Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اے دل اے دل

جیلانی بانو

اے دل اے دل

جیلانی بانو

MORE BYجیلانی بانو

    کہانی کی کہانی

    نادیدہ محبوبہ کے عشق میں مبتلا ہونے کی دلچسپ داستان ہے۔ اس میں انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ محمود ایک شرمیلا اور بھولا سا کالج کا طالب علم ہے جبکہ اس کا دوست طارق ایک منچلے قسم کا نوجوان ہے، جو راہ چلتے لڑکیوں پر پھبتیاں کسنے اور بالکنیوں میں کھڑی دوشیزاؤں کو دیکھ کر آہیں بھرنے سے بھی بھی باز نہیں آتا۔ ایک دن طارق نے حسب عادت بالکنی میں کھڑی ایک لڑکی کو دیکھ کر آہیں بھرنی شروع کیں اور پھر اس کی تعریفوں میں قصائد پڑھنے شروع کر دیے۔ محمود پر ان تعریفوں کا عجیب نفسیاتی اثر ہوا، کچھ تو طارق کی چرب زبانی اور کچھ اپنے فطری تجسس کی بنا پر وہ نادیدہ محبوب کی محبت میں مبتلا ہوتا گیا۔ اپنے غم کو غلط کرنے کی خاطر اس نے شاعری شروع کر دی اور بہت جلد اس کا شمار شہر کے مشور شاعروں میں ہونے لگا۔ شادی کی طرف سے اس کا دل اچاٹ تھا لیکن بہنوں کے اصرار سے مجبور ہو کر اس نے شادی کر لی، تین بچوں کی پیدائش کی باوجود وہ اپنی بیوی کو محبت اور توجہ نہ دے سکا۔۔۔ دس سال کے بعد جب طارق اس کے گھر آتا ہے اور اس کی بیوی کو دیکھتا ہے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ محمود جس نادیدہ محبوبہ کے فراق میں گھلے جا رہے ہیں وہ ان کی یہی بیوی ہے۔

    یہ عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔ مل جائے تو نظر نہیں آتی اور نہ ملے تو اس کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ میں نے زندگی بھر کیا کیا ہے تو میرا جواب یہی ہوگا کہ میں نے صرف عورت کی خوبصورتی کا زہر پیا ہے۔ یہ زہر میری رگ رگ میں دوڑ رہا ہے۔ یہ میری ساری زندگی میں کڑواہٹ گھول گیا ہے۔ آج کیسی سرد رات ہے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے برف ہوتے جا رہے ہیں۔ باہر ہوا کتنی تیزی سے چل رہی ہے۔ جیسے بند دروازوں اور بند دلوں کو آج جھنجھوڑنے پر تلی ہوئی ہو۔ یہ تیز ہوا آج ہر بدن کو سرد کر دےگی۔ ہر دل کی بھڑکتی ہوئی آگ بجھا دےگی۔

    آج دس برس کے بعد طارق آیا تھا مگر وہ اپنے ساتھ کیا کیا لے گیا۔ میں اس آدمی کی طرح گرا جا رہا ہوں جس کے سر پر دس برس تک دس من بوجھ رکھا ہو۔ میں نے شام سے اب تک شراب کی دو بوتلیں چڑھا ڈالی ہیں۔ لیکن پتہ نہیں آج شراب کو بھی کیا ہو گیا ہے۔ آج میری شاعری کہاں چلی گئی۔ آج میرے موڈ کو کیا ہو گیا۔ سب میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ کوئی میرے پاس نہیں ہے۔۔۔ جمیلہ بھی۔۔۔ و ہ اپنے بچوں کو سینے سے لگائے گرم لحاف میں دبکی بڑے سکھ کی نیند سو رہی ہے۔ کتنا سکون ہے میری بیوی کے چہرے پر۔۔۔ وہ بالکل نہیں جانتی کہ اس نے اپنی معصومیت، اس دہکتے ہوئے حسین چہرے کی آگ سے کسی کی پوری زندگی تباہ کر ڈالی ہے۔

    کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں نے زندگی بھر کیا کیا ہے؟ بس یہی ناکہ ایک عورت کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے انتظار کرتا رہا۔ اس انتظار میں لڑکپن سے بڑھاپے کی سرحد پر آ لگا۔ اسی دھن میں زندگی کے سارے لطف، تمام مزے، امنگوں کی عمر کا تمام حسن۔۔۔ سب میرے آس پاس سے مجھے چھوئے بغیر گذر گئے۔

    اپنے اوپر لحاف کھینچ کر میں تاریکی کی گود میں چھپ جاتا ہوں، جیسے اب مجھے باہر کی روشنی سے، تیکھی سرد رات سے، اور بے خود بنا دینے والی چاندنی کے جادو سے کوئی سروکار نہ ہو۔ اندھیرے میں پوری طرح آنکھیں کھول کرمیں پندرہ سال پہلے کی زندگی کی ایک ایک یاد کو سامنے رکھ رہا ہوں۔ وقت کی گرد جھاڑ پونچھ کر انہیں چمکا رہا ہوں۔

    میں اس وقت کہاں ہوں۔ کہاں آ گیا ہوں؟ میرے پاس پلنگ پر میرے تینوں بچے سو رہے ہیں اور وہ۔۔۔ وہ عورت جو میری بیوی ہے۔۔۔ وہ ہمیشہ دوسرے پلنگ پر اپنے بچوں کے ساتھ سوتی ہے، کیوں کہ میں ہمیشہ اس سے بہت دور رہا ہوں۔ جب کبھی دو پیسے کی ٹکیہائی کی طرح ذرا دیر کے لئے میں اسے اپنے پاس بلاتا تو میرے تصور میں کوئی اور عورت ہوتی اور اس وقت میں یہ سوچ سوچ کر حسد کی آگ میں جلنے لگتا کہ وہ بھی کسی مرد کی بانہوں میں ہوگی۔ پھرمیں جمیلہ کو پلنگ پر دھکیل دیتا تھا اور اپنی سسکیوں کو حلق میں دبا کرخود ہی پلنگ پر گر جاتا تھا۔ کچھ دن بعد جمیلہ اس بھید کو سمجھ گئی تھی۔ ایسے وقت وہ میرے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگتی، اپنے گال میرے کاندھے سے لگا کر کہتی، ’’کبھی مجھے بھی تو بتائیے وہ کون تھی؟ کہاں ہے؟‘‘

    اس رات ہم دونوں جاگتے تھے۔ میں اس کی یاد میں، اور جمیلہ میرا ساتھ دینے کے لئے۔ جمیلہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہوتا۔ جمیلہ کے کاندھے پر میری گردن ہوتی۔ اس کے کھلے ہوئے بال میرے آنسوؤں سے بھیگ جاتے، کیسی عجیب عورت ہے یہ جمیلہ۔۔۔ مجھے اکثر تعجب ہوتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر کیوں نہیں چلی جاتی؟ وہ مجھ سے کیا پانے کی امید میں بیٹھی ہے؟ جمیلہ کی اسی ادا نے مجھے گھیرے رکھا تھا اور اسی چکر میں آکر میں اس کے تین بچوں کا باپ بن گیا۔ حالانکہ میرا دل ابھی تک کنوارا تھا۔ میں نے اپنی چاہت، اپنی پیاس، اپنی محبت کا ہیرا ابھی تک اپنے ہی دل میں چھپائے رکھا تھا۔

    مرد کی بھی عجیب ذات ہوتی ہے۔۔۔ عشق کے دھندے میں وہ کبھی بیوی کو شامل نہیں کرتا۔ بیوی روٹی سالن کی طرح زندگی کی ایک ضرورت بن جاتی ہے، لیکن اس کی زندگی کی تکمیل ہمیشہ محبوبہ سے ہوتی ہے۔ وہ ان کہا جذبہ، وہ بے نام سی تڑپ، دل کی وہ گرہیں جو کسی کے چاہنے سے کھل جاتی ہیں، میرے دل میں بند پڑی تھیں اور میں پروا میں دکھنے والے زخم کی طرح یادوں کے گھاؤ کو سمیٹے بیٹھا تھا۔ ایک ایسے دکھ کو جو صرف میرا تھا۔ مجھے خود یاد نہیں تھا کہ یہ قصہ کب شروع ہوا تھا۔

    میں فرسٹ ایر کے لئے پہلی بار کالج گیا تو طارق سے دوستی ہو گئی۔ اس سے پہلے میں ایک اماں کی سخت نگرانی میں پلا ہوا ہائی اسکول کا ایک بھولا بھالا لڑکا تھا۔ کبھی اکیلے سنیما جانے کی اجازت ملی تھی نہ رومانی ناول پڑھنے کی۔ اماں ظالم بادشاہوں کی طرح نگرانی کرتی تھیں۔ اور ابا کہتے تھے کہ لڑکوں کا کام صرف یہ ہے کہ دن رات آنکھوں سے کتابیں لگائے رکھیں۔ میں بھی اپنی اس حالت پر قانع ہو چکا تھا کہ شریف لڑکوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔ مگر کالج میں طارق کیا ملا کہ اس نے اماں کے سارے احکام دماغ سے نکال پھینکے۔ طارق بڑا چھٹا ہوا تھا۔ وہ میرے سامنے ایسی ایسی باتیں لے بیٹھتا کہ گھبراہٹ کے مارے میرا برا حال ہو جاتا تھا۔ وہ دنیا کی ہر بات جانتا تھا۔ محلے کی لڑکیوں سے عشق لڑاتا تھا اور چھپ چھپ کر سگریٹ بھی پیتا تھا۔ میں طارق سے دور دور رہنا چاہتا تھا مگر کوئی انجانی کشش مجھے اس کے قریب کھینچ کر لے جاتی تھی۔

    طارق بڑا باتونی اور بے باک تھا۔ راستہ چلتی لڑکیوں کو دیکھ کر بےجھجک سیٹیاں بجاتا، ان کے ناک نقشے پر فقرے کستا، ان کی اداؤں کا ذکر کر کے محبت کے نعرے لگاتا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بڑی شرم آتی تھی۔ اس کے باوجود میں گم صم اس کے ساتھ ساتھ چلتا۔ ایک دن ہم دونوں کالج جا رہے تھے کہ اچانک طارق نے کہیں اوپر دیکھتے ہوئے کہا، ’’کھڑی ہے۔۔۔ کھڑی ہے۔۔۔ ارے! ہائے ہائے! اندر چلی گئی!‘‘

    ’’کون؟ کون تھی؟‘‘ میں نے اوپر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’ہائے ہائے! کیا چیز ہے ظالم میں تجھے بتانہیں سکتا۔ یار یہ بتا تجھے شاعری کرنا آتی ہے؟‘‘

    ’’شاعری۔۔۔؟‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’بس تھوڑی تھوڑی آتی ہے۔ اصل میں ابا بڑے اچھے شاعر ہیں۔‘‘

    ’’ارے ہٹا یار۔۔۔ ہمیں ایسی باسی، پھیکی سیٹھی پھٹیچر شاعری نہیں چاہئے۔۔۔ کاش، کاش۔ ہائے کاش کوئی شاعر اسے دیکھ لے۔‘‘

    ’’کسے؟‘‘ میں نے پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    ’’ارے اسی پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ کو۔۔۔ یار خدا کی قسم رنگ تو ایسا جیسے گلاب جامنوں کا کھویا گندھا رکھا ہو۔۔۔ اور ہونٹ ایسے رسیلے کہ۔۔۔ کہ۔۔۔‘‘ وہ بڑی شرارت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میرے تو جانے کیوں ہاتھ ہاؤں ٹھنڈے ہونے لگے۔ اس دن کلاس میں مجھے کچھ سنائی نہیں دیا۔ گھر آیا تو اختلاج سا ہو رہا تھا۔ میں نے کھانا کھایا اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ دورس بھرے نازک سے ہونٹ میرے بالکل قریب آ جاتے تھے اور میں کانپ جاتا۔ پھر گھبرا کر ادھر ادھر دیکھتا کہ کہیں اماں کو تو میرے خیالوں کی آوارگی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس دن اماں کے ساتھ میں کھانا کھانے بیٹھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’اماں! تم گلاب جامن کیوں نہیں بناتیں؟‘‘

    ’’اچھا کل بنا دوں گی۔‘‘ اماں کو طرح طرح کی مٹھائیاں بنانے کا بڑا شوق تھا۔

    ’’اماں، گلاب جامنوں میں کیا کھویا ڈالتے ہیں؟‘‘ میں نے جانے کیوں پوچھ لیا۔

    ’’ہاں کھویا۔۔۔ میدہ۔۔۔ شکر اور گھی۔۔۔‘‘ کھویا۔۔۔ میدہ۔۔۔ شکراور گھی۔ میں نے اپنے ہونٹ دانتوں میں دبا کر سوچا کہ میں بھی شاعری کروں گا۔ اس دن شام ہوتے ہی میں بڑی بےتابی سے باہر نکلا اور اسی جگہ کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک موٹی سی ادھیڑ عمر کی پنجابن سوپ لئے بالکنی میں آئی اور کدو کے بیج اور چھلکے نیچے پھینک گئی۔ پھر دو بچے لڑتے ہوئے گزر گئے۔ ایک موٹا سا سیاہ فام مرد ریلنگ سے نیچے جھک کر ناک صاف کرنے لگا۔ اوپر دیکھتے دیکھتے میری گردن دکھ گئی۔ ڈھیلے ڈھالے قدموں سے میں گھر کی طرف لوٹ آیا۔

    ’’لا یار، ملا ہاتھ گلاب جامن والا۔۔۔ ابھی ابھی جب میں تجھ سے ملنے آ رہا تھا تو۔۔۔‘‘ طارق ہانپ رہا تھا۔

    ’’تو کیا ہوا؟‘‘ میرا دم سینے میں رک رہا تھا۔

    ’’یار آج تو گلابی کپڑے پہنے ہوئے ہے۔ بس کچھ پوچھو نہیں۔۔۔ خدا کی قسم! میں نے تو آج اس کے اوپر سے سورج، چاند، ستارے سب وار کر پھینک دیے۔ شعلے کی طرح دہک رہی ہے کم بخت۔‘‘

    ’’چلو دیکھیں۔‘‘ بےخودی میں طارق کا ہاتھ پکڑ کے میں تقریبا بھاگنے لگا۔

    ’’جو شرٹ الگنی پر پڑی ہے نا، اسی کی ہے۔ کل یہی شرٹ پہنے ہوئے تھی۔‘‘ سیاہ پرنٹیڈ شرٹ الگنی پر جھوم رہی تھی، اترا رہی تھی۔ جیسے ہنس ہنس کر ہم دونوں کو دھتا بتا رہی ہو۔

    ’’بس کمر تو اتنی سی ہے۔‘‘ طارق نے اپنے انگوٹھے اور پہلی انگلی کو ملا کر دائرہ سا بنا دیا۔ میری رگ رگ میں کسی تیز شراب کا نشہ سا دوڑ رہا تھا۔ میرے سامنے ایک ہیولا ابھرا۔ ایک شعلہ بدن، پری رخ، ماہ وش حسینہ۔۔۔ میٹھی میٹھی سحرانگیز۔

    ’’چل یار، گلاب جامن کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ طارق نے تھوک نگل کر کہا۔ حلوائی کی دکان پرجب ہم دونوں کھڑے گلاب جامن کھا رہے تھے تو طارق کو بالکل احساس نہ تھا کہ میرے بدن پر کیسا لرزہ طاری تھا۔

    اتنی پتلی کمر۔۔۔ کیسی نازک ہوگی وہ۔۔۔ بسترمیں لیٹ کرمیں نے سوچا۔ گلابی لباس میں چمکتی، گلاب جامن کی طرح مزے دار۔ میرے سینے میں ہلکا ہلکا سا درد ہونے لگا۔ لڑکپن کی اداسی اور تنہائی نے مجھے آ گھیرا اور ایک غیر محسوس محرومی پر میری آنکھیں چھلک پڑیں۔ میں نے اسے ابھی تک نہیں دیکھا۔ ہلکی ہلکی سسکیوں سے مرا بدن لرزنے لگا۔ جب آدمی کسی ایک کا ہو جائے تو ساری دنیا کتنی بے معنی سی لگتی ہے۔ کیسے اچانک بہت دور چلی جاتی ہے! میرے چاروں طرف اجنبی دیواریں اٹھنے لگیں۔ کہانیوں کے بھولے بسرے کرداروں کی طرح میں اماں ابا اور بہن بھائیوں کو دیکھنے لگا۔ اب میں صرف اسی کا ہوں۔ ایک دن میں نے اپنی نوجوانی کے تمام عزم کوسمیٹ کر ارادہ کیا۔ میں اسی کے لئے پڑھوں گا، اسی کے لئے جیوں گا۔

    ’’ہائے ہائے! ہنستے وقت گالوں پر کیسے پیارے گڑھے سے پڑ جاتے یں۔ جی چاہتا ہے پر لگ جائیں اور اس کے پاس پہنچ جاؤں۔‘‘ طارق آج پھر موڈ میں تھا۔

    ’’کیا تمہیں دیکھ کر ہنسی تھی؟‘‘ میں نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پوچھا۔

    ’’ارے نہیں یار۔۔۔ مگر کبھی نہ کبھی وہ دن بھی آہی جائے گا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہیں سے ہاتھ بڑھا کر اسے نیچے اتار لوں۔‘‘ ہم دونوں کھسیا کے ہنسنے لگے۔

    ’’تونے ابھی تک اسے نہیں دیکھا؟‘‘ ایک دن طارق نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’نہیں! مگر میں تو۔۔۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ۔۔۔ کہ۔۔۔‘‘ میں ہکلانے لگا۔

    ’’ارے یار خدا کی قسم سوچتے تو ہم بھی ہیں۔ مگر کم بخت ہاتھ کیسے لگے؟‘‘

    پھر کچھ سوچ کر طارق نے کہا، ’’سن محمود! وہ کملا نہرو پالی ٹیکنک میں پڑھتی ہے۔ کسی دن ودیا سے ملنے کے بہانے وہاں پہنچ جاؤ۔ ودیا سے اس کی بڑی دوستی ہے۔‘‘

    ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ میں نے تعجب سے سوچا کہ طارق کیسے اتنے بڑے بڑے مرحلے طے کر ڈالتا ہے؟ ودیا ہم دونوں کی دوست تھی اور ہماری کلاس میٹ بھی رہ چکی تھی۔ پھر ایک دن طارق نے ودیا سے کہا، ’’ودیا! ذرا اس شعلہ بدن، پری رخ، ماہ پارہ کی ایک جھلک محمود میاں کو بھی دکھا دو۔ یہ بے چارے بس اس کے تصور ہی میں اپنا دل دھڑکاتے پھرتے ہیں۔‘‘

    ’’تم دونوں تو پاگل ہو گئے ہو!‘‘ ودیا نے برا مان کر کہا، ’’وہ بڑی شریف لڑکی ہے۔ اگر اسے یہ بات معلوم ہو گئی تو سچ کہتی ہوں کہ وہ بدنامی کے ڈرسے زہر وہر کھالےگی۔‘‘

    ودیا چلی گئی تو میرے پاؤں من من بھر کے ہو گئے۔ میر، درد، غالب اور داغ کے جانے کتنے شعرمیرے کانوں میں گونجنے لگے۔ چلمنوں کے پیچھے سے دیکھنے والے اس مکھڑے پہ میں سو جان سے نثار ہو گیا۔ ایک پردہ نشین حسینہ کے تصور کو میں نے اپنے ہوس آلود دل سے بہت اوپر بٹھایا۔ کئی بار میں کملا نہرو پالی ٹیکنک گیا۔ مگراس خیال سے دل دہل دہل گیا کہ کہیں میری نظر اس پر نہ پڑ جائے۔ وہ ایک ماورائی ہستی تھی جس کے گرد میں گھوم رہا تھا۔ میں اسے پانے کی جستجو میں مرا جا رہا تھا اور اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ آج میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسا افلاطونی عشق تھا میرا، مگراس وقت انگریزی ناولوں، اردو شاعری اور نیو تھیٹئرز کی فلموں نے میری اٹھتی جوانی کو ایک ایسا رومانی سا رنگ دیا تھا جس سے باہر نکلنا مشکل تھا۔

    جب دل میں کوئی بھید ہو تو بدن کیسا بھاری بھاری لگتا ہے۔ یادوں کے بادل ہر وقت چھائے رہتے۔ پھراچانک کہیں سے اندھیاری سی آ جاتی اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ دور کہیں سے اپنے آپ کو خوابوں کے دشت میں تنہا بھٹکتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ یہ سب کیسے ہوگیا تھا! میں خود حیران تھا۔ جب اندھیاری راتوں میں اچانک کہیں سے بادل آ جاتے ہیں اور بجلیاں دل دہلانے پر تل جاتی ہیں تو میں فوراً رضائی میں منھ چھپا کر لیٹ جاتا ہوں۔ میری پانچ برس کی لڑکی راشدہ ہنس ہنس کر کہتی ہے، ’’ابا بجلی سے ڈرتے ہیں۔‘‘ اسے کیا معلوم کہ میں جانے کس کس سے ڈرتا ہوں۔

    ٹھنڈے موتیوں جیسے مینہ کی پھوار میرے دل میں آگ لگا دیتی تھی۔ اسے دیکھنے کے جانے کتنے مواقع آکر نکل گئے، لیکن میرے دل میں اس کا ایک مدھم سا تصور صلیب کی طرح جم گیا تھا۔ میں نے اس موہوم سے ہیولے کو ایک زندہ بدن دے دیا تھا۔۔۔ ایک حیا پرور کردار جس کی عظمت اسے یاد کرنے میں تھی، اسے چھونے یا پانے میں نہیں۔ پھر میں نے شاعری شروع کی۔ ایک شکر لب، شعلہ بدن، پری رخ کے لب ورخسار کی شاعری۔۔۔ طارق نے سنی تو خوب داد دی۔ پھرجب میں نے انجینئرنگ کا ڈپلومہ لیا تو میری شاعری کالج سے نکل کر شہر کے شاعروں تک پہنچ گئی۔ میں کالج کی لڑکیوں کا پسندیدہ شاعر بن گیا۔ لیکن میرے دل کی آگ اور بھی بھڑک اٹھی۔ دکھ اور جدائی کے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے اپنے اشعار پر میں خود ہی روتا تھا۔ طارق میڈیسن میں جا چکا تھا، اس لئے اس موضوع پر بات کرنے والا اب کوئی نہ رہا تھا۔

    کئی بار میری صورت پر برستے ہوئے سوال میری بہنوں نے پڑھ ڈالے اور اصرار کیا کہ میں اپنے لئے کوئی لڑکی تلاش کروں۔ مگر میں اسے کہاں ڈھونڈتا۔ وہ بالکنی تو اب خالی ہو چکی تھی۔ کئی بار ودیا سے ملا مگر کچھ پوچھنے کی ہمت نہ پڑی۔ اتنے بڑے شہر میں جانے وہ کہاں ہوگی؟ ایک مرتبہ میں سرشام کہیں جا رہا تھا تو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے ساری کائنات گلابی رنگ میں نہا گئی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ میں نے تعجب سے سوچا۔ ضرور وہ یہیں کہیں مسکرا رہی ہوگی۔ دیوانوں کی طرح میں نے سارے محلے کی بالکنیاں، کھڑکیاں دیکھ ڈالیں۔ آخر ایک دن میری بہن نے فیصلہ سنا دیا، ’’ہم نے آپ کے لئے لڑکی دیکھ لی ہے۔ بہت خوبصورت ہے۔ گوری چٹی، ہزاروں میں ایک، ہنستی ہے تو گالوں میں گڑھے سے پڑتے ہیں۔ گلابی کپڑوں میں بالکل گلاب کی کلی سی لگتی ہے۔‘‘ یہ خصوصیات میری بہن نے میری نظموں سے اخذ کی تھیں۔

    پھر وہی ہوا۔۔۔ شادی کی رات میں یوں سسک سسک کر رویا جیسے ہر بازی ہار چکا ہوں۔ پھر میں نے گھونگھٹ اٹھا کے اپنی دلہن کو دیکھا۔ وہ اچھی خاصی، قابل برداشت تھی۔۔۔ اور میں برداشت کئے گیا۔ لیکن اب میری تشنگی اور بڑھ گئی تھی۔ اگر وہ مل جاتی تو۔۔۔

    اپنی بیوی جمیلہ کی جگہ میں نے اسے طرح طرح سجا کر دیکھا۔ مجھے اپنے بچے اس کی گود میں ہمکتے نظر آئے۔ اور میں کھوئی کھوئی نظروں سے ہر طرف اسے ڈھونڈے جاتا۔ ہر خوبصورت عورت میں مجھے اس کی کوئی نہ کوئی ادا ملتی، اور میں چند دن تک اسی عورت کا دیوانہ ہو جاتا۔ اسے یاد کرنے کے لئے میں نے شاعری کو اور اسے بھلانے کے لئے شراب چکھی۔ پھر میں شراب میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔ مگر وہ مجھے اور بھی یاد آنے لگی۔ اس کی یاد میری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی تھی۔ میں سارا دن آفس میں گزارتا، شام کو کلب جا کر شراب میں غرق ہوتا، رات بھر ٹہل ٹہل کر شاعری کرتا تھا۔ میری پہلی بچی لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھنے لگی تھی۔ وہ بھاگتے بھاگتے مجھے پکڑنے کو دوڑتی۔ لیکن میں اسے کیسے تھامتا؟ میں تو خود ہی لڑکھڑا رہا تھا۔

    جمیلہ نے بھی مجھے تھامنے کی بہت کوشش کی۔ پہلے اس نے اپنی شکل و صورت سے رجھانا چاہا۔ پھر اپنی محبت اور خدمت کے پھاہے میرے جلتے ہوئے زخموں پر رکھے اور اس کے بعد مایوس ہوکر گھر کے کام دھندوں میں کھو گئی۔۔۔ لیکن میں نے کبھی جمیلہ کی چاروں طرف سے گھیرتی ہوئی، کچھ مانگتی ہوئی آنکھوں میں کچھ نہیں دیکھا، میں ہمیشہ اس کی طرف سے کروٹ بدل کر سویا۔

    اور آج۔۔۔ آج دس برس بعد طارق آ گیا۔ وہی روشنیاں بکھیرتے ہوئے قہقہے، ویسا ہی تیز طرار۔۔۔ اس نے زندگی کے سارے مزے چکھے تھے۔ چھ سات عشق کئے اور پھر ایک جنبی عورت سے شادی بھی کر لی۔ اس کے باوجود وہ مست تھا، گا رہا تھا، ہنس رہا تھا، مجھے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا، اسے دیکھتے ہی میرے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا۔ میراجی چاہا طارق سے لپٹ کر خوب روؤں۔ وہی تو مجھے اس آگ میں دھکیل گیا تھا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ آج اپنی محرومی کا سارا حال اسے سناؤں گا۔

    میرے اداس چہرے اور آنسوؤں میں بھیگی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’اور سنا یار، اپنے افلاطونی عشق کا انجام؟‘‘ میرے جواب دینے سے پہلے جمیلہ اندر آ گئی۔ ہاتھ میں اسنیکس کی ٹرے لئے نظریں جھکائے چپ چاپ۔ اس نے جھک کر طارق کو سلام کیا تو طارق نے بڑے غور سے اسے دیکھا، پھر ایک دم اچھل پڑا۔ گھبراہٹ میں اس نے کئی سلام کر ڈالے اور جب جمیلہ چائے لانے اندر گئی تو وہ چلا کر بولا، ’’تو یہ بات ہوئی! یار تو تو ہمارا بھی استاد نکلا!‘‘

    ’’کیوں۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ میں پریشان ہو گیا۔

    ’’تو بنا ڈالا تونے اس پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ کو اپنی بیوی! لا یار، ملا ہاتھ گلاب جامن والا۔‘‘

    مأخذ:

    پرایا گھر (Pg. 88)

    • مصنف: جیلانی بانو
      • ناشر: اردو مرکز، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے