aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طوفان

MORE BYسید محمد اشرف

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی دم توڑتی ہوئی انسانیت کا نوحہ ہے۔ طوفان آنے کے بعد جہاں ایک جانب سرکاری ریلیف کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے وہیں دوسری طرف غیر سرکاری تنظیمیں بھی لاشوں اور یتیم بچوں کا سہارا لے کر اپنی اپنی دکان چمکاتی ہیں۔ آرادھنا ایک سادہ اور دردمند دل رکھنے والی عورت ہے۔ وہ ایک غیر سرکاری تنظیم میں شریک ہو کر رضاکارانہ طور پر پچاس بچوں کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہے۔ وہ اپنی ذہانت و محنت سے سارے یتیم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لے آتی ہے۔ چندہ کے لئے جب گروپ فوٹو کھینچا جاتا ہے تو سارے بچے مسکراتے ہیں لیکن اسی بات پر ایک عہدہ دار چراغ پا ہو جاتا ہے کہ یہ بچے مسکرائے کیوں۔ اب کون اس کی تنظیم کو چندہ دے گا۔ وہ بچوں کو ڈانٹ کر دوبارہ گروپ فوٹو بنواتا ہے جس میں سارے بچے سہمے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے بعد ایک بچی پورنیما آرادھنا کے پاس آتی ہے اور معصومیت سے سوال کرتی ہے کہ آنٹی اب ہمیں مسکرانا ہے یا چپ رہنا ہے۔

    (سدھاکر مشرا کے نام)

    ہلکے نیلے رنگ کے سمندر کے بعد گہرا نیلا پانی تھا، پھر دودھیا لہریں اور ان کے بعد افق کو چھوتا اسی کے رنگ میں مدغم ہوتا بےرنگ پانی، جو دور سے ساکت نظر آتا تھا اور تبھی آسمان میں دور بہت دور بادلوں کا ایک بےہنگم غول نظر آیا، جیسے زمین پر بھی ایک سمندر ہے اور اوپر بھی۔ اور اسی وقت ہوا اچانک تھمی تھی۔ چند لمحوں کا وقفہ خاموشی کا تھا مگر ایسی خاموشی جس میں تیز سیٹیاں بجتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ خاموشی کا وہ اجنبی اور سناٹے کو گہرا کرنے والا مختصر وقفہ ایک ایسی زبردست آواز سے ٹوٹا جیسے بے شمار درندے اپنے سہمے ہوئے شکاروں پر آہستہ آہستہ داؤ لگاکر اچانک غرا کر ٹوٹ پڑے ہوں۔

    ساحل پر دنیا کا سب سے بڑا طوفان اترا اور سیکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار اور گزوں اونچی لہروں کے ساتھ خدائے قہار کی زمین کے اس پورے علاقے میں پھیل گیا۔ درمیان میں آنے والی ہر شئے کو بہا لے گیا۔ مچھواروں کی کشتیاں کاغذ کی ناؤ کی طرح لہروں کے ساتھ اوپر گئیں اور نیچے آنے تک بے وضع لکڑی کے ٹکڑوں میں بٹ گئیں اور ان کے تختے الگ ہوکر پانی کی رفتار کے ساتھ ساحل پر اندر کی سمت دھار دار ہتھیاروں کی طرح تیزی سےآگے بہنے لگے، بڑھنے لگے اور کھڑے درختوں کے تنوں کو اپنی رفتار کے زور سے آرے کی طرح کاٹنے لگے۔ ساحل کے اندر دور تک اَراتے سمندر میں ایک جنگل سا بہنے لگا۔

    ساحل کے کنارے دھان کی تیار فصل گہرے بھورے پانی میں دور دور تک ڈوب گئی۔ ناریل کے لمبے پتلے تنوں والے درختوں کی نکیلی پتیوں والی شاخیں الگ ہوئیں اور میلوں دور تک اڑتی چلی گئیں۔ بچی کھچی شاخوں کے ساتھ درخت ہواؤں سے ایسے لڑ رہے تھے جیسے غریب اور خوددار بچے اپنے سے بہت بڑی عمر والے گلی کے بدمعاش نوجوان سے الجھ پڑتے ہیں۔ تیز ہوا کے ریلوں نےکچھ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا، کچھ کو زمین پر لٹا دیا اور باقی درخت اپنے ہی بدن کی لمبائی میں دو دو تین تین جگہ سے مڑ کر بوڑھے مچھواروں کی طرح خاموش کھڑے رہ گئے۔ دوسرے اقسام کے درختوں کی شاخیں چٹاخ چٹاخ کی آواز کے ساتھ ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر بچھ رہی تھیں۔ طوفان کی سرخ دہشت گرد آنکھ چھ ہزار مربع کلومیٹر پر نگراں تھی اور گھوم گھوم کر، امڈ امڈ کر آہستہ آہستہ ساری زمین کو ایک گہرے بھورے دلدلی ملغوبے میں تبدیل کر رہی تھی۔

    بھد میلے، سرخ، نیلے اور ہرے اور چوخانے دار کپڑے پہنے سر پر سفید پرانے کپڑے لپیٹے مرد، بے جوڑ رنگوں کی ساڑی، بلاؤز اور چاندی کے چھوٹے چھوٹے زیور اور زنجیریں پہنے عورتیں اور آدھے بدن سے ننگے بچے، زناٹے دار ہوا اور بےپناہ بارش سے بچنے کے لیے بے تحاشا بھاگ رہے تھے اور ہوا ان کے سینوں پر پیر رکھ کر انہیں بےسمت کر رہی تھی۔ بلیوں اور بانسوں پرٹکے کچے جھونپڑوں کی چھتیں اکھڑ کر رکابیوں کی طرح فضا میں اڑ رہی تھیں اور جھونپڑوں کے اندر باہر سب ایک ہو رہا تھا۔ مویشیوں کے جھنڈ ڈکرا ڈکراکر اور ممیا ممیاکر وحشت زدہ ہوکر ایک دوسرے کے پیٹ میں گھسے جا رہے تھے، بغیر دیکھے آگے ہی آگے بھاگنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے اور درختوں سے اور انسانوں سے ٹکرا ٹکرا کر گر رہے تھے، اٹھ رہے تھے اور لڑکھڑا رہے تھے۔ نیچے پانی کے شیر غرا رہے تھے اور اوپر ہوا کے ہاتھی چنگھاڑ رہے تھے اور انسان اور حیوان سب کے سب فطرت سے ایک ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس میں جانداروں کو نہیں جیتنا تھا۔

    پھر گہری بھوری کیچڑ اور درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخوں میں سب کچھ ڈوب گیا۔ دب گیا۔ شہروں تک پہنچتے پہنچتے طوفان مدھم نہیں پڑا۔ اونچی اونچی عمارتیں تھرتھرائیں، کھڑکیوں کے شیشے چٹخے۔ عمارتوں میں بنے گھونسلوں سے پرندے وحشت زدہ ہو کر اڑے اور پھر انہیں عمارتوں کی طرف ہوا کے ریلے کے ساتھ واپس پھرے اور دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ان کے مردہ بدن زمین پر گیند کی طرح آ رہے۔ بجلی کے کھمبے زمین سے آن ملے اور ٹیلیفون کے پتلے لوہے کے کھمبے مڑکر سوالیہ نشان بن گئے۔ عمارتوں، سڑکوں اور سرکاری دفتروں میں شور تھا۔ سب کے وجود کے اندر اس سے زیادہ شدید تاریکی پھیل چکی تھی، جیسی بجلی غائب ہونےکے بعد سڑکوں اور مکانوں اور دفتروں پر چھائی ہوئی تھی۔ طوفان کی سرخ آنکھ اپنی ہی پھیلائی ہوئی اس وحشت پر نم ہوئی اور تیز بارش میں شہروں کی سڑکوں اور شاہراہوں اور گلیوں میں کمر کمر تک پانی بھر گیا۔

    طوفان آیا اور گیا۔ انسانی اور حیوانی موتوں کا ایک آسان، حقیقت سے دور، علاقے کے باقی ماندہ زندہ لوگوں کی آبادی کے حساب و کتاب سے بے نیاز، غیر وحشت افزا تخمینہ تیار کیا گیا اور اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے حوالے کر دیا گیا۔ مرکز نے صوبائی حکومت کی مذمت کی اور صوبائی حکومت نے مرکز کی لاتعلقی پر اعلانات جاری کیے۔

    دوسرے علاقوں کی انسانی مخلوق نے اپنے اپنے گناہوں کو کم کرنے کی خواہش میں روپے، استعمال شدہ کپڑے اور پرانے جوتے ریلیف فنڈ میں دیے۔ ولایت سے عمدہ کمبل، بستروں کی چکنی چادریں اور روئیں دار تولیاں آئیں۔ دوسری صوبائی حکومتوں نے ڈاکٹروں کے وفد اور دواؤں کی گولیاں بھیجیں۔ جگہ جگہ سے غذائی اجناس، مٹی کا تیل اور کھانا پکانے کے برتن ٹرکوں پر لد کر آئے۔ کیوں کہ انتظام کرنے والوں کو سرکاری رجسٹروں کی خانہ پری کرکے انتظامی ضابطوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور اس میں ہر سطح پر نگرانی ہوتی ہے اور نگرانی کے بعد میٹنگیں ہوتی ہیں اور پھر ان کے بعد عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس لیے امدادی سامان جیسے کھانا اور دوائیں صرف ۲۰ دن تاخیر سے پہنچے۔ اخباروں نے اس بات پر واویلا مچایا جس پر تاخیر کے ذمہ داروں نے نہایت دردمندی اور دیانت داری سے اپنے اپنے دلوں میں سوچا بھی اور آپس میں ذکر بھی کیا کہ اخبار والے اگر ایسا نہ کریں تو ان کا اخبار بکےگا کیسے۔

    ولایت سےآئے ہوئے نرم، گرم خوبصورت کمبل ضرورت کے علاقوں میں اس لیے نہیں بھیجے گئے کہ وہاں پانی بھرا ہوا تھا اور پانی سے کمبل خراب ہو سکتا ہے۔ ان کمبلوں کو زیادہ وقت تک اسٹور میں رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا کہ ان میں کیڑا بھی لگ سکتا تھا۔ اس لیے انہیں شہروں کی مارکیٹ میں کم داموں پر فروخت کر دیا گیا اور اس سلسلے میں کئی سطحوں پر اور کئی معاملوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا گیا۔ عمدہ بیڈ شیٹس اور روئیں دار تولیوں کا انتظام بھی اسی دانش مندانہ طریقے سے کیا گیا کہ یہ اشیاء بلا وجہ برباد نہ ہوں۔ غذائی اجناس میں باسمتی چاولوں کا معاملہ بھی ان سے مختلف نہیں تھا۔ البتہ موٹا جھوٹا اناج اور آٹا دال ٹرکوں میں لدا کھڑا رہا کیوں کہ ان کو ضرورت کے علاقوں تک لے جانے کے لیے بہت زیادہ ڈیزل کی ضرورت تھی اور ڈیزل کی سپلائی ایسے موقعوں پر ایک مخصوص قانونِ فطرت کے تحت بند ہو جاتی ہے۔

    مختلف اخباروں اور اداروں نے اس انسانی صورتِ حال کا بہت دلدوز نقشہ کھینچا، پرائیویٹ فلاحی انجمنیں پوری تندہی کے ساتھ لگ گئیں۔ مرکز کو صوبائی عوام کی تکالیف کے خیال نے بےچین کیا اور سیکڑوں کروڑ روپیہ اس بحران کی شدت کو کم کرنے کے واسطے مختلف اعلانات کے بعد عطا کیا گیا۔ صوبائی حکومت نے اس کا پہلا حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کی شکل میں تقسیم کیا کہ اگر وہ لوگ ہی مطمئن اور تازہ دم نہیں ہوں گے تو امدادی کاموں کو انجام کون دے گا۔ باقی روپے کا بڑا حصہ بھی کچھ اسی قسم کی انسانی ہمدردی، سماجی اور معاشی اور انتظامی وابستگی اور پیچیدگی کے تصور کے تحت اس انداز سے تقسیم ہوا کہ کوئی بڑے سے بڑا حساب داں بھی پوری بات کو اور آنکڑوں کو سمجھنے کے بعد یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ امدادی روپے کا استعمال غلط ہوا۔ دیہات کے تباہ شدہ انسانوں نے بھی فوٹوگرافروں کے سامنے المونیم کے نئے برتن، آٹے کی بوریوں اور پیراسیٹامول کی گولیاں دکھا دکھا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ امدادی کاموں کا روپیہ سارا کاسارا ادھر اُدھر نہیں خرچ ہوا ہے اور کاموں میں بھی لگا ہے۔

    پرائیویٹ انجمنوں اور مذہبی اداروں نے چھوٹے چھوٹے پیمانے پر اس گرانی صورت حال کی شدت کو کم کرنے کے لیے قابل ذکر کام کیے۔ کچھ متمول عورتوں نے شہروں میں آکر اپنی اپنی انجمنوں کی طرف سے عارضی دفتر بنائے اور گھوم گھوم کر قریب کے محلوں میں تباہی کا جائزہ لینے گئیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ اپنے اپنے مصروف شوہروں اور اپنے پرتکلف مکانوں کی آسائش سے اکتاکر اور اپنے ہم نظروں میں شرمندگی سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی تھیں تو یہ بڑا فضول اور عامیانہ الزام ہوگا۔ بھلا پریشان حال مردوں اور عورتوں اور بچوں کے ساتھ انہیں فوٹو کھنچوانے میں کون سا رومانی عیش مل رہا تھا سوائے اس کے کہ وہ فوٹو اخبارات میں چھپ جاتے تھے، تو پڑھنے والوں کو احساس ہو جاتا تھا کہ خوش حال افراد اور بدحال تباہ شدہ انسانوں میں کتنا فرق ہوتا ہے، جیسے کبھی کبھی شربت میں تھوڑا سا نمک ملا دیتے ہیں کہ شیرینی کا ذائقہ کچھ کھل جائے۔

    کچھ پرائیویٹ انجمنوں نے نیک دل عورتوں کو اس کام پر مامور کیا تھا کہ طوفان میں جان کھونے والوں کے یتیم بچوں کو ۵۰۔ ۵۰ کی ٹولیوں میں کچھ دن تک اپنے پاس رکھیں اور انہیں اپنے اپنے ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے اس دکھ سے نجات دلائیں جو غالباً دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے۔ ان تمام اداروں نے متفقہ طور پر ایسی تمام والنٹیر خواتین کو تربیت دی کہ ایسے یتیم بچوں کے آنسوؤں کو کیسے پونچھا جائے اور ان کے چہروں کو پرانی مسکراہٹوں سےکیسے سجایا جائے۔ ایسے تمام افراد، جن میں نرم دل ہونے کی وجہ سے خواتین زیادہ تھیں، اپنے اپنے بھولے بسرے غموں اور محرومیوں کو کم کرنے کے لیے اور بجا طور پر ان یتیم بچوں کو خوش رکھنے اور مسکراتا دیکھنے کے لیے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس کام میں لگ گئے۔

    اپنے علاقے میں پہنچ کر سب سے پہلے میں نے ماں کو ٹھیک ٹھاک پایا اور اوپر والے کا شکر ادا کیا۔ ماں میرے کندھے سے لپٹی بہت دیر تک دھیمی دھیمی آواز میں روتی رہی۔ جب میرے کندھے اس کے آنسوؤں سے بھیگ گئے تو میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ جھریوں بھرے چہرے کی آنکھیں بند تھیں اور ان سے آنسوؤں کے چھوٹے چھوٹے قطرے برابر بہہ رہے تھے۔ کسی کسی جھری پر آنسوؤں کے قطرے رک جاتے تو میں انہیں تب تک دیکھتا رہتا جب تک وہ نیچے ڈھلک نہ جاتے۔ شام تک میں نے پڑوس کے کئی گھروں میں جا کر ان کے دکھ درد سنے۔ رات کو بیٹھ کر اپنی جائیداد کے نقصان کا اندازہ لگایا اور چاروں طرف پھیلی انسانی جانوں کی بربادی کا دھیان کر کے اس نقصان کو بھلا دیا۔

    رات کے پچھلے پہر کھڑکی کھولی۔ باہر پورے چاند کی رات تھی۔ میں نے دور دور تک اپنے مکان سے متصل کھیتوں اور درختوں پرنظر ڈالی۔ سر جھٹکا اور آنکھیں مل کر پھر دیکھا۔ کھڑکی کے ٹھیک سامنے بیس گز کے فاصلے پر جو درختوں کا جھنڈ تھا، اب وہاں نہیں تھا۔ بہت غور سے دیکھا تو ان درختوں کی جڑیں آپس میں گتھی ہوئی نظر آئیں۔ ان درختوں کے پاس پرانی پنچایت کی عمارت مٹی کا ڈھیر ہو چکی تھی۔ پورب کی طرف کے پرانے درخت زمین نے نگل لیے تھے۔ بھوتیا بابا کا برگد تیز ہواؤں اور سیلاب میں بہہ کر میلوں دور جا چکا تھا۔ بچپن اور لڑکپن کی تمام یادوں کے نشانات ختم ہو چکے تھے۔ مجھے لگا جیسے میں اچانک خود اپنے آپ سے اجنبی ہوگیا ہوں۔ میں کھڑکی کھولے بیٹھا آسمان کو دیکھتا رہا جہاں اب ایک بھی بادل نہیں تھا۔ صرف چاند تھا۔ پیلا بدصورت چاند۔

    سویرے اٹھ کر میں ساحل پر جانے کے لیے روانہ ہوا، جواب بیس میل اندر آ چکا تھا۔ ندی کا ڈیلٹا کئی شاخوں میں تقسیم ہو کر سمندر سے جا ملتا تھا اور اونچی جگہ سے قدرت کی بالشت کی طرح نظر آتا تھا جو آبادی اور سمندر کے درمیان کل کل کرتی ندیوں کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کی شکل میں رکھی رہتی تھی۔ ندی اور سمندر مل چکے تھے اور پوری زمین پر صرف ایک ہی رنگ واضح نظر آ رہا تھا۔ گہرے بھورے رنگ کا پانی جو کہیں گہرا تھا اور کہیں کہیں کیچڑ کے اوپر گھٹنوں گھٹنوں اونچا کھڑا تھا۔ پانی کے درمیان کہیں کہیں ایسے علاقے بھی تھے جہاں پانی سوکھنے لگا تھا۔ مجھے وہاں ایک کتا نظر آیا۔ میں دھیرے دھیرے اس طرف بڑھا۔ میرے ساتھ میرا بھتیجا بھی آیا تھا۔ ہم دونوں آہستہ آہستہ جب وہاں پہنچے تو موت کی تیز بوناکوں سے ٹکرائی۔ پیٹ پھولی بھینسیں اور گائیں آسمان کی طرف ٹانگیں اٹھائے پڑی تھیں۔ میں ان کی صحیح تعداد گننے کی ہمت نہیں کر سکا۔

    تبھی میرے بھتیجے نے لکڑی سے اشارہ کیا کہ کتا جس پنجرے سے لگا ہوا ہے وہ مویشی کا نہیں ہے۔ میں سر سے پانو تک کانپ اٹھا۔ میں نے تیزی سے بھتیجے کے ہاتھ سے لکڑی لی اور کتے کو مارنے کے لیے بڑھنے ہی والا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ پورے علاقے میں سوکھی لکڑی اور مٹی کا تیل نہیں ہے۔ انتم سنسکار ممکن نہیں تھا۔ میں وہیں کا وہیں کھڑا رہا۔ میرا بھتیجا میرے پاس آکر مجھ سے لپٹ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے لکڑی پھینک دی۔ کتا ہم دونوں سے بے نیاز اپنی بھوک مٹاتا رہا۔ میں نے جنیئو برابر کیا اور سمندر کی طرف دونوں ہاتھ جوڑ کر سنسکرت کے وہ اشلوک پڑھے جو انتم سنسکار کے وقت پڑھے جاتے ہیں اور بھتیجے کا ہاتھ اندازے سے ٹٹول ٹٹول کر پکڑا اور آنکھیں بند کیے کیے گھوم کر وہاں سے ایسے چلا جیسے اندھے چلتے ہیں۔

    صبح کی روشنی پھیل رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور ناریل کا ایک نیم استادہ پیڑ دیکھا جس کی بہت سی شاخیں ٹوٹ کر اڑ چکی تھیں اور باقی ماندہ شاخیں اپنی پژمردہ لمبی لمبی پتیوں کے ساتھ ٹوٹ کر وہیں کے وہیں جڑی رہ گئی تھیں۔ پیڑ کا اوپری حصہ ہوا کے زور سے نیچے ہوتا، پھر اوپر ہوتا جیسے رات بھر کی اجتماعی عصمت دری کے بعد صدمے سے چور کوئی ابھاگن بے ہوشی سے اٹھنے کی کوشش کر رہی ہو۔

    میں شام تک موت کی تیز حیوانی مہک کے درمیان اس کنارے سے اس کنارے تک دیوانہ وار گھومتا رہا۔ فصلیں سڑنے لگی تھیں۔ جگہ جگہ لوگوں کے جھنڈ کیچڑ اور مٹی میں دبی ہوئی بےنور آنکھوں اور پھولے ہوئے بدنوں والی انسانی اور حیوانی لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مجھے خشکی پر بہت کم مویشی ملے۔ سڑکیں بےنشان ہوکر پانی کے نیچے بہہ چکی تھیں۔

    سورج غروب ہوتے وقت میں نے سمندر کی طرف دیکھا۔ دو ادھ ننگے مرد لاٹھی اور ایک گٹھری اٹھائے کمر کمر پانی میں کنارے کی طرف آ رہے تھے۔ روشنی کم ہوتی جا رہی تھیں اور ان افراد کے قدموں کی حرکتیں تاریکی ہونے کی وجہ سے معدوم ہوتی جا رہی تھیں۔ دھیمے دھیمے ان کے بدن تصویر بن گئے۔ صرف قدموں کی شپاشپ شپاشپ سنائی دیتی رہی۔ میں مڑا اور گاؤں کے پاس آکر رک گیا، جہاں ایک نوجوان عورت کھڑی تھی، جس کے پیٹھ سے لگی اس سے بھی لمبی اس کی بیٹی پیچھے سے ماں کے شانے پر سر رکھے ویران آنکھوں سے کچھ سوچ رہی تھی۔ میں عورت کے قریب گیا۔ ایک سمندر میرے پیچھے تھا اور ایک سمندر اس عورت کی آنکھوں میں تھا۔ پیچھے والا سمندر گہرا بھورا تھا اور عورت کی آنکھوں کے سمندر کے پانی میں کئی رنگ جھلملا رہے تھے۔ آشاکا سبز رنگ، زندہ رہنے کی امنگ کا ہلکا گلابی رنگ، خوف کی سیاہی اور موت کی زردی۔ ماں بیٹی نے ہم دونوں کو اتنے قریب دیکھا تو آنکھیں جھکا لیں۔ میں مڑتے وقت ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا کہ ان دونوں میں کس کی آنکھ سے پانی کا ایک شفاف قطرہ میلے میلے رخسار پر پہلے ڈھلکا تھا۔

    سیمنٹ کنکریٹ کے اس بڑے سے دفتر نما گھر کا دروازہ کھولا تو سامنے آرادھنا کھڑی تھی، جس کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی اس کی ساتھ آٹھ سال کی بچی مجھے دیکھ کر ’’انکل‘‘ کہہ کر چلائی تھی۔ میں نے آرادھنا کو تین سال بعد دیکھا تھا۔ ویسی ہی سادہ سادہ سی مسکراہٹ، اونچا شفاف ماتھا، بالوں کا بےترتیب جوڑا اور پیروں میں چمڑے کی سینڈل۔ البتہ گھنی گھنی پلکوں والی بڑی بڑی آنکھوں میں سوچ کی تہیں گہری ہوگئی تھیں۔ آرادھنا نے دونوں ہاتھ جوڑ کر مجھے پر نام کیا۔

    ’’آپ کب آئے۔ میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ آپ کا گھر بھی تو اسی علاقے میں ہے۔ سب لوگ کیسے ہیں۔ آپ کی ماں؟‘‘ اس نے بے چینی سے پوچھا۔ مجھے آرادھنا کا بےچینی کے ساتھ یہ سب کچھ پوچھنا اچھا لگا۔ وہ آج بہت دن بعد ملی تھی۔ اتنے عرصے بعد بھی اس نے طوفان میں پھنسی میری ماں کو یاد رکھا۔

    ’’اندر تو آؤ۔ بیٹھ کر اطمینان سے بات کریں گے۔ تم کیسے چلی آئیں۔ کسی نے منع نہیں کیا؟‘‘

    ’’کون منع کرتا۔ پاپا سے پوچھا تو انہوں نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔‘‘ ٹین کی کرسی پر بیٹھ کر میں نے آرادھنا کی بچی کو پاس بلا کر لپٹا لیا اور باتیں کرنے لگا۔ آرادھنا کی بچی میری شرٹ کے بٹن سے کھیلتی رہی۔

    ’’میں ڈپارٹمنٹ کو بتائے بغیر، بلا تنخواہ کی چھٹی لے کر چپ چاپ آ گئی۔ مجھے پچاس بچوں کو نارمل کرنے کا کام سپرد کیا گیا ہے۔‘‘ برآمدے کے پیچھے بنے کمروں سے سانولے سانولے، پژمردہ چہرے کی کھڑکی کی سلاخ پکڑے ہم تینوں کو دیکھتے رہے۔

    ’’شلپا کو اپنے پاس سے ہٹا دیجیے۔ سب بچے سمجھ رہے ہیں کہ شلپا جس کے پاس کھڑی ہے وہ اس کا۔۔۔ میں تو ان بچوں کے سامنے شلپا کو اپنے پاس بھی نہیں بٹھاتی۔ شلپا بیٹا تم ان کے ساتھ جا کر کھیلو۔‘‘ شلپا خاموشی سے ہٹ گئی جیسے کئی دنوں سے اس قسم کی تنبیہ سننے کی عادی ہو چکی ہو۔

    ’’آرادھنا! تمہیں اس اجنبی علاقے میں ڈر نہیں لگتا۔‘‘ میں نے اپنائیت سے پوچھا۔ آرادھنا مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں ہمیشہ کی طرح سادگی تھی، ’’نہیں۔ اچھا لگتا ہے۔ اب مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘ ہم دونوں کچھ دیر خاموش رہے۔

    ’’بھابھی جی اور بچے کیسے ہیں؟‘‘ آرادھنا نے پوچھا۔

    ’’سب اچھے ہیں۔ طوفان نے البتہ سب کو ہلا دیا ہے۔ وہ لوگ بمبئی میں ہی ہیں۔ اب تم بتاؤ کہ تم ان بچوں کو کیسے نارمل کر رہی ہو۔‘‘ پھر آرادھنا مجھے سمجھاتی رہی کہ کئی لوگوں کے ساتھ اس کی ٹریننگ ہوئی جس میں چائلڈ سائیکلوجی کے ڈاکٹر بھی آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ان بچوں کو کھانے پینے کی طاقتور چیزیں دی جائیں۔ وٹامن بھی لکھے ہیں۔ بتایا کہ یہ بچے جس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اس میں فرق نہ کرنا، ورنہ یہ اپنی جڑ سے اکھڑ جائیں گے۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ بچے صبح شام کچھ نہ کچھ کھیلیں۔ بیچ میں انہیں آسان آسان طریقے سے کچھ پڑھا دیا کرو تاکہ ان کا ذہن مصروف رہے اور سب سے اہم بات یہ کہ بچے مسکرانا سیکھ جائیں۔

    ’’مسکرانا سیکھ جائیں؟ مطلب؟‘‘ میں حیران ہوا۔

    ’’اپنے ماں باپ کو کھو کر یہ بہت سہم گئے ہیں۔ پورا طوفان انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کے ذہن میں وہی تصویریں گھومتی رہتی ہیں۔ کیسے مسکرائیں؟‘‘ آرادھنا دکھ کے ساتھ بولی۔

    ’’پھر اس کے لیے کیا ترکیب کی جاتی ہے؟‘‘

    ’’وہ مشکل ترکیب ہوتی ہے۔ کسی کو دکھی کرنا آسان ہوتا ہے، خوش کرنا بہت مشکل۔‘‘ یہ کہہ کر آرادھنا چپ ہو گئی۔

    ’’تم کیسے مسکرانے پر مجبور کرتی ہو؟‘‘

    ’’مجبور نہیں کرتی۔ بہلا بہلا کر خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

    ’’بچے کیسے مسکرائے؟‘‘ میری آنکھوں میں جستجو دیکھ کر آرادھنا خوش ہو گئی۔

    ’’ابھی بتاتی ہوں۔ ان میں ایک بچی ہے پورنیما۔ آٹھ برس کی ہے۔ دونوں ماں باپ آنکھوں کے سامنے طوفان میں بہہ گئے۔ یہ ایک پیڑ سے چپکی رہ گئی۔ بچ گئی۔ آج اسے بہت بہلایا ہے۔ کہا ہے کہ لطیفے سناؤں گی۔ ابھی بلاتی ہوں۔‘‘ آرادھنا اندر گئی اور ایک دبلی پتلی گول چہرے اور سانولے رنگ کی بچی کو لے کر باہر آئی جس نےاودے رنگ کا دیہاتی فراک پہن رکھا تھا۔ وہ سہمی ہوئی ہرنی کی طرح ہمارے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ اس کی ٹانگیں دھیرے دھیرے کانپ رہی تھیں۔

    ’’پورنیما کرسی پر ہی بیٹھ جاؤ۔‘‘ آرادھنا نے ملائم آواز میں کہا۔ پورنیما برابر کی کرسی پر بیٹھ گئی۔

    ’’ارے ہمیں بہت پیاس لگی ہے۔ یہ ہمارے دوست ہیں تمہارے انکل۔ ہم دونوں کے لیے پانی، ٹھنڈا پانی اچھے والے گلاس میں لا سکتی ہو؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ اس کا سانولا چہرہ گلابی سا ہو گیا۔ وہ چلی گئی تو آرادھنا بولی، ’’اپنے ہاتھ سے کوئی کام کریں تو بچوں میں اعتماد جاگتا ہے۔ تبھی انہیں اپنی شخصیت پر بھروسہ ہوتا ہے۔ جب شخصیت پر اعتماد ہوتا ہے تو انسان مسکرا بھی سکتا ہے۔‘‘ ٹین کی ایک ٹرے میں شیشے کے دو گلاسوں میں وہ میلا میلا پانی لے آئی۔ آرادھنا کے اشارے پر میں نے پانی پیا۔ آرادھنا نے بھی پیا۔

    ’’پورنیما۔ ہم نے کل وعدہ کیا تھا آج تمہیں ایک جوک سنائیں گے۔ تم نے ہمیں پانی پلایا۔ ہم بدلے میں جوک سنائیں گے۔‘‘ پورنیما کی آنکھیں ایک لمحے کو چمکیں۔

    ’’سنو۔ ایک خرگوش تھا۔ وہ تالاب کے کنارے گیا اور تالاب میں نہاتے ہاتھی سے بولا، اے ہاتھی کے بچے باہر نکل۔ جلدی نکل۔‘‘ پورنیما چمکتی ہوئی آنکھوں سے آرادھنا کے ہونٹوں کو دیکھتی رہی۔ ’’ہاتھی بے چارہ سونڈ ہلاتا باہر نکل آیا۔‘‘ یہ کہہ کر آرادھنا نے ہاتھی کی سونڈ ہلانے کی نقل اپنے ہاتھ کو لہرا لہرا کر کی۔ ’’ہاتھی نے باہر نکل کر پوچھا، ’میاں خرگوش! تم نے مجھے باہر کیوں بلایا۔ میں تو چپ چاپ نہا رہا تھا۔ تو خرگوش بولا، اب تم جا سکتے ہو۔ میرا انڈرویئر کھو گیا تھا۔ مجھے شک تھا کہیں تم اسی کو پہن کر تو نہیں نہا رہے ہو۔‘‘ پورنیما مسکرا پڑی۔ مجھے خود ہنسی آ گئی۔ آرادھنا بھی مسرور آنکھوں سے ہنس رہی تھی۔

    ’’اچھا پورنیما۔۔۔ اب تم جاؤ۔ تمہارے پڑھنے کا ٹائم ہو رہا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر دھیمے دھیمے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ تب آرادھنا نے بتایا، ’’پچھلے دو ہفتوں سے دن رات لگی ہوئی ہوں تب یہ بچے مسکرائے ہیں۔ بس ایسے ہی کسی نہ کسی طرح ان کو ان کی شخصیت پر بھروسہ دلاکر انہیں اچھی اچھی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعہ خوش کر کے مسکرانے پر لے آتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے ٹریننگ کے دوران بتایا تھا کہ اتنی بڑی ٹریجڈی کے بعد بچے مسکرائے نہیں تو ان کی آتما پر تالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ اکیلی بچی تھی جو اب تک نہیں مسکرائی تھی۔ آپ کے آنے کی برکت سے یہ مرحلہ بھی آسان ہو گیا، ورنہ کل بہت مشکل ہوتی۔‘‘

    ’’کیوں۔ کیا مشکل ہوتی؟‘‘

    ’’کل ان سب بچوں کا گروپ فوٹو ہوگا جو ایک بڑے میگزین میں چھپے گا اور ان بچوں کی مدد کے لیے ریلیف فنڈ کی اپیل بھی چھپے گی۔ فوٹوگرافر کہتا، ’اسمائل‘ اور یہ لوگ چپ چاپ کھڑے رہتے، تو مجھے کتنا افسوس ہوتا کہ اتنے سارے دنوں کی محنت برباد گئی۔‘‘

    ’’سرکار سے بھی تو ریلیف فنڈ ملا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’مجھے ریلیف فنڈ جمع کرنے والے کاموں کا کوئی تجربہ اور معلومات نہیں ہے۔ سرکاری ریلیف کا حال آپ کو بھی معلوم ہے۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ جس آرگنائزیشن کو میں نے اپنی ایک مہینے کی خدمات والنٹئر کی ہیں وہ یتیم بچوں کا کام سنبھالنا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ اپنا ریلیف فنڈ الگ سے بنانا چاہتی ہے۔ کل آپ بھی آ جائیےگا۔ کچھ دیر اچھا وقت کٹ جائےگا۔ ان لوگوں سے بھی ملاقات ہو جائےگی۔‘‘

    ’’ضرور آؤں گا۔ اب چلوں۔ ماں انتظار کر رہی ہوں گی۔ تم بھی گھر آؤنا۔‘‘

    ’’پھر آؤں گی۔ ان بچوں کو ایک منٹ بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

    گھر پہنچ کر رات کو میں نے پھر کھڑکی کھولی۔ آج بھی چاندنی خوب تھی۔ مجھے آرادھنا کی باتیں یاد آنے لگیں۔ آرادھنا عزت نفس والی شریف نیک دل لڑکی تھی۔ شوہر نے جب دن رات بےعزتی شروع کر دی تو وہ خاموشی سے عدالت کے ذریعہ اپنی بچی کو لے کر الگ ہوگئی۔ معاشی طور سے اسے کوئی فکر نہیں تھی۔ اسے شوہر سے زیادہ تنخواہ ملتی تھی۔ آج سے تین برس پہلے اس سے ایک سرکاری میٹنگ کے لنچ میں ملاقات ہوئی تھی۔ پھر دو ایک مرتبہ اور بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کی ذاتی زندگی کی تفصیلات کا مجھے زیادہ علم نہیں تھا مگر اس کی سادگی اور نیک دلی نے مجھے ہر ملاقات میں متاثر کیا تھا۔ کھڑکی کے باہر چاندنی رات میں مجھے پھر اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادگار جگہوں کے نشانات کے کھنڈر نظر آئے۔ میرا دل پھر اداس ہو گیا۔ تبھی مجھے ایسا لگا جیسے میرے دماغ میں ایک روشنی کا جھماکا ہوا ہو۔

    ان بچوں کے ماں باپ ان کی آنکھوں کے سامنے ختم ہوئے ہیں تب بھی یہ مسکرا رہے ہیں۔ آرادھنا کتنی محنت سے ان کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ میں مرد ہوں۔ مٹی کے کچھ گھر، کچھ درخت اگر نہیں رہے تو کیا میں انہیں زندگی بھر یاد کر کے اداس ہوتا رہوں گا۔ آنکھیں ننداسی ہونے لگی تھیں۔ میں نے آہستہ سے کھڑکی بند کی اور سونے جاگنے کی کیفیت میں محسوس کیا کہ دل کسی ایک لمحہ کے لیے بہت مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر دوسرے ہی لمحے بہت بیزار۔ اسی کیفیت میں صبح ہو گئی۔

    گیارہ بجے جب میں آرادھنا کے دفتر پہنچا تو وہاں کیمرہ مین اور ریلیف آرگنائزیشن کے لوگ پہنچ چکے تھے۔ آرادھنا نے میرا سب سے تعارف کرایا۔ وہ لوگ گرم جوشی سے ملے اور بتاتے رہے کہ کیسے انہوں نے بارہ سال پہلے بھی اسی علاقے میں یتیموں کا کام سنبھالا تھا اور کس طرح انہوں نے مغربی گھاٹ کے زلزلوں کے بعد وہاں کے پچاس بچوں کے واسطے زبردست ریلیف مہم چلائی تھی۔ ٹائی باندھے ہوئے ایک شخص نے بہت اعتماد کے ساتھ اسے بتایا کہ ریلیف کا کام آسان نہیں ہوتا۔ کسی کی جیب سے پیسہ نکالنا آج کے زمانے میں بہت مشکل کام ہے۔ لیکن ہم لوگ اسپیشل طریقے سے میڈیا کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو موم کر لیتے ہیں۔ آپ تھوڑے دن بعد میگزین کا اشو پڑھئےگا تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف اسی ایک فوٹوگراف کے چھپنے کے بعد چیک اور ڈرافٹ کا تانتا لگ جائےگا۔ ہماری آرگنائزیشن سے بہتر کوئی بھی ریلیف فنڈ نہیں جمع کر سکتا۔

    ٹائی والے شخص نے اپنی سنہری گھڑی میں وقت دیکھا اور فوٹوگرافر سے کہا، ’’آپ ہمارے لیے نئے فوٹو گرافر ہیں۔ اس لیے آپ کو بتا رہے ہیں کہ دو تین فوٹو ایک ساتھ لے لیجیےگا۔ کبھی کبھی ایک آدھ ہل کر خراب بھی ہو جاتا ہے۔‘‘ فوٹو گرافر نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ابھی دس پندرہ منٹ اور رک جائیے۔ دھوپ تھوڑی اور اوپر آ جائے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بے چینی سے کہا، ’’مگر جلدی کیجیے۔ اس سے زیادہ دیر نہیں۔ آج ہمیں چار گروپس کے فوٹو گراف لینا ہیں۔ انہیں کاموں میں کئی دن سے سو نہیں سکا ہوں۔ یہ سب کام آسان نہیں ہوتے۔ جی جان ایک کر دینا پڑتا ہے۔‘‘

    فوٹو گرافر کیمرہ فٹ کرنے لگا۔ میں ٹائی والے شخص کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھ گیا۔

    ’’مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ آرادھنا نے تمام بچوں کو خوش کر دیا ہے۔ کل وہ آخری لڑکی بھی مسکرائی جو اب تک نہیں مسکرائی تھی۔‘‘ آرادھنا اندر ہال میں بچوں کو تیار کر رہی تھی۔

    ’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ در اصل وہ پورا کام ہمارے ایک اور اسپیشلسٹ دیکھتے ہیں۔ میں صرف فوٹو گراف کرا کے میگزین سے رابطہ کر کے چیک وصول کرکے بینک میں ڈالتا ہوں۔‘‘ مجھے یہ ساری باتیں سن کر اچانک بیزاری سی محسوس ہونے لگی۔ میں نے ہال کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی آرادھنا مسکراتے ہوئے بچوں کو لے کر باہر آئے گی۔ تبھی آرادھنا بچوں کو لے کر باہر نکلی۔ سب کے منھ دھلے ہوئے تھے اور کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سب کے سب مسکرانے پر آمادہ نظر آ رہے تھے۔ آرادھنا نے آتے آتے رک کر مڑ کر سب بچوں کو دیکھا۔ سب کو خوش دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان کا اجالا پھیل گیا۔ تمام بچے قطار سے کھڑے ہو گئے۔ ٹائی والا شخص باہر اپنے ڈرائیور سے بات کرنے گیا ہوا تھا۔ آرادھنا میرے پاس کھڑی تھی۔ شلپا کو اس نے اپنے کمرے سے باہر نہیں آنے دیا تھا۔ فوٹو گرافر لمبائی کے حساب سے سب کو ترتیب میں کھڑا کر رہا تھا۔

    ’’آج تو آرادھنا! یہ سب مسکرا رہے ہیں۔ اسی لیے تم بہت خوش ہو؟‘‘ آرادھنا نے ہولے سے ’’ہاں‘‘ کہا اور میری طرف ممنون نگاہوں سے دیکھا جیسے اپنی کارکردگی کی تعریف پر خاموش شکریہ ادا کر رہی ہو۔ پھر اس نے دھیمے دھیمے کہا، ’’میں نے خود اتنے دکھ جھیلے ہیں کہ میرا جی یوں بھی چاہتا ہے کہ بچے سدا مسکراتے رہیں۔ کوئی انہیں دکھی نہ کرے۔ سمندر کا طوفان ہفتے بھر میں ختم ہو جاتا ہے پر اس کے زخم پانچ سات برس میں بھر پاتے ہیں۔ لیکن آتما کے طوفان کی بھرپائی جیون بھر نہیں ہو پاتی۔ زندگی ایک ناسور بن جاتی ہے۔‘‘ اس کی گہری گہری آنکھیں چھلکنے کے قریب تھی۔

    ’’میں تمہاری باتیں سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا یہ کامیابی کہ تم نے پچاس یتیم بچوں کو ہمیشہ کے لیے مسکراہٹ دے دی، تمہارے بہت سے دکھوں کو دور نہیں کر دےگی؟‘‘ میں نے اس کے کانپتے ہوئے ٹھنڈے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔

    ’’ہاں کر دےگی۔‘‘ وہ موٹی موٹی آنکھوں سے مسکرائی، ’’اسی لیے تو میں بہت خوش ہوں بلکہ کل شام سے خوش ہوں جب وہ آخری بچی پورنیما مسکرائی تھی۔‘‘

    فوٹوگرافر نے ایک دیوار کے سہارے قطار میں بچوں کو کھڑا کر دیا تھا۔ چھوٹے بچے بچیوں کو زمین پر بٹھا دیا تھا۔ نیلے، ہرے، سرخ اودے، دھاری دار، چٹک دار اور گل بوٹے والے کپڑے پہنے بچے مطمئن اور پرجوش نظر آرہے تھے۔ آرادھنا نے اٹھ کر فوٹو گرافر کو کچھ بتایا۔ فوٹو گرافر نے مسکرا کر سر ہلایا۔ پاس آکر بولی، ’’میں کہہ رہی تھی فوٹوگرافر سے کہ کلک سے پہلے ’اسمائل‘ بول دے۔ میں نے رات اور صبح کو بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔‘‘

    ’’یس ریڈی۔۔۔‘‘ فوٹوگرافر نے کیمرہ آنکھ سے لگاکر فوکس برابر کیا۔

    ’’اسمائل۔۔۔ مسکراؤ۔‘‘ سارے بچے مسکرا دیے۔ کلک۔ روشنی کا جھماکا۔ ’’تھینک یو۔‘‘

    ’’ایک سیکنڈ رکو۔ پھر اسمائل۔ یس۔ ریڈی۔‘‘ کلک۔ روشنی کا جھماکا۔ ’’تھینک یو۔‘‘

    اسی وقت ٹائی والا ڈرائیور سے بات کر کے دروازے میں داخل ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ تیز آواز میں کچھ بولا۔ اس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ ٹھیک سے بول ہی نہیں پا رہا تھا۔ اس کے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس نے بچوں کو وہیں کھڑا رہنے کا اشارہ کیا اور فوٹو گرافر کو الگ لے جاکر ڈانٹنے لگا۔

    ’’فوٹوگرافر کا ہاتھ ہل گیا ہوگا۔‘‘ میں نے آرادھنا سے کہا۔

    ’’ہوسکتا ہے۔ نیا فوٹوگرافر لگتا ہے‘‘ آرادھنا بولی۔

    فوٹوگرافر سر جھکائے جھکائے ٹائی والے کی ڈانٹ سنتا رہا۔ اس نے پھر آکر کیمرہ فوکس کیا۔

    ’’ریڈی۔۔۔‘‘ وہ چلایا۔

    اب ٹائی والا ان بچوں کی طرف بڑھا اور بولا، ’’ایک تو نہا دھو کر کنگھی کر کے آئے ہو، اوپر سے فوٹو کھنچواتے وقت مسکراتے بھی ہو۔ کون تمہیں اناتھ سمجھےگا۔ کون تمہارے لیے پیسے بھیجےگا۔ کس کو وشواس ہوگا کہ تمہارے ماں باپ مر چکے ہیں؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر بچوں کے سنوارے ہوئے بالوں کو بکھیر دیا اور فوٹو گرافر نے جیسے ہی ’’ریڈی‘‘ کہا۔ ٹائی والا زور سے غرایا، ’’خبردار جو کوئی بھی مسکرایا۔ چپ چاپ بیٹھے رہو۔ مسکرانا مت۔‘‘

    ’’یس!‘‘ فوٹوگرافر چلایا۔ سارے بچے اجڑے بالوں کے ساتھ سہمے سہمے بیٹھے رہے۔ کلک۔۔۔ پھر کلک۔۔۔ پھر کلک۔ ’’تھینک یو۔‘‘ فوٹو گرافر نے عادتاً کہا۔ وہ پسینے سے نہا گیا تھا۔ اچانک بچوں میں سے پورنیما دوڑتی ہوئی نکلی اور خاموش کھڑی آرادھنا کا ہاتھ پکڑ کر بے چینی کے ساتھ کچھ بولنا چاہا، ’’آنٹی! ہمیں اب مسکرانا ہے۔۔۔ کہ چپ رہنا ہے۔‘‘

    اس کی ہلکی بھوری آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ اس نے کچھ اور بولنا چاہا لیکن آواز اس کی حلق میں پھنس گئی۔ میں نے دیکھا اس کی ہلکی بھوری آنکھیں حیرت سے پھٹی کہ پھٹی رہ گئیں تھیں۔ باقی بچے منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے کبھی آرادھنا کو دیکھ رہے تھے کبھی مجھے، کبھی ٹائی والے کو، کبھی فوٹوگرافر کو۔

    میں نے آرادھنا کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس نے میری نظروں سے آنکھیں چرا لیں اور نیچے سر جھکا لیا تو وہاں اسے ایک بچی کی سوال کرتی پھٹی پھٹی آنکھیں نظر آئیں۔ اس سوال کی شدت سے بچنے کے لیے آرادھنا نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ دھیرے سے پورنیما کی آنکھوں پہ رکھ دیا۔ اسی وقت ہوا اچانک تھمی تھی۔ چند لمحوں کا یہ وقفہ خاموشی کا تھا مگر ایسی خاموشی جس میں تیز سیٹیاں بجتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ میں نے آرادھنا کی مایوس آنکھوں میں جھانکا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ ایک گہرا اور اجنبی سناٹا سارے میں پھیل گیا تھا اور اسی وقت، بالکل اسی وقت ہم دونوں نے شاید ایک ساتھ ایک ایسی آواز سنی جیسے بےشمار وحشی درندے اپنے اپنے سہمے ہوئے شکاروں پر آہستہ آہستہ داؤ لگا کر اچانک غرا کر ٹوٹ پڑے ہوں۔

    مأخذ:

    باد صبا کا انتظار (Pg. 33)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: اطہر عزیز
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے