Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تلچٹے

MORE BYای ہری کمار

    خُلاصَہ

    d

    سویرے وہ باورچی خانہ میں کافی بنارہی تھی۔ اس کی نظرتلچٹوں پرپڑی۔ میزکے ایک کنارے پرتھوڑی دیر تک کرکر کی آوازکرتے ہوئے ڈراؤنے اندازسے وہ اسے گھورتے رہے اورپھرمیزکی دوسری طرف غائب ہوگئے۔

    وہ کافی لے کرخواب گاہ کی طرف گئی۔ شوہرابھی تک جاگا نہیں تھا۔ سوئچ آن کرنے پرآنکھوں کواچھی لگنے والی روشنی کمرے میں پھیلنے لگی۔ چارپائی پربیٹھ کرکافی کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسے دیکھ کرمسکرایا۔

    وہ خاموش کھڑی ہوکراداسی کے عالم میں اسے کافی پیتے دیکھتی رہی۔ اس نے سوچا روزانہ کے انہیں کاموں سے اس کادل اکتانے لگاہے۔ جب جب وہ اپنے شوہر کاپیلا چہرہ کھچڑی بال دیکھتی تھی تب اسے ہمدردی سی ہونے لگتی۔ صرف اسی ہمدردی نے اس کوجھگڑالوبننے سے روک رکھا تھا۔ وہ دالان سے ہوکرخالی پیالہ لیے لوٹ رہی تھی تب اسے دکھائی دیاکہ قلعی کی ہوئی دیوارپرایک کالاچھوٹا ساجانورخاموشی سے رینگ رہاہے۔ اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی مگرتقاضائے ہمت سے مجبورہوکر بغیررکے آگے بڑھ گئی۔

    باورچی خانہ میں اب بہت سے تلچٹے تھے جوکرکراہٹ پھیلاتے ہوئے میزاور دیوارپررینگ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ باورچی خانہ میں گھسی، ایک دوتلچٹے اڑکراس کے سر پربیٹھ گئے۔ اس نے انہیں ہاتھ سے دورکرنے کی کوشش کی۔ مگرتلچٹے اتنے زیادہ تھے کہ اسے ہی پیچھے ہٹناپڑا۔ ان کے بارے میں شوہرکوبتانے کی خواہش ہوئی۔

    مگرخواب گاہ میں شوہر نہ معلوم کس سے لڑرہاتھا۔ یہ اسے تبھی معلوم ہواجب لڑتے لڑتے وہ چلااٹھا، ’’تلچٹے‘‘ وہ ایک تلچٹے کواخبارموڑکرماررہاتھا۔ مگرتلچٹے اسے فریب دے کراڑگئے۔

    اس نے کہناچاہاکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ باورچی خانہ میں کم از کم سوتلچٹے ہوں گے۔ مگراس نے کچھ نہیں کہا، اپنے شوہرکے ہاتھوں مرے تلچٹے کوکاغذ پراٹھاکر کھڑکی سے باہرپھینکتے دیکھتی رہی۔

    وہ ہانپتا ہوابولا، ’’یہ کیسی عجیب با ت ہے۔ اس فلیٹ میں ابھی تک ایک بھی تلچٹانہیں دکھائی دیاتھا۔ اب دیکھو تو۔۔۔‘‘

    اس نے اب تک شایدیہ بھی نہ سوچا ہوگاکہ اس فلیٹ میں تلچٹے ہیں بھی یا نہیں۔ ہمسایہ میں بہت سے اس کے شناسالوگ ہیں مگراب تک کسی نے تلچٹوں کے بارے میں شکایت نہیں کی تھی۔

    وہ باورچی خانہ کی طرف لوٹ گئی۔ آٹھ بجے سے پہلے شوہرکے لیے ناشتہ تیارکرناتھا۔ تبھی آٹھ بجے وہ ٹرام پکڑسکیں گے۔ ڈلہوزی اسکوائر سے دفتر نوبجے تک پہنچناپڑتاہے۔ اسے ایک تدبیرسوجھی۔ میں ان سے نپٹ لوں گی۔ بازارجانے کے وقت تھوڑاکیڑے مارنے والا زہرخریدوں گی۔ بازارزیادہ دورنہیں تھا۔ ساؤتھ ایونیوسے ہوکرچلنے کے وقت تلچٹوں نے اسے تنگ نہیں کیا۔

    وہ ایک دوسری خاص بات کے متعلق سوچ رہی تھی۔ شام کوڈاکٹر سے ملنے کی بات۔

    ’’یہ بہت ہی آسان ہے۔‘‘ شوہرکی ایسی شک والی بات اسے یادآئی۔

    ’’بہت آسان صرف ایک انجکشن۔ ذرابھی دردنہیں ہوگا، یقین کرو، ذرابھی دردنہیں۔‘‘

    پہلے اس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ اس غم بھرے بارکوکھینچنے کااپنا جوفطری حق ہے، اس کی حفاظت کے لیے اس نے جوش کے ساتھ اپنے شوہر کی مخالفت کی۔

    تب شوہرنے ایسافیصلہ لینے کے لیے مجبورکرنے والے اقتصادی حالات کاتذکرہ کیا۔ ابھی دوبچوں کی پرورش وتربیت کرنی ہے۔ انہیں تعلیم دلاناہے۔ لڑکی بڑی ہے۔ اسے ابتدائی تعلیم دیناکافی ہے۔ مگرلڑکے کواعلیٰ تکنیکی تعلیم ہی دیناہوگی۔ اس نے یہ بھی کہا، ’’نوکری کابازاربہت آزمائشی ہے۔ لڑکے کواچھی تعلیم نہ ملی تواس کامستقبل بربادہوجائے گا۔‘‘ اس کے علاوہ دوسرے بھی کئی خرچ ہیں۔ گھرکا کرایہ، بجلی، دھوبی وغیرہ۔ ضعیف نوکرانی کوبھی تنخواہ دیناہے۔ کلکتہ جیسے شہر میں گذارہ کرنا مشکل ہی ہے۔ وہ اسی نتیجہ پرپہنچاکہ اسے اپنی منظوری دینی ہوگی۔ مگریہ کام بہت دردانگیزتھا۔

    اپنی کوکھ میں بڑھنے والی مخلوق کے بارے میں سوجتن ہوئے۔ وہ غم زدہ ہوگئی۔ یہاں وجود کامسئلہ ہے۔ جن کی پیدائش ہوگئی ہے، اوران کی زندگی کے گزارہ کے مسئلہ۔ ان کے درمیان نئی پیدائش کوروکنے پرغوروفکر ہی نفرت انگیزتھا۔ مگرسہناہی پڑے گا۔

    اسے اپنے بچوں کی یادآئی۔ اچھاہوا کہ گرمی کی تعطیل میں بچوں کومیکے بھیج دیاتھا۔ ان کی غیرموجودگی میں وہ غمگین رہتی ہے۔ لیکن سمجھتی ہے کہ وہ وہیں بہترہیں۔ ان کوابھی یہاں لانامناسب نہیں۔ یہاں کی بہ نسبت انہیں ماموں کے یہاں زیادہ آرام اورسہولیات ہوں گی۔

    بازارمیں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ تازہ سبزیوں کی بوہوا میں پھیل رہی تھی۔ مگراس کادل بچوں اور ڈاکٹرسے ملنے کے لیے مچل رہاتھا۔ باہرآئی توگلی میں بہت لوگ جمع تھے۔ وہ لمبے لال جھنڈے لیے چل رہے تھے۔ سبھی جھنڈے بنگلازبان میں لکھے ہونے کی وجہ سے وہ ان کوپڑھ نہیں سکی۔ وہ بلندآوازمیں نعرے لگاتے ہوئے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھارہے تھے۔ اچانک اسے اپنے باورچی خانہ میں گھسے تلچٹے یادآگئے۔

    کچھ دیرکے لیے وہ تلچٹوں کوبھی بھول گئی تھی۔

    دواکی دکان پاس ہی تھی۔ کاؤنٹرپربیٹھے ہوئے لڑکے سے، جوسست دکھائی پڑا، اس نے تلچٹے کازہرمانگا۔ لیکن انگریزی میں پوچھنے کی وجہ سے وہ سمجھ نہیں سکا۔

    ’’جی نہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہاں نہیں ہے۔‘‘ پھراس کے چہرے پرحیرت کے جذبہ کودیکھ کر اس لڑکے نے کہا، ’’ٹھہرو۔‘‘

    وہ وہیں ٹھہری رہی۔ لڑکے نے کاؤنٹرپرجاکرلمبے دبلے آدمی سے ہلکی آوازمیں کچھ کہا۔ اس لمبے آدمی نے کاؤنٹرپرآکرپوچھا، ’’کاکروچ کاپاؤڈرہی چاہئے نا؟‘‘

    اس نے اثبات میں سرہلایا۔ اس نے ایک شیشے کی الماری سے ایک سرخ پیکٹ لے کر اسے دیا۔ ساتھ ہی استعمال کرنے کاطریقہ بھی بتانے لگا۔ ’’مجھے معلوم ہے‘‘ کہہ کر اس نے اس کی گفتگوکوروک دیا۔ پھربھی اس پردھیان دیے بغیروہ آدمی بولتا رہا تواس نے کہا، ’’شکریہ۔‘‘

    اس نے ایک تاکید کے ساتھ اپنی تقریرختم کردی، ’’وہ زہرہے۔ سمجھ لیا؟مہلک زہر۔‘‘

    شام کوڈاکٹر نے انجکشن دیاتب اس نے یہی لفظ بے قراری سے یادکیے۔ ڈاکٹرایک موٹی عورت تھی۔ انہوں نے اس کے بچوں کے بارے میں پوچھا، ’’دونوں اسکول جاتے ہیں، یہی بتایا تھا نا؟‘‘

    ’’جی ہاں!‘‘ اسے یکایک ایسالگاکہ جیسے ایک پتلی سوئی اس کے بدن میں چبھ رہی ہے۔

    لیڈی ڈاکٹر نے کہا، ’’کوئی بات نہیں۔ گھبراؤمت۔‘‘

    وہ ایک ٹیکسی میں گھرواپس آئی۔ گھرمیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ مگروہ بہت بے قرارہوگئی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنانچلاپیٹ سہلایا۔ اس کی پستان ایک دم سسکی سے بھرگئی، دم گھٹنے لگا۔ اس کی خواہش ہوئی کہ تنہائی میں بیٹھ کردیرتک روتی رہے۔ وہ سوچنے لگی کہ کتنااچھا ہوتا اگر شوہر کوبھی پشیمانی ہوتی۔ مگر اس کے چہرے پرپشیمانی کے آثارنہیں تھے۔ وہ باہرکی جانب دیکھ رہاتھا۔

    خواب گاہ کی صاف روشنی میں اس کاچہرہ زرداورمضمحل دکھائی دے رہا تھا۔ شوہر ڈرگیا۔

    ’’تجھے کیاہوا؟‘‘

    ’’اس نے کہا، ’’کچھ نہیں۔ سرمیں دردہے۔ سیری ڈان لے لوں گی۔‘‘

    وہ چارپائی پرلیٹ گئی۔ شوہربہت گھبرایاہواتھا۔ اس کاضمیر اسے ستارہاتھا۔ اس نے سوچا، یہ ایک قسم کاجرم ہی تو ہے، مگروہ ویسا کرنے کے لیے مجبور ہے۔ دوسری کوئی تدبیربھی نہیں۔ زندگی کواگرخوشی کے ساتھ نباہناہے تواس غم ناک حالت کوجھیلناہی ہوگا۔ اس خوفناک خواب کی یادیں کل تک پھیکی پڑجائیں گی۔ تبھی اطمینان حاصل ہوسکے گا۔

    اس نے سوچا بچوں کولے آنا چاہئے۔ انہیں دیکھے بغیررہانہیں جاتا۔ یہ پندرہ دن کتنے طویل ہوگئے ہیں۔ یہ تنہائی مجھے کاٹ کھانے کودوڑرہی ہے۔ ڈاکٹرکے پاس جانے کے پہلے ہی اس نے کھاناتیارکرلیاتھا، بس دسترخوان پرلگاکے کھاناہی تھا۔ کھاناکھانے پرذرااسے آرام آیا۔ سرخ سفوف کارڈ بورڈ کے ٹکڑوں میں چھوٹی چھوٹی ڈھیری بناکر ہرگوشہ میں رکھتے ہوئے شوہرکووہ دیکھتی رہی۔ باورچی خانہ میں ٹن کے ڈبوں کے ڈھکنوں پرتلچٹوں کی کرکراہٹ اوران کے فرش پرگرنے کی آوازیں اسے سنائی دینے لگیں۔

    ادھرادھربھاگ کربچنے کی کوشش کی۔ موت کی کراہ!وہ تلچٹوں کے بارے میں سوچنے لگی۔

    وہ خواب گاہ میں پہنچی توشوہرلیٹاہوا تھا۔ چراغ گل کرکے وہ چارپائی پرلیٹ گئی۔

    گلی کے بلب کی روشنی کھڑکی سے ہوکراندرسرک آئی۔ اس نے دیکھاشوہرابھی سویانہیں تھا۔ اس نے کروٹ بدل کراسے بازومیں بھرلیاتھا۔

    ’’اب کیسی ہو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’اچھی ہوں۔ اب کوئی بے چینی نہیں۔‘‘

    اس نے اس کی پیٹھ پرپیار کے ساتھ ہاتھ پھیرتے ہوئے رخساروں کوچوم لیا۔

    ’’کل تک تم بالکل صحت مندہوجاؤگی۔‘‘

    درحقیقت وہ اپنے شوہر سے ایساپریقین جملہ سننے کے لیے ترستی تھی۔ اسے مسرت ہوئی۔

    اس کولگا کہ اس کی ہم آغوشی آہستہ آہستہ ڈھیلی ہورہی ہے۔ اس کی سانس معتدل ہوگئی۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ گہری نیند میں ڈوب گیا۔ کچھ دیرتک اس نے اپنا دھیان ٹائم پیس کی ٹک ٹک پرلگائے رکھا اورپھرباہرگلی میں ایک گاڑی دورجاتی ہوئی پھٹ پھٹ کی آواز پر۔

    اس درمیان میں اس نے دیکھا کہ وہ کالے جانداراڑتے ہوئے آرہے ہیں۔ تلچٹے۔ وہ ہزاروں تھے۔ تلچٹے ایک جلوس کا انعقاد کررہے تھے۔ جلوس گلی میں جمع ہوا۔ وہ زورزور سے نعرے لگارہے تھے اور بیقرار ہوکرادھرادھر اڑرہے تھے۔ اس کی حیرت تب اوربڑھ گئی جب اس کی نگاہ تلچٹوں کے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے جھنڈوں پرپڑی۔

    اس نے سوچامیں پاگل ہوجاؤ ں گی۔ جلوس زیادہ مشتعل ہوگیا۔ کچھ تلچٹے اس کی طرف اڑآئے۔ اسے لگاکہ جیسے ہوائی حملہ ہوگیا۔ وہ چلاتی ہوئی جاگ گئی۔ تب اس کوپتہ چلاکہ یہ صرف خواب تھا۔ اسے خوشی ہوئی۔ وہ اپنے شوہرسے لپٹ کرلیٹ گئی۔ نیند سے پلکیں بھاری ہورہی تھیں۔

    صبح وہ دیرتک سوتی رہی۔ جاگنے پردیکھاکہ سورج کی شعاعیں کمرے کے اندرداخل ہورہی تھیں۔ اس نے زمین پرتلچٹوں کودیکھا۔ مرے پڑے تھے تلچٹے۔ تب جاڑوں میں درختوں پرسے جھڑے پتوں کے بارے میں، سالوں پہلے چل بسی اپنی ماں کے بارے میں، بچوں کے بارے میں اورزندہ رہنے کے حق سے محروم اس نئے جاندارکے بارے میں اس نے سوچا۔

    وہ اداس ہوگئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے