Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنت کی تلاش

جیلانی بانو

جنت کی تلاش

جیلانی بانو

MORE BYجیلانی بانو

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ مدرسے کے ایک مولوی کی روداد بیان کرتا ہے جو شرارت کرتے بچوں کو خاموش کرانے کے لیے انھیں جہنم کا خوف دکھاتا ہے۔ بچے انھیں اپنے گھر کے حالات بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس جہنم کی بات آپ کر رہے ہیں وہ تو ہمارے گھر میں ہی ہے۔ تبھی کہیں بم کا دھماکہ ہوتا ہے اور چاروں طرف آگ پھیل جاتی ہے۔ مولانا خدا سے پوچھتے ہیں کہ جب تونے ان بچوں کے لیے دنیا میں ہی جہنم بنا دی ہے، تو اب میں انھیں جنت کی تلاش میں کہاں لے جاؤں۔

    ’’السلام علیکم مولوی صاحب۔۔۔‘‘

    سب بچے مولوی صاحب کو دیکھ کر خو ش ہوگئے۔

    ’’مولوی صاحب آج میں نے اللہ میاں کو خط لکھا ہے کہ وہ ہمارے ابا کو بہت سے روپےبھیج دیں‘‘، منی نے خوش ہوکر مولوی صاحب کو کہا۔

    ’’اللہ میاں کو خط نہیں لکھتے ہیں بیٹی‘‘، مولوی صاحب نے منی کو سمجھایا۔

    ’’کیوں۔۔۔؟ کیا اللہ میاں کو بھی اردو پڑھنا نہیں آتی ہے؟‘‘ منی نے تعجب سے پوچھا۔۔۔

    سڑکوں پر بھیک مانگنے والے۔ مزدوری کرنے والے جھونپڑیوں میں رہنے والے بے سہارا بچوں کو مولوی صاحب مسجد کی آنگن میں بیٹھا کر مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔

    اللہ میاں سے دعا مانگو اللہ میاں تمہاری دعا سن لیں گے۔

    ’’بابا۔۔۔ اندھا۔۔۔ ہوں۔ ایک روپیہ دے دو۔ اللہ آپ کو ہزار روپے دے گا‘‘، مسجد کے دروازے پر کھڑا ایک بوڑھا فقیر چلا رہا تھا۔

    ’’مولوی صاحب۔۔۔ کیا اللہ میاں اس بھکاری کی دعا سن لیتے ہیں‘‘، ایک بچے نے مولوی صاحب سے پوچھا۔

    ’’تو وہ بھکاری اپنے لیے اللہ میاں سے ہزار روپے کیوں نہیں مانگتا؟ بچوں کے ان سوالوں سے مولوی صاحب گھبراگئے۔ انہوں نے، سب کو ڈانٹنا شروع کردیا۔

    ’’بکواس بند کرو۔۔۔ کل میں نے تم سے کیا کہا تھا۔۔۔؟‘‘

    ’’نماز پڑھا کرو۔۔۔ جھوٹ مت بولو۔۔ چوری مت کرو۔‘‘

    ’’وہ مولوی صاحب۔۔۔ منی جھوٹ بولتی ہے۔۔۔‘‘ ایک لڑکے نےمنی کو سامنے دھکیل دیا۔

    ’’اور اس نے کل دوکان پرمٹھائی چراکے کھائی تھی۔‘‘

    ’’تو اللہ میاں مجھے اس وقت دیکھ رہے تھے۔۔۔؟‘‘ منی نے گھبراکر کہا۔

    ’’ہاں۔ اللہ میاں ہر ایک کو دیکھتے ہیں۔ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے‘‘، مولوی صاحب نے منی کو سمجھایا۔

    ’’اچھا۔۔۔؟‘‘ منی کے پاس بیٹھے ہوئے شاکر نے تعجب سے مولوی صاحب کو دیکھا۔

    ’’اللہ میاں اتنے بہت سے کام کیسے کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’اسکول سے آنے کے بعد تو مجھ سے ہوم ورک بھی نہیں ہوتا۔ ٹیچر سے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے بخار آگیا تھا‘‘، شاکر پاس بیٹھے دوستوں سے کہنے لگا۔

    سب بچے ہنسنے لگے۔ مگر مولوی صاحب نے سب کو ڈانٹ دیا۔

    ’’خاموش ۔۔۔ بدتمیز۔۔۔‘‘

    ’’اگر تم جھوٹ بولوگے۔ چوری کروگے تو اللہ میاں تمہیں دوزخ میں ڈال دیں گے‘‘، مولوی صاحب نے ڈراونی صورت بناکر بچوں کی طرف دیکھا۔

    سب بچے بھی ڈر گئے۔ منی اور شاکر بھی گھبرا کے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

    ’’دوزخ میں کیا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ ایک اور بچی نے منھ کھول کر پوچھا۔

    ’’دوزخ بہت بری جگہ ہے‘‘، مولوی صاحب نے ڈراونی صورت بناکر۔۔۔ اس طرح کہنا شروع کیا کہ بچے ڈر جائیں۔

    ’’جو لوگ برے کام کرتے ہیں۔چوری کرتے ہیں، چھوٹ بولتے ہیں، اللہ میاں انہیں دوزح میں ڈال دیتے ہیں۔‘‘

    دوزخ کہاں ہے مولوی صاحب۔ ایک بچے نے گھبراکے پوچھا۔

    ’’دوزخ اوپر آسمان پر ہے۔وہاں اندھیرا ہوگا۔ بھوک لگے گی مگر کھانا نہیں ملے گا۔ پینے کو پانی نہیں ہوگا۔ سانپ بچھو کاٹنے کو آئیں گے۔۔۔ بچھانے کو بستر ملے گا نہ اوڑھنے کو چادر ملے گی۔‘‘

    مولوی صاحب ڈراونی شکل بناکر بچوں کو دوزخ کا حال سناکر ڈرا رہے تھے۔ سب بچے ڈر کے بارے میں ایک دوسرے کے قریب آکر مولوی صاحب کی باتیں سن رہے تھے۔ پھر بچے اوپر آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’میں تو دوزخ میں کبھی نہیں جاؤں گا‘‘، ایک چھوٹی سی لڑکی منی کے پیچھے چھپ گئی۔ مگر منی نے اس کا ہاتھ تھام کر سمجھایا، ’’ارے رضیہ؟ تو کیوں ڈر رہی ہے؟ مولوی صاحب کو نہیں معلوم ہے۔ دوزخ آسمان پر نہیں ہے۔‘‘ منی نے رضیہ کو تھام لیا۔

    ’’اچھا۔۔۔؟ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔؟‘‘ مولوی صاحب کو غصہ آگیا۔

    ’’تو پھر دوزخ کہاں ہے۔۔۔؟ تجھے معلوم ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں مجھے معلوم ہے۔۔۔؟‘‘ منی نےمولوی صاحب کی اٹھی ہوئی چھڑی سے بچتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ میرے ساتھ چلو۔۔۔ میں آپ کو دوزخ میں لے جاؤں گی۔۔۔‘‘

    ’’کیا بک رہی ہے تو۔۔۔؟‘‘ مولوی صاحب کو غصہ آگیا۔ تو انہوں نے باقاعدہ چھڑی اٹھالی۔

    ’’اتنی سی چھوکری۔۔۔ میرا مذاق اڑا رہی ہے۔۔۔؟ تو مجھے دوزخ میں لے جائے گی۔۔۔؟‘‘

    مولوی صاحب کے ہاتھ میں ڈنڈا دیکھ کر منی ڈر کے مارے اپنی سہیلی کے پیچھے چھپ گئی اور پھر دونوں ہاتھ کانوں پررکھ کر روتے ہوئے بولی، ’’میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں مولوی صاحب۔ جنگم بستی میں ہماری جھونپڑی دوزخ میں ہے۔ رات کو جب ہمارا بابا سیندھی پی کر آتا ہے، اماں کو مارتا ہے تو اماں روتے روتے بولتی ہے، یہ گھر تو دوزخ ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ تو تیری اماں بولتی ہے کہ تیرا گھر دوزخ میں ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہو مولوی صاحب۔ ہمارا گھر بھی دوزخ میں ہے۔۔۔ آپ بولیے نا دوزخ میں اندھیرا ہوگا۔ کھانا پانی نہیں ملے گا۔۔۔؟ ہمارے گھر میں بھی لائٹ نہیں ہے۔ چراغ میں تیل نہیں ہوتا تو اندھیرا ہوجاتا ہے۔‘‘

    ’’اور ہمارے گھر میں پانی بھی دور سے لانا پڑتا ہے۔ رات کو پانی ختم ہوجاتا ہے‘‘، ایک اور بچے نے کہا۔

    ’’رات کو بھی ہمارے ابا چاول نہیں لاتے تھے تو اماں خالی ہانڈی میں پتھر ڈال رک جھوٹ بولتی ہے کہ کھانا پک رہا ہے‘‘، ایک بچہ رونے لگا۔

    بچوں کی باتیں مولوی صاحب غور سے سننے لگے۔

    ’’اسی لیےہماری دادی گاؤں سےنہیں آتی۔ بولتی ہے تمہارے گھر میں اوڑھنے کو آسمان بچھانے کو زمین ہے‘‘، سب بچے ہنسنےلگے۔

    ’’اور بارش ہوتی تو ہماری جھونپڑی میں پانی آجاتا ہے۔‘‘

    ’’رات سانپ بھی نکلا تھا۔‘‘

    بچوں کی باتیں سن کر مولوی صاحب کا سر جھک گیا۔

    اب کون سا عذاب ہے جس سے ان بچوں کو ڈراؤں میں۔۔۔؟

    اچانک مسجد کے باہر شور ہونے لگا۔۔۔ لوگوں کے رونے چلانے کی آوازیں۔۔۔

    فائرنگ کا شور۔۔۔ چاروں طرف لوگ بھاگ رہے تھے۔بے ہنگم ٹرینک نے راستے بند کردیے تھے۔

    کسی شاندار ہوٹل میں بم پھٹا تھا۔

    اس کے پیچھے مزدوروں کی بستی میں آگ لگی تھی۔

    ہر طرف آگ کے شعلے نظر آرہےتھے۔

    بچے ڈر کے مارے رونےلگے۔ مولوی صاحب بھی ان بچوں سے پیچھا چھڑا کے کہیں بھاگ جانا چاہتے تھے۔مگر پولس نے سارے راستے بند کردیے تھے۔

    سب بچے ڈر کے مارے مولوی صاحب سے لپٹ گئے تھے۔

    ’’مولوی صاحب ہمیں ڈر لگ رہاہے۔‘‘

    ’’اب ہم گھر کیسے جائیں گے۔‘‘

    ’’مولوی صاحب۔۔۔ کیا آج دوزخ سڑکوں پر آگئی ہے۔۔۔‘‘

    ’’مولوی صاحب۔ آپ ہمیں پھر دوزخ کی طرف کیوں لے جارہے ہیں جنت کی طرف چلیے نا۔۔۔‘‘

    بچوں کے سوالوں سے گھبراکے مولوی صاحب ان بچوں کو اپنے ہاتھوں میں چھپاتے ایک کونےمیں کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے۔

    یا اللہ تو نے ان بچوں کے لیے دوزخ تو زمین پر اتار دی ہے۔

    جنت میں لے جانے کا وعدہ حشر کے دن پر کیوں ٹال دیا ہے۔۔۔؟

    مجھے وہ راستہ بتادے کہ میں ان بچوں کو جنت میں لے جاؤں۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے