Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوفان

ایمن تنزیل

طوفان

ایمن تنزیل

MORE BYایمن تنزیل

    میں کتاب کی وررق گردانی کر رہی تھی کہ اچانک موبائل کی گھنٹی نے میرا دھیان دوسری طرف متوجہ کر دیا۔ چند لمحے فون پر میری نظر رہی لیکن وہ نمبر جانا پہچانا نہیں تھا، فون رسیو کرنے پر ایک گھبرائی ہوئی آواز نے مجھے خوف زدہ کر دیا۔

    ’’ہیلو۔۔۔!!‘‘ ابھی اتنا ہی کہا تھا۔

    ’’مسز راشد بول رہی ہیں۔۔۔؟‘‘ ایک بھاری آواز تھی لیکن اجنبی۔

    ’’جی آپ کون بول رہے ہیں؟‘‘

    میرے الفاظ ابھی وہ شخص پوری طرح سن بھی نہ سکا تھا اس نے کہا:

    ’’آپ فوراً اپنے گھر کے نزدیک والے چلڈرین پارک پہنچ جائیے۔‘‘

    ایسے مسائل اکثر میرے سامنے آتے رہتے تھے کونکہ میں ایک این۔ جی۔ او۔ میں کام کرتی تھی اس لیے اپنے آپ کو ہمیشہ اس طرح کے حالات سے دوچار ہونے کے لیے تیار رکھتی تھی۔

    میں نے اپنا پرس اور موبائل لیا اور ڈرائیور سے پارک کی جانب چلنے کے لیے کہا۔ این۔ جی۔ او۔ سے جڑے ہوئے مجھے دس سال ہو گئے تھے۔ لوگوں کے مسائل روز پیش ہوتے اور ان کو سلجھانے کی بھر پور کوشش رہتی۔ انسان کی زندگی میں کتنے ہی مسائل اور پریشانیاں کیوں نہ ہوں لیکن جب وہ اپنے درد و غم کو بھول کر لوگوں کی تکلیف دور کرنے میں مصروف ہو جائے تو اس کا آدھا غم خود دور ہو جاتا ہے۔

    ہماری این۔ جی۔ او۔ مختلف جگہوں پر کام کر رہی تھی، کچھ شہروں میں ہم نے اولڈ ایج ہومز بھی قائم کیے، اس کا مقصد یہی تھا ان بےسہارا، بوڑھے لوگوں کو جگہ فراہم کی جائے جن کا اس دنیا میں کوئی وارث نہیں اور غربت کے سبب فٹ پاتھ پر اور بے گھر زندگی گزارنے کے لیے مجبور تھے۔

    ایک دن بہت زیادہ تعداد میں ضعیف العمرلوگ وہاں رہنے کے لیے آئے اور میرا دل بھر آیا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی تعداد زیادہ تھی لیکن میرے غم زدہ ہونے کی وجہ ان کے بیٹے تھے۔۔۔جو بڑی بڑی اور عالیشان گاڑیوں میں اپنی ماں کو تو کوئی اپنے باپ کو بٹھاکر رخصت کرنے آیا تھا۔ یہ وہی ماں باپ ہوتے ہیں نا! جو ہمارے لیے اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں، اپنی خواہشات کو ترک کرنے کے روپ میں ان کا گلا گھونٹ دیتے ہیں، ہمیں معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کا شعور و سلیقہ سکھا تے ہیں۔۔۔؟ آج وہی ماں باپ بوڑھے ہونے کے سبب ہماری نظروں میں کھٹکتے ہیں۔۔۔؟

    کار پارک کے گیٹ کے نزدیک رکی اور میرے ذہن میں اس کال کا خیال آیا۔۔۔ جیسے ہی میں نے گاڑی کے باہر قدم رکھا میرا ذہن بہت سے خدشات سے گھر گیا، سوالوں کا دائرہ دماغ کے ارد گرد گھومنے لگا اور نہ جانے کتنے ہی خیالات نے اپنا گھر کر لیا۔

    ایک گیارہ بارہ سال کی بچی تنہا، اس کے ہاتھ میں کتابوں کا بیگ! کپڑے نہایت گندے، دھول مٹی میں اٹے ہوئے، بالوں کی حالت اس قدر بری تھی جیسے اس میں کبھی کنگھی ہی نہ ہوئی ہو۔

    ’’کون ہے یہ بچی۔۔۔؟ اس کے ماں باپ کون ہیں۔۔۔؟ اس کے حلیے سے تو یہ بہت غریب گھر کی معلوم ہوتی ہے۔۔۔؟‘‘

    اس کے نزدیک بیٹھتے ہوئے میں نے کہا: ’’کیا نام ہے تمہارا۔۔۔؟‘‘

    چند لمحے اس نے میری طرف گھور کر دیکھا اور وہاں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔ میں پھر اس کے نزدیک گئی ابھی وہ وہاں سے اٹھنا ہی چاہ رہی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

    ’’گھبراؤ نہیں، مجھے اپنی ماں کی طرح سمجھو۔‘‘

    میری بات سن کر وہ مجھ سے ڈرنے لگی اور سہم کر بیٹھ گئی۔

    ’’دیکھو بیٹا تم ڈرو نہیں اپنی تکلیف، اپنا کرب مجھے بتاؤ، آخر تم کس پریشانی میں ہو۔۔۔؟ اس معصوم بھولی بھالی گڑیا پر کیا گزر رہی ہے؟‘‘

    وہ بےتہاشا رونے لگی اس کی غزالہ سی آنکھوں میں دکھ کا طوفان تھا جس نے اس کی دنیا ہی بدل دی تھی۔میں نے ڈرائیور سے کہہ کر کچھ ٹافیز اور چاکلیٹز منگائیں۔

    ’’تم مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔؟ تمہارا گھر کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’میر ا گھر بہت گندہ ہے۔۔۔‘‘

    اس کے آنسو رخصاروں پر پھیل گیے اور ان کو صاف کرنے پر اس کے چہرے کی گرد بھی مٹ گئی جس سے اس کی خوبصورتی مزید ظاہر ہو رہی تھی۔

    ’’بھوک لگی ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے اس کے بکھرے بالوں کو جو الجھے ہوئے دھول اور مٹی سے اٹے ہوئے تھے اس کے گالوں پر سے سمیٹتے ہوئے کہا۔

    ’’ہ۔۔۔ہوں‘‘

    یہ کہہ کر وہ کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔

    ’’تم میرے ساتھ چلو۔۔۔میں تمہیں خوب اچھے اچھے کپڑے دلواؤں گی۔’‘

    مجھے علم تھا کہ اتنی جلدی مجھ پر بھروسہ نہیں کرےگی اور وہ اپنی روداد سنانے کی حالت میں بھی نہیں تھی۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘

    اس جواب کی توقع مجھے پہلے ہی تھی۔

    ’’کیوں۔۔۔؟ ‘‘

    ’’میں نے کہہ دیا میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔‘‘

    اس کے الفاظ اور لہجے میں شدید تلخی تھی۔

    ’’بیٹا میں ایک این۔ جی ۔او میں کام کرتی ہوں اور تمہاری مدد کے لیے ہی آئی ہوں۔۔۔‘‘

    ’’یہ کیا ہوتا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’این ۔جی۔ او۔ ایک تنظیم ہے جو غریب، بےسہارا لوگوں کی مدد کرتی ہے۔‘‘

    اس کے چہرے کی تشنگی اور خفگی اب کچھ کم ہو گئی تھی۔

    ’’اب مجھے بتاؤ گی۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ پڑھائی کرتی ہو۔۔۔میرے خیال میں اب تمہیں 4th یا 5th کلاس میں۔۔۔‘‘

    میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ کہنے لگی:

    ’’کلاس کس کو کہتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    اس سوال نے مجھے تذبذب کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔

    ’’تمہارے پاس کتابیں موجود ہیں۔۔۔تم پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو اور تمہیں یہ نہیں معلوم کلاس کیا ہوتا ہے۔۔۔؟’‘

    ’’کتابوں کا مجھے شوق ہے لیکن اس میں کیا لکھا ہے یہ سمجھ نہیں آتا میں صرف اس کی تصویریں دیکھ کر خوش ہو جاتی ہوں۔‘‘

    میں اس کے معصوم لبوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھی جا رہی تھی کہ میری آنکھیں نم ہو گئیں، دماغ کچھ وقت کے لیے سوچنے اور زبان الفاظ ادا کرنے سے قاصرتھی۔ ایک طرف مجھے اس کی بھولی بھالی باتوں پر ترس آ رہا تھا تو دوسری طرف اس کی بد نصیبی پر میں افسردہ تھی۔

    ’’کبھی اسکول نہیں گئیں؟‘‘

    میں اس کی کتا بیں اپنے ہاتھ میں لیکر پڑھنے لگی۔

    ’’اسکول! وہاں پر بہت سارے بچے ہوتے ہیں نا؟‘‘

    اس کی نظروں میں اطمینان کی ہلکی سی جھلک تھی۔

    ’’اچھا مجھے بتاؤ اسکول کیوں جاتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ کہنے لگی:

    ’’کھیلنے۔۔۔‘‘

    اس کی تعلیم سے محرومی دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا کہ اس وقت میں کہاں تھی جو یہ بچی آج زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں دیگر بچے اپنے مستقبل کو لیکر سنہرے خواب سجاتے ہیں آج وہ اس مقام پر کورے کاغذ کی مانند کھڑی ہے جس کو یہ تک معلوم نہیں کہ جانا کس سمت ہے۔۔۔؟ میرا دل چاہا کہ میں چیخ چیخ کر سب کو اکٹھاکر لوں اور کہوں دیکھو سماج والو! دیکھو! یہ حال زار۔۔۔!، کہاں تھے اس وقت تم سب جب اس کے بہترین کل کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور آج وہ اس گہرے اندھیرے میں کھڑی ہے جہاں سے روشنی تو دور ایک کرن بھی مل جائے تو غنیمت ہے،اس نے اپنی زندگی کے وہ خوبصورت لمحات جنہیں بچپن کہتے ہیں کون سی تاریکی میں گزار دیے۔

    لیکن۔۔۔! اس کے بچپن کے پل خوبصورت تھے بھی یا نہیں؟ بڑی شان سے کہتے ہیں ہم ایجوکییٹڈ سوسائٹی میں رہتے ہیں،تعلیم کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔نہیں !ہم ابھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں، ہم بہت پیچھے ہیں، ہماری کوششوں اور امیدوں کی شمع بہت مدہم ہے۔

    ’’آنٹی مجھے بھوک لگی ہے، کچھ کھانے کو ملےگا۔۔۔؟‘‘

    اس کے سوکھے لب اور التجا کرتی نگاہیں۔۔۔اف کتنا کرب تھا!

    ’’ضرور۔۔۔‘‘

    میں اس کو پارک کے سامنے والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لیے لے گئی۔ کھانے سے فارغٖ ہونے کے بعد ہم لوگ کار میں سوار ہوکر این۔ جی۔ او۔ کی طرف روانہ ہوگیے اور راستے میں کچھ کپڑے بھی خریدے۔

    ’’تم نے اپنا نام نہیں بتایا؟‘‘

    ’’درخشاں نام ہے میرا‘‘

    ’’بہت خوبصورت نام ہے تمہارا‘‘

    نام تو اقعی بہت خوبصورت تھا۔

    ’’تمہیں معلوم ہے درخشاں کے کیا معنی ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔مجھے نہیں معلوم۔۔۔‘‘

    وہ نیے کپڑے حاصل کر کے بہت خوش تھی اسلیے اس کا دھیان میری باتوں کی طرف کم اور کپڑوں کی طرف زیادہ تھا جن کے پیکٹ کو وہ سنبھال کر اپنے پاس رکھ رہی تھی۔

    ’’درخشاں کے معنی ہیں چمکتا ہوا‘‘

    وہ خوشی سے چہک کر کہنے لگی:

    ’’اس کا مطلب میں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں؟‘‘

    میں اس کو کیسے بتاتی کہ اس کی شخصیت اور نام کا کوئی میل نہیں ہے۔

    ’’تمہارا نام کس نے رکھا۔۔۔؟‘‘

    ’’میرے ابو نے، نہیں میری امی نے۔۔۔مجھے یاد نہیں، آپ کو پتا ہے میرے ابو اور امی مجھ سے پیار نہیں کرتے۔۔۔‘‘

    اتنا کہہ کر وہ میرے آغوش میں آ گئی۔

    ’’ایسا کیوں کہتی ہو؟ سب کے والدین اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں‘‘

    میں اس کی آنکھوں میں ایک درد محسوس کر سکتی تھی ایسا درد جو وہ بیان تو نہیں کر پا رہی تھی لیکن اس کی گھٹن میں تڑپ رہی تھی، سسک رہی تھی۔

    ’’میں نے پھر پوچھا : تم کہاں رہتی ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’میں کوڑا اٹھاتی ہوں‘‘

    ’’کوڑا۔۔۔!!‘‘ میری زبان سے بےساختہ ان الفاظ نے اس کو چونکا دیا، وہ گھبراکر مجھے دیکھنے لگی۔

    ’’تم کوڑا کیوں اٹھاتی ہو۔۔۔؟‘‘

    میرا یہ سوال سن کر وہ کہنے لگی: ’’اگر کوڑا نہ اٹھائیں تو پیٹ کیسے بھریں گے؟‘‘

    اس کے ان الفاظ کو سن کر میں ایک گہری سوچ میں ڈوب گئی لیکن اس کی نظروں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس معصوم کو کھانے کی فکر تھی۔۔۔یا مجبوری! جو اس نے کمائی کے ذریعہ کا انتخاب کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچا۔

    ’’میں بہت چھوٹی تھی تب سے کوڑا اٹھاتی ہوں، ہم سات لوگ ہیں آپس میں مل جل کر پیار محبت کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔‘‘

    ’’کیا نام ہے ان کا۔۔۔؟‘‘

    وہ انگلیوں پر گنتی جا رہی تھی اور ان کے نام بتاتی جا رہی تھی۔

    ’’ایک کا نام ہیرا ہے اس کا اصلی نام تو مجھے نہیں معلوم لیکن ہم سب کا بہت خیال رکھتا تھا، وہ ہم سب سے بڑا تھا، دوسرا راجو۔۔۔بہت شرارتی تھا لیکن دل کا بہت صاف تھا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی، میں نے پر تجسس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی:

    ’’ایک گڈو تھا وہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کہتا تھا۔‘‘

    چند لمحے اس نے اپنے اطراف دیکھا اور بولی: ’’چھوٹو، ببلواور سونی۔۔۔‘‘

    ’’تم میں سے کوئی پڑھائی نہیں کرتا تھا۔۔۔؟‘‘

    ا س کے لہجے میں اب ارتعاش پیدا ہو گیا تھا۔

    ’’پڑھائی کا ہمیں وقت ہی کب ملتا تھا، صبح سے لیکر شام تک کوڑا اٹھاتے، ان سے ملے روپے لیکر گھر جاتے تو ہم بہت تھک جاتے تھے اس لیے کچھ کھانے پینے کے بعد سو جاتے۔‘‘

    ’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘

    ’’ہمارا۔۔۔گھر۔۔۔!!‘‘

    یہ کہہ کر وہ پھیکی مسکراہٹ دینے لگی۔

    ’’گھر تو ایک جگہ بنا ہوا ہوتا ہے جہاں انسان سکون سے،ہر چیز سے محفوظ، آرام کی نیند سوتا ہے۔’‘

    ’’ایک جگہ سے مراد۔۔۔؟‘‘

    ’’ہمیں جہاں جگہ ملتی ہم وہاں رہتے، جیسے گرمیوں میں ہم فٹ پاتھ پر سو جاتے، برسات ہوتی تو کوئی سایہ دار جگہ تلاش کر لیتے اور سردیاں۔۔۔ سردیاں بہت سخت گزرتیں۔‘‘

    ’’سر دیوں میں کہاں رہتیں۔۔۔؟‘‘

    اس وقت اس کا ایک ایک لفظ میرے لیے تیر کی مانند تھا، لیکن اس کے اوپر جو اذیت، جو درد گزر چکا تھا اس کو جاننا بھی ضروری تھا۔

    ’’ہم جو کوڑا بینتے اس میں ٹاٹ اور بوریاں ہوتے جس کو اکٹھا کر کے ہم نے سی لیا تھاپھر وہی اوڑھتے۔۔۔لیکن اس میں ٹھنڈبہت لگتی تھی۔‘‘

    اب میری ہمت نہیں تھی کہ میں آگے کوئی سوال کرتی لیکن وہ خود ہی کہنے لگی:

    ’’آپ سوچ رہی ہوں گی کہ میں یہاں کیسے پہنچی۔۔۔؟‘‘

    شاید وہ میری بھیگی پلکیں دیکھ کر سمجھ گئی تھی اس لیے مجھے ہی تسلی دیتے ہوئے کہنے لگی:

    ’’آپ دکھی نہ ہوں۔۔۔اب مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی، آپ جو ہیں میرے ساتھ۔‘‘

    اس کی معصوم آواز اور تسلی بھری باتیں میرے آنسوؤں کو روک نہ سکیں اور میں اس کو گلے لگاکر زور زور سے رونے لگی۔

    ’’میری کمائی ایک دن بہت ہوئی، میرے دوست سمجھے شاید میں نے ان کے روپے چرائے ہیں، اس لیے خود پر چوری کا الظام مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں وہاں سے چلی آئی۔‘‘

    ’’یہ کتابیں۔۔۔؟‘‘

    ’’میں نے کچھ روپے اکٹھا کیے تھے، راستے میں کتابوں کی دکان دکھی تو میں نے خرید لیں۔۔۔جب میں امی ابو کے ساتھ رہتی تھی تو انہوں نے مجھے بہت سی کتابیں خرید کر دی تھیں۔’‘

    یہ کہہ کر وہ میرے نزدیک آ گئی اور میرا ہاتھ تھام لیا۔

    ’’تم اپنے ابو امی سے کب دور ہوئیں۔۔۔؟‘‘

    ’’میں دور نہیں ہوئی ہوں انہوں نے مجھے دور کیا ہے۔‘‘

    اس وقت میں خیالات کی عجیب کشمکش میں تھی۔۔۔کون قصور وار تھا۔۔۔اس کے والدین یا پھر اس کی قسمت۔۔۔؟؟

    ’’میرے دو بھائی تھے ایک بھائی مجھ سے چھوٹا تھا اور دوسرا بڑا۔‘‘

    ’’تمہارے بھائی بھی تھے، بھائی تو بہنوں سے بہت محبت کرتے ہیں، بہت خیال رکھتے ہیں، تمہارا بھی دھیان رکھتے ہوں گے؟‘‘

    ’’میرا چھوٹا بھائی تو صحیح سے بولنا بھی نہیں جانتا تھا، لیکن بڑا بھائی ہمیشہ مجھے مارتا رہتا تھا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی، خیر یہ تو بچپن میں بھائی بہنوں کی محبت ہوتی ہے لڑائی جھگڑا بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔

    ’’ایک دن ہم سب گھومنے گیے۔۔۔بہت مستی کر رہے تھے میں وہاں خوب کھیل رہی تھی۔۔۔لیکن اچانک کھیلتے کھیلتے کہیں گم ہو گئی اور مجھے میرے ابو امی نہیں ملے۔‘‘

    ’’کوئی اور مجبوری بھی تو ہو سکتی ہے۔۔۔؟’‘ میں نے کہا۔

    میں اس کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔لیکن اپنے دل کا کیا کرتی۔۔۔؟ میرے لیے وہ وقت بہت سخت گزر رہا تھا۔

    ’’تمہارے امی ابو کا کیا نام تھا۔۔۔؟‘‘

    اس نے میری بات کو ان سنا کر دیا۔۔۔لیکن میرا دماغ اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی قوت کھو چکا تھا۔ ماضی کے اوراق تیزی سے میری آنکھوں کے سامنے پلٹ رہے تھے۔ میری پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں اور میں گہرے اندھیرے میں گم ہوتی جا رہی تھی اوراس کے یہ الفاظ میرے کانوں میں سیسے کی مانند پگھلتے ہوئے گزرے:

    ’’میری امی کا نام فرزانہ تھا اور میرے ابو کا نام راشد۔‘‘

    ’’میری بچی!’‘ میں نے اپنی گمشدہ بچی کو بانہوں میں بھر لیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے