- کتاب فہرست 181733
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
جیلانی بانو کے افسانے
اے دل اے دل
نادیدہ محبوبہ کے عشق میں مبتلا ہونے کی دلچسپ داستان ہے۔ اس میں انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ محمود ایک شرمیلا اور بھولا سا کالج کا طالب علم ہے جبکہ اس کا دوست طارق ایک منچلے قسم کا نوجوان ہے، جو راہ چلتے لڑکیوں پر پھبتیاں کسنے اور بالکنیوں میں کھڑی دوشیزاؤں کو دیکھ کر آہیں بھرنے سے بھی بھی باز نہیں آتا۔ ایک دن طارق نے حسب عادت بالکنی میں کھڑی ایک لڑکی کو دیکھ کر آہیں بھرنی شروع کیں اور پھر اس کی تعریفوں میں قصائد پڑھنے شروع کر دیے۔ محمود پر ان تعریفوں کا عجیب نفسیاتی اثر ہوا، کچھ تو طارق کی چرب زبانی اور کچھ اپنے فطری تجسس کی بنا پر وہ نادیدہ محبوب کی محبت میں مبتلا ہوتا گیا۔ اپنے غم کو غلط کرنے کی خاطر اس نے شاعری شروع کر دی اور بہت جلد اس کا شمار شہر کے مشور شاعروں میں ہونے لگا۔ شادی کی طرف سے اس کا دل اچاٹ تھا لیکن بہنوں کے اصرار سے مجبور ہو کر اس نے شادی کر لی، تین بچوں کی پیدائش کی باوجود وہ اپنی بیوی کو محبت اور توجہ نہ دے سکا۔۔۔ دس سال کے بعد جب طارق اس کے گھر آتا ہے اور اس کی بیوی کو دیکھتا ہے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ محمود جس نادیدہ محبوبہ کے فراق میں گھلے جا رہے ہیں وہ ان کی یہی بیوی ہے۔
موم کی مریم
کسی بھی چیز کی قدر تبھی ہوتی ہے جب ہم اس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یادوں کے سہارے چلنے والی یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ اب وہ نہیں ہے لیکن وہ ہر جگہ ہے۔ اسے عایشہ کا خط ملا جس میں قدسیہ کی موت کا ذکر تھا۔ قدسیہ موم کی مریم کی طرح ہر دکھ، مصیبت اور نامساعد حالات کو برداشت کرتی رہی ۔ وہ اس سے ہمیشہ نفرت کرتا رہا ہے اور وہ نظر انداز کیے جانے کے باوجود اس سے محبت کرتی رہی۔
ایک دوست کی ضرورت ہے
یہ ایک ایسے کامیاب شخص کی کہانی ہے جو دولتمند ہو کر بھی تنہا ہے۔ اسے ایک دوست کی ضرورت ہے، جس کے لیے وہ اخبار میں اشتہار دیتا ہے۔ کچھ لوگ اس اشتہار اور اشتہار دینے والے کا مزاق اڑاتے ہیں۔ اشتہار کے جواب میں اگلے ہی دن کچھ لوگ اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ سبھی افراد اپنی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور خود کو اس کی دوستی کے لیے سب سے مناسب امیدوار بتاتے ہیں لیکن اس شخص کو تو کسی اور ہی دوست کی تلاش ہوتی ہے۔
جنت کی تلاش
یہ افسانہ مدرسے کے ایک مولوی کی روداد بیان کرتا ہے جو شرارت کرتے بچوں کو خاموش کرانے کے لیے انھیں جہنم کا خوف دکھاتا ہے۔ بچے انھیں اپنے گھر کے حالات بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس جہنم کی بات آپ کر رہے ہیں وہ تو ہمارے گھر میں ہی ہے۔ تبھی کہیں بم کا دھماکہ ہوتا ہے اور چاروں طرف آگ پھیل جاتی ہے۔ مولانا خدا سے پوچھتے ہیں کہ جب تونے ان بچوں کے لیے دنیا میں ہی جہنم بنا دی ہے، تو اب میں انھیں جنت کی تلاش میں کہاں لے جاؤں۔
یہ شہر بکاؤ ہے
یہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو فروخت ہونے والا ہے اور اسے خریدنے والا اپنی پسند کی ہر چیز خرید سکتا ہے۔ شہر میں موجود لیڈر، مولوی، پنڈت اور ہر قسم کی عورتیں بھی فروخت کے لیے موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ شہر پہلی بار فروخت ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس شہر کو بادشاہوں، نوابوں اور انگریزوں نے کئی بار خریدا ہے۔
بات پھولوں کی
ایک پھول والے کے گرد گھومتی یہ کہانی ہے جو ہمارے سماج اور سماجی ڈھانچے کی روداد بیان کرتی ہے۔ کہانی اس بے رحم سماجی تانے بانے کو بیان کرتی ہے جسمیں خود غرضی عروج پر ہے۔ ایک طرف گاؤں کے بے قصور لاشیں ہیں تو دوسری طرف انتخاب میں کامیاب ایک امیدوار اپنی کامیابی کے جشن کے لیے پھولوں کا ہار بنوا رہا ہے۔
پرایا گھر
مادی دنیا میں خونی رشتوں کا معیار بھی دولت ہے۔ ایکسیڈنٹ میں زخمی ایک شخص کے ذہن پر چوٹ کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ اسے سب کچھ پرایا لگنے لگتا ہے یہاں تک کہ اپنا گھر اور گھر والے بھی۔ اسے خاص نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن گھر کا کوئی فرد اس کے پاس نہیں ہوتا، وہ صرف پنشن کے فارم پر دستخط کرانے اس کے پاس آتے ہیں۔
اجنبی چہرے
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی پہچان کے چہروں کو بھولتی جا رہی ہے۔ لوگوں کے چہروں کو یاد رکھنے کے لیے وہ ان کی باتوں کو یاد کرنے لگتی ہے۔ اسے اپنے شوہر کا چہرہ بھی بھولتا جا رہا ہے۔ ایک دن جب وہ اپنے شوہر کے کہنے پر سجتی سنورتی ہے تو اس کا شوہر کسی اور لڑکی کا نام لے دیتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کا شوہر بھی اس کا چہرہ بھول گیا ہے۔
پتھر کا شہزادہ
آئیے۔۔۔ آئیے میڈم جی۔۔۔ چھوٹے بابا! آپ نے پورے شہر کی سیر کر لی! مگر اس میوزیم کو دیکھے بغیر کینڈا واپس مت جائیے۔ شام ہو گئی ہے؟ اجی میڈم! شام تو روز ہی ہوا کرتی ہے۔ روز مشرق بڑی بھاگ دوڑ کر کے سورج کو دنیا کی طرف گھسیٹ کر لاتا ہے اور روز مغرب
جوائے
ترقی نے انسان کو اقتصادی طور پر مضبوط تو بنا دیا ہے لیکن انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو ایک چھت کے نیچے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے لا تعلق ہیں۔ یہاں ہر فرد اکیلا ہے۔ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے گھر کے سربراہ نے ایک کتا پال لیا ہے جس کا نام جائے ہے۔ اپنا بیشتر وقت وہ جائے کے ساتھ گزارتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی روح جائے کے اندر سما گئی ہے اور جائے کی روح اس کے اندر۔
اپنے مرنے کا دکھ
یہ دوبئی میں کام کرنے والے ایسے شخص کی کہانی ہے جسے اپنے مرنے کی اطلاع ملتی ہے۔ اس خبر سے وہ جس قدر پریشان خود کے لیے ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ گھر والوں کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے گھر فون کرتا ہے اور اپنا نام بدل کر بات کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اسکے والدین اور اس کی بیوی اس کی موت پر غم زدہ ہونے کے بجائے اس کی موت پر ملنے والی رقم کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔
اسکوٹر والا
یہ ایک مشترکہ خاندان کے ٹوٹنے بکھرنے کی کہانی ہے۔ محسن اپنی بیوی عابدہ کے ساتھ اپنے خاندان سے الگ رہنے لگتا ہے۔ ان کا ایک بچہ بھی ہے۔ بچہ دن میں جس وقت سوتا ہے اسی وقت گلی سے ایک سکوٹر والا گزرتا ہے، جسکی آواز سے بچے کی نیند کھل جاتی ہےاور رونے لگتا ہے۔ عابدہ بہت پریشان ہوتی ہے اور کسی کی بددعا جان کر وہ سکوٹر والے کو بددعا دیتی ہے۔ اگلے دن سکوٹر والا نہیں آتا۔ عابدہ پہلے تو اپنی بددعا کا اثر جان کر بہت خوش ہوتی ہے لیکن پھر وہ اس قدر پریشان ہوتی ہے کہ اپنے حواس کھو بیٹھتی ہے۔
ڈریم لینڈ
عورت کی جدوجہد، قربانی اور استحصال کی کہانی ہے۔ ڈریم لینڈ رادھا کشن جاگیردار کی کوٹھی کا نام ہے جو اپنی امارت کی ساکھ بچانے کے لئے جواہرات کو بیچ بیچ کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نینا ان کی خوبصورت ترین لڑکی ہے، اور رحمان سیٹھ ان کی محبوبہ نشاط کے تاجر شوہر ہیں۔ رادھا کشن پچاس ہزار میں نینا کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ اور جب وہ بچہ کی ماں بننے والی ہوتی ہے تو نشاط نینا کو اس کی وفادار اور رازداں ملازمہ روشنی کے ساتھ میسور لے جاتی ہے۔ واپسی پر بچہ روشنی سے منسوب ہو جاتا ہے، لیکن تارہ جو نینا کی کزن تھی، ہمیشہ روشنی پر طنز کرتی رہتی تھی اور نچلے طبقے کی بنا پر نفرت بھی کرتی تھی، راداھا کشن جب الیکشن ہار جاتے ہیں تو تارہ کے اکسانے پر رادھا کشن روشنی کو منحوس سمجھ بیٹھتے ہیں اور گھر سے باہر نکال دینے کا حکم دے دیتے ہیں۔
اسٹل لائف
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو گھر میں تنہا بیٹھا خود کو ٹوٹتا بکھرتا محسوس کرتا ہے۔ اس کے بیوی بچے سیر کے لیے چڑیا گھر گئے ہوئے ہیں۔ وہ لان میں تنہا بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ اخبار پڑھتے ہوئے اسے طرح طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ٹکڑوں میں بکھرا ہوا ہے، بالکل اسٹل لائف کی طرح۔
ایک دن کیا ہوا۔۔۔
ایک ایسی شادی شدہ لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے اسلیے بیزار ہے کہ وہ شاردا نام کی لڑکی سے ملتا رہتا ہے۔ شاردا کے سالگرہ والے دن وہ اسے بتاتا ہے کہ وہ کسی کام سے بمبئی جا رہا ہے۔ اس سے وہ بہت خوش ہوتی ہے مگر شام کو اطلاع ملتی ہے کہ بمبئی جانے والا پلین کریش ہو گیا ہے۔ اس خبر سے وہ ذرا بھی اداس نہیں ہوتی۔ تبھی باہر شور ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر آکر اسے یہ کہتے ہوئے بانہوں میں بھر لیتا ہے کہ وہ تو شاردا کی سالگرہ کی پارٹی میں گیا تھا۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-