Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دی بلیو پرنٹ

مہندر ناتھ

دی بلیو پرنٹ

مہندر ناتھ

MORE BYمہندر ناتھ

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے نوجوان فنکار کی کہانی ہے، جو اپنے خوابوں کے گھر اور اس میں بسر ہونے والی اپنی زندگی کا خاکہ تیار کرتا ہے۔ حالانکہ نوجوان فنکار اس خاکے کے مکمل ہونے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ اس خاکے میں اس نے اپنے خوابوں کے گھر اور زندگی کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیزوں پر دھیان دیا تھا۔ ساتھ ہی ان پر صرف ہونے والی رقم کا اندراج بھی تھا۔

    ڈئیر ایڈیٹر

    ۲۲/ستمبر۱۹۴۹ء

    میں آپ کو ایک افسانہ کا مواد بھیج رہا ہوں، مجھے کاغذ کے یہ چند اوراق کہاں سے ملے، ان کا میں بعد میں ذکرکروں گا، پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ میں افسانہ نگار نہیں ہوں، ایک دفترمیں ایک معمولی سا کلرک ہوں، اس دفتر میں کلرکی کرتے ہوئے تیس برس گزر گئے ہیں، میری ایک بیوی ہے اور بد قسمتی سے میرے چھ بچّے ہیں، میری تنخواہ اس وقت ایک سو بیس روپے ہے۔ پینتالیس روپے پر نوکر ہوا تھا، آج سے بیس سال پہلے، میرے دل میں تمنائیں تھیں۔ آگے بڑھنے کی آرزو تھی، ایک خوبصورت، صاف ستھرا گھر بنانے کی خواہش تھی، اسی جوش میں آکر شادی کرلی تھی۔ 

    انھیں آرزؤوں کو پروان چڑھانے میں بیس برس گزر گئے اور میری حالت پہلے سے بھی ابتر ہوتی گئی اور اب میں قبل از وقت بوڑھا ہو گیا ہوں، سر کے بال سفید ہوگئے ہیں، میری آرزوئیں بھی اب بوڑھی ہو گئی ہیں، جس کھولی میں میں رہتا ہوں وہاں نہ نل ہے نہ بجلی، رات کو Kerosene oil کا لیمپ جلاتا ہوں اور دن میں سورج کی روشنی میں چلتا پھرتا ہوں، یہ مواد میں آپ کو کیوں بھیج رہا ہوں، اس کے بھیجنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس شخص کی تمنائیں، آرزوئیں میری طرح کی تھیں، اس نے اپنی زندگی کو Blue Print بنایا ہوا تھا اور میں نے بھی۔ مجھے یہ شخص آرٹسٹ دکھائی دیتا ہے، لیکن شاید زندگی نے ساتھ نہ دیا، حالات نے اسے موت کے منہ میں جا دھکیلا۔ 

    یہ اس بھیانک رات کی بات ہے جب اس شہر میں ایک زبردست طوفان آیا تھا، رات کا وقت تھا کسی نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا، میں اس وقت جاگ رہا تھا، میری بیوی جاگ رہی تھی اور میرے بچّے رورہے تھے، کچھ خوف کی وجہ سے اور کچھ بھوک سے، میں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا اور مجھے ایک کالا کلوٹا آدمی نظر آیا، اس نے مجھے باہر آنے کے لئے کہا اور میں چپکے سے اس کے ساتھ ہو لیا، جب ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کر لیا، تو اس نے مجھے ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا اور ہم دونوں اس جھونپڑی کے اندر چلے گئے اور باہر موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ہوا تیز اور تند تھی اور اندر چارپائی پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا، اس کے سرہانے ایک لالٹین جل رہی تھی، میں نے قریب جاکر لیٹے ہوئے آدمی کی طرف دیکھا۔ ایسا معلوم ہوا کہ وہ سویا ہوا ہے، میں نے جگانے کی کوشش کی، لیکن ساتھ والے آدمی نے اشارے سے کہا کہ وہ ہمیشہ کے لئے سو گیا ہے۔ 

    سونے والے کے دونوں ہاتھوں میں چند اوراق تھے جو اس نے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا رکھے تھے، جو میں آپ کو بھیج رہا ہوں، میں نے خود بھی ان کو پڑھ لیا ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ سب لوگ پڑھیں۔ میں نے وہ کاغذات لے لئے اور لاش پر چادر ڈال دی، چھت ٹپک رہی تھی، کمرے میں ایک چارپائی تھی، سرہانے کے قریب ایک ٹرنک تھا، دیواروں پر غالبؔ، ٹیگور اور پریمؔ چند کی تصویریں تھیں، جو کافی گندی اور میلی ہوگئی تھیں، یہ شخص کس طرح مرا، کیوں مرا، اس کی عمر کتنی تھی؟ غالباً مرنے والے کی عمر زیادہ نہ تھی، شاید پینتیس سے اوپر نہ ہوگا، لیکن چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کافی لاغر اور کمزور تھا۔ میں نے وہ کاغذات اٹھالئے اور صبح میونسپلٹی کو اطلاع دے دی۔۔۔ اور آج میں آپ کو یہ اوراق بھیج رہا ہوں، کاش میں افسانہ نگار ہوتا تو ان واقعات کو سامنے رکھ ایک افسانہ لکھتا اور لوگوں کو بتاتا کہ اس زندگی میں تمنائیں کس طرح کچلی جاتی ہیں اور آرزوئیں بھوتوں کا روپ دھار کر بڑھاپے میں زندگی حرام کرتی ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیے، میرا بچّہ رو رہا ہے، اسے خسرہ نکل آیا ہے، بیوی راشن لانے کے لئے دوکان پر گئی ہوئی ہے، اس لئے میں بچّے کو پہلے دودھ پلا آؤں، پھر خط ختم کروں گا۔ 

    ۲۳/ستمبر ۱۹۴۹ء 

    اس دن میں خط ختم نہ کر سکا، بچّہ متواتر روتا رہا، میں ڈاکٹر کے پاس گیا، وہاں سے دوائی لایا۔ اتنے عرصے میں معلوم ہوا کہ باقی بچّوں کے بھی خسرہ نکل آیا ہے، یہ کوئی چھوت چھات کی بیماری ہے، بچّوں کو بخار تیز ہے، اگر آپ نے شادی کی ہوئی ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ چھ بچّوں کے باپ کی کیا حالت ہو سکتی ہے۔ 

    وہ اوراق میں نہیں بھیج رہا ہوں، ان کی نقل بھیج رہا ہوں، ممکن ہے آپ کو مواد پسند آئے یا نہ آئے، آپ اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک  دیں، آپ شاید جنسی افسانہ چھاپنا پسند کریں یا بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے افسانے چھاپیں، اسی لئے میں ان اوراق کی ایک نقل بھیج رہا ہوں۔۔۔ تین چار جگہ میں نے چند لفظوں کا ردوبدل کیا ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان الفاظ کو رکھیےگا، ورنہ آپ انھیں کاٹ سکتے ہیں۔

     The Blue Print


    خواب گاہ

    دیواروں پر گہرا آسمانی رنگ، تین دیواروں پر نیچے سے دیوار کی تقریباً دو تہائی اونچائی چھوڑکر گز بھر رنگ کی ایک پٹی، جس پر نگاہ محبوب کی طرح جھکی جھکی ڈالیاں منقش ہوں اور سامنے والی دیوار پر صرف شفق رنگ کی پٹی، جس کے وسط میں سورج آدھا نیچے نیلے رنگ کے سمندر میں ڈوبا ہوا نظر آئے، اس پٹّی کی صرف نچلی لائن چاروں طرف دیواروں پر واضح ہوگی، اوپرکی نہیں، کیوں کہ اوپر کا نیلا رنگ آسمان کو ظاہر کرے گا جس میں شفق آسمان کے رنگ میں کھوئی ہوئی نظر آئے۔ 

    کمرے میں نیلی روشنی کا بلب ایک خوبصورت شیڈ کے ساتھ اور فرش پردری، دری پر شفق رنگ کا قالین۔ ایک طرف پلنگ بچھا ہوا، پلنگ کے ایک طرف ایک نازک سی میز پر ایک پیاری سی بلور کی طشتری میں موتیا، زرد یا سفید چمیلی یا مولسری کے پھول (جس کا بھی موسم ہو) ساتھ میں پانی کا ایک گلاس طشتری سے ڈھکا ہوا اور ایک کتاب مطالعہ کے لئے رکھی ہوئی، پلنگ کے دوسری طرف ایک چوڑی سی میز پر ریڈیو رکھا ہوا، سرہانے کے اتنے قریب کہ سوتے وقت ہاتھ بڑھا کے بند کیا جا سکے، ریڈیو پر لسنر پڑا ہوا۔ سرہانے سے گز بھر کی اونچائی پر دیوار میں ایک اور بجلی کا خوبصورت سا لیمپ لگا ہوا جو پلنگ پر جھکا ہوا ہو، لیمپ میں بھی نیلا بلب ہو، جس کا ہولڈرتکئے کے نیچے رکھا ہو، تاکہ سوتے وقت ہاتھ بڑھانے کی بھی زحمت نہ کرنی پڑے۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک طرف Latest ڈیزائن کا وارڈروب اور ایک طویل شوہنگر، دوسرے کونے میں ایک جدید ترین وضع کی بڑی سنگار میز، اس پر سنگار سامان سجا ہوا اور پاس ہی ایک ماڈل ہنگر۔ 

    چوتھے کونے میں یعنی پلنگ کے متوازی لکھنے کی میز اور ایک آرام کرسی، میز کے اوپر دیوار میں ایک چھوٹا بک شلف چڑھا ہوا، جس کے پٹ شیشے کے ہوں، تاکہ ان میں رکھی ہوئی گنتی کی چند تازہ ترین کتابوں کے گرد پوشوں پر نام پڑھے جا سکیں اور کسی کتاب کے ڈھونڈنے میں دقت نہ ہو۔ میز پر ماہوار رسالے انگریزی اور اردو زبانوں کے رکھے ہوئے اور ایک گھڑی اور لکھنے کا سامان قرینے سے سجا ہوا اور ایک الیکٹرک لیمپ نیلے بلب کا ایک نازک سے شیڈ کے ساتھ میز پر جھکا ہوا۔ بک شلف کے اوپر اور شفق رنگ کی پٹی کے نیچے چند ملکی رہنماؤں کی تصویریں لگی ہوں، میز پر شیشے کے نیچے اپنے پسندیدہ ادیبوں کے فوٹو رکھے ہوں۔ کھڑکیوں پر پردے شفق رنگ کے ہوں۔ 

    پلنگ کا بچھونا

    گدے کے اوپر دری، اس پر نیلی سارٹن کی تو شک اور توشک پر ریشمی کام کی چادر، پائینیتوں سارٹن کا لحاف، دور نگاپیچ میں شفق رنگ، حاشئے کی نیلے رنگ کی پٹّی اور گوٹ بھی شفق رنگ کی اور استر نیلے رنگ کا، سرہانے دو تکیے، تیتروں کے پروں کے، جن پر دلآویز کڑھے ہوئے غلاف چڑھے ہوں، پائینتوں کبھی نیلا اور کبھی گلابی سلکن لباس شب خوابی تہہ کیا ہوا رکھا ہو، ایک تکئے کا غلاف نیلے رنگ کا ہوگا، جس پر شفق رنگ پھول کڑھے ہوگے اور دوسرے تکئے کا غلاف شفق رنگ کا ہوگا، اس پر نیلے پھول ہوں گے۔ دن کے وقت نیلی رنگی ہوئی ململ کا پلنگ پوش بستر پر پڑا رہا کرے اور پائینتوں خرگوش کی کھال کی سلب رکھی رہے۔ 

    ٹاول ہینگر

    تولیہ اور سلکن یا اونی ٹائٹ گاؤن پڑے ہوں نیلے اور شفق رنگ و موسم کے لحاظ سے۔ 

    شو ہینگر

    ۲درجن جوتے دو قطاروں میں ٹنگے ہوں، شوشائن اور برش پالشنگ کلاتھ ساتھ رکھا ہو۔ 

    وارڈروب کا سامان

    اس کے دروازوں میں اندر کی طرف دونوں جانب قد آدم شیشے لگے ہوں گے، اندر سے وارڈروب اونچائی میں دو حصوں منقسم ہو، بیچ میں ایک پارٹیشن وال سے ہر ایک سوٹ اور شیروانی لٹکانے کے لئے قلابے لگے ہوں جن میں ہینگر لٹکائے جائیں گے اور نیچے سینے پرونے کا سامان رکھا ہوگا اور ایک کیمرہ اور دوربین۔ دوسرے حصوں کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہو، ایک اس دفعہ چوڑائی میں، بیچوں بیچ، اوپر کے حصے میں دو درجن قمیصیں رکھی جائیں گی اور نیچے کے حصے میں دراز کی طرح ایک چیز لگی ہوگی، مگراندر تختہ نہ ہو، بلکہ لکڑی کے چوبیس پتلے پتلے رول سے ہوں، جن پر پتلونیں اور ٹائیاں لٹکائی جائیں گی اور نیچے دو درجن رومال اور موزے بنیان اور انڈروئیر اور تولئے رکھے ہوں گے۔ 

    سنگار میز کا سامان

    چنبیلی کا تیل، کنگھے، برش، پاؤڈر، کریمیں، لوشنز وغیرہ وغیرہ۔ اس کی دراز میں نیل کٹر اور ٹائلٹ کا مزیدار سامان رکھا ہو۔ 

    لکھنے کی میز کا سامان

    جدید قسم کا قلم دان، پلاسٹک، پنچ مشین، پنز کوشن، پیپر وٹیس، کلپس، پیڈ اور لفافے، فٹ رول، پنسلس، کلینڈر، ربڑ وغیرہ وغیرہ۔ میز پر لکھنے کی جگہ ایک گز شیشے کی مستطیل، اس کے نیچے اپنے ان دل پسند شعراء، افسانہ نگاروں اور نقادوں کی تصویریں رکھی ہوں، غالبؔ، ٹیگور، پریم چند، اقبال، فراق، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدؔی، سعادت حسن منٹو، عصمت شاہد لطیف، قرۃ العین حیدر، جوش، مہندر ناتھ، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری۔ 

    میز پر دائیں ہاتھ کے کونے میں یہ رسالے چنے ہوں، اردو ماہنامہ ادبِ لطیف، نگار، جاوید، ہمایوں، پریت لڑی، فسانہ، نقوش، دوماہی شاہراہ، سویرا، (جب بھی نکلے) نیا ادب۔ انگریزی ماہنامہ موڈرن ریویو، فلم انڈیا، ساؤنڈ، فلم پکٹوریل، ٹرنڈ، لائف، فوٹو پلے، اسپیشل، اسکوائر، کوریر۔ میز کے سامنے والے بائیں ہاتھ کے کونے میں اپنے محبوبہ کا فوٹو۔ بک شلف کے اوپر کی فریم شدہ تصویریں، گاندھی جی، قائدِ اعظم، پنڈت نہرو، سبھاش بابو، راجہ جی، وجے لکشمی پنڈت، سروجنی نائیڈو۔ 

    ڈرائنگ روم

    سفید براق، دیواروں میں نیچے سے دو تہائی اونچائی پرایک گز بھر کی ہلکے آسمانی رنگ کی پٹی پڑی ہوئی، اس ہلکے آسمانی رنگ کے پس منظر میں سبز بیلوں میں سفید پھول کھلے ہوئے، کمرے کے چاروں کونوں میں دیوار گیر اور ان میں آسمانی رنگ کے بلب لگے ہوئے، سامنے کی دیوار کی پوری لمبائی میں اور دائیں اور بائیں کی آدھی لمبائی میں شیشے کا ایک بڑا شلف جڑا ہو، دو خانوں والا، اس میں ایک اپٹو ڈیٹ ادبی لائبریری سجائی جائےگی، جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کی مستند کتابوں پر مشتمل ہوگی۔ بک شلف کے اوپر بدھ کا اور گاندھی جی کا مجسمہ رکھا ہوا، ان کی پیشانیوں سے ارغوانی رنگ کی بجلی کا نور پھوٹ رہا ہو اور ان سروں کے بیچ اسی رنگ کے ہالے ہوں اور دونوں کے بیچ میں تاج محل رکھا ہو، اس میں سے دودھیا روشنی پھوٹ رہی ہو۔ 

    فرش پر دری اور دری پرآسمانی رنگ کا قالین، کمرے میں دروازے کے سامنے آسمانی رنگ کے چمڑے کے کور کا صوفہ سیٹ پڑا ہو، دائیں اور بائیں دونوں طرف کی دیواروں کے ساتھ دیوان رکھے ہوئے، آسمانی کورز والے۔ بیچ میں ایک گول میز، شیشے کی سطح والی اور چھ کرسیاں، میز کے اوپر چھت سے لٹکتا ہوا ایک چاند تارا، بجلی کی روشنی کا آسمانی بلب اور میز پر روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات۔ دو انگریزی روزانہ اخبار، ہفتہ وار (اردو) شامد اور (انگریزی) بلٹز، مارچ، انڈیا اور السٹر ٹیڈ و یکلی۔ کمرے کی دیواروں پر اس آسمانی رنگ کی پٹی کے نیچے چاروں طرف چغتائی آرٹ اور خوبصورت سین، سینری کی تصاویر نازک فریموں میں جڑی ہوئی۔ کمرے کے چاروں کونوں میں اونچے اونچے اسٹینڈیز پر گلدان جن میں موسم کے پھول رکھے ہوں۔ 

    ڈائننگ روم

    سادہ فرش اور سادہ دیواریں، کمرے میں پارٹیشن کرٹن پڑا ہوا۔ پردے کے پیچھے سوٹ کیسز میں غیر موسمی کپڑے، ہولڈال، برساتی چھتری، گم بوٹس، چھڑی اور گھر کا تمام سامان قرینے سے رکھا ہوا اور دو بڑے جستی صندوق جن میں موسم سرما گزرنے پر اون اور روئی کے کپڑے اور دیگر اشیاء محفوظ رکھی جائیں گی۔ ڈائننگ روم میں پردے کے آگے ایک طرف دیوار کے ساتھ شیشے کی ایک الماری جس میں ظروف رکھے ہوئے ہوں، پلیٹیں، چمچے، کانٹے، ڈشیں، چائے کے سیٹ، گلاس وغیرہ وغیرہ۔ 

    دوسری طرف ایک شیشے کی الماری میں سرکہ، اچار، مربّے، چٹنیاں اور پھل وغیرہ رکھے ہوں۔ پردہ کے آگے وسط میں ایک میز، اس پر ایک ریکارڈز کبرڈ اور ایک گرامو فون، کبرڈ میں کلاسیکل اور فلمی دونوں طرح کے چنندہ چنندہ ریکارڈر رکھے ہوں گے۔ ڈائننگ روم کے وسط میں ایک چوکور میز، کھانا کھانے کی، اس پر ایک سفید براق میز پوش، بیچ میں گلدان سرخ پھولوں کا اور گلاسوں میں سفید نیپکنز رکھے ہوئے اور نمک اور کالی مرچوں کی شیشیاں مسٹر ڈپوٹ۔ کمرے کی دیواروں پر فوٹو گرافی کے چند اچھوتے نمونے۔ 

    باتھ روم

    پھول دار ٹائل، سفید دیواروں کی ایک تہائی اونچائی تک۔ وسط میں ایک دودھیا رنگ کا بلب لٹکتا ہوا۔ ٹب اور شاور لگا ہوا۔ ایک کونے میں دیوار کے ساتھ شیشے کی ایک مستطیل لگی ہوئی۔ اس پر ٹوتھ پیسٹ اور برش اور شیونگ کا اور نہانے کا تمام سامان رکھا ہوا، معہ کھلی کے ڈبّے کے۔ شیشے کی مستطیل کے ساتھ دیوار میں آئینہ جڑا ہوا اور ایک طرف کھونٹیاں لگی ہوئی، کپڑے لٹکانے کے لئے۔ 

    گھر کے سامان کی فہرست، قیمتوں کے ساتھ


    خواب گاہ

    دیواروں پر رنگ روغن۲۰۰ روپے، فرشی دری ۴۰ روپے، قالین ۳۰۰ روپے، پلنگ ۱۰۰ روپے، مکمل بستر ۴۰۰ روپے، دو ڈریسنگ گاؤن ۵۰ روپے، خرگوش کی کھال کے چپل۲۰ روپے، کتاب، پانی کا گلاس اور پھول رکھنے کی میز ۳۰ روپے، ریڈیو کی میز ۷۰ روپے، ریڈیو ۵۰۰ روپے، وارڈروب ۶۰۰ روپے، شوہینگر ۲۰ روپے، سنگار میز ۴۰۰ روپے، ٹاول ہینگر۲۰ روپے، کیمرہ ۳۰۰ روپے، دوربین ۲۰۰ روپے، دو درجن سوٹ اور دوسرا لباس ۴۸۰۰ روپے، لکھنے کی میز معہ اسٹیشنری کے ۲۴۰ روپے، چھوٹا بک شلف ۷۵ روپے، دو الیکٹرک لیمپ معہ شیڈ کے ۱۰۰ روپے، تصویروں کے فریم ۵۰ روپے، میزان ۸۵۲۵ روپے۔ 

    ڈرائنگ روم

    دیواروں پر رنگ روغن ۲۰۰ روپے، فرشی دری ۳۵ روپے، قالین ۳۱۵ روپے، چار دیوار گھڑی ۲۰۰ روپے، کتابیں ۵۰۰ روپے، بڑا بک شلف شیشے کا کتابوں کے لئے ۵۰۰ روپے، مر مر کا تاج محل، بدھ اور مہاتما گاندھی کے مجسمے ۵۰۰ روپے، دو دیوان ۶۰۰ روپے، صوفہ سیٹ ۵۰۰، بیچ کو گول میز ۲۵۰ روپے، آٹھ کرسیاں ۲۵۰ روپے۔ چاند تارا ۵۰ روپے، تصویروں کے فریم ۵۰ روپے، چار بڑے گلدان معہ اسٹینڈ کے ۱۲۵ روپے، میزان ۱۷۵ روپے۔ 

    ڈائننگ روم

    میز اور کرسیاں ۱۵۰ روپے، شیشے کی الماریاں ۱۰۰۰ روپے، چینی کے ظروف اور کھانے کا دیگر سامان ۳۰۰ روپے، گراموفون معہ اس کی میز کے اور ریکارڈ کبرڈ کے ۶۷۰ روپے، سٹو روم کا سامان ۵۰۰ روپے، میزان ۲۶۲۰ روپے۔ 

    باتھ روم

    دیواروں کے ٹائل ۱۵۰ روپے، ٹب اور شاور ۳۰۰ روپے، واشنگ بیسن ۲۰۰ روپے، نہانے کا سامان ۳۰ روپے، میزان ۶۸۰ روپے

    جملہ اخراجات 
    خواب گاہ ۸۵۲۵ روپے
    ڈرائنگ روم ۴۱۷۵ روپے
    ڈائننگ روم ۲۶۲۰ روپے
    باتھ روم ۶۸۰ روپے
    میزان ۱۶۰۰۰ روپے

    روزانہ پروگرام


    صبح کاذب کے وقت اٹھنا

    ضرورت سے فارغ ہوکر ہوا خوری کو چل دینا، سیر سے آکر جمنا سٹک کرنا، زور کر چکنے کے بعد رات کے پانی میں بھیگے ہوئے چوبیس باداموں کے چھلکے اتار کر انھیں مصری کے ساتھ رگڑ کر چاٹنا، پھر آرام کرسی پر لیٹ کراخبار پڑھنا، آٹھ سے سوا آٹھ تک کی خبریں ریڈیوپر سننے کے بعد نہانے جانا، نہانے کے بعد ناشتہ ہوگا۔ 

    موسم گرما

    ایک پاؤ پیڑوں کی لسی کا گلاس یا ایک پاؤ دہی کا اَدھ رڑ کا، مٹھٹریوں یوں کے ساتھ۔ 

    موسم سرما

    آدھ سیر گرم گرم دودھ میں آدھی ٹکیہ مکھّن، اس کے ساتھ دو ٹوسٹ یا دو چھوٹے چھوٹے نمکین پراٹھے اور کوئی سبزی۔ 

    نو بجے ناشتے سے فارغ ہوکر دفتر چل دینا۔ 

    ساڑھے نو بجے سے ایک بجے تک دفتر۔ 

    ایک بجے دفتر سے گھر آکر کھانا کھانا۔ 

    کھانا یہ ہوگا

    پہلے شوربہ، چاول، دال اور کسی سبزی کے ساتھ، پھر روٹی، گوشت (کبھی بھنا ہوا، کبھی ٹوٹے مسالے میں، کبھی لعاب پراتر ہوا) کبھی قیمہ تو کبھی پسندے۔ کھانے کے ساتھ آدھ پاؤ دہی، سلا اور کچّے شلجم یا چقندر بھی ہوں گے۔ آخر میں کچھ موسمی پھل بھی کھائے اور چلتے چلتے کچھ مٹھائی چکھ لی۔ کھانے کے دوران میں سنگیت ضرور ہونا چاہیے، ریڈیو پر ہو تو ٹھیک، نہیں تو گراموفون ریکارڈ سہی۔ کھانا کھاکے واپس دفتر۔ 

    دو بجے سے ساڑھے چار بجے تک دفتر میں کام کرنا، دفتر سے سیدھے گھر پہنچنا۔ پانچ بجے ایک بڑا گلاس سنگترے یا موسمی کے رس کا پینا، وہ نہ ہو تو گنّے کے رس کا گلاس، نہیں تو ناریل کا پانی ہی سہی۔ اسے پی کر لکھنے پڑھنے بیٹھ جانا۔ ادھر دن ڈھلا اور سیر کرنے نکل گئے یا کسی سنیما میں ہی جا بیٹھے۔ نو بجے رات کو گھر پہنچ گئے، ریڈیو پر خبریں سنیں، پھر کھانا کھانے بیٹھ گئے، کھانا یہ ہوگا، 

    پہلے شوربہ، پھر روٹی ایک سبزی کے ساتھ۔ اس کے بعد چاول، ایک شوربے دار سبزی اور دال کے ساتھ۔ رات کے کھانے میں گوشت نہیں ہوگا اور دہی بھی نہیں، صرف سلاد ہوگا۔ اس کے بعد کچھ انگور اور انار اور چند دوسرے تازہ پھل اور آخر میں ایک میٹھی ڈش۔ کھانا کھانے کے بعد ریڈیو بند کر دیا اور پڑھنے بیٹھ گئے۔ اِدھر دس بجے کہ کتاب بند اور ریڈیو آن۔ 

    ساڑھے دس بجے آدھ سیر گرم گرم میٹھا دودھ خوب سی ملائی کے ساتھ پیا اور بچھونےمیں ریڈیو دھیما کر دیا اور اس پرمدھم مدھم سروں میں موسیقی سنتے رہے اور پھر سنتے ہی سنتے سو گئے، لیکن ریڈیو بند کر کے، نہیں تو آدھی رات کے وقت ماتا جی کواٹھ کر بند کرنا ہوگا اور پھر صبح وہ پھٹکاریں گی، لیکن ماتا جی وہاں کہاں ہوں گی، ورنہ ان کے پھٹکارنے میں بھی تو مزا آتا ہے۔ یہ تو ہوا روز کا پروگرام، اب رہا اتوار، اس کا پروگرام یہ ہوگا، 

    حسب عادت صبح سویرے اٹھے، سیر کو گئے، جمنا سٹک کی، پھر بادام چاٹے، گھنٹہ بھر اخبار دیکھا اور بجائے ناشتہ کرنے کے آدھ سیر دودھ میں دو کچّے انڈے پھینٹ کے پی گئے اور پھرجو لکھنے بیٹھے ہیں تو ایک بجے تک لکھتے ہی رہے۔ لکھنے سے فارغ ہوکر نہائے، ریڈیو آن کر دیا اور سنگیت کی بوچھاڑ میں کھانا کھانے بیٹھ گئے، اتوار کو کھانا خصوصی ہوگا، یعنی، دہی بریانی اور مرغی کا سالن، یا مرغ پلاؤ اور قورمہ۔ (مرغی کے بجائے کسی ہفتے تیتر، کسی ہفتے بٹیر اور کسی ہفتے کبوتر۔) اور آخرمیں زردہ فیرنی کے ساتھ، جس پرپستے کی ہوائی پڑی ہوئی ہو یا ربڑی شیرمال کے ساتھ۔ 

    کھانا کھا کر سو رہے، دن ڈھلے ہفتے بھر کا کسل دور کرکے سوکے اٹھے۔ بنے سنورے اور مٹر گشت کو نکل کھڑے ہوئے۔ حسب معمول نو بجے گھر لوٹے، خبریں سنیں اور کچھ پڑھنے بیٹھ گئے۔ اتوار کی رات کو کھانا نہیں کھایا، اس طرح ہفتے میں ایک وقت کا فاقہ جسم میں فاسد مادے کو پیدا نہیں ہونے دیتا۔ لہذا ساڑھے دس بجے حسب معمول دودھ پیا اور بستر میں دبک گئے اور ریڈیو سنتے سنتے گیارہ بجے سوگئے، تاکہ آنے والے ہفتے میں زندگی کی گہماگہمی کا پیر کی صبح تازہ دم، ہشاش بشاش اٹھ کے خیر مقدم کریں۔ 

    مرنے والے کا نام کیا تھا، یہ اس رات معلوم نہ کر سکا، دوسرے دن میں پھر اس کے کمرے میں گیا، ٹرنک کھولا، کچھ خط ملے جن پر اس کا نام اور ایڈرس درج تھا، مرنے والے کا نام ہر بنس لال تھا، راولپنڈی میں پیدا ہوا، نوکری کی تلاش میں بمبئی آیا، بمبئی میں دس برس رہا، شادی نہیں کی تھی (شاید توفیق نہ ہوئی)عمر پینتیس برس!

    میں یہ سب باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ شخص عین جوانی میں مر گیا، یہ صرف ایک شخص کی موت کی داستان نہیں ہے اس موت میں میری موت شامل ہے، ہزاروں کروڑوں انسانوں کی موت شامل ہے، کیا کوئی ایسا نظام نہیں، جس میں ہربنس لال کی خواب گاہ بن سکے، جہاں وہ اپنا پلنگ بیڈروم کے لئے خرید سکے، سنگار میز، لکھنے کا سامان، ڈرائنگ روم، باتھ روم اور تمام چیزوں کو کھا پی سکے، جس کا ذکر Blue Print میں کیا گیا ہے۔ کیا میں امیّد کر سکتا ہوں کہ آپ میرے خط کا جواب دیں گے؟

    نوٹ

    اگر آپ اس کہانی کا نام Blue Print ہی رکھیں تو اچھی بات ہوگی۔ 

    آپ کا خیر اندیش
    رونق لال
    قصبہ بوری ولی، کھولی نمبر ۱

    سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
    علامہ اقؔبال

    رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
    ساؔحر لدھیانوی

    مأخذ:

    مہندر ناتھ کے بہترین افسانے (Pg. 183)

    • مصنف: مہندر ناتھ
      • ناشر: اوپندر ناتھ
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے