Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹڈی

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک طنز آمیز کہانی ہے۔ کسان پورے سال شب و روز محنت کر کے بنجر زمین میں فصل تیار کر لیتا ہے۔ فصل تیار ہوتے ہی ٹڈیوں کا ایک گروہ کھیتوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ کسان ٹڈیوں سے کسی طرح اپنی فصل کہ بچا لیتا ہے، لیکن وہ سماج میں بیٹھے رشوت خور پٹواری اور سود خور ساہوکار جیسے ٹڈیوں سے خود کی حفاظت نہیں کر پاتا ہے۔ انھیں سماجی ٹڈیوں کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو ہنسلی بنا کر دینے کے خواب بھی پورے نہیں کر پاتا ہے اور اسے اگلے سال کے لیے ملتوی کر دیتا ہے۔

    (ملک کے مختلف حصوں سے خبریں آرہی ہیں کہ کاشتکار ڈٹ کر ٹڈی دل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہوائی جہازوں سے ٹڈی کے دلوں پر زہریلی گیس کا حملہ کیا جارہا ہے۔ اپنی اپنی کھیتیوں کو اس دشمن سے بچانے کے لیے کاشتکار ہر ممکن تدبیر کر رہے ہیں۔ ڈھول بجاکر ٹین کے کنستروں کو پیٹ پیٹ کر ٹڈی دل کو بھگایا جارہا ہے۔ لاٹھیوں اور ڈنڈوں اور جھاڑوؤں سے ٹڈی فوج کا قلق قمع کیا جارہا ہے۔ بہت جلد امید کی جاتی ہے کہ کروڑوں ٹڈیوں میں سے ایک ٹڈی بھی زندہ نہ بچے گی۔)

    کھیت میں گیہوں کی فصل تیار کھڑی تھی اور رامو کے من میں آشا کی پھلواری لہلہا رہی تھی۔

    دیکھنے میں ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ اس میں جو فصل کھڑی تھی اس میں کٹائی، چھٹائی کے بعد مشکل سے پچاس من گیہوں کے دانے نکلیں گے۔ رامو نے دل ہی دل میں حساب لگایا۔ منڈی میں گیہوں کا بھاؤ تھا پندرہ روپے فی من۔ کل فصل کے ہوئے ساڑھے سات سو روپے۔ کوئی خزانہ اس کے گھر میں نہیں آنے والا تھا۔ مگر پھر بھی پکی ہوئی گیہوں کی بالیوں کو دیکھ دیکھ کر رامو پھولا نہیں سمارہا تھا۔ شام کے سورج کی روشنی میں کھیتی جگمگارہی تھی جیسے وہ سونا مل سنار کی دکان ہو جہاں سونے چاندی کے زیور ہمیشہ شیشے کی الماریوں میں سجے رہتے ہیں اور جہاں سے اس برس کی فصل کا سودا کرتے ہی رامو لاجو کے لیے ایک چاندی کی ہنسلی لانے والا تھا۔ اور یہ سوچتے ہی رامو کی نظریں گیہوں کی تمام بالیاں سمٹ کر ایک چمکتی ہوئی ہنسلی بن گئیں اور اس ہنسلی میں اس کی لاجو کی لمبی پتلی گردن تھی اور اس کا پکے گیہوں کی طرح دمکتا ہوا چہرہ تھا۔

    لاجو۔ اس کی بیوی۔ اس کے دوبچوں کی ماں۔ چھ بر ہوئے جب وہ اسے مکلاوہ کرکے گھرلایا تھا اور پہلی بار گھونگٹ اٹھاکر اس کا منھ دیکھا تھا تو اسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے سچ مچ لکشمی اس کے گھر آگئی ہو۔ اتنی سندر بہو تو ان کے سارے گاؤں میں ایک بھی نہیں تھی۔ کتنے ہی دن تو وہ کھیت پر بھی نہیں گیا تھا۔ بس ہر وقت بیٹھا لاجو کو گھورتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ ماں کو اسے دھکے مار کر باہر نکلنا پڑا۔ ’’ارے بے شرم۔ گاؤں والے کیا کہیں گے؟ ابھی سے جورو کا گلام ہوگیا۔‘‘

    چھ برس سے رامو ہر فصل پر لاجو کے لیےہنسلی بنوانے کا پروگرام بناتا تھا مگر ہر بار اس کا یہ منصوبہ مٹی میں مل جاتا تھا یا پانی میں ڈوب جاتا تھا۔ ایک برس بارش اتنی ہوئی اور ایسے غیر وقت ہوئی کہ آدھی پکی ہوئی فصل تباہ ہوگئی۔ اگلے برس سوکھا پڑا اور کھیتیاں جل گئیں۔ تیسرے برس باڑھ آگئی اور فصلیں پانی میں ڈوب گئیں۔ چوتھے برس گیہوں کو گھُن کھا گئی۔ پانچویں برس ایسا زبردست پالا پڑا کہ فصل ٹھٹھر کر رہ گئی۔ چھٹے برس ایسی تیز آندھیاں چلیں کہ پکی پکائی فصل کو تباہ کردیا۔ مگر اس برس بھگوان کی کرپا سے سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ نئی نہر سے ان کو پانی کافی ملا تھا۔ سرکار کے محکمہ زراعت سے کھاد بھی ملی تھی اور فصل کو کھانے والے کیڑوں کو مارنے کی دوا بھی ملی تھی۔ بارش نہ کم ہوئی تھی نہ زیادہ۔ اس برس رامو کو ایسا لگتا تھا کہ اس کی لاجو کے نازک گلے میں وہ چاندی کی ہنسلی ضرور جگمگائے گی جو کب سے سونا مل کی شیشے کی الماری میں اس گھڑی کا انتظار کر رہی تھی۔

    اپنے کھیت میں کھڑا کھڑا رامو سوچ رہا تھا کہ اب ایک آدھ دن میں کٹائی شروع ہی کردینی چاہیے۔ اتنے میں اس نے دھوپ میں جگمگاتے ہوئے کھیت پر ایک سایہ پڑتا ہوا دیکھا اور نہ جانے کیوں دفعتاً اس کا دل خوف سے بھر گیا۔ نظر اٹھاکر دیکھا تو آکاش پر پچھم کی طرف سے آتا ہوا ایک بادل دکھائی دیا۔ اس نے سوچا یہ بے وقت کی برکھا کیسی۔ ان دنوں تو کبھی بادل نہیں دیکھے۔ اس کے برابر کے کھیت میں اس کا پڑوسی گنگوا بھی یہی سوچ رہا تھا۔

    ’’ارے رامو۔ اس برس بے بکھت کی برکھا ہونے والی ہے کیا؟‘‘

    ’’یہی میں سوچ رہا ہوں، بھیا۔‘‘ اور ابھی وہ کچھ اور نہ کہہ پایا تھا کہ بادل جو بڑی غیرمعمولی رفتار سے اڑ رہا تھا اب ان کے سر پر ہی آگیا اور برکھا کی پہلی بوند رامو کی ناک پر سے پھسلتی ہوئی گیہوں کی ایک پکی ہوئی بالی پر گری۔ مگر یہ ’’بوند‘‘ پانی کی نہیں تھی۔ وہ بوند ہی نہیں تھی۔ ایک زہریلا بھوکا کیڑا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے گیہوں کے کتنے ہی دانے چٹ کر گیا۔

    رامو چلایا، ’’ٹڈی!‘‘

    گنگوا چلایا، ’’ٹڈی!‘‘

    آس پاس کے کھیتوں سے آوازیں آئیں۔ ٹڈی! ٹڈی!

    اس سے پہلے بھی یہ آسمانی مصیبت ان کی کھیتوں پر نازل ہوئی تھی۔ انھوں نے مندروں میں گھنٹے بجائے تھے اور مسجدوں میں دعائیں مانگی تھیں اور کھیتوں میں کھڑے ہوکر شور مچایا تھا مگر وہ ٹڈی کی یلغار کو نہ روک سکے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سال بھر کی محنت مٹی میں مل گئی تھی اور وہ زمیندار اور ساہوکار سے گڑگڑا کر مدد مانگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

    مگر اس بار وہ بدل چکے تھے۔ ان کا ملک اور ان کے کھیت بدل چکے تھے۔ زمینداری ختم ہوچکی تھی۔ اب کاشتکاروں کے اپنے کھیت تھے۔ ان کی اپنی سرکار تھی جو ایسے موقعے پر ان کی سہائتا کے لیے تیار تھی۔ سو اس بار صرف چند بڑے بوڑھوں نے ہی مندر میں گھنٹے بجاکر بھگوان سے فریاد کی۔ باقی جتنے کاشتکار تھے سب اپنی محنت سے اگائی ہوئی فصل کو دشمن سے بچانے کے لیے تیار ہوگئے۔ پہلے سینکڑوں ڈھول اور ٹین کے کنستر پیٹ پیٹ کر ٹڈی کو ڈرایا اور بھگایا گیا۔ پھر بھی دشمن پسپا نہ ہوا تو کسانوں کی فوج کی فوج لاٹھیاں اور ڈنڈے لے لے کر ان پر پل پڑے۔ عورتیں اور بچے بھی پیچھے نہیں رہے۔ چھاڑوئیں لے لے کر ٹڈی دل کا صفایا کرنے لگے۔ مگر دشمن اتنی آسانی سے ہارماننے والا نہیں تھا۔ ہزار ٹڈیاں ماری جاتیں تو دس ہزار اور آجاتیں۔ ایسا لگتا تھا کہ آسمان میں ایک سوراْخ ہوگیا ہے اور اس میں سے ٹڈیوں کی مسلسل بارش ہو رہی ہے۔ لاکھوں ٹڈیاں، کروڑوں ٹڈیاں۔ پھر بھی مقابلہ کرنے والوں نے ہار نہیں مانی۔ رات کے اندھیرے میں بھی شعلیں جلا جلا کر دشمن پر حملہ کرتے رہے۔

    ٹڈی کا مقابلہ کرنے والوں میں سب سے آگے آگے رامو تھا۔ دن بھر رات بھر اس نے نہ کھایا نہ پیا نہ پل بھر آرام کیا۔ اس کے پڑوسیوں میں کوئی بھی ہمت ہار جاتا اور کہنے لگتا کہ ’’اس آسمانی بلا کا ہم مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بھگوان ہی ہمیں اس سے نجات دلاسکتا ہے۔‘‘ تو رامو للکار کر کہتا، ’’ارے مرد ہوکر ایک ذرا سے کیڑے سے ہار مان گئے۔ پورے چھ مہینے خون پسینہ ایک کرکے تو یہ فصل اگائی ہے اب اسے دشمن کے حوالے کردیں؟ چلو اٹھو۔ ہمت نہ ہارو۔‘‘ رامو کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ٹڈی اس کی ذاتی دشمن ہے جو اس سے اس کی کھیتی ہی نہیں اس کی زندگی کی ساری خوشیاں اور کامیابیاں چھیننا چاہتی ہے۔ اس کو ایسا لگتا کہ یہ ٹڈی اس کی اگائی ہوئی فصل ہی کونہیں چٹ کرنا چاہتی بلکہ اس چاندی کی ہنسلی کو بھی دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے جو وہ لاجو کے گلے میں دیکھنا چاہتا ہے اور کبھی کبھی تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کہ ایک بہت بڑی ٹڈی اپنے منحوس پنجے لاجو کی نرم نرم گردن میں پیوست کرکے اس کا خون پی رہی ہے۔ اور یہ سوچتے ہی وہ لاٹھی لے کر ٹڈی دل پر ٹوٹ پڑتا اور لوگ حیرت سے دیکھتے کہ رامو میں یہ بلا کی طاقت اور ان تھک ہمت کہاں سے آگئی ہے۔

    اور پھر رات بھر کی محنت کے بعد صبح سویرے جب انھوں نے دیکھا کہ پورب سے ایک اور ٹڈی دل اڑتا چلا آرہا ہے تو ایک بوڑھے نے لاٹھی پھینکتے ہوئے کہا، ’’اب تو بھگوان ہی ہماری سہائتا کرے تو ہم بچ سکتے ہیں۔‘‘ اور اسی لمحے میں انھوں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک گھوں گھوں کی آواز سنی جیسے کوئی جنّاتی جسامت کی شہد کی مکھی قریب آرہی ہو۔ مگر یہ شہد کی مکھی نہیں تھی ایک ہوائی جہاز تھا جو سرکار نے ٹڈی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہوائی جہاز نے ہوا میں ایک ڈبکی لگائی اور ان کے کھیتوں پر سے نیچے نیچے اڑنے لگا اور اس کی دم میں سے نکل کر ایک بھورے رنگ کا بادل ساری کھیتوں پر چھا گیا۔ اب انھوں نے دیکھا کہ گیہوں پر بیٹھی ہوئی ٹڈیاں ٹپ ٹپ زمین پر گر رہی ہیں دم توڑ رہی ہیں۔

    سو رامو کی کھیتی بچ گئی۔ اس جیسے اور ہزاروں کاشتکاروں کی کھیتیاں بچ گئیں۔ رامو کٹائی کرتا جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ نئی طاقت جو اب ہمارے پاس ہے اس کے مقابلے میں سو ٹڈی بل بھی آئیں تو ہم ان کو شکست دے سکتے ہیں۔

    اور پھر اناج کو گاڑیوں میں لاد کر وہ منڈی لے گیا۔

    سرکاری بھاؤ پندرہ روپے من تھا۔ مگر لالہ کروڑی مل آڑھتی نے اپنی توند سہلاتے ہوئے کہا فصل ٹڈی سے بچ گئی اس لیے منڈی میں اناج ضرورت سے زیاد ہوگیا ہے اور قیمتیں گر گئی ہیں۔

    ’’تو کیا آپ چاہتے تھے ٹڈی ہماری فصل کو کھاجاتی تو بہتر ہوتا؟‘‘

    ’’یہ تو میں نہیں کہتا۔ مگر قیمتیں ضرور بڑھ جاتیں۔ اب تو اتنا اناج منڈی میں آگیا ہے کہ میں نے تو چند روز کے لیے خرید ہی بند کردی ہے۔‘‘ اور پھر کسی قدر دھیمی آواز میں ’’ویسے بارہ روپے من دینا چاہو تو میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’مگر سرکاری ریٹ تو پندرہ روپے من ہے۔‘‘

    ’’سوتو ہے۔ مگر میں نے کہا نہیں اناج زیادہ پیدا ہوگیا ہے۔ ہمیں ضرورت ہی نہیں رہی۔‘‘

    ’’تو میں لالہ بنسی دھر کے ہاں لے جاتا ہوں۔‘‘ رامو نے کہا اور ادھر گاڑی ہانک دی۔

    مگر لالہ بنسی دھر نے بھی وہی کہا جو کروڑی مل نے کہا تھا اور جو بنسی دھر نے کہا وہی لالہ شگن چند نےکہا۔

    پھر وہ لالہ کروڑی مل کے ہاں واپس آیا۔ وہ بولے،’’گھنٹہ بھر میں بھاؤ اور گر گیا ہے۔ آسٹریلیا سے کئی جہاز آگئے ہیں۔ امریکہ میں بھی فصل بہت اچھی ہوئی ہے۔ ساری دنیا میں گیہوں کی قیمت گر گئی ہے۔ اب تو میں گیارہ روپے من دے سکتا ہوں۔‘‘

    اور سو رامو کو گیارہ روپے من پر ہی اناج بیچنا پڑا۔ کبھی کچھ ہو۔ اس نے سوچا۔ لاجو کے لیے ہنسلی ضرور لوں گا۔ بس سیٹھ مکھن لال سے بیج کے لیے جو قرضہ لیا تھا وہ چکادوں۔

    سیٹھ مکھن لال کا نام ہونا چاہیے تھا سیٹھ سوکھن لال۔ دبلے پتلے، سوکھے ہوئے، پچکے ہوئے گال۔ مگر روپے دیکھتے ہی ان کی مرجھائی ہوئی آنکھوں میں چمک آگئی۔ دوسو روپے اصل اور چوبیس روپے سود سرکاری اور چھبیس روپے نذرانے کے، غیر سرکاری۔

    جیب ہلکی کرکے آگے رامو چلا ہی تھا کہ چودھری ملکھان سنگھ مل گیا جو نہر کا پٹواری تھا اور کاشتکاروں کے جیون میں بھگوان کا درجہ رکھتا تھا۔ جس کو چاہے پانی دے جس کو چاہے نہ دے۔ چاہے کم پانی دے چاہے زیادہ پانی دے۔

    ملکھان سنگھ کی بڑی بڑی مونچھیں خضاب سے کالی کی ہوئیں تھیں اور تیل میں ڈوبی رہتی تھیں اور کسی کاشتکار جس سے روپیہ ملنے کی امید ہو اسے دیکھتے ہی یہ مونچھیں لالچی کتے کی طرح دم ہلانے لگتی تھیں۔ چودھری ملکھان سنگھ کا قول تھا کہ ’’جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹا ہوگا۔‘‘ جس کا مطلب تھا کہ جتنا روپیہ نہر پٹواری کی جیب میں ڈالوگے اتنا ہی پانی تمہارے کھیت میں پہنچے گا۔ سو رامو نے اگلی فصل کے لیے پانی کا اتنظام کرلیا۔ مگر اس کی جیب اور بھی ہلکی ہوگئی۔ اور جب وہ سونامل کی دکان کے سامنے سے گزرا اور شیشے کی الماری میں لٹکی ہوئی ہنسلی نظر آئی تو اس نے دل ہی دل میں کہا، ’’اگلی فصل پر ضرور لوں گا‘‘ اور نظر جھکاکر گزر گیا۔

    رات ہوئے گھر واپس پہنچا تو دیکھا لاجو اس کا انتظار کرتے کرتے چولہے کے پاس بیٹھی بیٹھی ہی سو گئی ہے۔ چنگیر میں روٹی پکی رکھی تھی۔ چولہے پر ساگ کی ہنڈیا دھری تھی۔ وہ لاجو کو آواز دینے والا ہی تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک پروں والا کیڑا دیوار پر رینگتا ہوا لاجو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر اسے پکڑ لیا۔

    ’’ٹڈی!‘‘ اس نے سوچا۔ ’’تو ابھی سارے ٹڈی دل کا خاتمہ نہیں ہوا؟‘‘

    اس کی انگلیوں میں دبی ہوئی ٹڈی کلبلارہی تھی، پھڑ پھڑا رہی تھی، شاید دم توڑ رہی تھی مگر ابھی تک زندہ تھی۔ چراغ روشنی میں لایا تو اس نے دیکھا کہ ٹڈی کا پیٹ نہ جانے کس کا اناج کھاکر پھولا ہوا ہے، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں چمک رہی ہیں اور اس کی لمبی نوکیلی مونچھیں لالچی کتے کی طرح دُم ہلا رہی ہیں۔

    مأخذ:

    نئی دھرتی نئے انسان (Pg. 46)

    • مصنف: خواجہ احمد عباس
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1977

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے