Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوفان کے بعد

نعیم بیگ

طوفان کے بعد

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    بہار کے موسم کو شروع ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ غیر متوقع طوفانی بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ دار الحکومت میں طوفان سے بچاؤ پر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں، محکمہ موسمیات اگلے تین روز تک شدید طوفانِ بردوباراں اور سیلاب کی پیشین گوئی کر چکا تھا۔

    میں اسی پریشانی میں بھاگم بھاگ ریلوے سٹیشن پہنچا۔ ٹیکسی سے اتر کر ٹرنک سے اٹیچی کیس اتارنے تک میں بری طرح موسلادھار بارش میں بھیگ چکا تھا ۔ ٹیکسی ڈرائیور کو ایک نوٹ پکڑا کر تیزی سے ریلوے اسٹیشن کی وسیع بلڈنگ کے اندر لپکا، بارش کے پانی میں بھیگے جوتے شفاف فرش پر جھاڑے، پلکوں سے سر سے گرتے ہوئے پانی کے قطروں کو صاف کیا۔ بالوں کو ہاتھوں سے درست کرتا ہوا پلیٹ فارم پر داخل ہونے کے لئے چل پڑا۔

    کاؤنٹر پر ایک طویل قطار تھی جو میرے کھڑے ہوتے ہی مزید طویل ہوگئی۔ ایک موٹی عورت اپنے کئی ایک اٹیچی کیسوں کے ساتھ چیک اِن کروا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بڑبڑا رہی تھی، کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی اسے حیرت سے دیکھے جا رہی تھی لیکن اسکی انگلیاں مسلسل کمپیوٹر کی بورڈ پر تھرک رہی تھیں، موٹی عورت جسکا کھُلا سینہ اور کمر کی تنومندی اِس کے لباس سے باہر جھانک رہی تھی، اپنی پسند کی سیٹ پر مضر تھی اور لڑکی زائد سامان کے مزید پیسے مانگ رہی تھی اور میں اسکے پیچھے کھڑا اس لایعنی بحث سے بے زار ہو رہا تھا۔

    مجھے اس موٹی عورت سے بلاوجہ بغض پیدا ہو رہا تھا کہ میں نے اچانک اس نازک اندام حسن کو دیکھا۔ وہ خوبصورت تھی لانبا قد اور بادامی آنکھوں کے ساتھ شانے پر پھیلے براؤن بال، وہ پہلی نظر میں دیوی لگ رہی تھی۔ اس نے آسمانی رنگ کی جینز کے اوپر چھوٹے پھولوں والی نارنجی رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی اور متوقع سردی سے بچنے کے لئے اس کے اوپرایک ہلکی اونی جیکٹ پہن رکھی تھی جو بظاہر سوت کی بنی ہوئی لگتی تھی گلے میں ایک مختصر سا گلابی رومال تھا۔ وہ کمال بے اعتنائی سے میرے پاس سے گزری لیکن کئی ایک لمحوں تک اسکے بدن کی خوشبو میرے چاروں طرف پھیلی رہی۔ وہ کوئی مافوق الفطرت شبیہ کی طرح آئی اور پلک جھپکتے گزر گئی۔

    اتنے میں ایک مہین سی آواز نے مجھے اس مخمصے سے نکالا۔

    ’’ٹکٹ پلیز۔۔۔‘‘ سامنے کاونٹر پر بیٹھی لڑکی موٹی عورت سے فارغ ہونے کے بعد مجھے پکار رہی تھی۔ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں اپنی ٹکٹ اسکی طرف بڑھائی۔ اس نے اپنے سامنے پھیلے ہوئے چارٹ پر پہلے دیکھا پھر اس کی انگلیاں کمپویٹر پر چلنے لگیں۔

    ’’فرسٹ اے سی پارلر؟‘‘ اس نے کمپیوٹر سے نظریں ہٹائے بغیر ہی کہا۔

    ’’جی ہاں۔۔۔‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا۔

    ’’کیا تم پہلی نظر میں محبت کی قائل ہو؟‘‘ میں نے اس سے اچانک پوچھ لیا۔

    اس نے کہا ’’یقیناً‘‘ محبت پہلی نظر میں ہی ہوتی ہے دوسری نظر میں حرص ہوتی ہے۔۔۔‘‘

    مجھے اس سے یہ توقع نہ تھی لیکن میں اسکی مسکراتی ہوئی نظروں کو اس وقت تک سہارا ہی سمجھ سکتا تھا جب تک اس حسین پری کو دوبارہ نہ دیکھ لوں۔ اس نے میری ٹکٹ پر سیٹ اور بوگی نمبر درج کیا اور سامان کی تفصیل پوچھ کر میرا اٹیچی کیس پیچھے دھکیل دیا اور اسکا ٹیگ مجھے دیتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’طوفان شدید ہو چکا ہے، ممکن ہے کہ ٹرین رک جائے یا لیٹ ہو جائے۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ یونہی لگتا ہے۔ اس طوفان کے پیچھے کئی طوفان چھپے ہیں۔‘‘

    میں نے جواب دیا۔ وہ معنیٰ خیز نظروں سے مسکرائی اور میں نے اپنے کندھے پر پڑے ایک مختصر سے تھیلے کو سیدھا کرتے ہوئے اسکی طرٖف جھک کر شکریہ ادا کیا اور مخصوص دروازے سے گزرتے ہوئے اندر پلیٹ فارم میں داخل ہو گیا۔

    تب مجھے سگریٹ پینے کی شدید طلب محسوس ہو رہی تھی میں نے پلیٹ فارم کے ایک ویران حصے کو منتخب کیا اور وہیں کھڑے کھڑے سگریٹ سلگا لیا۔ جب سے پبلک مقامات پر سگریٹ پینے کا قانون بنا تھا ہم جیسے لوگوں پر ایک مصیبت بن آئی تھی۔ سگریٹ سلگاتے ہی وہ پری پیکر جس کی میں نے ابھی ایک جھلک ہی دیکھی تھی میرے خیالوں میں دوبارہ آ گئی۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آج تک اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ مجھے یوں لگا کہ وہ میرے حواس پر چھا چکی ہو۔ لیکن میرے پاس اسے بھول جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا سو میں نے سر جھٹک دیا۔

    کل سے میری سالانہ چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور میں سالانہ چھٹیوں میں بہت کچھ پلان کر چکا تھا لیکن اس بے موسمی طوفان نے مجھے روک لیا تھا ۔ آج کوئی فلائٹ نہیں تھی اور میں سارا دن اِس اداس دار الحکومت میں بلا وجہ نہیں گزار سکتا تھا، سو میں نے آخری سہارا ٹرین ہی کو سمجھا اور رات کو ہی کسی دفتری اہلکار کو بھجوا کر ایکسپرس ٹرین پر سیٹ بک کروا لی تھی۔ اسی لڑکے نے مجھے واپس آکر بتایا تھا کہ شہر میں متوقع طوفان کے بہت زیادہ چرچے ہیں اور لوگ ضرورت اور اوقات سے بڑھ کر خریداری کر رہے ہیں۔

    ٹرین کے پلیٹ فارم پر آنے میں ابھی کچھ دیر تھی میں نے سگریٹ پی کر میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو مجھے دور سے ہی درجہ اول کی انتظار گاہ لکھا ہوا ایک مختصر سا بورڈ نظر آگیا۔ درجہ اول کی اس انتظار گاہ میں گملوں کے تازہ گلاب بہار کی نوید سنا رہے تھے اور انسانی ہجوم کی متوازن حدت ایک سہانی سی فضا قائم کر رہی تھی۔ دور کہیں دیوار میں نصب دو ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ یہ سارے انتظامات اس پری چہرہ کے لئے بہت مناسب لگ رہے تھے۔

    میری نظروں نے اسے دور دور تک ڈھونڈا لیکن ناکام ہوکر واپس آ گئیں۔ میں نے ایک نشست منتخب کی اور اس پر بیٹھ گیا اور تھیلے میں سے ایک رسالہ نکال کر پڑھنے لگا۔ ٹرین کچھ لیٹ ہو چکی تھی، جسکا اعلان دیواروں پر نصب لاؤڈ سپیکروں سے نشر ہونے لگا۔ اس اعلان کے مجھے صرف دو لفظ ہی سمجھ آئے تھے، ایک لفظ لیٹ اور دوسرا ٹرین کا نام۔ بہرحال میرے لئے یہی دو لفظ کافی تھے۔

    تھوڑی ہی دیر میں انتظار گاہ بچوں، عورتوں اور مردوں سے بھر چکی تھی۔ میرا نہیں خیال کہ یہ سبھی مسافر درجہ اول کے تھے لیکن مسافر ضرور تھے۔ ہال میں اب گرمی بڑھ رہی تھی، میں اس گرمی اور شور سے بچنے کے لئے باہر نکل آیا۔

    باہر نکلتے ہی میری میرے اندر اس حسنِ مجسم کو دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی لیکن باہر کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، گو بارش کچھ دیر سے رکی ہوئی تھی لیکن انسانوں کا ہجوم اس حبس زدہ فضا میں بلا تفریق رنگ و نسل ایک دوسرے کو اپنی جسمانی حدت پہنچا رہا تھا ۔ میں ایسی ہی فضا میں اس کا قرب چاہتا تھا لیکن میرے خواب اس وقت ہوا ہو گئے جب اچانک پلیٹ فارم پر نصب لاؤڈ سپیکرز پر ٹرین کی آمد کا اعلان ہوگیا۔

    ٹرین پہنچی تو میں نے اپنے ٹکٹ پر درج بوگی نمبر کو ایک بار پھر پڑھا اور متعلقہ بوگی تک پہنچ گیا۔ دروازے میں موجود چیکر نے میری ٹکٹ چیک کی اور مجھے اندر داخل ہونے کا اشارہ کر دیا۔ یہ ایک درمیانی طوالت کا پارلر تھا جسکا اندرونی ڈیزائین بالکل ہوائی جہازوں کی مانند تھا۔ ہر دو طرف دو دو آرام دہ اور نفیس نشستیں تھی اور درمیان میں کشادہ گزرگاہ، نشستوں کے اوپری حصہ میں دستی سامان رکھنے کی جگہ تھی ۔میں جب اپنی نشست پر پہنچا تو میرے دائیں جانب کھڑکی والی نشست خالی تھی ۔ میرے بائیں جانب درمیانی گزر گار کے پار وہی موٹی عورت اپنے بے باکانہ لباس سے باہر آتے ہوئے بے ہنگم جسم اور زمین پر پھیلے ہینڈ کیریز کے ساتھ براجمان تھی۔ اسے دیکھ کر ناجانے میری طبعیت کیوں مکدر سی ہو گئی۔

    ٹرین میں موسمی طوفان کی شدت اور ٹرین کی بروقت روانگی کا اعلان ہو رہا تھا۔ لوگ تیزی سے اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے، پارلر میزبان لڑکیاں خواتین و بچوں کی مدد کر رہی تھیں۔ میں اس موٹی عورت کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک پارلر میزبان نے اُسی پری پیکر کو راستہ دکھاتے ہوئے میرے ساتھ والی نشست کی طرف اشارہ کر دیا۔ اِس نے ایک تجربہ کار مسافر کی طرح میری طرف دیکھا جسکا مطلب تھا کہ میں اٹھ کر اسے اپنی نشست تک پہنچنے کا راستہ دوں۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اسے گزرنے کا مناسب راستہ مل سکے اور ساتھ ہی محض ہلکلاہٹ آمیز، غیر یقینی سلام ہی اسے کہہ سکا جسے شاید اس نے سنا ہی نہیں۔

    اُس نے بیٹھتے ہوئے پارلر میزبان کو اپنی سریلی آواز میں کہا کہ وہ اسے راستے میں اوڑھنے والی چادر دے دے، چادر لینے کے بعد اس نے اپنی ضروری اشیاء کو کچھ اس طرح سے ترتیب دینا شروع کر دیا جیسے اسے یہاں برسوں رہنا ہے۔ ٹرین اب حرکت میں آچکی تھی ، اسکی سست روی سے معلوم ہو رہا تھا کہ ابھی وہ سٹیشن کے احاطہ میں ہی ہے۔ پارلر میزبان سبھی کے لئے اخبار اور کولڈ ڈرنکس لیکر آ گئی ۔ میں نے ٹرالی کی ٹرے سے ایک اخبار اٹھا لیا اور اسے دوگلاس اورنج جوس کہنے ہی والا تھا کہ میری ہمسفر نے صرف پانی کا کہہ دیا ، ناچار مجھے اپنے لئے صرف ایک گلاس اورنج جوس ہی کہنا پڑا۔

    وہ تیزی سے اپنی اشیاء کو ترتیب دی رہی تھیں اور پارلر میزبان کو ضروری ہدایات بھی دے رہی تھی، اس نے میزبان سے کہا، کچھ بھی ہو، اسے کسی قیمت پر جگایا نہ جائے۔ اسکا انداز مغربی سا تھا لیکن اسکی آواز میں مشرقیت اور یاسیت تھی۔ پانی لیکر اس نے اپنے پرس میں سے دو گولیاں نکالیں اور جھٹ سے پانی کے ساتھ نگل لیں۔ اپنی آنکھوں پر سیاہ خول چڑھایا ، اپنی نشست کو آخری حد تک پیچھے لے گئی اور میری طرف پشت کرتے ہوئے چادر اوڑھی اور نیم دراز ہو کر کچھ ہی دیر میں مدھر خراٹے لینے لگی۔

    میرے لئے یہ سفر ایک فطری اور بھرپور تھا، انسانی زندگی کی مہکتی ہوئی خوشبو ، خوبصورت عورت کی قربت کا شدید احساس مجھے خاموش فضاؤں میں ترنگ پیدا کرتی موسیقی کا یقینی اور دلکش آہنگ لگا۔ جس نے مجھے مسرت کے وہ لمحے عطا کئے جن سے میں آج تک نابلد تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس طرح سو کر اِس دیوی نے اپنا سب کچھ مجھے سونپ دیا ہے۔ جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے، میں ہی اِسکا حقیقی وارث ہوں۔ میرے اندر عجیب سے خواہش نے جنم لیا جیسے کہ وہ ہمیشہ یوں ہی سوتی رہے۔ اسی لمحے ایک دوسری پارلر میزبان آ گئی جس نے موسیقی سننے کے لئے ہیڈفون تقسیم کرنے شروع کر دئیے۔ اس نے اس حسنِ مجسم کو جگانا چاہا تو میں نے اِسے نہ جگانے کی بات بتائی تو وہ مسکرا کر دوسرا ہیڈفون بھی مجھے دیکر آگے نکل گئی۔

    کچھ ہی دیر میں کھانے کی ٹرالی آگئی اور کھانا تقسیم ہونے لگا، میزبان پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ وہ اِس لڑکی کو نہیں جگائے گی لیکن پھر بھی اِس نے احتیاطً مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا وہ اسے کھانے کے لئے جگا سکتی ہے؟

    ’’میرا خیال ہے کہ وہ کھانے سے زیادہ سونا پسند کرے گی۔‘‘

    میں نے اس طرح کہا جیسے میں اسکا شوہر ہوں۔

    میزبان نے اثبات میں یوں یقین کا اظہار کیا جیسے میں نے دنیا کا سب سے بڑا سچ بولا ہو۔

    میں نے اپنے تصور میں وہی باتیں کرتے ہوئے، جو میں اس کے جاگتے ہونے کی صورت میں کرتا، تنِ تنہا ہی کھانا کھایا۔ اس کی نیند اس قدر بھرپور تھی کہ ایک لمحہ کے لئے مجھے یہ خوفناک خیال بھی آیا کہ اس نے جو گولیاں کھائی تھیں کیا وہ سونے کے لئے تھیں یا مرنے کے لئے؟

    لیکن میں نے اس بے ہودہ خیال کو ایک دم ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ میں اپنے خیالوں میں اپنے مشروب کے ہر گھونٹ کو اپنے ہم سفر کے نام جامِ صحت تجویز کر رہا تھا اور جامِ صحت کسی مرنے والے کی صحت کے لئے تجویز نہیں کیا جاتا۔

    کھانا ختم ہو چکا تھا اور ٹرین اپنی پوری رفتار سے منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ پارلر کی زائد روشنیاں بجھا دی گئی تھیں جس سے ماحول مکمل طور پر خوابناک ہو چکا تھا۔ طوفانِ بردوباراں کی شدت کے بارے میں پورے علاقے کی تباہی کی خبریں موسیقی کے ساتھ ساتھ نشر ہو رہی تھیں جسے میں نے ایک آدھ بار ہیڈفون لگا کر سنا لیکن مجھے اب موسیقی سے زیادہ اپنے ہمسفر میں دلچسپی تھی جس کے جسم سے نیند کے گہرے خمار پن نے اِس کی چادر سرکا دی تھی۔ حسن اب بے پروا ہو چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اسکا جسم انتہائی متناسب تھا، اسکی گردن میں الجھی ہوئی ایک مہین سی سونے کی زنجیر دیکھ کر مجھے حسد محسوس ہونے لگا، اُس نے بائیں ہاتھ میں ایک چھوٹی سے کثیر نگینے جڑی انگوٹھی پہن رکھی تھی جسے میں کسی قیمت پر منگنی یا شادی کی انگوٹھی نہیں کہہ سکتا۔

    میں نے گزرتی ہوئی پارلر میزبان کو روکا اور دھیمی آواز میں اس سے کہا کہ کیا مجھے چائے مل سکتی ہے؟ اسے احساس ہو گیا کہ میں کیوں آہستہ بول رہا ہوں ۔ اُس نے مسکراتے ہوئے پری چہرہ کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آگے نکل گئی۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا رات کے کوئی دو بج چکے تھے ، اگر میرا اندازہ درست ہے تو میرے سفر میں اب صرف دو ہی گھنٹے رہ گئے تھے ۔ میرا شہر دارالحکومت سے کوئی پانچ گھنٹے کی مسافت پر تھا ۔ اس ایکسپرس ٹرین کا پہلا سٹاپ بھی وہی تھا۔

    پارلر کی میزبان شاید میری چائے کی خواہش بھول چکی تھی یا رات کے اس پہر اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ ہو۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے اپنے سفر کے آخری لمحات کو روح پرور اور یادگار بنانا چاہا۔ میں نے اپنی نشست بھی اس حسنِ بے پروا کے ساتھ برابر سطح پر پیچھے کر لی جہاں میں ذہنی طور پر پہلے ہی سے موجود تھا۔ ہم کسی بھی شادی شدہ جوڑے سے کہیں نزدیک ایک دوسرے کے برابر لیٹے ہوئے تھے، اسکے سانسوں کی مہک میرے اندر اترنے لگی۔ میں نے اپنی سانس تک چُرا لی تھی، میں اس دلربا کو صرف سوتے میں ہی دیکھنا، محسوس کرنا اور چاہنا چاہتا تھا کہ اچانک دیوی میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے کروٹ بدل کر اپنا چہرہ میری طرف کر دیا۔ مجھے لگا کہ وہ جاگ چکی ہے اور سب کچھ محسوس کر رہی ہے۔ اس کی انکھوں پر چڑھا خول اس کے ماتھے کی طرف سرِک چکا تھا۔ میں نے دم سادھ لیا۔

    لیکن وہ حقیتاً سو ہی رہی تھی۔ کیونکہ چند ساعتوں میں ہی اس کے خوبصورت نتھنوں سے ایک بار پھر دلکش خراٹوں کی آواز مجھے جلترنگ کی طرح سنائی دی۔ میں اس ساز و آواز ، اسکے جسم کی مہک اور اپنے احساسِ تفاخر میں مبتلا تھا کہ ٹرین کے سپیکرز سے ابھرتی مترنم آواز نے بیشتر مسافروں کو جگا دیا۔ وہ طوفان سے علاقے میں ہونے والی بربادی اور متوقع سٹیشن کے بارے میں اعلان تھا ۔

    اعلان کے ساتھ ہی ٹرین کی رفتار کچھ سست ہونے لگی تو میں نے کلائی کی طرف دیکھا پونے چار بج رہے تھے۔ شاید میری منزل قریب ہے۔ اِسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ پری پیکر بھی کسی میکانکی انداز میں جاگ چکی ہے اور اس نے اپنی نشست سیدھی کر لی اور اسی رفتار سے اپنی اشیاء سمیٹنی شروع کر دیں جیسے اس نے سفر کے آغاز میں ترتیب دیں تھیں۔ لاؤڈ سپیکرز پر ٹرین کے پہلے اسٹاپ پر رکنے کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی ٹرین رینگتی ہوئی ایک خاموش لیکن روشن پلیٹ فارم پر رک گئی جو رات کے آخری پہر ویران نظر آ رہا تھا۔

    پری پیکر نے اپنا پرس سنبھالا اور ٹرین کے رکتے ہی انہی نظروں سے میری طرف دیکھا جب اس نے نشست پر بیٹھنے کے لئے ایک تجربہ کار مسافر کی طرح مجھے دیکھا تھا، مطلب صاف ظاہر تھا کہ میں اسے اترنے کے لئے راستہ دوں ۔ میں نے گبھراہٹ میں اپنا تھیلہ اٹھایا اور پیچھے ہٹ گیا۔ مجھے یہ احساس سرشار کر گیا کہ وہ میرے ساتھ ہی اس سٹیشن پر اتر رہی ہے۔

    مجھے اس کے ساتھ گزرے لمحے یہ دلکش احساس دے چکے تھے کہ اب شاید جدائی ہمارا مقدر نہ بنے ۔ مجھے اپنی تقدیر پر رشک آنے لگا۔ لیکن پری پیکر کو شاید جلدی تھی ، وہ تیزی سے آگے بڑھی اور میرا پاؤں تقریباً کچلتے ہوئے میرے قریب سے گزری تو میری سسکی نکل گئی ۔ اس نے لاپروائی سے مجھ سے رسمی سی معذرت کی ۔ اس کے ساتھ ہی ہم دونوں اس اجاڑ سے سٹیشن پر اتر گئے، اور وہ میری طرف دیکھے بغیر ہی تیز قدموں سے چلتے ہوئے سٹیشن کی ویران روشنیوں سے نکل کر دلآویز اندھیروں میں غائب ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے