Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹائم از اوور

منشایاد

ٹائم از اوور

منشایاد

MORE BYمنشایاد

    کیا کہا کتنے برس؟

    برس نہیں دن ہوں گے !

    آپ کو غلطی لگی ہے سر!!

    ابھی ابھی تو میں پنگھوڑے میں لیٹا منہ سے بوتل لگائے بڑے مزے سے دودھ پی رہا تھا۔

    اور وہ عورت جس کے بطن سے میں نے جنم لیا ابھی ابھی یہاں تھی۔

    آپ میری بات پر یقین کیجئے۔ میں بالکل سچ کہتا ہوں۔ میں نے ابھی چند روز ہوئے زندگی کی ابتداء کی ہے یقیناً آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ مہربانی کر کے ذرا پڑتال کر لیجئے۔ وقت کے سلسلے میں ہمیشہ مجھ سے نا انصافی ہوتی رہی ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار میں امتحان کا پرچہ دے رہا تھا اور ابھی میں نے اپنا رول نمبر ہی لکھا تھا کہ ممتحن کی گرجدار آواز سنائی دی۔

    ’’ہاف دی ٹائم از اوور۔‘‘

    اس کے بعد مارے گھبراہٹ کے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا۔ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور اب پھر!!

    غالباً آپ نے وہ سب ماہ و سال بھی میرے کھاتے میں ڈال دئیے ہیں جنہیں میں نے خود نہیں گزارا بلکہ وہ مجھے روندتے اور کچلتے ہوئے گزرے ہیں لیکن آپ کو دیکھنا ہوگا کہ ان میں کتنے شب وروز میرے حصے میں آئے اور کتنے ایسے تھے جنہیں میں نے خود کو کرائے پر چڑھا کر بسر کیا۔

    جناب عالی! جن شب و روز نے مجھے زندگی میں کوئی لذت یا خوشی نہیں دی انہیں میرے کھاتے میں ڈالنا ہرگز درست نہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ سب شب وروز جو ایک جیسے تھے اور ان گنت تھے انہیں ایک ہی شمار کیا جائے اور ان سب برسوں کو بھی میری عمر کے اکاؤنٹ میں شمار نہ کیا جائے جو میں نے لوگوں اور چیزوں کے نام یاد کرنے میں صرف کئے۔ یہ چیونٹی ہے۔ وہ بادل ہے یہ پنکھا ہے وہ تختی ہے۔ پھر مجھے الف سے انار اور ب سے بکری رٹنے پر لگا دیا گیا۔ حالانکہ جب انار اور بکری موجود تھے تو اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ انار کو بکری اور بکری کو انار کہا جا سکتا لیکن میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی ساری چیزوں کے نام رکھ دئیے گئے تھے اور میرے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ میں ان ناموں اور اصولوں کو ازبر کروں اور ان سے سر مو ادھر ادھر نہ ہوں۔

    انار اور بکری کے بعد بھی برسوں مجھے لوگوں اور چیزوں کے نام یاد کرنا پڑتے اور میرے قیمتی دن، مہینے اور سال بکریوں، گھوڑوں، تختیوں اور بادلوں کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح ہر طرف آدمی ہی آدمی تھے سب کی شکلیں ایک جیسی تھیں بہت تھوڑا تھوڑا فرق تھا اور بظاہر یہی لگتا تھا کہ ایک ہی آدمی بھیس بدل کر ہر جگہ گھومتا پھرتا ہے۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ ایک جتنے قد و قامت کے باوجود بعض چھوٹے اور بعض بڑے تھے اور ان کے الگ الگ نام، ذاتیں اور فرقے تھے اور مجھے ذاتوں، فرقوں اور چھوٹے بڑے کے فرق کے ساتھ یہ سب نام یاد کرنا پڑے۔نہ صرف نام بلکہ ناموں کے ہجے، ہجوں کی مخصوص شکلیں اور آوازیں۔ زیریں، زبریں، پیشیں!!

    مجھے نہایت افسوس ہے میں اس فیصلے کو نہیں مانتا۔

    میرے ساتھ ہمیشہ زیادتی کی گئی ہے یہاں تک کہ میرے پیدا ہونے میں بھی میرا عندیہ معلوم نہیں کیا گیا۔سارے فیصلے مجھ پر ہمیشہ ٹھونسے گئے ورنہ اگر میری اپنی پسند اور میری مرضی کو دخل ہوتا تو میں خود فیصلہ کرتا کہ میں کس صدی ملک اور شہر میں اور کن لوگوں کے درمیان پیدا ہونا چاہتا ہوں لیکن والدین کے انتخاب سے لے کر رنگ، نسل عقیدے اور نام تک کے انتخاب میں میرا اپنا کوئی چوائس نہ تھا۔ میرا قد بت،ناک نقشہ اور آواز جس کی وجہ سے بعد میں کئی طرح کی پیچیدگیاں اور مشکلیں پیدا ہوئیں مجھے وراثت میں ملے۔ اس میں میری مرضی اور پسند بالکل شامل نہیں تھی۔میں جس گھر میں پیدا ہوا اس سے بہتر اور روشن گھر اور بھی موجود تھے۔ میرے والدین سے بہتر لوگ میرے والدین ہو سکتے تھے۔ اگر میں منہ میں سونے یا چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوتا تو مجھے بہت سے کام کئے کرائے مل جاتے اور میرا بہت سا وقت بچ جاتا لیکن مجھے رشتہ دار بھی بنے بنائے ملے۔۔یہ باہر سے اجلا اندر سے کالا آدمی میرا ماموں ہے۔یہ حاسد اور حریص شخص میرا چچا ہے۔ یہ بد زبان عورت میری پھوپھی ہے، یہ خواجہ سگ پرست کے بھائیوں جیسا آدمی میرا بھائی ہے اور یہ لوند مسودا خصم خدائی عورت میری خالہ ہے۔ ان سب کا کام میرے راستے میں روڑے اٹکانا، میری کامیابیوں پر حسد کرنا اور ناکامیوں پر بغلیں بجانا تھا۔ میں زندگی بھر نیکیوں کی گٹھڑیاں اٹھائے ہر ایک دروازے پر دستکیں دیتا رہا مگر مجھے نفرت اور حسد کے سوا کچھ نہ ملا۔

    مجھے اپنے محدود اور مخصوص ماحول سے دوستوں کا انتخاب کرنا پڑا۔ میں انہیں باری باری سالہا سال تک آزماتا رہا اور ناکامی کا منہ دیکھتا رہا۔ وہ مصیبت کے وقت کام آنے کے لئے مجھے ہر خوشی سے محروم رکھنے اور اپنے احسانات کے بوجھ سے کچلنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے زندگی کا بہت سا حصہ انہیں آزمانے پر صرف کر دیا، آخر اتنے بڑے نقصان کی کچھ تو تلافی ہونی چاہیے۔

    ماحول کے انتخاب میں بھی میری پسند شامل نہیں تھی۔ میں جس گلی میں چلتا وہ آگے جا کر بند ہو جاتی۔ سارے راستے گھوم پھر کر واپس آ جاتے۔میں نے اپنے ماحول کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اتنا تنگ اور سخت تھا کہ میں بار بار اس کی خلاف ورزی کے جرم میں پکڑا جاتا اور تنہائی کے زنداں میں ڈال دیا جاتا۔ ادھر میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی ساری اچھی اور خوبصورت چیزوں پر لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ مجھے جو چیز بھی پسند آتی اس پر پہلے سے کسی اور کے نام کی مہر لگی ہوتی۔ میں جس سکول میں پڑھنا چاہتا تھا اس میں مجھے داخلہ نہ ملا۔ میں جو پیشہ اختیار کرنا چاہتا تھا اس میں میرے لئے گنجائش نہ نکلی۔ میں جو چیز ایجاد کرنا چاہتا تھا وہ لوگوں نے میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ایجاد کر لی تھی۔ میں جو کچھ سوچتا، وہ کہیں نہ کہیں پہلے سے سوچا جا چکا ہوتا۔ یہاں تک کہ مجھے جو لڑکی پسند آئی وہ بھی وہ نہ تھی، جسے دیکھ کر مجھے اپنے پیدا ہونے والے بچوں کی صورتیں نظر آنے اور قلقاریاں سنائی دینے لگتی تھیں۔ ہم ایئر کنڈیشنڈ ریسٹورنٹ کے خوبصورت کیبن میں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں سامنے رکھے گھنٹوں باتیں کرتے۔ وہ بہت کم کھاتی تھی۔ میرا جی چاہتا کہ وہ میری منگائی ہوئی ساری چیزیں چٹ کر جائے میرا تو یہ بھی جی چاہتا میں خود چائے کی پیالی میں حل ہو کر گھونٹ گھونٹ اس کے حلق سے اتر جاؤں۔ سات برس بعد ایک روز کہنے لگی:

    ’’آپ بہت اچھے ہیں بالکل امجد کی طرح پر لطف باتیں کرتے ہیں۔وہ اگلے ماہ امریکہ سے ہمیشہ کے لئے لوٹ رہا ہے۔ آپ ہماری شادی پر آئیں گے نا۔‘‘

    میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی شادی امجد سے اور میری اس کی بجائے عذرا سے ہو گئی اور اس کے بچے مجھے ماموں ماموں کہہ کر پکارنے لگے۔ تاہم میرا خیال تھا میں نے عذرا سے شادی کر کے ایک ہی چھلانگ میں اپنے بہت سے مسائل حل کر لئے ہیں اور واقعی میرے بہت سے مسائل حل ہو بھی ہو گئے لیکن ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا کیوں عذرا! تم اپنا بیان بھی نہیں دوگی؟

    ’’کیوں نہیں ڈارلنگ !میں تم سے شرمندہ ہوں۔ کاش میں تمہیں وہ سارے برس لوٹا سکتی جو تم نے میری حراست میں گزارے لیکن یقین کرو ڈیئر میں بےحد مجبور تھی۔ تم اتنے اچھے تھے کہ مجھے ہر وقت تمہارے چوری ہو جانے کا دھڑکا لگا رہتا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں خوشبوؤں میں بسی زیور تعلیم کی بجائے سونے کے زیورات سے لدی پھندی اور لاکھوں کے جہیز میں لپٹی لپٹائی تمہاری بانہوں میں آئی تھی تو تم کتنے خوش تھے تم نے اس رات راشدہ کی ساری فاحشہ یادوں کو کمرے سے باہر نکال دیا تھا اور ایک بار بھی باہر جھانک کر نہیں دیکھا تھا لیکن شک کی چیونٹیاں میرے بدن پر برابر کاٹتی رہیں جس روز دیگیں چڑھیں اور قورمے اور بریانی کی اشتہا انگیز مہک ننگے بدن گلیوں میں پھرنے لگی تو تم نہایت مسرور اور مطمئن تھے کہ تمہارے ذہن سے بھاگے ہوئے تصورات، گلی گلی بھیک مانگتے اور لوگوں کی جیبیں کاٹتے آوارہ گرد بچوں کی طرح گھر لوٹ آئے تھے لیکن مجھے لگتا تھا کہ ماضی کی یادیں تمہارے چاروں طرف آلتی پالتی مار کر بیٹھی رہتی ہیں اور تمہیں ایک لمحہ کے لیے بھی تنہا نہیں چھوڑتیں۔‘‘

    ’’میں بےحد شرمندہ ہوں ڈارلنگ کہ شادی کے چند ہی دنوں بعد ایک ایک کر کے میرے وجود سے فالتو اور مصنوعی چھلکے اترنے لگے اور میرے اندر سے چیختی چلاتی بات بات پر روٹھتی۔ الزام تراشیاں کرتی۔ طعنے مہنے دیتی اور اپنے میکے کی امارت و ثروت کی دھونس جماتی اصلی اور خالص عذرا نکل آئی تھی۔‘‘

    ’’مجھے یہ بھی یاد ہے کہ تمہیں بچوں کی شدید خواہش تھی لیکن میں نے تم سے چھپایا کہ شادی سے پہلے میرا ایک ایسا آپریشن ہو چکا تھا کہ اب میں ماں نہیں بن سکتی تھی۔آئی ایم سوری میں نے تمہیں کئی برس دھوکے میں رکھا۔تم نفلی نمازیں،دعائیں اور وظیفے پڑھتے،ڈاکٹروں حکیموں کا علاج اور پیروں فقیروں کے تعویذ گنڈے کرتے کراتے رہے۔ اور میں تمہیں کئی برس جھوٹی تسلیاں دیتی اور ٹالتی رہی مگر بالآخر مجھے اصل بات بتانا ہی پڑی،جس کے بعد تم اداس ہی نہیں ناراض بھی رہنے لگے اور تمہاری اداسی اور ناراضی دیکھ کر مجھے تمہارے بھاگ جانے اور چوری ہو جانے کا خوف اور زیادہ لگنے لگا تھا اور حالانکہ میں نے تمہارے گلے میں جہیز کا طوق اور پاؤں میں بھاری حق مہر کی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں اور ایجاب و قبول کے الفاظ کی کھونٹیاں گاڑ کر تمہارے چاروں طرف اپنے وجود کا خیمہ مضبوطی سے گاڑ لیا ہوا تھا۔ پھر بھی مجھے دھڑکا لگا رہتا تھا کہ تم میری حراست سے فرار نہ ہو جاؤ۔‘‘

    می لارڈ !آپ نے سنا،میں برسوں عذرا کی قید میں رہا ہوں۔ اگر اسیری کے ان برسوں کو میری عمر سے منہا نہ کیا گیا تو یہ بہت بڑی نا انصافی ہو گی۔ ہاں یہ درست ہے کہ فرار ہونے کے لئے چور راستے بھی ہوتے ہیں اور میں ہر رات عذرا کے پہلو میں اپنے جسم کی کینچلی چھوڑ کر فرار ہو جاتا لیکن میں کہیں دور نہیں جاتا تھا۔ وہ ماں بیٹا مجھے پروجیکٹر کی سلائیڈ کی طرح اپنے بیڈ روم کی دیوار پر نظر آ جاتے تھے۔

    جب کبھی میں تنہا ہوتا یا عذرا محو خواب ہوتی۔ وہ عورت مجھے اپنے کم سن بچے کے ساتھ ایک ٹیلے پر کھڑی نظر آتی۔ وہ ایک ایسا نغمہ تھی جس میں بیک وقت کیف و انبساط اور رنج و محن کے جذبات پیدا کرنے کی تاثیر تھی۔ اسے دیکھ کر میں کبھی خوشی کے تروتازہ ٹھنڈے میٹھے پانیوں میں غوطے لگاتا کبھی اداسیوں کے لق ودق صحرا میں پیاس کے مارے ایڑیاں رگڑتا۔ کبھی کبھی میں اٹھ کر دیوار کے پاس چلا جاتا تو بچہ مجھے دیکھ کر ماں کی گود میں ہمکنے اور قلقاریاں مارنے لگتا۔ پھر جب میں بچے کو پیار کر رہا ہوتا وہ عورت پاس ہی کھڑی ہم دونوں کو مامتا اور محبت سے لبریز نظروں سے دیکھتی اور اپنی پھٹی پرانی اوڑھنی سے خوشی کے آنسو پونچھتی۔ اس کا تار تار لباس اور جسم پر جا بجا خراشوں کے نشان ویرانے کی صعوبتوں کی غمازی کرتے پھر دور سے کسی خونخوار درندے کی آواز سنائی دیتی تو وہ خوف زدہ ہو کر مجھ سے لپٹ جاتی۔ اسی لمحے عذرا کی چیخ جیسی آواز گھر بھر میں گونجتی اور میرے ہونٹ جو ابھی ابھی محبت کے زمزم سے تر ہوتے اچانک خشک ہو جاتے اور منہ میں ریت بھر جاتی۔

    اس عورت کو دیکھ کر میرا جی چاہتا کاش میں اس کے بطن سے جنم لے سکتا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ شاید وہ عورت میری اصلی ماں تھی میں جس کے بطن سے جنم نہیں لے سکا تھا۔ اور وہ بچہ شاید میں خود تھا جو پیدا نہ ہو سکا۔ آپ نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ عذرا کی معیت میں گزارے ہوئے مہ و سال کسی طرح بھی میرے اپنے نہیں تھے اور انہیں میرے حساب میں ہرگز شمار نہیں کرنا چاہیے۔ سوائے ان چند لمحوں کے جب جب میں نے اس کے پہلو میں لیٹے لیٹے ٹیلے پر کھڑی عورت کے کم سن اور خوبصورت بچے کو پیار کیا۔

    اور آپ کو اس بات کا اندازہ بھی ہو گا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو ساری اچھی جگہوں، خوبصورت آبادیوں اور برمحل شاپنگ سنٹروں کی الاٹ منٹیں ہو چکی تھیں اور لوگوں نے ہر جگہ اپنے اپنے نام کی تختیاں آویزاں کر رکھی تھیں۔ مجھے جو مکان بھی رہنے کے لئے پسند آتا وہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتا۔ مجھے ہمیشہ اپنی مرضی اور پسند کے خلاف کام کرنا پڑتا۔ میں ہر روز ایسے افسروں کی شکلیں دیکھتا، ان کے احکامات بجا لانے کی اذیتیں اٹھاتا جن کی صورتوں سے مجھے گھن آتی تھی۔۔ میں اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھاتا تو مجھے بتایا جاتا کہ مجھے میری صلاحیتوں کے مطابق معاوضہ ملتا ہے لیکن میرے ذہن میں ہر وقت یہ سوال کلبلاتا رہتا کہ مجھے بہتر صلاحیتیں کیوں ودیعت نہیں کی گئیں۔

    عالی جناب !مجھے ایسے لوگوں کے درمیان زندگی کے قیمتی دن بسر کرنا پڑے جو کسی نہ کسی چیز کے مالک بننا اور سب کچھ سمیٹ لینا چاہتے تھے۔ جس کے ہاتھ جو چیز آ جاتی وہ اس پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا۔ ایسے اژدر زمین کے ہر ٹکڑے پر، ہر دفتر اور ہر کارخانے میں پھنکارتے پھرتے تھے۔ دکانوں، مکانوں، ہوٹلوں، ریستورانوں، اخباروں، بسوں، کاروں، یہاں تک کہ درختوں اور ان کے سایوں پر بھی ملکیت کی مہر اور کسی نہ کسی سانپ کا پہرا تھا۔ ہوا، پانی اور روشنی پر بھی قبضہ ہو چکا تھا اور راشن مقرر ہو چکا تھا۔ شہر میں خوشیوں، آسانیوں اور زندگی کی سہولتوں کا قحط نہیں تھا لیکن سب پر ملکیت کی مہر لگی ہوئی تھی اور یہ سب ایسے لوگوں کے قبضے میں تھیں جو شاید زیادہ انسان تھے۔ غلامی، ذلت اور اذیت کے ان برسوں کو میرے حساب میں ڈالنا قطعاً قرین انصاف نہیں۔

    ’’دی ٹائم از اوور۔‘‘

    نہیں پلیز۔ آپ کو یقیناً مغالطہ ہوا ہے ابھی تو میں نے زندگی کے پرچے کی ابتداء کی ہے۔ ابھی تو میں نے صرف چند سطریں لکھی ہیں۔ اگر آپ نے اپنے اعلان کی تصحیح نہ کی تو مارے گھبراہٹ کے میں کچھ نہ لکھ سکوں گا اور پاس مارکس بھی حاصل نہ کر سکوں گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک بار پھر سے وقت اور پرچے کی ابتداء کی جائے۔ ویسے بھی ٹیڑھی میڑھی اور ٹوٹی پھوٹی چندسطریں جو میں نے گھبراہٹ میں اب تک گھسیٹی ہیں۔ ان کے ہجے تک درست نہیں۔ آئی ایم ویری سوری سر، میں اب تک رف کرتا رہا ہوں، اگر مجھے ایک بار اور نئی کاپی دے دی جائے تو میں اسی پرچے کو نہایت صاف اور خوشخط لکھ سکتا ہوں۔ مجھے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھانے کا ایک اور موقع ملنا چاہیے۔ صرف ایک بار اور نئی کاپی دے دیجئے۔

    صرف ایک چانس اور۔۔ پلیز!!

    ’’دی ٹائم از اوور۔۔ ٹائم از اوور۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے