Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طلاق

MORE BYکشمیری لال ذاکر

    اس شوگر مل میں کام کرتے ہوئے شرن کو کئی برس ہو گئے تھے۔ مالکوں سے لے کر بہت بڑے آہنی گیٹ کیپروں تک سبھی اسے جان گئے تھے۔ سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ شرن بڑے حوصلے والا آدمی ہے۔ دیانت داری اور محنت سے کام کرنے کی لگن نے اسے مزدوروں اور مل کے ذمہ دار عہدہ داروں میں ہر دل عزیز بنا دیا تھا۔ وہ دھن کا پکا اور ضدی بھی تھا، اس لیے کئی مرتبہ اس کے اصول دوسر کے اصولوں سے ٹکرا بھی جاتے تھے۔ اصولوں کے اس ٹکراؤ میں چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ ڈٹ جاتا تھا اور بڑی سے بڑی چوٹ کا ہمت سے مقابلہ کرتا تھا۔

    شرن کے کردار کے یہ پہلو دھیرے دھیرے زیادہ اجاگر ہوتے گئے۔ جیسے جیسے مزدوروں میں اپنے حقو ق کے لیے بیداری پیدا ہوتی گئی، وہ شرن کے قریب ہوتے گئے۔ مل کے مالکوں کو اپنے حفاظتی قلعہ میں رخنے پڑنے کا اندیشہ ہونے لگا۔ پرانی قدریں بدل رہی تھیں۔ اقتصادی مشکلات کے بڑھنے سے مزدوروں کے ذہنوں میں بے چینی سی جاگنے لگی۔

    اضطراب سا کسمسانے لگا اور انھیں محسوس ہونے لگا کہ انھیں بھی ایک بہتر اور خوش حال زندگی کی ضرورت تھی، ان کے بچوں کو بھی تعلیم چاہیے تھی، ان کے گھروں میں بھی کھلے آنگنوں، بجلی کے قمقموں اور پکے گھروں کی ضرورت تھی اور جب تک ان کی آمدنی نہیں بڑھتی کچھ نہیں ہو سکتا اور جب تک مل مالکان ان کے حالات کو بہتر بنانے کی طرف دھیان نہیں دیتے، ان کے بچے ان پڑھ اور جاہل رہیں گے۔ ان کے گھر والے بیماریوں میں جلتے رہیں گے، ان کے آنگنوں میں دھوپ اور چاندنی نہیں پھیلے گی۔ ان کی دیواروں پر جمی ہوئی محتاجی کی کالک نہیں دھلےگی اور ان کی چھتوں پر دھوپ کے پھول نہیں کھلیں گے، چاندنی کی کلیاں نہیں چٹکیں گی۔۔۔ اور جس دن انھیں یہ احساس پوری شدت اور پورے خلوص سے ہوا، اسی دن مل میں ہڑتال ہو گئی، اسی دن شرن ایک عام مستری سے ایک مزدور نیتا بن گیا۔

    ہڑتال ختم ہوئی تو مزدوروں کے لیے کوارٹر بننے شروع ہو گئے، بچوں کے لیے ایک اسکول کھل گیا، مل والوں کی طرف سے ایک ڈسپنسری ہو گئی اور پھر ایک صبح شرن شہر کے ایک کمرے میں، گندے سے تاریک مکان سے اٹھ کر مل سے تھوڑی دور بنے ہوئے کوارٹروں میں سے تیسرے قطار کے نکڑ والے کوارٹر میں منتقل ہوگیا، جس میں دو کمرے، ایک اسٹور، چھوٹا سا برآمدہ اور دیواروں کی پناہ لیے ہوئے آنگن تھا۔ اس شام ڈیوٹی سے واپس آکر جب اس نے اپنے لیے کھانا بنانے کی غرض سے چولھا جلایا تو اسے اپنے چھوٹے بھائی رام داس کا خیال آیا جو گاؤں میں اپنی ماں کے پاس رہ رہا تھا، اس نے سوچا اب اسے اپنی بوڑھی ماں اور جوان بھائی کو بھی اپنے پاس بلا لینا چاہیے۔

    شرن زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، لیکن ذہین تھا۔ جلد باز بھی تھا، اسی لیے فیصلے کرنے میں دیر نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ رات کو سونے سے پہلے اس نے اپنے بھائی رام داس کو خط لکھا کہ وہ ماں کو ساتھ لے کر فوراً اس کے پاس چلا آئے۔ جب اپنی چارپائی پر لیٹے لیٹے اس نے سگریٹ سلگایا تو اس کی نظروں نے ایک بار اپنے صاف ستھرے آنگن کا جائزہ لیا، کروٹ بدل کر برآمدے اور کمروں پر نگاہ ڈالی اور پھر آسمان میں تیرتے ہوئے صاف شفاف چاند کو دیکھا اور اسے دیر تک اسی طرح دیکھتا رہا۔

    اسے محسوس ہوا کہ اس کے آس پاس کے کوارٹروں میں بھی ایسی ہی ٹھنڈی چاندنی پھیل رہی ہوگی اور اس کے ساتھی بھی خوش ہوں گے اور اس طرح سوچتے سوچتے اسے پھر خیال آیا کہ انسانی زندگی کا یہ آنگن کتنا خوب صورت بن سکتا ہے۔ اس میں پھول بھی کھل سکتے ہیں، گھاس بھی اگ سکتی ہے، بچوں کے قہقہے بھی گونج سکتے ہیں اور عورتوں کی چوڑیاں بھی کھنک سکتی ہیں۔ زندگی جینے کے قابل بھی بن سکتی ہے اور اس نے یوں سوچا تو اس کے جلتے ہوئے سگریٹ کے آخری حصے پر جمی ہوئی انگلیو ں کو ہلکی سی سینک کا احساس ہوا اور اس نے سلگتے ہوئے سگریٹ کو دور پھینک دیا۔ اس کے دل و دماغ میں تسکین اور اطمینان کے پھول کھل اٹھے۔

    کچھ روز بعد جب اس کی ماں اور اس کا بھائی رام داس آ گئے تو اس کی زندگی کا معمول ہی بدل گیا۔ وہ جو برسوں سے اکیلا پن اس کی زندگی میں سما گیا تھا، کم ہونے لگا تھا۔ اب برابر کے کوارٹروں سے عورتیں اس کی ماں سے ملنے آتی تھیں، ورنہ اب تک تو اس کے گھر میں کسی عورت نے قدم تک نہ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تو ایسا ہو بھی سکتا تھا، لیکن اس نے کبھی اس کے متعلق سوچا بھی نہ تھا اور وہ اب ایک ایسی منزل پر پہنچ چکا تھا جہاں وہ کسی کو اپنی عمر کے لمحوں میں شریک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی سپاٹ زندگی میں کسی آنچل کا سایہ نہ لہرایا تھا۔ اس ریگ زار میں محبت کا ایک بھی پھول نہ کھلا تھا۔

    اس کی عمر پینتیس کے لگ بھگ ہوگی، جو یوں کچھ بہت زیادہ بھی نہیں، لیکن اس کے جذبات میں گرمی نہیں تھی اور اس کے احساسات میں کسمساہٹ نہ تھی۔ پہلے پہل تو اسے ماں کے اور رام داس کے آجانے سے کچھ کوفت بھی ہوئی۔ اپنے پھکڑپن میں یہ مداخلت اسے کچھ چبھی۔ لیکن پھر اس نے سمجھوتہ کر لیا۔ اس نے ایک کمرہ ماں اور رام داس کے حوالے کر دیا اور دوسرے کمرے میں اپنا سارا اکیلاپن سمیٹ کر گھس گیا۔

    اب وہ اکیلا تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔ اپنے کمرے میں دروازہ بند کر کے لیٹ کر وہ سب سے الگ تھلگ ایک ویران جزیرے میں جینے لگتا اور جب دروازہ کھول دیتا تو اس کے ارد گرد زندگی کی بانہیں پھیل جاتیں، ماں کا پیار اور بھائی کی محبت اس کی تنہائی کو آباد کر ڈالتیں۔ اب اسے چائے کی پیالی پینے کے لیے کوارٹروں کے پاس ایک ٹوٹے پھوٹے ٹی اسٹال میں نہیں جانا پڑتا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے ہی رام داس اسے چائے کی پیالی لا دیتا تھا جسے وہ سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ گھونٹ گھونٹ کر کے پیتا رہتا تھا۔ اب اسے کھانا بنانے کے لیے چولھا پھونکنا نہیں ہوتا تھا۔ ماں تھال میں کھانا پروس کر اس کے سامنے رکھ دیتی تھی۔ وہ جب اپنی شفٹ ختم کر کے آتا تھا، اسے دیا جلاکر گھر کا تالا کھولنا پڑتا تھا۔ ہاتھ کی ذرا سی دستک پر ماں مسکراتے ہوئے شفیق چہرے کی جوت بکھیرتے ہوئے دروازہ کھول دیتی تھی اور اس کے من میں پیار کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے۔

    کچھ مہینے کے بعد اس نے رام داس کو بھی شوگر مل میں نوکر کرا دیا۔ جس دن رام داس پہلی تنخواہ لے کر گھر آیا تو ماں نے سارے کوارٹروں میں لڈو بانٹے اور رات کو اپنے آنگن میں کیرتن کرایا۔ رات گئے تک شرن اپنے دوستوں میں بیٹھا خوش گپیاں کرتا رہا اور جب وہ گھر آیا تو بےحد خوش تھا۔ ماں نے پہلی بار اس سے شادی کر لینے کے لیے کہا، جسے اس نے ہنس کر ٹال دیا اور کہا میں نے شادی کر کے طلاق بھی لے لی۔

    ’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘

    ’’میں نے اپنی تنہائی سے بیاہ کر لیا تھا اور جس روز تم نے یہاں قدم رکھا، وہ مجھے چھوڑ گئی۔ تم نے میرے اتنے برس کا گرہست اجاڑ دیا۔‘‘ اور اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور رام داس نے کروٹ بدل کر اپنے بھائی کو بڑی محبت سے دیکھا۔

    ’’شادی کے بنا جیون ادھورا رہ جاتا ہے۔ شاستروں میں پتنی کو اردھ اگنی کہا گیا ہے۔۔۔ منش کا آدھا شریر۔‘‘ ماں نے بڑے گیان کی بات کہی تھی۔

    ’’لیکن کچھ جیون تو شادی کے بعد بھی ادھورے رہتے ہیں۔ کس بکھیڑے میں پڑگئی ہو۔ اب تو رام داس کی شادی کی فکر کرو۔ تیس برس کا ہونے والا ہے۔‘‘ بھائی کی بات سن کر رام داس نے آنکھیں میچ لیں اور تصور کے جزیروں میں کھو گیا۔

    کارتک کی آخری تاریخوں میں رام داس کی شادی طے ہو گئی۔ مل کے مالکوں، عہدہ داروں اور مزدوروں سبھی نے شرن کا ہاتھ بٹانا چاہا لیکن اس نے سوائے اپنے بونس کے مل کے مالکوں سے کچھ بھی لینے سے انکار کر دیا۔ ساتھی مزدوروں نے جب کچھ خرچ کرنا چاہا تو بھی انہیں روک دیا۔ رام داس کا ایک پیسہ نہ لگنے دیا۔ اس کے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے رام داس کی شادی پر خرچ کر دیا۔ لوگ واہ واہ کر اٹھے۔ جس شام دلہن گھر میں آئی وہ بھول گیا کہ اس کی عمر پینتیس سے اوپر تھی اور اس نے زندگی کو بڑی بے نیازی سے گزارا تھا اور اس کی تنہائی ہی اس کی واحد ساتھی تھی۔ اسے صرف ایک بات یاد رہی کہ کرشنا کو اس نے خود رام داس کے لیے منتخب کیا تھا۔

    وہ بڑی سگھڑ لڑکی تھی، خوب صورت تھی اور میٹرک پاس تھی اور یہی بات اسے اس وقت یاد تھی جب برات لڑکی والوں کے گھر پہنچی تھی اور وہ ڈھول کے ساتھ کئی ساتھی مزدوروں کی ٹولی میں شامل ہوکر بھانگڑا ناچ رہا تھا اور اس وقت اس کے شملے دار پگڑی کھل گئی تھی اور اس کے کانوں میں اڑسا ہوا عطر سے لبریز روئی کا گالا نیچے گر گیا تھا اور اس کے دماغ میں صرف خوشبو تھی۔ وہ خوشبو ابھی تک اس کی روح کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اسے نشے کی سی کیفیت کا احساس ہو رہا تھا اور اسی کیفیت کے زیر اثر وہ چھت کی منڈیروں، آنگن کی دیواروں اور دروازوں کی چوکھٹوں پر موم بتیاں جلائے جا رہا تھا۔

    اس رات وہ اپنے کوارٹر سے باہر سامنے کھلے میدان میں چارپائی ڈال کر سویا۔ جب تک اس کی آنکھ نہیں لگی، وہ موم بتیوں کی جھلملاتی ہوئی لوؤں کو تکتا رہا۔ چاند کی چاندنی اور ہوا کی تازگی کو پیتا رہا اور پھر اسے اپنے کمرے کا خیال آیا جس پر انجانے ہی میں رام داس اور کرشنا کا قبضہ ہو گیا تھا۔ وہ کمرہ جس میں اس نے اپنی تنہائی کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارا تھا، اس سے چھن گیا تھا اور اسے ذرا بھی ملال نہ ہوا تھا۔ اب وہ تنہا تھا ہی کہاں؟ اب تو اس کے ساتھ زندگی کا ایک پورا کارواں تھا۔

    کارتک کے بعد مہینہ بھر سے زیادہ شرن اپنے کوارٹر کے سامنے کھلے میدان میں رات کو سوتا رہا۔ دن میں وہ گھر صرف کھانا کھانے ہی آتا، اسے محسوس ہوتا جیسے اس کی آزاد اور کھلی زندگی میں کئی طرح کی پابندیاں لگ گئی ہیں، جیسے اپنے ہی گھر میں وہ ایک اجنبی ہو گیا، پوس کا مہینہ شروع ہو گیا اور اس کے سوا کوئی آدمی بھی باہر سونے والا نہ رہا تو اس کی ماں اور رام داس دونوں نے اسے اندر سونے پر مجبور کیا۔ اس کے پاس انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی، اس لیے ایک رات جب رام داس اس کی کھاٹ باہر میدان سے اٹھاکر اندر لے آیا تھا تو وہ خاموش رہا اور جب اس کا بستر اس کمرے میں جا لگ گیا جو اس کا اپنا کمرہ نہیں تھا اور جس میں ماں رہتی تھی اور جس میں پہلے رام داس بھی رہتا تھا تو وہ چپ رہا اورجب رام داس نے اپنا کمرہ اندر سے بند کر لیا اور ماں نے بتی بجھاکر اپنا کمرہ بھی بند کرنا چاہا تو شرن بول اٹھا، ’’دروازہ کھلا رہنے دو۔‘‘

    ’’ٹھنڈی ہوا آئےگی اندر، بیٹا!‘‘

    ’’برف تو نہیں گرےگی!‘‘

    ماں نے کچھ نہیں کہا اور دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ماں سو گئی۔ تمام رات دروازہ کھلا رہا اور اس کے ساتھ ہی شرن کی آنکھیں بھی کھلی رہیں۔ باہر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اندر آتے رہے لیکن اس کی کھلی آنکھیں جیسے جلتی رہیں۔ اسے ایسا لگا کہ کرشنا کے آنے سے اس کی اپنی انفرادیت ختم ہو گئی تھی۔

    مل کے مالکوں نے ایک نئی شوگر مل کانپور میں کھولنے کا فیصلہ کیا۔ شرن اب ایک معمولی مستری سے ہیڈ مستری ہو گیا تھا۔ اس کی تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی اور مرتبہ بھی۔ مل کے قواعد کے مطابق شادی کے بعد رام داس کو بھی ایک کوارٹر الاٹ ہو سکتا تھا۔ کچھ نئے کوارٹر بن بھی گئے تھے۔ لیکن رام داس الگ رہنے پر راضی نہ ہوا تھا۔ شرن کو یہ بات اس لیے اچھی لگی تھی کہ اس کی طبیعت سے میل کھاتی تھی۔ ماں نے بھی اس فیصلے کو پسند کیا تھا۔ وہ سوچتا، لوگ کیا کہیں گے کہ چھوٹے بھائی کی شادی کر کے شرن نے اسے نکال دیا۔ لیکن کرشنا اس بات سے بہت خوش نہیں تھی۔ وہ پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ اس کے دل میں اپنا ایک گھر بنانے کی چاہ تھی۔ ایسا گھر جسے وہ اپنا کہہ سکے، جس کے دروازے پر رام داس کے نام کی تختی لگی ہو، جس کے کمروں میں اس کے جہیز کی چیزیں ہوں۔ اب تو وہ سب ایک بڑے ٹرنک میں بند پڑی تھیں۔ صرف دو پلنگ تھے جو استعمال میں آ رہے تھے اور وہ بھی ان کے کمرے میں۔

    اور وہ سمجھتی تھی کہ اسے کسی بھی چیز پر وہ حق نہیں جو ایک بیاہتا عورت کو ہوتا ہے۔ اس نے کئی بار رام داس سے کہا بھی لیکن وہ ٹس سے مَس نہ ہوا۔ پھر اس نے ماں سے بھی شرن کی تکلیف کا ذکر کیا، جس کے لیے گھر میں ٹھیک سے بیٹھنے کی بھی جگہ نہ رہی تھی۔ لیکن ماں نے یہی کہا تھا، ’’اب تمہارے علاوہ یہ کسی کا بھی گھر نہیں، تم اسے جس طرح چاہو، استعمال کرو۔‘‘

    ’’لیکن دو کھاٹ کی جگہ کو کس کس استعمال میں لا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’بہو! اکٹھے رہنے میں بڑی عزت ہے اور ہمارے خاندان میں تو کوئی الگ ہوا ہی نہیں۔‘‘

    ’’ماں جی یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں، اب زمانہ بدل گیا ہے۔‘‘

    ’’زمانہ لاکھ بدل جائے، دل نہیں بدلنے چاہئیں۔‘‘

    اب کرشنا کیسے کہہ سکتی تھی کہ اس کا دل بھی بدل گیا ہے۔

    اس طرح ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔

    کرشنا نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر گھر بار کو خوشی اور امرت سے نہلا دیا۔ جو چھوٹی دراڑیں دیواروں پر کھل گئی تھیں، وہ ایک بار پھر بھر گئیں اور انسانی رشتے ا یک بار پھر آپس میں گٹھ گئے۔ شرن خوش تھا۔ اس کی زندگی کا قافلہ دو میل اور طے کر گیا تھا، اس کی عمر میں دو اور برسوں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہونے لگے تھے اور اس کے ساتھ گھر سے اس کا تعلق پہلے سے زیادہ گہرا ہونے لگا تھا۔ اب اسے کوئی حسرت نہیں تھی۔ اس بچے کے جنم کے بعد اسے اپنے ارادوں کی تکمیل کا احساس ہونے لگا تھا۔

    جس روز کرشنا چھلہ نہاکر باہر آنگن میں بیٹھی، شرن نے بچے کو اٹھاکر جانے کتنی ہی بار چوما، اسے سینے سے لگایا، بے شمار دعائیں دیں اور گھونگھٹ کاڑھے، سر جھکائے بیٹھی ہوئی کرشنا سے کہا، ’’کرشنا، جتنا میں آج خوش ہوں، شاید اتنا خوش کبھی نہیں ہوا۔ بچہ ہزار برس جیے۔‘‘

    ماں سامنے کھڑی ہوئی خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ اس نے شرن سے بچے کو لے کر کرشنا کی گود میں لٹا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شرن مل میں چلا گیا۔ اس کے جانے کے فوراً بعد ہی آسمان پر بادل چھا گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے جھاجوں مینہ برسنے لگا اور اولے گرنے لگے۔ شام کو جب شرن اور رام داس واپس آئے تو بچے کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ پہلے ڈسپنسری سے دوا لی، پھر شہر سے ایک ڈاکٹر بلایا گیا۔ شرن تمام رات پاگلوں کی طرح ڈاکٹروں کو اکٹھا کرتا رہا۔ جب صبح کی پہلی کرن پھوٹی، اس کے گھر کا سورج غروب ہو گیا۔

    شرن جب رام داس کے ساتھ بچے کو شمشان میں دفناکر گھر لوٹا تو وہ خود ادھ مرا ہو چکا تھا۔ وہ آنگن میں کھڑا دیر تک اور پھر اندر آکر چارپائی پر چت گر گیا۔ سب سسکتے روتے، بھوکے پیاسے، تھک ہار کر اپنی اپنی چارپائیوں پر گر گئے۔ باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور شرن کھلی آنکھیں چھت پر گاڑے اندھیری رات میں چراغ کی طرح سلگ رہا تھا۔ آہستہ سے اٹھ کر برآمدے میں آیا کہ دل کی گھبراہٹ ذرا سنبھلے۔ ساتھ والے کمرے سے کرشنا کی آواز آ رہی تھی، ’’میرے خیال میں تمہارے بھائی نے مارا ہے۔ تمہارا بھائی میرے بچے کا قاتل ہے۔۔۔‘‘

    وہ فوراً کمرے میں لوٹ آیا، اس میں کچھ اور سننے کی تاب نہیں تھی۔ تمام رات سرد اور تیز ہوا چلتی رہی۔ رات بھر شرن دکھ اور درد کی آگ میں جلتا رہا۔

    اس واقعہ کے بعد رام داس خاموش رہنے لگا اور اپنے بھائی اور ماں سے کم بولتا، بلکہ ان سے کتراتا۔ کرشنا سارے دن اپنے کمرے میں پڑی رہتی تھی۔ ماں الگ بیٹھی روتی رہتی اور شرن اندر ہی اندر پگھلتا رہتا۔ آگ میں گھر کے تعلقات، بھائیوں کا پیار، ماں کی مامتا اور زندگی کی عظمت اور خوب صورتی جل کر راکھ ہو رہے تھے۔ دن گزرتا گیا اور تعلقات کی جلی ہوئی راکھ ادھر ادھر بکھرنے لگی۔ چہرے دھندلانے لگے، جذبات کمہلانے لگے، آکاش پر ایک ایسی گھٹا چھا گئی جو نہ کھلتی تھی، نہ برستی تھی۔

    شرن نے ایک دن مل کے مالکوں سے کہہ کر اپنا تبادلہ کانپور کی نئی شوگر مل میں کرا لیا جو اب چالو ہونے والی تھی۔ مالکان خوش تھے کہ ان کا ایک بہت ہی اچھا کارندہ نئی مل کو چلانے کے لیے اپنی مرضی سے جا رہا تھا۔ انہوں نے تنخواہ بڑھا یا تو شرن نے انکار کر دیا۔ اس شام کو جب اس نے گھر پر کانپور جانے کی اطلاع دی تو اسے محسوس ہوا کہ مدت سے چھائی ہوئی کالی گھٹا برس پڑی۔

    اس شام اس نے پہلی بار کرشنا کو خوش دیکھا۔ پہلی بار رام داس نے اس سے محبت سے بات کی۔ اس بات کا اثر کیا ہوا تھا، اس پر شرن نے دھیان نہیں دیا۔ اس نے سوچا وہ چلا جائےگا تو یہ کوارٹر رام داس کو مل جائےگا۔ ماں کو اپنے ساتھ لے جائےگا اور کرشنا اس کو اپنا گھر سمجھ کرآزاد اور خوش رہےگی۔ اس کا وہ سب کچھ سامان جو ایک بڑے بکسے میں بند تھا، کمروں میں سجےگا اور کرشنا کے منجمد قہقہے پانی کی طرح بہہ نکلیں گے، دھوپ میں چمکیں گے اور رام داس فرحت اور راحت محسوس کرےگا۔

    اس رات کرشنا اور رام داس واقعی اپنے نئے گھر کے رنگین نقشے بناتے رہے۔ ماں خاموش پڑی رہی۔ شرن بےکار کی باتیں سوچتا رہا۔

    اب کرشنا خوش تھی۔ رام داس خوش تھا۔ ماں خاموش تھی اور شرن بےنیاز تھا۔

    لیکن پھر فضا اچانک بدل گئی۔ مشینری کے پہنچنے میں دیر ہو گئی اورنئی شوگر مل کے فوراً چالو ہونے کا ارادہ بدل گیا۔ مل کے منیجر نے ایک شام شرن کو دفتر میں بلاکر کہا کہ اس کا کانپور بھیجا جانا ممکن نہیں تو اس کی آنکھیں دھندلا گئیں اور وہ منھ سے کچھ نہیں بولا۔ سر جھکائے باہر آ گیا۔ اسے بے حد صدمہ ہوا۔ وہ رام داس اور کرشنا کی خوشیوں کا گلا گھونٹ رہا تھا۔ وہ واقعی ایک مجرم تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں جب وہ گھرپہنچا اور دروازے پر دستک دینے لگا تو اس کے کانوں میں کرشنا کے مترنم قہقہے گونجے، جیسے جمی ہوئی برف پگھل کر نالے کی شکل میں بہنے لگی تھی اور ماحول میں سنگیت پھیلا رہی تھی، جس سے رام داس لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ماں شاید گھر میں نہیں تھی۔ نالے کے بہاؤ کو کوئی چٹان نہیں روک رہی تھی۔ اس نے سوچا، وہ خود یہ چٹان کھڑی نہیں کرے گا، تاکہ کرشنا کے قہقہوں کا ساگر چھلکتا رہے۔

    وہ دروازے سے ہی لوٹ گیا اور اس طرف نکل گیا جہاں مل کے نئے کوارٹر بن رہے تھے۔ شرن ان کوارٹروں میں گھومتا رہا۔۔۔ نامکمل عمارتیں جن میں صرف اکیلاپن، اندھیرا اور تنہائی بس رہی تھی۔ اسے نہ جانے کیوں وہاں بے حد سکون کا احساس ہوا۔ جب وہ رات کو گھر لوٹا تو بڑا سنجیدہ اور خاموش تھا۔ اس نے زندگی کی گہرائیوں میں کھوکر جانے کون سے موتی اکٹھے کیے تھے۔ سونے سے پہلے وہ کمرے کی ہر ایک چیز کو بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا اور جب سو گیا تو اس کے ذہن کے کواڑ آپس میں ٹکراتے رہے۔

    اگلی صبح اس نے زیر تعمیر، نامکمل اور آبادی سے دور نئے کوارٹروں میں سے اپنے نام ایک کوارٹر الاٹ کرنے کی درخواست دے دی۔ اس نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی، کسی سے کچھ نہیں کہا۔ اس کے چہرے پر عزم کے نشان اور آنکھوں میں سنجیدگی کی گہرائیاں تھیں اور جب وہ گھر لوٹا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی عمر بھر کی ساتھی تنہائی جس کو اس نے اپنے پاگل پن سے ایک دن طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا تھا، ایک بار پھر واپس آ گئی تھی اور ڈیوڑھی پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اپنی ساری رعنائی اور خوبصورتی کے ساتھ ایسی خوبصورتی جو تنہائی کے ماتھے پر سہاگ کی بندی ہے۔

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 282)

      • ناشر: نیشنل فائن پرنٹنگ پریس، حیدر آباد
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے