Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تھوک

MORE BYوجیاراجادھیکش

    میں سامنت صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ صاحب یکے بعددیگرے کام بتاتے جارہے تھے۔ میں ان کواپنے دل ہی دل میں نوٹ کررہاتھا۔ یہ سارے کام شام تک ختم نہیں ہوں گے اورمجھے آج بھی آفس بند ہونے کے بعد بیٹھنا پڑے گا، اس کا احساس ہوچکاتھا۔ گذشتہ کئی دنوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ صبح گھر سے جلدی نکلنا اوررات کوواپس لوٹنا۔

    کوئی اتوارفرصت کا ملتالیکن کبھی کبھی اتوارکوبھی سامنت صاحب کاسندیسہ آتا اورچھٹی کے دن بھی آفس جاناپڑتا۔ بیوی کوغصہ آجاتا، بچے شکایتیں کرتے،‘‘ کہیں آناجانا نہیں، سیروتفریح نہیں۔‘‘ لیکن کوئی علاج ہی نہیں تھا۔ پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب کچھ کرنالازمی تھا۔ بیوی کومیں یہی سمجھاتا رہتا۔ وہ کہتی، ’’وہ توٹھیک ہے، لیکن کام کی بھی کوئی حد ہو؟ ناٹک سنیماجائیں، یہ میں نہیں کہتی، لیکن گذشتہ کئی دنوں سے تمہاری آنکھوں میں دردہے۔ تم ہی کہہ رہے تھے کہ شاید نمبربڑھاہوگا۔ آنکھوں کامعائنہ کرانے کے لیے توکم از کم وقت نکال لو۔ گھرکے سارے کام میں کرلوں گی، لیکن یہ کام تو مجھ سے نہیں بن پڑے گانا؟‘‘

    اس کاکہنا صحیح تھا۔ بہت ساری باتیں مجھے ہی کرنا چاہئے تھیں۔ لیکن سیلون میں جانے اوراطمینان بخش غسل لینے کا وقت نہیں تھا، پھرڈاکٹرکاکیاذکر؟ کبھی کبھی ان ساری باتوں پرغصہ آجاتا مگر صرف عارضی ہوتا، کیونکہ سب اٹل ہیں، اس کا علم ہوچکاتھا۔

    جواتنے دن ہوتارہا، وہ آج بھی ہوتارہے گا۔ آج جلدی جانے کوملتاتواچھاہوتا! وسوبیمارہے۔ اسپتال میں ہے۔ شام کو۶بجے کے بعدملنے نہیں دیاجاتا، اس لیے اس سے اب تک مل ہی نہیں سکا۔ بیوی دوبارجاکرآئی توبھی کیاہوا؟ وہ میراہی انتطارکرتا رہے گا۔ پھراس کی بیماری بھی بڑی خطرناک ہے۔ کسی طرح اس سے ملنا چاہئے۔ صاحب جب کاموں کے متعلق بتارہے تھے، اس وقت دل میں یہی خیالات کلبلارہے تھے۔ صاحب کے دھیان میں یہ بات آئی، وہ تھوڑے دل شکن لہجے میں بولے، ’’تمہارا دھیان کس طرف ہے جو گلیکر؟‘‘

    ’’ساری سر!‘‘

    ’’دیٹس آل رائٹ۔ لیکن ایسا مت کرو۔ میں جانتاہوں کہ کام کابوجھ پڑتاہے، لیکن تمہارے جیسے جوانوں کوجوش وخروش سے کام لیناچاہئے۔ بڑھاپے میں شکایتیں ہی ہیں۔ تب تک جتناہوسکے، کام کرلو۔ کتنی بارتمہیں بتاؤں؟‘‘

    آفس میں صاحب کہیں کا م کرو، گھرمیں بیوی کہے آرام کرو، کس کس کی سنوں؟ مجھے خود کواپنے بارے میں سوچنے کاکچھ حق ہے یانہیں؟ مجھے لگا کہ صاحب سے فوراً یہ سوال کروں، اتنے میں شیلاراندرآیا۔

    ’’ان کافون ہے۔‘‘ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔

    ’’جاؤفون لے لو۔‘‘

    میں اٹھا۔ باہر جاکررسیورہاتھ میں لے لیا، ’’ہیلو!‘‘

    ’’میں بول رہی ہوں۔ وسو، بھائی وفات پاگئے۔ ابھی کاکا خبردے کر گئے ہیں۔ تین بجے تک میت گھرپر لانے والے ہیں۔ آپ فوراً آئیے۔‘‘

    کیاکہوں کیاپوچھوں؟ مجھے کچھ سوجھ نہیں رہاتھا، اتنے میں بیوی نے فون رکھ دیا۔ میں دوتین منٹ باہر رینگتارہا۔ دوبارہ صاحب کے کمرے میں گیا۔

    ’’ہاں! توکیاکہہ رہا تھا۔۔۔؟‘‘ مجھے دیکھتے ہی صاحب نے کہنا شروع کیا۔

    ’’صاحب!‘‘

    ’’کیاہوا؟‘‘

    ’’مجھے فورا جانا چاہئے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میراپھوپھی زادبھائی انتقال کرگیا۔ ابھی فون آیاتھا۔‘‘

    ’’ساری ٹوہیئردیٹ! لیکن کم از کم دوتین خط روانہ کرو، پھرجاؤ۔‘‘

    ایک بجاتھا۔ یہ خطوط روانہ کرنے کا مطلب تھا، کم از کم دوبج جائیں گے اس کے بعد بس پکڑکرمیں تین بجے کھارکیسے پہنچوں گا؟ یہ ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا؟

    ’’دیرہوگی صاحب۔‘‘

    ’’میں تمہارے جذبات سمجھتاہوں، لیکن دیکھوابھی جلدی جاکربھی تم کیا کروگے؟ سب کچھ توختم ہوچکاہے۔ اس لیے ذرادیررکو۔ کام کرو۔ کام میں مشغول رہنے سے تم اپنے آپ کوقدرے سنبھال لوگے۔ وہاں پرسکون دل سے جاناچاہئے۔‘‘

    اب یہ بھی مجھے صاحب ہی بتائیں گے؟ میں کیسے سنبھل جاؤں؟ کیسے پرسکون ہوجاؤں؟ اس کا بھی میں تعین نہیں کرسکتا؟ اورصاحب جوکچھ بتارہے ہیں وہ کم از کم دل کی گہرائیوں سے ہے کیا؟ اس میں مجھے تسلی دینے کا مقصد کس قدرہے؟ لیکن کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ دل ہی دل میں کڑھتے ہوئے وہ دوتین کام انجام دے رہاتھا۔ کسی کھونٹے سے بندھے جانورکا سامجھے احساس ہورہاتھا۔ جس وقت آفس چھوڑا اس وقت دوبج چکے تھے۔

    بس اسٹاپ پرکھڑاہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعدبس آئی۔ بہت زیادہ بھیڑتھی۔ جوں توں کرکے اندرداخل ہوگیا۔ اس کھینچاتانی میں وسو کے بارے میں سوچنابالکل ناممکن تھا۔ بے حس ہوکربس کی ڈنڈی پکڑکرکھڑاہوگیا۔ ایک دوبارنزدیک کی سیٹ خالی ہوگئی لیکن اس پر میری توجہ نہیں تھی۔ میرے پیچھے کے آدمی نے تیزی سے وہ سیٹ پکڑلی۔

    تیسری بارسیٹ خالی ہوتے ہی فوراً میری توجہ گئی۔ کون کون سے واقعات پیش آئے، اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا۔ دس بارہ د ن وسواسپتال میں تھا لیکن میں جانہیں سکا۔ چھ بجے سے قبل آفس سے نکل ہی نہیں سکا۔ آفس کام کی وجہ سے کتنے کام ادھورہ جاتے ہیں! آنکھوں کامعائنہ کرالیناچاہئے۔ کبھی کبھار سینے میں دردہوتاہے۔ بیوی نے کہا، ’’یہ توتمہاراوہم ہے۔ اس عمرمیں اس قسم کی بیماری کیسے ممکن ہے؟‘‘ لیکن کیوں ممکن نہیں؟ وسومیری ہی عمرکاتھا۔ وہ اچانک مرانہیں کیا؟ شایدمیں بھی۔۔۔ وہ کچھ بھی نہیں۔ اب بلاکسی تامل کے رخصت لی جائے اور اپناچیک اپ کرایاجائے۔ صاحب کوغصہ آیاتب بھی کچھ حرج نہیں۔ انہیں اطلاع دیے بغیرحاضرنہ رہوں۔ آخران کاغصہ زیادہ اہم ہے یامیری صحت؟

    ایک اسٹاپ پربس رک گئی۔ کچھ لو گ اترے کچھ لوگ سوارہوئے۔ میرے سامنے والی سیٹ پرایک آدمی آکربیٹھ گیا۔ میں اپنے خیالات میں مگن تھا، لیکن اس آدمی کے آکربیٹھ جانے کے بعد خاموشی سے سوچتے رہنا مشکل ہوگیا کیونکہ وہ سیٹ پربیٹھنے کے بعد کھڑکی کی جانب منہ کرکے تھوکا۔ اس کاتھوک میرے جسم پرآپڑا۔ عام دنوں میں جھگڑا ہوچکاہوتا لیکن اب اتنی سکت باقی نہیں تھی سوچا، تھوکنے دو، وہ اس کاسوال ہے۔ میں کیوں مداخلت کروں؟ مجھے کیاحق ہے؟ بس چل رہی تھی اوروہ آدمی باربار تھوک رہاتھا۔ میں صرف وہی دیکھ رہاتھا۔ اپنے بارے میں یاکسی اورکے بارے میں سوچنا ناممکن ساتھا۔

    صرف وہ آدمی۔۔۔ اور اس کاتھوکنا۔۔۔ کم از کم وہ آدمی چالیس بارتھوکا۔ ایک باربس ٹریفک سگنل کے پاس رک گئی۔ قریب ہی ایک پرائیویٹ ایمبولینس کھڑی تھی۔ سفیددودھیا جیسی۔ اس باروہ پھرتھوکا۔ اس سفیدگاڑی پرلال چھینٹے اڑگئے۔ ایک بار۔۔۔ دوبار۔۔۔ آخرسگنل ملا۔ بس شروع ہوگئی۔ میری توجہ اس ایمبولینس کی طرف گئی۔ اس پرلکھا تھا۔ یورس ٹویوزاینڈ پروٹیکٹ (Yours to use and Protect) مجھے جانے کیوں وہ معنی خیز لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہواکہ اپنی زندگی ایک عظیم ایمبولینس کی طرح ہے۔ ہم اسے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی اس پرتھوکتے ہیں۔ لیکن تھوکتے ہیں یعنی کیاواقعی کام کرتے ہیں؟ کیااس پراحتجاج کرتے ہیں؟ کیا اسے کمتر سمجھتے ہیں؟ کیسے معلوم! کسی ادیب سے پوچھناچاہئے۔

    بے ساختہ یہ تجویز دل میں آئی۔ لیکن اس تجویز کودل میں زیادہ دیرتک رچ بس جانے کے لیے ماحول میں سکوت کہاں تھا؟ سامنے کے مناظر ہی بڑے بڑے دکھائی دے رہے تھے۔ میرے سامنے کاماحول وسیع ترہوتاجارہاتھا۔ وہ آدمی اوراس کا تھوکنا۔۔۔ اتنے میں میرا اسٹاپ آگیا۔ میں اترا۔ گھڑی میں دیکھاساڑھے تین بجے تھے۔ وسوابھی تک گھرمیں ہی ہوگایا اسے لے جایاگیاہوگا؟ اس کاگھربس اسٹاپ کے قریب تھا۔ سوچا کہ وہاں جاکرخلاصہ کرلوں اوراسے لے جایاگیاہوگا توسیدھے ٹیکسی سے شمشا ن چلاجاؤں۔

    گھرپہنچا۔ سب کچھ پرسکوت تھا۔ کسی نے دھیمی آوازسے کہا، ’’ابھی لے جایاگیا۔‘‘ میں ویسے ہی نیچے اترا۔ شمشان۔۔۔ سمندر قریب ہوتے ہوئے بھی ویران دکھائی دینے والاشمشان۔۔۔ چھوٹے چھوٹے حلقے۔۔۔ ایک دوسرے سے چہ میگوئیاں کرنے والے لوگ۔۔۔ ان میں سے اپنے لوگ کون سے؟ شروع میں توپہچانتے نہیں بن پڑا۔ آخرمیں کاکادکھائی دیے۔ وہ جس گروپ میں کھڑے تھے، اسی گروپ میں جاکرکھڑا ہوگیا۔

    ’’تمہیں کب معلوم ہوا؟‘‘

    ’’ایک بجے، لیکن کام پورے کرکے نکلنے تک دوبج گئے۔‘‘

    ’’میرے ساتھ بھی وہی ہوا۔ تم اسپتال گئے تھے کیا؟‘‘

    ’’نہیں۔ وہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔‘‘

    ’’بے چارہ اچانک مرگیا۔۔۔‘‘

    ’’اس طرح ہماری عمرکے لوگ سدھارنے لگیں تو ڈرلگتا ہے نا؟‘‘

    ’’ڈرلگتا ہے یہ توسچ ہے۔ لیکن ڈرکی وجہ س اس قسم کے واقعات تھوڑے ٹالے جاسکتے ہیں؟‘‘

    ’’تمہاری صحت ٹھیک ہے نا؟ کچھ عرصہ پہلے سناتھا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’بھئی خودکوسنبھالو۔۔۔‘‘

    ’’ڈاکٹر کیاکہتے ہیں؟‘‘

    مکالمے کاایک اورحصہ۔ اس شمشان میں ہرایک آدمی ایک دوسرے کی فکرمیں مبتلاتھا۔ عام حالات میں ایک دوسرے سے الگ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔ ایک دوسرے کی حفاظت کررہے تھے۔ دوسری گپیں بھی جاری تھیں، وہ بھی ذہنی تناؤ دورکرنے کے لیے۔۔۔ یعنی حفاظت کے لیے ہی۔۔۔ جیسے کہ موت سامنے ہو، اس سے لڑنے کاارادہ ہو۔ اس ماحول میں میں بے چین تھا۔ وسوسدھارایعنی کیاہوا؟ وہ اس لمحے ذہن میں آرہاتھا۔ موت اس وقت ایک ٹھوس حقیقت محسوس ہورہی تھی۔ خودکوسنبھالناہی چاہئے۔ کام وغیرہ کی اہمیت ضمنی ہے۔ کل ہی سب چیک اپ کرالیں۔‘‘

    ’’ایسالگتاہے سب کچھ ہوگیاہے۔‘‘

    ’’تم نے ہارپہنایا؟‘‘

    بکھرے ہوئے آدمی یکجا ہوئے۔ وسوکی سفیدکپڑوں میں لپٹی ہوئی لاش چتاپررکھی جانے والی تھی اور جب دوسرے لمحے ہی شعلے وسوکوبھسم کرڈالیں گے، اس کی حفاظت کون کرے گا؟ کوئی بھی نہیں۔۔۔ ایسا ہی ہوگا۔ یہ اٹل ہے، پھر فکرکس لیے؟ جتنا اس جسم کا استعمال کیاجاسکے اتناکرلیں اور پھر۔۔۔ کبھی کسی وقت موت کی آگ کے حوالے کردیں، یہ خیال دل میں آتے ہی پتہ نہیں کیوں ہمت بندھی اوروہ تھوکنے والا آدمی متواتر دکھائی دینے لگا۔ مجھے لگا میں بھی تھوکوں، باربارتھوکوں۔

    Yours to use and protect

    اپنے جسم کے ان دیکھے الفاظ پر تھوکتے رہوں۔

    مأخذ:

    Imkan (Pg. 393)

      • ناشر: مہاراشٹرا اردو، اکادمی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے