تنہا تنہا، پھر کہیں سے غبار اٹھتا جس کو دبائے دبائے اس کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ ضبط، ضبط اسے کے اختیار سے باہر کی چیز ثابت ہوتا وہ آنکھیں میچتا، تب اس کی آنکھو ں سے آنسو کے دو گرم قطرے آہستہ سے ڈھلک آتے۔

    جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا اس کے صدر دروازہ سے عین بیس گز کے فاصلہ پرایک دم کٹا کتا ہمدردی کی راہ تکتا۔ یہ سلسلہ بہت دنوں سے نہیں ابھی چند روز سے شروع ہوا تھا۔ یہی کوئی پانچ چھ مہینے سے! تووہ دم کٹا کتا، چلڈرن پارک کا جو موڑ داہنی طرف مڑتا تھا وہیں سے اس کے ساتھ ہو لیتا اور ٹھیک اس سے دو انچ کے فاصلے پر، اس کے پیچھے پیچھے چلا کرتا۔ یوں کہ کتے کا تھوتھنا، اس کے پتلون کی مہری سے کبھی کبھار چھو بھی جاتا۔ پہلے دن تواس نے کتے کی حرکت پر اسے ڈانٹا، جھڑکیاں دیں مگر کتے نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ یونہی گردن جھکائے چپ چاپ چلتا رہا گویا یہ اس کا اپنا پالتو کتا ہو اور اس کی محافظت میں ہو۔ دوسرے دن اس نے اس کو لات رسید کی، دھتکارا، مارنے کے لیے پتھر اٹھایا جب بھی وہ بدستور زمین سونگھتا چلا گیا۔ پھرایک دن اس نے سڑک پر پڑی ایک بید سے اس کی خوب مرمت کی اور مارتے مارتے ایک دم اسے نڈھال کر دیا، اتنا مارا کہ وہ اوندھا ہوکر فرش پر گر پڑا۔ کچھ دور جاکر پلٹ کر دیکھا تو وہ اسی طرح فرش پر اوندھا پڑا کیں کیں کر رہا ہے۔

    وہ آگے بڑھ گیا اور سو دو سو قدم چلتا رہا مگر اس دم کٹے کتے کا پتہ نہیں تھا۔ تب اس نے گویا اطمینان کا سانس لیا۔ یہ کیا تک تھی، کمبخت کتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ تھوڑی دور تک چلنے کے بعد پلٹ کر دیکھا جب بھی کتا پلٹ کر نہیں آیا تو اسے اور بھی اطمینان ہو گیا۔

    اس دن کچھ عجیب بات ہوئی، اسی چلڈرن پارک میں ایک بہت بڑا مجمع تھا۔ بےشمار آدمیوں کی بھیڑ تھی آخری سرے پرکوئی آدمی کف دہندہ زور زور سے تقریر کر رہا تھا۔ بیچ بیچ میں جب وہ رکتا تو آدمیوں کے گھنے جنگل سے تالیوں کی آواز اٹھتی تڑاتڑ، تڑاتڑ۔۔۔ تڑاتڑ!

    وہ کچھ دیر تک خاموشی سے مجمع کو تکتا رہا۔ دلچسپی سے اس کی آنکھیں اور کان دونوں لطف اندوز ہو رہے تھے، جب ہی اس کی نگاہیں اسکے دس گز کے فاصلے والے درخت پر گئیں۔ بڑا گھنا۔۔۔ سا املی کا پیڑ تھا۔ املی کا تھا۔۔۔ ہاں یقیناًاملی ہی کا تھا۔ جس کی ایک شاخ پر ایک بےحد گندہ، بے حد کراہیت پیدا کرنے والا پرندہ بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ پرندے اور درخت پر دھیان بھی نہیں دیتا مگر جیسے ہی مجمع میں سے تالیوں کی بےپناہ آواز گونجی پیڑ پر سے قیں ںں۔۔۔ کی ایک لمبی اور گھناؤنی آواز سنائی دی، ایسی کہ اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ جب ہی اس کی نگاہیں اس درخت کی طرف پرندے پر اٹھیں وہ سرسے پاؤں تک سہم گیا۔ اسے عجیب سا تجسس ہوا، ایسا کیوں ہوا؟ ہو سکتا ہے اس کی سماعت اور بصارت دونوں نے مل کر سازش کی ہو اور اسے دھوکا دیا ہو۔ چنانچہ جب دوسری بار تالیاں بجنے لگیں تووہ قیں کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرف مڑ گیا۔ اس نے دیکھا جب تک تالیاں بجتی رہیں وہ منحوس پرندہ قیں قیں کرتا رہا، گردن کو اوپر سے نیچے گراتا اٹھاتا ہے۔ اس وقت پرندے کے بشرے سے یوں ظاہر ہو رہا تھا گویا وہ زور زور سے ہنس رہا ہو، قیں قیں کی مکروہ کیا تھی یقیناً اس کی ہنسی کی آواز تھی۔ اس نے سوچا ٹھیک ہے گویا پرندے نے قہقہہ لگایا ہو۔

    ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس نے مجمع کی طرف دیکھا، اس لچھے دار تقریر کرنے والے کی سمت دیکھا پھر اپنے آپ سے سوال کیا، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ نئی بات، تقریریں یہاں برابر ہوتی ہیں تالیاں بھی بجتی ہیں۔ مگر اس سے پہلے یہ عجیب صورت حال درپیش نہ ہوتی تھی۔

    جہاں تک اس کی یاداشت کا تعلق ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس نے اپنے کو آپ سمجھانے کی کوشش کی، یہ سب محض اتفاق ہے۔ یہ پرندہ یہاں جو بیٹھا ہے یہ بھی اتفاق ہے اور یہ بھی کہ وہ گردن نیچے اوپر کرتا ہے اور یہ بھی عین اتفاق ہے کہ اسی وقت تالیاں بجتی ہیں، یا پھریہ سنجوگ کی بات ہے۔ کہ جب تالیاں بجتی ہیں جب ہی پرندے کے گلے سے آواز نکلتی ہے۔ یایوں کہ اس نے اپنے آپ کو ایک دانا آدمی کی طرح سمجھانے کی کوشش میں ہر جانب سے تسلی کرنی چاہی کہ ممکن ہے، تالیوں کی آواز سن کر ہی پرندے کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اس آواز کے صدمے سے اس کے گلے سے قیں کی صدا پھوٹتی ہے۔ ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ پچھلے چند مہینوں جو وہ بیمار رہا ہے نا بس اسی سبب وہ بہت زیادہ سوچنے لگا ہے اور کچھ اول فول بھی سوچنے لگا ہے اور ضرورت سے کچھ زیادہ بھی۔ ورنہ بات فقط اتنی سی ہے کہ تالیوں کے شور سے پرندے کی آنکھیں کھلتی ہیں اور گلے سے آواز بھی نکلتی ہے اس میں کوئی تعجب خیز پہلو بھی کہاں؟ بس بس اتنی سی ہی بات ہے جب ہی اس کی توجہ منٹوں میں مجمع کی طرف منتقل ہو گئی۔

    وہ تقریر کرنے والا مہاپرش کوئی اہم نکتے پر بول رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ فضا میں زور زور سے تلواریں چلا رہے تھے اور سننے والا مجمع بے حد دھیان سے سانس روکے کھڑا تھا۔ تقریر کی آواز تو اس تک نہیں آ رہی تھی۔ مگر بات ضرور اہم تھی اس نے اندازہ لگایا جب ہی لوگ بت بنے۔۔۔ ابھی وہ یہ ہی سوچ رہا تھا کہ مجمع نے پھر زور زور سے تالیاں بجھائیں۔۔۔

    تج دو۔۔۔ تج دو۔۔۔

    ارے یہ کیا، اس نے پلٹ کر دیکھا یہ آواز کہاں سے آئی مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ پھر آواز آئی تج دو۔۔۔

    تو گویا یہ آواز پرندے ہی کے حلق سے آئی تھی۔ اسے بےحد تعجب ہوا، شاید اس کی سماعت نے خطا کی ہو، یہ دو الفاظ تج دو، تج دو ایک پرندہ انسانوں کی زبان کیسے بول سکتا ہے۔ طوطا ہوتا تو اور بات تھی۔ کہیں سے رٹے رٹائے الفاظ بولتا رہتا۔ یہ صفت صرف طوطا اور مینا ہی کو ودیعت ہوئی ہے کہ انسانوں کی نقالی میں ان کی زبان آدمیوں کے چند الفاظ ادا کر سکتی ہے مگریہ پرندہ نہ طوطا ہے نہ مینا، یہ کوئی اور پرندہ ہے، یہ اس طرح نہیں بول سکتا، بول ہی نہیں سکتا۔ اس نے سوچا یہ اس کی اپنی لنگڑی سماعت کا قصور ہے۔

    اتنے میں تقریر ختم ہو گئی۔ لوگ تتربتر ہو نے لگے۔ چند جو شیلے آدمیوں نے میزپر کھڑے تقریر کرنے والے صاحب کوکندھوں پر اٹھایا اور چیختے چلاتے سڑک کی طرف روانہ ہوئے۔ بڑا جوشیلا اور بدن میں لہو کی رفتار کو تیز کر دینے والا منظر تھا۔ وہ محویت سے چپ چاپ کھڑے کھڑے اس حیات افروز منظر کو تکتا رہا۔ خوشی سے اس کی باچھیں کھل اٹھیں کیوں کہ دیر سے اس کی رگوں میں منجمد خون رواں ہو گیا تھا، یہ سب اسے بہت اچھا لگا۔

    ذرا دیر میں مجمع چھٹ گیا۔ نعرہ لگاتے لگاتے کچھ لوگ مہاپرش کو کار تک لے گئے۔ عین اسی وقت پھڑ پھڑ کرتے پرندے نے پورے مجمع کے اوپر سے چکر لگایا اور اوپر ہی اوپر مشرقی افق کی طرف ہو لیا۔ اس نے حیرت سے دیکھا اور غور کیا تواس وقت بھی جب پرندہ لوگوں کے سمندرپر چکر لگا رہا تھا، تج دو، تج دو، کی آواز سنائی دے رہی تھی، زور زور سے اور جلدی جلدی۔۔۔تج دو۔۔۔ تج دو۔۔۔

    کیا یہ، یہی الفاظ تھے؟ یا اور تھے۔ ہو سکتا ہے تج دو کی بجائے، کوئی اور الفاظ ہوں ملتے جلتے، جیسے ہم شکل آدمی ہوتے ہیں۔ جن میں اس درجہ مشابہت ہوتی ہے کہ بالکل ایک سے لگتے ہیں۔ پھر بھی غور سے دیکھنے میں دونوں میں فرق رہتا ہے۔ ایسے ہی دو الفاظ ملتے جلتے ہوں، جن کے باعث اس کے ذہن نے ایک مفہوم پیدا کر لیا ہو۔۔۔ یہ سب بےکار باتیں ہیں، وہ چند دنوں سے بہت سوچنے لگا ہے، اتنا زیادہ کہ سوچ کے بوجھ تلے اس کا ذہن کچلا جاتا ہے۔

    وہ خاموشی سے سر جھکائے دھیرے دھیرے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا، اس نے پان کی دوکان سے ایک پاکٹ سگریٹ خریدی پیسے دئیے اور سنیما ہال کی سربلند عمارت کی طرف ہو لیا۔ جہاں نئی فلم کا ایک خوبصورت پوسٹر آویزاں تھا۔ پوسٹر بہت خوبصورت تھا، ایک نیم عریاں حسینہ سمند کے کنارے ریت پرلیٹی ہوئی تھی۔ ایسی کشش تھی کہ آدمی دنیا اور مافیہا دونوں کو فراموش کر جائے جب ہی لوگوں کا ٹھٹ کا ٹھٹ ٹوٹا پڑ رہا تھا۔ اس نے دیکھا ان میں سے زیادہ تر وہی لوگ تھے جو ابھی سیاسی جلسہ میں زور زور سے تالیاں بجا رہے تھے۔ اسی وقت اس نے محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے پاس کوئی چیز متحرک ہے۔ اس کا ذہن دفعتاً بہت سی باتیں فقط ایک لمحہ میں سوچ گیا، مگر وہ سب کچھ نہیں تھا، جو کچھ اس نے سوچا تھا۔ یہ تو وہی دم کٹا کتا تھا۔

    یہ پھر آ گیا، اس نے سوچا یہ کیسے اتنی دور تک اسے ڈھونڈتا ڈھانڈتا چلا آیا۔ کتے کی شامہ کے متعلق اس نے سن رکھا تھا کہ وہ بہت تیز ہوتی ہے چنانچہ یہ دم کٹا کتا اس کے پیچھے پیچھے یہاں تک چلا آیا۔

    اب ہر روز کا معمول ہو گیا تھا، کتا اسے چلڈرن پارک کے موڑ پر ملتا، اس کے لاکھ دھتکارنے کے باوجود پیچھے پیچھے چلتا اس کے گھر کے دروازے تک آتا پھر وہ دروازہ بند کر لیتا۔ ذرا دیر تک وہ کتا دہلیز کے آس پاس ٹہلتا، پھر اس کے بعد نامعلوم سمت چلا جاتا، چندمنٹوں کے بعد وہ دروازہ کھول کر دیکھتا۔ کتا جا چکا ہوتا تب وہ اطمینان کا سانس لیتا اور اپنی بیوی سے باتیں کرتا چائے پیتا، ہنستا بولتا۔

    اس کی بیوی ن ایک دن ٹوک دیا ’’یہ آپ کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کیوں کر لیتے ہیں؟‘‘

    ’’دروازہ بند کر لیتا ہوں۔۔‘‘

    ہاں اور کچھ دیر بعد دروازہ کھول کر دیکھتے بھی ہیں۔ گویا کوئی آدمی آپ کا پیچھا کر رہا ہو‘‘۔

    ’’کوئی آدمی پیچھا کر رہا ہو؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟میرا کون پیچھا کر سکتا ہے‘‘۔

    اس کی بیوی نے بشاشت سے کہا ’’نہ کر رہا ہو مگر آپ کے چہرے پر کچھ ایسے ہی تاثرات نظر آتے ہیں۔ اس وقت ایسا ہی لگتا ہے‘‘۔

    وہ چونک گیا، یہ بات سچ ہو سکتی ہے، اس نے سوچا اپنی بیوی کو وہ سب کچھ بتا دےگا۔ مگر اپنے دل ہی دل میں اپنے آپ کو سمجھانے لگا۔ اس میں بتانے کی بات ہی کیا ہے۔ نیلو ہنسنے لگےگی۔ آخراتنی ہی سی بات ہے۔ اتنی سی بات پروہ گھبرانا چھوڑ دےگا ہمیشہ کی طرح خوش و خرم رہےگا۔ وہ کتا کوئی گزند تو نہیں پہنچاتا معمولی بات ہے۔ بےحد معمولی بات ہے۔

    ’’اب آپ سوچنے کیا لگے، اس طرح۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نیلو نے چائے کی پیالی بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’بقراط مت بنئے ٹوٹو کی چٹھی آئی ہے اس کا نانی کے پاس جی نہیں لگتا‘‘ مگر گویا اس نے دوسری بات سنی نہیں۔ فوراً جواب دیا۔ کیا میں بہت سوچنے لگاہوں، ٹھیک ٹھیک۔۔۔

    ’’عجیب آدمی ہیں‘‘۔نیلو نے تعجب سے کہا۔ میں ٹوٹو کی بات کر رہی ہوں، آپ۔۔۔‘‘

    اس روز اس نے سوتے وقت عہد کیا کہ وہ اب یوں ایک چھوٹی سی بے حد غیر اہم بات کے لیے پریشان نہ ہوگا اور اس میں جو ذرا لاتعلقی پیدا ہونے لگی ہے ہر چیز سے، جو وہ غلط طور پر کٹا کٹا رہنے لگا ہے۔ اس کو روک دےگا۔ یہ اس کی شاعرانہ بےپروائی ہے مگر ایک بیمار آدمی کے سے سوچنے کی عادت ٹھیک نہیں، یہ کوئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ دوسرے دن وہ دفتر میں خوشی خوشی کام کرتا رہا۔ ہلکا پھلکا سا۔ اس کے دونوں انے جو ادھر کئی دنوں سے بھاری بھاری لگتے تھے، آج سبک تھے، بےفکری کی ایک کیفیت تھی جو اس کے اندر اور باہر دونوں اطراف میں مسلط تھی۔

    شام کو جب دفتر بندہونے کا وقت آیا، چیف ایڈیٹر نے اسے اپنے کمرے میں بلایا، وہ جاکر خاموشی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کمرے میں اس کے علاوہ چند ایک اور لوگ بھی تھے۔ دو اسسٹنٹ ایڈیٹر اور چھ کالم نویس، سبھوں کے چہرے بشاش تھے اور آنکھیں چمک رہی تھیں۔

    جب چائے کا دور چل چکا تو گویا ایک غیررسمی میٹنگ کا افتتاح ہوا۔ صرف چند جملوں میں بہت سی باتیں چیف ایڈیٹر نے بتائیں، وہ یہ کہ ’’پندرہ بیس دن پہلے یہ اخبار بک چکا ہے۔ اسے ملک کے بہت بڑے سیٹھ فلاں نے اتنی کثیر رقم کے عوض لے لیا ہے۔ اخبار خریدنے والا سیٹھ بہت نیک دل انسان ہے۔ اس نے تمام ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا ہے اور دوسری سہولتیں بھی مہیا کر دی ہیں۔۔۔ اور اس کے بدلے میں۔۔۔‘‘

    چیف ایڈیٹر خاموش ہو گیا۔ ذرا ٹھہر کر بشاشت اور وقار سے کہا ’’اور اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی نہیں چاہتے حتیٰ کے پالیسی میں بھی کوئی پیسہ برابر تبدیلی نہیں چاہتے!‘‘ چیف ایڈیٹر یہاں خاموش ہو گیا اور جب ہی تڑتڑ کرکے تالیاں بجیں۔۔۔ حتیٰ کے پالیسی۔۔۔تڑ، تڑتڑ۔۔۔ تالیاں تالیاں۔۔۔

    دفعتاً وہ چونک اٹھا، جب زور زور سے تالیاں بج رہی تھیں، جب ہی اس کے کان بجے۔ وہ دو الفاظ کی گونج سنائی دی، اس نے جلدی سے گردن اٹھا کر دیکھا کہیں کچھ نہیں تھا۔ وہ منحوس پرندہ، کہیں نہیں تھا، اس کی آنکھیں پھرتے پھراتے دور روشن دان پر ٹک گئیں وہ پرندہ نہیں تھا، مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ کچھ تھا ضرور۔ روشن دان کے شیشے کے پیچھے کوئی سایہ تھا اس وقت پھر اس کے ساتھیوں نے ایڈیٹر کی کسی بات پر، جسے وہ سن سکا تھا تالیاں بجائیں۔ اسی وقت روشن دان کے زرد رنگ کے شیشے کے پیچھے کوئی سایہ کانپا، کچھ آواز بھی آئی پھر اس کی سماعت نے سنا۔ ’’تج دو۔۔۔ تج دو۔۔۔ تج۔۔۔عجیب سی سراسیمگی کے زیر اثر اس نے پاس کے کھڑے اپنے ایک ساتھ کو بازو سے پکڑ کر احتیاط سے پوچھا، تم نے کچھ سنا؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘ اس کے ساتھی نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’ادھر دیکھو تو روشن دان کی طرف۔۔۔‘‘ اس کے ساتھی نے روشن دان کی طرف مڑکر دیکھا۔ ’’کیا؟ کچھ بھی تو نہیں ہے، تم اتنے ڈرکیوں رہے ہو، کیا ہو گیا ہے تمہیں؟؟‘‘

    ’’بات یہ ہے‘‘۔ اس نے سنبھالا لیا، کیا تم نے ایسے کوئی الفاظ نہیں سنے، جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔۔۔ تج دو، تج دو۔۔۔!

    وہ آدمی ہنسنے لگا، تم پاگل ہو گئے ہو، جو الفاظ تم سن رہے ہو وہ تو میں بھی سن رہا ہوں، یہاں سب ہی لوگ سن رہے ہیں۔

    ’’کیا ہے‘‘۔

    ’’یہ ہی جو چیف ایڈیٹر صاحب۔۔‘‘

    پھر زور زور سے تالیاں بجیں اور میٹنگ برخواست ہو گئی۔

    وہ کچھ زیادہ بدحواس تھا، دن بھر جو اس نے اپنے آپ کو خوشی خوشی کام میں مصروف رکھا تھا، اس کی ساری خوشیاں مٹی میں مل گئی تھیں۔ اس کا رنگ قدرے زرد ہو گیا۔ جب اس نے دفتر کی سیڑھیاں پار کرکے تیز تیز قدموں سے چلڈرن پارک کا فاصلہ طے کیا، ۔۔۔ عین اسی وقت وہ دم کٹا کتا اس کے پیچھے لگ گیا۔

    اس نے آج کتے کو کچھ نہیں کہا نہ ڈانٹا، نہ دھتکارا مارا پیٹا کچھ نہیں، بلکہ۔۔۔ بلکہ اسے اچھا لگا، یوں محسوس ہوا کہ شہر کی اس بھیڑ میں جو وہ چند دنوں سے اپنے آپ کو تنہا تنہا محسوس کر رہا ہے خصوصاً دفتر سے گھر آتے وقت اس کو سارے چہرے اجنبی لگتے ہیں وہاں یہ کتا گویا اس کا صورت آشنا نکل آیا ہے۔

    اجنبی اور صورت آشنا کی بات نکلی تو ایک دن بڑا دلچسپ واقعہ ہوا، اس دن جب دفتر سے گھر پہنچا تو اس کی بیوی کچھ ناراض تھی، کیوں؟ کیوں اس نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی تھی جس سے نیلو کو ناراضگی ہوتی۔ پھرنیلو تو اس سے ناراض ہوتی بھی نہیں تھی۔ آج کیا بات ہوئی بہت منانے سمجھانے پوچھنے پروہ رو پڑی۔

    کل ڈیڈی آئے تھے، کہہ رہے تھے کل بازار میں تم نے ان کو دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں، بات تک نہیں کی۔

    میں نے کب؟ کہاں؟ کل تو میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں۔

    وہ تمہیں پکارتے رہے، تم نے ان کی طرف دیکھا بھی بلکہ چند سیکنڈ تک دیکھتے رہے مگر ان کی بات کا جواب نہیں دیا اور اجنبیوں کی طرح ڈل دئیے۔

    ا سنے گھنٹوں اپنے ذہن پر زور دیا مگر کچھ یاد نہیں آیا۔ کہاں نیلو کے ڈیڈی اسے ملے تھے، کب ملے تھے؟ نیلو کہتی ہے ان کی طرف تکتے رہے اور آگے بڑھ گئے۔ اس دن عثمان نے بھی راہ چلتے اسے روک لیا تھا، کہ سامنے دیکھ کر بھی آگے بڑھ جاتے ہو۔

    ’’نہیں یار۔۔‘‘ اس نے لجاجت سے جواب دیا، معاف کرنا دیکھا نہیں‘‘۔

    ’’یہ دیکھو بےشرمی، سالے دیکھا کیا، دیکھتے رہے، منٹوں اور آگے بڑھ گئے ہو، حرام زادے چشم پوشی کرتے ہو؟

    اس نے نیلو کو من وعن یہ واقعہ سنا ڈالا۔ کیوں نیلوایسا کیوں ہوتا ہے؟

    ’’سوچتے رہتے ہونگے ہر دم‘‘۔ نیلو ہنسی پڑ گیا ہوگا کسی الو کا سایہ۔۔۔

    الو کے نام پر وہ چونک گیا۔ الو، ہاں، وہ پرندہ، وہ منحوس پرندے کی شکل بھی الو ہی سے مشابہ تھی۔ اب اسے یاد آیا۔ ویسا ہی گندہ غلیظ مکروہ، ویسی ہی بڑی بڑی گول گول آنکھیں اور اس طرح قیںںں۔۔۔ کرتے وقت اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ یقیناً وہ پرندہ الو ہی ہوگا۔ الو کو کبھی اس نے دیکھا نہیں۔ مگر اس کی ہئیت کا اسے پتہ تھا، وہ پرندہ یقیناً الو ہی ہوگا، الو ہی۔۔۔ الوہی۔

    ’’اچھا نیلو ذرا یہ بتاؤ تو الو ہوتا کیسا ہے؟‘‘ اس نے کمال سنجیدگی سے یہ سوال اپنی بیوی سے کیا۔ جب وہ اس کے پہلو میں لیٹی اس کا بوسہ لینے کے لیے جھک رہی تھی اس نے انگلیاں بڑھا کر انہیں روک دیاتھا۔ نیلو رک گئی۔ اس کے دونوں جاں بلب ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے۔

    ’’کیوں نیلو کیسا ہوتا ہے؟‘‘

    پھر اس کی بیوی جھلا گئی، وہ اٹھ کھڑی ہوئی توہین کے اثرات سے وہ بے حد بدمزہ ہوئی ذرا دیر بعد وہ زور زور سے چلتی ہوئی واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئینہ تھا۔ ’’ایسا ہوتا ہے‘‘۔ اس نے اس کے چہرے کے سامنے کر کے کہا اور آئینے کو پلنگ پر پٹک دیا۔

    پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آئینے کو الماری میں رکھا اور پاس کھڑی بیوی کی کمر میں بانہیں ڈال کر اسے منانے لگا ذرا دیر میں وہ من گئی۔ ا سکی بیوی نے اداسی سے کہا کہ وہ آج کل کچھ بجھا بجھا رہنے لگا ہے، شاید اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ نیلو نے بتایا کہ اس میں وہ تپاک وہ گرم جوشی بھی نہیں رہی۔ لگتا ہے وہ اس وقت وہاں ہوتا ہی نہیں۔ کسی اور دنیا کی سیر۔۔۔

    کیا بات ہے اس میں اتنی بہت ساری تبدیلیاں کیوں آتی جا رہی ہیں۔ کہاں سے آتی جارہی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کل کے مقابلے میں آج وہ سوچنے بہت لگا ہے۔ کیا سوچتا رہتا ہے وہ۔۔۔ خود اسے پتہ نہیں۔ کیوں سوچتا ہے وہ۔ اسے کس بات کی کمی ہے؟؟؟

    بہت سارے سوال اس کے ذہن میں گونجتے رہتے اور وہ خاموشی سے پلنگ پر لیٹا رہتا۔ اسے کس بات کی کمی ہے، خوبصورت پیار کرنے والی بیوی، پھول سا بچہ، ملک کے سب سے اہم اخبار میں ملازمت، اچھی تنخواہ، بلکہ ادھر تنخواہ میں اضافہ بھی۔۔۔

    کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ اصل مسئلہ تنخواہ میں اضافے کا ہی ہے۔ جس دن سے اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے، یا اضافہ ہونے کی پلاننگ ہوئی ہوگی، اسی دن سے چند نئی نئی باتیں اس کی زندگی میں ظہور پذیر ہونے لگی ہیں۔ اسی دن سے وہ دم کٹا کتا اس کے پیچھے لگ گیا ہے اور اس کے چند دنوں بعد ہی وہ پرندہ نظر آیا۔۔۔ وہ مگر وہ پرندہ، وہ الو، ہاں الوہی۔ کہتے ہیں جس جگہ یہ پرندہ مطلب ہے الو بسیرا لیتا ہے وہاں نحوست پھیلتی ہے۔ ویرانی براجنے لگتی ہے۔ الو، پھر املی کا پیڑ، املی کا پیڑ بھی منحوس ہے، اس نے سن رکھا تھا کہ جو شخص مسلسل املی کے سائے تلے بیٹھتا ہے، اسے کوڑھ، جذام ہو جاتا ہے۔ پہلی بار اس نے املی کے پیڑ پر ہی اس پرندے کو دیکھا تھا جس کے بشرے پر ہنسی پھوٹتی تھی۔ بڑی گھنی ہنسی، مگر وہ قیں قیں کی آواز پیدا ہوتی تھی۔۔۔ تو کیا کوئی مصیبت آنے والی ہے، کوئی بربادی پھیلنے والی ہے۔ اس نے اپنے ایک دوست سے سنجیدگی سے پوچھا۔ سچ بتاؤ کیا تم محسوس کرتے ہو کہ۔۔۔ کہ کوئی بربادی آنے والی ہے؟

    ’’کیسی بربادی۔۔۔؟ اس کے دوست نے شراب کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں تو ایسا نہیں محسوس کرتا، میں تومزے میں ہوں، میری ساس مر گئی اور تین لاکھ۔۔۔‘‘

    تو کوئی بربادی نہیں آنے والی ہے۔ یہ سب اس کا وہم ہے۔ وہ بہت سارے واقعات جو پے در پے اس کی زندگی میں رونما ہو گئے ہیں، جن کے تسلسل کے باعث اس کے ذہن نے خود نتائج اخذ کر لیے ہیں کہ کوئی بات ہونے والی ہے ورنہ حقیقتاً ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سبھی خوش و خرم ہیں۔ صرف وہی خواہ مخواہ الجھن کا شکار ہے۔

    وہ بھی خوش رہنے کی کی کوشش کرنے لگا۔ یہی ٹھیک ہے وہ اتنا بہت سوچےگا نہیں۔ جا بے جا سوچ ہی کا نتیجہ ہے کہ اس کی زندگی میں بہت سی غلط باتیں راہ پا گئی ہیں۔ غلط باتیں جیسے الو کی آواز پر اس درجہ سوچنا۔ جیسے اپنے عزیزوں کو دیکھ کر بھی آگے بڑھ جانا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے وہ سوچ کی دنیا میں اس قدر کیوں رہتا ہے کہ آس پاس کی چیزوں سے بےخبر ہو جاتا ہے۔ یہ تو نقصان دہ ہے۔۔۔ نہیں وہ ایسا نہیں کرےگا۔ ساری خلقت جس بہاؤ میں رواں ہے وہ بھی اسی میں بہےگا، وہ بھی وہی کرےگا!

    پھر زندگی معمول پر آنے لگی۔ اس نے سوچنا چھوڑ دیا۔ ایک آزار سے گویا نجات ملنے لگی۔ اچھا ہے جیسے سب لوگ رہتے ہیں وہ بھی رہےگا۔ وہ دن بھر دفتر میں کام کرتا، ہنستا بولتا۔۔۔ شام کو دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں بھی کرتا۔ خوب خوب۔

    نیلو مسکراکر ایک روز کہہ اٹھی۔۔۔

    ’’ہونہہ اتنا بھی کیا چونچلا، لگتا ہے ایکٹنگ کر رہے ہیں‘‘۔

    وہ دھک سے رہ گیا۔ اس کے روئیے میں فرق آ گیا ہے، بناوٹ۔۔۔؟؟

    لیکن بہت دیر تک سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی وہ زندگی کو زیادہ شدت کے ساتھ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے خواہش کے بغیر۔۔۔لیکن وہ کیا کرے، نیلو کو پیار نہیں کرتا ہے تب بھی شکایت، یہ بناوٹی زندگی تو اس نے کبھی پسندہی نہیں کی۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ نہیں نیلو غلط سوچ رہی ہے۔ یونہی رواداری میں اس نے یہ جملہ کہہ دیا ہے۔۔۔ بناوٹ، تصنع کہاں سے آئےگا۔۔۔ وہ تو شروع سے اس بات کے لیے مشہور ہے بلکہ بدنام ہے کہ وہ ہر کام میں بہت کھرا ہے۔۔۔مگریہ بناوٹ۔ اس نے غور کیا۔ جب سے اخبار نئے مالک کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، اسٹاف کے لوگ بہت خوش رہنے لگے ہیں۔ ان کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں شاید اس لیے مگر۔۔۔ ان کے حرکات و سکنات میں کچھ نئی باتیں بھی راہ پانے لگی ہیں۔

    یہ نئی باتیں کیا تھیں؟

    اس دن اس نے اپنے ذہن پر بہت زور دیا۔ مگر سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ کوئی نئی بات ضرور تھی جیسے کوئی پانی کا گلاس کسی کو دے تو اس احتیاط سے کہ کہیں گلاس ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔۔۔ اسی طرح، جیسے کوئی گلاس تھماتے وقت بھی احتیاط برتے کہ لیتے وقت بھی وہ گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے۔

    وہ دن بھر یہی اوٹ پٹانگ باتیں سوچتا رہا۔ دفتر میں کام کرتے وقت آج پھر اس کا جی نہیں لگا۔۔۔ ایک نامعلوم سی خلش اسے تنگ کرتی رہی۔

    آج پھر وہ پٹری سے اتر گیا۔

    یہ کم بخت الجھنیں۔۔۔ اور الجھتے رہنے کا دورہ، ذرا سی بات، اتناہی تو نیلو نے کہا تھا کہ پیار کرتے وقت بناوٹ سی۔۔۔‘‘

    پھر سلسلہ شروع ہوا تو وہ سوچتا ہی چلا گیا۔۔۔

    اس نے ذہن کو جھٹک دیا۔ اب وہ کچھ نہیں سوچےگا۔ جتنی اوٹ پٹانگ باتیں اس کے اندر کی دنیا میں در آئی ہیں، ان کو اس نے سختی سے روک دیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اورذہن کو اپنی خوبصورت بیوی نیلو اور ایک بچہ کے بعد بھی نئی بنی ہوئی چارپائی کی طرف منتقل کر دیا۔ اس نے نیلو کی طرف دیکھانہیں، جو اس کے پہلو والے پلنگ پر سوئی ہوئی تھی۔ صرف تصور ہی تصور میں اس کے عریاں جسم سے لطف اندوز ہوتا رہا۔

    اور یوں کئی منٹ گذر گئے۔ اس نے اپنے آپ کو ہلکا محسوس کیا اور لگا کہ ایک بوجھ دھیرے دھیرے اس کے وجود پر سے اتر رہا ہے اور کہیں دور سے ننھی ننھی نیند کی پریاں آنکھوں میں براجنے لگی ہیں۔۔۔ اور ذرا دیر بعد وہ واقعی سو گیا۔۔۔ گہری نیند۔۔۔ اور پھر صبح صادق کے وقت ہی اس کی آنکھ کھلی۔۔!

    اب وہ یہی کرتا، جب بھی اس کے خیالات الجھنے لگتے یا اوٹ پٹانگ باتیں اس کو ستانے لگتیں وہ تصور ہی تصور میں نیلو کو عریاں کرتا، اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتا۔۔۔ یہ عمل کہیں بھی جاری رہتا، دفتر میں بھی، راہ چلتے بھی اور یوں اسے راحت نصیب ہوتی۔

    یہ ٹھیک ہے۔ بس یہی طریقہ کارآمد ہے۔ جس کے باعث ذہن اذیتوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ اس نے اطمینان محسوس کیا۔

    رفتہ رفتہ اس کا ذہن شگفتگی محسوس کرنے لگا اور رات کو گہری نیند آنے لگی۔ خوب گہری اور پیاری نیند۔ یہی وہ چاہتا تھا۔ سوچ سوچ کر گھلنے سے کیا حاصل۔ ساری دنیا خوش، ہر آدمی اپنے کام کے بعد اپنے بیوی بچوں میں، یار دوستوں میں خوش رہتا ہے۔ اس سے کم تنخواہ پانے والے بھی بلکہ بہت غریب بھی جن کو اکثر فاقے نصیب ہوتے ہیں، وہ بھی مزے میں رہتے ہیں۔ جلنے سے کیا فائدہ؟

    لیکن ان ہی دنو ں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یا پھر یہ کہ واقعہ تو بہت معمولی تھا مگر اس نے اہمیت بہت دے دی۔ اس فیصلے کے بعد بھی کہ وہ آئندہ بڑی سے بڑی بات کو بھی کم سے کم اہمیت دےگا۔ یوں بظاہر بہت چھوٹی سی بات تھی۔ شہر کے چوک میں چلڈرن پارک ہے اس کے بیچوں بیچ چبوترے پر لمبے سے پول سے جھنڈا لہرایا کرتا تھا۔ جس کے کنارے کچھ سرخ سرخ نظر آیا۔

    چند آدمی غور سے دیکھ رہے تھے۔

    سرخی کہاں سے آئی اور سرخی کیا تھی؟

    پھریرے کا کنارا لہو سے تر ہو گیا تھا۔

    دفعتاً وہ چونک اٹھا۔ لہو سے کیسے تر ہو گیا؟

    وہ آگے بڑھا اور چبوترے پر کھڑا ہو گیا۔ جس کے درمیان جھنڈے کا پول گرا تھا۔ واقعی لہو ہی تھا۔ جیتا جیتا لہو۔۔۔

    وہ محویت اور خوف سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ دیکھ تو اور بھی لوگ رہے تھے مگر ان کے چہروں پر کسی طرح کا خوف، کسی طرح کا تردد نہیں تھا۔ یوں ہی تماش بینوں والی کیفیت تھی۔

    ’’کیا بات ہو سکتی ہے؟‘‘

    ایک آدمی نے پاس کھڑے ایک آدمی سے پوچھا۔

    ’’کچھ نہیں یار، کوئی زخمی پرندہ اڑتا اڑتا پھریرے سے لپٹ گیا ہوگا‘‘۔

    اسی طرح کی مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

    لیکن وہ سراسیمہ تھا۔ وہ ابھی جھنڈے کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ ٹپ سے ایک قطرہ اس کی ناک کے بانسہ پر گرا۔ دھک سے اس کا کلیجہ اچھل گیا۔ وہ ہڑبڑا کر چبوترے سے اتر آیا۔ اس کا دل دھک دھک بےتحاشہ دھڑکے جا رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر کچھ نہیں دیکھا، ایسے کیسے ہو گیا۔ پھریرے کا کنارا خون سے جیتے خون سے تر تھا، لہو میں نہایا تھا۔۔!!

    لمبے لمبے ڈگ بھر کر اس نے گھرکی راہ لی، جیسے کوئی اس کو رگیدے چلا آ رہا ہو۔ اس نے پتہ نہیں کس خوف کے زیر اثر پلٹ کر دیکھا، کوئی نہیں تھا، صرف و ہ دم کٹا کتا حسب دستور اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔ وہ جتنا تیز چل رہا تھا، اتنی ہی تیز کتے کی رفتار تھی۔ اس نے غور کیا کہ ابھی جب اس نے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھا تھا کہ کوئی اور اس کا تعاقب تو نہیں کر رہا ہے۔ اسی وقت اسی انہماک سے کتے نے بھی مڑ کر دیکھا تھا۔

    لیکن پھر اس کے دماغ میں، خون میں لتھڑے ہوئے پھریرے کا کنارا چمک اٹھا۔۔۔ اس کا دل پھر بےتحاشہ دھڑکنے لگا۔ چنانچہ وہ تیزتیز قدم بڑھاتا گویا پناہ کی تلاش میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور جلدی سے دروازہ بند کر دیا۔ وہ دم کٹا کتا وہیں باہر دہلیز پر بیٹھ گیا۔

    ذوا دیر بعد، جب اس نے دروازہ کھول کر دیکھا، تو خلاف توقع کتے کو باہر دہلیز پر بیٹھے دیکھ کر اسے تعجب ہوا نہ الجھن، نہ خوف، نہ اطمینان۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ سکون جیسی کوئی چیز تھی جو اس کے اندر کی دنیا میں پھیلتی جا رہی تھی۔

    اس نے پھر دروازہ بند کیا اور ذرا دیر خاموشی سے کھڑا رہا۔

    اس کی بیوی کھڑی کھڑی اس کی بدحواسی کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ جب وہ آنگن عبور کر کے اس کے قریب آیا تو اس نے راستہ روک لیا۔

    ’’کیاہوا، ایسے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟‘‘

    ’’کون ہو تم؟۔۔۔ نیلو کہاں ہے؟؟‘‘ وہ غور سے نیلو کا چہرہ تکتا رہا۔

    ’’ارے کیا ہو گیا آپ کو؟‘‘ اس کی بیوی نے حیرت سے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ ’’آپ مجھے نہیں پہچان رہے ہیں میں نیلو ہی تو ہوں‘‘۔

    ’’ارے ہاں۔۔۔ ہاں‘‘۔ وہ سنبھل گیا۔ اپنے حواس میں آ گیا۔ ’’معاف کرنا نیلو میں نے دیکھا نہیں‘‘۔

    ’’دیکھا نہیں‘‘۔ اس کی بیوی نے تعجب سے کہا۔

    ’’کچھ نہیں، چھوڑو اس بات کو‘‘۔ اس نے نیلو کی کمر میں پھر بازو حمائل کر دئیے اور اندر کی طرف لے چلا۔ ’’تمہیں آج ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بات سنائیں‘‘۔ اس نے ضبط کیا۔ جذبات اور سراسیمگی کا ریلا جو اسے بہائے لیے جا رہا تھا، اس نے اس پر قابو پا لیا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اس واقعے کو وہ نہایت نارمل ڈھنگ سے نیلو کو بتائےگا یوں کہ نیلو سن کر اسے بیوقوف نہ بنائے۔

    ’’کیا بات ہے بتائیے؟‘‘ نیلو کمرے میں آکر بولی۔ ’’مگر ٹھہرئیے پہلے آپ منہ ہاتھ دھو لیجئے، اتنی دیر میں میں چائے بنا لیتی ہوں‘‘۔

    واقعہ سن کر نیلو نے کوئی تعجب کا اظہار نہیں کیا۔ ’’یہی بات ہے کوئی زخمی پرندہ گزر رہا ہوگا پھریرے سے الجھ گیا۔ بس۔۔۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘ نیلو نے اس کی گردن میں ہانہیں ڈال دیں۔

    ’’اس میں حیرت کی بات ہی نہیں ہے کیا؟۔۔۔‘‘ اس نے نیلو کو زور سے جھٹک دیا۔ ہٹو پرے۔۔۔ تم کو ہر وقت۔۔۔ آٹھ سال شادی کو ہوگئے۔۔۔ جانے دنیا پر کیسی بربادی آنے والی ہے اور تم ہو کہ، تمہارے دماغ میں ایک ہی بات۔۔۔

    نیلو۔۔۔ اس کی بیوی چکرا گئی یہ سن کر، ذلت اور کمزوری کے احساس نے اسے رلا دیا۔ وہ دانت پیستی، روتی اور بدبداتی دوسرے کمرے میں چلی گئی لیکن اس کو ذرا ندامت نہیں ہوئی۔ اس کی بیوی خوبصورت اور محبت کرنے والی بیوی اس سے روٹھ کر چلی گئی، اس نے ذرا سی بات پر اس کو ذلیل کر دیا۔ لیکن اس کو ذرا شرمندگی نہیں ہوئی۔

    رات کو اس کے کمرے میں نیلو نہیں آئی۔ دوسرے کمرے میں اندر سے دروازہ بند کر کے سو گئی اور سسکیاں لے لے کر روتی رہی۔ مگر اس کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا۔

    آج تو اس کا ذہن بری طرح پراگندہ تھا۔ وہ چارپائی پر خاموش پڑا چھت کی طرف تک رہا تھا اور اس کا دل خوف اور مایوسیوں تلے نڈھال سا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ اوپر چھت پر ٹکی تھیں۔ وہ چارپائی پر پڑایوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ کسی گہرے سیاہ سمندر کی قید میں چپ چاپ پڑا ہو اور اس کے اوپر سے بھیانک موجیں گزر رہی ہوں اور بڑے بڑے آبی پرندے بھی جن کی آنکھیں گول گول اور بشرے ہنستے رہتے ہیں۔

    خوف سے آنے والے کل کے خوف سے اس کا دل دھڑک کر رک جاتا۔ پھر اس نے شدت سے آنکھیں میچ لیں اور بڑی کوششوں کے بعد اپنے آپ کو کالے سمندر کی تہہ سے ابھارا اور نیلو کے خوبصورت جسم کی تابندگی کو تصور میں جگاتا رہا اور اس نے اپنے آپ پر احسان کیا کہ اس کا وجود ہلکا پڑ جائے۔ اس کے دل پر جو بھاری بوجھ سا ہے وہ ہلکا ہو۔ آنکھوں میں نیند کی پریاں بسیرا لیں۔ ۔۔ رات بہت بیت گئی تھی۔ باہر او اندر ہر طرف سناٹا مسلط تھا۔

    اس نے پلٹ کر دیکھا، کمرہ خالی تھا، دیواریں بڑی گہری چپ سادھے کھڑی تھیں۔ آج۔۔۔نیلو بھی نہیں تھی، دوسرے کمرے میں روتے روتے سو چکی تھی، پھر کہیں سے سنسناتا ہوا سمندر اسے کے وجود کے اوپر سے گزرنے لگا۔ بڑی ہیبت ناک موجیں اس کو روندتی جا رہی تھیں۔۔۔ پرندہ۔۔۔ دفعتاً اس کی آنکھ کھل گئی۔ بڑا گہر ا اندھیرا تھا۔ وہ شاید سو گیا تھا۔۔۔ نہیں، شاید نہیں سویا تھا۔ مگر کچھ یوں محسوس ہوا گویا نیند اور بیداری کے درمیان کہیں کھو گیا تھاکچھ دیر کے لیے، لیکن اب کمرے میں سخت اندھیرا تھا۔ صرف کھڑکی سے چاند کی ہلکی چاندنی داخل ہو رہی تھی۔۔۔ اس نے کھڑکی کی جانب غور سے دیکھا، دیر تک دیکھتا رہا۔

    وہ کیا دیکھ رہا ہے؟

    اس کی چھٹی حس کو کس شے کی تلاش تھی؟

    اس کے اپنے سوالوں کے جواب کون دیتا؟ وہ خود سے سوال کرتا، اس نے آنکھیں بندکرلیں۔ گہرا اندھیرا جس میں ٹوٹتی بکھرتی سفید لکیریں پپوٹے کے اندر جلدی جلدی پھیلتی، دوڑتی کوئی شبیہہ بناتی ہوئی لکیریں۔۔۔ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے؟

    دفعتاً اس کے کان میں ٹوٹے ٹوٹے الفا٭۔۔۔ پھر اس نے محسوس کیا جیسے سامنے والی کھڑکی کے باہر کسی پرندے کے پر بہت دھیمے سے پھڑپھڑائے۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور اس کھڑکی کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ نہیں، وہاں کچھ نہیں تھا۔۔۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور تصورات کا رخ نیلو کے خوبصورت جسم۔۔۔ عین اسی وقت اس کے کان میں وہی الفاظ گونجے۔۔۔ مگر اس بار ذرا واضح وہی الفاظ تھے۔ بالکل وہی۔۔۔ وہی۔۔۔

    وہ سمجھ گیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو کھڑکی پر کوئی کالی چیز دھیرے دھیرے متحرک تھی۔۔۔ پھر پر پھڑپھڑائے پھر اس کے کانوں میں آواز آئی۔۔۔

    ’’تج دو۔۔۔ تج دو‘‘۔

    اس نے کھڑے ہوکر چاروں اور دیکھا اور جلدی سے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں، لیکن پھر وہی آواز آئی، جلتے ہوئے سلگتے ہوئے انگارہ صفت الفا٭۔۔۔ اس کی آنکھیں پھر ادھر مٹر گئیں، کھڑکی پر کوئی پرندہ۔۔۔

    اس نے پھر آنکھیں بند کیں اور زور سے میچ لیں، پھر کان میں جو انگلیاں دے رکھی تھیں، انہیں سخت کر لیا، پھر ہر بار وہ بدحواسوں کی طرح آنکھیں کھولتا، کھڑکی کی جانب دیکھتا، کان کی نگلیاں ڈھیلی کرتا، پھر سخت کر لیتا۔۔۔یہ عمل بہت دیر تک جاری رہا۔۔۔ تب وہ تھک گیا۔ وحشت سے، بےبسی سے، اس نے چاروں طرف دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا، نیلو بھی نہیں تھی۔۔۔ تنہائی، تنہائی، اس کا جی بھر آیا اور وہ روپڑا۔۔۔ روتا رہا۔

    وہ رو رہا تھا اور اس کے کان بج رہے تھے۔ لگا تار، وہی منحوس الفاظ گونج رہے تھے اور جب وہ رو رہا تھا، اس نے دیکھا وہ دم کٹا کتا جسے وہ باہر چھوڑ آیا تھا اور اندر آکر دروازہ بند کر لیا تھا۔۔۔ اس کے لحاف میں موجود تھا۔

    وہ کتا تقریباً اس سے چمٹا، اس کے گال پر اپنا تھوتھنا رکھے، اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دھیرے دھیرے چاٹ رہا تھا۔

    ۔۔۔ اور اس کے کان بدستو ر ان الفاظ سے گونج رہے تھے۔۔۔ تج دو۔۔۔تج دو!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے